نصیر احمد عطاری (درجہ دورہ
حدیث،مرکزی جامعۃُ المدينہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اللہ پاک نے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اہلِ ایمان کی
تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿مَنْ
عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ
حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا
یَعْمَلُوْنَ(۹۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو
مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے اور ضرور انہیں ان کا نیگ دیں گے جو
ان کے سب سے بہتر کام کے لائق ہو۔ (پ 14 ، النحل: 97 ) اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک
نے ارشاد فرمایا کہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے
دنیا میں حلال رزق اور قناعت عطا فرما کر اور آخرت میں جنت کی نعمتیں دے کر پاکیزہ
زندگی دیں گے۔ بعض علما نے فرمایا کہ اچھی زندگی سے عبادت کی لذت مراد ہے ۔
حکمت :مؤمن اگرچہ فقیر بھی ہو اُس کی زندگانی دولت مند
کافر کے عیش سے بہتر اور پاکیزہ ہے کیونکہ مؤمن جانتا ہے کہ اس کی روزی اللہ پاک
کی طرف سے ہے جو اُس نے مقدر کیا اس پر راضی ہوتا ہے اور مؤمن کا دل حرص کی
پریشانیوں سے محفوظ اور آرام میں رہتا ہے اور کافر جو اللہ پاک پر نظر نہیں رکھتا
وہ حریص رہتا ہے اور ہمیشہ رنج ، مشقت اور تحصیلِ مال کی فکر میں پریشان رہتا ہے۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال پر ثواب ملنے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے ، کافر
کے تمام نیک اعمال بیکار ہیں ۔(تفسیرِ خازن،سورة النحل، تحت الآیۃ: 97 ، 3 /
141-142، ملخصاً)
انسان و مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا سب سے پہلا تعلّق
اپنے ربّ کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق و مالک و رازق ہے قراٰنِ مجید میں کئی
مقامات پر اللہ پاک پر ایمان رکھنے والے مؤمنین کے اوصاف و کمالات بیان کئے گئے
ہیں ۔
آیئے! اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰنِ مجید میں مؤمن مرد
کے جو اوصاف و کمالات بیان کئے ہیں ان میں سے کچھ کا مطالعہ کرتے ہیں:
(1) نماز تو مسلمان
کے لئے معراج ہے قراٰنِ مجید میں کثیر مقامات پر اللہ پاک نے ایمان والوں کو نماز
قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور مسلمان ، مؤمن مرد وقت پر پابندی اور خشوع و خضوع سے
نماز پڑھنے والا ہوتا ہے ۔
چنانچہ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ
کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اس آیتِ کریمہ میں
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ،
اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(
تفسیرِ مدارک،سورة المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ، ص751)
نماز میں ظاہری و باطنی خشوع: نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا
ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً
نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی
طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ
لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ
چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت
پیشِ نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(تفسيرِ صاوی، سورة
المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ،4 / 1352)
(2) مؤمن مرد
فرض ہونے کی صورت میں زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بھی کئی
مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ زکوٰۃ دو ، اور مؤمن مرد اللہ پاک کے اس فرمان پر
عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ بھی دیتا ہے اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں بھی
فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ
فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
اس آیتِ مبارکہ میں مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ایک وصف بیان
کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے
ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘
بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک
کرنے کا کام کرتے ہیں۔( البحر المحیط ، سورة المؤمنون ، تحت الآیۃ : 4 ، 6 /
366)
(3) مؤمن مرد کی
صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں
خرچ کرتا ہے۔ اس کا ذکر بھی اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا کہ: ﴿وَ مِمَّا
رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔
(پ1،البقرۃ:3)اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ پاک
کے دیئے ہوئے رزق میں کچھ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ راہِ خدا
میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا
تذکرہ ہے یا اس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ،
طلبہ ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیائے کرام یا فوت شدگان کے
ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ
نافلہ ہیں۔
(4) مؤمن مرد کی
صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جب مؤمن مرد کے سامنے اللہ پاک کا نام لیا جائے تو ربّ
کریم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے ، وہ گناہ کرنے سے باز آ جاتا ہے ،
اللہ پاک کی نافرمانیاں کرنے سے رک جاتا ہے اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام
میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ اِذَا ذُكِرَ
اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔ (پ9،الانفال:2) اس آیتِ
کریمہ میں مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ
جب اللہ پاک کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔
اللہ پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا
ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ
پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا
خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا
خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیاء کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا
اللہ پاک سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا
ہے۔ (تفسیرِ کبیر،سورة الانفال، تحت الآیۃ: 2،
5/ 450 ملتقطاً)
(5) مؤمن مرد کی
صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کے سامنے قراٰنِ پاک کی آیات تلاوت کی جاتی
ہیں تو اس کا اپنے رب پر بھروسہ اور ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا ذکر بھی
اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ
زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے
۔(پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں
زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔
(6) مؤمن مرد کے
اوصاف میں سے ہے کہ وہ تمام امور اللہ پاک کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کا ذکر اللہ
کریم قراٰنِ مجید میں یوں فرماتا ہے کہ: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ
کریں۔(پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں ہے کہ وہ اپنے تمام
کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے
ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ ( تفسیرِ خازن، سورة الانفال، تحت
الآیۃ: 2، 2 / 176)
توکل کا حقیقی معنی: امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’توکل کا یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں
کو مُہمَل چھوڑ دے جیسا کہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکل یہ ہے کہ انسان ظاہری
اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ پاک کی
نصرت ،اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے ۔ (تفسیر کبیر،سورة اٰل
عمران، تحت الآیۃ: 159 ، 3/ 410)
(7) مؤمن مرد کی
صفات میں سے ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں
یوں فرمایا ہے کہ: ﴿الَّذِیْنَ
یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو
نماز قائم رکھیں ۔ (پ21، لقمٰن: 4) اس آیتِ کریمہ میں مؤمن مرد کا وصف بیان کیا
گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور
باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نماز پڑھی جائے۔ نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ،
ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اور نماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا
خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ
آدمی دل کوغیرُ اللہ کے خیال سے فارغ کرکے ظاہر و باطن کے ساتھ
بارگاہِ حق میں متوجہ ہو اور بارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو
جائے۔( تفسیرِ بیضاوی،سورة البقرۃ، تحت الآیۃ: 3 ، 1/ 115-117)
(8) مؤمن مرد کی
صفات میں سے ہے کہ وہ زمین پر اطمینان سے چلتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ
مجید میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى
الْاَرْضِ هَوْنًا ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:63)اس
آیت میں بیان ہوا کہ کامل ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ
وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔
مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے۔(
تفسیرِ مدارک،سورة الفرقان، تحت الآیۃ: 63، ص809، ملخصاً)
(9) مؤمن مرد
کی صفات میں سے ہے کہ یہ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے
قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ
الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس
سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)اس آیتِ کریمہ میں یہ بیان ہوا کہ کامل ایمان والے
دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے
بات کرتے ہیں اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات
کہتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘ اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے
اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں یا
اس کے یہ معنی ہیں کہ ایسی بات کہتے ہیں جو درست ہو اور اس میں
ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔(تفسیرِ ابو سعود، سورة الفرقان، تحت
الآیۃ: 63 ، 4 / 148)
(10) مؤمن مرد
کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ ہی
تنگی کرتے ہیں۔ اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا
ہے کہ: ﴿وَ الَّذِیْنَ
اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ
قَوَامًا(۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے
بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)