
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
امام ابو عبد اللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت مبارکہ اللہ و رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی
ہے اور اس بارے امت کا اختلاف بھی نہیں ہے، بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر
محبوب (کی محبت)پر مقدم ہو۔
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
واردینے کے لیے تیار ہو جاتا ہےلہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں، چنانچہ
امام غزالی اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا
نام ہے کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ میلان شدت
اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادت ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق
محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال ودولت (یہاں تک کہ جان تک) اس پر قربان
کر دیتا ہے۔
محبت اورعشق کے معنی ومفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ
اللہ ورسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے،
لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ العلق فرط الحب یعنی محبت میں حد
سےتجاوز کرنا عشق ہے اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق کی
تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ (یعنی بہت
زیادہ پکی) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ پاک سے پختہ
محبت ہو جائے اور اس پختگی محبت کے آثار (اس طرح) ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اوقات
اللہ پاک کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس
کی محبت کو عشق کہا جائے،کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/
115ملتقطاً) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ ہو گا
جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم،
ص 47، حدیث: 169)

دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
عشق حقیقی سے مراداللہ و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے، یہ
دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی
ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت و معرفت کی لذت میں
کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی
کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی
کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى
بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ (پ 21، الاحزاب: 6) ترجمہ
کنزالایمان:یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جانوں سے زیادہ مالک ہیں۔
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس وقت تک تم میں سے کوئی
مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنی اولاد اپنے ماں باپ بلکہ تمام جہان کے انسانوں سے
بڑھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
محمد کی محبت دین کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب
کچھ نا مکمل ہے
اعلی حضرت فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور
موکدہ ہو جائے تو اسی کو عشق کہتے ہیں کیوں کہ محبت کا دوسرا نام عشق ہے۔ (فتاویٰ
رضویہ، 21/ 115)
پیارے آقا ﷺ سے عشق کے متعلق چند باتیں:
عشق
و محبت رسول وہ شفا ہے جس سے محروم شخص کا دل بیماریوں گھر بن جاتا ہے، عشق و محبت
رسول سے محروم شخص مردوں میں شمار ہوتا ہے، عشق و محبت رسول کی لذت سے جو آشنا
نہیں اس کی زندگی غموں اور تکالیف کا شکار رہتی ہے۔
ام المومنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو سفیان جو کہ ابھی کفر کی حالت
میں تھے صلح حدیبیہ کے زمانے میں مکہ سے مدینہ شریف آئے اور اپنی بیٹی سے ملنے ان
کے گھر گئے اور اس بستر پر بیٹھنے لگے جس پر محبوب خدا بیٹھتے تھے حضرت ام حبیبہ
نے بستر فورا لپیٹ دیا اور فرمایا یہ اللہ کے محبوب پاک کا بستر ہے تم ناپاک ہو
کیونکہ تم مشرک ہو اس لئے تم اس پاک بستر پر نہیں بیٹھ سکتے یہ سن کر ابو سفیان کو
بے حد رنج ہوا اور اٹھ کر چلا گیا ام حبیبہ نے فرمایا باپ جاتا ہے تو جائے لیکن
دامن مصطفیٰ ہاتھ سے نہ جائے۔ (خطبات صمدانی، 2/325)
حضور ﷺ کی اونٹنی آپ کے ظاہری وصال کے بعد بے قرار
رہنے لگی اونٹنی نے کھانا پینا چھوڑ دیا اور اس طرح اس نے اپنی جان دے دی۔ (خطبات
صمدانی،2/333)

دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسے محبت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدت اختیار کرلے تو عشق کہلاتی ہے۔
عشق دو طرح کا ہوتا ہے: عشق حقیقی اور عشق مجازی۔ عشق
مجازی اکثر راہ دوزخ کی طرف لے جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا
ہے، قرآن کریم میں بھی عشق حقیقی اختیار کرنے والوں کی تعریف بیان فرمائی گئی
ہے: وَ لَىٕنْ مُّتُّمْ اَوْ قُتِلْتُمْ لَاۡاِلَى اللّٰهِ
تُحْشَرُوْنَ(۱۵۸) (پ 4، اٰل عمران: 158) ترجمہ کنز العرفان: اور اگر
تم مرجاؤ یا مارے جاؤ (بہرحال) تمہیں اللہ کی بارگاہ میں جمع کیا جائے گا۔
اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مولانا نعیم الدین مراد
آباری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وہ مخلص بندے جو عشق الٰہی اور ا س کی ذات پاک
کی محبت میں اس کی عبادت کرتے ہیں اور ان کا مقصود اس کی ذات کے سوا اور کچھ نہیں
ہے انہیں حق سبحانہ وتعالیٰ اپنے دائرۂ کرامت میں اپنی تجلّی سے نوازے گا اس کی
طرف لاالى الله تحشرون میں اشارہ ہے۔
عشق حقیقی کے ثمرات: عشق
حقیقی کا مطلب اللہ اور اسکے رسولﷺ سے کامل محبت ہے جو اس محبت کو پانے میں کامیاب
ہوجاتا ہے وہ ہر وقت محبوب کے تصور میں گم رہتا ہے اور محبت و معرفت کی لذت میں
کھو کر دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے پھر وہ محبوب ہی کے نقش قدم پر چلنے کی
بھر پور کوشش کرتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان بھی قربان کرنے پر راضی ہوجاتا
ہے۔
عشق الہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
عشق رسول کے بغیر انسان کامل مومن نہیں ہوسکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: رسول
اللہﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی اسوقت تک
مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے اسکے والدین اولاد گھر والو تمام لوگو اپنی جان
اور مال سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 168، 169)
عاشق رسول اپنے محبوب کی بے انتہا تعظیم کرتا ہے،
اپنے محبوب کا ذکر کثرت سے کرتا ہے، ان پر کثرت سے درود و سلام پڑھتا ہے، وہ اپنے
محبوب کی دل و جان سے اطاعت و پیروی کرتا ہے، اپنے محبوب سے ملاقات کا شوق رکھتا
ہے،اپنے محبوب اعظمﷺ کے پیاروں سےمحبت کرتا ہے الغرض وہ ایسا کوئی کام نہیں کرتا
جس سے اسکا محبوب ناراض ہوجائے بلکہ وہ اپنے
محبوب ﷺ کو راضی کرنے میں کوئی کسر نہیں
چھوڑتا۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم
تیرے ہیں
عشق رسول کی اعلی مثال حضور ﷺکی صحبت پانے والے بے
مثال صحابہ کرام میں ملتی ہے کہ یہ عشق رسول ہی تھا کہ رحمت عالم ﷺکے وضو کا پانی
یا جسم اطہر سے جدا ہونے والے بال حاصل کرنے میں بےحد کوشش کرتے آپ کا لعاب دہن
چہرے اور جسم میں ملتے تھے، حضور ﷺ پوچھتے کیا چیز تمہیں ایسا کرنے پر ابھارتی ہے
تو عرض کرتے اللہ اور اسکے رسولﷺ کی محبت ہم سے ایسا کرواتی ہے۔ (مشکوة المصابیح، 2/
216، حدیث: 4990)
جان ہے عشق مصطفی روز فزوں کرے خدا جسکو ہو درد کا مزہ ناز دوا
اٹھائے
کیوں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں عشق حقیقی جیسی عظیم
نعمت سے سرفراز فرمائے۔ آمین یا رب
العالمین

ارشاد خداوندی ہے: قُلْ
اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
محبت کیا چیز ہے محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب
کچھ وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟
جو عشق اللہ رسول کی ذات سے ہو اسے عشق حقیقی کہتے ہیں۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں
فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے
میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس
میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال
و دولت یہاں تک کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔
محبت اور عشق کے معنی و مفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ
اللہ و رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک عشق:
اعلیٰ
حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: محبت کے لغوی معنی ہیں جب محبت پختہ ار موکدہ
یعنی بہت زیادہ پکی ہو جائے تو اسے عشق کہتے ہیں پھر جسکی اللہ و رسول سے پختہ
محبت ہو جائے اور اس پر محبت کے آثار ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ وقت اللہ کے ذکرو
فکر میں اور اسکی اطاعت میں مصروف رہتا ہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت
کو عشق کہا جائے۔ محبت ہی کا دوسرا نام
عشق ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/ 115ملتقطاً)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
اللہ ہمیں
اللہ و رسول کی ذات سے عشق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

عشق کی تاثیر بڑی حیرت انگیز ہے۔ عشق نے بڑی بڑی
مشکلات میں عقل انسانی کی راہنمائی کی ہے۔عشق نے بہت سی لاعلاج بیماریوں کا کامیاب
علاج کیا ہے۔ عشق کے کارنامے آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں۔
لیکن عشق بھی دو طرح کا ہوتا ہے ایک عشق حقیقی اور
دوسرا عشق مجازی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت
پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا
ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون
کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الہی پر قربانی کے لئے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ
میں کود پڑتاہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
عشق حقیقی کی اصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت ہے جبکہ عشق مجازی کسی سے دنیا کی وجہ
سے محبت کرنا ہے۔جبکہ اللہ کے بندوں سے اس کی رضا کے لئے محبت کرنا بھی عشق حقیقی
کے ہی زمرے میں آتا ہے۔
صرف ایک ہی محبت ہے جس میں طعنہ نہیں ہے الزام نہیں
ہے شرمندگی نہیں ہے رسوائی نہیں بے اعتباری نہیں ہے اور وہ صرف اللہ اور اس کے
رسول و ﷺ کی محبت ہے۔
اسی عشق کامل کے طفیل صحابہ کرام علیہم الرضوان کو
دنیا میں اختیار و اقتدار اور آخرت میں عزت و وقار ملا۔یہ ان کے عشق کا کمال تھا
کہ مشکل سے مشکل گھڑی اور کٹھن سے کٹھن وقت میں بھی انہیں اتباع رسول ﷺ سے انحراف
گوارا نہ تھا۔ وہ ہر مرحلہ میں اپنے محبوب آقا ﷺ کا نقش پا ڈھونڈتے اور اسی کو
مشعل راہ بنا کر جادہ پیما رہتے۔ یہاں تک کہ
لحد میں عشق رخ شہ کاداغ لے کے چلے اندھیری رات سنی تھی چراغ لیکے چلے
چنانچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات
سے چند گھنٹے پیشتر اپنی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ سے دریافت کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے
کفن میں کتنے کپڑے تھے، حضور کی وفات شریف کس دن ہوئی، ا س سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ
کی آرزو تھی کہ کفن و یوم وفات میں حضور کی موافقت ہو۔ حیات میں حضور ﷺ کا اتباع
تھا ہی وہ ممات میں بھی آپ ہی کی اتباع چاہتے تھے۔ (بخاری، 1/468، حدیث: 1387)
اللہ اللہ یہ شوق اتباع کیوں نہ ہو
صدیق اکبر تھے
غزوہ خیبر سے واپسی میں منزل صہبا پر نبی کریم ﷺ نے نماز عصر پڑھ کر مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ
الکریم کے زانو پر سر مبارک رکھ کر آرام فرمایا: مولیٰ علی نے نماز عصر نہ پڑھی
تھی، آنکھ سے دیکھ رہے تھے کہ وقت جارہا ہے مگر اس خیال سے کہ زانو سرکاؤں تو
شاید خواب مبارک میں خلل آئے زانو نہ ہٹایا یہاں تک کہ آفتاب غروب ہوگیا۔ جب چشم
اقدس کھلی مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنی نماز کا حال عرض کیا، حضور ﷺ نے
دعا کی، ڈوبا ہواسورج پلٹ آیا، مولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے نمازعصر ادا کی،
پھر ڈوب گیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ افضل العبادات نماز، وہ بھی نماز وسطیٰ یعنی
عصرمولیٰ علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے حضور ﷺ کی نیند پر قربان کر دی کہ عبادتیں بھی
ہمیں حضور ﷺ ہی کے صدقہ میں ملیں۔ (شفاء، 1/594)
بوقت ہجرت غار ثور میں پہلے حضرت صدیق اکبر گئے
اپنے کپڑے پھاڑ پھاڑ کر اس کے سوراخ بند کئے ایک سوراخ باقی رہ گیا اس میں پاؤں کا
انگو ٹھا رکھ دیا، پھر حضور اقدس ﷺ کو بلایا تشریف لے گئے اور انکے زانو پر سر
اقدس رکھ کر آرام فرمایا اس غار میں ایک سانپ مشتاق زیارت رہتا تھا، اس نے اپنا سر
صدیق اکبر کے پاؤں پر ملا انہوں نے اس خیال سے کہ حضور ﷺ کی نیند میں فرق نہ آئے
پاؤں نہ ہٹایا۔ آخر اس نے پاؤں میں کاٹ لیا جب صدیق اکبر کے آنسو چہرہ انور پر
گرے چشم مبارک کھلی، عرض حال کیا۔ حضور ﷺ نے لعاب دہن لگا دیا فورا آرام ہوگیا۔ ہر
سال وہ زہر عود کرتا، بارہ برس بعد اسی سے شہادت پائی۔ صدیق اکبر نے جان بھی سرکار
ﷺ کی نیند پر قربان کی۔ (مدارج نبوت، 2/58)
ان ہی نکات کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس
سرہ نے اپنے ان اشعار میں بیان فرمایا ہے:
مولیٰ علی نے واری تری نیند پر نماز وہ بھی عصر جو سب سے جو اعلیٰ
خطرکی ہے
صدیق بلکہ غار میں جاں اس پہ دے چکے اور حفظ جاں تو جان فروض غررکی ہے
ان واقعات سے صحابہ کرام کے عشق رسول ﷺ کا جذبۂ
صادق عیاں ہو جاتا ہے۔ صحابہ کرام نے اپنے محبوب آقا ﷺ کے ساتھ اپنے قلبی لگاؤ
اور والہانہ عشق کے آداب کی تکمیل میں ایثار و قربانی کی جو مثالیں پیش کیں وہ ہمارے
لیے مشعل راہ ہیں، آج بھی اگر ہم ان کی پیروی کریں تو سینوں میں عشق رسول کی شمع
فروزاں ہو سکتی ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ
کرام کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور عشق الہی و عشق رسول ﷺ کی لازوال دولت
سے مالامال فرمائے۔ آمین بجاه خاتم النبين ﷺ

محبت و عشق میں فرق: دل
اگر کسی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہتے ہیں اور یہی محبت اگر شدت اختیار کر
لے تو عشق کہلاتی ہے۔
عشق دو طرح کا ہوتا ہے: مجازی (انسانوں کا انسانوں
سے عشق) حقیقی (یعنی محبت خدا و رسول سے عشق)۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا
ہے جبکہ عشق حقیقی شاہرہ جنت پر گامزن کرتا ہے, عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے
اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت
طوفان کا سامنا کرتا،کھبی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی حکم الٰہی پر قربانی کیلئے
سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے
عشق حقیقی سے مراد: عشق
حقیقی سے مراد اللہ و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے، یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں
جمع ہو جاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کر دیتی ہے وہ ہمہ وقت محبوب کے تصور و
جلوؤں میں گم رہتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندہ مومن کا گزارہ ہو ہی نہیں سکتا۔
قرآن و سنت اور محبت رسول: فرمان
باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ
وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا
جب تک میں اسے والدین، اولاد، گھر والوں، تمام لوگوں،اپنی جان اور مال سے زیادہ
محبوب نہ وہ جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث:168،169)
صحابہ کرام کا عشق رسول: یہ
عشق رسول ہی تھا کے وضو کے پانی یا جسم اطہر سے جدا ہونے والے بال حاصل کرنے میں
بے حد کوشش کرتے، آپ کا لعاب دہن ہاتھوں میں لے کر چہروں اور جسم پر ملتے تھے۔ مصطفی
جان رحمت ﷺ پوچھتے تھے: کیا چیز تمہیں ایسا کرنے پر ابھارتی ہے؟ تو جان ہے عشق
مصطفیٰ کے سچے مصداق عرض کرتے: اللہ و رسول کی محبت ہم سے ایسا کرواتی ہے اسی لئے
تو کوئی صدیق اکبر کوئی فاروق اعظم کوئی غنی و باحیا اور کوئی شیر خدا مشکل کشا بن
گئے۔
عشق رسول کی نشانیاں: عاشق
رسول اپنے محبوب اعظم ﷺ کی بے انتہا تعظیم و تکریم کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کا ذکر
کثرت سے کرتا ہے۔وہ ان پر بکثرت درود و سلام پڑھتا ہے۔ محبوب اکرم ﷺ کی نسبتوں سے پیار کرتا ہے۔ عاشق رسول اپنے محبوب ﷺ کی اطاعت و اتباع کرتا
ہے۔
جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ ناز
دوا اٹھائے کیوں

محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے
کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر یہ
میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک
کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال ودولت یہاں تک کہ جان تک اس پر
قربان کر دیتا ہے۔
دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(مسلم، ص 47، حدیث: 169)
عشق رسول کے تقاضے: احکام
باری تعالیٰ کو غور سے سنیں اور ان پر عمل کیجئے حضور کے والدین رشتہ داروں کے ادب
و احترام کے آداب کا التزام رکھا جائے سوائے ان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور
جہنمی ہونا قران و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ابولہب۔

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت مبارکہ اللہ و رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی
ہے اور اس بارے امت کا اختلاف بھی نہیں ہے، بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر
محبوب (کی محبت)پر مقدم ہو۔
محبت آخر کیا ہے چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب
کچھ واردینے کے لیے تیار ہو جاتا ہےلہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں چنانچہ
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس
کیفیت اور جذبے کا نام ہے کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر
یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس میں زیادت ہوتی رہتی ہے یہاں
تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال ودولت (یہاں تک کہ جان تک) اس
پر قربان کر دیتا ہے۔
عشق محبت میں فرق: محبت
اورعشق کے معنی ومفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ ورسول سے محبت تو ہر مسلمان
کرتا ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور
رہے کہ العلق فرط الحب یعنی محبت میں حد سےتجاوز کرنا عشق ہے۔
اعلی حضرت مولانا شاہ احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق
کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور موکدہ (یعنی بہت
زیادہ پکی) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا جاتا ہے پھر جس کی اللہ پاک سے پختہ
محبت ہو جائے اور اس پختگی محبت کے آثار (اس طرح) ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اوقات
اللہ پاک کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس
کی محبت کو عشق کہا جائے،کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 21/
115ملتقطاً)
نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سےزیادہ
محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰس وہی طہٰ

ارشاد باری ہے: قُلْ
اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری
عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں
ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں
لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم
لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں۔ جو
عشق اللہ رسول کی ذات سے ہو اسے عشق حقیقی کہتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
محبت و عشق میں فرق: محبت
و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر
شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ مکاشفۃ القلوب میں
فرماتے ہیں: محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے
میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر چہ یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں اس
میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال
و دولت یہاں تک کہ جان تک اس پر قربان کر دیتا ہے۔
اللہ پاک
ہمیں دنیا کی محبت سے نکال کر عشق حقیقی نصیب فرمائے آمین۔

محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ
وار دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے لہذا یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے
ہیں؟ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں:
محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو
ظاہر کرتا ہے، اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اس میں
زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا اور مال و
دولت(یہاں تک کہ جان تک) اس پر قربان کر دیتا ہے۔
عشق و محبت میں فرق: بلاشبہ
محبت خدا اور رسول ایک نعمت ہے جن کے دل اللہ اور رسول کی محبت سے سرشار ہوتے ہیں
ان کی روح بھی اس کی مٹھاس محسوس کرتی ہے ان کی زندگیاں جہاں اس پاکیزہ محبت سے
سنورتی ہیں وہیں یہ محبت تاریکی میں امید کا چراغ بن کر انہیں راہ حق سے بھٹکنے سے
بھی بچاتی ہے مگر یاد رکھیے! محبت اور عشق کے معنی ومفہوم میں قدرے فرق ہے کیونکہ اللہ اور رسول سے محبت تو ہر مسلمان کرتا
ہے مگر عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے لسان العرب میں عشق کا مطلب یہ مذکور ہے کہ
العشق فرط الحب یعنی محبت میں حد سے تجاوز کرنا عشق ہے اعلی حضرت،مولانا شاہ امام
احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ عشق کی تعریف بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت بمعنی
لغوی جب پختہ اور موکّدہ (یعنی بہت زیادہ پکّی) ہو جائے تو اسی کو عشق کا نام دیا
جاتا ہے پھر جس کی اللہ سے پختہ محبت ہو جائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار اس طرح
ظاہر ہو جائیں کہ وہ ہمہ اوقات اللہ پاک کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف
رہے تو پھر کوئی رکاوٹ نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے کیونکہ محبت ہی کا
دوسرا نام عشق ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 21/ 115ملتقطاً)
عشق حقیقی سے مراداللہ و رسول و ﷺ کی محبت کامل ہے،
یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ
کردیتی ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی
لذت میں کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا
اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی
کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ
اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ
تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ
اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ
اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز
الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں
اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے
اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے
زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور
اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
بندے کو اللہ پاک کے بعد سب سے زیادہ محبت اللہ پاک
کے رسول ﷺ سے ہونی چاہیے جیسا کہ سیرت مصطفی صفحہ 831 پر ہے: اس آیت مبارکہ کا
حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو! جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا
دعوی کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم لوگ کسی غیر کی محبت کو ترجیح دو گے تو خوب
سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے گا
اور تم عذاب الہی اور قہرخداوندی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے آخری ٹکڑے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ
جس کے دل میں اللہ و رسول کی محبت نہیں یقینا بلاشبہ اس کے ایمان میں خلل ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس
وقت تک کامل مومن نہ ہو گا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ اس کی اولاد اور تمام لوگوں
سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
اللہ ہم سب کو حقیقی معنوں میں عشق رسول ﷺ نصیب
فرمائے۔ آمین

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ عشق و محبت کی تعریف
کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت کہتے ہیں طبیعت کا کسی پسندیدہ چیز کی طرف مائل
ہونا،جب یہ میلان پختہ ہو جاے تو محبت عشق کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عربی میں
خلت (خلیل) عشق کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔عشق محبت سے اوپر والا درجہ ہے۔ تصوف
یہی تو ہے کہ رب کریم سے محبت ہو اور اسی کی طرف رغبت، اسی کی بارگاہ کا شوق، اسی
کی عظمت کا استحضار، اسی کی شان سے قلب میں ہیبت، اسی کے فیصلے پر راضی، اسی کی
ذات پر بھروسہ، اسی کی طرف رجوع، اسی کی بارگاہ میں فریاد، اسی کے کرم پر نظر، اسی
کے فضل کی طلب، اسی کی رحمت کی امید، اسی کے دیدار کا اشتیاق، اسی کی خوشنودی کی
کوشش، اسی کی ناراضی کا ڈر، اسی کی یاد میں فنا اور اسی کے ذکر سے بقاہو۔
حضرت ابو الحسن قناد سے جب صوفی کے بارے میں پوچھا
گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہر
وقت کمر بستہ رہتا ہے۔
شیخ ابو نصر سراج طوسی علیہ رحمۃاللہ القوی مزید
ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں جو اللہ کو خوب پہچانتے ہیں، اس کے
احکام کا علم رکھتے ہیں، جو کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں، اللہ
ان سے جو کام لینا چاہتا ہے یہ اس کو پورا کرنے کے لیے ثابت قدمی دکھاتے ہیں، پختہ
عمل کی بدولت وہ اللہ سے کچھ پا لیتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس کی وجہ سے فنا ہو
جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ہر پا لینے والا آخرکار فنا ہو جایا کرتا
ہے۔
قرآن مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے
ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الٰہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی
خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز
میں سر بسجود ہونا، یاد الٰہی میں رونا، رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں
کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے، اللہ تعالیٰ کیلئے محبت
کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی
سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے
کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، احکام الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل
کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے
دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے
پیارے رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت،
اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی
میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی
تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی
دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔
محبت الٰہی پیدا کرنےکے طریقےاور اسباب:
(1)وجود عطا فرمانے والی ہستی سے محبت:انسان
دیکھے کہ اس کا کمال وبقاء محض اللہ کی طرف سے ہے۔ وہی ذات اس کو عدم سے وجود میں
لانے والی،اس کو باقی رکھنے والی اور اس کے وجود میں صفات کمال، ان کے اسباب اور
ان کے استعمال کی ہدایت پیدا کرکے اسے کامل کرنے والی ہےتو ایسی ذات سے ضرور محبت
رکھنی چاہئے۔
(2)اپنے محسن سے محبت:جس
طرح اللہ کو پہچاننے کا حق ہے اگر بندہ اس طرح اسے پہچانے تو ضرور جان جائے گا کہ
اس پر احسان کرنے والا صرف اللہ ہی ہےاور محسن سے محبت فطری ہوتی ہےلہٰذا اللہ سے
محبت رکھنی چاہئے۔
(3)جمال والے سے محبت:
اللہ جمیل ہے جیساکہ حدیث پاک میں ہے: اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ (مسلم،
ص 61، حدیث: 265) اورجمال والے سے محبت
فطری اور جبلی ہے لہٰذا اللہ سے محبت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔
(4)عیوب سے پاک ذات سے محبت:
اللہ تمام عیوب ونقائص سے منزہ ہےاور ایسی ذات سے محبت کرنا اسباب محبت میں سے ایک
قوی سبب ہے۔
(5)محبت الٰہی کے متعلق بزرگان دین کے
اقوال واحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری علیہ
رحمۃ اللہ القوی کی کتاب رسالہ قشیریہ اور امام غزالی کی کتاب احیاء العلومجلدپنجم
کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
(6) اللہ کی نعمتوں میں غور کیجئے: انسان
دیکھے کہ اللہ جو منعم حقیقی ہے تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور وہ ہر مخلوق کو
اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔یہ احساس انسان کے اندر منعم حقیقی کی محبت کا جذبہ
پیدا کرتا ہے۔
(7)اللہ کے عدل اور فضل ورحمت میں غور کیجئے:
انسان غور کرے کہ تو اسے عدل وانصاف میں سب سے بڑھ کر ذات اللہ ہی کی دکھائی دے گی
اور وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کافروں اور گناہ گاروں پر بھی اس کی رحمت جاری ہے باجود
یہ کہ وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ غوروفکر انسان
کو اللہ سے محبت پر ابھارے گا۔
(8)محبت کی علامتوں میں غور کیجئے: علمائے
کرام فرماتے ہیں: بندے کی اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ جس سے محبت کرتا ہے
بندہ اسے اپنی محبوب ترین چیزپرترجیح دیتا ہے اوربکثرت اس کا ذکر کرتا ہے، اس میں
کوتا ہی نہیں کرتا اور کسی دو سرے کام میں مشغول ہونے کے بجائے بندے کو تنہائی اور
اللہ سے مناجات کرنا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔
(9) اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اور ان
سے محبت:نیک
بندوں کی صحبت اور ان سے محبت بھی اللہ سے محبت کرنے کا ایک ذریعہ ہےکہ نیک بندے
اللہ کی محبت کا درس دیتے ہیں اور ان کی صحبت سے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا ہوتی
ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص248)
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ(۸) (پ
29، المزمل: 8) ترجمہ کنز العرفان: اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی
کے بنے رہو۔ صراط الجنان میں ہے: اس آیت کا
ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! آپ رات اور دن کے تمام اوقات میں اپنے رب کا نام یاد
کرتے رہیں چاہے وہ تسبیح اور کلمہ طیبہ پڑھنے سے ہو، نماز ادا کرنے، قرآن پاک کی
تلاوت کرنے اور علم کادرس دینے کے ساتھ ہو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! اپنی قرا
ء ت کی ابتداء میں بسم الله الرحمٰن الرحیم پڑھیں۔ (روح البیان، 10/ 210)
یاد رہے کہ نماز کے علاوہ اگر قرآن پاک کی تلاوت
سورت کی ابتدا سے کی جائے تو بسم الله پڑھنا سنت ہے اور اگر سورت کے درمیان سے
تلاوت شروع کی جائے تو بسم الله پڑھنا مستحب ہے اور نماز میں سورہ ٔ فاتحہ کے بعد
سورت کی تلاوت سے پہلے بسم الله پڑھنا سنت نہیں۔
اللہ پاک ہمارے دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر ہمیں
بھی عشق حقیقی کی لذت سے آشنا فرمائے۔

اللہ پاک کی محبت انتہائی بلند مقصد اور بلند درجہ
ہے جو کامل ایمان والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے، جب محبت ثابت ہو جاتی ہے تو محبوب کی
طرف شوق صحیح ہو جاتا ہے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں ایمان والوں کے متعلق فرمایا: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔
اللہ پاک کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ
تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی
طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص42)
اور لسان العرب میں ہے کہ محبت میں تجاوز کرنا عشق
ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/ 115ملتقطاً)
عشق کی ایک قسم عشق حقیقی ہے، عشق حقیقی سے مراد اس
ذات پاک سے عشق و محبت کا احساس ہے جو واحد ہے، اسی نے قائم و دائم رہنا ہے اور
اسی ذات سے عشق کیا جا سکتا ہے باقی محبتیں تو فانی ہیں۔ عشق حقیقی سے مراد اللہ تبارک
وتعالیٰ کی ذات عالی ہے اور یاد رکھئے کہ آخرت میں سب سے زیادہ سعادت مند شخص وہ
ہوگا جسے اللہ پاک سے شدید محبت یعنی عشق ہوگی کیونکہ آخرت میں اللہ کی بارگاہ میں
حاضری اور اسکی ملاقات کی سعادت حاصل کرنا ہے اور محبّ کے لئے محبوب کے پاس آنے سے
بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس بات کا عرصۂ دراز سے شوق بھی رکھتا ہو۔
عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے سب سے آسان اور سیدھا
راستہ عشق مصطفیٰ ﷺ اور اطاعت مصطفیٰ ﷺ ہے کیونکہ اللہ پاک تک رسائی حاصل کرنے کا
سفر بہت طویل اور کٹھن ہے جو پیارے آقا ﷺ کے بغیر ممکن نہیں۔ چونکہ آپﷺ تو اللہ پاک
کے محبوب ہیں تو محبوب کے محبوب کو جب اپنا محبوب بنا لیا جائے تو بندہ حقیقی عشق
کی منزل بآسانی پالیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک
کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس (بندے) کے نزدیک اسکے
اہل و مال اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 168)
گویا کہ عشق حقیقی پاکیزہ روح کے لئے غذا ہے جس کے
بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، بندہ اللہ پاک تک درجہ بدرجہ منزلیں طے کر کے پہنچتا
ہے جس میں سب سے پہلی منزل اپنے پیر و مرشد کی اطاعت بجا لا کر فنا فی الشیخ کا
درجہ پا لینا ہے جب یہ پالے تو پھر وہ فنا فی الرسول ﷺ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جب
وہ فنا فی الرسول ﷺ کا درجہ پا لیتا ہے تو وہ فنا فی اللہ کی منزل پر پہنچنے کی
طرف چلا جاتاہے جو کہ اسکی حقیقی منزل ہے۔
حدیث قدسی میں ہے: بندہ نفلی عبادت کے ذریعے میرا
قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری، 4/248، حدیث:6502)
محبت الٰہی میں اضافے کے دو اسباب ہیں: اللہ پاک کے
علاوہ ہر خیال کو دل سے نکال دینا اور اللہ پاک کی معرفت کا کامل ہونا۔ پہلے سبب
کی مثال دل کی زمین کو کانٹوں اور گھاس پھوس سے صاف کرنا ہے اور دوسرے سبب کی مثال
دل کی زمین میں بیج ڈالنا تاکہ وہ اگے اور اس سے معرفت کا درخت پیدا ہو اور وہ
کلمہ طیبہ ہے۔
ایسا گما دے اپنی ولا میں خدا ہمیں ڈھونڈا کریں پر اپنی خبر کو
خبر نہ ہو
آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں
اپنا حقیقی عشق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین