مؤمن کسے کہتے ہیں؟: مؤمن وہ ہے جو ضروریاتِ دین پر ایمان رکھے اور زندگی اللہ پاک اور اس کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کے مطابق گزارے۔ قراٰنِ پاک میں مختلف مقامات پر اللہ پاک نے بندۂ مؤمن کی مختلف صفات بیان کی ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور ایمان والے سب سے زیادہ اللہ سے محبت کرتے ہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)

مؤمن تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ پاک سے محبت کرتا ہے ۔ محبت الہی میں جینا اور اسی میں مرنا اس کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا ، نرم بستر کو چھوڑ کر اللہ کی بارگاہ میں قیام و سجدے کرنا، اس کی یاد میں آنسو بہانا، رضائے الہی کیلئے تڑپنا ، اللہ پاک کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور کسی سے کچھ روک لینا ، نعمت پر شکر، مُصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، احکام الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دل و جان سے محبوب رکھنا اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

سورۃُ الانفال میں اللہ پاک مؤمنین کی صفات یوں بیان فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ وہ جو نماز قائم رکھتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2تا3)

ان دو آیات میں مؤمنین کے پانچ اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن میں سے تین اوصاف کا تعلق قلبی اعمال سے ہیں اور دو اوصاف کا تعلق ظاہری اعضاء کے اعمال سے ہیں: (1)جب اللہ پاک کو یاد کرتے ہیں تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں۔ (2) اللہ پاک کی آیات سن کر ان کے ایمان کی نورانیت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ (3)وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ (4)نماز قائم کرتے ہیں۔ (5)اس کے دیے ہوئے رزق میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔

پھر اس سے اگلی آیت میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔ (پ9،الانفال: 4)

اللہ کریم ایک اور مقام پر مؤمنین کی چند صفات بیان فرماتا ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۱۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور مسلمانوں کو (جنت کی) خوشخبری سنا دو۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

سورۃُ المؤمنون کے آغاز میں ہی اللہ پاک نے مؤمنین کی کچھ صفات بیان فرمائیں: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون:1تا5)

پھر دو آیات کے بعد اللہ پاک نے مؤمنین کی مزید صفات بیان فرمائیں اور اس کے بعد مؤمنین کے انعام و مقام کا ذکر فرمایا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:8تا11)

آئیں ہم سب اپنا محاسبہ کرتے ہیں کہ کیا ہم میں یہ مذکورہ صفات پائی جاتی ہیں یا نہیں؟ کیا ہم حقیقی مؤمنین ہیں کہ نہیں ؟ گلاب کے پھول میں اگر خوشبو نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صرف نام کا گلاب ہے اس میں گلاب والی خوشبو تو ہے نہیں ۔ اسی طرح اگر شہد ہو اور اس میں مٹھاس نہ ہو تو کہا جائے گا کہ یہ صرف نام کا شہد ہے اس میں شہد والی مٹھاس تو ہے نہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی مؤمن ہو لیکن اس میں مؤمنین والی صفات نہ ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ صرف نام کا مؤمن ہے اس میں مؤمنین والی صفات تو ہیں نہیں ۔

گفتار کے غازی بن تو گئے

کردار کے غازی بن نہ سکے

اللہ پاک ہم سب کو حقیقی مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔