محمد اسماعیل عطّاری (درجہ
سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ بخاری موسیٰ لین کراچی، پاکستان)
اللہ پاک، اس کے فرشتوں اس کی کتابوں، رسولوں، آخرت کے دن،
اس کی طرف سے اچھی و بری تقدیر، اور موت کے بعد اٹھائے جانے پر ایمان لانے والے کو
مؤمن کہتے ہیں۔ مؤمن وہ خوش نصیب انسان ہے جس کی صفات اللہ پاک کے اپنے پیارے و
آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کردہ آخری کتاب قراٰنِ مجید میں
بیان ہوئی ہیں چنانچہ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ
الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ
الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ
لِحُدُوْدِ اللّٰهِؕ-﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: توبہ کرنے والے، عبادت کرنے والے، حمد
کرنے والے، روزہ رکھنے والے، رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے، نیکی کا حکم دینے
والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ (پ
11،التوبۃ : 112)اس آیت میں ایمان والوں کے نو اوصاف بیان کیے گئے ہیں جن میں سے
پہلے چھ اوصاف اللہ پاک کے حقوق کے ساتھ متعلق ہیں اور بعد کے دو مخلوق کے حقوق کے
ساتھ۔
(1) اَلتَّآىٕبُوْنَ:( توبہ کرنے والے) تائب بنا ہے توبہ سے اس کا معنی ہے
"لوٹنا"۔ بندے کی توبہ یہ ہے کہ وہ گناہوں سے نیکیوں کی طرف لوٹے۔ بندے
کی توبہ چار چیزوں سے مکمل ہوتی ہے: (1) گناہ کرتے وقت دل کا ملامت کرنا اس گناہ
سے راضی نہ ہونا (2) پھر اس حرکت پر شرمندہ ہونا (3) آئندہ جرم نہ کرنے کا ارادہ
کرنا (4) یہ سب کچھ رضائے الٰہی کے لئے ہونا۔ اپنے نام نمود اور لوگوں میں عزت
حاصل کرنے کی نیت کو دخل نہ ہونا۔ توبہ کفر سے، نفاق اور سارے گناہوں سے ہوتی ہے
یہاں آخری معنی مراد ہیں۔ یعنی ہر گناہ سے توبہ کرنے والے خواہ دلی گناہ ہوں جیسے
کفر و شرک یا جسمانی گناہ ہوں پھر جیسا گناہ ویسی توبہ۔( تفسیر نعیمی ج11 تحت
الآیۃ)
(2) الْعٰبِدُوْنَ: (عبادت کرنے والے) عبادت کا معنی ہے غایت تذلل کا اظہار
کرنا جو لوگ اللہ کے سامنے انتہائی عجز اور ذلت کا اظہار کریں وہ عابدین ہیں، جو
لوگ اخلاص کے ساتھ اللہ پاک کے احکام پر عمل کریں اور اس عمل پر حریص ہوں وہ
عابدین ہیں۔
(3) الْحٰمِدُوْنَ:( حمد
کرنے والے) حمد کے معنی ہیں صفاتِ کمالیہ کا اظہار اور حسن و خوبی کا بیان کرنا
اور اگر حمد نعمت کے مقابلے میں کی جائے تو وہ شکر ہے پس الْحٰمِدُوْنَ وہ لوگ ہیں جو اللہ کی قضا پر راضی رہتے ہیں اور اس کی نعمت کو اس کی اطاعت
میں خرچ کرتے ہیں اور ہر حال میں اللہ کی حمد کرتے ہیں۔
(4) السَّآىٕحُوْنَ: (روزہ رکھنے والے) روزے کی دو قسمیں ہیں: حقیقی اور حکمی۔
حقیقی روزہ یہ ہے کہ طلوعِ فجر سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور عملِ ازدواج کو
ترک کر دیا جائے اور حکمی روزہ یہ ہے کہ تمام اعضاء اللہ کی معصیت کو ترک کر دیں
اور اس آیت میں سے السَّآىٕحُوْنَ سے یہی مراد ہے۔
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے فرمایا: یہ لفظ سِیٰحٌ سے بنا ہے بمعنی سفر کرنا اور تیرنا۔ سیدنا عبداللہ ابن
عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ قراٰنِ مجید میں جہاں کہیں یہ لفظ آئے تو اس کے
معنی ہوتے ہیں روزے رکھنے والے کیونکہ روزے سے آخرت کی روحانی منزلیں طے ہوتی ہیں
جیسے سفر سے جسمانی منزلیں۔( تفسیر نعیمی ،ج11 تحت الآیۃ )
(6،5) الرّٰكِعُوْنَ
السّٰجِدُوْنَ: (رکوع کرنے والے، سجدہ کرنے والے) اس سے مراد نمازی ہیں۔
اگرچہ نماز میں قیام اور بیٹھنا بھی ہوتا ہے مگر رکوع سجدہ اس کے خاص ارکان ہیں
کیونکہ کھڑا ہونا، بیٹھنا دوسرے کاموں میں ہوتا ہے رکوع سجدہ صرف نماز میں اس لیے
اکثر رکوع سجدے سے مراد نماز ہوتی ہے اگرچہ عابدون میں نمازی بھی داخل تھے مگر
چونکہ نماز بہت اعلی درجے کی عبادت ہے کہ ساری عبادات فرش پر بھیجی گئی مگر نماز
معراج میں عرش پر بلا کر دی گئی۔ اس لیے خصوصیت سے اس کا ذکر علیحدہ فرمایا۔(
تفسیر نعیمی، ج11)
اب تک مؤمنوں کی
وہ چھ صفات بیان ہوئیں جو انہیں خود اپنے لیے مفید ہیں اب ان کی وہ صفات بیان ہو
رہی ہیں جن کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچتا ہے۔ چنانچہ۔۔
(8،7) الْاٰمِرُوْنَ
بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ: (نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے) حکم اور ممانعت زبانی،
عملی، قلمی ہر طرح کی ہوتی ہے یہاں ساری قسمیں مراد ہیں جیسی تبلیغ ممکن ہو ویسی
کرے نیز معروف سے مراد ہر بھلائی ہے اعتقادی ہو یا عملی یوں ہی منکرین میں ہر
برائی داخل ہے۔
(9) وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِ : (اور اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے ہیں) اللہ پاک نے
بندوں کو جن احکام کا مکلف کیا ہے وہ بہت زیادہ ہیں، ان کو دو قسموں میں منضبط کیا
جا سکتا ہے: عبادات اور معاملات، عبادات جیسے نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج وغیرہ اور
معاملات جیسے خرید و فروخت، نکاح، طلاق وغیرہ اور جن چیزوں سے اللہ پاک نے منع کیا
ہے: قتل، زنا، چوری، ڈاکہ، شراب نوشی اور جھوٹ وغیرہ یہ تمام امور اللہ کی حدود
ہیں۔ جن چیزوں کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے ان کو مکمل طریقہ سے ادا کرنا اور جن سے
منع کیا ہے ان سے باز رہنا یہ اللہ پاک کی حدود کی حفاظت ہے۔
پہلے اللہ پاک نے
آٹھ امور کو تفصیلاً بیان فرمایا اور نواں اور آخری امر یعنی حدود اللہ کی حفاظت
ان سب امور کو جامع ہے۔
مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غرض کہ
مؤمن کا سونا جاگنا حرکت و سکون اللہ و رسول کے فرمان کے ماتحت ہو یہ فرمان شریعت
و طریقت کی جامع ہے رب تعالیٰ عمل کی توفیق دے۔( تفسیر نعیمی ج11 تحت الآیۃ )
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان مذکورہ اوصاف کو اپنا کر
اپنا مخلص بندہ بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم