الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ہونے کے ناطے ہم پر ضروری ہے کہ ہم ضروریاتِ دین (جیسے اللہ پاک کی وحدانیت انبیا کی نبوت، جنت و نار وغیرہ ) پر سچے دل سے ایمان لائیں اور جو ان باتوں کی صدق دل سے تصدیق کرتا ہے وہ ایک مؤمن بن جاتا ہے۔ اور مؤمن مرد کی قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے بہت ساری صفات بیان فرمائیں

پہلا وصف: چنانچہ اللہ پاک مؤمنین کو بشارت دیتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔( تفسیر صراط الجنان ،مؤمنون، آیت 1 )

دوسرا وصف: اسی طرح مؤمنین کا وصف بیان فرماتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) (نماز میں ظاہری و باطنی خشوع) نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی۔ ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کا کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے ، آنکھ کے کنارے سے کسی کی طرف نہ دیکھے وغیرہ اور باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو ،دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہوا ہو اور ایمان والوں کا وصف بھی یہی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں ۔( تفسیر صراط الجنان ، مؤمنون، آیت 2 ) تو لہذا ہر مسلمان مرد و عورت کو چاہیے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے اور اللہ پاک کی عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔

تیرا وصف: اسی طرح مؤمنین کا ایک اور وصف بیان ہوا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تو یہاں سے فلاح پانے والے مؤمنوں کا ایک وصف بیان کیا کہ وہ ہر لہو و باطل سے بچتے رہتے ہیں۔ (خازن ، المؤمنون تحت الآیۃ: 3 )

چوتھا وصف: اسی طرح مؤمنوں کا قراٰنِ مجید میں ایک اور وصف بیان کیا گیا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں اہل ایماں کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ " زکوة " کا ایک معنی " تزکیہ نفس " یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔(مدارک ، المؤمنون، تحت الآيۃ: 4 )

پانچواں وصف: اسی طرح اہل ایمان کا اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ایک اور وصف بیان فرمایا کہ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت میں مؤمنوں کا ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقوں سے محبت کریں تو ان پر کوئی ملامت نہیں (خازن ، المؤمنون، تحت الآیۃ: 5 - 6)

یاد رکھیے کہ حدیثِ پاک میں زبان اور شرمگاہ کو حرام و ممنوع کاموں سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی "زبان" اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں ہے یعنی "شرمگاہ" کا میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (بخاری ، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان 14 حدیث: 6474)

الله پاک سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں کامل مؤمن بنائے اور اپنی اور اپنے محبوب کی رضا والے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم