اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں بہت سارے اوصاف بیان کئے ہیں
مؤمنین کے ان میں سے چند یہ ہیں:
پہلا وصف: مؤمن جھگڑالو نہیں: وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ
الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے
ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)جاہل سے الجھنے کے بجائے وہ سلام متارکہ
کرتے ہوئے بحث سے گریز کرتے ہیں کیونکہ یہ (تقویم ما لا یستقیم) ہے یعنی جو سمجھنا
نہیں چاہتا اس کو سمجھانا ہے جو کہ اپنے آپ کو ہلاک کرنے کے برابر ہے ۔
دوسرا وصف: اچھے ارادوں میں مکمل ہونے کا یقین : ﴿فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو۔(پ4، اٰلِ عمرٰن:159) اسباب کی کمی ان کے ارادوں ختم نہیں کر سکتی اور اسباب کی
زیادتی انکے خالق الاسباب سے پھیر نہیں سکتی کیونکہ انکی نظر اسباب پر نہیں مسبب
الاسباب پر ہوتی ہے۔ اگرچہ وہ اسباب اختیار کرنے میں پیچھے نہیں رہتے کہ دنیا عالم
اسباب ہے ۔
(تیسرا وصف)﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)چاہے وہ مادی شیئ ہو یا کوئی کلام (بات راز والی) ہو یا
کوئی فعل (اچھا کام راز والا) اگر امانت رکھی جائے تو حفاظت کرے۔ کیونکہ امانت کی
حفاظت نہ کرنا منافق و خائن ہونے کی علامت ہے ۔
(چوتھا وصف) فضول سے بچنا : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ
مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)جس بات کی ضرورت
نہ ہو نہ کہے۔ فضول بات کی طرح فضول افعال، کھیل کود، فضول خیالات، فضول سونا،
فضول کھانا پینا، فضول بیٹھک، فضول دیکھنا، فضول سننے سے بچے کیونکہ اسلام کے حسن
میں سے ہے فضول کو چھوڑنا ۔
(پانچواں وصف)سخاوت : ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری
راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)سخاوت کے، صدقے کے بہت سے فضائل ہیں ۔ جب خرچ کریں
تو یہ چیزیں ذہن میں رکھیں:(1) درمیانہ روی سے خرچ، کہ ایسا نہ کرے کہ پھر سوال
کرنے کی حاجت ہو کیونکہ صدقہ کرنا مستحب ہے اور سوال کرنا ممنوع ہے۔ مستحب کو حاصل
کرنے سے بہتر ہے ممنوع سے بچا جائے ۔(2)دیتے ہوئے تواضع اور انکساری کرے دیتے ہوئے
لینے والے کو احسان کرنے کی نظر سے نہ دیکھے کیونکہ احسان جتلانے سے صدقہ باطل ہو
جاتا ہے ۔(3)دل میں دینے کا ملال نہ ہو کہ اس سے مال میں کمی آئے گی بلکہ مال
بڑھنے والی فضیلت پر کامل یقین رکھے کیونکہ صدقہ کرنے سے مال بڑھتا ہے گھٹتا نہیں
۔(4)دل کو اطمینان دلائے کہ یہ مال جس کا مجازی مالک ہوں اصل میں اللہ پاک کا عطا
کردہ ہے کیونکہ جو زمین و آسمان میں ہے سب اللہ پاک ہی کے لئے ہے حقیقی مالک اللہ
پاک ہے ۔(5) اصلاً صدقے کی نیت کرے باقی فوائد ضمناً حاصل ہوجائیں گے کیونکہ ثواب
عمل میں نیتِ صالحہ کی وجہ سے ملتا ہے ۔
اللہ پاک ہمیں ان اوصاف سے حصہ عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم