تفصیلات کے مطابق 22  مئی 2021ء کی صبح 9 بجے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی میں افتتاحِ بخاری شریف کی پُر وقار تقریب کا سلسلہ ہوا جس میں خصوصی طور شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادر ی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ، نگرانِ مرکزی مجلسِ شوریٰ دعوتِ اسلامی مولانا محمد عمران عطاری مُدَّظِلُّہُ الْعَالِی،نگرانِ پاکستان حاجی محمد شاہد عطاری ، دیگر اراکینِ شوریٰ اور 1ہزار 443طلبہ و (اپنے للبنات مدارس میں موجود) 2ہزار 158 طالبات نے شرکت کی۔

تقریب میں امیرِ اہلِ سنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے پہلی حدیث پاک پڑھ کر بخاری شریف کے درس کا افتتاح کیا اور تفصیلاً اس کی تشریح بیان کی۔

اجتماع ِافتتاحِ بخاری شریف کے چند مدنی پھول

٭حضرت سیدنا امام شافعی و دیگر ائمہ کرام رحمہم اللہ السلام فرماتے ہیں کہ بخاری شریف کی پہلی حدیث پاک(انما الاعمال بالنیات) یہ حدیث پاک ثُلُثِ اسلام یعنی دین کا تہائی حصہ ہے۔

٭حضرت شیخ الاسلام علامہ عابد انصاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسلمان اپنے عمل کی وجہ سے نہیں بلکہ اچھی نیت کے سبب ہمیشہ جنت میں رہے گا کیونکہ اگر عمل کی وجہ سے جنت میں رہتا تو جتنا عمل کیا اتنا یااس سے چند گنا زیادہ ٹھہرتا، لیکن چونکہ مسلمان کی یہ نیت ہوتی ہے کہ اگر وہ ہمیشہ زندہ رہا تو ہمیشہ اسلام پر قائم رہے گا لہذا اس اچھی نیت کےسبب اللہ پاک اسے ہمیشہ کے لئے جنت عطا فرمائے گا۔

٭اساتذۂ کرام بھی سبق پڑھانے سے قبل اچھی نیتیں کریں کہ فیض القدیر کی جلد دو صفحہ نمبر 286میں لکھا ہے کہ حضرت علامہ شریف سمہودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہمارے شیخ فقیہ العصر شرف مناوی رحمۃ اللہ علیہ جب درس کےلئے تشریف لے جاتے تو پہلےاپنےگھر کےصحن میں کھڑے رہتے اور صحن میں کھڑےہوکر ریاکاری سے بچنے اور اخلاص پانےکے لئے نیت کو دل میں دہراتے۔

٭نِیَّات نیت کی جمع ہے،نیت دل کے پختہ یعنی پکےارادے کو نیت کہتے ہیں۔

٭شارح بخاری حضرت مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ اعمال کا ثواب نیت ہی پر ہے، نیت کے بغیر کسی عمل پر ثواب کا استحقاق نہیں ہے ۔

٭عبادت اور نیت کا گہرا تعلق ہے چنانچہ عبادت کی دو قسمیں ہیں: (01) عبادتِ مقصودہ جیسے نماز ، روزہ کہ ان سے مقصود ثواب حاصل کرنا ہے، انہیں اگر بغیر نیت اداکیا جائے تو یہ صحیح نہ ہوں گے۔ اس میں نیت شرط ہے۔ (02)غیر مقصودہ:وہ عبادات جوکسی دوسری عبادت کے لئے ذریعہ ہو۔ جیسے نماز کے لئے چلنا،وضو، غسل وغیرہ ۔ ان عباداتِ غیرِمقصودہ کو اگر کوئی نیتِ عبادت کے ساتھ کرے گا تو اسے ثواب ملے گا اور اگر بلا نیت کرے گا تو ثواب نہیں ملے گا مگر ان کاذریعہ یا وسیلہ بننا اب بھی درست ہوگا اور ان سے نماز صحیح ہوجائے گا۔ مثلاً اگر زید بےوضو تھاکہ اچانک بارش شروع ہوگئی اور اس کے تمام اعضائے وضو بارش کےپانی سےدھل گئے تو ایسی صورت میں زید کی نیت وضو کی نہیں تھی لیکن چونکہ اعضائےوضو اس کے دھل چکے، اس لئےاسکا وضو ہوجائے گا لیکن ثواب نہیں ملے گا۔

٭نیت کی فضیلت پر 3 فرامینِ مصطفیٰ: (01)مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (02)اچھی نیت بندے کو جنت میں داخل کرے گی۔ (03)جس نے نیکی کا ارادہ کیا پھر اُسے نہ کیا تو اس کے لئے ایک نیکی لکھی جائے گی۔

٭کسی نے سرکارِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ ایک صاحب نے چندہ دے کر مسجد بنوانے کی کوشش کی اسی وجہ سے اپنا نام بھی پتھر میں کندہ یعنی نقش کرانا چاہتے ہیں۔آیا نام کا کندہ کرانا شرعاًدرست ہے یا نہیں؟

اس کا جواب دیتے ہوئےآپ نےفر مایا کہ نام کندہ کروانے کا حکم اختلافِ نیت سے مختلف ہوتاہے ۔ اگر ریا و نمود کی نیت ہے کہ میرا نام ہوتو یہ ریا کاری ہوئی اوروہ گناہ گار ہوگا۔ ہاں اگر یہ نیت ہے کہ جب تک میرا نام لکھا رہے گا مسلمان میرا نام لے کر میرےلئے دعا کریں گے تویہ نیت درست ہے۔

٭کنگھی کرتے اور آئینہ دیکھتے وقت بھی اچھی نیت کرنی چاہیئے۔

٭ہمارے بزرگانِ دین عمل کے لئے باقاعدہ نیت سیکھتے تھے،حضرت سیدنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پہلے کے لوگ عمل کے لئے نیت کا علم ایسے سیکھتے تھے جیسے عمل کرنا سیکھتے ہیں۔

٭صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ کے زمانے میں درسِ نظامی 16 سال کا تھا ۔ اب یہ کم ہوتے ہوتے 6 سال کا رہ گیا ہے۔ اب جو طلبہ اس میں آگئے ہیں وہ اس میں دل لگاکر پڑھیں۔ 5 ویں سال ہی سوچ لیں کہ آگے چل کر کیا کرنا ہے۔ میں تو تخصص فی الفقہ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ تخصص میں نیت یہ نہ ہو کہ میں مفتی بن جاوں گا، مفتی کہلاؤں گا، میرا نام ہوگاوغیرہ۔ آپ کو تخصص سے کم از کم یہ فائدہ تو ہوگا کہ اپنی عبادت کی اغلاط دور ہوں گی، مطالعہ وسیع ہوجائے گا،شرعی قواعد و ضوابط اور بہت معلومات حاصل ہوں گی۔

٭درسِ نظامی کی تعلیم کے ساتھ دعوتِ اسلامی کا دینی کام بھی کرتے رہیں۔ جس کا دورِ طالب علمی ہوتا ہے اسکے پاس وقت بھی زیادہ ہوتا ہے اور وہ دینی کام زیادہ کر سکتا ہے ،طلبہ 92 نیک اعمال اور طالبات 82 نیک اعمال کا رسالہ پُر کرکے ذمہ دار کو جمع کروائیں۔ اِنْ شَآءَ اللہ بیڑا پار ہوگا۔

٭ آپ نیتوں کے متعلق مزید معلومات جاننے کے لئے رسالہ” ثواب بڑھانے کے نسخے (صفحات44)“ اس میں 72 اعمال کی نیتیں موجود ہیں۔ اس کو لیں اور مطالعہ کریں۔ کتاب بہارِ نیت بھی مدینہ مدینہ کتاب ہے۔ اس کو بھی لیں اورمطالعہ کریں ۔

٭مباح کام پر روزِ قیامت حساب ہوگا جبکہ عبادت پرحساب نہیں ہوگا۔ اس لئے کئی مباح کام نیت کرکے ثواب بنائےجاسکتے ہیں ۔ مثلاً کھانا، پینا مباح ہے لیکن اگر اچھی نیت کریں تو عبادت بن جائے گا۔

٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے پہلا سوال : اولیٰ کے طالب علم کے متعلق کہاجاتاہے کہ یہ آتے ہیں اور دوسری کلاس میں جانے قبل کئی طلبہ چھوڑ جاتے ہیں تو ایک اولیٰ کا طالب علم چھوڑ کر نہ جائے اس میں طالب علم کو کیا کرنا چاہیئے اور استاد صاحب کو کیاکردار ادا کرنا چاہئے؟ اس کے متعلق مدنی پھول ارشاد فرمادیجئے۔

امیرِ اہلِ سنت کا جواب: پہلی کلاس بنیادی ہوتی ہےاور اس میں گردانیں خوب رٹوائی جاتی ہیں تو شاید یہ طالب علم سوچتا ہوگا کہ گردانیں رٹ رٹ کر میں کب عالم بنوں گا۔ شروع میں بیج بونا ہوتا ہے، زمین کو ہموار کرنا ہوتا ہے اور ہموار کرنے میں محنت ہوتی ہے۔ کھدائی ہوگی، پانی کا چھڑکاؤ ہوگا،بیچ ڈالےجائیں گے، پھر اس کا خیال رکھنا ہوگاکہ کیڑا نہ لگ جائے، پرندےنہ چُگ جائیں۔ تو شروعات میں ذرا محنت لگتی ہے تو اولیٰ کے طلبہ یہ تسلی رکھیں کہ آپ کو 6 سال تک صرف گردانیں ہی نہیں پڑھائی جائیں گی۔

استاد صاحب کا کرداربھی بڑا اہم ہے۔ اگر استاد ماہر ہوگا تو اس کا ایک طالب علم چھوڑ کر جانہیں سکتا۔ طالب علم کےساتھ نرمی کامعاملہ رکھا جائے۔مارپیٹ اور بہت زیادہ سختی نہ کی جائے۔ پھر بھی کوئی جانے کا کہےتو اس کے استادصاحب کو اس کومحبت سے سمجھانا چاہیئے ، کڑھن ہوگی تو کام ہوجائےگا۔ ایسےاستادوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے،انہیں انعام ملنا چاہیئے جن کے طلبہ 100 فیصد اگلی کلاس میں چلےجائیں اور چھوڑ کرنہ جائیں۔ اساتذہ کو میرا یہ پیغام ہے کہ ایک بھی طالب علم اولیٰ سے دورہ حدیث تک چھوڑ کرجانا نہ چاہیئے اس کے لئے خوب کوشش کریں اور محنت کرکےطلبہ کو دین کی تعلیم فراہم کریں۔

٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے دوسرا سوال : مفتی کیسا ہوتا ہے آپ کیا فرماتے ہیں؟

امیرِ اہلِ سنت کا جواب: مفتی دن یا مہینےیا سال گزارنے سے نہیں بنتا، بلکہ وہ ذہین ہو اور فقہ کی گتھیاں سلجھانے کی صلاحیت اس میں ہو اور یہ اس کا استاد فیصلہ کرے گا کہ ہاں اب یہ واقعی مفتی بن گیا ہے۔ سند کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ بندہ عالم یا مفتی بن گیا۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں کہ سند کوئی شئی نہیں، علم ہونا چاہیے ۔ پہلے سندیں نہیں تھیں مگربڑے بڑے علما موجود تھے، اعلیٰ حضرت 13 سال کی عمر میں عالم بن گئے تھے اور پہلا فتویٰ دیا اس لئے کہ آپ ذہین تھے، خداداد صلاحیتیں تھیں۔ آپ احتیاطوں کا مجموعہ تھے۔ جب تک آپ کے والد صاحب حیات رہے خود سے فتوی جاری نہ کیا بلکہ ان سے چیک کرواتے ، 7سال تک اپنے لکھے ہرفتوےکو چیک کروایا۔ جو عالم دین برسوں فتوے لکھے اور استاد اس کو اجازت دے دے تو وہ مفتی بنیں گے اور فتوے جاری کرسکیں گےاور جب تک ان کی درستگی زیادہ اور غلطیاں کم ہوں گی وہ مفتی رہیں گے، جب ان کی غلطیاں زیادہ ہوجائیں تو پھر وہ مفتی نہیں رہیں گے۔

٭نگرانِ شوریٰ کا امیرِ اہل سنت سے تیسرا سوال : طالب علم امامت کریں تو اس سے خود انہیں اور عوام کو کیا فوائد ہوں گے؟

امیرِ اہلِ سنت کا جواب:اس دور میں امامت جیسی حلال روزی بہت کم ہے۔ امام کو لوگ معزز رکھتے ہیں، امام صاحب کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے، امام کی لوگ سنتے ہیں۔ اس لئے ان کے پاس نیکی کی دعوت دینے کا موقع زیادہ ہوتا ہے۔ امام صاحب چاہیں تو دینی کام بہت زیادہ کرسکتے ہیں۔ امام صاحب علاقائی دورے میں خالی اگر ذمہ داران کے ساتھ جائیں گے تو لوگ توجہ سے نیکی کی دعوت سنیں گے کہ امام صاحب آئے ہیں، دوسرا کوئی جائے تو شاید اس کو کہہ دیں کہ ابھی وقت نہیں یا کوئی مصروفیت ہے وغیرہ۔ امام صاحب ساتھ ہوں گے تو کوئی ڈگڈگی نہیں دکھائے گا۔ امام صاحب کےلئے نیکی کی دعوت دینا آسان ہوتا ہے، اس لئے وہ طالب علم جو امامت کے اہل ہوں انہیں امامت کرنی چاہیئے۔

٭امام صاحب کو نصیحت: پیسوں کے پیچھے کبھی نہ جائیں پیسہ آپ کےپیچھے خود آئے گا۔ طمع نہ رکھیں، کوئی پیسہ دے تو منع کرنے کی عادت بنائیں ،غریب امیر سب کے ساتھ برابر سلوک رکھیں ، اللہ آپ کو بہت نوازےگا۔

اعلان: 01٭اس سال سے اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تخصص فی الفقہ (مفتیہ کورس)اسلامی بہنوں میں بھی شروع ہورہا ہے۔

اعلان:02٭نیپال میں اس سال سے اسلامی بھائیوں میں تخصص فی الفقہ (مفتی کورس) کے درجے کا آغاز ہورہا ہے۔

اختتام پر امیر اہل سنت نے طلبہ و طالبات ، مبلغین و مبلغات اور امّتِ مسلمہ کے لئے دعا کروائی ۔ 


Under the supervision of Dawat-e-Islami the Kabina Nigran Islamic sister of Lesotho Kabina had a Madani Mashwara (meeting) via WhatsApp calling on Friday 7th May 2021with the Kabina level zimidar of Neki Ki Dawat /Mefhil e Naat (Call towards righteousness) Madani pearls were discussed to increase the call towards righteousness as well as to encourage more Islamic sisters to attend the weekly gathering (Ijtma) of Islamic Sisters. 


Under the Supervision of Dawat-e-Islami the Region Nigran Islamic Sister of South Africa has a Madani Mashwara (Meeting) via WhatsApp calls with the Islamic Sister of Short Courses for South Africa Region on Friday 7th May 2021 Madani pearls were given to increase short courses and make more minds of Islamic Sisters and Madani Children to join the courses. Both the region nigran Islamic sister and short course zimidar were giving points on how to go about increasing short courses in South Africa Region. Hadafs (Targets) were given to the short course zimidar of country level.


سیّدہ فاطمہ کا ذوقِ نماز:

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"

پیاری اسلامی بہنو!خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی اُلفت و محبت کا تقاضا ہے کہ ہم نہ صرف فرائض بلکہ سُنن و نوافل کی ادائیگی کو بھی اپنا معمول بنائیں۔( شان ِخاتون جنت، ص76)

نئی دلہن عبادت میں مگن:

حضرت سیدتنا فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا کی جب رخصتی ہوئی اور آپ حضرت علی رضی اللہ عنہٗ کے گھر تشریف لے گئیں تو حضرت علی آپ سے محبت بھری گفتگو کرنے لگے، یہاں تک کہ جب رات کا اندھیرا چھا گیا تو آپ رونے لگیں، حضرت علی نے کہا"اےتمام عورتوں کی سردار! کیا آپ خوش نہیں کہ میں آپ کا شوہر ہوں اور آپ میری بیوی ہیں؟" کہنے لگیں" میں کیونکر راضی نہ ہوں گی"آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں" میں تو اپنی حالت و معاملہ متعلق سوچ رہی ہوں کہ جب میری عمر پوری ہو جائے گی اور مجھے قبر میں داخل کر دیا جائے گا، آج میرا عزت و فخر کے بستر میں داخل ہونا کل قبر میں داخل ہونے کی مانند ہے، آج رات ہم اپنے ربّ کی بارگاہ میں کھڑے ہو کر عبادت کریں گے کہ وہی عبادت کا زیادہ حق رکھتا ہے، اس کے بعد وہ دونوں کھڑے ہو کر عبادت کرنے لگے۔( حکایتیں اور نصیحتیں، ص 548)

پیاری پیاری اسلامی بہنو!اس حدیث مبارک کے الفاظ"آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں" بہت اہمیت کے حامل ہیں، اس پر اسلامی بہنوں کو غور کرنا چاہئے کہ ان کے دل میں اپنے "بچّوں کے ابو" کا کتنا احترام ہے اور وہ بچوں کے ابو کے کتنے حقوق ادا کرتی ہیں اور ان کی رِضا کے لئے کیا کوششیں کرتی ہیں۔(شانِ خاتون جنت، ص 89، 91)

امام حسن مجتبیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے حق میں بہت زیادہ دعائیں کرتے دیکھا، میں نے عرض کیا: اے مادرِ مہربان!کیا بات ہے کہ آپ اپنے لئے کوئی دعا نہیں مانگتیں"، فرمایا:اے فرزند"یعنی پہلے ہمسائے ہیں، پھر گھر۔"(مدارج النبوہ مترجم، قسم پنجم، باب اوّل، ج4، ص 435)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت کی سیرت سے ہمیں یہ مدنی پھول چننے کو ملا کہ آپ رضی اللہ عنہا ہمسایوں کے لئے زیادہ دعا فرمایا کرتیں اور فرماتیں" پہلے ہمسایہ ہے، پھر گھر "ایک ہم نادان ہیں کہ ہمسایوں کا ہمیں خیال تک نہیں، ہم اپنے گھر میں طرح طرح کے کھانے کھاتے ہیں، عمدہ عمدہ ملبوسات پہنتے ہیں اور ہم میں سے بعض کے ہمسایوں کو یہ چیزیں میسّر نہیں ہوتیں اور ہمیں ان کا خیال تک نہیں ہوتا اور اگر وہ کسی چیز کا سوال کریں تو ہم پھر بھی نہیں کرتے۔( شان خاتونِ جنت، ص101)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خواتینِ جنت کی سردار، جگرگوشہ سرکار، حضرت سیّدۃ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے اور حضور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ رضی اللہ عنہا سے بہت محبت تھی اور محبت کی علامات میں سے ایک یہ ہے کہ جس سے محبت ہو اس کی ہر ادا پنانے کی کوشش کی جاتی ہے، چنانچہ حضرت سیدنا فاطمہ نے خود کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے سانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات و اطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کے انداز، گفتگو اور صداقت و کلام میں آپ سیرتِ مصطفی کا عکس اور نمونہ تھیں۔(شان خاتونِ جنت، ص114)

ہم چونکہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کرتی ہیں، تو ہمیں بھی ان کی سیرت پر عمل کرنا چاہئے۔


شوہر کا احترام:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنے الفاظ کے ذریعے اظہار کیا مولا علی رضی اللہ عنہ سے کہ "آپ تو میری رضا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ہیں"، اس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ ہمارے دل میں اپنے" بچوں کے ابو" کا احترام ہونا چاہئے اور ان کی رضا کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔

مسلمانوں کے لئے دعا:

ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں اور بہنوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دعا کرنی چاہئے کہ مسلمان کی دعا اُس کی غیر موجودگی میں بہت جلد قبول ہوتی ہے۔(شانِ خاتون جنت، ص91)

شوقِ تلاوت:

سیّدہ زہرا رضی اللہ عنہا کھانا پکانے کی حالت میں بھی قرآن پاک کی تلاوت کرتی تھیں، ہمیں بھی تلاوت کرتے رہنا چاہئے۔(شانِ خاتون جنت، ص 92)

پڑوسیوں کی خیرخواہی:

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ایک مدنی پھول یہ بھی چننے کو ملا کہ آپ ہمسایوں کے لئے زیادہ دُعا فرماتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص101)

صداقت:

سیّدہ کا ئنات رضی اللہ عنہا خود سچی اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شہزادی ہیں، ہمیں بھی ان کی اس عادت کو اپنا کر اپنی دنیا و آخرت سنوار نی چاہئے۔(شانِ خاتون جنت، ص131)

والدِ محترم کا اِستقبال :

جب آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شہزادی سیّدہ کائنات رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لے جاتے تو وہ ان کی تعظیم کے لئے کھڑی ہو جاتیں، ان کے ہاتھ مبارک کا بوسہ لیتیں اور اپنی جگہ پر بٹھاتیں، ہمیں بھی اپنے والدین کا ادب کرنا چاہئے۔

مخدومہ کائنات رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ہمیں مزید بھی بہت سے مدنی پھول سیکھنے کو ملتے ہیں، جیسے

(1) نذر

(2) سخاوت

(3) ایثار

(4) کھانا کھلانا

(5) سادگی

(6) عاجزی وغیرھا

آپ رضی اللہ عنہا غربت پر صبر کرتیں، فاقے کرتیں اور پھر بھی ہر حال میں ربّ تعالیٰ کا شکر ادا کرتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص148)

زُہد:

آپ رضی اللہ عنہا دنیا سے بے رغبت تھیں، جس کی وجہ سے آپ کا ایک لقب "زاہدہ"دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے والی" بھی ہے۔

پردہ:

آپ رضی اللہ عنہا کا ایک بال بھی آسمان نے نہ دیکھا، آپ نے دنیا میں ہی نہیں بلکہ بعداَز وِصال بھی پردے کا اہتمام رکھا۔

وہ رِدا جس کی تطہیر اللہ دے

آسماں کی نظر بھی نہ جس پر پڑے

جس کا دامن نہ سہواً ہوا چُھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

کسی نے کیا ہی پیارا شعر کہا ہے :

چُو زھراباش از مخلوق رُوپوش

کہ در آغوش شبیر بہ بینی

"یعنی فاطمہ کی طرح پرہیزگار، پردہ دار بنو تا کہ گود میں شبّیرِ نامدار اِمامِ حسین رضی اللہ عنہ جیسی اولاد دیکھو۔"

خاتونِ جنت اور امورِ خانہ داری:

سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ خانہ داری کے امور میں کسی رشتے داریا ہمسائی کو مدد کے لئے نہ بلا تیں، نہ کام کی کثرت اور کسی قسم کی مشقت سے گھبرا تیں، چاہے خود فاقے سے ہوں جب تک شوہر اور بچوں کو نہ کھلا لیتیں، خود ایک لقمہ بھی منہ میں نہ ڈالتیں۔(شانِ خاتون جنت، ص273)

اللہ پاک ہمیں خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرت کے ان گوشوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

خاتونِ جنت کی سیرت کو پڑھنے اور سمجھنے کےلئے مکتبہ المدینہ کی کتاب"شانِ خاتون جنت" کا مطالعہ فرمائیے ۔


حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا  ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی لاڈلی شہزادی اور امام حسن و حسین رضی اللہ عنہما کی والدہ محترمہ ہیں اور جنتی عورتوں کی سردار ہیں، ہم سب کو ان کی سیرت کا مطالعہ کرنا چاہئے، ان کی سیرت کا مطالعہ کرنے سے ہمیں بہت کچھ درس حاصل ہوتا ہے۔

کثرتِ عبادت کا درس:

پیاری پیاری اسلامی بہنو! خاتونِ جنت کو کس قدر عبادت کا ذوق تھا کہ پوری پوری رات اللہ کی عبادت میں گزار دیتی تھیں، ان کی کثرتِ عبادت سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہم بھی زیادہ سے زیادہ اپنے ربّ عزوجل کی عبادت کریں، آپ رضی اللہ عنہا تو خاتونِ جنت ہو کر بھی اس قدر عبادت کرتی تھیں اور ہمیں تو معلوم بھی نہیں، نجانے ہمارے ساتھ آخرت میں کیا معاملہ ہوگا، ہمیں بھی زیادہ سے زیادہ عبادت کرکے اپنے ربّ عزوجل کو خوش کرنا چاہئے کہ اگر ربّ عزوجل ہم سے ہمیشہ کے لئے راضی ہوگیا، تو ہماری دنیا و آخرت سنور جائے گی۔

ایثارو سخاوت کا درس:

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا بہت زیادہ سخی تھیں، کسی سائل کو خالی نہ لوٹاتیں، حتٰی کہ اگر گھر میں کوئی چیز بظاہر موجود نہ ہو تی تو قرض لے کر سائل کی حاجت پوری کرتیں، اس سے ہمیں بھی سخاوت کا درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی حاجت مندوں کی مدد کرنی چاہئے کہ جس چیز کی سامنے والے کو ضرورت ہو وہی دینی چاہئے، لیکن ہم تو ایسا کرتے ہیں کہ جس چیز کی ہمیں حاجت نہیں ہوتی وہ ہم دوسروں کو دے دیتے ہیں، یہ تو سخاوت ہی نہیں ہے کہ حضرت سیّدنا ابو سلمان عبدالرحمٰن بن احمد بن عطیہ علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:"بہترین سخاوت وہ ہے جو حاجت کے مطابق و موافق ہو (کہ سامنے والے کو جس چیز کی حاجت ہو وہ دی جائے)( شعب الایمان، الرابع والسبعون من شعب الایمان باب فی الجود و السخا، ج 7، ص447، الرقم 10938)

تمام کام اپنے ہاتھ کرنے کا درس:

خاتونِ جنت اپنے تمام گھریلو کام اپنے ہاتھ سے کرتیں، حتٰی کہ اپنی مبارک کمر پر پانی لے کر آئیں، اس سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے گھر کے کام کاج خود کرنے چاہیئں کہ اس سے بھی اللہ عزوجل کا قرب حاصل ہوتا ہے، چنانچہ دعوتِ اسلامی کے ادارے مکتبہ المدینہ کی کتاب سیرتِ ابودرداء کے صفحہ 62 پر ہے:حضرت سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سیدنا سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف ایک مکتوب روانہ فرمایا، جس میں یہ بھی تھا کہ اے میرے بھائی مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو نے ایک خادم خریدا ہے، میں نے اللہ کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے سنا ہے کہ "بندہ جب تک کسی خادم سے مدد نہیں لیتا، اللہ عزوجل کے قریب ہوتا رہتا ہے اور جب وہ کسی خادم سے خدمت لیتا ہے تو اس پر اس کا حساب لازم ہو جاتا ہے۔"

میری زوجہ نے مجھ سے ایک خادم رکھنے کا مطالبہ کیا تھا، لیکن حساب کے خوف سے میں نے اسے نا پسند جانا، حالانکہ میں ان دنوں مالدار تھا۔

اس سے ہمیں بھی یہ درس ملا کہ ہمیں بھی خود گھر کے کام کاج کرنے چاہئیں کہ اس سے بھائی بہنوں اور ماں باپ کی منظورِ نظر بن جائیں گی، شادی شدہ ہیں تو شوہر، نند اور ساس کے دلوں میں جگہ بن جائے گی اور گھر امن کا گہوارہ بن جائے گا۔

پردے کا درس:

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا پردے کا اس قدر اہتمام فرماتیں کہ ان کے مبارک جنازہ کا بھی پردہ تھا کہ انہوں نے وصیت فرمائی تھی کہ رات کو ان کا جنازہ پڑھاجائے تو اس سے ہمیں بھی پردہ کرنے کا درس ملتا ہے کہ جو آج کل اسلامی بہنیں بے پردہ پھر رہی ہوتی ہیں، انہیں اس سے درس حاصل کرنا چاہئے۔

حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع!اپنی نگاہیں جھکا لو تا کہ حضرت فاطمہ بنتِ محمد مصطفی رضی اللہ عنہا پل صراط سے گزریں۔

وہ ردا جس کی تطہیر اللہ دے

آسمان کی نظر بھی نہ جس پر پڑے

جس کا دامن نہ سہواً ہو اسکے چھو سکے

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

اللہ ربّ العزت نے آپ کو پردہ دار رہنے کا ایک صلہ یہ دیا کہ روزِ محشر آپ رضی اللہ عنہا کی خاطر اہلِ محشر کو نگاہیں جھکانے کا حکم صادر کیا جائے گا تو ہمیں بھی پردہ کرنا چاہئے اور اپنی عزت کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہم گھر سے نہ نکلیں اور اگر حاجت ہو تو ایسا برقع پہن کر نکلیں، جس سے ہمارا پورا بدن چھپ جائے اور کوئی ہمیں پہچان نہ سکے اور کسی کو یہ معلوم بھی نہ ہو سکے کہ یہ بوڑھی ہے یا کوئی جوان، ہمیں بھی حضرت فاطمۃ الزہرا کی سیرت عمل کرنا چاہئے۔

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت فاطمۃ الزہرا کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کے صدقے ہمارے اسلامی بہنوں کو شرم و حیاء کی چادر نصیب فرمائے، اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


سیدہ فاطمہ کا مختصر تعارف:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سرکارِ دوعالم کی سب سے چھوٹی، مگر سب سے پیاری اور لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کا نام"فاطمہ" اور لقب" زہرا بتول، ام السادات، طیبہ، طاہرہ، سیدہ، عابدہ، ذاکیہ، محدثہ، خاتونِ جنت، دخترِمصطفی، بانوئے مرتضی، ام الحسنین وغیرہ ہیں، یہ عظیم کنیتیں اور کثیر القابات آپ کی شخصیت کو ہی موزوں ہو سکتے ہیں۔

عبادت ہو تو ایسی:

امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنی والدہ ماجدہ کو دیکھا کہ رات کو مسجدِ بیت کے محراب میں نماز پڑھتی رہتیں، یہاں تک کہ نمازِ فجر کا وقت ہو جاتا، میں نے آپ رضی اللہ عنہا کو مسلمان مردوں اور عورتوں کے لئے بہت زیادہ دعائیں کرتے سنا، آپ رضی اللہ عنہا اپنی ذات کے لئے کوئی دعا نہ کرتیں، میں نے عرض کی، پیاری امّی جان! کیا وجہ ہے کہ آپ اپنے لیے کوئی دعا نہیں کرتیں، فرمایا" پہلے پڑوس ہے پھر گھر ۔"

نصیحت آموز مدنی پھول:

اس واقعہ میں ان اسلامی بہنوں کے لئے کئیں نصیحت آموز مدنی پھول ہیں، جو نوافل تو درکنار فرائض سے بھی غفلت برتتی ہیں، سرکارِ دو عالم کی پیاری شہزادی نے تو راتیں عبادتِ الہی میں گزاریں، مگر ان کی راتیں غفلت میں گزرتی ہیں، کبھی گناہوں بھرے چینلز کے سامنے فلمیں ڈرامے دیکھنے میں، کبھی مہندی کی تقریب میں بے حیائی کرتے اور کبھی شادی کے موقع پر ڈھول پیٹتے، باجے بجاتے اور ڈانس کرتے گزرتی ہیں، بے حیائی کو عار نہیں سمجھتی ہیں، نہ بے پردگی سے خار کھاتی ہیں۔ حالانکہ بی بی فاطمہ کے پردے کا اس قدر ذہن تھا کہ جیتے جی ہی نہیں بلکہ سفرِ آخرت پر گامزن ہوتے وقت بھی اس کے بارے میں متفکر تھیں اور اس کی پابندی کی تاکید فرمائی، چنانچہ

بی بی فاطمہ کے جنازے کا پردہ:

مولا مشکل کشا حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے موت کے وقت وصیت فرمائی تھی کہ جب دنیا سے رخصت ہوجاؤں تو رات میں دفن کرنا تاکہ کسی غیر مرد کی نظر میرے جنازے پر نہ پڑے۔

اللہ اکبر پیاری اسلامی بہنو!یہاں ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے کہ بی بی فاطمہ کا اتنا بڑا مرتبہ ہونے کے باوجود، سرکارِ دو عالم کی شہزادی ہونے کے باوجود ، شیرِخداکی زوجہ ہونے کے باوجود، اور جنتی عورتوں کی سردار ہونے کے باوجود بھی آپ نے اپنی زندگی میں بھی اور وفات کے وقت بھی پردے کا ایسا اہتمام فرمایا کہ اپنے بعد آنے والی تمام عورتوں کے لئے مثال قائم کر دی۔

ہے مرتبہ اس لئے کونین میں عصمت کا عفت کا

شرف حاصل ہے ان کو دامنِ زہرا سے نسبت کا

جو جانا خلد میں ہوپائے زہرہ سے لپٹ جاؤ

جسے کہتے ہیں جنت مُلک ہے خاتونِ جنت کا

رسول کریم کے وصال کے چھ ماہ بعد تین رمضان المبارک، سن11 ہجری، منگل رات سیْدہ فاطمہ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔آمین(شان خاتون جنت)


اسلامی بہنوں میں نیکی کی دعوت عام کرنے میں صحابیات و صالحات کا کردار مشعلِ راہ ہے،  ان صحابیات کی زندگی ایک مثالی زندگی ہے، جو کہ دنیا و آخرت دونوں میں سرخرو ہونے کا باعث ہے، تبلیغِ اسلام اور خدمتِ دین کے معاملے میں ان کی زندگی سے چنداں انکار نہیں کیا جا سکتا، انہیں صالحات و نیک خواتین میں سے ایک خاتون خاتونِ جنت، حضرت فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا ہیں جو کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی چھوٹی، مگر سب سے لاڈلی شہزادی ہیں، آپ کی حیاتِ مبارکہ قابلِ ذکر ہیں، آپ کی سیرت مبارکہ سے زندگی کے کئیں حالات کا درس ملتا ہے، مگر اسلامی بہنوں کے لئے خاص کر، وہ آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے گھر کا کام کاج خود کرنا، حیاء و پردہ کرنا، دنیا سے بے رغبتی اور پڑوسیوں پر شفقت اور ذوقِ عبادت و نماز و تلاوت کا درس ملتا ہے، جو کہ باالتفصیل درج ذیل ہیں:

گھر کا کام کاج کرنا:

آپ رضی اللہ عنہا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ بااختیار ہیں، ان کی لاڈلی بیٹی ہونے کے باوجود اپنے گھر کا سارا کام خود کرتیں تھیں، کنویں سے پانی بھر کر پیٹھ پر مشک لاد کر لایا کرتیں، خود چکّی چلا کر آٹا بھی پیسا کرتیں اور یہ عورت کا فرض بھی ہے کہ شوہر کی گنجائش نہ ہونے پر گھریلو کام کاج خود کرلیا کریں۔(شان خاتون جنت، ص36)

حیاءو پردہ کرنا :

آپ بہت باحیاء اور با پردہ تھیں اور پردہ کو پسند کرتی تھیں، یہاں تک کہ آپ یہ بھی پسند نہ فرماتیں کہ آپ کے جنازہ مبارکہ پر بھی کسی غیر مرد کی نظر نہ پڑے۔(شان خاتون جنت، ص322)

دنیا سے بے رغبتی:

آپ رضی اللہ عنہانے دنیا سے بے رغبتی اختیار کی ہوئی تھی اور اکثر فاقے کرتیں اور خوب صدقہ فرماتیں، ایک مرتبہ آپ رضی اللہ عنہا کو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے سونے کا ہار تحفہ دیا تو آپ نے اس کے بدلے غلام خریدا اور اس کو آزاد کر دیا۔(شان خاتون جنت، ص386)

پڑوسیوں پر شفقت:

آپ رضی اللہ عنہا پڑوسیوں پر نہایت ہی شفیق تھیں کہ آپ جب دعا فرماتیں تو پہلے پڑوسیوں کے لئے کرتیں اور فرماتیں کہ" پہلے پڑوس ہے، پھر گھر۔"(فیضان نماز، صفحہ 485)

شوقِ تلاوت:

آپ رضی اللہ عنہا کو بہت زیادہ تلاوت کا شوق تھا کہ آپ گھر کے کام کاج کرتے وقت بھی تلاوت فرماتی تھیں،یہاں تک کہ آپ کو ایک بار اپنے بچوں کو پنکھا جھلتے ہوئے تلاوت کرتے ہوئے سنا گیا۔

ذوقِ نماز:آپ کو اس قدرعبادت کا ذوق تھا کہ آپ رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی، کسی بیماری، تکلیف میں بھی نماز میں مشغول رہتیں۔(شان خاتون جنت، ص76)

آپ کی زندگی ایک کامل زندگی ہے کہ اس پر اگر چلا جائے تو دونوں جہانوں کی فلاح و کامیابی بھی ہے، اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں خاتونِ جنت کی حیاتِ مبارکہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اس دور حاضر میں جہاں مسلمان دن بدن پستی کا شکار ہو رہے ہیں وہیں مسلمانوں کی زبوں حالی کا ایک سبب بے پردہ عورت ہیں وہم پرستی ،  غم و شادی کے مواقع پر ہندوانہ اور جاہلانہ رسم و رواج وغیرہ جہاں یہ تمام خرافات بد قسمتی سے اسلامی معاشرہ میں عروج پذیر ہیں وہیں مسلمان خواتین میں حیا اور پردہ کا ذہن(concept)جاتا نظر آرہا ہے آج مسلمان خواتین نے اپنا آئیڈیل غیر مسلم اور آزادانہ خیال کی حامل خواتین کو بنا لیا ہے جبکہ ہماری پسندیدہ شخصیت وہ ہستی ہونی چاہئے تھیں جو دنیا میں رہ کر فکر آخرت کرنے والی ہوں اسلامی قوانین کو اپنی زندگی میں نافذ کرنے والی اور عبادت کو دل و جان سے محبوب رکھنے والی اور با حیا ہوں ، ان تمام خصوصیات کو اگر ہم سیرت حضرت فاطمہ الزھراء رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھا کے آئینہ میں دیکھیں تو صاف طور پر یہ نظر آئے گا کہ ایک مسلمان عورت کی زندگی کی حقیقی تصویر کیا ہونی چاہئے ۔

حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا پردہ کی نہایت پابند تھیں اور حد درجہ حیا دار تھیں ایک بار سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے پوچھا بیٹی عورت کی سب سے اچھی صفت کون سی ہے ؟حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنھا نے عرض کی عورت کی سب سے اعلی خوبی یہ ہے کہ نہ وہ کسی غیر مرد کو دیکھے اور نہ کوئی غیر مرد اس کو دیکھے۔

( سیرت فاطمۃ الزہراء ، باب شرم و حیا صفحہ نمبر 110)

جس کا آنچل نہ دیکھا مہ و مہر نے

اس ردائے نزاہت پہ لاکھوں سلام

حضرت فاطمۃ الزہراء کی شرم و حیا کا اندازہ اس واقعہ سے لگائے کے دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 397پر شیخ طریقت امیر اہلسنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ نقل فرماتے ہیں : سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال ظاہری کے بعد خاتون جنت شہزادی کونین حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالی عنہا پر غم مصطفی کا اس قدر غلبہ ہواکہ آپ رضی اللہ تعالی عنہا کے لبوں پر مسکراہٹ ختم ہوگی اپنے وصال سے قبل ایک ہی بار مسکرائی دیکھی گئی ۔

اس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ شرم و حیاء کی پیکر حضرت سیدتنا خاتون جنت کو یہ تشویش تھی کہ عمر بھر تو غیر مردوں کی نظروں سے خود کو بچائے رکھا ہے اب کہیں بعد وفات میرے کفن پوش، لاش پر لوگوں کی نظر نہ پڑ جائے ۔ایک موقع پر حضرت سیدتنا اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا میں نے حبشہ میں دیکھا کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ایک ڈولی جیسی صورت بنا کر اس پر پردہ ڈال دیتے ہیں پھر انہوں نے کھجور کی شاخیں منگوا کر انہیں جوڑ کر اس پر کپڑا تان کر سیدہ خاتون جنت کو دکھایا آپ بہت خوش ہوئی اور لبوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔

(جذب القلوب مترجم ،ص 231)

سبحان اللہ سیدہ خاتون جنت رضی اللہ عنھا کے پردے اور حیا کی بھی کیا بات ہے کسی نے کتنا پیارا شعر کہا ہے ۔

چوزھرا باش از مخلوق رو پوش

کہ در آغوش شبیرے بہ بینی

(یعنی حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء کی طرح پرہیزگار و پردہ دار بنو تاکہ اپنی گود میں حضرت سیدنا شبیر نامدار امام حسین جیسی اولاد دیکھو)

حضرت سیدتنا فاطمہ رضی اللہ عنھا بہت زیادہ پیکر شرم و حیا اور باپردہ تھیں پیاری اسلامی بہنوں ہمیں بی بی فاطمہ رضی اللہ عنھا کی مبارک سیرت سے جہاں دیگر درس حاصل ہوتے ہیں وہی ہمیں باپردہ اور باحیا رہنے کا درس حاصل ہوتا ہے کہ آپ کو دنیا تو دنیا لیکن دنیا سے وصال فرما جانے کے بعد بھی اگر کوئی فکر لاحق تھی تو اپنے پردے کی تھی ۔

اللہ رب العزت ہم تمام اسلامی بہنوں کو خاتون جنت کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے پردہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین....

اس بتول جگر پارۂ مصطفی

حجلہ آرائے عفت پہ لاکھوں سلام


خاتونِ جنت حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی لختِ جگر ، حضرت فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنہا عنہ کی زندگی ہر خصوصیت کی جامع ہے اور ان کی زندگی ہماری خواتین کے لئے بہترین مشعلِ راہ ہے،  جس کو فالو(follow) کرکے ہم اپنی دنیا کو بھی سنوار سکتے ہیں اور آخرت میں بھی سُرخرو کرسکتے ہیں۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ان کی زندگی کا ہر پہلو لا تعدادخصائص کا جامع ہے، ان کی عبادت، ان کی ریاضت، گھریلو کام کاج، بچوں کی تربیت، شوہر کی خدمت ہر پہلو ہی لاجواب ہے۔

حضرت بی بی فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نہایت ہی عبادت گزار خاتون تھیں، جس کی وجہ سے آپ کا لقب عابدہ بنا، آپ کو نماز انتہائی محبوب تھی، آپ پوری پوری رات اللہ عزوجل کی عبادت میں گزار دیتیں۔

چنانچہ حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں:حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"( شانِ خا تونِ جنت، ص 77)

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہم اپنی زندگی کو اگر دیکھیں تو نوافل کہاں، ہم تو فرائض بھی ادا نہیں کرتی۔

سوال: کیا ہم حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے عشق نہیں رکھتیں؟

بالکل رکھتی ہیں، تو کیا ان کی زندگی کو ہمیں فالو نہیں کرنا چاہئے، آپ بھی بچوں والی تھیں، بچوں کو آپ نے ایک عظیم ماں بن کر پالا اور اپنے ربّ کو ہمیشہ یاد رکھا، آج کل کی مائیں یوں کہتی ہیں کہ بچے پڑھنے نہیں دیتے تو یاد رکھئے!نماز کسی صورت معاف نہیں، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو مشعلِ راہ بنائیں، اپنی اولادکی بھی تربیت کیجئے اور عبادت کو بھی ذوق و شوق کے ساتھ کیجئے۔اللہ پاک ہم سب کو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی کو اپنانے کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


قرآن پاک کی سورۃ الذٰریٰت  کی آیت نمبر 56 میں ہے :

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُونِ۔

ترجمۂ کنزالایمان: اور میں نے جن اور آدمی اسی لئے بنائے کہ میری عبادت کریں۔

مذکورہ آیت میں جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے کا مقصد بتایا گیا ہے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور انہیں اللہ کی معرفت حاصل ہو۔

لیکن آج کے زمانے کا انسان اس مقصد کو بھول کر دنیا طلب کرنے اور اس طلب میں مُنہمک ہے،

اپنے مقصدِ پیدائش کو سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لئے سلف صالحین و صالحات کی سیرتیں مشعلِ راہ ہیں۔

انہی میں سے ایک سیرتِ طیبہ خاتونِ جنت حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی سیرت ہے، آپ رضی اللہ عنہا کی مبارک سیرت کے چند پہلو ملاحظہ فرمائیں۔

سیّدہ فاطمہ کا ذوقِ عبادت:

آپ رضی اللہ عنہا کی طبیعتِ عالیہ ہمہ وقت عبادتِ الہی کی طرف متوجّہ رہتی تھی، اپنے گھریلو کام کاج کی انجام دہی کے ساتھ یادِ الٰہی میں مشغول رہتیں، تلاوتِ قرآن کا ورد بھی جاری رکھتیں، پوری پوری رات اللہ عزوجل عبادت میں گزار دیتی تھیں، چنانچہ مکتبۃ المدینہ کی کتاب"خاتونِ جنت"کے صفحہ نمبر76تا77 میں لکھا ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی علیہ رحمۃ اللہ القوی مدارج النبوۃ میں نقل فرماتے ہیں: حضرت سیدتنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح ہو جاتی۔"

اور صفحہ نمبر83 پر ہے:حضرت سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور پر نور، شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے دیکھا کہ حضراتِ حسنینِ کریمین رضی اللہ عنہما سو رہے تھے اور آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل رہی تھیں اور زبان سے کلامِ الہی کی تلاوت جا ری تھی، یہ دیکھ کر مجھ پر ایک خاص رقت طاری ہوئی۔

ازدواجی زندگی:آپ رضی اللہ عنہا نکاح کے بعد جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دولت خانہ میں تشریف لائیں تو گھر کے تمام کاموں کی ذمّہ داری کو بڑے احسن انداز میں نبھایا۔چنانچہ

"خاتونِ جنت" کتاب کے صفحہ272 پر ہے" حضرت سیّدنا ضمرہ بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امورِ خانہ داری(مثلاً چکی پیسنے، جھاڑو دینے، کھانا پکانے کے کام وغیرہ) اپنی شہزادی حضرت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کے سپرد فرمائے اور گھر سے باہر کے کام )مثلاً بازار سے سودا سلف لانا، اونٹ کو پانی پلانا وغیرہ)حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے ذمّہ لگا دئیے۔

ایک روایت میں ہے کہ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنتِ اسد رضی اللہ عنہا کی خدمت میں عرض کی:" فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا آپ کی خدمت اور گھر کے کام کاج کیا کریں گے۔"

آپ رضی اللہ عنہا خانہ داری کے کاموں کی انجام دہی کے لئے کبھی کسی رشتہ دار یا ہمسائی کو اپنی مدد کے لئے نہیں بلاتی تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا سے حقیقی الفت و محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی پیروی کر کے ربّ کو راضی کریں۔


سورۃ الدہر میں اِرشادِ ربّانی ہے کہ، وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸)

ترجمہ کنزالایمان:" اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو۔"(پ 29، الدھر:آیت 8)

مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں، حضراتِ حسنینِ کریمین ایک بار بچپن میں بیمار ہوگئے تو حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ بی بی فاطمہ اور حضرت سیّدتنا فضہ رضی اللہ عنہما نے ان کی صحت یابی کے لئے تین روزوں کی منت مانی، اللہ تعالی نے صحت دی، نذر کی وفا کا وقت آیا، سب صاحبوں نے روزے رکھے، خا تونِ جنت رضی اللہ عنہانے ایک ایک صاع(یعنی چار کلو میں 160 گرام کم) تینوں دن پکایا، لیکن جب افطار کا وقت آیا، روٹیاں سامنے رکھیں تو ایک دن مسکین، ایک دن یتیم اور ایک دن قیدی دروازے پر حاضر ہو گئے اور روٹیوں کا سوال کیا تو تینوں دن روٹیاں ان سائلوں کو دے دیں اور صرف پانی سے افطار کر کے اگلا روزہ رکھ لیا۔( خزائن العرفان، پ29 ، الدھر:8، ص1073)

خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا کی سیرتِ طیبہ سے ہمیں سخاوت کا درس ملتا ہے، اللہ پاک نے آپ رضی اللہ عنہا کی سخاوت کو پسند کرتے ہوئے اس کا ذکر قرآن پاک میں فرمایا، فقط اللہ کی رضا کے لئے ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا، دنیا و آخرت میں سرخروئی کا باعث ہے، بندوں پر کرم کرنے والے پر اللہ کا کرم ہوتا ہے۔

خاتونِ جنت سے محبت ایمان کی سلامتی کی ضامن:

فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سے محبت کرنا ہمارے ایمان کی سلامتی کی ضامن ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:"فاطمہ میرا ٹکڑا ہے، جس نے اسے ناراض کیا، اس نے مجھے ناراض کیا۔"( مشکوٰۃ المصابیح، ج2، ص436 ، حدیث6139)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوش کرنے والی چیز بی بی فاطمہ الزّہرا رضی اللہ عنہا سے محبت و عقیدت ہے۔

دُخترِ مصطفی، بانوئےمرتضی، ام الحسنین، بی بی فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا شرم و حیا کی پیکر ، حق وصداقت کی علمبردار، فکرِ آخرت سے سرشار، عبادت، معاملات اور امورِ خانہ داری میں اپنی مثال آپ تھیں۔

آپ رضی اللہ عنہا باکمال عاشقہ رسول تھیں، آپ رضی اللہ عنہا نے خود کو ہر اعتبار سے سنتِ رسول کے ڈھانچے میں ڈھال رکھا تھا، عادات واطوار، سیرت و کردار، نشست و برخاست، چلنے کا انداز، گفتگو ، صداقت و کلام میں آپ رضی اللہ عنہا سیرتِ مصطفی کا عکس ونمونہ تھیں۔

خاتونِ جنت ، شرم و حیا کی پیکر:

حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا نے خود کو غیر مردوں کی نظر وں سے بچائے رکھا تھا، ان کی حیا فضیلت کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشادِ معظم ہے:"جب قیامت کا دن ہو گا تو ایک منادی ندا کرے گا، اے اہلِ مجمع! اپنی نگاہیں جھکا لو تاکہ فاطمہ بنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم پُل صراط سے گزریں۔(جامع الصغیر مع فیض القدیر، ج 1، ص549، حدیث 822)

کہاوت مشہور ہے:حیا حسن سے زیادہ پُرکشش ہے، ہمیں چاہئے کہ خاتونِ جنت کے راستے پر چلتے ہوئے فیشن کو چھوڑ کر پردے داری کی راہ اختیار کریں۔

شوقِ عبادت:حضرت سیدنا اِمام حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں"میں نے اپنی والدہ ماجدہ حضرت سیّدتنا فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیکھا کہ آپ (بسااوقات) گھر کی مسجد کے محراب میں رات بھر نماز میں مشغول رہتیں، یہاں تک کہ صبح طلوع ہو جاتی۔"(مدارج النبوہ، ج 2، ص 623)

حضراتِ حسنین کریمین سو رہے ہوتے، آپ رضی اللہ عنہا ان کو پنکھا جھل رہی ہوتی اور زبان سے تلاوتِ قرآن جاری ہوتی۔(سفید نوح، حصہ دوم، ص 35)

ہمیں بھی چاہئے کہ گھریلو مصروفیت کے دوران ذکرُ اللہ سے غافل نہ ہو۔

گھریلو کام کاج:

حضرت سیّدنا فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا اُمورِ خانہ داری کے تمام کام (چکّی پیسنا، پانی کی مشک بھر کر لانا، جھاڑو وغیرہ دینا) خود کیا کرتی تھیں۔( سنن ابی داؤد، ص790: حدیث5023)

ہمیں بھی چاہیئے کہ اپنے گھر کے کام کاج اپنے ہاتھ سے کرنے کو ترجیح دیں، حضرت بی بی فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا کی بہت سادہ زندگی تھی، آپ رضی اللہ عنہا نے فاقہ کشی کے دن بھی گزارے، آپ رضی اللہ عنہا کی سیرت سے ہمیں حوصلہ ملتا ہےکہ مصیبت کے وقت ان مقدس ہستی کی فاقہ کشی کو یاد کریں، معاشی بدحالی ہو تو گھر والوں یا شوہر کو لعن طعن کرنے کے بجائے صبر سے کام لیں۔اللہ تبارک و تعالی بی بی فاطمۃالزہرا رضی اللہ عنہا کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمين