سید زید رفیق بخاری عطّاری (
درجہ خامسہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللہ رب العزت نے جب انسان کو عالَمِ ارواح سے عالَمِ دنیا
میں لانے کا ارادہ فرمایا تو اپنی نوری مخلوق (فرشتوں) کے سامنے خطاب فرمایا: میں
زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ اس پر ان فرمانبرداروں نے عرض کی "کیا
ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے" تو خالقِ
کائنات جو کہ عالِم الغیب و الشھادہ ہے اس نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے جو تم
نہیں جانتے۔" کیونکہ خلیفہ بنانے میں خالقِ کائنات کی بہت سی حکمتیں ہیں
انہیں میں سے انبیا و رسل ہوں گے انہیں میں سے علما ہوں گے صلحا ہوں گے اور نیک
نمازی پرہیزگار عبادت گزار مؤمنین ہوں گے کہ جب وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد کے
سجدیں کرینگے تو ربُّ العالمین جل و علا فرشتوں کے سامنے فخر فرمائے گا۔
قراٰنِ مجید فرقانِ
حمید میں اللہ کے نیک متقی مؤمنین کی پروردگار عالم نے بہت سی صفات بیان فرمائی
ہیں ہم ان میں سے کچھ رقم کرتے ہیں۔
حقیقی
کامیابی: انسان کامیابی کے لئے دن رات جدوجہد کرتا ہے محنت مزدوری
کرتا ہے مشقت اٹھاتا ہے مگر حقیقی کامیابی کیا ہے؟ اور کون کامیاب ہیں؟ اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس سے پتہ چلا کہ کافر بظاہر دنیاوی زندگی میں کامیاب نظر بھی
آئیں، لیکن حقیقتاً کامیاب مؤمن ہے، کیونکہ اس کے پاس ایمان جیسی انمول دولت ہے۔
مؤمن نمازوں کی
حفاظت کرنے والا، زکوٰۃ ادا کرنے والا، امانت دار، عہد پورا کرنے والا، فضولیات سے
بچنے والا، شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿ الَّذِیْنَ
هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون:2تا5)
﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے
کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 8، 9)
عظیم الشّان عبادت: ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا اور
آخری وصف نمازوں کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم
الشان عبادت ہے اور دین میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے
کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا
کرے۔ (تفسیر صراط الجنان سورۃالمؤمنون ،تحت الآیۃ9)
جنتُ
الفردوس کے وارث: جنتوں میں سب سے اعلی جنت "جنت الفردوس" ہے اور
اس کے وارث مؤمنین ہیں۔ چنانچہ اللہ کریم نے مؤمنین کی دس حسین صفات بیان کرنے
کے بعد فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں
ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون: 11)
نیکی کا حکم دینے والے برائی سے روکنے والے نیکیوں میں جلدی
کرنے والے: ربُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ
وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ
وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۴)﴾ترجمۂ کنزالایمان: اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں
اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں اور
یہ لوگ لائق ہیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:114)
معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندے نیکی کا حکم دیتے اور برائی
سے منع کرتے ہیں اور نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہوتے ہیں، بلکہ یہ تو اتنا خوبصورت
پیارا اور عمدہ کام ہے کہ اللہ کریم نے جب اس امت کی افضلیت کی وجہ کو بیان فرمایا
تو ارشاد فرمایا: ﴿كُنْتُمْ
خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ
الْمُنْكَرِ ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو
لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع
کرتے ہو۔(پ4، ،آلِ عمرٰن : 110﴾
مؤمن اور کامل مؤمن میں فرق: یاد رہے! اللہ پاک نے جس طرح
عام مؤمنین کی صفات کو بیان فرمایا ہے اسی طرح کامل مؤمنین کی صفات کو بھی بیان
فرمایا ہے اور یہ دونوں ایک نہیں، کیونکہ ہر کامل مؤمن، مؤمن ہے لیکن ہر مؤمن
کامل ہو! یہ ضروری نہیں۔
کامل مؤمن ترجیح
اللہ و رسول اور دین کو دیتا ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجِدُ
قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ
اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ
اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ
الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ
مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ۠(۲۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو
اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے
اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے
بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش
فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل
فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا
اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب
ہے۔ (پ28، المجادلۃ:22)
اعلی حضرت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت،
الشاہ الحافظ الحاج امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے: جس
کے دل میں اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلق تمام تعلقات پر غالب
ہو اللہ و رسول کے مُحِبُّوں سے محبت رکھے اگرچہ اپنے دشمن ہوں اور اللہ و رسول کے
دشمنوں سے دشمنی رکھے اگرچہ اپنے جگر پارے ہوں جو کچھ دے اللہ کے لیے دے جو کچھ
روکے اللہ کے لیے روکے تو اس کا ایمان کامل ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم فرماتے ہیں:جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے عداوت رکھی اور اللہ
کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روکا تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا۔(فتاویٰ
رضویہ،29/254)
پیارے اسلامی بھائیو! کافروں سے محبت کرنا، ان سے دوستی
کرنا، انہیں اپنا دوست و خیر خواہ سمجھنا مسلمان کی ہلاکت و شامت ہے قراٰنِ مجید
میں جگہ جگہ کافروں سے دوستی کرنے کی مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿لَا یَتَّخِذِ
الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ
یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ
بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔(پ3، آل عمرٰن:28)
﴿یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ
تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ
الْحَقِّۚ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں
کو دوست نہ بناؤ ،تم انہیں دوستی کی وجہ سے خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ یقیناً وہ اس
حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا۔ (پ8،الممتحنہ:1)
﴿یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ
بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ
مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱) ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست
نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی
رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔
(پ6،المائدۃ:51)
اور یاد رہے کہ سورہ کافرون میں جن کافروں کو مخاطب کیا
گیا: ﴿قُلْ یٰۤاَیُّهَا
الْكٰفِرُوْنَۙ(۱) لَاۤ اَعْبُدُ
مَا تَعْبُدُوْنَۙ(۲)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: تم فرماؤ! اے کافرو!۔میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو
۔(پ30،الکافرون:2،1)اس سے مراد تمام کافر ہیں چاہے وہ ہندوستان کا کافر ہو یا یورپ
کا یا پاکستان کا، کیونکہ " المسلم ملۃ واحدۃ و الکفر ملۃ واحدۃ" مسلمان جس زمین پر بھی رہے وہ ایک ملت ہے، اور کافر
جس دھرتی پر رہے ایک ملت ہے۔
صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا انداز کیسا تھا؟؟ خالقِ
کائنات نے بیان فرمایا: ﴿مُحَمَّدٌ
رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ
بَیْنَهُمْ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے
ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں۔(پ26،الفتح:29 )
پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں سے دوستی تو در
کنار ان پر سخت تھے، اور صحابہ کرام تو ایمان کا مدار ہیں۔
اللہ پاک ہمیں
مؤمنین کی تمام صفات کو اپنانے بالخصوص اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے، زکوٰۃ ادا
کرنے امانت دار، وعدے کو پورا کرنے، مسلمانوں سے دوستی کرنے، کفار کی دوستی و محبت
جیسی شنیع برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم