محمد حارث عطاری (درجہ سادسہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
انسان و مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے رب
کریم سے ہے کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر اللہ کریم پر
ایمان رکھنے والے مؤمن کے اوصاف کا بیان ہے آئیے قراٰنِ پاک کی جن ایات میں مردِ
مؤمن کی شان بیان کی گئی، ان کا مطالعہ کرتے ہیں :
(1) مسلمان کے سامنے
اللہ کریم کا نام لیا جائے تو رب عظیم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے اور
جب اس کے سامنے اپنے رب پر بھروسا اور ایمان مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک کا
فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا
ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ
زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا
جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی
پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)
(2) مؤمن اللہ کریم
کی بارگاہ میں بہت توبہ و استغفار کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان خدا وندی ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ
الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے
سجدہ والے ۔ (پ 11،التوبۃ : 112)
(3 ) مؤمن کو
جب اللہ کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم سنایا
جاتا ہے تو فوراً مانتا ہے۔ ﴿اِنَّمَا كَانَ
قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ
بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱)﴾ ترجَمۂ
کنزُالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ
رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد
کو پہنچے۔ (پ 18،النور: 51)
(4) نماز مؤمن کی معراج ہے مؤمن وقت پر اور خشوع و خضوع سے
نماز پڑھنے والا ہوتا ہے اللہ پاک کا ارشاد : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے
والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)
(5)مؤمن فرض روزوں کی
پابندی کرنے والا ہوتا ہے اللہ پاک کا فرمان ہے : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ
لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے
لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔(پ2،البقرۃ:183)
(6) مؤمن وہ اللہ
کریم کے دیئے ہوئے مال و رزق سے اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ پاک کا ارشاد ہے:
وَ مِمَّا
رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ
کرتے ہیں۔ (پ1، البقرۃ: 3)
(7) مؤمن فضولیات
اور بیہودہ باتوں اور کاموں سے دور رہنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان خدا وندی ہے: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)
(8) مؤمن بھلائی
اور نیکی کے کاموں کی طرف جلدی بڑھنے والا ہوتا ہے ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ
فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(۶۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی بھلائیوں کی
طرف سبقت لے جانے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:61)
(9) مؤمن اپنے
بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی نہیں کرتا ۔ قراٰنِ مجید میں ہے:﴿ وَ لَا یَغْتَبْ
بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ ( پ26،الحجرات: 12 )
(10) مؤمن زکوة
فرض ہونے کی صورت میں ادا کرتا ہے ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18،
المؤمنون:4)
اللہ پاک ہمیں بھی مؤمن کی صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم