وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ
تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ
ترجمہ کنزالایمان:اور جب سنتے ہیں، وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی
ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے ربّ ہمارے! ہم ایمان لائے تو ہمیں
حق کے گواہوں میں لکھ لے۔"(پ7، المائدہ:83)
اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: جب
حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نجاشی کے دربار میں جمع تھے اور مشرکینِ مکہ کا وفد بھی وہاں موجود تھا تو اس وقت نجاشی نے
حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ سے عرض کی:
کیا آپ کی کتاب میں حضرت مریم رضی
اللہ عنہا کا ذکر ہے؟
حضرت جعفر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:" قرآن پاک میں ایک مکمل سورت
حضرت مریم رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے، پھر سورۃ مریم اور سورۃ طٰہ کی چند
آیات تلاوت فرمائیں، تو نجاشی کی آنکھوں
سے سیلِ اشک رواں ہوگیا، اسی طرح جب پھر حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس
میں70 آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورۃ یٰسین
کی تلاوت فرمائی تو اسے سن کر وہ لوگ بھی زارو قطار رونے لگے، اس آیت میں ان واقعات کی طرف اشارہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، سورۃ المائدہ،
تحت الآیۃ، جلد 3، صفحہ 11)
تلاوت قرآن کے وقت
رونا مستحب ہے:
حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم
کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن
، 129/2 ، الحدیث 1337)
اس سے معلوم ہوا کہ تلاوتِ قرآن
میں رونا ایک مستحب عمل ہے، ہمارے بزرگانِ
دین
رحمھم اللہ کا بھی یہ انداز رہا ہے، وہ بزرگ ہستیاں قرآن پاک سے بے پناہ محبت اور
لگاؤ رکھتے، تلاوتِ قرآن کی کثرت کرتے اور
اس کے معنی و مفاہم میں غورو فکر
کرتے ہوئے خوب گریہ وزاری فرماتے، رحمتِ الہی کی آیات پر رحمت کی امید اور عذابِ الہی کی آیات پر ربّ کریم کے عذاب سے پناہ
مانگتے، کچھ واقعات ملاحظہ کیجئے۔
تلاوت قرآن میں
رونے والوں کے واقعات:
حضرت سیّدنا عکرمہ ابن ابو جہل رضی اللہ عنہ جب
قرآن پاک کھولتے، تو آپ پر غشی طاری
ہوجاتی اور فرماتے یہ میرے ربّ عزوجل کا کلام ہے۔( دین و دنیا کی انوکھی باتیں، جلد1، صفحہ 63)
امام اعظم علیہ الرحمہ اور تلاوتِ قرآن:
حضرت سیّدنا قاسم بن معن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے
ہیں، ایک رات میں امام الائمہ، سراج الاُمّۃ، حضرت سیدنا امام اعظم علیہ الرحمۃ نے قیام
فرمایا اور اللہ عزوجل کے اس فرمان بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ
اَمَرُّ۔(پ 27، القمر: 46)
ترجمہ کنزالایمان:بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت
کڑوی۔
کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے، روتے اور گریہ و زاری کرتے رہے۔( سیرت اعلام
الانبیاء، الطبقۃ الخامسۃ من التابعین
163، ابو حنیفہ 401/6، موسۃ الرمالۃ بیروت)
امام شافعی علیہ
الرحمہ کا اندازِ تلاوت:
فقہ کے مشہور امام محمد بن ادریس شافعی علیہ
الرحمۃ تلاوتِ قرآن میں خوب گریہ و زاری فرماتے اور جب کبھی تلاوتِ قرآن سنائی
دیتی تو آپ علیہ الرحمۃ پر بسااوقات بے
ہوشی طاری ہوجاتی، جیسا کہ حضرت سیدنا ملّا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں، حضرت سیّدنا امام شافعی علیہ الرحمہ نے کسی قاری
صاحب کو سنا، جو یہ تلاوت کر رہا تھا، هٰذَا یَوْمُ لَا یَنْطِقُوْنَۙ وَ لَا یُؤْذَنُ لَهُمْ فَیَعْتَذِرُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:یہ دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے اور نہ انہیں اجازت ملے کہ عذر
کریں۔(پ 29 ، المرسلات: 35، 36)
تو آپ علیہ الرحمۃ کا رنگ متغیر ہو گیا، کپکپانے لگے اور بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے
آئے، جب افاقہ ہوا تو عرض کی:اے اللہ پاک!
میں جھوٹوں کے ٹھکانے اور جاہل لوگوں کے
منہ پھیرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، مجھے
اپنی رحمت عطا فرما اور اپنے پردہ بخشش میں چھپا لے اور اپنے کرم سے میری کوتاہیاں
معاف فرما دے اور مجھے اپنے علاوہ کسی غیر کا محتاج نہ کر اور اپنی بھلائی سے مجھے
مایوس نہ کر۔( مرقاۃ المفاتح، خطبۃ الکتاب،
والی عبد اللہ محمد بن ادریس الشافعی،
69/1، دار الکتب العلمیہ)
تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ
میں تھر تھر رہوں کانپتا یا الہی
امام مالک علیہ الرحمہ
کی گریہ زاری:
حضرت سیدنا مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:لوگوں کے سو جانے کے بعد میں نکلا اور حضرت سیدنا امام مالک علیہ الرحمہ
بن انس کے پاس سے گزرا، تو کیا دیکھتا ہوں
کے آپ کھڑے ہو کر نماز ادا فرما رہے تھے، جب الحمدللہ(سورہ فاتحہ) سے فارغ ہوئے تو الھکم
التکاثر کو شروع کیا اور جب ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ
النَّعِیْمِ۠(پ30، التکاثر: 8) پر پہنچے، تو کافی دیر روتے رہے اور اس کو بار بار پڑھتے
اور روتے، پھر فرماتے ہیں کہ آپ طلوعِ فجر
تک اس کو بار بار پڑھتے اور روتے رہے۔ (تدریب المدارک،باب فی ذکر عبادت)
سبحان اللہ! یہ اللہ والوں کا ہی شیوہ ہے کہ بلند مقام پر
فائز ہونے کے باوجود بھی ان کی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ پاک کا
کلام پڑھا جاتا، تو خوفِ خدا کے سبب کانپ اٹھتے، خوب گریہ و زاری کرتے، یہاں تک کہ بے ہوش ہو کر گر پڑتے، یقیناً یہی لوگ اس آیت کے مصداق ہیں، ربّ
کریم سورہ زمر کی آیت نمبر 23 میں فرماتا ہے: اَللّٰهُ
نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَ ﳓ تَقْشَعِرُّ
مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ-ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَ
قُلُوْبُهُمْ اِلٰى ذِكْرِ اللّٰهِؕ-ذٰلِكَ هُدَى اللّٰهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ
یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّضْلِلِ اللّٰهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍ(۲۳)
ترجمہ کنز الایمان: اللہ نے اُتاری سب سے اچھی
کتاب کہ اوّل سے آخر تک ایک سی ہے دوہرے
بیان والی اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے
بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں پھر ان کی کھالیں اور دل نرم پڑتے ہیں یادِ خدا کی
طرف رغبت میں یہ اللہ کی ہدایت ہے راہ
دکھائے اسے جسے چاہے اور جسے اللہ گمراہ کرے اسے کوئی راہ دکھانے والا نہیں۔
اللہ پاک ان نیک ہستیوں کے صدقے میں ہمیں بھی تلاوتِ قرآن میں آہ و زاری
کرنے اور غور و فکر کے ساتھ قرآن پاک پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم
تمھید:
سب خوبیاں اللہ عزوجل کے لئے، جس نے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے ذریعے
بندوں پر احسان فرمایا، قرآن مجید کو دنیا
کی فصیح ترین زبان عربی میں نازل کیا گیا، تاکہ لوگ اسے سمجھ سکیں، یہ وہ کتاب ہے جس نے اوّلین
اورآخرین کی رہنمائی فرمائی، اس مبارک
کلام کی شان یہ ہے کہ اس کو بار بار پڑھنے سے اُکتاہٹ نہیں ہوتی، بلکہ لذّت ملتی ہے اور کیوں نہ ہو کہ قرآن کو
قرآن کہتے ہی اس لئے ہیں کہ قرآن کا معنیٰ ہے بار بار پڑھی جانے والی کتاب، یعنی یہ کتاب بار بار پڑھی جاتی ہے، لیکن پھر بھی اس سے اُکتا ہٹ نہیں ہوتی، جیسا کہ باقی کتب ہیں کہ ایک آدھ دفعہ پڑھنے کے بعد دوبارہ پڑھنے کا جی نہیں کرتا، احادیثِ مبارکہ میں تلاوت قرآن کے بہت فضائل بیان
کئے گئے ہیں:
ایک حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:اَفْضَلُ عِبَادَۃِ اُمَّتِیْ تِلَاوَۃُ الْقُرْآنِ۔
یعنی میری امت کی افضل عبادت تلاوتِ قرآن ہے۔(احیاءُ العلوم، جلد 1، صفحہ 823)
تلاوت
کرنے والے پر لازم ہے کہ اخلاص کے ساتھ تلاوت کرے، تلاوت سے مقصود صرف رِضائے الٰہی کا حصول ہو، کسی دنیاوی مقصد کے پیشِ نظر نہ ہو، با ادب
انداز میں تلاوت کرے اور اِس بات کو ذہن میں رکھے کہ اپنے ربّ عزوجل سے مناجات کر رہا ہے اور اُس کی
کتاب پڑھ رہا ہے، تلاوت کے وقت ایسی کیفیت
طاری ہو کہ گویا وہ اللہ عزوجل
کو دیکھ رہا ہے، اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ
خیال جمائے کہ اللہ عزوجل اسے
دیکھ رہا ہے، قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا
مستحب ہے،
اس
کے متعلق تین فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:
1۔مصطفٰی
جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم
نے اِرشاد فرمایا:"قرآن پڑھو اور روؤ، اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لو۔"
2۔حضرت
سیّدنا صالح مری علیہ رحمۃ اللہ الوالی
فرماتے ہیں:"میں نے خواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن پاک کی
تلاوت کی تو آپ نے اِستفسار فرمایا"اے صالح!یہ تلاوتِ قرآن ہے تو رونا کہاں
ہے؟
3۔حضور
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:"قرآن
غم کے ساتھ نازل ہوا، لہذا جب تم اس کی قرءت
کرو تو غم ظاہر کرو۔"(احیاء العلوم، جلد ، 1 صفحہ 836)
غم
کی کیفیت پیدا کرنے کا طریقہ:
یہ
کہ اس میں وارد تنبیہات وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد کرے، پھر اس کے اوامرو نواہی کے معاملے میں اپنی
کوتاہیوں میں غور و فکر کرے تو بالیقین وہ غمگین ہو گا اور رونے لگے گا، اگر اس پر غم اور رونے کی کیفیت طاری نہ ہو، جیسے صاف دل والوں پر طاری ہوتی ہے تو اسے نہ
رونے اور غمگین نہ ہونے پر رونا چاہئے کہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔
جب رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:"میرے
سامنے تلاوت کرو، آپ رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں، پس میں نے سورہ نساء پڑھنی شروع کی ، جب اس آیت
پر پہنچا:
فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ
كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(پارہ
5، سورہ نساء 41)
ترجمہ کنزالایمان:"تو
کیسی ہوگی جب ہم پر امت سے ایک گواہ لائیں اور اے محبوب! تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔"تو
میں نے آپ کی آنکھیں اشکبار دیکھیں، آپ نے ارشاد فرمایا:" اب بس کرو "یہ
کیفیت اس وجہ سے تھی کہ اس حالت کے مشاہدے نے آپ کے دل کو مکمل طور پر اپنی طرف
متوجہ کر لیا تھا۔(احیاء العلوم، جلد 1، صفحہ 864)
خشیتِ
الہی رکھنے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے کہ وعید کی آیاتِ تلاوت کے وقت ان پر غشی
طاری ہوجاتی اور بعض کا تووصال بھی ہوجاتا، تلاوت میں رونے والوں کے واقعات ملاحظہ فرمائیں:
چار واقعات
1۔امیر
المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ
عنہ جب قرآن کریم کی کوئی آیتِ کریمہ تلاوت کرتے، تو آپ رضی
اللہ عنہ کا سانس رُک جاتا، اس قدر روتے کہ زمین پر تشریف لے آتے، پھر گھر سے باہر تشریف نہ لاتے، یہاں تک لوگ آپ رضی اللہ عنہ کو مریض سمجھ کر عیادت کے لئے
آتے۔(اللہ والوں کی
باتیں، جلد 1، صفحہ 123)
2۔
حضرت سیّدنا قاسم بن ابو بُزہ رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سُننے والے ایک شخص نے مجھے یہ
بات بیان کی، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ مطففین کی تلاوت شروع کی
اور جب اس آیتِ مبارکہ پر پہنچے:یَوْمَ
یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:
"جس دن سب لوگ ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔"
تو رونے لگے، حتٰی کہ زمین پر گئے اور اس کے بعد قراءت نہ کر
سکے۔
4۔حضرت
سیّدنا نافع رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہما جب یہ آیتِ مبارکہ:اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوْا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ
لِذِکْرِ اللہِ۔
(پارہ
27، الحدید14)
ترجمہ کنزالایمان:کیا
ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہ آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔"تلاوت کرتے
تو روتے، یہاں تک روتے روتے آپ رضی اللہ
عنہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 535،537)
4۔حضرت
سیّدنا ابوبکر بن عبد الرحمن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نجاشی نے حضرت سیّدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بُلوایا اور نصاریٰ کو جمع کیا،
پھر آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ انہیں قرآن سنائیں،
حضرت سیدنا جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے سورہ مریم کی
تلاوت کی، جسے سن کر وہ رونے لگے اور حضور
نبی کریم، رؤف الرحیم صلی اللہ
علیہ وسلم پر یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(اللہ والوں کی باتیں، جلد 1، صفحہ 229)
تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ
مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ
(پارہ
7، المائدہ 83)
ترجمہ کنزالایمان:تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ
آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق
کو پہچان گئے۔"
اللہ اللہ اللہ! کیسی تلاوت کرتے تھے یہ اللہ والے، کیسا خوفِ خدا تھا ان حضرات رضی اللہ عنہم اجمعین کا اور
ایک ہم ہیں کہ تلاوت کرتے ہیں تو بھی ذہن کہیں اور گھوم رہا ہوتا ہے، اے کاش!اللہ
تعالی ہمیں بھی دلجمعی کے ساتھ خشوع و خضوع کے ساتھ قرآن پاک زیادہ
سے زیادہ تلاوت کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ
وسلم
شعبہ تحفظ
اوراق مقدسہ دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 18 مئی 2021ء بروز منگل فیضان مدینہ گوجرانوالہ،
شیخوپورہ موڑ بس اسٹاپ میں مدنی مشورہ ہوا جس میں رکن زون ، اراکین کابینہ اور ڈویژن ذمہ داران نے شرکت کی۔
تلاوت قرآن کے وقت رونا مستحب ہے،
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضور
پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا
تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکوتو رونے کی شکل بنا لو۔"(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلوۃ والسنۃ فیھا، باب فی حسن الصوت با القرآن
، 129/2 ، الحدیث 1337)(نقل از تفسیر صراط الجنان تحت المائدہ، ایت 83، پ7)
تکلف کے ساتھ رونے کا طریقہ یہ ہے
کہ دل میں حُزن و ملال کو حاضر کرے، کیونکہ اس سے رونا پیدا ہوتا ہے۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت لآیۃ 58، 7/551)
قرآن کلامِ الہی ہے، اس کی تلاوت کرتے یا سنتے ہوئے آنکھوں سے اشکوں
کا جاری ہونا عین سعادت اور خوش نصیبوں کا حصّہ ہے۔
اللہ عزوجل کے نیک بندے تو دن رات عبادت و اطاعتِ الہی میں
گزارنے کے باوجود ہر وقت خوفِ خدا عزوجل سے لرزاں و ترساں رہتے، تلاوتِ قرآن کے وقت آیا ت و وعیدوعذاب پڑھ کر
اور سُن کر خوفِ خدا سے اس قدر آنسو بہاتے کہ بعض اوقات اُن کی روح پرواز کر جاتی۔
مگر آہ!ہماری غفلتوں کے کیا کہنے،
ہمارے دل کی سختی کا عالم یہ ہے کہ دن رات
اپنے خالق و مالک عزوجل کی نافرمانی میں گزار دیتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اولاً تو
تلاوتِ قرآن کی توفیق ہی نہیں مل پاتی اور اگر مل بھی جائے تو حال یہ ہوتا ہے کہ دل و دماغ میں دُنیاوی خیالات ہی چھائے رہتے ہیں،
رونا تو دور کی بات ہماری توجّہ اس طرف
بھی نہیں ہوتی کہ ہمارا ربّ عزوجل ہم سے کیا فرما رہا ہے، آئیے! حصولِ ترغیب کے لئے اسلافِ کرام کے چند
واقعات سنتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں، میرے والد ماجد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی
اللہ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا، (یعنی
زاروقطار رویا کرتے)۔(شعب الایمان، باب فی
الخوف من اللہ تعالی، جلد 1، صفحہ 493 ، ح
806)(نقل از ہفتہ وار اجتماع کا بیان"کثرت تلاوت کرنے والوں کے واقعات")
حضرت سیّدنا عمر فاروق رضی اللہ
عنہ جب کسی آیتِ عذاب کو سنتے تو غش کھا کر گر پڑتے اور اتنا بیمار ہوجاتے کہ آپ
کے ساتھی آپ کی عیادت کے لئے جایا کرتے تھے۔(درۃ الناصحین، المجلس الخامس والستون،
ص293)(نقل از کتاب خوفِ خدا مکتبۃ المدینہ، ص50، 51)
حضرت زرارہ بن اوفی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دن
فجر کی نماز میں یہ آیات تلاوت کیں،
فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِۙ فَذٰلِكَ
یَوْمَىٕذٍ یَّوْمٌ عَسِیْرٌۙ۔( پ 29، المدثر: 8، 9)
ترجمہ کنزالایمان:پھر جب صُور پھونکا جائے گا تو وہ دن کرّا(یعنی سخت) دن ہے۔
تو آپ رحمۃ اللہ علیہ پر نماز کی حالت میں
ہی خوفِ الہی کا اس قدر غلبہ ہوا کہ لرزتے کانپتے ہوئے زمین پر گر پڑے اور آپ کی روح پرواز کر گئی۔(اولیائے
رجال الحدیث، صفحہ 123)(نقل از ہفتہ وار
اجتماع کا بیان"کثرت تلاوت کرنے والوں کے واقعات")
ایک مرتبہ حضرت سیّدنا ابو ورّاق
رحمۃ اللہ علیہ کے مدنی منے قران پاک کی تلاوت کرتے ہوئے جب اس آیت پر پہنچے، اِنْ كَفَرْتُمْ یَوْمًا یَّجْعَلُ الْوِلْدَانَ
شِیْبَاۗ(پ29 ، المزمل: 17)
ترجمہ کنزالایمان:اگر کفر کرو اس دن سے، جو بچوں کو بوڑھا کر دے گا ۔"
تو خوفِ الہی کا اس قدر غلبہ ہوا
کہ دم توڑ دیا۔(تذکرۃ الاولیاء،صفحہ 87)(نقل از خوف خدا، مکتبۃالمدینہ صفحہ 113)
الحمدللہ عزوجل اس پُر فتن دور
میں دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول تلاوتِ قرآن کرنے، سننے اور خوفِ خدا کے باعث رونے کی سعادت عطا کرتا ہے۔
الہی خو ب دے دے شوق قرآں کی تلاوت کا
شرف دے گنبد ِخضرا کے سائے میں
شہادت کا
مدنی چینل عام کریں دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام پاکپتن شریف میں مدنی مشورہ
شعبہ مدنی
چینل عام کریں دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام زون
پاکپتن شریف میں نگران شعبہ انجم رضا عطاری اور محمد یار عطاری زون ذمہ دار نے مدنی مشورہ لیا جس میں ذمہ داران نے شرکت
کی۔
ذکرِ الہی کے وقت عشق و محبت میں
رونا اعلٰی عبادت ہے، اسی طرح عذابِ الہی
کے خوف اور رحمتِ الہی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے، بہت سے عاشقانِ قرآن قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے
جھومتے ہیں اور گریہ و زاری کرتے ہیں، یہ قرآن کریم سے لذّت و سرور حاصل ہونے کی
وجہ سے ہوتا ہے، صبح کے خوشگوار ہو اسے
نرم شاخیں حرکت کرتی ہیں اور تلاوت کرنے والا رحمتِ الٰہی کی نسیم سے ہلتا ہے۔
قرآن مجید میں ہے، ترجمہ
کنزالایمان:" اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی
طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھوکہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے ۔"( پ 7، مائدہ:83)
کاش کہ ہمیں یہ جذبہ نصیب ہوجائے کہ جب کبھی
اکٹھا ہونے کا موقع ملے، تو اِدھر اُدھر
کی باتیں کرنے کی بجائے تلاوت کرنے میں مصروف ہو جائیں، یوں صحابہ کرام کے مبارک
دور کی یادیں تازہ ہوتی رہیں اور اے
کاش!کہ انداز ایسا ہو کہ تلاوت کرنے والا
اور سننے والے اشکبار ہوں، تلاوتِ قرآن
کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا:"یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔"
،
ہمارے اسلاف کرام رحمھم اللہ کے تلاوت میں گریہ وزاری
کرنے کے واقعات ملاحظہ فرمائیے: تلاوتِ صدیق اکبر اور گریہ و زاری:
حضرت سیّدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے کہ میرے والد ماجد حضرت سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب قرآن پاک کی
تلاوت فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا، یعنی زار و قطار رونے لگتے۔"(فیضان صدیق
اکبر، ص57)
تلاوتِ فاروق اعظم اور گریہ و
زاری:
حضرت سیدنا حسن رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیّدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ان
آیات کی تلاوت کی، ترجمہ کنزالایمان:"بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے، اسے کوئی ٹالنے والا نہیں۔"(پارہ 27، الطور 7،8)آپ پر خوفِ خدا کے غلبے کے سبب ایسی
رقت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس روز تک طاری
رہی۔(فیضان فاروق اعظم،جلد1، صفحہ151)
تلاوتِ عمر بن عبدالعزیز اور گریہ
وزاری:
ایک رات حضرت سیّدنا عمر بن
عبدالعزیز رحمۃاللہ علیہ سورہ والیل پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے، ترجمہ
کنزالایمان:" تو میں تمہیں ڈراتا ہوں اس
آگ سے، جو بھڑک رہی ہے ۔"(پ 30، الیل:14)
تو روتے روتے ہچکی بندھ گئی، آگے نہیں پڑھ سکے، نئے سرے سے تلاوت شروع کی، جب اس آیت پر پہنچے تو پھر وہی کیفیت طاری ہوئی
اور آگے نہیں پڑھ سکے، بالآخر یہ سورت
چھوڑ کر دوسری سورت پڑھی۔"(عمر بن عبدالعزیز کی 425 حکایات، صفحہ287)
حبشہ کا وفد رونے لگا:
حبشہ کا وفد سرکارِ دو عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جس
میں ستر آدمی تھے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سامنے سورہ یٰسین کی تلاوت فرمائی تو اسے سُن کر وہ
لوگ بھی زار و قطار رونے لگے۔(پارہ7، مائدہ: 83 کی تفسیر، تفسیر صراط الجنان)
عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا
کروں روتے روتے تلاوت خدایا
تلاوت قرآن کرتے ہوئے رونے کے
متعلق بزرگانِ دین کے بہت سے واقعات ہیں، جن میں سے درج ذیل 2 واقعات:
حضرت سیّدنا فضیل بن عیاض رضی
اللہ عنہ بہت نامور محدث اور مشہور اولیاء کرام میں سے ہیں، یہ پہلے زبردست ڈاکو
تھے، ایک مرتبہ ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے کسی
مکان کی دیوار پر چڑھ رہے تھے کہ اس وقت مالکِ مکان قرآن کی تلاوت میں مشغول تھا، اس نے یہ آیتِ کریمہ پڑھی، اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااَنْ تَخْشَعَ
قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہ۔(پ 27، الحدید: 16) ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہیں
آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔" (پ27،سورۃ الحدید، 16)
جو نہی یہ آیت آپ کی سماعت سے ٹکرائی، گویا تاثیر ربّانی کا تیر بن کر دل میں پیوست ہو
گئی، اس کا اتنا اثر ہوا کہ آپ خوفِ خدا
سے کانپنے لگے اور بے اختیار آپ کے منہ سے نکلا"کیوں نہیں میرے پروردگار! اب
اس کا وقت آگیا ہے" چنانچہ آپ روتے
ہوئے دیوار سے اتر پڑے اور رات کو ایک سُنسان اور بے آباد کھنڈر نُما مکان
میں جا کر بیٹھ گئے، تھوڑی دیر بعد وہاں
ایک قافلہ پہنچا تو شرکائے قافلہ آپس میں کہنے لگے کہ"رات کو سفر مت کرو، یہاں رک جاؤ کہ فضیل بن عیاض ڈاکو اسی اطراف میں
رہتا ہے" آپ نے قافلے والوں کی باتیں سنیں، تو اور زیادہ رونے لگے کہ افسوس!میں کتنا گنہگار ہوں کہ میرے خوف سے امت ِرسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے قافلے رات میں سفر نہیں کرتے اور گھروں میں عورتیں میرا نام لے
کر بچوں کو ڈراتی ہیں، آپ مسلسل روتے رہے،
یہاں کہ صبح ہوگئی اور آپ نے سچی پکّی
توبہ کرکے یہ ارادہ کیا کہ اب ساری زندگی کعبۃاللہ کی مجاوری اور اللہ تعالی کی
عبادت میں گزار دوں گا، چنانچہ آپ نے علمِ
حدیث پڑھنا شروع کیا اور تھوڑے ہی عرصے میں ایک صاحبِ فضیلت محدث ہوگئے اور حدیث
کا درس دینا بھی شروع کر دیا۔(اولیائے رجال الحدیث، صفحہ 196)
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی وَقُوْدُھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ۔ جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں"، (پ28، التحریم: 6)
پھر فرمایا:"جہنم کی آگ ایک ہزار برس تک
جلائی گئی تو وہ سرخ ہو گئی، پھر ایک ہزار
سال تک دہکائی گی تو سفید ہو گئی، پھر ایک
ہزار سال تک بھڑکائی گئی تو سیاہ ہوگئی اور اب وہ تاریک و سیاہ ہے۔"
یہ سن کر حبشی جو وہاں موجود تھا
رونے لگا، مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم
نے پوچھا: یہ کون رو رہا ہے؟ عرض کی گئی" حبشہ کا رہنے والا ایک شخص ہے"،
آپ نے اس کے رونے کو پسند فرمایا، حضرت سیّدنا جبرئیل امین وحی لے کر اترے، کہ ربّ تعالی فرماتا ہے" مجھے اپنی عزت و
جلال کی قسم! میرا جو بندہ دنیا میں میرے خوف سے روئے گا، میں ضرور اسے جنت میں زیادہ ہنساؤں گا۔"
آنکھوں کے بجائے دل
روتا ہے:
حضرت سیدنا حضرمی رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے، کہ ایک مرتبہ کسی خوشی الحان
قاری نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں قرآن مجید کی
تلاوت کی تو حضرت سیدنا عبد الرحمن رضی اللہ عنہ کے علاوہ تمام حاضرین رونے لگے،
سرکارِ والا تبار، ہم بے کسوں کے مددگار
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عبدالرحمن بن عوف کی آنکھیں اگرچہ اشکبار نہ
ہوئیں، مگر ان کا دل رو رہا
ہے۔"(اللہ والوں کی باتیں، جلد
1، صفحہ 198)
تلاوت کرتے کرتے
رونے لگے:
حضرت سیدنا قاسم بن ابوبرّہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے سننے والے ایک
شخص نے مجھے یہ بات بیان کی کہ ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہ نے سورۃ مطففین کی تلاوت
شروع کی اور جب اس آیت مبارکہ پر پہنچے یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلمِیْنِ۔ ترجمہ کنزالایمان:جس دن سب
لوگ ربّ العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے۔(پارہ 3، سورہ مطففین) تو رونے لگے حتیٰ کہ زمین پر گر گئے اور اس کے بعد تلاوت نہ کر سکے۔
حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب بھی سورہ بقرہ کے آخر سے دو آیتیں(پ3،
بقرہ : 284،285)
ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر تم ظاہر کرو جو کچھ تمہارے جی میں ہے یا
چھپاؤ، اللہ تم سے اس کا حساب لے گا تو
جسے چاہے گا، بخش دے گا اور جسے چاہے گا
سزا دے گا اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ رسول ایمان لایا، اس پر جو اس کے ربّ کے پاس سے اس پر اُترا اور
ایمان والے سب نے مانا اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں
پر ایمان لانے میں فرق نہیں کرتے اور عرض کی کہ ہم نے سنا اور مانا، تیری معافی ہواے ربّ ہمارے! اور تیری ہی طرف
پھرنا ہے۔" تلاوت فرماتے تو رونے لگتے، پھر عرض فرماتے:"بے شک یہ حساب بہت سخت ہے۔" روتے روتے ہچکیاں بندھ جاتیں:
حضرت سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، حضرت سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب یہ آیت مبارکہ، اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْ ااَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُھُمْ لِذِکْرِ اللہ۔(پ 27، الحدید 16) ترجمہ کنزالایمان:کیا ایمان والوں کو ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل جھک جائیں، اللہ کی یاد کے لئے۔" تلاوت کرتے تو رونے لگتے، یہاں تک کہ روتے روتے آپ رضی اللہ عنہ کی ہچکیاں بندھ جاتیں۔
دوران تلاوت قرآن اشکباری کرنا مستحب عمل ہے جس کی مثالیں ہمیں
نبی کریم صلی علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور سلف و
صالحین کی حیات سے بھی ملتی ہیں جن میں سے چند پیش ِخدمت ہیں:
خاتم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دورانِ
تلاوتِ قرآن اشکباری فرمانا:
”حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: مجھے قرآن مجید پڑھ کر سناؤ۔ وہ
بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپ پر قرآن نازل
ہوا! فرمایا: میری یہ خواہش ہے کہ میں اسے دوسروں سے سنوں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ النساء کی تلاوت کی یہاں تک کہ جب
میں اس آیت پر پہنچا: فَکَيْفَ إذَا جِئْنَا
مِنْ کُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَ جِئْنَا بِکَ عَلَی هَؤُلَاءِ شَهِيْدًا (تو کیسی ہوگی جب ہم ہر اُمت سے ایک
گواہ لائیں اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں۔(پ5،
النساء: 41)تو مجھ سے فرمایا: رک جاؤ! جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمانِ اقدس سے آنسو رواں تھے۔۔( اخرجہ
البخاری فی الصحيح، کتاب: فضائل القرآن، باب: البکاء عند قراءة القرآن، 4 / 1927)
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تلاوت سے سردار مشرکین کا
مضطرب ہونا:
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:فَيَقِفُ عَلَيْه نِسَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ وَأَبْنَاؤُهُمْ
يَعْجَبُونَ مِنْهُ وَيَنْظُرُونَ إلَيْهِ، وَکَانَ أَبُوبَکْرٍ رَجُلًا بَکَّاءً
لاَ يَمْلِکُ عَيْنَيْهِ إذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِکَ أَشْرَافَ
قُرَيْشٍ مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ.
" مشرکین کی عورتیں اور بچے کھڑے ہوکر ان کی طرف دیکھتے
اور تعجب کا اظہار کرتے۔ جب وہ قرآن مجید کی تلاوت کرتے تو (بے تحاشا روتے) اور انہیں
اپنی آنکھوں پر قابو نہ رہتا۔ ان کا (اس سوز سے) قرآن مجید پڑھنا قریش کے مشرک
سرداروں کو مضطرب کر دیتا۔“
(رواہ البخاری فی الصحيح، کتاب الصلاة، باب المسجد يکون فی
الطريق من غير ضرر بالناس، 1 / 181)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قرأت کے وقت اشکباری
کرنا:
”حضرت عبد اﷲ بن شداد بیان کرتے ہیں کہ میں نے صبح کی نماز میں
حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے رونے کی آواز سنی اور میں اس وقت آخری صف میں
آپ رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز ادا کر رہا تھا۔ اور آپ سورہ یوسف کی یہ آیت
تلاوت فرما رہے تھے: إنَّمَا أَشْکُو بَثِّي
وَحُزْنِي إلَی اﷲِ (بے شک
میں اپنے دکھ اور غم کا شکوہ صرف اﷲ تعالیٰ سے کرتا ہوں)۔“
(الحديث رقم: اخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب صفۃ الصلاة، باب:
إذا بکى الإمام فی الصلاة)
قرآن پاک غم کے ساتھ نازل ہوا ہے:
حضرت سعد بن ابی وقاص
رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا،
جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب
اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)
مختصر وضاحت:
امام
محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’غم ظاہر کرنے کا طریقہ
یہ ہے کہ قرآن کے ڈرانے، وعدہ اور عہد و پیمان کو یاد کرے پھر سوچے کہ اِس نے اُس
کے احکامات اور ممنوعات میں کتنی کوتاہی کی ہے تو اس طرح وہ ضرور غمگین ہو گا اور
روئے گا اور اگر غم اور رونا ظاہر نہ ہو جس طرح صاف دل والے لوگ روتے ہیں تو اس غم
اور رونے کے نہ پائے جانے پر روئے کیونکہ یہ سب سے بڑی مصیبت ہے۔(احیاء العلوم،
کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الثانی فی ظاہر آداب التلاوۃ، ۱ / ۳۶۸)
کاش! قرآن پڑھ کر اشکباری کریں میری
آنکھیں
کاش! سنت کو اسلاف کی ادا کریں میری
آنکھیں
ڈونیشن سیل
ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 20 مئی
2021ء بروز جمعرات ریجن لاہور، زون حافظ
آباد میں مدنی مشورہ ہوا جس میں مدنی بستہ ذمہ داران سمیت رکن زون سپر وائزر ڈونیشن سیل نے
شرکت کی۔
قرآن پاک پڑھتے ہوئے رونا مستحب
ہے، اللہ عزوجل(تلاوت کا حق ادا کرنے
والوں کی تعریف کرتے ہوئے )ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ کنز الایمان:" وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے، ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں
پڑھی جائیں، ان کا ایمان ترقی پائے اور
اپنے ربّ ہی پر بھروسہ کریں۔( پ 9، الانفال:2)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا:"قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا، لہذا جب تم اس کی قراءت کرو تو غم ظاہر کرو۔"(مجمع
الزوائد، کتاب التفسیر، باب القراءۃ بالحزن، الحدیث 11694، جلد 7، صفحہ 351، مفہوماً)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی آیت کی تلاوت
فرماتے تو آپ کی ہچکی بند ھ جاتی اور کئی
دن آپ گھر میں پڑے رہتے، آپ کی عیادت کی
جاتی، لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔(اخراجہ
الامام احمد بن حنبل فی الزہد:2176)
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ
علیہ اپنی مشہور تفسیر"در منثور" میں نقل کرتے ہیں، ایک مرتبہ نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس سے گزرے، وہ نوجوان یہ آیت
فَاِذَانْشَقَّتِ السَّمَاءُ فَکَانَتْ وَرْدَۃً کَالدِّھَانِ۔(پ27، الرحمن: 37)پڑھ رہا تھا، آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی
طاری ہو گئی اور آنسوؤں نے اس کا گلا بند
کر دیا ہے، وہ روتا ہوا یہی کہتا رہا"اس
دن میری خرابی ہوگی، جس دن آسمان پھٹ جائے
گا۔"
سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نوجوان
سے فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، تیرے رونے کی وجہ سے فرشتے بھی روئے ہیں۔"(درمنثور
الرحمٰن، تحت الآیۃ:38، 703/7)
حضرت سیدنا مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"میں لوگوں کے سو جانے کے بعد نکلا اور حضرت سیدنا مالک بن انس
رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر
نماز ادا فرما رہے تھے، جب الحمدللہ (سورہ
فاتحہ) سے فارغ ہوئے تو الھاکم التکاثر کو شروع کیا اور جب ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ (پ30، التکاثر:8)پر پہنچے، تو کافی دیر روتے رہے، اس کو بار بار پڑھتے اور جو کچھ میں نے آپ رضی
اللہ عنہ سے سنا اور دیکھا، اس نے مجھے
اپنی حاجت سے مشغول کر دیا، جس کے لئے میں
نکلا تھا، لہذا میں ادھر ہی کھڑا رہا اور
آپ طلوعِ فجر تک اسی کو بار بار پڑھتے اور روتے رہے، جب آپ رضی اللہ عنہ پر وہ آیت ظاہر ہوگئی تو آپ
رضی اللہ عنہ نے رُکوع کیا، میں اپنے گھر
کی طرف لوٹ آیا، وضو کیا اور پھر مسجد میں گیا، جب کہ حضرت مالک رضی اللہ عنہ ایک مجلس میں تھے
اور لوگ آپ رضی اللہ عنہ کے اردگرد جمع تھے، جب صبح ہوئی تو میں نے دیکھا کہ آپ کے چہرہ انور
سے حسین نور بلند ہو رہا ہے۔(تدریب
المدارک، باب فی ذکر عبادۃ مالک وورعۃ وخوفہ۔۔الخ، 50/2، المملکۃ الفریبۃ
الرباط)
حضرت سیّدنا قاسم بن معن رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک رات امام الآئمہ، حضرت سیّد نا امام اعظم ابوحنیفہ
نعمان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے قیام فرمایا اور اللہ عزوجل کے اس فرمان"بلکہ
ان کا وعدہ قیامت نہایت کڑوی اور سخت کڑوی" کو طلوعِ فجر تک دہراتے رہے، روتے اور گریہ و زاری کرتے رہے۔(سیر اعلام البناء،
الطبقہ الخامسۃ من التابعین، 163، ابو حنیفہ401/6، موسسۃ الرسالۃ بیروت)
حضرت سیّدنا ابو عبداللہ رحمۃ
اللہ علیہ فرماتے ہیں، ایک دن حضرت سیّدنا ابو الحسن محمد بن اسلم طوسی علیہ رحمۃ
اللہ القوی کا مدنی منا زور زور سے رونے لگا، اس کی امّی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھیں، میں نے کہا"مدنی منا آخر اس قدر کیوں رو
رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا: اس کے ابو (حضرت سیّدنا ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ
القوی)اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوتِ قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں تو یہ بھی ان کی
آواز سن کر رونے لگتا ہے۔
شیخ عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں، حضرت سیدنا ابو الحسن علیہ رحمۃ اللہ القوی نیکیاں چھپانے کی اس قدر
سعی فرماتے تھے کہ اپنے اس کمرہ خاص سے عبادت کرنے کے بعد باہر نکلنے سے پہلے اپنا
منہ دھو کر آنکھوں میں سُرمہ لگا لیتے، تاکہ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہ
ہونے پائے کہ یہ روئے تھے۔(حلیۃ الاولیاء،
جلد 9، صفحہ 254)
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"میں تمہارے
سامنے سورت"الھکم التکاثر" پڑھنے لگا ہوں، تو (اسے سن کر) جو رو پڑا تو اس کے لئے جنت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ سورت پڑھی تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم روپڑے اور بعض کو رونا
نہیں آیا، جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو
رونا نہیں آیا تو انہوں نے عرض کی، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے بہت
کوشش کی، لیکن رونے پر قادر نہیں ہوسکے، حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
میں دوبارہ تمھارے سامنے وہ سورت پڑھتا ہوں تو جو رو پڑا اس کے لئے جنت ہے اور جسے رونا نہ آئے تو وہ رونے جیسی صورت بنا لے۔(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔الخ، 363/2، الھدیث
2054)
ایک روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا: میرے سامنے تلاوت کرو،
عرض کی، میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں؟ آپ پر
ہی تو قرآن اترا ہے، ارشاد فرمایا؛ میں
چاہتا ہوں کہ دوسروں سے سنو ں، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ تلاوت کرتے رہے اور رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشمانِ مبارک سے آنسو بہتے رہے۔(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب البکاء عنہ قراءۃ القران، الحدیث5055، ج3،
ص418، مفھوماً)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب
یہ آیت نازل ہوئی"پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو اور تم ہنستے ہو اور
روتے نہیں ہو" تو اہلِ صفہ اس قدر روئے کہ ان کے آنسو ان کے رخساروں پر بہہ
پڑے، جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ان
کے رونے کی آواز سنی تو آپ بھی ان کے ساتھ رونے لگے اور آپ کے رونے کی وجہ سے ہم
بھی رونے لگے۔( اخرجہ البہیقی فی شعب الایمان، 489/1، الرقم:798، والدیلمی فی مسند الفردوس، 44713، الرقم:5373، والمنذری فی
الترغیب والترھیب 11414، الرقم 5068، وابن ابی عاصم فی الزھد 178/1)
اگر ہم تنبیہات و وعیدات اور عہد و پیمان کو یاد
کریں، پھر اس کے اوامر و نواہی کے معاملے
میں اپنی کوتاہیوں میں غور و فکر کریں تو بالیقین غمگین ہوں گے۔اللہ عزوجل اپنے
پیاروں کے طفیل ہمیں بھی اس مقدّس قرآن مجید کی دائمی محبت عطا فرمائے اور اس کی
تلاوت کرنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم