محمد احتشام (درجہ سادسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفی کراچی ، پاکستان)
اللہ کریم نے مردِ مؤمن کی کئی صفات کو بیان فرمایا ہے
لیکن یہاں ان میں سے چند ذکر کی جاتیں ہیں پڑھیے اور غور کیجئے کہ کیا یہ اوصاف
ہمارے اندر پائے جاتے ہیں یا نہیں ۔
جیسا کہ مردِ مؤمن کے تین وصف کو سورہ بقرہ کی ایت نمبر
تین میں بیان کیا گیا ہے : ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں
اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ
کرتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:3)
پہلا وصف: بغیر دیکھے ایمان لانا: اس وصف کوآیت کہ اس حصے" الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ " میں بیان کیا گیا ۔ تفسیر صراط الجنان میں اس کی
تفسیر یوں بیان فرمائی کہ وہ بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں یعنی وہ ان تمام چیزوں پر
ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا،
جانا قیامت کا قائم ہونا، اعمال کا حساب ہونا اور جنت اور جہنم وغیرہ ایک قول یہ
بھی ہے کہ یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے
معنی یہ ہوں گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، ص20،
تفسیر بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، 1 / 114، ملتقطاً)
دوسرا و صف: نماز قائم کرنا: اس وصف کو آیت کے اس حصہ " یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ "میں بیان
کیا گیا۔ تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ نماز
قائم کرتے ہیں۔ نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا
کرتے ہوئے نماز پڑھی جائے۔ نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر
پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اور نماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا
جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل
کوغیرُ اللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہر و باطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ
ہواوربارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔(بیضاوی، البقرۃ،
تحت الآیۃ: 3، 1 / 115-117، جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: 3، 1 / 18، ملتقطاً)
تیسرا وصف: راہ خدا میں خرچ کرنا: اس وصف کو ایت کے اس" وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ"میں
بیان کیا گیا۔
تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی کہ
وہ اللہ پاک کے دئیے ہوئے رزق میں کچھ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ راہِ خدا
میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا
تذکرہ ہے یا اس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ،
طلبہ ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیائے کرام یا فوت شدگان کے
ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ
نافلہ ہیں۔
مردِ مؤمن کی ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خرچ کرنے کے وقت
اعتدال کو اختیار کرتے ہیں اور اسراف اور تنگی سے بچتے ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم
نے پارہ 19 سورۃُ الفرقان کی آیت نمبر 67 میں بیان فرمایا:﴿وَ الَّذِیْنَ
اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ
قَوَامًا(۶۷)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تونہ
حد سے بڑھتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں
۔ (پ19،الفرقان:67)تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے
کہ یہاں کامل ایمان والوں کے خرچ کرنے کا حال ذکر فرمایا جا رہا ہے کہ وہ اسراف
اور تنگی دونوں طرح کے مذموم طریقوں سے بچتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے
رہتے ہیں۔
مردِ مؤمن کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ
نماز ادا کرتے ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃُ المؤمنون کی ایت نمبر دو میں
بیان فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ
کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) اس
کی تفسیر صراط الجنان میں یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے
ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان
کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)
مؤمن کی ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ ہر لہو باطل چیز سے بچتے
ہیں۔اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر تین میں بیان فرمایا:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے
کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔(خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 3، 3 / 320)
لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو
دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول
کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن
سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے
لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ
ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون، تحت الآیۃ: 3، 4
/ 1356-1357)
مردِ مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ زکوٰۃ ادا کرنے والے
ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر چار میں بیان فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس کی تفسیر صراط الجنان میں یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ
پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض
مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا
ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام
کرتے ہیں۔
مردِ مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ یہ زنا اور اسباب
لوازمات زنا وغیرہ حرام کاموں سے شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ اس وصف کو
اللہ جل شانہ نے سورۃُ المؤمنون کی آیت نمبر پانچ اور چھ میں بیان فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) تفسیر
صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی گئی ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے
اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ
اگروہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان
پر کوئی ملامت نہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 5-6، 3 / 320-321، ملخصًا)
مردِ مؤمن میں یہ وصف بھی پائی جاتی ہے کہ اور وہ امانت
میں خیانت نہیں کرتے ہیں اور وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ اس وصف کو اللہ کریم نے سورۃ
ُالمؤمنون کی آیت نمبر 8میں بیان فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ
عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے
والے ہیں ۔(پ18،
المؤمنون:8) تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفصیل یوں بیان فرمائی گئی ہے
کہ ان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے
تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔ یاد
رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہدِ خدا کے ساتھ
ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔( روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 8،
6 / 69، خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 8، 3 / 321، ملتقطاً)
اس کے علاوہ مردِ مؤمن کے کئی اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ اللہ
جل شانہ سے دعا ہے کہ قراٰنِ کریم میں مردِ مؤمن کے جو اوصاف بیان کیے گئے ہیں اس
کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم