انسان و مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے ربِّ کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق ومالک ہے۔ قراٰنِ پاک اور احادیثِ کریمہ میں کئی مقامات پر اللہ کریم پر ایمان رکھنے والے مؤمن کے اَوْصاف کا بیان ہے۔ آئیے! قراٰن پاک کی جن آیات میں اہلِ ایمان کو بحیثیتِ مؤمن جو احکام دئیے گئے اور جن آیات میں مؤمنین کے اوصاف بیان کئے گئے ان کا مطالعہ کرتے ہیں۔

مؤمن کے سامنے اللہ کریم کا نام لیا جائے تو ربِّ عظیم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے اور جب اس کے سامنے قراٰنِ کریم کی آیات پڑھی جائیں تو اس کا اپنے ربّ پر بھروسہ اور ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

مؤمن اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت توبہ و استغفار کرنے والا اور ہر نعمت و امتحان پر اللہ کریم کی حمد کرنے والا ہوتا ہے۔ فرمانِ خُداوندی ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ترجَمۂ کنزُالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

مؤمن اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی کرتے ہوئے جب کسی جائز کام کا ارادہ و عزم کرتا ہے تو اللہ کریم پر بھروسا کرتا اور اس پر مستقیم رہتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿فَاِذَا  عَزَمْتَ  فَتَوَكَّلْ  عَلَى  اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔(پ4، آلِ عمرٰن:159)

مؤمن کو جب اللہ کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم سنایا جاتا ہے اور اللہ و رسول کے فیصلے و حکم کی طرف بُلایا جاتا ہے تو وہ فوراً مانتا اور سرِتسلیم خَم کرتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (پ 18،النور: 51)

٭مؤمن دو جہاں کے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں آواز بلند نہ کرنے والا اور نہایت ادب و تعظیم سے کام لینے والا اور اپنے اعمال و ایمان کے اَکارَت جانے سے خوف رکھنے والا ہوتا ہے۔ اللہ کریم کا فرمان ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلّاکر نہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلّاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اَکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ (پ26،الحجرات:2)

مؤمن ہمیشہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور اُن سے نسبت رکھنے والی چیزوں کی تعظیم و توقیر کرتا ہے، بلکہ جس لفظ سے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم کے خلاف ذرا سا شُبہ بھی ہوتا ہو اس سے بھی محتاط رہتا ہے۔ قراٰنِ پاک میں ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔ (پ1،البقرۃ : 104)

نماز تو مؤمن کیلئے معراج ہے، قراٰنِ کریم میں کثیر مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا ہے، مؤمن وقت پر پابندی اور خشوع و خضوع(عاجزی )سے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ ارشادِ ربِّ کریم ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

ایک اور مقام پر ارشاد ہوا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

حقیقی مؤمن اللہ کریم کے حکم پر سجدہ ریز ہونے والا، اللہ پاک کی پاکی و تسبیح بیان کرنے والا ہوتا ہے، جس طرح شیطان میں تکبّر آیا تو اللہ کے حکم سے سجدہ کرنے سے انکار کردیا۔ مؤمن ایسا نہیں کرتا بلکہ جب سجدہ کا حکم ہوتا ہے تو تکبر سے دور رہتا اور بارگاہِ الٰہی میں سجدہ ریز ہوتا ہے﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا یَسْتَكْبِرُوْنَ۩(۱۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ہماری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں کہ جب وہ اُنہیں یاد دلائی جاتی ہیں سجدہ میں گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بولتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔(پ21، السجدۃ:15)(یہ آیت آیات سجدہ میں سے ہے، اسے پڑھنے اور سننے والے پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے۔)

مؤمن فرض روزوں کی پابندی کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔(پ2،البقرۃ:183)

مؤمن فرض ہونے کی صورت میں زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے۔﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

مؤمن کی صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کریم کے دئیے ہوئے مال و رزق سے اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)

مؤمن جیسے ہی استطاعت پاتا ہے اور اس پر حج فرض ہوتا ہے تو اللہ کے گھر کا حج کرنے کا اہتمام کرتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: ا ور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے ۔(پ4،اٰل عمرٰن:97)

مؤمن کے اعلیٰ اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسرے مؤمن کی بھی فکر کرتا ہے اسی لئے وہ ان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لئے انہیں نیکی کی دعوت دیتا اور بُرائی سے منع کرتا ہے۔ اللہ کریم کا فرمان ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں۔ (پ 10،التوبۃ: 71)

پرسنل لائف کو خوبصورت اور اپنے مولائے کریم ربُّ العزّت کی پسندیدہ بنانے کے لئے بھی ایمانِ کامل کی بہت اہمیت ہے۔ مؤمنِ کامل کے اوصاف کو عمَلی جامہ پہنانا حُسنِ معاشرت کا بہترین ذریعہ ہے۔