آج ہمارے معاشرے میں بہت سی بیماریاں عام ہو رہی ہیں اس میں ایک بیماری غصہ بھی ہے آیےاس کی مزمت سنتے ہیں احادیث مبارکہ کی روشنی میں :

(1) ایک آدمی نے رسول اکرم سے عرض کی : یا رسول مجھے کوئی مختصر عمل بتادیں؟ آپ نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو'اس نے دوبارہ یہی سوال کیا تو آپ نے فرمایا ' غصہ نہ کیا کرو"(حوالہ نمبر :بخاری،کتاب الدب،باب الحذر من الغضب،4/131, حدیث :6116)

(2)حضرت ابو درداءرضی الله تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کی :یا رسول اللّه !مجھے کوئی ایسا عمل بتادیں جو مجھے جنت میں لے جائے ۔تو آپ نے ارشاد فرمایا! غصہ نہ کیا کرو۔(حوالہ نمبر :المعجم الأوسط،2/20،حدیث:2353)

(3)آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :جو آدمی غصہ کرتا ہے وہ جہنم کےکنارے پر جا پہنچتا ہے ۔(حوالہ نمبر :شعب الأیمان،باب فی حسن الخلق،6/320،حدیث:8331بتغیر)

(4)ایک آدمی نے بارگاہ رسالت میں عرض کی :کون سی چیز ذیادہ سخت ہے؟آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا! اللہ کا غضب۔عرض کی :مجھے اللّه کے غضب سے کون سی چیز بچا سکتی ہے؟فرمایا:غصہ نا کیا کرو۔(حوالہ نمبر :مساوئ الاخلاق للخارائطی،باب ماجاءفی فضل الحلم۰۰۰الخ،ص162،حدیث:342)

(5)حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللّه عنہ فرماتے ہیں:حضور نے ہم سے پوچھا !تم پہلوان کسےسمجہتے ہو؟ہم نے عرض کی:جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں ۔اپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ پہلوان نہیں بلکہ پہلوان وہ شخص ھے جو غصے کے وقت اپنے اوپر قابو رکھے۔(حوالہ نمبر: مسلم،کتاب البروالصلتہ والادب،باب قبح الکذب۔۔۔الخ:2608,ص1406

(…)حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص اپنی زبان کو محفوظ رکھے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور جو اپنے غصے کو روکے گا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اپنا عذاب اس سے روک دے گا اور جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے عذر کرے گا، اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کے عذر کو قبول فرمائے گا۔(شعب الایمان، السابع والخمسون من شعب الایمان، فصل فی ترک الغضب۔۔۔ الخ، ۶ / ۳۱۵، الحدیث: ۸۳۱۱)

اللہ پاک ہمیں بھی اس غصے سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی توفیق عطا فرمائے امین


اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایاہے انسانوں کی تبعیت میں غصہ بھی رکھا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود غصہ کی مذمت احادیثوں میں ارشاد فرمائی ہے۔

(1) غصہ نہ کرو: ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کوئی مختصر عمل بتائیے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:لَا تَغْصَبْ یعنی غصہ نہ کرو (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 503)

(2) غصہ کے وقت خاموشی: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے خاموشی اختیار کر لینی چاہیے (بحوالہ:المسند امام احمد بن حنبل صفحہ 515)

(3)بردباری و امانت داری کو ایسے پہچانو: حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:آدمی کی بردبادی اس کے غصہ کے وقت اور اس کی امانت داری اس کی لالچ کے وقت دیکھو کیونکہ جب وہ غصہ میں نہ ہوتو تمہیں اس کے حلم کا کیسے پتا چلے گا اور اسے جب کسی چیز کی لالچ نہ ہو تو تمہیں اس کی امانت داری کا کیسے معلوم ہو گی (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 507)

(4) غصہ ایمان و عزت کو خراب کر دیتا ہے:ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہے : غصہ سے بچو کیونکہ وہ تمہیں معزرت کی ذلت تک لے جاتا ہے یہ بھی کہا گیا غصہ سے بچو کیونکہ یہ ایمان کو خراب کر دیتا ہے جیسے ایلوا (ایک کڑوے درخت کا جما ہو رس)شہد کو خراب کر دیتا ہے (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 507)

(5) حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہے حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے پوچھا تم پہلوان کسے سمجھتے ہو ؟ہم نے عرض کی جسے لوگ پچھاڑ نہ سکیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ پہلوان نہیں بلکہ پہلوان وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو رکھے (بحوالہ: احیاء العلوم جلد 3 صفحہ 504)

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ اقدس میں دعا ہے کہ ہمیں غصے سے بچائے اور غصہ کے وقت اپنے آپ پر قابو کرنے والا بنائے۔ (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم)


الله تعالى نے ارشاد فرمایا:الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ الْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ(134) ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔

میرے محترم اسلامی بھائیوں! ابھی انشاءاللہ غصے کے متعلق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے. غصّہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس وجہ سے کئی گھر ہنستے و بستے اجڑ گئے یہ غصہ ہی تو ہے جس کی وجہ سے بھائی، بھائی کا دشمن بن جاتا ہے ہمیں بہت چھوٹی چھوٹی باتوں پہ غصہ آ جاتا ہے. اور یہ غصہ ہم سے بڑے کے سامنے دل میں جبکہ ہم سے چھوٹے کے سامنے زبان سے اور ہاتھوں سے لڑائی کر کے ہی ختم ہوتا ہے اور ہم ایسے ہی اسے ختم کرتے ہے. حالانکہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے غصے کے متعلق بہت سی احادیث بیان فرمائی ہیں. اور بہت سارے بزرگانِ دین کے اقوال موجود ہیں تو آئیے ان کو پڑھتے ہیں. اور اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں

اکثر لوگ غُصّہ کے سبب جہنَّم میں جائیں گے اور غصّہ روکنے کی فضیلتیں: میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! کسی بُزُرگ کی گفتگو میں شیطان نے یہ بات بھی بتائی ہے کہ غُصہ والا انسان شیطان کے ہاتھ میں اس طرح ہوتا ہے. جیسے بچّوں کے ہاتھ میں گیند۔ لہٰذا غُصّہ کاعلاج کرنا ضَروری ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ غُصّہ کے سبب شیطان سارے اعمال برباد کروا ڈالے۔

:حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْوَالِی فرماتے ہیں : غُصّہ کا علاج اور اس باب میں محنت و مشقت برداشت کرنا فرض ہے. کیونکہ اکثر لوگ غُصّے ہی کے باعث جہنَّم میں جائیں گے۔[کیمیائے سعادت ج2 ص10]

سیِّدُنا حسن بصریرَحْمَۃُ اﷲِتَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں. اے آدمی! غُصّہ میں تو خوب اُچھلتا ہے.کہیں اب کی اُچھال تجھے دوزخ میں نہ ڈال دے۔[احیاء العلوم ج3 ص205]

:حدیثِ پاک میں ہے: جو شخص اپنے غُصّے کو روکے گا اللہ عَزَّوَجَلَّ قِیامت کے روز اُس سے اپنا عذاب روک دے گا۔[شعب الایمان ج۶ ص315 حدیث 8311]

غُصّے کا ایک علاج یہ بھی ہے کہ غُصّہ لانے والی باتوں کے موقع پر بُزُرگانِ دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْن کے طرزِ عمل اور ان کی حِکایات کو ذِہن میں دوہرائے.

غُصّہ کی مذمت کے بارے میں چھ احادث ملاحظہ فرمائیں:

﴿اَلْحَدِيْثُ الْاَوَّلُ﴾حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے. کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا. جو شخص غصہ کو پی جائے جبکہ اس میں غصہ کے تقاضا کو پورا کرنے کی طاقت بھی ہو [لیکن اس کے باوجود جس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزا نہ دے] اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو ساری مخلوق کے سامنے بلائے گا. اور اس کو اختیار دے گا کہ جنت کی حوروں میں سے جس حور کو چاہے اپنے لئے پسند کرلے۔{ابوداوُد} [جامع ترمذی ،جلد اول باب البر والصلۃ :2021]

﴿اَلْحَدِيْثُ الثَّانِيْ﴾حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی وصیت فرما دیجئے؟ آپ نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ اس شخص نے اپنی [وہی] درخواست کئی بار دہرائی۔ آپ نے ہر مرتبہ یہی ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔ {بخاری} [جامع ترمذی، جلد اول باب البر والصلۃ :2020]

﴿اَلْحَدِيْثُ الثَّالِثُ﴾ حضرت عطیہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: غصہ شیطان [کے اثر] سے ہوتا ہے۔ شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اس کو چاہئے کہ وضو کرلے۔{ابوداوُد} [سنن ابی داوُ د، جلد سوئم کتاب الادب [4784]

﴿اَلْحَدِيْثُ الرَّابِعُ﴾حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم  نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا۔[فردوس الاخبار، باب القاف، 2 / 137، الحدیث [448]

﴿اَلْحَدِيْثُ الْخَامِسُ﴾حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا طاقتور وہ نہیں ہے جو [اپنے مقابل کو] پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پالے۔{بخاری} [سنن ابی داوُد، جلد سوئم کتاب الادب [4779]

﴿اَلْحَدِيْثُ السَّادِسُ﴾حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے. کہ سرکارِ دوعالم  نے ارشاد فرمایا: بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے. بلکہ بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھے۔{بخاری} کتاب الادب، باب الحذر من الغضب، 4 / 130، الحدیث:[114]

﴿چار یار کی نسبت سے غُصّے کی عادت نکالنے کے لئے 4 مدنی پھول﴾

{1} جس کو غُصّہ گناہ کرواتا ہو اُسے چاہئے کہ ہرنَماز کے بعد ﴿بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم﴾21 بار پڑھ کر اپنے اوپر دم کرلے۔کھانا کھاتے وقت تین تین بار پڑھ کرکھانے اور پانی پر بھی دم کرلے۔

(2) چلتے پھرتے کبھی کبھی ﴿یَا اَللّٰہُ یَا رَحْمٰنُ یَا رَحِیْمُ﴾ کہہ لیا کرے۔

{3}چلتے پھرتے ﴿یَا اَرْحَمَ الرّاحِمِیْن﴾ پڑھتا رہے۔

{4} پارہ 4 سورہ اٰلِ عمران کی 134ویں آیت کا یہ حصہ روزانہ سات با ر پڑھتا رہے.

﴿وَالْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ.وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ﴾[پ4_ اٰلِ عمران: 134]

"سن لو نقصان ہی ہوتا ہے بِالآخِر ان کو

نفس کے واسِطے غُصّہ جو کیا کرتے ہیں"

اللہ تعالی سے دعا ہے. کہ اللہ پاک ہمیں غصے سے بچنے اور اس پر کنٹرول کرنے کی توفیق عطا فرمائے. آمین


یاد رکھیں غصہ ایک ایسا مذموم فعل ھے کہ شیطان انسان کے ساتھ ایسے کھیلتا ھے جیسا کہ بچے گیند کے ساتھ کھیلتے ھیں اور غصہ انسان کی زندگی کو ھی نہیں پورے کے پورے خاندان کو اجاڑ کر رکھ دیتا ھے غصے میں انسان دوسرے کا نقصان کر کے ھی دم لیتا ھے جیسا کہ ۔

1)۔۔حضرتِ سیِّدُنا ابومسعودانصاری رَضِیَ اللہُ عَنْہُ فرماتےہیں :میں اپنے غلام کی پٹائی کر رہا تھاکہ میں نےاپنےپیچھے سےآواز سنی: اےابومسعود تمہیں علم ہونا چاہئے کہ تم اس پر جتنی قدرت رکھتے ھو اللہ پاک اس سے زیادہ تم پر قدرت رکھتا ھے ‘‘ میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھا تو وہ سید عالم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تھے ۔ میں نےعرض کی: یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ھُوَحُرٌّ لِّوَجْہِ اللہ یعنی یہ اللہ پاک کی رضا کے لئے آزاد ہے ۔

سرکارِمدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:’’اگر تم یہ نہ کرتے تو تمہیں دوزخ کی آگ جلاتی ۔ ‘‘ یا فرمایا کہ’’ تمہیں دوزخ کی آگ پہنچتی ۔ ‘‘(مسلم ص905،حدیث 35 ۔ 1658 بحوالہ غُصےکا علاج صـ11ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی)

2)۔ایک شخص نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی یارسولَ ﷲ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھےوصیّت فرمایئےارشادفرمایا: ’’غُصّہ مت کیا کرو۔‘‘ اس نے باربار یِہی سُوال کیا ۔ جواب یِہی ملا: ’’غُصّہ مت کیا کرو۔‘‘ (صحیح البخاری ج4ص131 حدیث 6116) بحوالہ غُصےکاعلاج صـ4ناشرمکتبۃ المدینہ کراچی پاکستان

3)۔۔۔حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک فرماتا ہے’’جو اپنے غصہ میں مجھے یاد رکھےگا میں اسے اپنے جلال کے وقت یادکروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا۔ (فردوس الاخبار،باب القاف،2/137، الحدیث: 4476) سورہ آل عمران آیت نمبر34 تفسیر صراطُ الجنان

4)۔حضرت ابوذر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہم سے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے اور وہ کھڑا ہو تو بیٹھ جائے ،اگر اس کا غصہ چلا جائے تو ٹھیک ورنہ اسے چاہئے کہ لیٹ جائے۔ (ابوداؤد، کتاب الادب، باب ما یقال عند الغضب، 4 / 327، الحدیث: 4783)

(5)…حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ خاموش ہو جائے۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن العباس الخ، 1/515، الحدیث: 2136)

ھمیں یہ بات یادرکھنی چاھئےکہ غصہ کرنے والے سےغصےکی حالت میں ایسی ایسی باتیں صادر ہو جاتیں ھیں جس پر اسے غصہ ختم ہونے کے بعد بہت زیادہ ندامت اٹھانی پڑتی ھے، جیسے غصے کی حالت میں شوھر کا اپنی بیوی کو طلاق دینا ، گالی گلوچ کرنا جس کا نقصان بہت زیادہ ھے،بسا اوقات تو غصہ کی نحوست کی وجہ سے بسا ھوا گھر غصے کی زد میں آ کر بربادھو جاتا ھے پھر اس کا تدارک مشکل ھو جاتا ھے شیطان انسان کو طیش دلاتا اور پھرنجانے کیسے ۔کیسے خطرناک کام کرواتا ھے اگر ھم احادیث کے مطابق عمل کریں تو بچت ھوسکتی ھےجیسا کہ

6)۔۔۔حضرت عطِیَّہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان آگ سے پیدا کیاگیا ہے اور آگ کو پانی کے ذریعے ہی بجھایا جا سکتا ہے ، لہٰذاجب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے وضو کر لینا چاہئے۔(ابوداؤد،کتاب الادب،باب مایقال عندالغضب، 4/327الحدیث 4484)

7)۔۔پیارےآقامدینےوالےمصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں : جہنَّم کا ایک دروازہ ہے ، جس سے وہی لوگ داخِل ہوں گے جن کا غصّہ اللہ پاک کی نافرمانی کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ھے ۔ (شعب الایمان ج6ص320 حدیث8331، بحوالہ غُصےکاعلاج صـ2ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی)

اگرکوئی ہم سےاُلجھے یا بُرا بولے ھمیں اُس وَقت خاموش رھنےمیں ھی ہمارے لئے عافیت ھےبھلے شیطان لاکھ وَسوَسے ڈالےکہ تُوبھی اس کوجواب دے ورنہ لوگ تجھے بزدل کہیں گے۔

دیکھ شرافت کا زمانہ نہیں ہے اِس طرح تو لوگ تجھ کو جینے بھی نہیں دیں گے وغیرہ وغیرہ ۔ یہاں ایک حدیث پاک پیش کرتاہوں اس کو پڑھ کر اندازہ ھو گا کہ دوسرےکے بُرا بھلا کہتے وَقت خاموش رہنے والارحمتِ الٰہی کے کس قدر نزدیک ہوتا ہے ۔چنانچہ

8)۔سرکارِمدینہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی موجودگی میں کسی آدمی نے مسلمانوں کے پہلےخلیفہ حضرتِ سیِّدُنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ کو نامناسب الفاظ کہے،جب اُس نےبہت زِیادَتی کی توحضرتِ سیدنا ابوبکرصدیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ نےاُس کی بعض باتوں کا جواب دیا(حالانکہ آپ کی جوابی کاروائی گناہ سےپاک تھی مگر)حضورِ انور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ وہاں سے اُٹھ کر چل دیئے ،

مسلمانوں کےپہلےخلیفہ حضرتِ سیِّدُناابوبکرصِدِّیق رَضِیَ اللہُ عَنْہُ حضورِاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پیچھے پہنچے عرض کی: یارَسُوْلَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! وہ مجھےنامناسب الفاظ کہتا رہا آپ تشریف فرمارھے،جب میں نے اُس کی بات کا جواب دیا تو آپ اُٹھ گئے !فرمایا:’’تیرے ساتھ فرشتہ تھا جو اُس کا جواب دے رہا تھا، پھر جب تونے خود اُسے جواب دینا شروع کیا تو شیطان درمیان میں آکُودا ۔ ‘‘(مسند امام احمد بن حنبل ج۳ص232حدیث934)بحوالہ غُصےکا علاج صـ4 ناشر مکتبۃ المدینہ کراچی پاکستان


پیارے اور محترم اسلامی بھائیوں ! اور اسلامی بہنو یقیناً غصے کے بہت سے نقصانات ہیں جن کو جگہ جگہ احادیث میں نقل کیاگیا ہے اور غصے جیسی نحوست کی مزمت بیان فرمائی ہے اسی طرح غصے کے نقصانات مختلف اور متعدد ہیں اور ایک نقصان یہ ہے کہ جو شخص غصہ کرتا یے وہ شیطان کے ہاتھ میں ایسا ہے جیسے بچوں کی ہاتھ میں گیند ہے اس لیے غصہ کرنے والے کو صبر کرنا چاہئےتاکہ شیطان کاقیدی نہ بنے کہ عمل ہی ضائع نہ کر بیھٹے اور وہ غصے کی حالت میں بے قابو ہو کر کوئی ایسا جملہ بک دے گا جس سے اس کی آخرت بھی تباہ ہو جائےگی غصہ انسان کی صحت پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور غصہ ایک قبیح اور جھنم میں لے جانے والا عمل ہے اور اسی طرح غصے کے وقت انسان جزبات میں آکر صحیح اور غلط کی تمیز یعنی فرق بھول جاتا ہے اور غصے کی حالت میں فیصلوں سے بھی پرہیز کرے کیونکہ ابلتے پانی میں اپنا عکس یعنی سایہ دکھائی نہیں دیتا الله پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کی غصے جیسے عمل سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ آمین

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں اسی طرح کئ احادیث مبارکہ میں بھی غصے کی مزمت کے بارے میں فرمایا گیا ہے آئیں احادیث کی روشنی میں غصہ نہ کرنے کے بارے میں ہمارے پیارے پیارے آقامدینے والے مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک سنتے ہیں۔

1. حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص غصہ کو پی جائے جبکہ اس میں غصہ کے تقاضاکو پورا کرنے کی طاقت بھی ہو (لیکن اس کے باوجود جس پر غصہ ہے اس کو کوئی سزانہ دے)اللہ تعالی قیامت کے دن اس کو ساری مخلوق کے سامنے بلائے گا اور اس کو اختیار دیں گے کہ جنت کی حوروں میں سےجس حور کو چاہے لے لے (جامع ترمزی جلد اول باب البرواالصلة:2021)

2. حضرت سیدنا ابو الدردا رضی الله عنہ نے عرض کی یارسول الله کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیےجو مجھے جنت میں داخل کر دے؟حضور اکرم نے ارشاد فرمایا : غصہ نہ کیا کرو ،تو تمھارے لیے جنت ہے(( معجم اوسط ج 2ص20 حدیث2353)

3. فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم الله پاک فرماتا ہے جو اپنے غصے میں مجھے یاد رکھے گا میں اسے اپنے جلال کے وقت یاد کروں گا اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اسے ہلاک نہ کروں گا ( الفردوس ج 3 ص169حدیث 4448)

4. نبی محترم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس شخص نے غصہ پی لیا باوجود اس کے کہ وہ غصہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا ہے اللہ پاک اس کے دل کو سکون وایمان سے بھر دے گا (جامع صغیر541 حدیث 8997)

5. جام کوثر پلانے والے۔ شفاعت فرمانے والے پیارے پیارے آقا کا پیارا پیارا ارشاد (بخاری شریف ) میں ہے طاقت ور وہ نہیں جو پہلوان ہو دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ طاقت ور وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے (بخاری ج 4 ص 130حدیث 6114)

6. حضرت عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہے کہ حضور اکرم نے فرمایا کہ غصہ شیطان کے اثرسے ہے اور شیطان کی پیدائش آگ سے ہوئی ہے اور آگ پانی سے بجھائی جاتی ہے لہٰذا جب تم میں سے کسی کو غصہ آئے تو اسے چاہئے کہ وہ وضو کر لے(سنن ابی داود جلد سوئم الادب :4784)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو!ہمارے معاشرے میں بہت سی برائیاں عام ہیں جن میں ایک برائی غصہ بھی ہے۔چھوٹی چھوٹی بات پر غصہ کر کے نوبت قتل تک پہنچ جاتی ہے اور آخر کار پچھتاوے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہیں آتا. آئیے غصے کی مذمت پر چند فرامین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

(1)حضرت عطیہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بے شک غصہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان اگ سے پیدا کیا گیا ہے اور اگ کو پانی کے ذریعے بجھایا جا سکتا ہے لہذا جب تم میں سے کسی کو غصہ ائے تو اسے وضو کرنا چاہیے۔(ابو داؤد،327/4،حدیث 4784)

(2)حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن دوپہر کے وقت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اپ نے دو شخصوں کی اوازیں سنی جو کسی ایت میں جھگڑا کر رہے تھے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے کہ چہرے انور میں جلال معلوم ہوتا تھا فرمایا تم سے پہلے لوگ کتاب اللہ میں جھگڑوں کی وجہ سے ہی ہلاک ہو گئے۔(مراۃ المناجیح، جلد 1، حدیث 152)

(3)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے وصیت فرمائی ہے اپ نے فرمایا غصہ نہ کرو اس نے سوال بار بار دہرایا حضور نے یہی فرمایا غصہ نہ کیا کرو۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، حدیث 5104)

(4) حضرت باضاب بن حکیم رضی اللہ تعالی عنہ سے وہ اپنے والد سے وہ اپنے دادا سے راوی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غصہ ایمان کو ایسے بگاڑتا ہے جیسے ایلو (تمہ) شہد کو۔مراۃ المناجیح، جلد 6، حدیث 5118)

(5) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کی کہ اللہ عزوجل کے غضب سے مجھے کیا چیز بچا سکتی ہے تو اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غصہ نہ کیا کرو.(المسند امام احمد بن حنبل, جلد 2,حدیث 6646, صفحہ 587)

اللہ عزوجل ہمیں غصے جیسی مذموم صفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔


غضب یعنی غصہ نفس کے اس جوش کا نام ہے جو دوسرے سے بدلہ لینے یا اسے دفع کرنے پر ابھارے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/655)

غصہ اچھا بھی ہوتا ہے اور برا بھی، اللہ کے لئے غصہ اچھا ہے، جیسے مجاہد غازی کو کفار پر یا کسی واعظ عالم کو فساق و فجار پر یا ماں باپ کو نافرمان اولاد پر آئے۔ اور غصہ بُرا بھی ہوتا ہے جیسے وہ غصہ جو نفسانیت کے لئے کسی پر آئے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے جو غضب کا لفظ آتا ہے وہاں غضب کے معنی ہوتے ہیں ناراضی و قہر کیونکہ وہ نفس و نفسانیت سے پاک ہے۔ (دیکھئے: مراٰۃ المناجیح، 6/655)

غصے کی مذمت پر مشتمل 5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم:

(1)غصہ ایمان کو ایسا برباد کر دیتا ہے جس طرح ایلوا شہد کو خراب کر دیتا ہے۔(شعب الایمان6/311، حدیث:8294)

(2)بہادر وہ نہیں جو پہلوان ہو اور دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ بہادر وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔(بخاری، 4/130،حدیث:6114)

کیونکہ یہ جسمانی پہلوانی فانی ہے،اس کا اعتبار نہیں دو دن کے بخار میں پہلوانی ختم ہو جاتی ہے۔ غصہ نفس کی طرف سے ہوتا ہے اور نفس ہمارا بدترین دشمن ہے اس کا مقابلہ کرنا اسے پچھاڑ دینا بڑی بہادری کا کام ہے نیز نفس قوتِ روحانی سے مغلوب ہوتا ہے اور آدمی قوتِ جسمانی سے پچھاڑا جاتا ہے۔ قوتِ روحانی قوتِ جسمانی سے اعلیٰ و افضل ہے۔لہٰذا اپنے نفس پر قابو پانے والا بڑا بہادر پہلوان ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 6/655)

(3)ایک شخص نےبارگاہِ رسالت میں عرض کی: یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! مجھے وصیت فرمایئے ارشاد فرمایا:غصہ مت کرو۔ اس نے بار بار یہی سوال کیا۔ جواب یہی ملا: غصہ مت کرو۔(بخاری،4/131،حدیث:6116)

(4)حاکم دو شخصوں کے درمیان غصہ کی حالت میں فیصلہ نہ کرے۔(مراٰةالمناجیح، 5/376)

(5)نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:بےشک! جہنم میں ایک ایسا دروازہ ہے جس سے وہی داخل ہوگا جس کا غصہ اللہ پاک کی نافرمانی پر ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔(کنزالعمال، 2/208،حدیث7696)

غصہ کی عادت نکالنے کیلئے وظائف:(1)ہر نماز کے بعد بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم 21 بار پڑھ کر اپنے اوپر دَم کرلے۔ کھانا کھاتے وقت تین تین بار پڑھ کر کھانے اور پانی پر بھی دَم کرلے (2)چلتے پھرتے کبھی کبھی یااَللہُ یارَحمٰنُ یارَحیمُ کہہ لیا کرے (3)چلتے پھرتے یَااَرْحَمَ الرَّاحِمِین پڑھتا رہے (4)پارہ 4 اٰلِ عمرٰن کی آیت نمبر 134 کا یہ حصہ ﴿وَ الْكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَالْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ-وَاللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَۚ(۱۳۴) روزانہ سات بار پڑھتا ر ہے۔

غصہ دور کرنے کے10علاج: (1)اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّحِيمِ پڑھئے (2)وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَاِلَّا بِاللَّهِ پڑھئے (3)چپ ہو جائیے(4)وضو کر لیجئے (5)ناک میں پانی چڑھائیے (6)کھڑے ہیں تو بیٹھ جائیے (7)بیٹھے ہیں تو لیٹ جائیے اور زمین سے چپٹ جائیے(8)اپنے خد (یعنی گال)کو زمین سے ملادیجئے (وضو ہو تو سجدہ کر لیجئے) تاکہ احساس ہو کہ میں خاک سے بنا ہوں لہٰذا بندے پر غصہ کرنا مجھے زیب نہیں دیتا (9)جس پر غصہ آ رہا ہے اُس کے سامنے سے ہٹ جائیے (10)سوچئے کہ اگر میں غصہ کروں گا تو دوسرا بھی غصہ کرے گا اور بدلہ لے گا اور مجھے دشمن کو کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص269)

اللہ پاک ہمیں برا غصہ کرنے سے محفوظ فرمائے اور ہمیں ہر کام میں صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کفر و شرک، گمراہی اور بد عملی کے ماحول میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے، شرک سے روکنے، ایمان لانے پر جنت کی بشارت دینے اور کفر و انکار پر عذاب کی وعید سنانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا منصب عطا فرما کر ان کے پاس بھیجا۔ انبیاء علیهم السلام کائنات کی عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی، حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائیں جن کی تابانی سے مخلوق کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں۔ اللہ عزوجل نے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر خیر قرآن کریم میں فرمایا ہے ان میں سے حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں آپ بھی ان کا ذکر خیر پڑھیے اور اپنے قلوب و اذہان کو معطر کیجیے

1)حضرت ایوب علیہ السلام بہت زیادہ صبر کرنے والے تھے: اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ ترجمہ کنزالایمان :بے شک ہم نے اسے صابر پایا بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں  آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اورا س آزمائش نے انہیں  اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اورکسی مَعصِیَت میں  مبتلا ہو جانے پر نہیں ابھارا (تفسیر صراط الجنان پارہ 23 آیت 44 سورت ص)

2)آپ علیہ السلام بہت اچھے بندے تھے : اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ترجمہ کنزالایمان :اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ۔ آپ علیہ السلام بہت زیادہ اچھے بندے اور بہت زیادہ اللہ عزوجل کی طرف رجوع کرنے والے تھے(پارہ 23 آیت 44 سورت ص)

3)اللہ عزوجل نے آپ علیہ السلام کو صراط مستقیم کی ہدایت عطا فرمائی: اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے :

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالایمان :اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔ (پارہ 6 آیت 84 سورت الانعام )

4)حضرت ایوب علیہ السلام کی صحت یابی: اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ اس طرح دور کر دی کہ آپ علیہ السلام سے فرمایا: زمین پر پاؤں مارو۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا۔ حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کریں۔ آپ نے غسل کیا تو بدن کے ظاہری حصے کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں ، پھر آپ چالیس قدم چلے تو دوبارہ زمین پر پاؤں مارنے کا حکم ہوا۔ آپ نے پھر پاؤں مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ حکم الہی سے آپ علیہ السلام نے یہ پانی پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ علیہ السلام کو اعلیٰ درجے کی صحت و تندرستی حاصل ہوئی۔ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ ترجمہ کنزالایمان :تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی ۔ (پارہ 17 آیت 84 سورت الانبیاء سیرت الانبیاء )

5)اموال و اولاد کی واپسی : حضرت عبد الله بن مسعود، حضرت عبد الله بن عباس رضی الله عنهما اور اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالی نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی ۔ حضرت عبد الله بن عباس رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا کی دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زوجہ محترمہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے ہاں کثیر اولاد ہوئی۔ اللہ عزوجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ ترجمہ کنزالایمان :اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کئے اپنے پاس سے رحمت فرما کر اور بندگی والوں کے لیے نصیحت-


اللہ پاک کے تمام نبی اللہ کی بارگاہ میں اپنا خاص مرتبہ اور مقام رکھتے ہیں اور ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائشیں بھی آتی ہیں اللہ پاک ان کو آجر بھی عطا فرماتا ہے آئیں انہی انبیاء کرام میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہے ان کا تذکرہ کرتے ہیں قرآن پاک سے ۔

(1) حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا: وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83)

ترجمۂ کنز الایمان: اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔

تفسیر: اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے ۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیمار ہوگئے ، جسم کے کچھ حصے پر آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(حوالہ: سورۃ الانبیاء ،آیت نمبر .83)

(2)۔حضرت ایوب علیہ السلام کا اپنے رب کی بارگاہ میں رجوع کرنا جب شیطان نے آپ علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی

وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ(41) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی۔

تفسیر: اس آیت میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا واقعہ یاد دلایا جارہا ہے اور یہ وہ مبارک ہستی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے طرح طرح کی آزمائشوں کے ساتھ خاص فرمایا۔ ان واقعات کو بیان کرنے سے مقصود ان کی سیرت میں غوروفکر کرنا ہے، گویا کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا’’اے پیارے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کی جہالت پر صبر فرمائیں کیونکہ دنیا میں حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ مشقت اور آزمائش میں مبتلا ہونے والا کوئی نہ تھا،آپ ان انبیاء ِکرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اَحوال میں غور فرمائیں تاکہ آپ جان جائیں کہ دنیا کے احوال کسی کے لئے ایک جیسے نہیں ہوتے اور یہ بھی جان جائیں کہ عقلمند کو مشکلات پر صبر کرنا چاہئے۔

اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ: مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذاپہنچائی ہے۔} ایک قول یہ ہے کہ تکلیف اور ایذا سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور اس کے شَدائد مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیماری کے دوران شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے ہیں جو کہ ناکام ہی ثابت ہوئے۔ ( حوالہ سورتہ ص آیت نمبر 41)

(3)۔نیک لوگوں کا بدلہ :وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84) ترجمہ کنزالایمان:

اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔ (حوالہ سورت انعام، آیت نمبر 84)

(4)۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی طرف وحی خدا: اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163) ترجمہ کنزالایمان: ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ (حوالہ سورتہ النساء آیت نمبر 163)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی تمام آزمائشوں پر صبر کرنے اور حضرت ایوب علیہ السلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اللہ پاک کا شکر ادا کرنے کی سعادت عطا فرمائے آمین


انبیاء کرام علیھم السلام اللہ پاک کے وہ نیک بندے ہیں جنہیں اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انسانوں کو کفر کے اندھیروں سے نکالنے کے لیے معبوث فرمایا انبیاء کرام علیھم السلام کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور اللہ پاک کے آخری نبی حضور پر نور، رسول اکرم نور مجسم محمد مصطفےٰ احمد مجتبیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا۔

ان ہی انبیاء کرام میں سے ایک نبی حضرت ایوب علیہ السلام ہیں. آپ علیہ السلام کا نام مبارک ایوب ہے اور آپ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے عیص کی نسل میں سے ہیں آپ علیہ السلام کے نسب نامہ کے مختلف اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے: ایوب علیہ السلام بن اموص بن زارح بن عیص بن اسحاق علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام۔ آپ علیہ السلام کی والدہ ماجدہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں اور آپ علیہ السلام کی زوجہ کا نام رحمت ہے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے افرایئم کی شہزادی تھیں.

اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو ہر قسم کے اموال مویشی، چوپائے، باندی غلام، کھیت، باغات اور وسیع و عریض زمین کے علاؤہ کئی بیویوں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا. مال و دولت، راحت و آرام و تندرستی کے ان ایام میں بھی آپ علیہ السلام تقوی و پرہیزگاری کے اعلیٰ درجے پر فائز، ذکر الہٰی میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہے نعمتوں پر شکر الہٰی ادا کرتے رہے دنیا کی دولت اور زیب و زینت انہیں یاد الہٰی سے غافل نہ کر سکی.

پھر اللہ پاک کی طرف سے ان پر آزمائش آئی اور ان کے سب اموال ختم ہوگئے، مویشی و چوپائے مر گئے، باندی غلام فوت ہو گئے، ایک زوجہ کے علاؤہ بقیہ اہل خانہ اور اولاد بھی دنیا سے چلے گئے، حتی کہ شاید مریض کی شکل میں آپ کے جسم مبارک کا بھی امتحان شروع ہوگیا آزمائش و امتحان کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا لیکن آپ علیہ السلام نے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور جب بھی کوئی مصیبت آئی تو آپ کی زبان سے ناشکری کی بجائے اللہ پاک کی حمد و ثنا کے کلمات ہی جاری ہوئے آپ کی آزمائش جس قدر شدید ہوتی گئی صبر و استقامت میں بھی اس قدر اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ آپ علیہ السلام کا صبر ضرب المثل بن گیا۔

بلآخر آپ علیہ السلام نے بارگاہ الہٰی میں دعا کی جس آپ علیہ السلام کی آزمائش ختم ہوئی اور صبر و شکر کے صلہ میں شفاء کی نعمت ملی اور اللہ پاک پہلے سے بھی زیادہ مال و اولاد عطا فرما دیئے. ( حوالہ: سیرت الانبیاء ص 476)

حضرت ایوب علیہ السلام کا ذکر خیر قرآن کریم میں 4 مقامات پر کیا گیا ہے: سورۃ نساء آیت نمبر 163، اور سورۃ الانعام آیت نمبر 85 میں دوسرے انبیاء کرام علیھم السلام کے اسمائے مبارکہ کے ساتھ آپ علیہ السلام کے نام مبارک کا ذکر بھی ہے اور سورۃ انبیاء آیت 83 تا 84 اور سورۃ ص آیت 41 تا 44 میں آپ علیہ السلام کی بیماری، اس سے شفاء اور زوجہ سے متعلق ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے.

1): آپ علیہ السلام بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ پاک کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے ( سورۃ ص آیت نمبر 44) اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ترجمہ کنزالایمان: بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ: یعنی بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اور اس آزمائش نے انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اور کسی مَعصِیَت میں مبتلا ہو جانے پر نہیں ابھارا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع لانے والا ہے.

2): آزمائش و امتحان کی گھڑی میں اور ایام بیماری کے دوران جب آپ نے دعا کی تو اللہ پاک نے اپنی رحمت سے اسے قبول فرمایا، آپ کی تکلیف دور کردی اور پہلے سے بھی زیادہ مال و دولت اور اولاد کی نعمت سے نوازا. ارشاد باری تعالیٰ ہے ( سورۃ انبیاء آیت نمبر 84): فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کئے اپنے پاس سے رحمت فرما کر اور بندگی والوں کے لیے نصیحت.

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ اس طرح دور کردی کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا: آپ زمین میں پاؤں ماریئے انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا، آپ کو حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کیجئے آپ نے غسل کیا تو ظاہرِ بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں، پھر آپ چالیس قدم چلے، پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا، آپ نے پھر پاؤں مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی انتہائی سرد تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پانی کو پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اعلیٰ درجے کی صحت حاصل ہوئی.

اس آیت کے اس حصے: وَ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے

کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمْ اور اکثر مفسرین نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمام اولاد کو زندہ فرما دیا اور آپ کو اتنی ہی اولاد اور عنایت کی۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا کی دوسری روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زوجہ محترمہ کو دوبارہ جوانی عنایت کی اور ان کے ہاں کثیر اولادیں ہوئیں۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر یہ عطا اپنی طرف سے ان پر رحمت فرمانے اور عبادت گزاروں کو نصیحت کرنے کیلئے فرمائی تاکہ وہ اس واقعہ سے آزمائشوں اور مصیبتوں پر صبر کرنے اور اس صبر کے عظیم ثواب سے باخبر ہوں اور صبر کرکے اجر و ثواب پائیں.

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں آفات و بَلِیّات سے محفوظ فرمائے اور ہر آنے والی مصیبت پر صبر کر کے اجر و ثواب کمانے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں بہت سے انبیاء کرام کاذکر ارشاد فرمایا ہے. اور ان میں سے بہت ہی پیارے نبی حضرت ایوب علیہ السلام ہے جن کبھی اللہ تعالٰی نے دعا قبول فرمائی تھی۔ اور آج اور حضرت ایوب علیہ السلام اللہ کے بہت بھی پیارے نبی ہے جن کا ذکر سننے کی سعادت حاصل کرتے ہے۔ وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(آیت 83سورہ الانبیاء) (ترجمۂ کنز الایمان) اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔

(تفسیر صراط الجنان){وَ اَیُّوْبَ: اور ایوب کو (یاد کرو)۔}حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کی والدہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خاندان سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے ۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیمار ہوگئے ، جسم کے کچھ حصے پر آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے

ایک اور ایت میں اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ(آیت41سورۃ ص) (ترجمۂ کنز الایمان)اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی۔

ایک اور ایت میں اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے :فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(آیت84سورۃالانبیاء) (ترجمۂ کنز العرفان:تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔

( تفسیر صراط الجنان:{فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ:تو ہم نے اس کی دعا سن لی۔} اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی دعا قبول فرما لی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ ا س طرح دور کردی کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے فرمایا ’’ آپ زمین میں پاؤں ماریئے۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا ،آپ کو حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کیجئے ۔ آپ نے غسل کیا تو ظاہرِ بدن کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں ، پھر آپ چالیس قدم چلے، پھر دوبارہ زمین میں پاؤں مارنے کا حکم ہوا، آپ نے پھر پاؤ ں مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی انتہائی سرد تھا۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامنے اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس پانی کو پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اعلیٰ درجے کی صحت حاصل ہوئی۔


آپ علیہ السلام اللہ عزوجل کے انمول بندے ہیں اللہ عزوجل نے اپ کو طرح طرح کی ازمائشوں سے ازمایا اپ علیہ السلام کو ارام و صحت مال و دولت اولاد اور ہر طرح کی خوشیاں عطا فرما کر ازمایا سےاس میں اپ علیہ السلام نے عظیم کامیابی حاصل کی اپ علیہ السلام نے شکریہ ادا کر کے بے مثال نمونہ پیش کیا اپ علیہ السلام مسکینوں پر رحم فرماتے یتیموں کی کفالت فرماتے مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اور خندہ پیشانی سے پیش اتے ائیں اپ علیہ السلام کی قرانی صفات ملاحظہ کیجئے :

(1) اللہ عزوجل کا ان کی طرف وحی فرمانا: ترجمہ کنز العرفان بیشک اے حبیب ہم نے تمہاری طرف وہی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وہی فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔ ،(پارہ چھ ایت نمبر 163 سورۃ النساء)

(,2) اللہ عزوجل کی بارگاہ سے ہدایت حاصل کرنے والے: ترجمہ کنز العرفان : اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسی اور ہارون کو ہدایت عطا فرمائی اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔ (پارہ سات ایت نمبر 84 سورت الانعام)

(3)اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دعا کرنے والے : ترجمہ کنز العرفان:اور ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کی کو پکارا کہ بے شک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے برہ کر رحم کرنے والا ہے۔(پارہ 17 ایت نمبر 83 سورۃ الانبیاء )

(4) اللہ عزوجل کا ان کی دعا کو قبول فرمانا اور رحمت فرمانا : ترجمہ کنز العرفان :تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو جو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کر دی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرما کر اور عبادت گزارو کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کر دیے۔ (پارہ 17 ایت نمبر 84 سورۃ الانبیاء )

(5)اللہ عزوجل کی بارگاہ میں شیطان سے پناہ مانگنے والے: ترجمہ کنز العرفان: اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا پہنچائی ہے ۔ (پارہ 23 ایت نمبر 41 ص)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو اللہ عزوجل ہمیں انبیاء کرام کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔