خاندانی نظام کو اسلامی معاشرہ میں بنیادی اہمیت حاصل ہے مرد و عورت خاندانی نظام کے مرکزی کردار ہیں، شادی کے بندھن میں بندھنے کے بعد مرد و عورت پر ایک دوسرے کے حقوق عائد ہو جاتے ہیں بہتر زندگی اور پرسکون ماحول کے لیے ضروری ہے کہ ان حقوق کا پاس رکھا جائے۔

دین اسلام نے جب مرد کو اس قدر فضیلت دی ہے تو اسے چاہیے کہ بیوی بچوں کے نان نفقہ اور حقوق کا خیال رکھے بلکل اسی طرح عورت کو بھی چاہیے کہ شوہر کے حقوق کا خیال رکھے اسکے احکامات کی بجاآوری میں کسل و سستی سے کام نہ لے اور حتی الامکان اسکی رضا کے حصول کی سعی کرے کیونکہ شوہر کی رضا و ناراضی میں رب کی رضا و ناراضی پوشیده ہے چنانچہ شوہر کی رضا کے حصول کے ضمن میں چند نکات زیرِ بحث لائے جاتے ہیں:

اطاعت: شوہر کی رضا حاصل کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اسکی اطاعت کی جائے چنانچہ خطبہ حجۃ الوداع میں حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اے عورتو! الله پاک سے ڈرو اور اپنے شوہروں کی اطاعت کو پکڑ لو اور اگر عورت جان لے کہ شوہر کا حق کیا ہے تو وه صبح شام کا کھانا لے کر کھڑی رہے۔

اسی طرح فرمانِ رسول ہے: اگر شوہر اپنی بیوی کو حکم دے کہ پیلے رنگ کے پہاڑ کو کالا رنگ کا بنا دے تو عورت کو اپنے شوہر کا حکم بھی بجا لانا چاہیے۔ (ابن ماجہ، 2/411، حدیث: 1852)

زیب و زینت اختیار کرے: بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی رضا اور خوشنودی کے لیے حتی الوسع زیب و زینت اختیار کرے، چنانچہ حضور ﷺ نے نیک بیوی کی خوبی بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر اس کا شوہر اسے دیکھے تو اسے خوش کر دے۔ (ابن ماجہ، 2/414، حدیث: 2857)

ناشکری نہ کرے: بیوی کو چاہیے کہ شوہر کی فرمانبردار رہے اور اس کی ناشکری و نافرمانی سے بچتی رہے کہ حضور سے جہنم میں عورتوں کی کثرت کے متعلق استفسار کیا گیا تو فرمایا: وه شوہر کی ناشکری کرتی ہے اور احسان سے مکر جاتی ہے۔ (بخاری، 3/463، حدیث: 5197)

عورتوں کو چاہیے کہ اگر وه اپنی فلاح چاہتی ہے تو شوہر کی اطاعت اپنا شیوا بنا لے کیونکہ شوہر کی اطاعت نجات کا ذریعہ اور نافرمانی عذاب کا سبب بن سکتی ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ الله ہمیں شریعت کے مطابق اچھے انداز میں زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرما کر سکون بخشے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ