محمد مزمل عطاری(درجہ سابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضان مہر علی ،اسلام آباد، پاکستان)
(1) خٰشِعُوْنَ : (خشوع و خضوع کرنے والے۔)یہاں سے ایمان والوں کے چند
اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ
پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت
الآیۃ: 2، ص751)
(2) عَنِ اللَّغْوِ : (فضول بات سے۔)فلاح پانے والے مؤمنوں کا دوسرا وصف بیان
کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ:3 ،
3/ 320)علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل
اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو
جیسے مذاق مَسخری، بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات
پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف
رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی
کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: 3 ، )
(3) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5) اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ
ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا
خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے
اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگروہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے
ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔( خازن،
المؤمنون، تحت الآیۃ: 5-6، 3/ 320-321، ملخصًا)۔
(4) فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ: (تو جو اِن دو کے سوا کچھ اور چاہے۔) یعنی جو بیویوں اور شرعی باندیوں کے
علاوہ کسی اور ذریعے سے شہوت پوری کرنا چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں کہ حلال
سے حرام کی طرف تَجاوُز کرتے ہیں ۔( روح ا لبیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 7 ، 6/
68، ملخصاً)۔
(5)﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف
بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت
نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔
(6) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى
صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے
ہیں۔ (پ18،
المؤمنون: 9)یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی
حفاظت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی
سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔(
خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ۳ / ۳۲۱، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: ۹، ص۷۵۲، ملتقطاً۔ ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ
نماز ادا کرنا بیان کیا گیا اور آخری وصف نمازوں کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس
سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم الشان عبادت ہے اور دین میں اس کی بہت زیادہ اہمیت
ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام
حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے،تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’پانچ نمازیں اللہ
پاک نے بندوں پر فرض کیں ، جس نے اچھی طرح وضو کیا اور وقت میں سب نمازیں پڑھیں اور
رکوع و خشوع کو پورا کیا تو اس کے لئے اللہ پاک نے اپنے ذمۂ کرم پر عہد کر لیا ہے
کہ اسے بخش دے، اور جس نے نہ کیا اس کے لیے عہد نہیں ، چاہے بخش دے، چاہے عذاب
کرے۔( ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب المحافظۃ علی وقت الصلوات، 1 / 186، حدیث: 425)