حافظ عبدالسبحان عطاری(درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا تا کہ وہ اللہ پاک کے
احکامات کی پیروی کرے تو اس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام سے ہوئی اور حضرت آدم
علیہ السّلام سے انسانی نسل شروع ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السّلام تو اللہ پاک کے سچے
نبی ہیں اور رب کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ لیکن ان کی اولاد میں دو گروہ
بن گئے ۔ کچھ رب کے احکامات کو ماننے والے اور کچھ رب کی وحدانیت اور احکامات سے
منہ پھیرنے اور انکار کرنے والے تو جو لوگ احکام بجا لائے ان کو مؤمن اور جو
انکار کر بیٹھے انہیں کافر کہتے ہیں۔ یہاں پر کچھ ایسی صفات جو کہ مؤمنوں کو
کافروں سے ممتاز کر دیتی ہیں وہ بیان کئے جائیں گے۔
مؤمن اپنی نماز میں خشوع و خضوع رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2) اس آیت کے تحت معنی قاسم صاحب دامت برکاتھم العالیہ تفسیر صراط
الجنان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی
بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز
سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ
اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس
کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس
قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو،
دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہو۔
نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھانے،اِدھر اُدھر
دیکھنے اور یہاں وہاں توجہ کرنے سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہوں ،
حضرت انس بن مالک رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو
اپنی نماز میں نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں !پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس میں بہت سختی کی اور ارشاد
فرمایا’’یہ لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نظریں چھین لی جائیں گی۔
مؤمن اپنے وعدوں اور اپنی امانتوں کی حفاظت
کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف
بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت
نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔
یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا
مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔
اور اسی کے متعلق
ایک حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میرے لیے چھ چیزوں
کے ضامن ہوجاؤ، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ
کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں کو روکو۔( مستدرک،
کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، 5 / 513، حدیث: 8130)
مؤمن ہی جنت الفردوس کے وارث اور اس میں ہمیشہ
رہنے والے ہیں ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ
رہیں گے۔(
پ18، المؤمنون:11،10) اس آیت اور اس کے بعد والی
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور اَوصاف پائے
جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے
اوروہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے،نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی
وہاں انہیں موت آئے گی۔
یاد رہے کہ فردوس سب سے اعلیٰ جنت ہے اور اسی کا سوال کرنے
کی حدیث پاک میں ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں ،دو درجوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور
زمین کے درمیان ہے۔ فردوس سب سے اعلیٰ اور درمیانی جنت ہے اورا س سے اوپر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ
کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔جب تم اللہ پاک سے سوال کرو تو جنت
الفردوس کا سوال کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، 4 / 238، حدیث: 2538) لہٰذا ہر مسلمان کو
چاہئے کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگے تو جنت الفردوس کی ہی دعا مانگے،
اگر اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے یہ دعا قبول فرما لی تو آخرت میں ملنے والی یہ
سب سے عظیم نعمت ہو گی۔
اے اللہ ! ہمیں فردوس
کی میراث پانے والوں اور اس کی عظیم الشان نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والوں میں سے
بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما،اٰمین۔