مؤمن کی تعریف: مؤمن وہ ہے جس میں صفت ایمان پائی جاےٴ اور اس کا قلب و باطن
اللہ کی طرف اس طرح جھک جاےٴ کہ اس کے دل میں خدا و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے متعلق کوئی ادنیٰ درجے کا شک اور وہم بھی موجود نہ ہو۔مؤمن کی صفات قراٰن
کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیے۔
﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2)
یہاں سے اللہ
پاک ایمان والوں کے اوصاف ذکر فرماےٴ ۔ چنانچہ ایمان والوں کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے
فرمایا ایمان والے خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں خوف
ہوتا اور اعضاء ساکن ہوتے ہیں (صراط الجنان)
﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)
اللہ پاک نے مؤمنین
کا دوسرا وصف بیان فرمایا کہ وہ ہر لہو باطل سے بچتے رہتے ہیں۔
﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
یہ مؤمنین کا تیسرا وصف ہے کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ
اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ ادا کرتے ہیں۔
﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،المؤمنون:5)
یہ مؤمنین
کا چوتھا وصف ہے کی وہ زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے ابنی شرم
گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں مؤمنین کے مزید دو وصف کو ذکر فرمایا کہ جب انکے
پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں تو انہیں پورا
کرتے ہیں ۔
﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی
کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) اس آیت میں اللہ
پاک نے مؤمنین کا ایک اور وصف بیان فرمایا کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور
انہیں ان کے وقت میں ادا کرتے ہیں۔
﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ
وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10) اس آیت اور اس کی بعد والی آیت میں اللہ پاک نے مؤمنین
کی صفات بیان کرنے کے بعد مؤمنین کی جزا کو بیان فرمایا کہ یہی لوگ جنت کے وارث ہوں
گے۔
اللہ پاک ہمیں ان اوصاف کا پابند بنائے۔ (اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)
اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بہت سارے اوصاف بیان کئے ہیں
مؤمنین کے ان میں سے چند یہ ہیں:
پہلا وصف: مؤمن جھگڑالو نہیں: وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ
الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے
ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)جاہل سے الجھنے کے بجائے وہ سلام متارکہ
کرتے ہوئے بحث سے گریز کرتے ہیں کیونکہ یہ (تقویم ما لا یستقیم) ہے یعنی جو سمجھنا
نہیں چاہتا اس کو سمجھانا ہے جو کہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے برابر ہے ۔
دوسرا وصف: اچھے ارادوں میں مکمل ہونے کا یقین : ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔(پ4، اٰلِ عمرٰن:159) اسباب کی کمی ان کے ارادوں ختم نہیں کر سکتی اور اسباب کی
زیادتی انکے خالق الاسباب سے پھیر نہیں سکتی کیونکہ انکی نظر اسباب پر نہیں مسبب
الاسباب پر ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ اسباب اختیار کرنے میں پیچھے نہیں رہتے کہ دنیا عالم
اسباب ہے ۔
(تیسرا وصف)﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)چاہے وہ مادی شیئ ہو یا کوئی کلام (بات راز والی) ہو یا
کوئی فعل (اچھا کام راز والا) اگر امانت رکھی جائے تو حفاظت کرے۔ کیونکہ امانت کی
حفاظت نہ کرنا منافق و خائن ہونے کی علامت ہے ۔
(چوتھا وصف) فضول سے بچنا : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)جس بات کی ضرورت
نہ ہو نہ کہے۔ فضول بات کی طرح فضول افعال، کھیل کود، فضول خیالات، فضول سونا،
فضول کھانا پینا، فضول بیٹھک، فضول دیکھنا، فضول سننے سے بچے کیونکہ اسلام کے حسن
میں سے ہے فضول کو چھوڑنا ۔
(پانچواں وصف)سخاوت : ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری
راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)سخاوت کے، صدقے کے بہت سے فضائل ہیں ۔ جب خرچ کریں
تو یہ چیزیں ذہن میں رکھیں:(1) درمیانہ روی سے خرچ، کہ ایسا نہ کرے کہ پھر سوال
کرنے کی حاجت ہو کیونکہ صدقہ کرنا مستحب ہے اور سوال کرنا ممنوع ہے۔ مستحب کو حاصل
کرنے سے بہتر ہے ممنوع سے بچا جائے ۔(2)دیتے ہوئے تواضع اور انکساری کرے دیتے ہوئے
لینے والے کو احسان کرنے کی نظر سے نہ دیکھے کیونکہ احسان جتلانے سے صدقہ باطل ہو
جاتا ہے ۔(3)دل میں دینے کا ملال نہ ہو کہ اس سے مال میں کمی آئے گی بلکہ مال
بڑھنے والی فضیلت پر کامل یقین رکھے کیونکہ صدقہ کرنے سے مال بڑھتا ہے گھٹتا نہیں
۔(4)دل کو اطمینان دلائے کہ یہ مال جس کا مجازی مالک ہوں اصل میں اللہ پاک کا عطا
کردہ ہے کیونکہ جو زمین و آسمان میں ہے سب اللہ پاک ہی کے لئے ہے حقیقی مالک اللہ
پاک ہے ۔(5) اصلاً صدقے کی نیت کرے باقی فوائد ضمناً حاصل ہوجائیں گے کیونکہ ثواب
عمل میں نیتِ صالحہ کی وجہ سے ملتا ہے ۔
اللہ پاک ہمیں ان اوصاف سے حصہ عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ محمد نبیل عطّاری (درجہ
رابعہ جامعۃُ المدينہ فیضانِ حسن و جمال مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
الحمد الله، اللہ پاک کا ہم پر کروڑہا کروڑ احسان ہے جس نے ہمیں
مسلم گھرانے میں پیدا کیا ۔ اور اللہ کا احسان ہے کہ ہمیں مسلم گھرانے میں پرورش
ملی ۔ اور مؤمن کی صفات اللہ تبارک و تعالیٰ نے قراٰنِ کریم میں ذکر کری ہیں تو
ہمیں ان صفات کا علم ہونا چاہیے کہ ایسی کونسی صفات ہیں اگر وہ ہم میں نہیں ہے تو
ہم ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرتے ہیں۔ میں یہاں چند صفات بیان کروں گا۔
پہلا وصف: مؤمن خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے ہیں ۔الله پاک پارہ 23،
سورہ مؤمنون، آیت نمبر 2 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2)
خٰشعون : خشوع وخضوع کرنے والے ۔ یہاں سے ایمان والوں کے چند
اوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان
والے خضوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کا خوف
ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک ، المؤمنون ، تحت الآيۃ : 2،ص 751)
دوسر ا وصف :مؤمن فضول باتوں سے بجتے ہیں ۔ اللہ پاک پارہ 23، سورہ
مؤمنون آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ کنز الایمان : اور وہ جو بیہودہ بات
کی طرف التفات نہیں کرتے۔
عَن
اللغو : فضول بات سے : فلاح پانے والے مؤمنوں کا دوسرا وصف بیان
کیا گیا کہ وہ ہر لہو و باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن)
تیسرا وصف: مؤمن زکوة ادا کرتے ہیں۔ الله پاک پارہ 23 سورہ مؤمنون ،
آیت نمبر 4 میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
اس آیت میں کامیابی پانے والے اہل ایمان کا، تیسرا وصف بیان
کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے پر فرض ہونے والی زکوۃ دیتے ہیں ۔
بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ " زکاۃ " کا ایک معنی تزکیہ نفس بھی
کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا
کام کرتے ہیں ۔ (روح البیان ، المؤمنون ، تحت الآيۃ : 4/6 ملتقطاً)
چوتھا وصف : مؤمن اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔الله پاک سورہ
مؤمنون، پارہ 23 آیت 4 اور 5 میں ارشاد فرماتا ہے ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر
کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہل
ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا۔ ہے، چنانچہ اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا
خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے
اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے
ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (خازن المؤمنون ،
تحت الآية:5-3،6 /320_321 ملخصاً)
یہ مؤمنین کی چند صفات تھی قراٰن کی روشنی میں باقی اللہ
پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حسن محمود سعیدی(درجہ دورۂ
حدیث مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی، پاکستان)
انسان و مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے
ربِّ کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق ومالک ہے۔ قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر
اللہ کریم پر ایمان رکھنے والے مؤمن کے اَوْصاف کا بیان ہے۔ آئیے! سب سے پہلے
مؤمن کی تعریف پھر قراٰن پاک کی جن آیات میں اہلِ ایمان کے اوصاف بیان کئے گئے ان
کا مطالعہ کرتے ہیں۔
مؤمن کی
تعریف: جو شخص سچے دل سے ان تمام باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریات
دین سے ہیں اسے مؤمن کہتے ہیں۔(بہار شریعت حصہ اول ایمان وکفر کا بیان مطبوعہ
مکتبہ المدینہ)
مؤمنین کے اوصاف بنور القراٰن:
مؤمنین کے دل
ڈر جاتے ہیں: مسلمان کے سامنے اللہ کریم کا نام لیا جائے تو ربِّ عظیم
کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے اور جب اس کے سامنے قراٰنِ کریم کی آیات
پڑھی جائیں تو اس کا اپنے ربّ پر بھروسا اور ایمان مزید مضبوط ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک
کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا
ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ
زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا
جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی
پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)
مؤمنین کی
نماز: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ
کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) ایمان والے خشوع و
خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے
اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان المؤمنون آیۃ نمبر 2 مطبوعہ
مکتبہ المدینہ)
خشوع و خضوع کا
معنی:مؤمنین اپنی نماز میں
باطنی،ظاہری،قولی،عملی،قلبی،جسمی،عضوی خشوع کرنے والے ہیں۔
اس طرح کہ دل میں
خوفِ الہی، قیام میں عاجزی سے ہاتھ باندھے انکساری کرتے ہوئے رکوع کرنے والے، عشقِ
الٰہی سے سجدوں میں رہنے والے، جلسہ و قعدہ میں سہمے رہنے والے، جلال و کبریائی کے
رعب سے نگاہیں نیچی، شکر سے اعضاء ڈھیلے، رقت قلبی سے سر جھکے ندامت جمال بارگاہ
ربانی سے، حاضر ہونے والے ہوتے ہیں۔ (تفسیر نعیمی ص43سورۂ مؤمنون آیۃ2 مطبوعہ
نعیمی کتب خانہ گجرات)
مؤمنین اپنی آخرت کو ترجیح دیتے ہیں : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)لغو سے کیا مراد
ہے؟علامہ احمد صاوی فرماتے ہیں: لغو سے مراد ہر وہ قول ،فعل اور ناپسندیدہ یا مباح
کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دنیاوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مسخری بیہودہ
باتیں ہر فضول کام سے بچتے ہیں اور اپنا سارا وقت اللہ پاک کے احکام کی پابندی میں
صرف کر دیتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مؤمنین دنیا سے زیادہ آخرت
کو ترجیح دیتے ہیں جو باقی رہنے والی ہے۔
مؤمنین کی ہر
ساعت نماز ہے: مؤمنین گالی، دشنام ترازی، گندی اور بیہودہ بات، مذاق
قہقہ بازی، بدتمیزی گستاخی، تکبر غرور، بڑائی کی باتیں، گیت گانے باجے غیبت چغلی
الزام تراشی تہمت سازی، بہتان بازی، ان تمام لغو باتوں سے پرہیز کرنا تکمیل نماز
ہے اسی لیے مؤمن کی ہر ساعت ہر گھڑی نماز ہے۔(تفسیر نعیمی سورۃ مؤمنون آیۃ3
مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
زکوٰۃ ادا کرتے
ہیں:
﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
مؤمن وہ ہے جو ہر قسم کی مالی بدنی وقتی عملی زکوٰۃ تاعمر
نکالتے رہتے ہیں ادا کرتے رہتے ہیں۔ اس طرح کہ مال کے نصاب کی بدن کے حساب کی وقت
کے استعمال کی قول سے نیکی کی دعوت کی عمل سے تعمیر کی اپنی تزکیہ طہارت پاکیزگی
سے اور اپنوں کی اخلاقی اعمال ترقی نشونماء سے اپنی بھلائی کا خیال دوسروں کی
کامیابی کا خیال کرتے ہیں۔(تفسیر نعیمی صفحہ43سورۃ مؤمنون آیۃ4 مطبوعہ نعیمی کتب
خانہ گجرات)
مؤمنین کے دل
دنیا کی محبت سے پاک ہوتے ہیں: بعض مفسرین کرام
نے"زکاۃ" کا معنی تزکیہ نفس بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو
دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک رکھنے کا کام کرتے ہیں۔
شرم گاہوں کی
حفاظت کرتے ہیں: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر
کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و
لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی
بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی
ملامت نہیں۔(تفسیر صراط الجنان سورۃ مؤمنون آیۃ 5/6 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
حدیث پاک میں زبان
اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ
صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس
کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان
میں ہے یعنی شرمگاہ کا، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (تفسیر صراط الجنان سورۃ
مؤمنون آیۃ 5/6 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 4 /
240، حدیث: 6474)
﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف
بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت
نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان سورۃ
مؤمنون آیۃ 8 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)
مؤمنین نمازوں
کی حفاظت کرتے ہیں: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ
یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی
کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9)یعنی کامیابی
حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔( تفسیر صراط
الجنان ، المؤمنون ،آیت:9 مکتبۃ المدینہ)
مؤمنین کس طرح
نماز کی حفاظت کرتے ہیں: مفتی احمد یار خان نعیمی
رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں مؤمن وہی لوگ ہیں جو اپنی تمام نمازوں کے فرائض و
واجبات سننے و نوافل، پنج وقتہ، جمعہ، عیدین، کی ہر طرح اہتمام محبت فراخ دلی ذوق
و شوق خشوع و خضوع پابندی وقت اوقات طریقہ شرعی کے مطابق حفاظت کرتے ہیں۔ ہر آن،
ہر زمان، ہر مکان، میں مرتے دم تک صفائی غسل کی تراوت ادائیگی وضو کی تمازت زینت
لباس کی طہارت مقام نماز کی پاکیزگی کے ساتھ اوقات نماز، اجزاء نماز، ارکان نماز،
آداب نماز، کو با اطمینان دین و دنیا سے سوچ سمجھ کر ادا کرتے ہیں۔(تفسیر نعیمی
صفحہ66سورۃ مؤمنون آیۃ9 مطبوعہ نعیمی کتب خانہ گجرات)
محترم قارئین کرام! یہ ہیں مؤمنین کی کچھ صفات جو آپ کے
سامنے بنور القراٰن عرض کی اصل مسلمان ہے ہی وہ جو اپنی زندگی اللہ پاک اور اس کے
آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کے مطابق گزارتا ہے
اور اسی میں کامیابی ہے۔ اور ایک مؤمن ان تمام صفات کا حامل ہوتا ہے پھر جو ان
صفات کا حامل ہو اس کے لیے خوشخبری کیا ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے:﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ
وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10) الْفِرْدَوْسَکیا
ہے؟:جنت کے سو(100)درجے ہیں ہر درجہ میں زمین اور آسمان جتنی مسافت ہے اور فردوس
سب سے اعلیٰ اور درمیانی جنت ہے اور اس سے اوپر رحمٰن کا عرش ہے اور اس سے جنت کی
نہریں نکلتی ہیں۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، 4 /
238، حدیث: 2538)
اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن
ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے
جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔ یہ فردوس کی میراث پائیں گے اوروہ جنت الفردوس میں ہمیشہ
رہیں گے،نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔(
خازن، المؤمنون، 3 / 321)
اللہ پاک ہمیں بھی ان صفات کا حامل بنائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد احتشام (درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفی کراچی ، پاکستان)
اللہ کریم نے مردِ مؤمن کی کئی صفات کو بیان فرمایا ہے
لیکن یہاں ان میں سے چند ذکر کی جاتیں ہیں پڑھیے اور غور کیجئے کہ کیا یہ اوصاف
ہمارے اندر پائے جاتے ہیں یا نہیں ۔
جیسا کہ مردِ مؤمن کے تین وصف کو سورہ بقرہ کی ایت نمبر
تین میں بیان کیا گیا ہے : ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں
اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ
کرتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:3)
پہلا وصف: بغیر دیکھے ایمان لانا: اس وصف کوآیت کہ اس حصے" الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ " میں بیان کیا گیا ۔ تفسیر صراط الجنان میں اس کی
تفسیر یوں بیان فرمائی کہ وہ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں یعنی وہ ان تمام چیزوں پر
ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا،
جانا قیامت کا قائم ہونا، اعمال کا حساب ہونا اور جنت اور جہنم وغیرہ ایک قول یہ
بھی ہے کہ یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے
معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، ص20،
تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، 1 / 114، ملتقطاً)
دوسرا و صف: نماز قائم کرنا: اس وصف کو آیت کے اس حصہ " یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ "میں بیان
کیا گیا۔ تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ نماز
قائم کرتے ہیں۔ نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا
کرتے ہوئے نماز پڑھی جائے۔ نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر
پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اور نماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا
جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل
کوغیرُ اللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہر و باطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ
ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔(بیضاوی، البقرۃ،
تحت الآیۃ: 3، 1 / 115-117، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، 1 / 18، ملتقطاً)
تیسرا وصف: راہ خدا میں خرچ کرنا: اس وصف کو ایت کے اس" وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ"میں
بیان کیا گیا۔
تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی کہ
وہ اللہ پاک کے دئیے ہوئے رزق میں کچھ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ راہِ خدا
میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا
تذکرہ ہے یا اس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ،
طلبہ ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیائے کرام یا فوت شدگان کے
ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ
نافلہ ہیں۔
مردِ مؤمن کی ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے کے وقت
اعتدال کو اختیار کرتے ہیں اور اسراف اور تنگی سے بچتے ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم
نے پارہ 19 سورۃُ الفرقان کی آیت نمبر 67 میں بیان فرمایا:﴿وَ الَّذِیْنَ
اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ
قَوَامًا(۶۷)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ
حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں
۔ (پ19،الفرقان:67)تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے
کہ یہاں کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اسراف
اور تنگی دونوں طرح کے مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے
رہتے ہیں۔
مردِ مؤمن کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ
نماز ادا کرتے ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃُ المؤمنون کی ایت نمبر دو میں
بیان فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ
کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) اس
کی تفسیر صراط الجنان میں یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے
ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان
کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)
مؤمن کی ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ ہر لہو باطل چیز سے بچتے
ہیں۔اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر تین میں بیان فرمایا:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے
کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 3، 3 / 320)
لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو
دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول
کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن
سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے
لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ
ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: 3، 4
/ 1356-1357)
مردِ مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے والے
ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر چار میں بیان فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس کی تفسیر صراط الجنان میں یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ
پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض
مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا
ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام
کرتے ہیں۔
مردِ مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ یہ زنا اور اسباب
لوازمات زنا وغیرہ حرام کاموں سے شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس وصف کو
اللہ جل شانہ نے سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر پانچ اور چھ میں بیان فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) تفسیر
صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے
اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ
اگروہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان
پر کوئی ملامت نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 5-6، 3 / 320-321، ملخصًا)
مردِ مؤمن میں یہ وصف بھی پائی جاتی ہے کہ اور وہ امانت
میں خیانت نہیں کرتے ہیں اور وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃ
ُالمؤمنون کی آیت نمبر 8میں بیان فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ
عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے
والے ہیں ۔(پ18،
المؤمنون:8) تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی گئی ہے
کہ ان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے
تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔ یاد
رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہدِ خدا کے ساتھ
ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 8،
6 / 69، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 8، 3 / 321، ملتقطاً)
اس کے علاوہ مردِ مؤمن کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ اللہ
جل شانہ سے دعا ہے کہ قراٰنِ کریم میں مردِ مؤمن کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں اس
کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد امیر حمزہ عطاری (درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفى لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں مؤمن پیدا
کیا اور مؤمن گھر میں ہی ہماری پرورش ہوئی لیکن مؤمن کی کچھ صفات ایسی ہیں جس سے
وہ ہر کسی سے ممتاز ہو جاتا ہے وہ صفات ہمیں پتا ہونی چاہیے جب ہمیں وہ صفات پتا
ہوں گی تو ہم اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ اللہ پاک
پاره 1 سورۃُ البقرہ آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ
قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى
مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور
ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے
اترا اور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے
ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔(پ1،البقرۃ:3تا5) صراط الجنان میں اس کی
تفسیر یوں ہے کہ وَالَّذینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ : وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں یہاں سے لے کر ، الْمُفْلِحُوْنَ ،تک کی 3 آیات مخلص مؤمنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے
ایمان والے ہیں ، آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ
لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد
دوبارہ زندہ کیا جانا ، قیامت قائم ہونا ، اعمال کا حساب ، جنت و دوزخ وغیرہ ایک
قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں
گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔ ( مدارک ، البقرة، تحت الآيۃ : 3، ص 20، تفسیر
بیضاوی،14/17 ، البقرة، تحت الآيۃ : 3، ملتقطاً )
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ: اور وہ ایمان
لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا، اس آیت میں اہل کتاب کے وہ مؤمنین مراد
ہیں جو اپنی کتاب پر اور پچھلی آسمانی کتابوں پر اور انبیا علیہم الصلوۃ و السّلام
پر نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قراٰنِ پاک پر بھی ایمان لائے۔ اس آیت میں ’’مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ‘‘سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے ۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: 4 ، 1 / 19، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 4، ص21، ملتقطاً)
وبالأخرَةِ
هُمْ يُوقِنُونَ : اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ) یعنی متقی لوگ قیامت پر
اور جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں
ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: وہی فلاح پانے والے ہیں) یعنی جن لوگوں میں بیان کی گئی
صفات پائی جاتی ہیں وہ اپنے رب کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ
جہنم سے نجات پاکر اور جنت میں داخل ہو کر کامل کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔
آگے الله پاک مؤمنوں کی صفات بیان فرماتے ہوئے پارہ 9 سورۃ
انفال آیت 2 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا
تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ
یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب
ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ
کریں۔(پ9،الانفال:2)تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں ہے کہ اس آیت میں اللہ
پاک نے کامل ایمان والوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ جب
الله پاک کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ دوسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ
پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے
ایمان کی مقدار میں زیادتی بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے ۔ تیرا
وصف یہ بیان ہوا کہ وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ
کے سپرد کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔
(خازن، الانفال )
اللہ پاک مؤمن کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ
اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین
پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس
سلام۔(پ19،الفرقان:63)
یہاں سے مؤمنین کی تقریباً 12 اوصاف بیان کئے گئے جن میں
سے چند یہ ہیں : (1)وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں ،(2)جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو
کہتے ہیں، بس سلام،(3)وہ اپنے رب کے لئے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے اور
جہنم کا عذاب پھر جانے کی اللہ سے دعا کرتے ہیں،(5) اعتدال سے خرچ کرتے ہیں، اس
میں نہ حد سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اللہ پاک کے ساتھ کسی دوسرے
معبود کی عبادت نہیں کرتے ۔(الذين يمشون على الأرض هونا: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اس آیت میں بیان ہوا کہ کامل
ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے
ساتھ عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں متکبرانہ طریقہ پر جوتے کھٹکھٹاتے
پاؤں زور سے مارتے ہوئے نہیں چلتے۔
یہ ہیں مؤمنوں کی صفات ہیں، اگر اپنے اندر ہم غور کریں کہ
کیا ہمارے اندر یہ صفات ہیں یا نہیں اگر نہیں تو ہمیں اپنے اندر ایسی صفات پیدا
کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمیں ایسا مؤمن بننا ہے کہ کوئی کافر کوئی غیر مسلم
دیکھے تو مسلمان ہو جائے۔ کئی ایسے کامل مؤمن گزرے ہیں جن کو دیکھ کر کافر مسلمان
ہوئے جن کی اداؤں کو دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہوئے۔ اللہ کرے ہم بھی ایسے مو من
بننے میں کامیاب ہو جائیں اور دونوں جہانوں کی بھلائیاں ہمارا مقدر بن جائیں۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
وقاص دلاور مدنی (مدرس جامعۃُ
المدینہ فیضان ابو عطار ملیر کراچی، پاکستان)
ایمان کے انسان کی زندگی پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب
ہوتے ہیں ، جیسے ایمان کی برکت سے بندہ ، خدا کی وحدانیت ، قدرت اور عظمت پر دلالت
کرنے والی نشانیوں میں غور و فکر کرتا ہے جس سے خدا کے موجود ہونے ، واحد معبود،
تنہا خالق اور ہر چیز پر قادر و قدیر ہونے پر یقین مزید مضبوط ہوتا اور بندہ
دہریت، لا مذہبیت اور کفر و شرک کی جہالت سے بچ جاتا ہے۔ ایمان بندے کے عمل و
کردار کو پاکیزہ بنا دیتا ہے اور یہ چیز انسان کی انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی
زندگی کو بھی پاکیزہ اور معطر بنا دیتی ہے۔ ایمان بندے کو اچھے اخلاق اور حسن سلوک
کی دولت سے مالا مال کر دیتا اور برے اخلاق، برے خیالات اور برے کاموں سے روک دیتا
ہے۔ ایمان کی بدولت بندہ اپنے خالق حقیقی پر بھر پور اعتماد اور بھروسہ کرتا اور
اس کی قضا و قدر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ، یہ چیز مشکلات اور سختیوں کی
شدت کا احساس کم کر کے بندے کی زندگی آسان بنا دیتی ہے۔ ایمان والا اللہ پاک کو ہی
اپنا حقیقی رازق سمجھتا اور رزق کے معاملے میں اس کی تقسیم پر راضی رہتا ہے ۔ اس
لیے رزق کم ملے یا زیادہ ہر حال میں وہ خدا کا شکر گزار رہتا ہے اور یہ شکر گزاری
معاشی تنگی کی اذیتیں برداشت کرنا آسان بنا دیتی ہے۔ ایمان کی برکت سے بندہ ذکرِ
الہی میں مصروف ہو جاتا ہے اور ذکرِ الہی کی بدولت بندے کو دل و دماغ کا سکون نصیب
ہو تا ہے اور دل و دماغ کا سکون بندے کو ہر طرح کے نفسیاتی مرض سے بچاتا ہے۔ ایمان
سے دو مؤمنوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور یہ رشتہ
زندگی کی مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور نقصانات سے بچانے میں بہت کام آتا
ہے۔ یہ حالات و صفات و عادات ایک بندہ مؤمن کو ایمان کامل سے حاصل ہوتی ہیں، لہذا
یہاں کچھ بندۂ مؤمن کی صفات بیان کی جاتی ہیں ،لیکن یاد رہے قراٰن و حدیث میں
کامل ایمان والوں کی بہت سی خصوصیات بیان کی گئی ہیں، یہاں ان کی چند خصوصیات
ملاحظہ ہوں:
مستحکم اور پختہ: اللہ پاک نے فرمایا: کامل ایمان والے اپنے
ایمان میں بہت مستحکم اور پختہ ہوتے ہیں اور شک وشبہ میں نہیں پڑتے۔ ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ
جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس
کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی
راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں ۔ ( پ 26، الحجرات: 15)
اعمالِ صالحہ میں ممتاز: کامل ایمان والے اعمالِ صالحہ میں
ممتاز ہوتے ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے، فضول باتوں سے
منہ پھیر تے ، اپنے مالوں کی زکوۃ دیتے، بے حیائی کے کاموں اور امانت میں خیانت سے
بچتے، وعدے کی پاسداری کرتے اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى
وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ تو جو اِن کے سوا کچھ اور
چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور
اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی
حفاظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ
رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:1تا11)
قراٰن سے گہری محبت: کامل ایمان والوں کو قراٰن سے گہری
محبت ہوتی ہے، قراٰن سے علمی و شعوری تعلق ہوتا ہے اور عمل کے ذریعے اس کا اظہار
بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ جب قراٰنی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو عاجزی و خشوع سے
سجدہ میں گر جاتے ہیں، اپنے رب کی حمد و ثناء و تسبیح کرتے اور تکبر و نخوت سے
بچتے ہیں ، رات کے آخری پہر بارگاہِ الہی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، خوف و امید کے
ساتھ اپنے رب سے التجائیں کرتے ہیں اور راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ اللہ
پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا
بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا
یَسْتَكْبِرُوْنَ۩(۱۵) تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ
الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَ(۱۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے
ہیں کہ جب ان آیتوں کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور
اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ ان
کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو
پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔(پ21، السجدۃ:16،15)
(یہ آیت آیات سجدہ میں سے ہے، اسے پڑھنے اور
سننے والے پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے۔)
محبت کرنے والے اور پیغام خداوندی کے مبلغ: کامل ایمان والے
اللہ کی خاطر محبت کرنے والے اور پیغام خداوندی کے مبلغ ہوتے ہیں، چنانچہ ان میں
ایمانی اخوت اور ایک دوسرے کی آخرت کی فکر و نصیحت کا جذبہ ہوتا ہے۔ نماز و زکوۃ
کی ادائیگی اور خدا اور سول کی اطاعت ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ
بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں
ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور
نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔
یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا
ہے۔(پ10،التوبہ:71)
یاد الٰہی و خوف خدا :کامل ایمان والوں کے دل یاد الہی کے
وقت اللہ پاک کی عظمت و ہیبت اور خوف و خشیت سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ تلاوت قراٰن ان
کے ایمان میں اضافہ کرتی ہے اور ان کا کامل بھروسہ صرف اپنے رب پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ
پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا
تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ
یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) الَّذِیْنَ
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ
مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے
ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا
ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے
دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے
ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔ (پ9،الانفال:2تا4)
الله پاک سے دعا کے ہمیں حقیقی بندہ مؤمن و مسلمان بننے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حافظ محمد حماس عطاری(درجہ
خامسہ جامعۃُ المدینہ گلزار حبیب سبزہ زار لاہور، پاکستان)
قراٰنِ کریم میں اللہ پاک نے مؤمنین کی صفات بیان فرمائی
ہیں مؤمنوں کی صفات ان کی زندگی میں نمایاں اور اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
(1)ایمان: جن میں سرِ فہرست مؤمنوں کی صفت ایمان ہے۔ چنانچہ قراٰنِ
کریم میں ربُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ
اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:
اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے اترا
اور آخرت پر یقین رکھیں۔(پ1، البقرة:4)
(2) عاجزی و
انکساری: اس کے بعد
مؤمنین کی صفات میں سے ایک صفت عاجزی و انکساری ہے مؤمنین اپنی کامیابیوں کا فخر
نہیں کرتے بلکہ اللہ کی عظمت کے سامنے خود کو عاجز سمجھتے ہیں انکے ڈر کی وجہ اللہ
پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ لَا
تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹)
﴾ ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے اللہ کو بھلا دیا
تو اللہ نے انہیں ان کی جانیں بھلا دیں ، وہی نافرمان ہیں ۔ (پ28، الحشر: (19
مؤمنین ہمیشہ اللہ پاک کے
سامنے روتے اور گڑگڑاتے ہیں۔ قراٰنِ کریم میں ہے:﴿وَ اذْكُرْ رَّبَّكَ فِیْ نَفْسِكَ تَضَرُّعًا
وَّ خِیْفَةً وَّ دُوْنَ الْجَهْرِ مِنَ الْقَوْلِ بِالْغُدُوِّ وَ الْاٰصَالِ وَ
لَا تَكُنْ مِّنَ الْغٰفِلِیْنَ(۲۰۵) ﴾ ترجَمۂ
کنزُالعِرفان: اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو گڑگڑاتے ہوئے اور ڈرتے ہوئے اور
بلندی سے کچھ کم آواز میں ،صبح و شام، اور غافلوں میں سے نہ ہونا۔( پ9، الاعراف:(205ان کی زندگی میں غرور اور
تکبر کی جگہ عاجزی و انکساری کا ہونا قراٰن کی تعلیمات کا حصہ ہے۔
(3) اخلاقیت اور
رحم دلی: مؤمنوں کی ایک
اور خصوصیت ان کی بڑی اخلاقیت اور رحم دلی ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ نیک معاشرتی
روابط قائم رکھتے ہیں اور ہمیشہ ان کی مدد کے لئے تیار رہتے ہیں قراٰنِ کریم
مسلمانوں کو رحم دلی کا درس دیتا ہے۔ قراٰنِ کریم میں اللہ پاک کا فرمان ہے:
﴿وَ لَا یَاْتَلِ اُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَ السَّعَةِ اَنْ
یُّؤْتُوْۤا اُولِی الْقُرْبٰى وَ الْمَسٰكِیْنَ وَ الْمُهٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ
اللّٰهِ ﳚ-وَ لْیَعْفُوْا وَ لْیَصْفَحُوْاؕ-اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ
اللّٰهُ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۲۲)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور تم میں فضیلت والے اور (مالی) گنجائش والے یہ قسم نہ
کھائیں کہ وہ رشتے داروں اور مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں کو
(مال) نہ دیں گے اور انہیں چاہیے کہ معاف کر دیں اور دَرگزر کریں ، کیا تم اس بات
کو پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہاری بخشش فرمادے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
(پ18،النور:(22
(4) دوسروں کی مدد: مؤمنین کی ایک صفت دوسروں کی
مدد بھی ہے۔ یہ آپس میں ایک دوسرے کے معاون و مددگار ثابت ہونے میں ہمہ وقت ثابت
قدم رہیں ۔ اور نیکی اور بھلائی پر مددگار ثابت ہوں اور گناہوں پر مدد نہ کرنا یہ
معاشرتی اُمور میں نیکی اور پرہیزگاری کی بنیاد ہیں۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:﴿وَ تَعَاوَنُوْا
عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ
الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۲)﴾ترجمہ کنزالعرفان: اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی
مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ
شدید عذاب دینے والا ہے۔(پ6، المآئدۃ:2)
(5) ایمانداری: مؤمنین کی صفات میں سے ایک صفت ایمانداری ہے۔ وہ اپنی
باتوں اور عملوں میں صداقت کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں جو ان کے ایمان کی موثر
تصدیق کا حصہ بنتے ہیں۔ دینِ اسلام انسانی حقوق کا سب سے بڑا محافظ ہے ، یہی وجہ
ہے کہ دینِ اسلام ان اعمال و افعال کا حکم دیتا ہے جن کے ذریعے انسانی حقوق کی
حفاظت ہو۔ ایسے ہی افعال میں سے ایک “ امانت داری “ بھی ہے۔ اسلام میں امانت داری
کی بڑی اہمیت ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا
الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ
امانتیں جن کی ہیں ان کے سپرد کرو۔(پ5، النسآء :58)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور امانت داری :
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی امانت داری کا بہترین نمونہ
تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ا مانت داری ہی کی وجہ سے کفارِ مکہ
بدترین دشمن ہونے کے باوجود آپ کو صادق اور امین کہا کرتے تھے۔
یہ پانچ صفات مؤمنین کی قراٰنی خصوصیات ہیں جو قراٰنِ مجید
میں موجود ہیں۔ ان خصوصیات کو اپنی روزمرہ زندگی میں امتحان کرنا مؤمنین کے لئے
نیک راہوں کو اپنانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔
محمد ثقلین عطّاری (درجہ
رابعہ جامعۃُ المدينہ فیضانِ سخی سرور، پاکستان)
الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر
ضروری ہے کہ ہم ضروریاتِ دین (جیسے اللہ پاک کی وحدانیت انبیا کی نبوت، جنت و نار
وغیرہ ) پر سچے دل سے ایمان لائیں اور جو ان باتوں کی صدق دل سے تصدیق کرتا ہے وہ
ایک مؤمن بن جاتا ہے۔ اور مؤمن مرد کی قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے بہت ساری
صفات بیان فرمائیں
پہلا وصف: چنانچہ اللہ پاک مؤمنین کو بشارت دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک
کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر
ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔( تفسیر صراط الجنان ،مؤمنون، آیت 1 )
دوسرا وصف: اسی طرح مؤمنین کا وصف بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک فرماتا
ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ
کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)
(نماز میں ظاہری و باطنی خشوع) نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی۔
ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کا کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز
سے باہر نہ جائے ، آنکھ کے کنارے سے کسی کی طرف نہ دیکھے وغیرہ اور باطنی خشوع یہ
ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو ،دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا
ہوا ہو اور ایمان والوں کا وصف بھی یہی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا
کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن
ہوتے ہیں ۔( تفسیر صراط الجنان ، مؤمنون، آیت 2 ) تو لہذا ہر مسلمان مرد و عورت
کو چاہیے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے اور اللہ پاک کی
عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔
تیرا وصف: اسی طرح مؤمنین کا ایک اور وصف بیان ہوا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تو یہاں سے فلاح پانے والے مؤمنوں کا ایک وصف بیان کیا کہ
وہ ہر لہو و باطل سے بچتے رہتے ہیں۔ (خازن ، المؤمنون تحت الآیۃ: 3 )
چوتھا وصف: اسی طرح مؤمنوں کا قراٰنِ مجید میں ایک اور وصف بیان کیا گیا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں اہل ایماں کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ وہ
پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ بعض مفسرین
نے اس آیت میں مذکور لفظ " زکوة " کا ایک معنی " تزکیہ نفس "
یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام
کرتے ہیں۔(مدارک ، المؤمنون، تحت الآيۃ: 4 )
پانچواں وصف: اسی طرح اہل ایمان کا اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ایک اور
وصف بیان فرمایا کہ ﴿وَ
الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت
میں مؤمنوں کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اسباب و
لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی
بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقوں سے محبت کریں تو ان پر کوئی ملامت
نہیں (خازن ، المؤمنون، تحت الآیۃ: 5 - 6)
یاد رکھیے کہ حدیثِ پاک میں زبان اور شرمگاہ کو حرام و
ممنوع کاموں سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل
بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میرے لیے اس
چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی "زبان" اور
اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں ہے یعنی "شرمگاہ" کا میں اس کے
لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (بخاری ، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان 14 حدیث: 6474)
الله پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں کامل مؤمن بنائے اور اپنی
اور اپنے محبوب کی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد شعیب عطّاری (درجۂ سادسہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفےٰ لانڈھی، کراچی، پاکستان)
اَلحمدُ لِلّٰہ ہم انسان ہیں اور
اللہ کے فضل سے ہم مسلمان ہیں، بحیثیتِ مسلمان ہمیں اچھے اوصاف اپنانے چاہئیں اور بُرے اوصاف سے بچنا چاہئے کیونکہ
اچھے اوصاف اللہ و رسول کی رضا کا ذریعہ ہیں۔اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مؤمنین
کے کئی اوصاف بیان کئے ہیں جن میں سے بعض یہ ہیں:
(1)اللہ پاک سے خوب محبت کرنے والے:نیک مسلمان اللہ پاک سے سب چیزوں سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں
کہ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنز
الایمان:اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔(پ2، البقرۃ:165)
(2)اللہ پاک سے ڈرنے
والے: صالح مسلمانوں کے سامنے جب اللہ کا ذکر ہوتا
ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں کہ فرمانِ باری ہے:﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ
وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ
یاد کیا جائے ان کے دل ڈرجائیں۔(پ9، الانفال:2)
(3)کثرت سے ذکرُ اللہ کرنے والے: مؤمنین کی صفات سے ہے
کہ وہ اللہ پاک کا کثرت سے ذکر کرتے ہیں چنانچہ قراٰن پاک میں ہے: ﴿اِلَّا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَذَكَرُوا اللّٰهَ كَثِیْرًا﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان : مگر وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور بکثرت اللہ کی یاد کی۔(پ19،
الشعرآء: 227)
(4)حق کی اتباع کرنے والے:مؤمنین کی صفات سے ہے کہ وہ تمام معاملات میں حق کی پیروی
کرتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:﴿وَ اَنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّبَعُوا الْحَقَّ مِنْ
رَّبِّهِمْؕ-﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان: اور ایمان والوں نے حق کی پیروی کی جو ان کے رب کی طرف سے ہے۔(پ26،
محمد:3)
(5)سچ بولنے والے:مؤمنین کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ سچ بولتے ہیں کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:﴿وَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصِّدِّیْقُوْنَ ﳓ﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان: اور وہ جو اللہ اور اس کے سب رسولوں پر ایمان لائیں وہی ہیں کامل
سچے۔(پ27،الحدید:19)
(6)نماز کی محافظت کرنے والے:مؤمنین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت
کرتے ہیں کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔(پ18، المؤمنون: 9)
(7)نماز کو خشوع و خضوع سے پڑھنے والے:نیک مسلمان اپنی نماز کی محافظت کے ساتھ ساتھ نماز کو خشوع
و خضوع کے ساتھ بھی پڑھتے ہیں کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان: جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(پ18، المؤمنون:2)
(8)زکوٰة ادا کرنے والے:مسلمانوں کا وصف یہ بھی ہے کہ وہ زکوٰة ادا کرتے
ہیں چنانچہ ارشاد ہے:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام
کرتے ہیں۔(پ18، المؤمنون: 4)
(9)امانت کی حفاظت اور وعدہ پورا کرنے والے:مؤمنین کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ امانت کی حفاظت اور وعدے
پورے کرتے ہیں ربِّ کریم فرماتا ہے:﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنز
الایمان : اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔(پ18،
المؤمنون:8)
(10)لغو(بیکار قول و فعل)سے بچنے والے:مؤمنین کا ایک عمدہ وصف یہ بھی ہے کہ وہ بے کار کام سے
بچتے ہیں کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)
ہمیں بھی اللہ پاک سے ڈرنے، اس کا ذکر کثرت سے کرنے، اس سے محبت کرنے اور دیگر اچھے اوصاف اختیار کرنے چاہئیں کیونکہ ان اوصاف کو اپنا کر ہم اپنے مقصد(اللہ اور
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا) کو
حاصل کرسکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں اچھے اوصاف اپنانے کی توفیق عطا
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم