مالی حقوق  کو دبانے کی بہت سی صورتیں ہو سکتی ہیں جیسے زمین پر قبضہ کرنا ،قرض دبانا، امانت میں خیانت کرنا ،ظلمًا مال لینا، چوری کرنا ڈاکہ ڈالنا وغیرہ وغیرہ ۔ مالی حقوق دبانے کی بہت مذمت احادیث میں بیان کی گئی ہے۔ آئیے چند احادیث پڑھتے ہیں :۔

(1)زمین پر قبضہ کرنا : عَنْ سَعِيدِ بْنِ زَيْدٍقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَخَذَ شِبْرًا مِنَ الْأَرْضِ ظُلْمًا فَإِنَّهٗ يُطَوَّقُهٗ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ» مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ ترجمہ: روایت ہے حضرت سعید ابن زید سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جو بالشت بھر زمین ظلمًا لے لے تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (مسلم، بخاری)

شرح حدیث :اس حدیث سے معلوم ہوا کہ زمین کے سات طبقے اوپر نیچے ہیں صرف سات ملک نہیں پہلے تو اس غاصب کو زمین کے سات طبق کا طوق پہنایا جائے گا، پھر اسے زمین میں دھنسایا جائے گا لہذا جن احادیث میں ہے کہ اسے زمین میں دھنسایا جائے گا وہ احادیث اس حدیث کے خلاف نہیں، یہ حدیث بالکل ظاہر پر ہے کہ کسی تاویل کی ضرورت نہیں، اللہ پاک اس غاصب کی گردن اتنی لمبی کردے گا کہ اتنی بڑی ہنسلی اس میں آجائے گی۔ معلوم ہوا کہ زمین کا غصب دوسرے غصب سے سخت تر ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 حدیث:2938)

(2)ظلماً مال لینا : وَعَنْ أَبِي حُرَّةَالرَّقَاشِي عَنْ عَمِّهٖ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسلم: «أَلا تَظْلِمُوا أَلَا لَا يَحِلُّ مَالُ امْرِئٍ إِلَّا بِطِيبِ نَفْسٍ مِنْهُ» . رَوَاهُ الْبَيْهَقِيّ فِي شُعَبِ الإِيمَانِ.وَالدَّارَقُطْنِيّ فِي الْمُجْتٰبى روایت ہے حضرت ابو حرہ رقاشی سے وہ اپنے چچا سے راوی فرماتے ہیں فرمایا رسو لُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: خبردار ظلم نہ کرنا خبردار کسی شخص کا مال دوسرے کو حلال نہیں مگر اس کی خوش دلی سے۔ (بیہقی شعب الایمان، دارقطنی فی مجتبیٰ)شرح حدیث: یہ حدیث بہت سے احکام کا ماخذ ہے۔ مالی جرمانے کسی کی چوری، کسی کا مال لوٹ لینا، کسی کا مال جبرًا نیلام کر دینا یہ سب حرام ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:4 حدیث:2946)

(3) پرایا مال لینے پر وعید : طبرانی نے اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ فرمایا نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے : جو شخص پرایا مال لے لے گا وہ قیامت کے دن اللہ سے کوڑھی ہو کر ملے گا۔ ( المعجم الکبیر ،1/233 ،حدیث: 637)

امانت میں خیانت : حدیث صحیح میں ہے کہ منافق کی علامت میں یہ ہے کہ جب اُس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔( صحیح البخاری،1/24 ،کتاب الإیمان،باب علامۃ المنافق،حدیث: 33)

جھوٹی گواہی دے کر مالِ مسلم ہلاک کرنا : طبرانی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے راوی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایسی گواہی دی جس سے کسی مرد مسلم کا مال ہلاک ہو جائے یا کسی کا خون بہایا جائے اُس نے جہنم واجب کر لیا۔(المعجم الکبیر،11/172 ،حدیث: 11541) اللہ پاک ہمیں انسانوں کے مالی حقوق دبانے سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین


مال و دولت کی ہوس بہت بڑا فتنہ ہے جیساکہ نبئ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: إِنَّ لِكُلِّ أُمَّةٍ فِتْنَةً، وَفِتْنَةُ أُمَّتِي الْمَالُ ترجمہ: ہر امت کا کوئی فتنہ ہے اور میری امت کا فتنہ مال ہے۔ (سنن ترمذی، حدیث:2336)

یعنی گزشتہ امتوں کو کسی نہ کسی چیز سے آزمایا جاتا رہا اور میری امت کو مال و دولت سے آزمایا جائے گا۔ آیا کہ وہ مال و دولت کی فراوانی کے باوجود دین کے معاملات میں کمی کوتاہی تو نہیں کرتے یا ثابت قدم رہتے ہیں۔انسان میں جب مال و دولت کی ہوس پیدا ہو جاتی ہے تو وہ انسان(انسان) نہیں رہتا بلکہ حیوان بن جاتا ہے وہ مال کی محبت میں دین سے دور ہوکر دوسروں کے مال پر ظلماً قبضہ کرتا ہے کبھی تو معاذ اللہ قتل و غارتگری تک پہنچ جاتا ہے احادیث میں ظلماً دوسروں کا مال دبانے کے متعلق بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ

مسلمان پر مسلمان کا مال حرام ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:كُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ حَرَامٌ؛ مَالُهُ وَعِرْضُهُ وَدَمُهُ ترجمہ: مسلمان کی سب چیزیں (دوسرے) مسلمان پر حرام ہیں، اس کا مال، اس کی آبرو اور اس کا خُون ۔(ابوداؤد،کتاب الادب،باب فی الغیبۃ ،حدیث:4882)

اللہ پاک غضب ناک ہوگا:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنِ اقْتَطَعَ مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينٍ كَاذِبَةٍ، لَقِيَ اللَّهَ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُترجمہ: جس شخص نے کسی مسلمان کا مال جھوٹی قسم کھا کر ہضم کرلیا تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ پاک اس پر غضبناک ہوگا۔ (صحیح البخاری، کتاب التوحید، حدیث:7545)

اگرچہ وہ پیلو کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو: ابو امامہ باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ بِيَمِينِهِ فَقَدْ أَوْجَبَ اللَّهُ لَهُ النَّارَ، وَحَرَّمَ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ "، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ : وَإِنْ كَانَ شَيْئًا يَسِيرًا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ : " وَإِنْ قَضِيبًا مِنْ أَرَاكٍ " ترجمہ: جس شخص نے مسلمان کا حق اپنی(جھوٹی) قسم کے ذریعے کھا لیا تو اللہ پاک اس پر جہنم واجب کر دیتا ہے اور جنت حرام کر دیتا ہے ایک شخص نے آپ سے پوچھا: یا رسولَ اللہ! اگرچہ وہ کوئی معمولی چیز ہو! فرمایا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اگرچہ وہ پیلو کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین، حدیث:137)

ظلماً زمین پر قبضہ کرنا:حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبئ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مَنْ ظَلَمَ مِنَ الْأَرْضِ شَيْئًا طُوِّقَهُ مِنْ سَبْعِ أَرَضِينَ ترجمہ: جس نے ظلماً کسی کی زمین کا کچھ حصہ دبا لیا اُسے قیامت کے دن سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔(صحیح بخاری،کتاب المظالم،باب اثم من ظلم شیئا من الارض، حدیث: 2452)

امانت میں خیانت کرنا بھی مسلمان کے مال پر قبضہ کرنا ہے: نبئ مکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خیانت کرنے والے کے متعلق ارشاد فرمایا: لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانۃ لہٗ ترجمہ: جو امانت دار نہیں اُس کا دین(کامل) نہیں۔ (مشکوۃالمصابیح،جلد1، حدیث:35)

محترم قارئین! احادیث میں ظلماً مال دبانے کی مذمت جس شدت کے ساتھ بیان کی گئی آپ نے ملاحظہ فرمائی۔ کیا ان سب احادیث کے باوجود بھی ہم ایک دوسرے کا مال ہڑپ کریں گے کیا اب بھی ہم ایک دوسرے کے حقوق تلف کریں گے۔

خدارا! جن کے (مالی)حقوق تلف کیے ہیں ان سے معافی بھی مانگیے اور دنیا میں رہتے ہوئے ان کے حقوق بھی ادا کر دیجیے ورنہ اس کا حساب دینا بہت سخت ہوگا میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نقل کرتے ہیں: جو دُنیا میں کسی کے تقریباً تین(3)پیسےدَین(یعنی قرض) دَبالے گا، بروزِقیامت اس کے بدلے سات سو(700) باجماعت نمازیں دینی پڑجائیں گی۔ (فتاوٰی رضویہ، 25/69)

اللہ اکبر کبیراً! اللہ کریم اپنے کرم سے ہمیں مال و دولت کے فتنے سے محفوظ فرمائے۔اٰمین


ہم مسلمان ہیں اور ہمارا دین اسلام ہمیں اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ ہمدردی کرنے اور اس کی عزت و مال کی حفاظت کرنے کا ذہن دیتا ہے۔اس بات کا اندازہ صرف سلام کرنے سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک سلام میں ہم اپنے مسلمان بھائی کو کتنی دعاؤں سے نوازتے ہیں تو ہم اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ برائی کرنے اور اس کی عزت و مال لوٹنے کا کیسے سوچ سکتے ہیں۔ لیکن آج کل بھائی بھائی کا دشمن بنا ہوا ہے اور ایک دوسرے کو نقصان پہنچانیں میں بالکل پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں ۔

جہاں تک بات مالی حقوق کی ہے تو مالی حقوق کئی طریقوں سے دبائے جاتے ہیں کچھ کی نشاندہی کرتا ہوں۔

(1) زمین غصب کرنا: آج کل یہ بری خصلت ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ پھیلی ہوئی ہے یہاں تک کہ بھائی اپنے بھائی کی زمین پر قبضہ کر کے بیٹھا ہوا ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ حضرت سالم رضی اللہ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ جو زمین کا کچھ حصہ ناحق لے لے اسے قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسایا جائے گا۔ (صحیح البخاری،جلد 1،حدیث: 2454) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض احا دیث میں یہ بھی آیا ہے کی اس کے گلے میں طوق ڈالی جائے گی حتی کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ غاصب کو ایک ہی وقت میں یہ دونوں عذاب دیے جائیں۔ (مراۃ المناجیح،4/ 352)

(2)امانت میں خیانت: امانت میں خیانت کے ذریعے دوسرے کا مال دبا لینا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (الحدیقہ الندیۃ، 1/ 652)حدیث مبارکہ میں خیانت کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز، روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو:(1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔(2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔(3) جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت کرے۔ (صحیح مسلم،حدیث: 107)

(3)چوری اور ڈاکہ: چوری اور ڈاکہ کے ذریعے بھی لوگوں کے مال کو لوٹا جاتا ہے۔ یہ دونوں کام بھی حرام ہیں قراٰن و احادیث میں ان کی مذمت بیان کی گئی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لوٹ مار کرنے اور ناک کان کاٹنے سے منع فرمایا۔ (بخاری،حدیث:2474) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں کہ نہ تو کسی کا مال لوٹنا جائز ہے اور نہ کسی انسان کا ناک کاٹنا جائز نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کٹی ہوئی پتنگ یا اس کی ڈور لوٹنا حرام ہے۔ (مراۃ المناجیح، 4/ 343)

(4) کسی کا مال دوسرے کے لیے حلال نہیں: اگر کسی نے کسی کا مال بغیر اجازت لے لیا یا چوری کر لیا تو اس کے لیے وہ مال استعمال میں لانا جائز نہیں۔ جب تک وہ مال اس کے پاس رہے گا وہ گناہ گار ہوتا رہے گا۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: خبردار ظلم نہ کرنا اور کسی شخص کا مال دوسرے کو حلال نہیں مگر اس کی خوش دلی سے۔(مسند امام احمد،حدیث:20971)

کسی مسلمان کا مال دبانا گویا اس کو تکلیف دینا ہے اور ہمارے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس نے کسی مسلمان کو ایذا دی اس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا دی۔(المعجم الاوسط،حدیث:3607)

ذرا سوچئے کہ کونسا مسلمان اس بات کو گوارہ کرے گا کہ وہ اللہ اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دے اور جہنم کے عذاب کا مستحق قرار پائے۔ اللہ پاک ہمیں مسلمانوں کو ایذا دینے سے محفوظ فرمائے اور اپنے مسلمان بھائی کی ہمیشہ مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


ہمارا جو موضوع ہے مالی حقوق دبانے کی مذمت پر احادیث کی روشنی میں ۔ اسی ضمن میں پہلے ایک آیت اور چند احادیث مبارکہ پیش کی جائیں گی اس سے پہلے  ایک آیت مبارکہ پڑھئے : ﴿ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔ (پ5، النسآء:29) اس آیت میں باطِل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لُوٹ کر ہو یا چھین کر، چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رِشْوت یا جھوٹی گواہی سے ، یہ سب ممنوع وحَرام ہے ۔

حدیث (1) صحیح بخاری و صحیح مسلم میں سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لے لی قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصہ طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔( صحیح بخاری کتاب بدء الخلق، حدیث : 3198)

حدیث (2) صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ بھی ناحق لے لیا قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔(صحیح بخاری کتاب بدء الخلق ،حدیث : 3196)

حدیث (4،3) امام احمد نے یعلٰی بن مرّہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ناحق زمین لی قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ اس کی مٹی اٹھا کر میدان حشر میں لائے۔ (بہارِ شریعت ، غصب کا بیان، 3/ 207)

دوسری روایت امام احمد نے انہیں سے یوں ہے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ایک بالشت زمین ظلم کے طور پر لی،اللہ پاک اسے یہ تکلیف دے گا کہ اس حصہ زمین کو کھودتا ہوا سات زمین تک پہنچے پھر یہ سب اس کے گلے میں طوق بنا کر ڈال دیا جائے گا اور یہ طوق اس وقت تک اس کے گلے میں رہے گا کہ تمام لوگوں کے مابین فیصلہ ہو جائے۔(مسند احمد بن حنبل ،حدیث : 17569)

حدیث (5) بیہقی نے شعب الایمان اور دارقطنی نے مجتبیٰ میں ابوحرہ رقاشی سے روایت کی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : خبردار تم لوگ ظلم نہ کرنا سن لو کسی کا مال بغیر اس کی خوشی کے حلال نہیں۔ (بہار شریعت، 3/ 208)

حدیث (6) امام احمد ترمذی ابو داؤد ابن ماجہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ سعد ابن ربیع کی بیوی سعد سے اپنی دو بیٹیوں کو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں لائی اور عرض کی یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ دونوں سعد کی بیٹیاں ہیں ۔ ان کا باپ کے ساتھ احد میں شہید ہو گیا اور ان کے چچا نے کل مال لے لیا ہے ان کے لیے کچھ نہیں چھوڑا اور جب تک ان کے پاس مال نہ ہو ان کی شادی نہیں کی جاسکتی تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس بارے میں اللہ پاک فیصلہ فرما دے گا تو آیت میراث نازل ہوگئی اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان لڑکیوں کے چچا کے پاس یہ حکم بھیجا کہ سعد کی دونوں بیٹیوں کو ثلث دو تہائی دے دو اور لڑکیوں کی ماں کو آٹھواں حصہ دے دو اور باقی جو بچے وہ تمہارا ہے۔(جامع الترمذی کتاب الفرائض ،حدیث : 2099)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو اس قسم کی بری عادت سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمین


آج کل ہر کوئی دنیاوی طور پر ایک دوسرے سے آگے بڑھنا چاہ رہا ہے۔ اس زمانے میں اکثر لوگوں نے آگے بڑھنے کے لئے پہلے نمبر پر جس چیز کو معیار بنایا ہے وہ ہے مال۔ اس دنیاوی مال و متاع کی بڑھتی ہوئی ہَوَس نے بہت سے لوگوں میں اچھے بُرے کی تمیز کو ختم کردیا ہے۔ اِلّا ماشاءاللہ، جہاں نظر دوڑائیں ہر آدمی اپنا پیٹ بھرنے میں لگا ہوا ہے، چاہے اس کے لئے کسی دوسرے انسان کا پیٹ ہی کیوں نہ کاٹنا پڑے یا کسی کی بچی کھچی ایک پائی ہی کیوں نہ ہو اسے ہڑپ کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔کبھی اپنے ہی بھائی، بہن کا میراث میں حصہ روک لیا جاتا ہے تو کبھی دوستیاں اس وجہ سے ختم ہو رہی ہیں کہ فلاں نے میرا قرض ابھی تک نہیں دیا۔ تو کہیں غریب کی محنت کی کمائی سے خریدی ہوئی زمین کو کوئی غصب کر لیتا ہے۔ تو کہیں راتوں رات امیر بننے کے شوق میں چوروں اور لٹیروں میں اضافہ ہورہا ہے۔ العیاذ باللہ (اللہ کی پناہ)

آئیے ہم جانتے ہیں کہ مالی حقوق میں کون کون سی چیزیں شامل ہیں تاکہ ہم کسی کا مالی حق دبانے سے بچیں اور اگر خدا نخواستہ کسی کامالی حق دبالیا ہے تو فورا ً توبہ وتلافی سے معاملہ کو حل کریں۔

چوری کرنا، ڈاکہ مارنا،غصب کرنا،حقدار سے میراث روک لینا،کسی کی زمین پر ناجائز قبضہ کرلینا،قرض واپسی نہ کرنا، امانت میں خیانت کرنا، کام پورا لینے کے باوجود مزدور کو طے شدہ اجرت سے کم دینا،گاہک کے چیز نہ خریدنے پر ایڈوانس دبالینا، گری ہوئی چیز کو بلااجازت شرعی خود رکھ لینا اورحقدار تک نہ پہنچانا، تاخیر کی وجہ سے پورے دن کی سیلری کاٹ لینا،ناپ تول میں کمی کرنا، ملاوٹ والا مال بیچنا اور مہر ادا نہ کرنا وغیرہ سب مالی حقوق دبا لینے کی صورتیں ہیں۔

اسلام مالی حقوق دبانے کی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔اور کئی احادیث ِمبارکہ مالی حقوق دبالینے کی مذمت میں وارد ہوئی ہیں۔ آئیے اس ضمن میں 5 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھئے:

(1) میراث میں حصہ نہ دینا: جو اپنے وارث کو اس کی میراث سے محروم کرے تو اللہ پاک اس کو قیامت کے دن جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔(ابن ماجہ، 3/304، حدیث:2703)

(2) زمین پرناجائز قبضہ کرنا:جو بالشت بھر زمین ظلمًا لے لے تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (بخاری،2/377،حدیث: 3198)

(3)قرض ادا نہ کرنا: اُس کی قَسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر کوئی شخص الله کی راہ میں مارا جائے پھر زندہ ہو، پھر الله کی راہ میں مارا جائے پھر زندہ ہو،پھر الله کی راہ میں مارا جائے پھر زندہ ہو حالانکہ اس پر قرض ہو تو جنت میں نہیں جاسکتا حتی کہ اس کا قرض ادا کردیا جائے۔(مسند احمد،37/163، حدیث: 22493)

(4)بغیر اجازت کسی کا مال لینا حلال نہیں: کسی مسلمان کا مال دوسرے کو حلال نہیں مگر اس کی خوش دلی سے۔

(سنن الكبرىٰ للبیہقی،6/166،حدیث: 11545)

(5)چوری کی سزا: اگر چور چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو اگر پھر چوری کرے تو اس کا پاؤں کاٹ دو اگر پھر چوری کرے تو اس کا ہاتھ کاٹ دو اگر پھر چوری کرے تو اس کا پاؤں کاٹ دو ۔ (دار قطنی، 3/214، حدیث: 3359)

محترم قارئین!دیکھا آپ نے نا حق مال لینے والوں کے لئے کیسی کیسی وعیدات ہیں۔ اللہ ہم سب کو دنیوی مال کی حرص سے بچا کر نیکیوں کا حریص بنائے۔اٰمین

مالی حقوق دبانے والے کی توبہ: یاد رہے کے کسی کا مال ناحق دبالینا حقوق العباد کا معاملہ ہے۔یہ صرف توبہ سے معاف نہیں ہوگا۔ بلکہ جس کا حق دبایا ہے اسے وہ مال واپس لوٹانا بھی ضروری ہے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حقوق العباد معاف ہونے کی دوصورتیں ہیں :(1) جوقابلِ اداہے اداکرنا ورنہ ان سے معافی چاہنا (2)دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صاحبِ حق بلامعاوضہ معاف کردے۔ (دیکھئے:فتاوی رضویہ،24/373، 374)

اللہ ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے حضرتِ انسان کی تخلیق فرمائی پھر ان کی  رشد و ہدایت کے لئے انبیائے کرام علیہم السّلام کو مبعوث فرمایا۔ ان حضرات کو اعلیٰ کردار، عمدہ اخلاق اور بہترین اوصاف سے موصوف فرمایا۔ انہی مقدس ہستیوں میں سے ایک حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔ اللہ پاک نے ان کو بھی کئی عمدہ اوصاف سے موصوف فرمایا۔ آئیے قراٰنِ پاک سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی 5 صفات پڑھئے اور علم و عمل میں اضافہ کیجئے۔

(1) ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا: الله پاک قراٰنِ پاک فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا ۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

(2) وہ سردار ہونگے : الله پاک قراٰنِ پاک فرماتا ہے: ﴿وَ سَیِّدًا﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اور وہ سردار ہوگا۔ (پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) سیدیعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔

(3) ﴿وَّ حَصُوْرًا ترجمہ کنز العرفان : اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا۔ (پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے ۔

(4)صالحین میں سے: الله پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے:﴿وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹)ترجمہ کنز العرفان : اور صالحین میں سے ایک نبی ہو گا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) وضاحت: یعنی نیک صالح بزرگ اللہ پاک کے بندے اور نبی تھے۔

(5) نیکیوں میں جلدی کرتے: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: بیشک وہ بھلے کاموں میں جلدی کرتے تھے ۔ (پ17، الانبیآء:90)وضاحت: یعنی نیکیوں میں جلدی کرتے ، جو بھی نیک کام ہوتا اس میں تاخیر نہ کرتے تھے۔

ترغیب : حضرت یحییٰ علیہ السّلام عورتوں سے دور رہتے تھے۔ باوجود طاقت کے یعنی طاقت بھی تھی لیکن پھر بھی عورتوں سے بچتے تھے۔ یہ آپ علیہ السّلام کا تقویٰ اور عاجزی تھی اور نیکیوں میں جلدی کرتے۔ اس کے تحت دعا مقبول کروانے کے تین کام: (1) نیک کام کرنے میں دیر نہ لگائے (2) امید اور خوف کے درمیان رہتے ہوئے ہر وقت اللہ پاک سے دعائیں کرے (3)اور اللہ پاک کی بارگاہ میں عاجزی اور انکساری کا اظہار کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہیں کہ ہمیں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی سیرت پاک پر عمل کرنے اور عورتوں سے بچنے اور نیک کام میں جلدی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ اٰمین 


اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی اس دنیا میں اپنی وحدانیت بیان کرنے اور لوگوں کی ہدایت و راہ نمائی کے لیے بھی قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات ، واقعات اور صفات کو بیان فرمایا ہے۔ انہی میں سے ایک حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں ۔ الله پاک کے برگزیدہ اور چنے ہوئے بندوں کی عظمت و شان کو بیان  کرنا اللہ پاک کا طریقہ ہے۔ اسی پر عمل کی نیت سے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے ذکر سے اپنے دلوں کو منور کیجئے۔

نام و نسب :آپ کا نام " یحییٰ " علیہ السّلام اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے یحیی بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667ملخصاً)

ولادت کی بشارت: آپ علیہ السّلام کے والد حضرت زکریا علیہ السّلام کو الله شرف نبوت سے نواز تھا، لیکن ان کی کوئی اولاد نہ تھی، برسوں سے ان کے دل میں فرزند کی تمنا تھی۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام نے محرابِ مریم (وہ جگہ جہاں حضرت مریم عبادت کیا کرتی تھی) میں دعا مانگی اور آپ کی دعا مقبول ہو گئی۔ اور اللہ پاک نے بڑھاپے میں آپ کو ایک فرزند عطا فرمایا جن کا نام خود خداوند عالم نے”یحییٰ “رکھا اور اللہ پاک نے ان کو نبوت کا شرف بھی عطا فرمایا۔ اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمائے۔ آئیے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کے قراٰنی صفات ذکر کرتے ہیں۔

(1) آپ علیہ السّلام کا نام ''یحییٰ'' خود اللہ پاک نے رکھا اور آپ سے پہلے یہ نام کسی اور کا نہ رکھا گیا۔ فرمانِ باری ہے: ﴿ یٰزَكَرِیَّاۤ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمِ-ﹰاسْمُهٗ یَحْیٰىۙ-لَمْ نَجْعَلْ لَّهٗ مِنْ قَبْلُ سَمِیًّا(۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے زکریا! ہم تجھے ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰ ہے ،اس سے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی دوسرا نہ بنایا۔ (پ16 ، مریم : 7)

(2) اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو بچپن میں ہی نبوت عطا فرمائی۔ نیز آپ علیہ السّلام کو حضرت زکریا علیہ السّلام کا جانشین کیا اور آلِ یعقوب کی نبوت کا وارث بنایا ۔ چنانچہ پارہ 16، سورہ مریم آیت نمبر 12 میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12) نیز پارہ 16، سورہ مریم آیت نمبر 6 میں ہے: ترجمۂ کنزالایمان: وہ میرا جانشین ہو اور اولادِ یعقوب کا وارث ہو ۔(پ16،مریم:6) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ آپ علیہ السّلام کو دو سال کی عمر میں نبوت عطا ہوئی اور تین سال کی عمر میں آپ کی طرف وحی نازل کی گئی۔

(3) الله پاک پارہ 16 سورہ مریم آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتا ہے : ترجمہ کنز العرفان : اور اس پر سلامتی ہے جس دن وہ پیدا ہوا اور جس دن وہ فوت ہو گا اور جس دن وہ اٹھایا جائے گا ۔ یعنی جس دن حضرت یحییٰ علیہ السّلام پیدا ہوئے اس دن ان کے لئے شیطان سے امان ہے کہ وہ عام بچوں کی طرح آپ علیہ السّلام کونہ چھوئے گا اور جس دن آپ علیہ السّلام وفات پائیں گے اس دن ان کے لئے عذابِ قبر سے امان ہے اور جس دن آپ علیہ السّلام کو زندہ اٹھایا جائے گا اس دن ان کے لئے قیامت کی سختی سے امان ہے۔(صراط الجنان،6/78)

(4) فرمانِ باری ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا۔( پ 16، مریم:14) اس آیت میں آپ علیہ السّلام کا یہ وصف بیان کیا گیا ہے کہ آپ علیہ السّلام اپنے ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے ۔

( 5) آپ علیہ السّلام نرم دل ، طاعت و خلاص اور عملِ صالح کے جامع اور اللہ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام کے ان اوصاف کا ذکر اللہ پاک نے پارہ 16 ، سورہ مریم آیت نمبر 13 میں فرمایا ہے: ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)

(6) فرمانِ باری ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہا جبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39) اس آیت میں آپ علیہ السّلام کی چار صفات بیان ہوئی ہیں۔ اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی تصدیق کرنے والا، اہل ایمان کا سردار ، قوت کے باوجود عورت سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی بنایا۔

محترم قارئین ہمیں بھی چاہیے کہ انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں۔ اور ان کی مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام علیہم السّلام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔ اٰمین


اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کو مختلف قوموں کی طرف بھیجا کہ وہ ان لوگوں کی اصلاح کریں ان تک اللہ پاک کے احکام پہنچائیں ، اور ان کو وعظ و نصیحت فرمائیں۔ ان انبیا کی تعداد کم و بیش ایک  لاکھ چوبیس ہزار ہے ۔جیسا کہ احادیثِ پاک سے ثابت ہے ۔(صحیح ابن حبان، 1361)قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے انبیائے کرام علیہم السّلام کے فضائل و کمالات اور صفات بیان کی ہیں ۔ ان انبیائے کرام علیہم السّلام میں سے ایک عظیم ہستی حضرت یحییٰ علیہ السّلام بھی ہیں۔ آئیے ! جو صفات قراٰنِ پاک میں حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی ہیں وہ ذکر کرتے ہیں:

(1) اللہ پاک سے ڈرنے والے : آپ علیہ السّلام اللہ پاک سے بہت زیادہ ڈرتے تھے ۔ قراٰنِ پاک میں ہے: ﴿وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کمال ڈر والا تھا۔(پ 16، مریم:13)تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ آپ خوفِ الٰہی سے بہت گریہ و زاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے رخسار مبارکہ پر آنسوؤں سے نشان بن گئے تھے ۔(خزائن العرفان،ص571)

(2)عاجزی اور فرمانبرداری کرنے والے : آپ کی ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی کہ آپ تکبر کرنے والے اور نہ ہی اپنے رب کے نافرمان تھے بلکہ عاجزی اور انکساری کرنے والے اور اپنے رب کی اطاعت کرنے والے تھے قراٰنِ پاک میں صفت یوں بیان کی گی : ﴿ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14)

(3) حکمت والے : حکمت سے مراد نبوت ہے کہ ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں نبوت دی۔(پ16،مریم:12)خزائن العرفان میں ہے کہ جب آپ کی عمر شریف تین سال کی تھی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عطا فر مائی اور آپ کی طرف وحی کی۔ (خزائن العرفان ص 571)

(4)پاکیزگی والے : ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنی طرف سے مہربانی اور ستھرائی اور کمال ڈر والا تھا ۔ ( پ 16، مریم:13) تفسیر بغوی میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے مراد اطاعت و اخلاص ہے، حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پاکیزگی سے مراد عملِ صالح ہے۔ (بغوی،3/109،مریم،تحت الآیہ:13)

(5) انوکھے نام والے: ترجَمۂ کنزُالایمان: اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ 16، مریم:7) اللہ پاک نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کو یہ فضیلت عطا فرمائی کہ ان کی ولادت سے پہلے ہی ان کا نام رکھ دیا۔

اللہ پاک ان انبیائے کرام کے صدقے ہماری مغفرت اور ایمان و سلامتی والی موت نصیب فرمائے۔ اٰمین 


حضرت یحییٰ علیہ السّلام حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند تھے ۔ ولادت سے پہلے آپ کی بشارت دی گئی۔اور اللہ پاک نے خود آپ علیہ السّلام کا نام رکھا۔ بچپن میں ہی آپ علیہ السّلام کو کامل عقل، شرفِ نبوت سے نوازا۔ آپ علیہ السّلام دنیا سے بے رغبت اور خوفِ خدا سے بکثرت گریہ  و زاری کرنے والے تھے ۔ آپ علیہ السّلام حق بیان کرنے میں کسی ملامت کرنے والے کی پرواہ نہ کرتے تھے۔ آپ علیہ السّلام منصبِ شہادت پر فائز ہوئے ۔

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے واقعات کے قراٰنی مقامات:۔قراٰنِ مجید میں آپ علیہ السّلام کا مختصر تذکرہ سوره انعام آیت نمبر 85 میں کیا گیا جبکہ تفصیلی ذکر درج ذیل تین سورتوں میں کیا گیا ہے۔(1) سوره آل عمران آیت نمبر 38 تا 41 ،(2) سوره مریم آیت نمبر 7 تا 15، (3)سورہ انبیا آیت نمبر 89تا 90۔

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کا تعارف: قراٰنِ پاک میں آپ علیہ السّلام کا نام یحییٰ اور ایک قول کے مطابق آپ کا نسب نامہ یہ ہے یحیی بن زکریا بن لدن بن مسلم بن صدوق سے ہوتا ہوا حضرت سلیمان علیہ السّلام بن حضرت داؤد علیہ السّلام تک جا پہنچتا ہے ( سیرت الانبیاء ،ص 667)

(1)ولادت کی بشارت: آپ علیہ السّلام کے والد حضرت زکریا علیہ السّلام کو الله پاک نے شرف نبوت سے نوازا تھا۔ لیکن ان کے کوئی اولاد نہ تھی بالکل ضعیف ہو چکے تھے برسوں سے ان کے دل میں فرزند کی تمنا تھی۔ اور بارہاں انہوں نے خدا سے اولادِ نرینہ کےلیے دعا کی تھی ۔ مگر خدا کی شان بے نیازی کی اس سب کے باوجود اب تک نہیں کو فرزند نہیں ملا۔ جب انہوں نے حضرت مریم رضی اللہُ عنہا کی محراب میں اولاد کی دعا مانگی تو قبول ہوئی اور اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو ایک فرزند کی بشارت عطا فرمائی ۔ جس کا نام خود رب یحییٰ رکھا اور ان کے اوصاف بھی بیان فرمادیئے ، چنانچہ الله پاک قراٰنِ مجید میں فرماتا ہے: ترجمۂ کنزالعرفان: جب کبھی زکریا اس کے پاس اس کی نماز پڑھنے کی جگہ جاتے تو اس کے پاس پھل پاتے۔ (زکریا نے) سوال کیا، اے مریم! یہ تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: یہ اللہ کی طرف سے ہے، بیشک اللہ جسے چاہتا ہے بے شمار رزق عطا فرماتا ہے۔ وہیں زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا مانگی ،عرض کی :اے میرے رب! مجھے اپنی بارگاہ سے پاکیزہ اولاد عطا فرما، بیشک تو ہی دعا سننے والا ہے۔ تو فرشتوں نے اسے پکار کر کہاجبکہ وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑے نماز پڑھ رہے تھے کہ بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہوگا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :ترجمۂ کنزالایمان: اے زکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جن کا نام یحییٰ ہے اس کے پہلے ہم نے اس نام کا کوئی نہ کیا۔ (پ16 ، مریم : 7)

(2)والدہ کے پیٹ میں عیسیٰ علیہ السّلام کی تعظیم: مروی ہے کہ ایک دن حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ حضرت مریم رضی اللہُ عنہا سے ملیں تو انہیں اپنے حاملہ ہونے پر مطلع کیا ،حضرت مریم رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: میں بھی حاملہ ہوں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی والدہ نے کہا: اے مریم! رضی اللہُ عنہا مجھے یوں لگتا ہے کہ میرے پیٹ کا بچہ تمہارے پیٹ کے بچے کو سجدہ کرتا ہے۔(خازن،1/247، اٰل عمرٰن، تحت الآیۃ: 39)

(3)توریت کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم: حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی ولادت کے بعد جب آپ علیہ السّلام کی عمر دو سال ہوئی تو اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اے یحییٰ کتاب کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو یعنی اے یحییٰ کتاب توریت کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اس پر عمل کی بھر پور کوشش کرو۔

(4)بچپن میں کامل عقل اور نبوت ملنا: الله پاک ارشاد فرماتا ہے : اور ہم نے اسے پچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔ تفاسیر میں ہے کہ جب آپ علیہ السّلام کی عمر مبارک تین سال ہوئی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کو کامل عقل عطا فرمائی اور آپ کی طرف وحی کی ۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہُ عنہما کا یہی قول ہے اور اتنی سی عمر میں فہم و فراست اور عقل و دانش کا کمال، خَوارقِ عادات (یعنی انبیائے کرام علیہم السّلام کے معجزات) میں سے ہے اور جب اللہ پاک کے کرم سے یہ حاصل ہو تو اس حال میں نبوت ملنا کچھ بھی بعید نہیں ، لہٰذا اس آیت میں حکم سے نبوت مراد ہے اور یہی قول صحیح ہے۔ بعض مفسرین نے اس سے حکمت یعنی توریت کا فہم اور دین میں سمجھ بھی مراد لی ہے۔

(5)مقام شہادت: اس میں اختلاف ہے کہ حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی شہادت کا واقعہ کس جگہ پیش آیا؟ یہاں اس سے متعلق دو قول ملاحظہ ہوں: (1) پہلا قول یہ ہے کہ ''مسجد جبرون'' میں شہادت ہوئی۔ (2) حضرت سفیان ثوری نے شمر بن عطیہ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی اور قربان گاہ کے درمیان آپ شہید کئے گئے جس جگہ آپ سے پہلے ستر انبیاء علیہم السّلام کو یہودی قتل کر چکے تھے۔ (تاریخ ابن کثیر، 2/55)


انبیائے کرام علیہم السّلام اللہ پاک کے پسندیدہ بندے ہیں۔ اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیائے کرام کو اس دنیا میں بھیجا۔ انبیائے کرام خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں   جو صغیرہ کبیرہ گنا ہوں سے بالکل پاک ہوتے ہیں۔ اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بہت سے انبیا کی صفات بیان فرمائی ہیں۔ ان میں سے ایک حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ آپ حضرت زکریا علیہ السّلام کے فرزند ہیں ۔ اور اللہ پاک نے خود آپ کا نام دکھا۔ آپ علیہ السّلام کی صفات درجہ ذیل ہیں۔

(1)پیدائش کی خوشخبری : حضرت زکریا علیہ السّلام نے جب اولاد کی دعا مانگی تو اللہ پاک نے حضرت یحییٰ علیہ السّلام کی خوشخبری دی ۔ ارشاد باری ہے: ﴿ اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ آپ کو یحییٰ کی خوشخبری دیتا ہے جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور وہ سردار ہو گا اور ہمیشہ عورتوں سے بچنے والا اور صالحین میں سے ایک نبی ہوگا۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

(2) بچپن میں حکمت: قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے : ﴿ وَ اٰتَیْنٰهُ الْحُكْمَ صَبِیًّاۙ(۱۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے اسے بچپن ہی میں حکمت عطا فرما دی تھی۔(پ16،مریم:12) جب آپ کی عمر شریف تین سال تھی اس وقت میں اللہ پاک نے آپ کو کامل عقل عطا فرمائی۔ اور آپ کی طرف وحی کی۔( تفسیر صراط الجنان، 6/72)

(3)نرم دل اور پاکیزہ : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے ۔﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی۔(پ 16، مریم:13) حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے طاعت و اخلاص مراد ہے۔ تفسیر صراط الجنان،6/74)

(4)اللہ سے ڈرنے والا : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13)

(5)ماں باپ کا فرمانبردار : قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے: ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور وہ متکبر ، نافرمان نہیں تھا۔( پ 16، مریم:14)

اللہ پاک ہمیں بھی انبیائے کرام علیہم السّلام کی سیرت کا مطالعہ کرنے اور ان کی پاکیزہ صفات اپنانے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین


تمام تعریفیں اس ذات مقدسہ کے لیے جس نے آسمان و زمین، عرش و کرسی اور بے شمار مخلوقات پیدا فرمائی انہیں مخلوقات میں سے ایک مخلوق ”اشرف المخلوقات“ انسان کو پیدا فرمایا اور اس مخلوق کو مختلف قبائل و قوموں کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں تقسیم کیا۔

انہیں قبیلوں میں سے ایک قبیلہ بنی اسرائیل ہے۔ کئی انبیا و رسل اس قوم کی طرف مبعوث ہوئے ۔ انہیں میں سے ایک حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ آئیے انہیں کے بارے میں کچھ صفات پڑھتے ہیں:۔

(1)بچپن میں شوقِ نماز و لہو و لعب سے دوری: ایک بار کچھ بچوں نے آپ کو کہا آئیے کھیلتے ہیں آپ نے جواباً ارشاد فرمایا: ہم کھیل کود کے لیے پیدا نہیں کیے گئے پھر ان کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : تم چلو ہمارے ساتھ نماز ادا کرنے۔(سیرت الانبیاء ،ص 770)

(2) ﴿وَّ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ آپ لوگوں پر رحم و مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔(صراط الجنان،6/74)

(3) پاکیزگی عطا کی : اللہ رب العزت نے انہیں پاکیزگی دی حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہاں پاکیزگی سے مراد اخلاص و اطاعت ہے حضرت قتادہ فرماتے ہیں اس سے عملِ صالح مراد ہے۔

(4) خوفِ خدا: آپ علیہ السّلام رب الانام کے خوف سے بہت گریہ وزاری کرتے تھے یہاں تک آپ علیہ السّلام کے رخسارِ مبارکہ پر آنسوؤں کے نشان بن گئے تھے۔

(5) ﴿وَّ بَرًّۢا بِوَالِدَیْهِ وَ لَمْ یَكُنْ جَبَّارًا عَصِیًّا(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے والا تھا اور زبردست و نافرمان نہ تھا۔( پ 16، مریم:14) آپ ماں باپ کے فرمانبردار اور ان سے اچھا سلوک کرنے والے تھے کیونکہ اللہ پاک کی عبادت کے بعد والدین کی خدمت سے بڑھ کر کوئی اطاعت نہیں۔ (صراط الجنان،6/76)


حافظ محمد حنین قادری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی پاکستان )

Mon, 11 Sep , 2023
1 year ago

حضرت یحییٰ علیہ السّلام کے قراٰنِ کریم میں کئی صفات بیان کیے گئے۔  چنانچہ اللہ پاک پارہ 3 سورۂ آلِ عمران آیت 39 میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(۳۹) ترجمۂ کنزالایمان: تو فرشتوں نے اسے آواز دی اور وہ اپنی نماز کی جگہ کھڑا نماز پڑھ رہا تھا بیشک اللہ آپ کو مژدہ دیتا ہے یحییٰ کا جو اللہ کی طرف کے ایک کلمہ کی تصدیق کرے گا اور سردار اور ہمیشہ کے لیے عورتوں سے بچنے والا اور نبی ہمارے خاصوں میں سے۔(پ 3 ، اٰلِ عمرٰن : 39)

مذکورہ آیت مبارکہ میں یحیٰ علیہ السّلام کے چار اوصاف بیان فرمائے۔

(1) مصدق: تصدیق کرنے والا۔ حضرت زکریا علیہ السّلام کو یہ غیب کی خبر دی گئی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام "یحیٰ" ہوگا اور وہ اللہ پاک کے کلمہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السّلام کی تصدیق کرے گا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر سب سے پہلے ایمان لانے والے اور ان کی تصدیق کرنے والے حضرت یحییٰ علیہ السّلام ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان )

(2) سید یعنی سردار: سید اس رئیس کو کہتے ہیں جو مخدوم و مُطاع ہو یعنی لوگ اس کی خدمت و اطاعت کریں۔ حضرت یحییٰ علیہ السّلام مؤمنین کے سردار اور علم و حلم اور دین میں ان کے رئیس تھے۔تفسیر نعیمی میں ہے سید وہ ہے جو سواد یعنی بڑی جماعت کا متولی و سردار ہو یا تو اس سے مراد کریم ہے یا حلیم یا متقی یا شریف یا فقیہ عالم یا رب کے فرمان پر راضی یا سردار بعض اہل لغت نے اس کے معنی ہمت والا اور مالک بھی کئے ہیں۔ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ سید وہ جو کسی پر حسد نہ کرے اور ابو اسحاق نے فرمایا کہ سید وہ جو علم اور تقویٰ میں اپنی قوم سے افضل ہو۔ اب اصطلاح میں ہر دینی یا دنیوی فوقیت رکھنے والے کو سید کہتے ہیں۔ (روح المعانی) چونکہ یحییٰ علیہ السّلام میں یہ ساری صفتیں تھیں اس لئے انہیں سید فرمایا گیا۔ بعض لوگوں نے فرمایا کہ آپ نے کبھی کوئی خطا نہ کی (روح البیان) تفسیر کبیر نے فرمایا کہ آپ نے کبھی کسی پر غصہ نہ کیا۔ اس لئے رب نے آپ کو سید فرمایا ۔ (تفسیر نعیمی ،3/389)

(3)حصور : عورتوں سے بچنے والا۔ حصور وہ شخص ہوتا ہے جو قوت کے باوجود عورت سے رغبت نہ کرے۔ (تفسیر صراط الجنان) تفسیر نعیمی میں ہے حصور حصر سے بنا معنی روکنا یہ مبالغہ کا صیغہ ہے اصطلاح میں حصور وہ ہے جو قدرت کے باوجود محض زہد و تقویٰ سے عورتوں کے پاس نہ جائے۔ نامرد حصور نہیں۔ جن لوگوں نے ان کے معنی نامرد کئے سخت غلطی کی۔ کیونکہ انبیائے کرام اس مرض سے پاک ہوتے ہیں۔

(4) صالحین میں سے ایک نبی: تفسیر نعیمی میں ہے یہاں ایک اعتراض ملاحظہ ہو۔ رب تعالٰی نے حضرت یحیٰ علیہ السّلام کی آخری صفت بیان فرمائی مِنَ الصّٰلِحِیْنَ کہ وہ نیک لوگوں میں سے ہونگے۔ یہ صفت تو عام مسلمانوں میں موجود ہی ہے۔ اسے اتنی اہمیت سے بیان کیوں فرمایا ؟ جواب: یہاں صالحین سے مراد عمومی صالحیت نہیں جو ہر مومن متقی کو حاصل ہوتی ہے۔ بلکہ جیسا صالح ویسی ہی صالحیت ۔ یہاں صالحین کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہمیشہ نیکیاں ہی کرینگے ان سے کوئی گناہ یا خطا عمر بھر سرزد نہ ہوگا ۔ ان کی ہر ادا اصلاح ہے۔ یا وہ کوئی خطا نہ کر سکیں گے۔ یعنی خطاؤں سے محفوظ یا معصوم یا وہ ان تمام مذکورہ صفات کے لائق ہیں۔ رب نے جوا نہیں دیا ہے۔ ان کی لیاقت و قابلیت کی بناپر دیا یا وہ خود بھی نبی ہیں۔ اور ان کا خاندان بھی صالحین کا ہے ۔

سوره مریم آیت 13 پارہ 16 میں ارشاد ربانی ہے۔ ﴿وَ حَنَانًا مِّنْ لَّدُنَّا وَ زَكٰوةًؕ-وَ كَانَ تَقِیًّاۙ(۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اپنی طرف سے نرم دلی اور پاکیزگی دی اور وہ ( اللہ سے) بہت زیادہ ڈرنے والا تھا۔(پ 16، مریم:13) اللہ پاک نے انہیں اپنی طرف سے نرم دلی عطا کی اور ان کے دل میں رقت و رحمت رکھی تاکہ آپ لوگوں پر رحم و مہربانی کریں اور انہیں اللہ پاک کی اطاعت کرنے اور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی دعوت دیں۔(صراط الجنان،6/74)