عبدالمنیر عطاری(درجہ خامسہ
جامعۃُ المدینہ فیضان قنبیط علیہ السّلام بڑیلہ شریف گجرات، پاکستان)
تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا خالق
ہے جس نے تمام جہانوں کو پیدا فرمایا پھر اس نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنے
خاص بندوں یعنی انبیا اور مرسلین کو مبعوث فرمایا جنہوں نے لوگوں کو اللہ پاک پر
ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو جن بدبخت لوگوں نے انبیائے کرام
علیہم السّلام کی دعوت کو جھٹلایا وہ کافر ہوئے اور ان کی اللہ پاک نے قراٰنِ مجید
میں مذمت بیان کی اور جن خوش نصیب لوگوں نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعوتِ
حق کو قبول کیا اور اللہ پاک اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آئے وہ مؤمن کہلائے
اور ان کے اوصاف کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بیان کیا۔ اللہ پاک نے سورۃُ
المؤمنون میں مؤمنین کے جو اوصاف ذکر کیے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
(1) ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے
والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) یہاں پر ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان فرمایا گیا
ہے کہ وہ اپنی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔
نماز میں ظاہری و باطنی خشوع: نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا
ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً
نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی
طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ
لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ
چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش
ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(صاوی، المؤمنون)
(2) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) یہاں پر ایمان والوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ ایمان
والے فضول باتوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔
لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو
دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری، بیہودہ گفتگو، کھیل کود،
فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام
جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری
کے لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے
بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون)
(3) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف
بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ
دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ
نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے
پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( مدارک )
(5،4) ﴿وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت
سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س
آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے
اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر
وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر
کوئی ملامت نہیں۔(صراط الجنان)
اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مؤمنین کی صفات ذکر فرمانے کے
بعد ان کے لیے انعامات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ
رہیں گے۔(
پ18، المؤمنون:11،10)خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور
اَوصاف پائے جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔ یہ فردوس کی
میراث پائیں گے اور وہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ انہیں اس میں سے نکالا
جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔(صراط الجنان)
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں۔ بھی
اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی ایمان
پر استقامت عطا فرمائے اور دنیا سے ایمان سلامت لے کر جانا نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم