حافظ محمد شجاعت قادری(درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک نیک اور دوسرا بد
نیک۔ مرد وہ ہوتا ہے جو اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے اور اسے مردِ مؤمن بھی کہتے
ہیں۔ الله پاک نے ان مردِ مؤمن کی قراٰنِ کریم میں بہت سی صفات بیان کی ہیں جس میں
سے چند یہ ہیں:
بغیر دیکھے ایمان لانا : اللہ کریم کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں
اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ
کرتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:3) تفسیر: {اَلَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ: وہ لوگ جو بغیر
دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او
رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں
ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے
ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر
دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں
سے پوشیدہ ہیں اور نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کیا جانا، قیامت کا قائم ہونا، اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول
یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں
گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2)تفسیر: یہاں سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ،
چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے
ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور
ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوا : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تفسیر: فلاح پانے والے مومنوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا
کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں ۔
اللہ پاک ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
تفسیر : اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا
وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی
زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’
تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم
صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں ۔
میری اللہ سے دعا
ہے کہ اللہ پاک ہم میں بھی یہ صفات ڈالے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم