قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے کئی مقامات پر مؤمنوں کی صفات بیان کی ہیں۔ پہلے تو یہ جان لیں کہ صفات کسے کہتے ہیں ؟ صفات صفت کی جمع ہے۔ صفت دو طرح کی ہوتی ہے اچھی اور بری۔ خوبی کو اچھی صفت اور خامی کو بری صفت کہتے ہیں۔ قراٰنِ پاک میں مؤمنوں کی کئی صفات بیان کی گئ ہیں۔ یہاں مؤمنوں کی صفات سے مراد مؤمنوں کی خوبیاں ہیں ان میں سے دس درج ذیل ہیں:

(1) اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے (2) فضول بات سے منہ پھیرنے والے (3)زکوۃ دینے والے(4) اپنی شرمگا ہوں کی حفاظت کرنے (5)امانت میں خیانت نہ کرنے والے (6)وعدہ پورا کرنے والے (7) اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے والے(پ 18،المؤمنون 9-1 ملخصاً)

(8)زمین پر آہستہ چلنے والے (9)اپنی کروٹوں کو اپنی خوابگاہوں سے جدا رکھنے والے (10)الله پاک کے عطا کیے ہوئے مال میں سے بھلائی کے کاموں میں خرچ کرنے والے۔(تفسیر صراط الجنان، پ 19،الفرقان 63 ملخصاً)

مؤمنوں کا پہلا وصف یہ بیاں کیا گیا کہ وہ خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں۔ فضول بات سے فلاح پانے والے مؤمنوں کا دوسرا وصف یہ ہے کہ وہ ہر لہو و باطل سے بچے رہتے ہیں اہلِ ایمان کا تیسرا وصف یہ بیان کیا گیا کر وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوۃ دیتے ہیں۔ ایمان والوں کا چوتھا وصف یہ ہے کہ وہ زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ ا اہل ایمان کے دو وصف یہ بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔ کامیابی حاصل کرنے والے مؤمنوں کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کر تے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔ جن ایمان والوں میں یہ اوصاف ہیں وہ فردوس کی میراث پائیں گے اور وہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔(تفسیر صراط الجنان، پ 18،المؤمنون 9-1ملخصاً)

قراٰنِ پاک میں مؤمنوں کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ زمین پر آہستہ چلتے ہیں۔ قراٰنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)ایک اور جگہ فرمایا: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں اتراتے ہوئے نہ چل بیشک توہر گز نہ زمین کو پھاڑ دے گا اور نہ ہرگز بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ جائے گا۔(پ 15، الاسرا : 13) حدیثِ پاک میں بھی مسلمانوں کو آہستہ، سکون و اطمینان سے چلنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : تمہارے لئے سکون (سے چلنا) ضروری ہے کیونکہ دوڑنے میں کوئی نیکی نہیں ہے۔(بخاری شریف ،کتاب الحج، باب امر النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بالسكينۃ عند الافاضة... الخ ، 1/558، حدیث: 1671 مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت)

ایمان والوں کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی کروٹوں کو اپنی خوابگاہوں سے جدا رکھتے ہیں یعنی وہ رات کے نوافل پڑھنے کے لئے نرم و ملائم بستروں کی راحت کو چھوڑ کر اٹھتے ہیں اور ذکر و عبادتِ الہٰی میں مشغول ہو جاتے ہیں نیز اس کی رحمت کی امید کرتے ہوئے اسے پکارتے ہیں۔(صراط الجنان تحت الآیۃ پ 19 ،الفرقان: 64)

اہلِ ایمان کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ جو مال الله پاک نے انہیں عطا کیا ہے اس میں سے وہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں خرچ کرتے ہیں۔(صراط الجنان، پ 1البقرہ ،تحت الآیۃ 3 ملخصاً ) حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ جس نے اپنا زائد مال راہ خدا میں خرچ کیا تو اس کے لئے سات سو گنا اجر ہے، اور جس نے اپنی جان اور اپنے اہل و عیال پر خرچ کیا ،یا کسی مریض کی عبادت کی یا اذیت دینے والی چیز کو ہٹایا تو اس کے لیے دس گنا اجر ہے۔ (مسند امام احمد ، حدیث ابی عبیدہ بن الجراح واسمہ عامر بن عبد الله رضی اللہ عنہ، 1/414، حدیث 1690، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ان صفات کو اختیار کرنے اور کامل مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم