"مؤمن" وہ ہے جو ایمان کی صفت سے متصف ہو اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکامات کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ قراٰنِ کریم میں مؤمنین کی کئی صفات بیان ہوئی ہیں جن میں سے 12 صفات درج ذیل ہیں:

( 1 تا 3) امر بالمعروف و نھی عن المنکر اور نیکیوں میں جلدی: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۴)ترجمۂ کنزالایمان: اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں اور یہ لوگ لائق ہیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:114) یعنی مؤمن کی شان یہ ہے کہ وہ بھلائی کا حکم دیتا ہے ، برائی سے منع کرتا ہے اور نیکیوں میں جلدی کرتا ہے ۔

( 4 ، 5) امانتوں اور وعدے کا پابند: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت مبارکہ میں مؤمنین کے دو وصف بیان کئے گئے ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔

( 6 تا 8) نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی اور آخرت پر یقین: ﴿الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور آخرت پر یقین لائیں ۔ (پ21، لقمٰن: 4) اس آیتِ مبارکہ میں بھی مؤمنین کے تین اوصاف بیان ہوئے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں ، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔

( 9 تا 11) راتوں کو قیام ، خوفِ خدا اور انفاق فی سبیل اللہ: ﴿تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا٘-وَّ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَ(۱۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اُن کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے اور اپنے رب کو پکارتے ہیں ڈرتے اور اُمید کرتے اور ہمارے دئیے ہوئے میں سے کچھ خیرات کرتے ہیں ۔(پ21، السجدۃ:16) اس آیت میں ایمان والوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ رات کے وقت نوافل پڑھنے کے لئے نرم و گُداز بستروں کی راحت کو چھوڑ کر اُٹھتے ہیں اور ذکرو عبادتِ الٰہی میں مشغول ہوجاتے ہیں نیز اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے اور اس کی رحمت کی امید کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں اور ہم نے انہیں جو مال عطا کیا ہے اس میں سے وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔

(12) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تصدیق: ﴿وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جنہوں نے ان کی تصدیق کی یہی ڈر والے ہیں ۔(پ24،الزمر: 33)

اس آیت میں صِدق سے کیا مراد ہے اوراسے لانے والے اور ا س صِدق کی تصدیق کرنے والے سے کیا مراد ہے اس بارے میں مفسرین کے مختلف اَقوال ہیں ۔

ایک قول کے مطابق سچ لے کر تشریف لانے والے سے مراد حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اور تصدیق کرنے والے سے تمام مؤمنین مراد ہیں(تفسیر مدارک ، الزمر ، تحت الاٰیۃ 33)

یعنی ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ یہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اور جو کچھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لے کر آئے ان تمام چیزوں کی تصدیق کرنے والے ہیں ۔

محترم قارئین! یہ وہ صفات ہیں کہ جس مسلمان میں یہ پائی جائیں تو دنیا و آخرت میں وہ کامیاب ہے ۔ بے شک یہ کامل ایمان والوں کی نشانیاں ہیں اللہ پاک ہمیں بھی ان صفات سے متصف فرمائے اور ہمارا خاتمہ ایمان بالخیر فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم