محمد امیر حمزہ عطاری (درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفى لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ احسان کہ اس نے ہمیں مؤمن پیدا
کیا اور مؤمن گھر میں ہی ہماری پرورش ہوئی لیکن مؤمن کی کچھ صفات ایسی ہیں جس سے
وہ ہر کسی سے ممتاز ہو جاتا ہے وہ صفات ہمیں پتا ہونی چاہیے جب ہمیں وہ صفات پتا
ہوں گی تو ہم اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی کوشش کریں گے۔ چنانچہ اللہ پاک
پاره 1 سورۃُ البقرہ آیت نمبر 3 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ
قَبْلِكَۚ-وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى
مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان لائیں اور نماز قائم رکھیں اور
ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا اور جو تم سے پہلے
اترا اور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے
ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو پہنچنے والے۔(پ1،البقرۃ:3تا5) صراط الجنان میں اس کی
تفسیر یوں ہے کہ وَالَّذینَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ : وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں یہاں سے لے کر ، الْمُفْلِحُوْنَ ،تک کی 3 آیات مخلص مؤمنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے
ایمان والے ہیں ، آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ
لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں سے پوشیدہ ہیں اور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد
دوبارہ زندہ کیا جانا ، قیامت قائم ہونا ، اعمال کا حساب ، جنت و دوزخ وغیرہ ایک
قول یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں
گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔ ( مدارک ، البقرة، تحت الآيۃ : 3، ص 20، تفسیر
بیضاوی،14/17 ، البقرة، تحت الآيۃ : 3، ملتقطاً )
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ: اور وہ ایمان
لاتے ہیں اس پر جو تمہاری طرف نازل کیا، اس آیت میں اہل کتاب کے وہ مؤمنین مراد
ہیں جو اپنی کتاب پر اور پچھلی آسمانی کتابوں پر اور انبیا علیہم الصلوۃ و السّلام
پر نازل ہونے والی وحیوں پر ایمان لائے اور قراٰنِ پاک پر بھی ایمان لائے۔ اس آیت میں ’’مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ ‘‘سے تمام قرآن پاک اور پوری شریعت مراد ہے ۔(جمل، البقرۃ، تحت الآیۃ: 4 ، 1 / 19، مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 4، ص21، ملتقطاً)
وبالأخرَةِ
هُمْ يُوقِنُونَ : اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ) یعنی متقی لوگ قیامت پر
اور جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں
ذرا بھی شک و شبہ نہیں ہے۔
هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ: وہی فلاح پانے والے ہیں) یعنی جن لوگوں میں بیان کی گئی
صفات پائی جاتی ہیں وہ اپنے رب کی طرف سے عطا کی گئی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ
جہنم سے نجات پاکر اور جنت میں داخل ہو کر کامل کامیابی حاصل کرنے والے ہیں ۔
آگے الله پاک مؤمنوں کی صفات بیان فرماتے ہوئے پارہ 9 سورۃ
انفال آیت 2 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا
الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا
تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ
یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب
ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ
کریں۔(پ9،الانفال:2)تفسیر صراط الجنان میں اس کی تفسیر یوں ہے کہ اس آیت میں اللہ
پاک نے کامل ایمان والوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ جب
الله پاک کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ دوسرا وصف یہ بیان ہوا کہ اللہ
پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے
ایمان کی مقدار میں زیادتی بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے ۔ تیرا
وصف یہ بیان ہوا کہ وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ
کے سپرد کر دیتے ہیں، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔
(خازن، الانفال )
اللہ پاک مؤمن کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ
اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین
پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس
سلام۔(پ19،الفرقان:63)
یہاں سے مؤمنین کی تقریباً 12 اوصاف بیان کئے گئے جن میں
سے چند یہ ہیں : (1)وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں ،(2)جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو
کہتے ہیں، بس سلام،(3)وہ اپنے رب کے لئے سجدے اور قیام کی حالت میں رات گزارتے اور
جہنم کا عذاب پھر جانے کی اللہ سے دعا کرتے ہیں،(5) اعتدال سے خرچ کرتے ہیں، اس
میں نہ حد سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اللہ پاک کے ساتھ کسی دوسرے
معبود کی عبادت نہیں کرتے ۔(الذين يمشون على الأرض هونا: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اس آیت میں بیان ہوا کہ کامل
ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے
ساتھ عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں متکبرانہ طریقہ پر جوتے کھٹکھٹاتے
پاؤں زور سے مارتے ہوئے نہیں چلتے۔
یہ ہیں مؤمنوں کی صفات ہیں، اگر اپنے اندر ہم غور کریں کہ
کیا ہمارے اندر یہ صفات ہیں یا نہیں اگر نہیں تو ہمیں اپنے اندر ایسی صفات پیدا
کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ہمیں ایسا مؤمن بننا ہے کہ کوئی کافر کوئی غیر مسلم
دیکھے تو مسلمان ہو جائے۔ کئی ایسے کامل مؤمن گزرے ہیں جن کو دیکھ کر کافر مسلمان
ہوئے جن کی اداؤں کو دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہوئے۔ اللہ کرے ہم بھی ایسے مو من
بننے میں کامیاب ہو جائیں اور دونوں جہانوں کی بھلائیاں ہمارا مقدر بن جائیں۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم