حضرتِ ایوب علیہ السلام کا ذکرِ خیر قرآنِ کریم میں چار مقامات پر کیا گیا ہے

پہلا مقام: جس سورۃِ مبارکہ میں آپ علیہ السلام کا ذکر ہے اللہ تعالٰی قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163) ترجمہ کنز الایمان :بیشک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی. (پارہ 6،سورۃ نِساء، آیت 163) مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے اپنے مُقرّب بندے حضرت ایوب علیہ السلام پر وحی فرمائی

دوسرا مقام: قرآنِ کریم میں ارشادِ خُدا وندی ہے : وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (84) ترجمہ کنز الایمان :ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور ہم ایسے ہی نیکو کاروں کو بدلہ دیتے ہیں.(پارہ7، سورۃ انعام، آیت 84)

اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو ہدایت و صلاحیت عطا فرمائی اور اُن کے زمانے میں آپ علیہ السلام کو تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو نیک لوگوں میں شمار کیا، آپ علیہ السلام کو خاص نبوت کے لیے منتخب فرمایا اور صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی۔

تیسرا مقام :قرآنِ کریم میں اللہ پاک کا فرمانِ مبارک ہے: وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83)فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(84) ترجمہ کنز الایمان :اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو رحم کرنے والوں سے بڑھ کر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے. تو ہم نے اس کی دعا سُن لی تو ہم نے اس کی تکلیف دور کر دی جو اسے تھی اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اُتنے ہی اور عطا کیں اپنے پاس رحمت میں سے اور بندگی والوں کے لیے نصیحت ہے. (پارہ 17، سورۃ الانبیاء، آیت83، 84)

مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو آزمائش و امتحان کی گھڑی میں اور ایّامِ بیماری کے دوران آپ علیہ السلام کی دعا کو اپنی رحمت کے ذریعے قبول فرمایا، آپ علیہ السلام کی تکالیف کو دور فرمایا اور آپ علیہ السلام کو پہلے سے زیادہ مال و دولت اور اولاد کی نعمت سے نوازا.

چوتھا مقام : اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کی دعا قبول فرمالي اور انہیں جو تکالیف تھیں وہ اس طرح دور فرمائي کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو فرمایا جو کہ قرآنِ مجید میں مذکور ہے : اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ (42) ترجمہ کنز الایمان :ہم نے فرمایا زمین پر پاؤں مار یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو. (پ23، سورۃ ص، آیت 42)

حضرتِ ایوب علیہ السلام نے اپنا پاؤں مبارک زمین پر مارا تو اس سے ایک چشمہ ظاہر ہوا اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو حکم دیا کہ اس سے غسل کریں تو آپ علیہ السلام نے اس سے غسل فرمایا تو اس سے آپ علیہ السلام کے ظاہری حصّے کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں پھر آپ علیہ السلام چالیس قدم چلے تو اللہ تعالٰی نے دوبارہ حکم ارشاد فرمایا کہ پاؤں زمین پر مارو.

آپ علیہ السلام نے پھر پاؤں مبارک زمین پر مارا تو اس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی بہت ٹھنڈا تھا حکمِ باری تعالٰی سے آپ علیہ السلام نے اس سے پانی پیا تو اس سے آپ علیہ السلام کے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں تو آپ علیہ السلام کو اعلٰی درجہ صحت و تندرستی حاصل ہوئی. (سیرت الانبیاء ص481)

اسی سورہِ مبارکہ میں آگے ارشادِ خُدا وندی ہے : وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(44) ترجمہ کنز الایمان :اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار د ے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

اس مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام مصائب و آلات پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ تعالٰی کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔

اللہ تعالٰی حضرتِ ایوب علی نبیِّنا علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پُر انوار پر کروڑوں رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے۔ (آمين بجاہِ خاتم النبیین صلّی الله عليه وآله واصحابہ وسلّم)


اللہ پاک نے اس کائنات کو پیدا فرمایا اور اس میں بنی نوع انسان کو پیدا فرمایا ۔ اور انسانوں کیلئے طرح طرح کی نعمتیں عطا فرمائیں ۔ جن سے وہ شب و روز میں لطف اندوز ہوتا ہے۔ لیکن ان نعمتوں میں انتہا تک کھو جانا اور رضائے الہٰی کے کاموں کو چھوڑ دینا ، اور اپنی مرضی سے ان میں تصرف کرنا، اور ایسے اقوال و افعال بجا لانا کہ جو انسان کو ھدایت سے گمراہی کی طرف، فرمانبرداری سے نافرمانی کی طرف لے گئے۔ اور ایسا مختلف ادوار میں مختلف انداز میں ہوتا رہا یعنی انسان اپنی من مانیوں اور رب کی نافرمانیوں کو کرتا رہا۔ ایسے میں اللہ پاک نے انسانوں کی رشدوہدایت ہدایت، اصلاح و نصیحت کیلئے انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ اور راہ نمائی کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور چلتا رہا ۔ مختلف قوموں میں مختلف ادوار میں کئ انبیاء کرام علیہم السلام لوگوں کی ھدایت کیلئے تشریف لائے انھی میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں ۔

مختصر تعارف: آپ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے 'عیص' کی نسل سے ہیں۔آپ علیہ السلام کا نام پاک "ایوب" ہے۔ اور نسب نامہ کے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں سے ایک یہ ہے۔ ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن اسحاق علیہ السلام بن ابرھیم علیہ السلام ۔ اور والدہ ماجدہ کا تعلق حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان سے ہے ۔ زوجہ کا نام ''رحمت'' ہے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے فرائیم کی شہزادی تھیں۔

اللہ تعالی نے آپ علیہ السلام کو ہر قسم کے اموال، مویشی ، چوپائے ، باندی، غلام ، کھیت، باغات ، اور وسیع و عریض زمین کے علاوہ کئ بیویوں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا۔مال و دولت، راحت و آرام، صحت و تندرستی کے ان ایام میں بھی آپ علیہ السلام تقوی اور پرہیز گاری کے اعلیٰ درجے پر فائز ، ذکر الہٰی میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہے۔نعمتوں پر شکر الٰہی ادا کرتے رہے۔(سیرت الانبیاء، 476)

قرآن کریم میں جہاں دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر مبارک ہے ، وہیں حضرت ایوب علیہ السلام کا بھی ذکر مبارک، ان کے کمالات اور اوصاف کا بھی تذکرہ ملتا ہے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی قرآنی صفات کا تذکرہ: آپ علیہ السلام انتہائ عمدہ صفات کے مالک تھے۔ جیسے (1تا3) آپ علیہ السلام مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا ط نِعْمَ الْعَبْدُ ط اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (44) (ترجمہ کنزالایمان):

بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔ ( پارہ 23 ، سورۃ ص :44 )

تفسیر روح المعانی میں ہے۔:{اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًا: بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔} یعنی بے شک ہم نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو جان، اولاد اور مال میں آزمائش پر صبر کرنے والا پایا اور اس آزمائش نے انہیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکل جانے اور کسی مَعصِیَت میں مبتلا ہو جانے پر نہیں ابھارا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ اللہ تعالیٰ کی طرف بہت رجوع لانے والا ہے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۱۰ / ۵۹۱، بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: ۴۴، ۵ / ۴۹، ملتقطاً)

حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام قیامت کے دن صبر کرنے والوں کے سردار ہوں گے۔( ابن عساکر، ذکر من اسمہ: ایوب، ایوب نبیّ اللہ، ۱۰ / ۶۶)

آپ علیہ السلام کو اللہ پاک نے ہدایت، صلاح ، اور ان کے زمانے میں تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی، نیک لوگوں میں شمار کیا ، بطور خاص نبوت کیلئے منتخب فرمایا اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت بخشی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ ط كُلًّا هَدَیْنَا ج وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَ ط وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَ ط كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(85) وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًا ط وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْ ج وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(87) (ترجمہ کنزالایمان): اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔اور اسمٰعیل اور یسع اور یونس اور لوط کو اور ہم نے ہر ایک کو اس کے وقت میں سب پر فضیلت دی۔اور کچھ ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بعض کو اور ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی۔ (پارہ 7 ، سورۃ الانعام : 84-87)

حضرت ایوب علیہ السلام کی دعائیں: قرآن کریم میں آپ علیہ السلام کی دعاؤں کا بھی ذکر ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں سورۃ الانبیاء میں ہے؛ وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83) (ترجمہ کنزالایمان): اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔ (سورۃ الانبیاء، پارہ 27 ، آیت: 83)

اور ایک اور جگہ قرآن کریم میں ہے۔ وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَ م اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ ط (41) (ترجمہ کنزالایمان): اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی۔ ( سورۃ ص، پارہ 23، آیت :41)

ایک قول یہ ہے کہ تکلیف اور ایذا سے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری اور اس کے شَدائد مراد ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد بیماری کے دوران شیطان کی طرف سے ڈالے جانے والے وسوسے ہیں جو کہ ناکام ہی ثابت ہوئے۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی پہلی دعا سے معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں اپنی حاجت پیش کرنا بھی دعا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بھی دعا ہے۔ دعا کے وقت اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا انبیاء کرام عَلَيْهِمُ السَّلام کی سنت ہے۔ دعا میں اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کرنی چاہیے جو دعا کے موافق ہو، جیسے رحمت طلب کرتے وقت رحمن و رحیم کہہ کر پکارے۔(از سیرت الانبیاء، 481 )

حضرت ایوب علیہ السلام کی سیرت مبارکہ کے بہت سے خوبصورت پہلو ہیں ، جو قرآن کریم کی تفاسیر کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہونگے اور اس حوالے سے مزید ، عصر جدید کے تقاضوں کے مطابق لکھی جانے والی تفسیر '' تفسیر صراط الجنان'' اور کتاب "سیرت الانبیاء" کا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

اللہ کریم سے دعا ہے ہمیں سیرت انبیاء علیہم السلام کا مطالعہ کرنے، اسے سمجھنے اور عمل پیرا یونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔


آپ علیہ اسلام حضرت اسحاق علیہ اسلام کے بیٹے عیص کی نسل سے ہیں اور والدہ ماجدہ کا تعلق حضرت لوط علیہ اسلام کے خاندان سے ہے اللہ نے آپ کو ہر طرح کی نعمت سے نوازا تھا حسن صورت اور مال و اولاد کی کثرت باندی غلام،کھیت باغات اور وسیع و عریض زمین کے علاوہ کئی بیویوں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا مال و دولت راحت و آرام اور صحت و تندرستی کے ان ایام میں بھی آپ علیہ اسلام تقوی و پرہیز گاری کے اعلیٰ درجے پر فائز ذکر الہی میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہے نعمتوں پر شکر الہی ادا کرتے رہے ۔

نام و نسب : آپ علیہ اسلام کا نامِ پاک " ایوب " ہے اورنسب نامہ سے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں ایک قول یہ بھی ہے ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق علیہ اسلام بن حضرت ابراہیم علیہ اسلام۔ ( النبوة الانبیإ للصابونی، ایوب علیہ اسلام ص 276 )

حلیہ مبارک : آپ علیہ اسلام کے بال گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکهيں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی سینہ چوڑا، پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا ( روح المعانی الانبیإ تحت الاٰیة 83 ، 9/106 )

علماتفسیر و تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب علیہ اسلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال تھے جن میں باندی غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران تک وسیع اراضی شامل ہے یونہی آپ علیہ اسلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی تھی ( قصص الانبیإ لا بن کثير ، قصة ایوب علیہ اسلام ، ص 336 )

آپ علیہ اسلام کے قرآنی اوصاف : آپ علیہ اسلام انتہائی عمدہ اوصاف کے مالک تھے جیسے مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے اشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (پارہ 23 الصافات آیت 44 ) ترجمہ : بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

علامہ ابو بکر احمد بن علی المعروف خطیب بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں حضرت ایوب علیہ اسلام مسکینوں پر رحم کرتے ، یتیموں کی کفالت فرماتے ، بیواٶں کی امداد کرتے ، مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اورخندہ پیشانی سے پیش آتے ، مسافروں کی خیر خواہی کیا کرتے ، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے اور حقوق الہی کامل طریقے سے ادا کرتے تھے ( تاریخ الانبیإ للخطیب بغدادی ، باب فی ذکر قصة نبی اللہ ایوب الخ، ص 142 )

اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش آپ کے سب اموال ختم ہو گئے مویشی و چوپائے مر گئے ایک زوجہ کے علاوہ بقیہ اہل خانہ اور اولاد بھی دنیا سے چلے گئے حتی کے شدید مرض کر شکل میں آپ کے جسم مبارک کا امتحان شروع ہو گیا آزمائش و امتحان کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا لیکن پے در پے مصائب و آلام کے باوجود آپ نے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور جب بھی کوئی مصیبت آئے تو ان کی زبان سے ناشکری کی بجائے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کے کلمات ہی جاری ہوئے آپ کی آزمائش جس قدر ہوتی گئی استقامت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا آپ کا صبر ضرب المثل بن گیا بالآخر آپ علیہ اسلام نے بارگاہ الہی میں دعا کی جس سے آپ کی آزمائش ختم ہوئی اور صبر و شکر کے صلہ میں شفا کی نعمت ملی اور اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بھی زیادہ مال و اولاد عطا فرمادیئے اس کا تذکرہ قرآن پاک میں ہے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ ( پارہ 17 الانبیإ آیت 84 ) ترجمۂ کنزالایمان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کئے اپنے پاس سے رحمت فرما کر اور بندگی والوں کے لیے نصیحت ۔

اللہ پاک ہمیں انبیإ کرام علیھم اسلام کی طرح آزمائش و مصیبت میں اپنا شکر ادا کرنے کی توفيق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی امین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


آپ علیہ الصلوۃ والسلام حضرت اسحاق اسحاق علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹے عیص اس کی ایس کی نسل سے ہے اور والدہ ماجدہ تعلق حضرت لوط علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے ہے__ اللہ تعالی نے اپ علیہ الصلوۃ والسلام کو ہر قسم کے اموال مویشی چوپائے باندی غلام کھیت باغات اور وسیع عریض زمین کے علاوہ کئی بیویاں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا--مال و دولت اور راحت ارام اور صحت تندرستی کے ان ایام میں بھی اپ علیہ الصلوۃ والسلام تقوی پرہیزگاری کے اعلی درجے پر فائز--ذکر الہی میں مشغول اور متوجہ الی اللہ رہے نعمتوں پر شکر الہی ادا کرتے رہے دنیا کی دولت اور زیب و زینت انہیں یاد الہی سے غافل نہ کر سکی پھر اللہ تعالی کی طرف سے ان پر ازمائش ائی اور ان کے سب اموال ختم ہو گئے؛مویشی چوپائے مر گئے- باندی غلام فوت ہو گئے- ایک زوجہ کے علاوہ بقیہ اہل خانہ اور اولاد بھی دنیا سے چلے گئے _ حتی کہ شدید مرض کی شکل میں اپ کے جسم مبارک کا بھی امتحان شروع ہو گیا _ازمائش و امتحان کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا؛لیکن پے در پے مصائب وآلام کہ باوجود اپ نے صبر کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور جب بھی کوئی مصیبت اتی تو ان کی زبان سے ناشکری کی بجائے اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے کلمات ہی جاری ہوئے ۔

آپ کی ازمائش جس قدر شدید ہوئی گئی،صبر استقامت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا یہاں تک کہ اپ کا صبر ضرب المثل بن گیا _بالاخر اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے بارگاہ الہی میں دعا کی جس سے اپ کی ازمائش ختم ہوئی اور صبر و شکر کے صلہ میں شفا کی نعمت ملی اور اللہ تعالی نے پہلے سے بھی زیادہ مال اولاد عطا فرمائے دیئے _ یہاں اپ علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کو چار ابواب میں بیان کیا جا رہا ہے !

حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات کے قرانی مقامات:قران کریم میں اپ علیہ الصلوۃ والسلام کا ذکر خیر چار مقامات پر کیا گیا ہے سورۃ النساء ایت نمبر 163 اور سورۃ انعام ایت نمبر 86 میں دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے اسماء مبارک کے ساتھ اپ کے نام پاک کا بھی ذکر ہے،حالات کا بیان نہیں،البتہ سورۃ الانبیاء ایت نمبر 84,83 اور سورۃ ص44,41 میں اپ کی بیماری،اس سے شفا اور زوجہ سے تعلق ایک واقعہ بیان کیا گیا ہے،

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(85) (سورۃ الانعام پارہ نمبر 7 ایت نمبر 84- 85) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔

تفسیر صراط الجنان:

{ وَ وَهَبْنَا لَهٗ : اور ہم نے انہیں عطا فرمائے۔} حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت کا تذکرہ کیا گیا اور اس کے ساتھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولادِ مبارک کا تذکرہ کیا ۔ جن کے اسماءِ کریمہ آیت میں بیان ہوئے یہ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ سارے نبی ہوئے۔

(حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامقام:) حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے یہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ کے بعد جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد سے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ‘‘ (عنکبوت:27) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔

تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ خازن میں ہے ’’یُقَالُ اِنَّ اللہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ نَسْلِہٖ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو نبی مبعوث فرمایا وہ ان کی نسل سے تھا۔ (بغوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 3 / ۳۹۹-۴۰۰، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 3 / ۴۴۹)

تفسیرِ قرطبی میں ہے ’’لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا مِنْ بَعْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ صُلْبِہٖ‘‘ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کے صلب سے مبعوث فرمائے۔ (قرطبی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 7 / 255، الجزء الثالث عشر)

تفسیرِ جلالین میں ہے ’’فَکُلُّ الْانبیاءِ بَعَدَ اِبْرَاہِیْمَ مِنْ ذُرِّیَّتِہٖ ‘‘ پس حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کی اولاد میں سے تھے۔ (جلالین مع صاوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 1561/27)

یاد رہے کہ سورۂ حدید کی آیت نمبر 26میں جو مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح اور حضرت ابراہیم عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام دونوں کی اولاد میں نبوت رکھی، اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر المحیط، الحدید، تحت الآیۃ: 26، 8 /226)اس سے یہ بھی معلوم ہو اکہ قادیانی نبی ہر گز نہیں کیونکہ اگر قادیانی نبی ہوتا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں ہوتا۔

اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163) (سورۃ النساء ایت نمبر163 پارہ نمبر 6) ترجمۂ کنز الایمان: بیشک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحٰق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی۔

(تفسیر صراط الجنان) {اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ:بیشک ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی۔} اِس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ نے رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے سوال کیا تھا کہ اُن کے لئے آسمان سے یکبارگی کتاب نازل کی جائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی نبوت پر ایمان لے آئیں گے۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی اور ان پر حجت قائم کی گئی کہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے سوا بکثرت انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں جن میں سے گیارہ کے اَسماء شریفہ یہاں آیت میں بیان فرمائے گئے ہیں ، اہلِ کتاب اُن سب کی نبوت کو مانتے ہیں ، توجب اس وجہ سے ان میں سے متعدد کی نبوت تسلیم کرنے میں اہلِ کتاب کو کچھ پس و پیش نہ ہوا تو امامُ الانبیاء، سیدُالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نبوت تسلیم کرنے میں کیا عذر ہے؟

نیز رسولوں عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بھیجنے کا مقصد مخلوق کی ہدایت اور ان کو اللہ تعالیٰ کی توحید ومعرفت کا درس دینا اور ایمان کی تکمیل اور عبادت کے طریقوں کی تعلیم ہے اورکتاب کے متفرق طور پر نازل ہونے سے یہ مقصد بڑے کامل طریقے سے حاصل ہوجاتا ہے کیونکہ تھوڑا تھوڑا بہ آسانی دل نشین ہوتا چلا جاتا ہے، اس حکمت کو نہ سمجھنا اور اعتراض کرنا کمال درجے کی حماقت ہے۔سُبْحَانَ اللہ! کیسا دل نشین اور پیارا جواب ہے

وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83) (سورۃ الانبیاء ایت نمبر 83 پارہ نمبر 17) ترجمۂ کنز الایمان: اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔

(تفسیر صراط الجنان) {وَ اَیُّوْبَ: اور ایوب کو (یاد کرو)۔}حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت اسحاق عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ کی والدہ حضرت لوط عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے خاندان سے ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر طرح کی نعمتیں عطا فرمائی تھیں، صورت کا حسن بھی، اولاد کی کثرت اور مال کی وسعت بھی عطا ہوئی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کوآزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آ پ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر مر گئی، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے ۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتّٰی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا اور جب آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تھی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے’’ میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب ا س نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں ہو سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں ۔ اس کے بعد آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بیمار ہوگئے ، جسم کے کچھ پر آبلے پڑگئے اور بدن مبارک سب کا سب زخموں سے بھر گیا ۔اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنتِ افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ حالت سالہا سال رہی ، آخر کار کوئی ایسا سبب پیش آیا کہ آپ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کی :اے میرے رب! عَزَّوَجَلَّ، بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔(خازن، الانبیاء، تحت الآیۃ: 83، 3 / 286-288، ملخصاً) واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت ایوب علیہ الصلوۃ والسلام کی صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان سے محبت کرنےکی توفیق عطا فرمائے اور ان کے فیوض و برکات سے مالا مال فرمائے۔(امین ثم امین)


اللہ پاک نے انبیاء کرام علیھم السلام کو مخلوق کی ہدایت و رہنمائی کے لیے دنیا میں معبوث فرمایا (بھیجا( ان حضرات کی زندگیوں میں ہمارے لیے بہت رشد و ہدایت ہے۔ ان میں اللہ پاک کے ایک نبی حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں آپ علیہ السلام بھی ان انبیاء کرام علیہم السلام میں سے ہیں کہ جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے۔

نام و نسب: آپ عَلَيْهِ السلام کا نام پاک ایوب“ ہے اور نسب ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق عَلَيْهِ السلام بن حضرت ابراہیم عَلَيْهِ السلام۔والدہ محترمہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں۔ زوجہ کا نام ”رحمت ہے اور یہ حضرت یوسف عَلَيْهِ السلام کے بیٹے افراہیم کی شہزادی تھیں۔

حلیہ مبارک:آپ علیہ السلام کے بال گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکھیں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی،سینہ چوڑا، پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا۔

مال و دولت کی فراوانی: علماء تفسیر و تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب عَلَيْهِ السَّلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال تھے جن میں باندی غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران تک وسیع اراضی شامل ہے۔ یو نہی آپ عَلَيْهِ السَّلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی تھی۔ ( سيرت الانبياء (477

اوصاف: آپ علیہ السلام انتہائی عمدہ اوصاف کے مالک تھے ، جیسے مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : إِنَّا وَ جَدْ لَهُ صَابِرًا نِعْمَ الْعَبْدُ إِنَّةَ أَوَّابٌ [ ص آیت [44 ترجمہ: کنزالعرفان : بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔ خطیب بغدادی رَحْمَةُ اللهِ عَلَيْہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب عَلَيْهِ السلام مسکینوں پر رحم کرتے ، یتیموں کی کفالت فرماتے ، بیواؤں کی امداد کرتے ، مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے، مسافروں کی خیر خواہی کیا کرتے، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اس کا شکر ادا کرتے اور حقوق الہی کامل طریقے سے ادا کرتے تھے۔

قرآن مجید میں آپ کا تذکرہ: ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ-وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ-وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا( الانعام(163 ترجمہ: کنزالعرفان : بیشک اے حبیب! ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے ہم نے نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف وحی فرمائی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی حضرت ایوب علیہ السلام پر آزمائش حضرت ایوب علیه السلام بہت مالدار ، صحت مند اور کثیر اولاد والے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ عَلَيْهِ السلام کو آزمائش میں مبتلا کیا، چنانچہ آپ کی اولاد مکان گرنے سے دب کر فوت ہو گئی، باندی غلام بھی ختم ہو گئے ، تمام جانور جس میں ہزارہا اونٹ اور ہزارہا بکریاں تھیں، سب مر گئے۔ تمام کھیتیاں اور باغات برباد ہو گئے حتی کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔

ان کٹھن حالات میں آپ عَلَيْهِ السلام کا مقدس طرز عمل یہ رہا کہ جب آپ علیہ السلام کو ان چیزوں کے ہلاک اور ضائع ہونے کی خبر دی جاتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد بجالاتے اور فرماتے تھے ”میرا کیا ہے ! جس کا تھا اس نے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا۔ اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں۔“ اس کے بعد آپ عَلَيْهِ السَّلام جسمانی آزمائش میں مبتلا ہو گئے ، ‏ جسم کے کچھ حصہ پراور تمام بدن مبارک زخموں سے بھر گیا۔ اس حال میں سب لوگوں نے چھوڑ دیا البتہ آپ کی زوجہ محترمہ رحمت بنت افرائیم نے نہ چھوڑا اور وہ آپ کی خدمت کرتی رہیں۔ (قصص الانبیاء/علامہ ابن کثیر (316)

قرآن کریم میں ہے: وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(83)فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(84) سورة الانبياء ترجمہ: کنزالعرفان :اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:

حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی بیماری کےبارے میں علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’عام طور پر لوگوں میں مشہور ہے کہ مَعَاذَ اللہ آپ کو کوڑھ کی بیماری ہو گئی تھی۔ چنانچہ بعض غیر معتبر کتابوں میں آپ کے کوڑھ کے بارے میں بہت سی غیر معتبر داستانیں بھی تحریر ہیں، مگر یاد رکھو کہ یہ سب باتیں سرتا پا بالکل غلط ہیں اور ہر گز ہرگز آپ یا کوئی نبی بھی کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوا، اس لئے کہ یہ مسئلہ مُتَّفَق علیہ ہے کہ اَنبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا تمام اُن بیماریوں سے محفوظ رہنا ضروری ہے جو عوام کے نزدیک باعث ِنفرت و حقارت ہیں ۔ کیونکہ انبیاء عَلَیْہِمُ السَّلَام کا یہ فرضِ منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و ہدایت کرتے رہیں تو ظاہر ہے کہ جب عوام ان کی بیماریوں سے نفرت کر کے ان سے دور بھاگیں گے تو بھلا تبلیغ کا فریضہ کیونکر ادا ہو سکے گا؟ الغرض حضرت ایوب عَلَیْہِ السَّلَام ہرگز کبھی کوڑھ اور جذام کی بیماری میں مبتلا نہیں ہوئے بلکہ آپ کے بدن پر کچھ آبلے اور پھوڑے پھنسیاں نکل آئی تھیں جن سے آپ برسوں تکلیف اور مشقت جھیلتے رہے اور برابر صابر و شاکر رہے۔

یونہی بعض کتابوں میں جو یہ واقعہ مذکور ہے کہ بیماری کے دوران حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم مبارک میں کیڑے پیدا ہو گئے تھے جو آپ کا جسم شریف کھاتے تھے، یہ بھی درست نہیں کیونکہ ظاہری جسم میں کیڑوں کا پیدا ہونا بھی عوام کے لئے نفرت و حقارت کا باعث ہے اور لوگ ایسی چیز سے گھن کھاتے ہیں ۔لہٰذا خطباء اور واعظین کو چاہئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرف ایسی چیزوں کو منسوب نہ کریں جن سے لوگ نفرت کرتے ہوں اور وہ منصبِ نبوت کے تقاضوں کے خلاف ہو۔

آپ علیہ السلام پر احسانات الٰہی: آپ علیہ السلام کو ہدایت ،صلاح اور ان کے زمانے کے تمام جہان والوں پر فضیلت بخشی،مقام نبوت پر فائز فرمایا اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت بخشی ۔ ارشاد باری تعالی ہے : وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْن(85)َ

وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ الْیَسَعَ وَ یُوْنُسَ وَ لُوْطًاؕ-وَ كُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعٰلَمِیْنَ(86)وَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ اِخْوَانِهِمْۚ-وَ اجْتَبَیْنٰهُمْ وَ هَدَیْنٰهُمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْم(87)ٍ

ترجمہ: کنزالعرفان اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا) یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔ اور اسماعیل اور یَسَع اور یونس اور لوط کو (ہدایت دی)اور ہم نے سب کو تمام جہان والوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ اور ان کے باپ دادا اور ان کی اولاد اور ان کے بھائیوں میں سے (بھی) بعض کو (ہدایت دی) اور ہم نے انہیں چن لیا اور ہم نے انہیں سیدھے راستے کی طرف ہدایت دی۔( سورة الانعام/آیت84تا87)

حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا:آزمائش و امتحان کی گھڑی میں اور ایام بیماری کے دوران جب آپ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اسے قبول فرمایا، آپ کی تکلیف دور کر دی اور پہلے سے بھی زیادہ مال و دولت اور اولاد کی نعمت سے نوازا۔ارشاد باری تعالی ہے : فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْن(85)َ ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔ (سورة الانبياء آیت 85)

بیماری سے شفاء یابی: اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی اور انہیں جو تکلیف تھی وہ اس طرح دور کر دی کہ آپ علیہ السلام سے فرمایا: زمین پر پاؤں مارو۔ انہوں نے پاؤں مارا تو ایک چشمہ ظاہر ہوا۔ حکم دیا گیا کہ اس سے غسل کریں۔ آپ نے غسل کیا تو بدن کے ظاہری حصے کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں، پھر آپ چالیس قدم چلے تو دوبارہ زمین پر پاؤں مارنے کا حکم ہوا۔ آپ نے پھر پاؤں مارا تواس سے بھی ایک چشمہ ظاہر ہوا جس کا پانی بہت ٹھنڈا تھا۔ حکم الہی سے آپ علیہ السلام نے یہ پانی پیا تو اس سے بدن کے اندر کی تمام بیماریاں دور ہو گئیں اور آپ علیہ السلام کو اعلی درجے کی صحت و تندرستی حاصل ہوئی۔ ارشاد باری تعالی ہے : اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَاب(42)ٌ ترجمہ: کنزالعرفان۔ (ہم نے فرمایا:) زمین پر اپنا پاؤں مارو۔یہ نہانے اور پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔ (سورة ص آیت 42)

یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ کے مقرب بندوں کو آزمائش و امتحان میں مبتلا فرماتا ہے اور ان کی آزمائش اس بات کی دلیل نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ناراض ہے بلکہ یہ ان کی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عزت و قرب کی دلیل ہے۔ حضرت سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں نے عرض کی: یا رسولَ اللہ!صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش کس پر ہوتی ہے؟ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی، پھر درجہ بدرجہ مُقَرَّبِین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر وہ دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے اور اگر وہ دین میں کمزور ہو تو دین کے حساب سے آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ زمین پر ا س طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، 4 / 179، الحدیث: 2406)

حضرت انس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’بڑا ثواب بڑی مصیبت کے ساتھ ہے،اور جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کے ساتھ محبت فرماتا ہے تو انہیں آزماتا ہے،پس جو اس پر راضی ہو اس کے لئے(اللہ تعالیٰ کی )رضا ہے اور جو ناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔(ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء، 4 / 178، الحدیث 2404)


اللہ تعالی نے اپنے بہت سے انبیاء کرام کا خوبصورت انداز میں تذکرہ کیا ہے یہ وہ بستیاں ہیں جنہوں نے اپنی ساری زندگی اللہ تعالٰی کی اطاعت میں گزاری اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے بہت ہی پیارے نبی حضرت ایوب علیہر السلام کا بہت ہی احسن انداز میں قرآن پاک میں تذکرہ فرمایا ہے۔ ابن اسحاق رحمتہ اللہ کہتے ہیں کہ حضرت ایوب علیہ السلام کا تعلق اہل روم سے تھا

نام مبارک: ایوب بن موص بن زارح بن العیص ابن اسحاق بن حضرت ابراہیم علیہ السلام ہے۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے :

آیت نمبر (1) وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ كُلًّا هَدَیْنَاۚوَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنز العرفان :- اور ہم نے انہیں اسحاق اور یعقوب عطا کیے۔ ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور ان سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو ہدایت عطافرمائی اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں (پارہ 7۔سورۃ الانعام، آیت 84)

آیت نمبر (2) اِنَّاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ كَمَاۤ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى نُوْحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖۚ وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ عِیْسٰى وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْنُسَ وَ هٰرُوْنَ وَ سُلَیْمٰنَۚ وَ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ زَبُوْرًا(163) ترجمہ کنز الایمان : بیشک اے محبوب ہم نے تمہاری طرف وحی بھیجی جیسے وحی نوح اور اس کے بعد پیغمبروں کو بھیجی اور ہم نے ابراہیم اور اسمعیل اور اسحق اور یعقوب اور ان کے بیٹوں اور عیسی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کو وحی کی اور ہم نے داؤد کو زبور عطا فرمائی ۔ (پارہ 6 .سورۃ النساء .آیت 163)

آیت نمبر 3 : وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ ترجمہ کنز العرفان :- اور ایوب کو یاد کرو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے

(پارہ 17. سورۃ الانبیاء، آیت 83)

آیت نمبر (4) : فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(84) ترجمہ کنز العرفان : تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو جو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دورکر دی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرما کر اور عبادت گزاروں کونصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کر دیئے۔(پارہ 17 سورۃ النبیاء آیت (84)

آیت نمبر (5) :وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(44) ترجمہ کنزالعرفان: اور فرمایا اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لیکر اس سے مار دو اور قسم نہ تو ڑو۔ بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔ وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ رجوع لانے والا ہے۔(پارہ 23 سورۃ ص ، آیت 44)

بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ۔ اس پر آپ علیہ السلام نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا ۔ جب حضرت ایوب علیہ السلام صحتیاب ہوئے تو اللہ تعالٰی نے حکم دیا آپ انہیں جھاڑوں مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑ یں ۔ چنانچہ حضرت ایوب نے سو تیلیوں والا ایک جھاڑو لیکر اپنی زوجہ کو ایک بار ہی مار دیا۔(بیضاوی ، ص ، تحت الآية : 44 ، 49/5 ، جلالین میں، تحت الاية 44، صفحہ 383 لیا گیا)


حضرت ایوب علیہ السلام مالدار،مضبوت جسم اوراولادوالےتھےان کے پاس بہت سے قسم قسم کے جانور تھے

کھیتیاں باغات وغیرہ تھےاولاد بیویاں لونڈیاں غلام اور مال و متاع سبھی کچھ اللہ کادیاموجود تھا. (ابن ابی حاتم،167) وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ (سورہ الانبیاء (آ یت83) ترجمۂ کنز الایمان :اور ایوب کو جب اس نے ا پنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مِہر والوں سے بڑھ کر مِہر والا ہے۔

وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ(سورہ ص آ یت41) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو ہمارے بندہ ایوب کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا لگادی۔

وَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ(سورہ ص؛اوَهَبْنَا لَهٗۤ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنَّا وَ ذِكْرٰى لِاُولِی الْاَلْبَابِ((سورہ ص آ یت43) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے اسے اس کے گھر والے اور ان کے برابر اور عطا فرمادئیے اپنی رحمت کرنے اور عقل مندوں کی نصیحت کو۔

تفسیر صراط الجنان: حضرت حسن اور حضرت قتادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے مروی ہے کہ حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی جو اولاد مرچکی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو دوبارہ زندہ کیا اور اپنے فضل و رحمت سے اتنے ہی اور عطا فرمائے۔( تفسیرطبری، ص، تحت الآیۃ10۰43 / 590، ملخصاً))

اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ(سورہ ص آ یت42) ترجمۂ کنز الایمان: ہم نے فرمایا زمین پر اپنا پاؤں مار یہ ہے ٹھنڈا چشمہ نہانے اور پینے کو۔ (44 سورہ ص آیت)

ترجمۂ کنز الایمان: اور فرمایا کہ اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار د ے اور قسم نہ توڑ بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔


قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے اپنے معزز و مکرم انبیاء کرام علیہم السلام کا کئی مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی شان و عظمت اور صفات کمالیہ کا اظہار فرمایا ہے ۔ لیکن یادرہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ نہیں فرمایا بلکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ انہی میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں کہ جن کا قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے 4 بار ذکر خیر فرمایا ہے ۔ سورۃ النساء،آیت:163 ، سورۂ انعام،آیت:85 ، سورۃ الانبیاء،آیت:83٫84 ، سورۂ ص،آیت:41 تا 44 ۔

آئیے سب سے پہلے حضرت ایوب علیہ السلام کا تعارف جانتے ہیں :

نام و نسب : آپ علیہ السلام کا نام پاک ”ایوب“ ہے اور نسب نامہ سے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے: ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام (سیرت انبیاء ،ص:477) والدہ محترمہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔ زوجہ کا نام ”رحمت“ ہے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے افرائیم کی شہزادی تھیں۔

حلیہ مبارک : آپ علیہ السلام کے بال گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکھیں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی، سینہ چوڑا، پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا۔ (سیرت انبیاء،ص:477)

مال و دولت کی فراوانی : علماء تفسیر و تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال تھے جن میں باندی، غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران تک وسیع اراضی شامل ہے۔ یو نہی آپ علیہ السلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی تھی۔ (سیرت انبیاء،ص:477)

معزز قارئین کرام ! آئیے اب قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں حضرت ایوب علیہ السلام کے اوصاف ملاحظہ کرتے ہیں :

حضرت ایوب علیہ السلام کے قرآنی اوصاف : آپ علیہ السلام انتہائی عمدہ اوصاف کے مالک تھے ، جیسے

(1 تا 3) مصائب پر بہت صابر ، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع لانے والے :ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (پ:23،ص:44)ترجمہ کنز العرفان : بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

دیکھا آپ نے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے اوصاف حمیدہ کو اللہ تبارک و تعالی نے کس خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ محترم قارئین کرام ! معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک کے برگزیدہ ہستیوں کا یہ انداز ہے تو ہمیں تو بدجہ اولی اس انداز کو اپنانا چاہیے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اللہ جلا و علا کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں صبر کا دامن تھامے رہیں اور ہر حال میں شکر الہی بجالاتے رہیں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کثرت سے توبہ و استغفار کی عادت بنائیں تا کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے ۔

مجھے ایسے عمل کی دے توفیق

کہ ہو راضی تری رضا یارب

(4) قبولیت دعا : اللہ جلا و علا نے حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک عرصہ تک آزمائش میں مبتلا فرمایا اور آزمائش میں ثابت قدم رہنے کے بعد آپ علیہ السلام کی دعا کو قبول بھی فرمایا ۔ ارشاد باری تعالی ہے: فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(پ:17، انبیاء:84) ترجمہ کنز العرفان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں اور مایوس نہ ہوں بلکہ پر امید رہیں کہ اللہ کریم ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے گا ۔

یاد رہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلاء کئے جانے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں ،ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالی نے کسی خطا کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلا نہیں کیا بلکہ آپ علیہ السلام کے درجات (مزید) بلند کرنے کیلئے آزمائش میں مبتلا کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: 41، ص:1023)

ویسے تو حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں کئی واقعات مذکور ہیں جن کی اس مختصر میں گنجائش نہیں ، لیکن حصول برکت کیلئے آئیے حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنھا کا ایک واقعہ سنتے ہیں ؛

حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت الہی: بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس پر آپ علیہ السلام نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔جب حضرت ایوب علیہ السلام صحت یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ علیہ السلام انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں ،چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام نے سَو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔( بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: 44، 5 / 49، جلالین، ص، تحت الآیۃ: 44،ص383، ملتقطاً)

فرمانِ باری تعالی ہے : وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔

حضرت ایوب علیہ السلام کے قسم کھانے کا ایک سبب اوپر بیان ہوا اور دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام اللہ تعالی کے پیارے نبی ہیں کہ آزمائش وابتلاء کے دور میں آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب علیہ السلام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کر لائی ہیں ،اس پر آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں گا۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، 13 / 526) آگے کی تفصیل وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرین نے حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بیماری کے زمانہ میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو ا س کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔ (سیرت انبیاء ،ص:483,484)

وفات : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: آزمائش ختم ہونے کے بعد حضرت ایوب علیہ السلام نے ستر سال نعمت وراحت میں زندگی بسر کی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیرا ر ہے۔ آپ کی اولاد اور قوم بھی اسی دین پر کار بند رہی یہاں تک کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی وفات سے کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنا دین بدل دیا۔ (سیرت انبیاء،ص:484)

بعض علماء کے نزدیک 93 سال کی عمر میں اور بعض کے نزدیک ان سے زیادہ برس کی عمر میں حضرت ایوب علیہ السلام نے وفات پائی۔ (البدایہ والنہایہ ،قصۃ ایوب علیہ السلام ، 312/1)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے صدقے مصائب پر صبر کرنے والوں ، ہر حال میں شکر ادا کرنے والوں اور اپنی طرف رجوع لانے والوں میں شامل فرمائے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم

مُشکِلوں میں دے صبر کی توفیق

اپنے غم میں فَقَط گُھلا یارب


آپ علیہ السلام حضرت اسحاق کے بیٹے عیص کی نسل میں سے ہیں اور والدہ ماجدہ کا تعلق حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان سے ہے۔ آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے مال مویشی، چوپائے غلام ، کھیت وغیرہا وسیع عریض زمین کے علاؤہ کئی بیویاں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا ۔ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی آپ یاد الٰہی میں مشغول رہے نعمتوں پر شکر کرتے رہے ،دنیا کی دولت زیب و زینت انہیں یاد الٰہی سے غافل نہ کرسکی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر آزمائش آنا شروع ہوئی مگر آپ صبر سے برداشت کرتے رہے ،یہاں تک کے تمام اموال اولاد ختم ہو گی ،لیکن آپ کا صبر اور بڑھتا گیا کم نا ہوا یہاں تک کے آپ کا صبر ضرب المثال بن گیا، بالآخر آپ نے بارگاہ الہٰی میں دعا کی تو آزمائش ختم ہو گی ، صبر شکر کے صلہ میں شفا کی نعمت ملی اور اللہ تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد عطا فرما دیئے۔ قرآن مجید میں جن کی آزمائش کا واقع بیان کیا گیا ہے ان میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں ۔

آئیے قرآن مجید کی روشنی میں آپ علیہ السلام کی قرآنی صفات کا مطالعہ کرتے ہیں:

مصیبت میں صبر کرنے والے : اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ ترجمہ کنزالایمان: بے شک ہم نے اسے صابر پایا (پارہ 23، سورة ص، آیت نمبر 44)

بہت اچھے بندے: نِعْمَ الْعَبْدُ ترجمہ کنزالایمان: کیا اچھا بندہ ( پارہ 23 ، صورة ص ، آیت نمبر 44) آپ علیہ السلام مسکینوں پر رحم کرتے ، یتیموں کی کفالت فرماتے ، بیواؤں کی امداد کرتے مہمانوں کے ساتھ عزت وتکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ اللہ عزوجل کی فرمانبرداری و اطاعت بجا لاتے تھے۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ نمبر 478)

بہت رجوع لانے والے : اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔( پارہ 23 ، سورة ص، آیت نمبر 44)

پتا چلا کے سارے کام اللہ عزوجل کی توفیق سے ہی بنتے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہیے کے جب بھی کسی قسم کی مصیبت آ جائے ۔ صبر صبر اور صبر کرنا چاہیے ۔ جب بھی کوئی مصیبت یا پریشانی آئے تو شکوہ شکایات کے بجائے صبر سے کام لیں اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کو یاد کریں۔

کریم مالک سے دعا ہے کہ اللہ عزوجل و حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں بھی خوب صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں انبیاء کرام اللہ پاک کے وہ خاص بندے ہیں جنہوں نے دین کی تبلیغ کرنے کے لیے بہت سی انذ یتے اور تکلیفیں جھیلی اور ان پر صبر و تحمل بھی کیا اور ایسا صبر جس کے قائم مقام کسی نے صبر نہیں کیا حضرت ایوب علیہ السلام نے بھی بہت سی تکلیفیں چھیلی اور ان پر صبر کیا آپ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ آئیے آپ علیہ السلام کا تذکرہ خیر پڑھتے ہیں :

(1) ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں: وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (84)الانعام ۔  ترجمۂ کنز العرفان : اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔

(2) یہ ہمارے خاص بندے ہیں : كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(85) الانعام  ترجمۂ کنز العرفان: یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔

(3) تو رحم والا ہے: وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ الانبیا (83)  ترجمۂ کنز العرفان:اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

(4)زمین پر اپنا پاوں ماریں: اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ(ص آیت42)  ترجمۂ کنز العرفان: ۔ (ہم نے فرمایا:) زمین پر اپنا پاؤں مارو۔یہ نہانے اور پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔

(5) آپ علیہ السلام کو صبر کرنے والا پایا : وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ( ص آیت44)  ترجمۂ کنز العرفان اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین 

رب تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو ان کے دین کے مطابق آزمائش میں مبتلا فرماتا ہے اور یہ آزمائش ناراضی نہیں بلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں عزت و قرب اور بلندیِ درجات کی دلیل ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ کے سب سے محبوب و مقربین بندے چونکہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام ہوتے ہیں اس لئے ان پر آزمائش بھی سب سے زیادہ آتی ہے۔ پھر توفیقِ الٰہی سے حضراتِ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کا ان آزمائشوں پر صبر و رضا کا دامن تھامنا تمام بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ان مبارک ہستیوں کی زندگیاں ہوتی ہی کامل اُسوۂ حسنہ ہیں۔ قراٰنِ مجید میں جن کی آزمائش کے واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السّلام بھی ہیں۔

آپ کا نامِ مبارک ”ایوب“ ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی آل پاک سے ہیں۔ آپ کو اللہ پاک نے تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال سے جن میں باندی، غلام، مویشی دیگر جانور اور وسیع و عریض زمین کے علاوہ کئی بیویاں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا۔(دیکھئے:سیرت الانبیاء، ص477)

آپ کا ذکرِ خیر قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے، آپ کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں، احسانات اور اوصافِ حمیدہ سے نوازا ہے۔ آئیے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید کی روشنی میں آپ کی قراٰنی صفات کے بارے میں جانتے ہیں:

(1)مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے: ﴿اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے اسے صابر پایا۔(پ 23، صٓ: 44)

آپ علیہ السّلام کی آزمائش جس قدر شدید ہوتی گئی، صبر و استقامت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔ مفتی قاسم صاحب لکھتے ہیں: جب آپ کے تمام اموال ختم ہو گئے، مویشی و چوپائے سب مر گئے، آپ بھی شدید مرض میں مبتلا کئے گئے، سب ختم ہو جانے کے بعد بھی آپ کا مقدس طرزِ عمل یہ تھا کہ جب کوئی آپ کو ان چیزوں کے ہلاک ہونے کی خبر دیتا تو آپ اللہ پاک کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے: میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا، اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں۔ (دیکھئے: سیرت الانبیاء، ص479، 480)

(2)بہت ہی اچھے بندے: ﴿نِعْمَ الْعَبْدُؕ- ترجَمۂ کنزُ الایمان: کیا اچھا بندہ۔(پ23، صٓ: 44) سیرت الانبیاء میں ہے کہ آپ مسکینوں پر رحم کرتے، یتیموں کی کفالت فرماتے، بیواؤں کی امداد کرتے مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص 478)

(3)بہت رجوع لانے والے: ﴿ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(۴۴) ترجَمۂ کنزُ الایمان: بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔(پ 23، صٓ: 44) اللہ اکبر! آپ کے مبارک اوصاف میں اللہ پاک نے واضح فرمایا کہ ہم نے اسے صابر پایا۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام کتنے عرصہ تک مصیبت میں مبتلا رہے اور صبر بھی کیسا جمیل فرمایا! جب اس سے نجات ملی عرض کیا: الٰہی! میں نے کیسا صبر کیا؟ ارشاد ہوا: اور توفیق کس گھر سے لایا؟ حضرت ایوب علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے عرض کیا: بے شک اگر تو توفیق نہ عطا فرماتا تو میں صبر کہاں سے کرتا ؟(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 460)

معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی توفیق سے ہی سارے کام بنتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ آزمائش آ جانے پر رب تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کریں، اس کی حمد بجا لائیں، ناشکری کے الفاظ نہ لائیں بلکہ شکر ادا کریں کہ ضرور اس میں ہمارے لئے بہتری کا سامان ہو گا۔ ہمارے واویلا اور شور کرنے سے آزمائش ختم نہیں ہو گی بلکہ بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنے سے کام بنے گا۔ بس اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ ان مبارک ہستیوں کی سیرت کے مطالعہ سے بھی صبر کا درس ملتا ہے، انسان قدرتی طور پر طاقت محسوس کرتا ہے۔ اس لئے ان کی سیرت کو خوب پڑھنا چاہئے۔ انبیائے کرام کی سیرت کے متعلق مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”سیرت الانبیاء“ کا مطالعہ کیجئے۔

اللہ پاک ان اچھے اوصاف پر ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دعوتِ اسلامی کے تحت اسٹچفورڈ  برمنگھم یوکے میں قائم مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سے ذمہ داران نے اسلامی بھائیوں کے ہمراہ راہِ خدا عزوجل میں 3 دن (21، 22، 23 جون 2024ء)کے مدنی قافلے میں سفر کیا جوکہ مقامی مدینہ مسجد میں قیام پذیر ہوا۔

شرکائے مدنی قافلہ نے مختلف دینی ایکٹیویٹیز میں حصہ لیا جن میں مسجد درس، چوک درس، علاقائی دورہ برائے نیکی کی دعوت، سیکھنے سکھانے کے حلقے اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔

اس دوران امیرِ قافلہ محمد عتیق عطاری نے شرکائے مدنی قافلہ کی تربیت و رہنمائی کرتے ہوئے انہیں دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے منسلک رہنے اور دینی کاموں میں حصہ لینے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اگلے مہینے جولائی 2024ء کے مدنی قافلے میں سفر کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ: عتیق عطاری برمنگھم ریجن یوکے، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)