جس طرح اولیا، انبیا اور خاص طور پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفات کو بیان ‏فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے مؤمنوں کی صفات کو بھی بیان فرمایا ہے، اور پھر ان لوگوں کو جنتُ الفردوس کا وارث قرار دیا ‏گیا۔ اور جن لوگوں میں یہ صفات پائی جائے گی وہ لوگ جنتُ الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد‏ فرمایا: مجھ پر دس آیات نازل ہوئی ہیں۔ جس نے ان میں مذکورہ باتوں کو اپنا یا وہ جنت میں داخل ہوگا۔

(1)خشوع و خضوع کرنے والے: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2) فضول بات سے منہ پھیرنے والے :‏اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)

(3)زکوة دینے والے :‏اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(4)شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:‏اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:‏ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(5)امانتوں اور وعدے کی رعایت کرنے والے : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 8)

(6)نمازوں کی حفاظت کرنے والے:‏اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:‏ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔( پ18، المؤمنون: 9)

(7)خرچ کرنے میں اعتدال فرمانے والے:‏اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:‏ ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)

(8)و دوسرے معبود کو نہیں پوجتے:‏اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:‏ ﴿وَ الَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے۔ ‏(پ: 19،الفرقان : 68‏)

(9) رات عبادت میں گزارنا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے ہیں ۔ (پ 19 ،الفرقان :64)

(10) ناحق قتل نہ کرنا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ‏ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے ۔ (پ 19 ، الفرقان : 68‏)


الله پاک نے عالم کو پیدا فرمایا اور اس میں ہر طرح کی مخلوق کو پیدا فرمایا اور انسان کو پیدا فرمایا اور ان میں بعض کو ایمان کی دولت سے نوازا اور بعض کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا۔ ان میں بعض کو اچھے اخلاق اور اچھے اوصاف اور اعلی صفات عطا فرمائی اور ان کو تمام انسانوں میں ممتاز فرمایا اور ان کی صفات کو قراٰنِ پاک میں یوں ذکر فرمایا ۔

مؤمنین کی صفات ملاحظہ فرمائیں:

(1) اللہ قراٰنِ پاک میں ارشا د ہے : ﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ (پ18،المؤمنون: 1) اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہرنا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔

(2) ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)

(3) ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(4) اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5) الله پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(6) الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(7) الله پاک فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(8) الله پاک فرماتا ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:63)

(9) اللہ پاک قراٰن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)

(10)اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔(پ19،الفرقان:64)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان صفات پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرمائیں، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اُس نے ہمیں مسلمان گھرانے میں پیدا فرما کر ایمان جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا۔ آئیے پہلے ہم یہ جان لیتے ہیں کہ مؤمن کسے کہتے ہیں؟ اصطلاح شریعت میں جو شخص سچے دل سے ان سب باتوں کی تصدیق کرلے اسے مؤمن کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ آخرت کی کامیابی کا مدار صرف مؤمن ہونے پر نہیں بلکہ در حقیقت کامیاب وہی مؤمن ہوگا جو اُن اوصاف کو اپنائے گا جن کے اپنانے کا اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم دیا ہے۔ لہذا ایک مردِ مؤمن میں جو صفات ہونی چاہیے اُن میں سے چند صفات یہاں ذکر کی جا رہی ہیں۔

(1) مؤمنوں کی نماز : الله پاک مؤمنوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2) لغو باتوں سے اعراض کرنا : دوسرا وصف مؤمنوں کا یہ بھی قراٰن میں مذکور ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(3) عصمت کی حفاظت : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5) اس آیت میں کامیابی حاصل کرنے والے اہل ایمان کا ایک اور وصف بیان کیا جا رہا ہے چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔( صراط الجنان )

(4) امانتوں اور وعدوں کی رعایت : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں اللہ پاک نے فلاح پانے والے مؤمنین کے مزید دو اوصاف بیان فرمائے کہ اگر ان کے پاس کونسی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وہ وعدہ کرتے ہیں اُسے پورا کرتے ہیں۔( صراط الجنان )

(5) نمازوں کی حفاظت : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے والے مؤمن وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور انہیں ان کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی کرتے ہیں۔ (خازن، المؤمنون ، آیت 9)

اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں کامل مؤمن بنائے اور جن اوصاف کو اپنانے کا اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں حکم دیا اور ترغیب فرمائی۔ اُن کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی ہمارا مقدر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ایمان کی کاملیت اور دنیا و آخرت میں فلاح کی ضمانت محض مسلمان ہونا ہی نہیں بلکہ اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کرنا ہے جو اللہ کے نیک اور پسندیدہ بندوں میں ہوتی ہیں ۔

اللہ پاک نے دنیا میں دو طرح کے انسان پیدا فرمائے ہیں مؤمن اور کافر۔ اور مؤمنوں میں بھی کامل مؤمن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور جو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور یہی لوگ مراد کو پہنچنے والے ہیں۔

مؤمن ہی مراد کو پہنچتے ہیں : الله پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ (پ18،المؤمنون: 1) اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہرنا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔

مؤمن مسلمان ہی اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں:﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) {خٰشِعُوْنَ: خشوع و خضوع کرنے والے۔} ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ، ص751) حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے بیٹے!نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔

لہٰذا ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہئے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے اور اللہ پاک کی عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔

مؤمن مرد ہی بیہودہ بات سے بچتے ہیں ۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3) فلاح پانے والے مؤمنوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ہر لہو و باطل سے بچتے رہتے ہیں۔

لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔

زبان کی حفاظت کرنے سے انسان دنیا کی آفات سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ حضرت سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :زبان سے ایسی بات نہ نکالوجسے سن کر لوگ تمہارے دانت توڑ دیں ۔ اور ایک بزرگ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اپنی زبان کو بے لگام نہ چھوڑو تاکہ یہ تمہیں کسی فساد میں مبتلانہ کر دے۔

مردِ مؤمن اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔

شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی فضیلت: حدیث پاک میں زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں ہے یعنی شرمگاہ کا، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔

مؤمن اپنی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہل ایمان کے دو صف بیان کئے گئے کے ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔

6 چیزوں کی ضمانت دینے پر جنت کی ضمانت : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: (1) بات کرو تو سچ بات کرو (2) وعدہ کرو تو پورا کرو (3) تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو 5(5)اپنی نگاہوں کو پست کرو (6) اپنے ہاتھوں کو روکو۔


الحمد لله ربُّ العالمین الله پاک کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے مسلمان پیدا کیا اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا امتی بنایا۔ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسانوں کو بڑا عروج سے نوازا اور لوگوں کو ایمان کی دعوت دی۔ اور لوگ ایمان لائے اور مئومن ہو گیا اور مئومن وہ جو اللہ پاک کے وعدے کی پاس داری کرتا ہے اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت و طریقت پر عمل کرتا ہے اور سنتوں پر عمل کرتا ہے۔ اور بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں۔ اور صبر کرتے ہیں۔ مؤمن کی صفات قراٰنِ پاک کی روشنی میں ملاحظہ ہو:

اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) اور جگہ ارشاد فرماتا ہے : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ(۵۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو اپنے رب کے ڈر سے خوفزدہ ہیں ۔ (پ18،ا لمؤمنون:57)ایک اور جگہ ارشاد فر ما یا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَۙ(۵۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

مئومن وہ جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے اور نبیوں کی اطاعت کرتا ہے اور اولیا سے عقیدت و محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجا لاتا ہے اور اس کے نبیوں کا حکم مانتا ہے اور بات کرنے میں ادب و لحاظ کرتا ہے اور اپنے فرض کی حفاظت کرتا ہے اور وعدوں کی پاسداری کرتا ہے اور بھی مؤمن کی صفات ہے اور میں اپنے مقالہ کا اختتام اس بات سے کرتا ہوں کہ مئومن وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے ۔


اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا تا کہ وہ اللہ پاک کے احکامات کی پیروی کرے تو اس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام سے ہوئی اور حضرت آدم علیہ السّلام سے انسانی نسل شروع ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السّلام تو اللہ پاک کے سچے نبی ہیں اور رب کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ لیکن ان کی اولاد میں دو گروہ بن گئے ۔ کچھ رب کے احکامات کو ماننے والے اور کچھ رب کی وحدانیت اور احکامات سے منہ پھیرنے اور انکار کرنے والے تو جو لوگ احکام بجا لائے ان کو مؤمن اور جو انکار کر بیٹھے انہیں کافر کہتے ہیں۔ یہاں پر کچھ ایسی صفات جو کہ مؤمنوں کو کافروں سے ممتاز کر دیتی ہیں وہ بیان کئے جائیں گے۔

مؤمن اپنی نماز میں خشوع و خضوع رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اس آیت کے تحت معنی قاسم صاحب دامت برکاتھم العالیہ تفسیر صراط الجنان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہو۔

نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھانے،اِدھر اُدھر دیکھنے اور یہاں وہاں توجہ کرنے سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہوں ،

حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اپنی نماز میں نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں !پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس میں بہت سختی کی اور ارشاد فرمایا’’یہ لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نظریں چھین لی جائیں گی۔

مؤمن اپنے وعدوں اور اپنی امانتوں کی حفاظت کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔

یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔

اور اسی کے متعلق ایک حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہوجاؤ، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں کو روکو۔( مستدرک، کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، 5 / 513، حدیث: 8130)

مؤمن ہی جنت الفردوس کے وارث اور اس میں ہمیشہ رہنے والے ہیں ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10) اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے اوروہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے،نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔

یاد رہے کہ فردوس سب سے اعلیٰ جنت ہے اور اسی کا سوال کرنے کی حدیث پاک میں ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں ،دو درجوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور زمین کے درمیان ہے۔ فردوس سب سے اعلیٰ اور درمیانی جنت ہے اورا س سے اوپر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔جب تم اللہ پاک سے سوال کرو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، 4 / 238، حدیث: 2538) لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگے تو جنت الفردوس کی ہی دعا مانگے، اگر اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے یہ دعا قبول فرما لی تو آخرت میں ملنے والی یہ سب سے عظیم نعمت ہو گی۔

اے اللہ ! ہمیں فردوس کی میراث پانے والوں اور اس کی عظیم الشان نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والوں میں سے بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما،اٰمین۔


اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک نیک اور دوسرا بد نیک۔ مرد وہ ہوتا ہے جو اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے اور اسے مردِ مؤمن بھی کہتے ہیں۔ الله پاک نے ان مردِ مؤمن کی قراٰنِ کریم میں بہت سی صفات بیان کی ہیں جس میں سے چند یہ ہیں:

بغیر دیکھے ایمان لانا : اللہ کریم کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:3) تفسیر: {اَلَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جانا، قیامت کا قائم ہونا، اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2)تفسیر: یہاں سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔

ایک اور جگہ ارشاد ہوا : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تفسیر: فلاح پانے والے مومنوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں ۔

اللہ پاک ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) تفسیر : اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں ۔

میری اللہ سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم میں بھی یہ صفات ڈالے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله نے مخلوق کو پیدا فرمایا پھر ان کی ہدایت و رہنمائی کے لئے انبیا و رسل کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتب بھی نازل فرمائی پھر ان رسولوں، کتابوں اور اللہ پر ایمان لانے یا نہ لانے کا شعور بھی عطا فرمایا۔ تو بعض نے انکار کیا اور کافر ٹھہرے اور بہت سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان قبول کیا مسلمان ہو گئے پھر ان کی خوبیوں کو الله پاک نے قراٰنِ پاک کے اندر یوں ذکر فرمایا :

(1) ایمان والے کامیاب ہوگئے: الله پاک نے ایمان والوں کا وصف بیان فرمایا : ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے ۔

(2) خشوع و خضوع کرنا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں ۔

(3) فضول باتوں سے بچنا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3) فلاح پانے والے مؤمنوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ہر لہو و باطل سے بچتے رہتے ہیں۔ (خازن )

(4) زکوٰۃ دینا:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5)نماز قائم کرنا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مومن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاطت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9 ، 3/ 321، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9، ص752، ملتقطاً)

(6)آخرت پر یقین رکھنا :﴿ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) ﴾، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ) یعنی متقی لوگ قیامت پر اور جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔

(7)جنت کی میراث پانے والے : ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10)

(8) فردوس کے باغات کی مہمانی : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے اعمال کئے ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغات ہیں ۔

(9)جنت میں ہمیشہ رہنا : ﴿ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔(پ16،الکھف:108)

(10) اللہ کا فرقان عطا کرنا:﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ(۲۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو تمہیں حق و باطل میں فرق کر دینے والا نور عطا فرما دے گا اور تمہارے گناہ مٹا دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (پ9، الانفال:29) تفسیر: ایمان والوں کے لیے ایک یہ بھی انعام ہےکہ اسے فُرقان عطا فرمائے گا۔ یعنی اللہ پاک اس کے دل کو ایسا نور اور توفیق عطا کرے گا جس سے وہ حق و باطل کے درمیان فرق کر لیا کرے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 29 ، 2/ 191)

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک یہ ساری خوبیاں ہم میں بھی پیدا فرمائے اور ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے مؤمن لوگوں کی بہت سی صفات و خوبیاں بیاں کی ہیں اور متعدد جگہوں پر ان کا ذکرِ خیر اچھے الفاظ میں فرمایا ہے ۔ اللہ پاک نے جن صفات کے ساتھ مؤمنوں کو متصف فرمایا ہے ۔ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1) نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے والے: اللہ پاک ایسوں کا ذکر کرتے ہوئے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) اور نماز میں گڑگڑانا اور خشوع پیدا کرنا اسی وقت ہوگا جب بندہ ظاہری طور پر ساکن ہوگا کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرد کو نماز میں داڑھی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضور نے فرمایا کہ اگر اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا ۔ (تفسیر در منثور )

(2) حلال طریقوں کے علاوہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے: ایسی قابل قدر شخصیات کا بھی اللہ پاک نے قراٰن میں ذکر فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5) حدیث پاک میں زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں ہے یعنی شرمگاہ کا، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 4/ 240، حدیث: 6474)

(3)زکوۃ ادا کرنے والے : ایمان والوں کی ایک صفت اللہ پاک نے زکوٰۃ دینے والا بھی بیان فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اور زکوة نہ دینے کی وعید بھی احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا خزانہ قیامت کے دن گنجا سانپ ہوگا جس سے اس کا مالک بھاگے گا اور مال اسے ڈھونڈے گا حتی کہ اس کی انگلیوں کو لقمہ کرے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح )

(4)نمازوں کی نگہبانی کرنے والے: نمازیوں کو بھی اللہ پاک مؤمنوں کی صف میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی نجات و کامیابی حاصل کرنے والے مؤمنین وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں۔

الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں یہ تمام صفات اپنے اندر پیدا کرنے اور ان کے ذریعے دین و دنیا کی بھلائی تلاش کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مؤمن اور مؤمن گھرانے میں پیدا کیا ۔ اللہ پاک نے قراٰن کریم میں مؤمن کی صفات کو کئی جگہوں پر ذکر کیا۔ جس میں سے 10 صفات آپ ملاحظہ فرمائے۔

اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ان کے وقتوں میں ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی حفاظت کرتے ہیں۔ (تفسیر خازن)

(1) ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا۔

(2) ایمان والوں کو ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔

(3) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ رہیں ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مؤمن نیکی کے باوجود اللہ سے ڈرتا ہے جبکہ منافق گناہ کے باوجود بے خوف رہتا ہے۔

(4) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تمام کتابوں کو مانتے ہیں۔

(5) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ عرب کے مشرکوں کی طرح اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتے ۔ ( تفسیر خازن)

(6)اللہ نے قراٰن میں مؤمن کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا کہ مؤمن کا میاب ہو گئے ۔

(7)مؤمن کا ایک وصف اور بیان کیا گیا کہ وہ ہر لہو وباطل سے بچے رہتے ہیں (تفسیر خازن)

(8)مؤمنوں کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰة دیتے ہیں۔

(9) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔

(10) مؤمنین کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔

حقیقی مؤمن وہ شخص ہے جس میں یہ اوصاف پائے جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان اوصاف پر عمل کرنے اور حقیقی مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


الله پاک نے جب عالم کو پیدا کیا تو اس میں ہر قسم کی مخلوق کو تخلیق فرمایا اور انسان کی بھی تخلیق فرمائی ان میں سے بعض کو ایمان کی دولت سے نوازا اور بعض کو دولتِ ایمان سے محروم رکھا اور بعض کر اچھا اخلاق اور اعلیٰ صفات عطا فرمائی اور ان کو تمام انسانوں میں ممتاز کیا اور قراٰنِ پاک میں ان کی صفات کو یوں بیان فرمایا۔

(1) خشوع و خضوع اپنانا: بندۂ مؤمن کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ نماز میں خشوع و خضوع اپناتا ہے۔ فرمائے باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2) لغو گفتگو سے اجتناب کرتا: مردِ مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ فضول باتوں سے بچتا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)

(3) زکوٰۃ ادا کرنے والے: مردِ مؤمن کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔ فرمان باری تعالٰی ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(4) شرمگاہ کی حفاظت: مردِ مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(5) امانت و عہد پورا کرنے والے: مردِ مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ امانت اور وعدے پورے کرتے ہیں۔ الله پاک کا فرمانِ عالیشان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(6) نماز کی حفاظت کرنے والے:مردِ مؤمن کی صفات میں سے ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(7) خوف خدا والے: مردِ مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب سے ڈرتا ہے ۔اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ(۵۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو اپنے رب کے ڈر سے خوفزدہ ہیں ۔ (پ18،المؤمنون:57)

(8) عاجزی اختیار کرنے والے: مردِ مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہیں کہ الله پاک کے لیے عاجزی اختیار کرتے ہیں۔ الله پاک فرماتا ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:63)

(9) ناحق قتل نہ کرنے والے: مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہیں کہ وہ کسی کا بھی ناحق قتل نہیں کرتے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام فرمایا ہے ۔ (پ19،الفرقان :68)

(10) میانہ روی اپنانے والے: مردِ مؤمن کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ نہ ہی اسراف کرتے ہیں اور نہ ہی بخل کرتے ہیں۔ الله پاک فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)

الله پاک ان تمام صفات کو اپنانے اور دوسرے مسلمانوں تک پہچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے کائنات کو پیدا فرمایا، پھر اس کائنات کے اندر کثیر مخلوقات کو پیدا فرمایا، خاص طور پر اپنی عبادت و بندگی کے لیے حضرت انسان کی تخلیق فرمائی، حقیقت میں انسان وہی ہے جو مؤمن ہے، اور مؤمن وہ ہے جو صفاتِ قراٰنی کا جامع ہو ۔ لہٰذا مؤمن کی صفاتِ قراٰنی کو ہم ملاحظہ کرتے ہیں:

مؤمن کی صفات کو قراٰن کے اندر کئی مقامات پر ارشاد فرمایا گیا، چنانچہ سورۃُ الانفال میں ارشاد باری ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

اسی طرح مؤمن کی صفات کو سورۃ مؤمنون کی ابتدائی آیات کے اندر بھی بیان فرمایا گیا، چنانچہ رب ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے:

﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے ۔جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون:1تا5)

چند آیات کے بعد پھر ارشاد فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 8، 9)

ان صفات کو اپنانے کے انعام کو بھی قراٰن کے اندر ذکر کیا گیا، چنانچہ خالق کائنات نے ارشاد فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون: 11)

مذکورۃ بالا آیات سے جو مؤمنین کی صفات حاصل ہوتی ہیں، وہ نو صفات ہیں: (1) رب ذوالجلال سے ڈرنا، (2) رب پر بھروسہ رکھنا، (3)نماز میں خشوع اختیار کرنا، (4) لغوسے اعراض، (5) زکوٰۃ کے لیے عمل، (6) شرمگاہ کی حفاظت، (7) امانت دار، (8) وعدہ پورا کرنا، (9) نماز کی حفاظت کرنا۔ یہی صفات ہیں جو انسان کو مسلمان اور مؤمن بناتی ہیں، ان صفات کا حصول رب کعبہ کے فضل وکرم سے ہی ممکن ہے۔ اللہ جل جلالہ ہمیں ان صفات کا جامع بنائے، اور اپنا خاص فضل وکرم عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم