بندہ مؤمن کی شخصیت ایسی ہے کہ اس کی جتنی تعریف بیان کی جائے کم پڑے گی کیونکہ بندہ مؤمن کی صفات تو خود اللہ پاک نے اپنی لاریب کتاب قراٰنِ مجید فرقان حمید میں بیان کی ہیں: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے بھلائی کے بتانے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدیں نگاہ رکھنے والے اور خوشی سناؤ مسلمانوں کو۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے مؤمن کی 10 صفات بیان فرمائی ہیں۔(1)عبادت کرنے والا (2)توبہ کرنے والا (3)حمد کرنے والا (4)روزے رکھنے والا (5)رکوع کرنے والا (6)سجدہ کرنے والا (7)نیکی کی دعوت دینے والا (8) برائی سے منع کرنے والا (9)اللہ پاک کے حدود کی حفاظت کرنے والا (10)جنت کی خوشخبری کے مستحق۔

﴿الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ آیت کے اس حصے کی وضاحت تفسیر صراط الجنان میں تفسیرکبیر اور قرطبی کے حوالے سے کچھ یوں بیان کی گئی ہے کہ اللہ پاک نے بندوں کو جن اَحکام کا پابند کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں، یہ تمام احکام دو قسموں میں منحصر ہیں (1) عبادات ،جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ۔ (2) معاملات، جیسے خریدو فروخت ،نکاح اور طلاق وغیرہ۔ ان دونوں قسموں میں سے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے انہیں بجا لانا اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے رک جانا اللہ پاک کی حدوں کی حفاظت ہے۔ (تفسیرکبیر، التوبۃ، تحت الآیۃ: 112 ، 6 / 155، قرطبی، براء ۃ، تحت الآیۃ: 112 ، 4 / 155، الجزء الثامن، ملتقطاً)

اسی بات کو آسان الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ حقوقُ اللہ اور حقوقُ العباد دونوں کو پورا کرنے والے ہوں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسلام میں دونوں چیزوں کی اہمیت ہے۔ یہ نہیں کہ حقوقُ اللہ میں مگن ہو کر حقوقُ العباد چھوڑ دیں اور حقوقُ العباد میں مصروف ہوکر حقوقُ اللہ سے غافل ہوجائیں۔ ہمارے ہاں یہ اِفراط و تفریط بکثرت پائی جاتی ہے اور یہ دین سے جہالت کی وجہ سے ہے۔

مزید ایک مقام پر اللہ ربُّ العزت مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے سورةُ الفرقان کی آیت 63 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور رحمٰن کے وہ بندے کہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)تفسیر مدارک میں اس آیت کریمہ کے تحت فرمایا کہ کامل ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے۔( مدارک، الفرقان، تحت الآیۃ: 63، ص809، ملخصاً)

اور اسی آیت کے دوسرے حصہ کے تحت ابوداؤد میں لکھا ہے کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘ اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔( ابو سعود، الفرقان، تحت الآیۃ: 63 ، 4 / 148)

اللہ پاک ان کی خلوت بیان کرنے ہوئے قراٰنِ مجید کی سورة الفرقان آیت 64 میں ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام میں ۔(پ19،الفرقان:64)، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ کامل ایمان والوں کی خلوت و تنہائی کا حال یہ ہے کہ ان کی رات اللہ پاک کے لئے اپنے چہروں کے بل سجدہ کرتے اور اپنے قدموں پر قیام کرتے ہوئے گزرتی ہے۔( خازن، الفرقان، تحت الآیۃ: 64 ، 3/ 378)

سورةُ السجدة کی آیت 16 میں ارشاد فرمایا کہ ﴿تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: ان کی کروٹیں ان کی خوابگاہوں سے جدا رہتی ہیں اور وہ ڈرتے اور امید کرتے اپنے رب کو پکارتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے خیرات کرتے ہیں ۔(پ21، السجدۃ:16)یعنی وہ اپنے رب کے حضور اس شوق و لگن سے عبادت کرتے ہیں کہ اپنی ساری رات عبادت میں گزار دیتے ہیں۔ اللہ پاک سے ڈرتے اور پختہ امید رکھتے ہوئے اللہ پاک کو پکارتے ہیں۔ اور اللہ کے دیے ہوئے مال سے راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔

اور سورةُالذاریات کی آیت 15 تا 17 میں ارشاد فرماتا ہے کہ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک پرہیزگار لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ اپنے رب کی عطائیں لیتے ہوئے، بیشک وہ اس سے پہلے نیکیاں کرنے والے تھے۔ وہ رات میں کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔ تفسیر صراط الجنان میں ابوسعود اور خازن کے حوالے سے اس آیت کے تحت بیان کیا گیا ہے کہ بے شک پرہیز گار لوگ ان باغوں میں ہوں گے جن میں لطیف چشمے جاری ہیں اور اللہ پاک انہیں جو کچھ عطا فرمائے گا اسے راضی خوشی قبول کرتے ہوں گے ۔ بیشک وہ جنت میں داخل ہونے سے پہلے دنیا میں نیک کام کرتے تھے اسی لئے انہیں یہ عظیم کامیابی نصیب ہوئی۔( ابو سعود، الذّاریات، تحت الآیۃ: 15-16 ، 5 / 628، خازن، الذّاریات، تحت الآیۃ: 15-16 ، 4/ 181، ملتقطاً)

قراٰنِ پاک کی درج بالا آیات سے پتہ چلتا ہے کہ مؤمن کیسی پیاری پیاری صفات کا گلدستہ ہوتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہر معامَلے میں عَدْل و انصاف اور سچّائی پر قائم رہتے زندگی بسر کریں۔ نیکی کی دعوت کی دھومیں مچائیں اور برائی سے منع کرتے ہوئے اپنی زندگی کے لمحات گزاریں تاکہ جنت ہمارا مقدر بنے۔ اللہ پاک ہمیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی طاقت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم