ہمارا یہ کالم مؤمن مرد کی صفات پر مشتمل ہے اس کالم میں پہلے کچھ آیات مبارکہ پیش کی جائیں گی اور اس کے بعد اسی آیت کے تحت ایک حدیثِ مبارکہ بھی ملحوظ خاطر رکھی جائے گی ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس آیت میں  ایمان والوں  کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ  اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں  کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں  داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں  گے۔(صراط الجنان)

﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) یہاں  سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ، چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں  میں   اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)

حضرت عثمان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان شخص پر فرض نماز کا وقت آ جائے اور وہ ا س نماز کا وضو اچھی طرح کرے پھر نماز میں  اچھی طرح خشوع اور رکوع کرے تو وہ نماز اس کے سابقہ گناہوں  کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک کہ وہ کوئی کبیرہ گناہ نہ کرے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔ (مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضو ء والصلاۃ عقبہ، ص142، حدیث: 228)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)فلاح پانے والے مؤمنوں  کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں۔

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کودینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو،کھیل کود،فضول کاموں  میں  وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں  ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے  اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں  مصروف رہنا چاہئے۔(صراط الجنان ، المؤمنون :1)

اَحادیث میں  بھی لا یعنی اور بیکار کاموں  سے بچنے کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ  اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:آدمی کے اسلام کی اچھائی میں  سے یہ ہے کہ وہ لایعنی چیز چھوڑ دے۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، 11باب، 4 / 142، حدیث: 2324)

یعنی جو چیز کار آمد نہ ہو اس میں  نہ پڑے، زبان، دل اور دیگر اَعضاء کو بے کار باتوں  کی طرف متوجہ نہ کرے کیونکہ اس میں اُس کے لیے ہی خسارہ ہے۔

﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں  کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں  پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں اسی ضمن میں ایک حدیثِ مبارکہ ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کر دی، تو بیشک ا س کے مال کا شر اُس سے چلا گیا۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1/ 431، حدیث: 1579)

﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں  سے اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرتے ہیں  البتہ اگر وہ اپنی بیویوں  اور شرعی باندیوں  کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں  تو اس میں  ان پر کوئی ملامت نہیں۔(صراط الجنان)

حدیثِ پاک میں  زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں  سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں  حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں  کے درمیان میں  ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں  پاؤں  کے درمیان میں  ہے یعنی شرمگاہ کا، میں  اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں۔( بخاری، کتاب الرقاق، باب حفظ اللسان، 4/ 240، حدیث: 6474)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں  فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں  خیانت نہیں  کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں  اسے پورا کرتے ہیں ۔(صراط الجنان، المؤمنون : 8)

اس وصف کے تحت ایک حدیث پاک پیش کرنے کی سعادت عطا کی جاتی ہے، چنانچہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں  کے ضامن ہو جاؤ، میں  تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں  کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں  کو روکو۔( مستدرک، کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، 5 / 513، حدیث: 8130)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں  جو اپنی نمازوں  کی حفاظت کرتے ہیں  اور انہیں  اُن کے وقتوں  میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں  اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔(صراط الجنان، المؤمنون : 9)

اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) ترجمۂ کنز الایمان :یہی لوگ وارث ہیں۔(پ18، المؤمنون:10)

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں  میں  ما قبل آیات میں  مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں  یہی لوگ کافروں  کے جنتی مقامات کے وارث ہوں  گے۔ یہ فردوس کی میراث پائیں  گے اور وہ جنتُ الفردوس میں  ہمیشہ رہیں  گے، نہ انہیں  اس میں  سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں  انہیں  موت آئے گی۔(صراط الجنان، المؤمنون : 10 )

اے  اللہ ! ہمیں  فردوس کی میراث پانے والوں  اور اس کی عظیمُ الشان نعمتوں  سے لطف اندوز ہونے والوں  میں  سے بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما، اور ہمیں مؤمنین کی ان تمام کی تمام صفات سے موصوف فرما، قراٰنِ مجید میں دیئے گئے احکامات کی پابندی و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم