محمد اسد جاوید (درجہ سادسہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور، پاکستان)
اللہ پاک نے انسان کو پیدا فرمایا اور اپنی عبادت کرنے کا
حکم ارشاد فرمایا جن لوگوں نے اس کا حکم مانا وہ کامیاب ہو گئے جنہوں نے نافرمانی
کی وہ ہمیشہ کے عذاب کے حقدار ٹھہرے ۔
کامیاب کون لوگ ہیں؟: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اللہ پاک نے مؤمنین کو کامیاب گروہ فرمایا ساتھ ہی قراٰنِ پاک
میں مؤمنین کی کئی صفات کو بھی بیان فرمایا ہے ۔ آئیے ان صفات کو عمل کی نیت سے
پڑھتے ہیں:
( 1)اللہ پاک سے محبت کرنے والا : ایک بندۂ مؤمن تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ پاک سے محبت
کرتا ہے۔ محبتِ الہٰی میں جینا اور محبتِ الہٰی میں مرنا اس کی حقیقی زندگی ہوتا
ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم و گداز بستروں کو چھوڑ کر
بارگاہِ نیاز میں سر بَسجود ہونا، یادِ الہٰی میں رونا، رضائے الہٰی کے حصول کیلئے
تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے یہ سب وہ
اللہ کے لئے کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)
( 2)خوف خدا : ایک مردِ مؤمن کی یہ نمایاں صفت ہوتی ہے وہ اپنے خالق و مالک عزوجل سے ڈرنے
والا ہوتا ہے اس کا دل خوفِ خدا سے لبریز ہوتا ہے اس خوف کہ وجہ سے وہ گناہ کے
قریب بھی نہیں جاتا ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ
اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔
(پ9،الانفال:2)
( 3)قراٰن سن کر مؤمن کے ایمان میں اضافہ ہوتا
ہے: مؤمن کامل جب قراٰنِ پاک کی تلاوت کو سنتا ہے یا پڑھتا
ہے تو اس کے ایمان میں اور اضافہ ہوتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذَا
تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی
پائے ۔(پ9،الانفال:2) یاد رہے یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی
مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔
( 4)اپنے رب پر بھروسہ کرنے والا : ایک مؤمن کامل اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتا ہے۔ یعنی وہ اپنے
تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتا ہے ، اس کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا اور
نہ کسی سے ڈرتا ہے
اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ
کریں۔(پ9،الانفال:2)
( 5)نماز میں خشوع و خضوع کرنے والا: کامل ایمان والا خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے ،
اس وقت اس کے دل میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور اس کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔ وہ
اللہ کے خیال کے علاوہ کسی کا خیال دل میں نہیں لاتا۔ چنانچہ ارشاد ربُّ العالمین
ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ
کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اللہ پاک کے آخری
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں خشوع وخضوع کے بارے میں ارشاد فرماتے
ہیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹے! نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو
کیونکہ نماز میں اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔ (ترمذی، 2/ 102، حدیث: 589)
( 6)فضول گوئی سے بچنے والا : جہاں ایک مؤمن کامل ہر اس بات سے بچتا ہے جس میں گناہ
ہوتا ہے ساتھ ہی وہ ایسی باتوں سے بھی بچتا ہے جن میں نہ گناہ اور نہ ثواب ہوتا ہے
یعنی فضول باتوں سے اور لغویات سے اجتناب کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے:
﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)
( 7)زکوٰۃ ادا کرنے والا : ایک نیک مسلمان جہاں تمام احکام الہیہ کو بجا لانے والا ہوتا ہے وہیں اسلام
کے اہم ترین رکن زکوٰۃ کو بھی ادا کرتا ہے کیونکہ اس کے پیش نظر زکوٰۃ نہ دینے کا
انجام اور اس سے بڑھ کر اپنے رب کریم کی رضا ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی
ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
( 9)شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا : مردِ مؤمن اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے یعنی زنا اور
زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے وہ اگر
اپنی بیوی اور شرعی باندی پر جائز طریقے سے صحبت کرے تو اس میں اس پر کوئی حرج
نہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر
کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)
( 11،10) امانت اور وعدے کی رعایت کرنے والا : مؤمن کامل کا نمایاں وصف امین یعنی امانت دار ہونا بھی
ہے وہ کبھی امانت میں خیانت نہیں کرتا، چاہے امانتیں اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی،
مال کی امانت ہو یا کسی کے راز کی، وہ ہر حال میں اس وصف سے موصوف ہوتا ہے۔ اس کے
ساتھ ساتھ وہ وعدے کو بھی پورا کرنے والا ہوتا ہے وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ
عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو
جاؤ، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو
پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں کو روکو۔ ( مستدرک،5
/ 513، حدیث: 8130)
اللہ پاک ہمیں ان اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہمیں کامل مؤمن بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم