وقاص دلاور مدنی (مدرس جامعۃُ
المدینہ فیضان ابو عطار ملیر کراچی، پاکستان)
ایمان کے انسان کی زندگی پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب
ہوتے ہیں ، جیسے ایمان کی برکت سے بندہ ، خدا کی وحدانیت ، قدرت اور عظمت پر دلالت
کرنے والی نشانیوں میں غور و فکر کرتا ہے جس سے خدا کے موجود ہونے ، واحد معبود،
تنہا خالق اور ہر چیز پر قادر و قدیر ہونے پر یقین مزید مضبوط ہوتا اور بندہ
دہریت، لا مذہبیت اور کفر و شرک کی جہالت سے بچ جاتا ہے۔ ایمان بندے کے عمل و
کردار کو پاکیزہ بنا دیتا ہے اور یہ چیز انسان کی انفرادی زندگی کے علاوہ اجتماعی
زندگی کو بھی پاکیزہ اور معطر بنا دیتی ہے۔ ایمان بندے کو اچھے اخلاق اور حسن سلوک
کی دولت سے مالا مال کر دیتا اور برے اخلاق، برے خیالات اور برے کاموں سے روک دیتا
ہے۔ ایمان کی بدولت بندہ اپنے خالق حقیقی پر بھر پور اعتماد اور بھروسہ کرتا اور
اس کی قضا و قدر کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے ، یہ چیز مشکلات اور سختیوں کی
شدت کا احساس کم کر کے بندے کی زندگی آسان بنا دیتی ہے۔ ایمان والا اللہ پاک کو ہی
اپنا حقیقی رازق سمجھتا اور رزق کے معاملے میں اس کی تقسیم پر راضی رہتا ہے ۔ اس
لیے رزق کم ملے یا زیادہ ہر حال میں وہ خدا کا شکر گزار رہتا ہے اور یہ شکر گزاری
معاشی تنگی کی اذیتیں برداشت کرنا آسان بنا دیتی ہے۔ ایمان کی برکت سے بندہ ذکرِ
الہی میں مصروف ہو جاتا ہے اور ذکرِ الہی کی بدولت بندے کو دل و دماغ کا سکون نصیب
ہو تا ہے اور دل و دماغ کا سکون بندے کو ہر طرح کے نفسیاتی مرض سے بچاتا ہے۔ ایمان
سے دو مؤمنوں کے درمیان اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے اور یہ رشتہ
زندگی کی مشکلات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینے اور نقصانات سے بچانے میں بہت کام آتا
ہے۔ یہ حالات و صفات و عادات ایک بندہ مؤمن کو ایمان کامل سے حاصل ہوتی ہیں، لہذا
یہاں کچھ بندۂ مؤمن کی صفات بیان کی جاتی ہیں ،لیکن یاد رہے قراٰن و حدیث میں
کامل ایمان والوں کی بہت سی خصوصیات بیان کی گئی ہیں، یہاں ان کی چند خصوصیات
ملاحظہ ہوں:
مستحکم اور پختہ: اللہ پاک نے فرمایا: کامل ایمان والے اپنے
ایمان میں بہت مستحکم اور پختہ ہوتے ہیں اور شک وشبہ میں نہیں پڑتے۔ ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ
جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ
هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس
کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی
راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں ۔ ( پ 26، الحجرات: 15)
اعمالِ صالحہ میں ممتاز: کامل ایمان والے اعمالِ صالحہ میں
ممتاز ہوتے ہیں۔ اسی لئے یہ لوگ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے، فضول باتوں سے
منہ پھیر تے ، اپنے مالوں کی زکوۃ دیتے، بے حیائی کے کاموں اور امانت میں خیانت سے
بچتے، وعدے کی پاسداری کرتے اور اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: ﴿قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) فَمَنِ ابْتَغٰى
وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَۚ(۷) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ
هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ تو جو اِن کے سوا کچھ اور
چاہے تو وہی حد سے بڑھنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی امانتوں اور
اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی
حفاظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ
رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:1تا11)
قراٰن سے گہری محبت: کامل ایمان والوں کو قراٰن سے گہری
محبت ہوتی ہے، قراٰن سے علمی و شعوری تعلق ہوتا ہے اور عمل کے ذریعے اس کا اظہار
بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ جب قراٰنی آیات سنا کر نصیحت کی جاتی ہے تو عاجزی و خشوع سے
سجدہ میں گر جاتے ہیں، اپنے رب کی حمد و ثناء و تسبیح کرتے اور تکبر و نخوت سے
بچتے ہیں ، رات کے آخری پہر بارگاہِ الہی میں سجدہ ریز ہوتے ہیں، خوف و امید کے
ساتھ اپنے رب سے التجائیں کرتے ہیں اور راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ اللہ
پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّمَا یُؤْمِنُ بِاٰیٰتِنَا الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا
بِهَا خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ سَبَّحُوْا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَ هُمْ لَا
یَسْتَكْبِرُوْنَ۩(۱۵) تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ
الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَ(۱۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ہماری آیتوں پر وہی لوگ ایمان لاتے
ہیں کہ جب ان آیتوں کے ذریعے انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں اور
اپنے رب کی تعریف کرتے ہوئے اس کی پاکی بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ ان
کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو
پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔(پ21، السجدۃ:16،15)
(یہ آیت آیات سجدہ میں سے ہے، اسے پڑھنے اور
سننے والے پر سجدہ تلاوت کرنا واجب ہے۔)
محبت کرنے والے اور پیغام خداوندی کے مبلغ: کامل ایمان والے
اللہ کی خاطر محبت کرنے والے اور پیغام خداوندی کے مبلغ ہوتے ہیں، چنانچہ ان میں
ایمانی اخوت اور ایک دوسرے کی آخرت کی فکر و نصیحت کا جذبہ ہوتا ہے۔ نماز و زکوۃ
کی ادائیگی اور خدا اور سول کی اطاعت ان کا شیوہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ
بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں
ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور
نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں۔
یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا
ہے۔(پ10،التوبہ:71)
یاد الٰہی و خوف خدا :کامل ایمان والوں کے دل یاد الہی کے
وقت اللہ پاک کی عظمت و ہیبت اور خوف و خشیت سے لبریز ہو جاتے ہیں۔ تلاوت قراٰن ان
کے ایمان میں اضافہ کرتی ہے اور ان کا کامل بھروسہ صرف اپنے رب پر ہی ہوتا ہے۔ اللہ
پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا
تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ
یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) الَّذِیْنَ
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ
مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴)﴾ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے
ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا
ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے
دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے
ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔ (پ9،الانفال:2تا4)
الله پاک سے دعا کے ہمیں حقیقی بندہ مؤمن و مسلمان بننے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم