تاریخِ اِسلام میں بے مثال خواتین
کا ذکر ملتا ہے، ان میں صحابیات بھی گزری
ہیں اور ان سے فیض لیتی ہوئی کئی صالحات
بھی گزری ہیں، ان بے مثال خواتین کا کردار
بھی بے مثال رہا ہے، ان بے مثال خواتین
میں سے ایک خاتون ام السادات، مخدوم کائنات، دخترِ مصطفی، حضرت سیّدہ طیبہ، طاہرہ، عابدہ، زاہدہ، محدثہ خیر النساء، خاتون ِجنت، حضرت سیّدہ طیبہ فاطمہ بھی ہیں، آپ کی زندگی تمام عورتوں کے لئے مشعلِ راہ ہے۔
مختصر تعارف:
حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے
چھوٹی مگر سب سے زیادہ پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام فاطمہ اور لقب "زہراء بتول"
ہے۔
آپ کے بے شمار فضائل حدیث مبارک
میں بیان کئے گئے ان میں سے ایک یہ ہے، اللہ عزوجل کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کا
ارشاد ہے:" فاطمہ تمام جہانوں کی عورتوں اور سب جنتی عورتوں کی سردار ہیں۔"
مزید فرمایا:"فَاطِمَۃ بضْعَۃ مِنِّی
فَمَنْ اَغْضَبَہَا اَغْضَبَنِی یعنی فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے
اسے ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔"( مشکوٰۃ المصابیح، ج 2 ، حدیث6139)
حضرت حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی
والدہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ رات کو مسجدِ بیت کی محراب میں نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ
نمازِ فجر کا وقت ہوجاتا، میں نے آپ رضی
اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہت زیادہ
دعائیں کرتے سنا، آپ رضی اللہ عنہا اپنی
ذات کے لئے کوئی دعا نہ کرتیں، میں نے عرض
کی "پیاری امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لئے کوئی دعا نہیں کرتیں، فرمایا"پہلے پڑوس ہے اور پھر گھر ۔"
پیاری پیاری اسلامی بہنو! اس
واقعہ میں ان اسلامی بہنوں کے لئے کئیں نصیحت اور سبق کے مدنی پھول ہیں، جو نوافل تور درکنار فرائض سے بھی غفلت برتتی
ہیں، دو جہاں کے تاجدار کی صاحبزادی تو
راتیں عبادتِ الٰہی میں گزاریں، مگر ان کی
راتیں غفلت میں گزرتی ہیں، بے حیائی کو
عار سمجھتی ہیں، بے پردگی سے خار کھاتی
ہیں، حالانکہ نورنگاہِ رسول حضرت فاطمہ رضی
اللہ عنہا کا
پردے کا اس قدر ذہن کہ جیتے جی ہی
نہیں بلکہ سفرِ آخرت پر گامزن ہوتے وقت
بھی اس کے بارےمیں متفکر تھیں اور اس کی
پابندی کی تاکید فرمائی۔
مولیٰ مشکل کشا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"حضرت فاطمہ نے موت کے وقت
وصیت فرمائی تھی کہ جب میں دنیا سے رخصت
ہو جاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر
مرد کی نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔( شانِ خاتون جنت، ص41)
جگر گوشہ رسول، حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی
حیات مبارکہ اور سیرت طیبہ کاہر پہلو بیشں
بہا کمالات اور انمٹ خصوصیات کا مظہر ہے، دینِ اسلام کی بے لوث خدمت، نسبی و ازدواجی و دینی رشتوں سے بے پناہ محبت
اور اولاد کی بہترین تربیت آپ رضی اللہ عنہا کے بہترین اخلاق کا ایک اہم حصہ ہے، اعلٰی اقدار انسان کاتحفظ، خلقِ خدا کی خیر
خواہی، بے کسوں اور بے چارہ گری آپ کے نمایاں اوصاف میں سے ہے۔( شانِ
خاتون جنت، ص188)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! گھر کا
کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنا آپ رضی
اللہ عنہا کی سنت مبارکہ ہے۔"( شانِ خاتون جنت،
ص291)
حضرت فاطمہ کی سیرت کا مطالعہ
کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتے دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے
نہیں بلاتی تھیں، نہ کام کی کثرت اور نہ کسی قسم کی محنت، مشقت سے گھبراتی تھیں، آپ نے کبھی
گھر میں کام کے لئے خادم نہیں رکھا، بلکہ اپنے گھر کا کام خود کرتی تھیں، ہو سکتا ہے کہ کسی کے ذہن میں آئے کہ وہ اور دور تھا، اب اور زمانہ ، تو سنئے امیر
اہلِ سنت کے گھر میں کوئی کام والی نہیں رکھی گئی، اس میں ہر اسلامی بہن کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔اللہ تعالی ہمیں برکتیں نصیب فرمائے۔
آمین
درود شریف
کی فضیلت: فرمان مصطفی صلی اللہ
علیہ وسلم جو شخص مجھ پر درود پاک پڑھنا بھول گیا، وہ جنت کا راستہ بھول گیا۔"(طبرانی، سیرت
مصطفی، صفحہ 697)
شیخ
الحدیث حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی اعظمی علیہ رحمۃ القوی فرماتے ہیں:"حضرت سیّدتنا فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا شہنشاہِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ
پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام"فاطمہ
" اور لقب" زہرا" اور
"بتول" ہے،
اعلانِ
نبوت سے پانچ سال قبل حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی پیدائش
ہوئی۔
سیّدہ فاطمہ کا ذوقِ نماز:
حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے
ہیں، حضرت سیدنا اِمام حسن رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں"کہ
میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات)
گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"( شان ِخاتون جنت، ص77)
مصروفیت میں بھی ذکرِ ربوبیّت:
حضرت
سلمان فارسی رضی اللہ عنہا
فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضورِ انور صلی
اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیّدہ فاطمہ رضی اللہ
عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین سو رہے
تھے اور آپ رضی اللہ عنہا
ان کو پنکھا جھل رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جاری تھی، یہ دیکھ کر مُجھ پر ایک خاص حالتِ رقت طاری ہوگئی۔"
( شانِ خاتون جنت، ص83)
کھانا پکاتے وقت بھی تلاوت:
امیر
المؤمنین حضرت سیّدنا علیُّ المرتضٰی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیّدہ رضی
اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت جاری رکھتیں،
نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم جب نماز
کے لئے تشریف لاتے اور راستے میں سیدہ رضی
اللہ عنہا کے مکان پر سے گزرتے اور گھر سے چکّی چلنے کی آواز سنتے
تو نہایت دردو محبت کے ساتھ بارگاہِ ربُّ العزت میں دعا کرتے: یا ارحم الرحمین!فاطمہ رضی اللہ عنہا کو ریاضت
وقناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اِسی حالتِ فقر میں ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔(شان خاتون
جنت، ص92)
پیاری پیاری
اسلامی بہنو!آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خاتونِ جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کس قدر ذوقِ عبادت، شوقِ تلاوت تھا کہ پوری پوری اللہ عزوجل
کی عبادت میں گزار
دیتی تھیں، اپنی گھریلو مصروفیات کے دوران زبان سے تلاوت کرنے کا ورد بھی جاری رکھتیں،
جبکہ ہماری مصروفیات کے دوران گانوں باجوں اور موسیقی کا شوروغل جاری
رہتا ہے، جس کی وجہ سے گناہوں کا میٹر چلتا رہتا ہے۔
اے کاش!سب
اسلامی بہنوں کا یہ ذہن بن جائے کہ گھریلو کام کاج میں مشغولیت کے ساتھ اپنی زبان
کو ذکرواذکار سے تر رکھیں اور اللہ عزوجل
سے حقیقی محبت و الفت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی
اپنا معمول بنائیں، تلاوتِ قرآن اور ذِکر و اذکار میں مشغول رہیں، اس سے نہ صرف اپنی نیکیوں میں اضافہ ہوگا، بلکہ اولاد بھی اس سے مستفیض ہو گی۔
تلاوت کی توفیق دے دے الہی
گناہوں کی ہو دُور دل سے سیاہی
نورِ نظر ِمصطفی، جناب سیّدہ، عابدہ، زاہدہ، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے جو ہمیں درس حاصل ہوتا ہے، ان میں سے چند پیشِ خدمت ہے۔
عبادت:
خاتونِ جنت، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا کی طبیعتِ
عالیہ ہمہ وقت عبادتِ الہیہ کی طرف متوجہ رہتی تھی، اپنے گھریلو کام کاج کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو عبادتِ الٰہیہ میں مشغول رکھا کرتی تھیں۔(شانِ
خاتون جنت، ص82,83)
گھر کے کام کاج:
گھر کے کام کاج کرنا سنتِ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا ہے۔(ص38)
عشق رسول صلی اللہ
علیہ وسلم:
خواتینِ جنت کی سردار سیّدہ فاطمۃ
الزہرہ رضی اللہ عنہا کو حضور نبی رحمت
صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ رضی اللہ
عنہا سے بہت محبت تھی اور محبت کی علامت
میں سے ایک یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر اَدا اپنانے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے خود
کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھال
رکھا تھا۔
عادات و اطوار، سیرت وکردار، نشست و برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقتِ کلام میں آپ رضی اللہ
عنہا سیرتِ مصطفی کا عکس اور نمونہ تھیں۔(
شانِ خاتون جنت، ص114،113)
رسول اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو
دیکھا
کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیرِ نبوت کا
سخاوت:
کون نہیں جانتا کہ سیدہ فاطمہ
زہرا رضی اللہ عنہا اس فقیدالمثال(بے مثال)
عظمت کے مالک باپ کی لختِ جگر ہیں، جن کے
قدموں میں دنیا بھر کے خزانے بچھے رہتے ہیں اور اسلام کے اس مایہ ناز فرزند کی
اہلیہ تھیں، جن کی شمشیرِ جوہردار نے صفحہ ہستی پر انمٹ(نہ مٹنے والے)
نقوش ثبت کرکے دنیا کو ورطہ حیرت(انتہائی
حیرت) میں ڈال دیا تھا، لیکن اس کے باوجود
دُخترِخیرُ الانام کی زندگی اس حالت میں
گزری کہ کبھی پیٹ بھر کے دو وقت کا کھانا نہ کھایا، جو ملتا اس کو دوسروں پر نچھاور کر دیتیں اور
خود فقر و فاقہ سے زندگی بسر کرتیں۔(
ماخوذ از مکاشفۃ القلوب، باب فی فضل الفقر
اء، ص18)
ہمسائیوں کے لئےدعا:
آپ رضی اللہ عنہا ہمسایوں کے لئے
زیادہ دعا فرمایا کرتیں اور فرماتیں"
پہلے ہمسایہ ہے، پھر گھر۔"( شان
خاتون جنت، ص101)
پردہ و حیا:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:" کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا اے اہلِ مجمع!اپنی
نگاہیں جھکا لو کہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد
صلی اللہ علیہ وسلم و رضی اللہ عنہا پُل
صراط سے گزرےیں، آپ کے پردہ دار رہنے کا ایک صلہ یہ دیا کہ روزِ محشر آپ رضی اللہ عنہا کی خاطر اہلِ مجمع کو نگاہوں کو
جگانے کا حکم صادر کیا جائے گا۔"( الجامع الصغیر مع فیض القدیر، حرف ھمزہ، ج1، ص549 ، الحدیث822)
حاصلِ کلام یہ ہے کہ فاطمۃ الزہرہ
رضی اللہ عنہا کی مبارک حیات ایک اسلامی
بہن کے لئے مشعلِ راہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا بے مثال شہزادی، با کمال زوجہ، پُر
شفقت والدہ ہیں، آپ کے نقشِ قدم پر چل کر ایک اسلامی بہن اپنے ہر
کردار کو بخوبی ادا کر سکتی ہے۔
خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا شہنشاہِ
کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے چھوٹی، مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام" فاطمہ" اور لقب"زہراء
بتول" ہیں، اعلانِ نبوت سے 5 سال قبل آپ کی ولادت ہوئی۔
خاتونِ جنت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی
اللہ عنہا کی سیرت تمام مسلمان عورتوں کے لئے ایک کامل نمونہ ہے، آپ کی زندگی اور
سیرتِ مبارکہ میں ہمارے لئے درس کے بے شمار مدنی پھول ہیں۔
خاتونِ جنت کا ذوقِ
عبادت:
حضرت سیدنا علامہ شیخ عبدالحق
محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ مدارج النبوۃ میں نقل کرتے ہیں: حضرت سیدنا اِمام حسن
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی
اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہا بسااوقات گھر کی مسجد کے محراب میں رات
بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"
شہزادی کونین سیّدہ فاطمہ کی مبارک سیرت سے درس ملتا ہے کہ اللہ پاک کی عبادت میں ہمیں
زندگی بسر کرنی چاہئے، گھر کے کام کاج یا
مصروفیت کا بہانہ بنا کر ہرگز نماز نہیں
چھوڑنی چاہئے۔
امیر المؤمنین حضرت سیّدنا علی رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سیّدہ کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت جاری
رکھتیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب
نماز کے لئے تشریف لاتے اور راستے میں سیدہ کے مکان پر سے گزرتے اور گھر سے چکّی
کی آواز سنتے تو نہایت درد ومحبت سے بارگاہِ
ر بّ العزت میں عرض کرتے "یاا رحم الرٰحمین فاطمہ کو ریاضت وقناعت کی جزائے خیر عطا فرما اور اسے حالتِ فقر میں ثابت
قدم رہنے کی توفیق عطا فرما۔
عشقِ رسول:
خاتونِ جنت کو حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت تھی اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کو حضرت فاطمہ سے بے حد محبت تھی، محبت کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ
جس سے محبت ہو، اس کی ہر ادا اپنانے کی
کوشش کی جاتی ہے، حضرت سیدنا فاطمہ رضی
اللہ عنہانے خود کو ہر اعتبار سے سنت کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادت و اطوار سیرت و کردار، نشست و
برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقتِ کلام میں آپ رضی اللہ عنہا سیرتِ مصطفی
کا عکس اور نمونہ تھیں۔
خاتونِ جنت کی سیرت مبارکہ سے
جہاں عبادت، عشقِ رسول، سنت سے محبت، زہدو تقوٰی کا درس ملتا ہے، وہیں آپ رضی
اللہ عنہا باحیا، باکردار، عاجزی اور اخلاص کا بھی نمونہ ہیں۔
آپ رضی اللہ عنہا اس قدر باحیا
اور پردے کی پابند تھیں کہ اپنے جنازے کے
لئے بھی پردے کا حکم اِرشاد فرمایا: آپ کی سیرت مبارکہ سے درس ملتا ہے کہ اپنی
زندگی عبادت میں گزاری جائے، اور اپنے شوہر کے حقوق سے غفلت اختیار نہ کی جائے، آپ
ایک کامل و اَکمل بیٹی کامل و اکمل بیوی اور کا مل واکمل ماں ہیں، آپ
کی سیرت مبارکہ میں ایک بیٹی کے لئے بھی درس کے مدنی پھول ہیں، ایک بیوی کے لئے
بھی اور ایک ماں کے لئے درس کے مدنی پھول
ہیں، حسن وحسین جیسے شہزادے آپ کی عظیم تربیت کے شاہکار ہیں۔
مخدومۂ کائنات حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت مبارکہ سے یہ بھی درس
ملتا ہے کہ اِسلامی بہن کو گھر کے کام کاج کرنے میں عار محسوس نہیں کرنی چاہئے۔
بخاری شریف کی روایتوں سے پتہ
چلتا ہے کہ سیدہ رضی اللہ عنہا کا یہی معمول تھا کہ آپ اپنے گھر کے کام کاج خود اپنے
ہاتھوں سے کر لیتیں، کنویں سے پانی بھر کر اپنی مقدس پیٹھ پر مشک لاد کر
پانی لایا کرتیں، چکی پیسا کرتیں، جس سے ہاتھوں میں چھالے پڑجاتے، گھرمیں جھاڑو خود لگالیا کرتی تھیں۔
اس میں ہماری اِسلامی بہنوں کے لئے
درس کے بے شمار مدنی پھول ہیں، خاتونِ جنت
کی سیرت سے ہمیں بے شمار مدنی پھول ملے، مثلاً ہماری زندگی کا مقصد ہمیشہ عبادتِ الہی
ہونا چاہئے، تقویٰ وپرہیزگاری کو اختیار
کئے ر کھیں، پردے کے دامن کو مضبوطی سے
تھام لیں، عاجزی و انکساری کی پیکربن جائیں،
اپنے شوہر کی اطاعت کرنے والی بن جائیں۔
اللہ پاک شہزا دی کونین کی سیرت پر عمل کرنے کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
سیّدہ فاطمہ کے چلنے کا انداز:
حضرت سیّدنا مسروق رحمۃ اللہ علیہ
سے روایت ہے کہ حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:"ہم اللہ عزوجل
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اَزواجِ مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع
تھیں اور ہم میں سے کوئی ایک بھی غیرحاضر نہ تھی، اتنے میں حضرت سیدہ فاطمۃ الزہرا وہاں تشریف لائیں، آپ رضی اللہ
عنہا کا چلنا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چلنے سے ذرہ بھر مختلف نہ تھا۔(
المعجم الکبیر، ماروت عائشہ ام المومنین عن
فاطمہ، ج 9، ص373)
پیاری پیاری اسلامی بہنو! دیکھا آپ نے حضرت سیدہ
فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسی محبت تھی کہ آپ رضی
اللہ عنہا کی ہر ہر اَدا سنتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے سانچے میں ڈھلی ہوئی
تھی، ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ حضرت
سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے چلنے کا انداز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم کے چلنے کے انداز کی طرح تھا، ہم بھی
اپنے اُوپر غور کر لیتی ہیں کہ ہم جب گھر سے نکلتی ہیں تو ہمارا کیا انداز ہوتا
ہے؟جاذبِ نظر بننے کے لیے ہم کس کس طرح کے فیشن اپناتی ہیں؟ہمارے چلنے کا انداز کیا ہوتا ہے اور چلنے میں ہم کس کی نقل
کرتی ہیں؟اِسلامی بہنوں کو گھر سے نکلتے وقت کن کن اِحتیاطوں کی ضرورت ہے۔
مکتبہ المدینہ کی مطبوعہ397 صفحات
پر مشتمل کتاب "پردے کے بارے میں سوال جواب" صفحہ 268 تا 270پر امیرِ
اہلسنت مولانا الیاس عطار قادری فرماتے ہیں:
عورت کا میک اپ کرنا کیسا؟
گھر کی چار دیواری میں صرف اپنے
شوہر کی خاطر جائز طریقے پر میک اپ کر
سکتی ہیں، بلا اجازتِ شرعی مثلاً محارم رشتے داروں کے یہاں جانے کے
موقع پر گھر سے باہر نکلنے کے لئے لالی پاؤڈر
اور خوشبو وغیرہ لگانا اور فیشن کے کپڑے پہن کر معا ذ اللہ غیر مردوں کے لئے جاذبِ
نظر بننا جیسا کہ آج کل عام رواج ہے، یہ
سخت ناجائز و گناہ ہے ، خوش قسمت ہیں وہ اِسلامی
بہنیں جن کو دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسر آ گیا کہ دعوتِ اسلامی نے اُنہیں
نمازیں پڑھنے کا ذہن دیا، حیا کا درس دیا،
مدنی بُرقع پہنا یا، اِسی ماحول کی برکت سے انہیں تلاوتِ قرآن کا ذہن
ملا، دُرودوسلام کی ترغیب ملی، گھر درس کی سعادت نصیب ہوئی، مٹی کے برتن میں کھانا کھانے کا ذہن ملا اور اس کے علاوہ اچھی اچھی نیتیں کرنے، اذان کا جواب دینے، توبہ کےنوافل ادا کرنے، سنت کے مطابق سونے، فضول سوالات سے بچنے، غصّہ کا علاج کرنے، آنکھ، کان، زبان کی حفاظت کرنے، باوُضو رہنے، جھوٹ، غیبت، چُغلی،حسد، تکبر، وعدہ خلافی، مذاق مسخری، طنز ، دل آزاری، نفاق سے بچنے کا ذہن اِسی مدنی ماحول سے ملا۔
یا اللہ عزوجل ہمیں سیّدہ فاطمۃ الزہرا
رضی اللہ عنہا کے چلنے کے انداز کے صدقے چلتے وقت نگاہیں نیچی رکھنے کی توفیق عطا فرما۔آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہ علیہ وسلم
اللہ پاک کے آخری نبی، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب سے
چھوٹی، سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی کے
بارے میں فرمایا:"فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جو اسے ناگوار، وہ مجھے ناگوار، جو اسے پسند وہ
مجھے پسند ۔"
الحمدللہ اہلِ سنت وجماعت دیگر
تمام صحابہ و اہل بیت کی طرح حضرت بی بی
فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بھی نہایت محبت کرتے ہیں اور محبت محبوب کی سیرت کو اپنانے
پر اُبھارتی ہے ۔
ذیل میں خاتونِ جنت، بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ملنے والے
چند پہلو درج ہیں:
مدارج النبوۃ میں ہے : اِمام حسن رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ٔماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ
عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول
رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"( شان ِخاتون جنت، ص77-76)
سبحان اللہ!خاتونِ جنت بی بی
فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی اُلفت و محبت کا
تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سُنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔
حضرت سیدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(گھر کے کام
کاج وغیرہ) اپنی شہزادی کے ذمّہ لگائے اور
باہر کے کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپُرد فرمائے۔"( شان خاتونِ جنت، ص272)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت
کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا گھر کے کام کاج کرنے کے لئے
کبھی کسی پڑوسن یا رشتہ دار کو اپنی مدد کے لئے نہیں بُلاتی تھیں اور نہ ہی کام کی
کثرت اور کسی قسم کی محنت و مُشقّت سے گھبراتی تھیں، بلکہ آپ رضی اللہ عنہا کو تو
ذکروتلاوت کا اِس قدر ذوق و شوق تھا کہ گھریلو مصروفیت کے دوران بھی زبان سے تلاوت
کا وِرد جاری رکھتیں۔
چنانچہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:میں ایک مرتبہ حضورِ انور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیّدہ
فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین سو رہے
تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جاری تھی، یہ دیکھ کر مُجھ پر ایک خاص حالتِ رقت طاری ہوگئی۔"
( شانِ خاتون جنت، ص83)
اُمّ المؤمنین سیدتنا عائشہ رضی اللہ عنہا شہزادی کونین بی بی فاطمہ رضی
اللہ عنہا کی سچائی کے بارے میں فرماتی ہیں:"میں نےحضرت فاطمہ سے سچا، ان کے والد کے علاوہ کسی اور کو نہیں دیکھا۔"
( شان ِخاتون جنت، ص131)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا:"جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا "اے اہلِ مجمع!اپنی
نگاہیں جھکا لو تاکہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گُزریں۔"(
شانِ خاتون جنت، ص314)
سبحان اللہ!نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آغوش میں تربیت پانے
والی شہزا دی کے مرتبے کی ایک جھلک آپ نے
ملاحظہ کی کہ اللہ پاک نے آپ کو با پردہ رہنے کا ایک یہ صلہ دیا کہ روزِ محشر آپ
کی خاطر اہلِ محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم دیا جائے گا۔
خاتونِ جنت کی سیرت
سے ملنے والے درس کا خلاصہ:
آپ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت
گزار* ذکراذکار کا ذوق رکھنے والی* باپردہ * نہایت سچی* گھر کے کام کاج خود انجام دینے والی* اور اس دوران تلاوتِ قرآن
کرنے والی تھیں۔
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں سیرت خاتونِ جنت سے ملنے والے درس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)
DSP پنڈی بھٹیاں قاسم محمود، سی او میونسپل کارپوریشن پنڈی بھٹیاں عنصر چیمہ عطاری سے ملاقات
شعبہ رابطہ
برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام گزشتہ دنوں ڈی ایس پی DSP پنڈی بھٹیاں قاسم محمود، سی او میونسپل
کارپوریشن پنڈی بھٹیاں عنصر چیمہ عطاری سے
پنڈی بھٹیاں کے ذمہ داران نے شرکت کی۔
گزشتہ دنوں بلوچستان میں ضلع نصیر
آباد کے رکن ڈیرہ مراد جمالی میں غلام
مصطفیٰ عطاری ڈومکی اور غلام مرتضی عطاری
ڈومکی کے والد مرحوم وڈیرہ خداداد ڈومکی اور والدہ کے انتقال کی خبر ملنے شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ
داران نے اہل خانہ سے تعزیت کی اور فاتحہ خوانی کی۔
دوسری جانب
گوٹھ آدم خان پہنور ضلع جیکب آباد میں سابق صوبائی وزیر سندھ قبائلی معروف سیاسی و
سماجی شخصیت سردار منظور خان پہنور سے ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت و دعا کے
ساتھ فاتحہ خوانی کی۔(رپورٹ: شعبہ
رابطہ برائے شخصیات بلوچستان ریجن)
گزشتہ دنوں
شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران نے مختلف
شخصیات( قبائلی رہنما وائس پریذیڈنٹ زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ نصیر آباد حاجی میر
سرور رند، نائب تحصیلدار ریونیو ڈیپارٹمنٹ ضلع ہرنائی میر غلام مرتضیٰ رند ،سینیٹر
سرفراز بگٹی ، قبائلی شخصیت ، مرکزی رہنما
تحریک انصاف اور بلوچستان ریجن کے جنرل سیکٹری
میر عطاء اللہ کلپر بگٹی ، جمہوری وطن پارٹی کے ترجمان در محمد بگٹی ، عاشق رسول
سابق وزیر اعظم پاکستان مرحوم میر ظفر اللہ خان جمالی کے صاحبزادے صوبائی وزیر
ٹرانسپورٹ بلوچستان قبائلی رہنما میر عمر خان جمالی اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کے مشیر
برائے محنت و افرادی قوت قبائلی رہنما میر حاجی محمد خان لہڑی، ایس ایس پی جعفر
آباد افتخار احمد اور آر پی او سی ٹی ڈی
فورس عطاء الرحمن ترین) سے ملاقات کی۔
سب خوبیاں اللہ کے لئے ہیں، جس نے خائفین کی آنکھوں کو خوف و وعید سے رُلایا
تو ان کی آنکھوں سے چشموں کی مانند آنسو جاری ہوگئے اور ان ہستیوں کی آنکھوں سے آنسوؤں کے بادل برسائے، جن کے پہلو بستروں سے جدا رہتے ہیں۔(حکایتیں اور نصیحتیں، ص129)
رونے کی فضیلت:
ربّ تعالی نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ کنزالایمان:جب
ان پر رحمٰن کی آیتیں پڑھی جاتیں، گرپڑتے،
سجدہ کرتے اور روتے۔( پ16، مریم: 58)(آیت
سجدہ ہے) شہنشاہ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مغفرت نشان ہے:اللہ
عزوجل کو کوئی شے دو قطروں سے زیادہ پسند نہیں(1) خوفِ الہی عزوجل سے بہنے والا
آنسو کا قطرہ اور(2)اللہ کی راہ میں بہنے والا خون کا قطرہ ۔(جامع ترمذی الحدیث1449،
ص1823)
منقول ہے ایک دن حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز
رضی اللہ عنہ نے اس آیتِ
مبارکہ کی تلاوت فرمائی ترجمہ کنزالایمان: (اور تم کسی کام میں ہواوراس کی طرف سے کچھ قرآن
پڑھو اور تم لوگ کوئی کام کرو ہم تم پر گواہ ہوتے ہیں جب تم اس کو شروع کرتے ہو)
(پ11، یونس:61)
تو اس شدت سے گریہ وزاری کرنے لگےکہ گھر والوں
نے آپ رضی اللہ عنہ کی آواز سن لی، آپ رضی
اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ حاضر ہوئیں اور آپ رضی اللہ تعالی عنہ کے رونے کے سبب
بیٹھ کر خود بھی رونے لگیں اور پھر ان دونوں کے رونے کی وجہ سے تمام گھر والے بھی
رونے لگے۔( کتاب حکایتیں اور نصیحتیں، صفحہ381)
ایک
دن کسی نے حضرت سیّدنا امام شافعی کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی،
ترجمہ کنزالایمان:یہ
دن ہے کہ وہ بول نہ سکیں گے اور نہ انہیں
اجازت ہے کہ عذرکریں۔ ( پ 29، المرسلت36، 35)
تو
آپ رضی اللہ عنہ کا رنگ متغیر ہو گیا، رونگٹے کھڑے ہوگئے اور جسم کے جوڑ کپکپانے لگے
اور آپ رضی اللہ عنہ بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آئے، جب افاقہ ہوا تو عرض کی، یا الہی میں جھوٹوں کے
ٹھکانے اور غافل لوگوں کے منہ پھیرنے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، یااللہ اہلِ معرفت کے دل تیرے لئے جھک گئے اور
مشتاق لوگوں کی گردنیں تیری ہیبت کے سامنے جھک گئیں۔ ( کتاب حکایتیں اورنصیحتیں، ص399)
کتاب
حکایتیں اور نصیحتیں کے صفحہ 492 پر ایک بہت خوبصورت دلچسپ واقعہ بیان کیا گیا ہے
حضرت سیّدنا ربیع بن خثیم کے متعلق منقول ہے جو کہ (مکمل وہاں سے مطالعہ فرمائیے، میں اس اللہ والی کے چند الفاظ، ان کا قرآن سن کر رونا اور تڑپنے کے متعلق تحریر
نقل کئے دیتی ہوں)اےربیع! مجھے میرے مالک کا کلام تو سنائیے، مجھے اس کے سننے کا
بہت شوق ہے تو میں نے تلاوتِ قرآن شروع کردی،
ترجمہ کنزالایمان:
(اے جھرمٹ مارنے والے! رات میں قیام فرما سوا کچھ رات کے۔(پ۲۹،
المزمل۱۔۲)'')
وہ
سنتی رہیں اور وہ تڑپتی رہیں، یہاں تک کہ
جب میں اللہ تعالی کے اس فرمان پر پہنچا،
ترجمہ کنزالایمان: بے شک ہمارے
پاس بھاری بیڑیاں ہیں اور بھڑکتی آگ اور گلے میں پھنستا کھانااور درد ناک
عذاب۔(پ29،مزمل:12تا13)
تو اس نے چیخ ماری اور نیچے گر گئی اور اس کی
روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی، میں اس کی اس حالت پر پریشان تھا کہ اچانک خواتین
کا ایک قافلہ آیا۔(Continue)
حضرت سیدناحسن کرابیسی
فرماتےہیں میں نےکئی بارحضرت سیدناامام شافعی کی معیت میں رات گزاردی، میں نے
دیکھاکہ آپ رضی اللہ عنہ ایک تہائی رات نمازپڑھتےاورکبھی پچاس(50) آیات سےزیادہ
تلاوت نہ کرتے، اگرکبھی زیادہ پڑھتےتوبھی سو(100)آیات تک پہنچتے۔( کتاب حکایتیں اورنصیحتیں، ص395)
حضرت
سیّدناحبان فرماتےہیں میں نے حضرت سیّدناعمربن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کےپیچھےصبح کی نمازاداکی، آپ نے اس
آیت کی تلاوت فرمائی،
ترجمہ کنزالایمان: اور انہیں ٹھہراؤ ان سے پوچھنا
ہے۔''(پ۲۳،الصّٰفّٰت:۲۴)
پھراس کودہراتےرہےیہاں تک کہ بہت
زیادہ رونے کی وجہ سے تجاوزنہ فرمایئنگے۔ ( کتاب حکایتیں اورنصیحتیں، ص381)
پیارے پیارےمسلمانو! جب اللہ
بندوں کےدلوں کی زمین سنوارتا ہے تواسےخشیت کےہل سے الٹتاپلٹتاہےاوراس میں محبت
کابیج بوکرآنسؤوں کے پانی سے سیراب کرتاہے، توجوفصل اگتی ہےوہ یہ ہے،
ترجمہ کنزالایمان: وہ اللہ کے پیارے اور اللہ ان کا
پیارا۔(پ6،المائدۃ:54)
اللہ تعالیٰ سے دعاگوہوں کہ ہمیں
بھی خوفِ خدا، عشقِ مصطفیٰ اورتلاوت قرآن
میں رونےکی اورسمجھنےکی توفیق عطافرمائے۔آمین