آسٹریلیا کی اسلامی بہنوں میں ہونے والے دینی
کاموں کے سلسلے میں مدنی مشورہ

آسٹریلیا کی اسلامی بہنوں میں ہونے والے دینی
کاموں کے سلسلے میں 9 جولائی 2024ء کو ایک مدنی مشورے کا انعقاد کیا گیا جس میں
مختلف سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
دعوتِ اسلامی کے مختلف دینی کاموں کے متعلق کلام
کرتے ہوئے نگرانِ پرتھ اسلامی بہن نے ذمہ دار اسلامی بہنوں کی دینی، اخلاقی اور
تنظیمی اعتبار سے تربیت و رہنمائی کی نیز دیگر موضوعات پر بھی مشاورت ہوئی ۔
فیضان ویک اینڈ اسلامک اسکول اور شعبہ مشاورت
ملک سطح کی اسلامی بہن کا مدنی مشورہ

عالمی سطح کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 9
جولائی 2024ء کو فیضان ویک اینڈ اسلامک اسکول اور شعبہ مشاورت ملک سطح کی اسلامی
بہن کا مدنی مشورہ ہوا جس میں مختلف موضوعات پر کلام کیا گیا۔
ذمہ دار اسلامی بہنوں نے 8 دینی کاموں کے متعلق
گفتگو کرتے ہوئے آن لائن کلاسز میں نیو ایڈمیشن کرنے اور ٹیچرز کے لئے مدنی آن
لائن / بالمشافہ مدنی مشورہ منعقد کرنے کے حوالے سے مشاورت ہوئی۔
علاوہ ازیں ذمہ دار اسلامی بہنوں نے تقسیمِ
اسناد اجتماع(Award distribution
Ceremony) کا انعقاد کرنے پر تبادلۂ خیال کیا۔
رکنِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن کے شوہر کے انتقال پر ایصالِ ثواب کا
اہتمام

گزشتہ روز عالمی مجلسِ مشاورت (دعوتِ اسلامی) کی رکن
اسلامی بہن کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا جس کے لئے 18 جولائی 2024ء کو مرحوم کے لئے ایصالِ ثواب
کا اہتمام کیا گیا۔
اس موقع پر صاحبزادیِ عطار سلمہا الغفار اور نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن کی آمد ہوئی
جبکہ نگرانِ ڈسٹرکٹ اسلامی بہن نے بیان کرتے ہوئے وہاں موجود اسلامی بہنوں کی
تربیت و رہنمائی کی۔آخر میں صاحبزادیِ عطار سلمہا الغفار نے اختتامی دعا کروائی اور اسلامی بہنوں نے اُن سے ملاقات بھی کی۔

17 جولائی 2024ء کو عاشقانِ رسول کی دینی تحریک
دعوتِ اسلامی کے تحت اسلامی بہنوں کے 8 دینی کاموں کے حوالے سے میٹنگ ہوئی جس میں
مانٹریال اور لاوال سٹیز کی تمام ذمہ داران شریک ہوئیں۔
میٹنگ کے دوران کینیڈا سب کونٹیننٹ کی نگران
اسلامی بہن نے 8 دینی کاموں کی سابقہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے مدرسۃ المدینہ
گرلز و مدرسۃ المدینہ بالغات میں سمر کیمپ کروانے کا ذہن دیا۔
اس کے علاوہ کینیڈا سب کونٹیننٹ کی نگران نے
محرم الحرام میں ہونے والے اجتماعات کا جائزہ لیا نیز ہفتہ وار رسالے اور نیک
اعمال رسالے سمیت دیگر اہم نکات کے بارے
میں اسلامی بہنوں کی ذہن سازی کی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

کینیڈا کے شہر کیلگری (Calgary) میں دعوتِ اسلامی کے تحت ہونے والے دینی کاموں کا جائزہ لینے کے لئے 10
جولائی 2024ء کو تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں کا مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں 8 دینی
کاموں کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
دینی کاموں سے کلام کرتے ہوئے کینیڈا سب کونٹیننٹ کی نگران اسلامی بہن نے دینی کاموں
کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے ان میں مزید بہتری لانےبالخصوص نیکی کی دعوت،
سنتوں بھرے اجتماع اور مقامی زبان کے اجتماعات کو مضبوط کرنے کا ذہن دیا۔
اسی طرح کینیڈا سب کونٹیننٹ کی نگران نے فیملی
اجتماعات منعقد کرنے سمیت دیگر اہم امو رپر تبادلۂ خیال کیا جس پر تمام ذمہ دار
اسلامی بہنوں نے اپنی اپنی رائے پیش کی۔
فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز بہاولپور برانچ کے
ذمہ داران و اسٹاف کا مدنی مشورہ
.jpg)
عاشقانِ
رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت
پنجاب پاکستان میں قائم شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز کے فیضان مدینہ بہاولپور
برانچ میں 6 اگست 2024ء کو شعبے کے نگران
مولانا یاسر عطار مدنی سمیت دیگر اراکین شعبہ کی حاضری ہوئی۔
ابتداءً فیضان
آن لائن اکیڈمی بوائز بہاولپور برانچ کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ ہوا جس میں نگرانِ
شعبہ اور دیگر اراکین نے برانچ میں درپیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے اُن کا حل
بتایا نیز تمام ذمہ داران کو ہر ماہ مدنی قافلے میں سفر کرنے کا ذہن دیا۔
بعدازاں برانچ
کے تمام اسٹاف کا بھی مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں شرکا کی جانب سے ہونے والے
سوالات کے جوابات دیئے گئے جبکہ رکنِ شعبہ (12 دینی کام) مولانا عرفان عطاری مدنی نے برانچ کے تمام اسٹاف
کو ہفتہ وار مدنی مذاکرہ میں اجتماعی طور پر شرکت کرنے کی ترغیب دلائی اور ماہ صفر
ماہ مدرسۃ المدینہ بالغان مناتے ہوئے مدرسۃ المدینہ بالغان پڑھانے کے حوالے سے اُن
کی ذہن سازی کی۔اس موقع پر صوبائی ذمہ دار مولانا عامر سلیم عطاری مدنی اور رکنِ
شعبہ مولانا غلام عباس عطاری مدنی بھی موجود تھے۔(رپورٹ: محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی ،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز خانپور برانچ کے ذمہ داران و اسٹاف کا مدنی مشورہ


عشق حقیقی دراصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی شے ہوتی ہے جو ہمیشہ
زندہ یا موجود رہتی ہے۔ حبّ الہی اور حب رسول ﷺ حقیقی ہیں جن کی نوعیت ابدی ہے
جبکہ دنیا کی ہر شے مثلاً حسن، دولت، اقتدار وغیرہ وغیرہ محض فریب نظر ہیں اور سب
فانی ہیں یعنی فنا ہونے والی ہیں اس لیے عشق مجازی غیر حقیقی شے ہے جس کی کوئی
اصلیت نہیں۔ دل اگر کسی کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور اگر یہی
محبت شدت اختیار کر لے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے: عشق حقیقی اور عشق
مجازی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن
کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے، عشق
حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ
کرتا، کبھی حکم الہی پر قربان کرنے کے لیے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود
پڑتا جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عشق حقیقی سے مراد اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کامل ہے۔
یہ دولت بے بہا جسکے خزانہ دل میں جمع ہو جاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کر
دیتی ہے وہ ہمہ وقت محبوب کے تصور اور جلووں میں گم رہتا ہے اور محبت اور معرفت کی
لذت میں کھو کر دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا،
اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کر دیتا ہے۔
کافر اور مومن کی محبت کا موازنہ: محبت
کرنے والوں کی کئی اقسام ہیں لیکن محبین الہی خالص و مخلص لوگ ہیں۔ اللہ کا فرمان
محبت نشان ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اشدّ سے مراد پختگی اور ہمیشگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ مشرکین جب کسی بت کی پوجا کرتے اور پھر کوئی اس سے اچھی چیز دیکھ لیتے تو اس بت
کو چھوڑ کر اس سے اچھی چیز کی پوجا پاٹ شروع کر دیتے (یعنی کافر اپنی محبتیں بدلتے رہتے تھے جبکہ
مومن صرف اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 2/178) حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اس
کی تفسیر یوں کرتے ہیں: اہل ایمان آخرت میں اللہ سے بہت محبت کریں گے۔
محبت کیا ہے؟ جان لیجیے! بے
شک محبت فکروں سے کٹ جانے اور رازوں سے چھپ جانے کا نام ہے یہ خواص کے لیے نور اور
عوام کے لیے نار (یعنی آگ) ہے جس دل میں محبت داخل ہو جاتی ہے اسے بے چین و
مضطرب اور پریشان کر دیتی ہے۔ حب (یعنی
محبت) دو حروف کا مجموعہ ہے، حاء اور باء،
حاء حتف سے ہے یعنی کاٹنا اور باء بلا سے ہے یعنی آزمائش۔ یہ حقیقةً ایک بیماری ہے جس
سے دوا اور شفا نکلتی ہے۔ اس کی ابتداء فنا اور انتہا بقا ہے۔ اس میں
بظاہر مشقت و کلفت ہے مگر باطنی طور پر سرور و لذت ہے۔ یہ ناواقفوں کے لیے بدبختی
اور بیماری ہے، جبکہ عارفوں کے لیے شفاء اور تندرستی۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے: قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌؕ-وَ الَّذِیْنَ
لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّ هُوَ عَلَیْهِمْ عَمًىؕ- (پ24،حم
السجدہ: 44) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے
اور وہ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے اور وہ ان پر اندھا پن
ہے۔

حضرت فضیل بن عیاض بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جوانی کا
زمانہ تھا تو ایک خاتون سے آشنائی ہو گئی محبت کا ربط قائم ہو گیا تو ظاہر ہے
جوانی مستانی ہوتی ہے اور جنون کا ایک شعبہ کہا گیا ہے جوانی کو اور پھر دل میں اس
طرح کے رجحان پیدا ہو جائیں تو پھر وہ جنون کئی گنا بڑھ جاتا ہے تو اس کے ساتھ وقت
طے کیا اور اس کے ملنے کے لیے بے تابی کے ساتھ ان گھڑیوں کا ان لمحوں کا انتظار
کرنے لگے پھر جب وہ وقت آیا تو اس کے گھر کی طرف چلے اس کے گھر کی دیوار پھلانگنے
لگے تھے کہ ساتھ والے مکان سے کسی قاری قرآن کی تلاوت کی آواز کانوں میں پڑی اور
وہ پڑھ رہا تھا: ترجمہ: کیا اہل ایمان پہ وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر
اور اللہ کی یاد اور اس کی محبت میں تڑپ اٹھیں اور وہ خوف خدا میں مبتلا ہوں اور
جو نازل ہوا قرآن اس قرآن کی محبت میں ان کہ دل میں حیثیت پیدا ہو۔ بس یہ کانوں
میں پڑنے کی دیر تھی کہ دوبارہ گلی میں چھلانگ لگائی اور کہا: میرے اوپر وہ وقت
آگیا ہے اور جنگلوں کو روتے ہوئے نکلے اور حضرت فضیل بن عیاض پھر ولیوں کے امام
قرار پائے اس آیت نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔
کسی کی 30 سال کسی کی 40 برس کسی کی 50 سال کسی کی
60 سال زندگی موجود لوگوں میں سے کسی کے اس سے بھی زیادہ اور کسی کی کم اس آیت کریمہ
کو ذرا اپنے اوپر عبارت کریں تو اللہ ہمیں نصیب کر دے کہ ہمارے دل تیرے خوف سے
کانپ اٹھیں اور تیری خشیت سے ہمارے دل لرز اٹھیں اور قرآن کے ساتھ ہمارا ربط مضبوط
اور مستحکم ہو جائے اور ہم یہ اقرار کرتے ہوئے تیرے حضور حاضر ہو جائیں مالک وہ
وقت آگیا ہے کہ ہمارے دل تیری یاد سے تیری محبت سے تیرے پیار سے مالا مال ہو گئے
اور اپنی باقی زندگی ہم تیرے پیار میں تیری محبت میں تیری یاد میں بسر کریں گے، حدیث
پاک میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے رویا اور اللہ کے خوف سے رونے کی
وجہ سے اس کی پلکوں کے بالوں میں سے ایک بال کی جڑ گیلی ہو گئی تو قیامت کے دن وہ
بال کھڑا ہو جائے گا اللہ یا تو مجھے نکال لے یا اسے جنت عطا فرما دے تو اللہ جل
شانہ اس بال کو تو آنکھ سے نہیں نوچے گا بلکہ اس شخص کو اللہ جنت عطا فرما دے گا۔
اللہ اکبر گنہگار کی آنکھ کا پانی اللہ کے غصے کی
آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اس لیے ہمیں رونے کا کہا گیا ارشاد فرمایا کہ تھوڑا ہنسا
کرو زیادہ رویا کرو صحابہ کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آقا کریم علیہ السلام نے فرمایا
کہ تمہارے تک اللہ کی امان نہیں پہنچی اور تم ہنس رہے ہو عرض کی حضور اس کا کفارہ،
آقا کریم نے فرمایا: اس کا کفارہ یہ ہے کہ جتنا تم ہنسے ہو اتنا ہی تمہیں رونا پڑے
گا۔اگر ہم اپنی زندگی پر غور و تدبر کریں تو ہماری زندگی میں ہنسنا زیادہ یا رونا
زیادہ ہے سویر سے لے کر شام تک قہقہے زیادہ ہیں، ٹھٹھے زیادہ ہیں، مذاق زیادہ ہیں،
لطیفے زیادہ ہیں، یا عبرت زیادہ ہیں، تفکر زیادہ ہے، تدبر زیادہ ہے، سوچ بچار
زیادہ ہے، یاد الہی میں تڑپنا زیادہ ہے، آنکھوں سے یاد خدا میں بہنے والے آنسو
زیادہ ہیں مجھے اور آپ کو اپنی زندگی کا
ضرور موازنہ کرنا چاہیے ٹھٹھوں سے مذاق سے ہماری مجلسیں بھرپور ہوتی ہیں ہم دن میں
جتنا ہنستے ہیں کیا اس کا دسواں حصہ بھی ہم تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کی یاد میں
روتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو مبارک ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ سے درد مانگو اس
کی یاد میں رونا مانگو، اس کے ذکر میں تڑپنا مانگو، اس کی محبت میں بے تابیاں
مانگو، آنسو مانگو، سسکیاں مانگو، تڑپنےبھڑکنے کی توفیق دے۔میرے آقا و مولا نے
فرمایا! قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا یاد الٰہی میں رونے والے کو اللہ اپنے
عرش کا ٹھنڈا سایہ عطا فرما دے گا تو یہ بہت بڑی دولت ہے یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ
ہمیں نصیب کرے۔ آمین
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضی سوز صدیق دے

دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسے محبّت کہا
جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلے تو عشق کہلاتا ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا
ہے: مجازی اور حقیقی۔
اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔
جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے
ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ (رسالہ قشیریہ، ص 545)
سبحان اللہ اگر اللہ پاک کی محبوبیت حاصل ہوجائے
تو یہ بندے کی معراج ہے اس سے بڑا مقام اور نعمت کوئی نہیں اللہ جو تمام کائنات کا
رب ہے وہ اپنے بندے سے محبت فرمائے۔
محبت میں اپنی گما یا الہی نہ پاؤں میں
اپنا پتا یا الہی
عشاق الہی کے لیے اہم ترین مقام: عشاق الہی کے لیے
رضائے
الہی اہم ترین مقام ہے اس ضمن میں ایک واقعہ تحریر ہے، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت
رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا عالم شوق میں بار بار سجدے میں سر رکھتی اور پھر اٹھ
کھڑی ہوتی اور پھر کہنے لگتی اے اللہ اگر میں سجدے دوزخ کے ڈر سے کرتی ہوں تو مجھے
دوزخ میں ڈالنا اور اگر جنت کی امید پر کرتی ہوں تو بھی دوزخ میں ڈالنا اور اگر
میں تیری خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو اپنے جمال سے محرم نہ کرنا۔
سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے خالی سجدوں میں تو دنیا
ہی بسا کرتی ہے
عشق رسول ﷺ: عشق الہی کے لیے عشق رسول ﷺ اور اتباع
رسول شرط ہے کہ اس کے بغیر کوئی الله سے محبت کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ الله قرآن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ
3، اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے حبیب فرما دو کہ اے لوگو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو
تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔
ایمان کی کسوٹی: محبوب خدا سے عشق و محبت ہی ایمان کی
کسوٹی ہے۔ عشق مصطفی کے بغیر ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں
آیا ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسکی جان سے زیادہ
اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔ (شفاء، 2/19)
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ
نامکمل ہے
محبت اطاعت پر ابھارتی ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود
کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر
ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ
دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، ص 662،
حدیث: 1270)
نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی
طٰہٰ

عشق حقیقی در اصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی
شے ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ یا موجود رہتی ہے حب الہی اور حب رسول حقیقی ہیں جن کی
نوعیت ابدی ہے جب کہ دنیا کی ہر چیز مثلاً حسن دولت، سب فریب اور فانی ہیں۔ ایک
مرتبہ ایک صحابی رسول بار گاہ حبیب میں حاضر ہوئے، عرض کی یا رسول اللہ ﷺ قیامت کب
آئے گی تو آپ ﷺ نے فرمایا تو نے اس کے لیے کیا تیار کر رکھی ہے؟ تو عرض کرنے لگے: میرے
پاس نمازیں اور صدقات تو نہیں مگر میں اللہ اور اس رسول سے محبت کرتا ہوں تو نبی
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو اسی کے ساتھ ہوگا جس سے تو محبت کرتا ہے۔ حضرت انس
فرماتے ہیں، آج تک ہم اتنے خوش نہ ہوئے جتنے آپ ﷺ کا یہ فرمان سن کر خوش ہو گئے کے
یہ محب محبوب کے ساتھ ہوگا۔ (بخاری، 2/527، حدیث: 3688)
اٹھتی نہیں ہے آنکھ کسی اور کی طرف پابند کر گئی ہے اسی
کی نظر مجھے
دل اگر کسی جانب مائل ہو تو اسے محبت کہتے ہیں یہی
محبت اگر شدت اختیار کر جائے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے۔ عشق
حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہےیہ کبھی طوفان کا سامنا کرتاہے کبھی فرعون کا مقابلہ
کبھی حکم الہی پر قربانی کے لیے سر رکھ دیتا، کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ
عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے
لب بام ابھی
عشق ایمان کا مل کی بنیاد ہے عشق الہی کے بعد سب سے
بڑی نعمت عشق رسول ہے حقیقت یہ ہے عشق رسول کے بغیر بندہ کا گزارا ہی نہیں ہوسکتا۔
فرمان مصطفی ﷺ ہے: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک والدین
اولاد گھر والوں اور تماملوگوں اپنی جان و مال سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم،
ص 47، حدیث: 168)
عشق رسول کا فائدہ: حضرت
مولانا صوفی محمد اکرم رضوی فرماتے ہیں کہ عشق رسول اگر پورے طور پر دل میں داخل
ہو جائے تو اتباع رسول کا ظہور ہوتا ہے احکام الہی کی تعمیل سیرت نبوی کی پیروی
ہوتی ہے دل و دماغ جسم و روح پر کتاب و سنت کی حکومت قائم ہوتی ہےآخرت نکھر جاتی
ہے۔
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا
لوح و قلم تیرے ہیں
صحابہ کرام کا اندا ز عشق: یہ عشق رسول ہی تھا کہ رحمت عالم ﷺ کے وضو کا
پانی آپ ﷺ کے موئے مبارک لعاب دھن جسم پر ملتے مصطفیٰ ﷺ پوچھتے کیا چیز ایسا کرنے
پر ابھارتی فرماتے کہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت۔
اسی لیے تو کوئی صدیق اکبر کوئی فاروق اعظم کوئی غنی
وباحیا اور کوئی شیر خدا مشکل کشا بن گیا۔
حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول کی
شمع روشن ہو جاتی ہے شب روز اسی محبت میں گزارتا ہے اور عشق رسول ﷺ کی لازوال لذت
سے آشنا ہو جاتاہے پھر بقول اعلیٰ حضرت
جان ہے عشق مصطفیٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد
کا مزا ناز دوا اٹھائے کیوں
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں دنیا کی فانی محبت
سے جان چھڑا کر عشق حقیقی نصیب فرمائے۔ آمین
محبت میں اپنی گمایا یا الٰہی نہ پاؤں میں اپنا
نیا یا الٰہی
رہوں مست وبے خود میں تیری ولا میں پلا جام ایسا پلایا
الٰہی
ڈاکٹر اقبال لکھتے ہیں:
تیرے عشق کی انتہا چاہتا ہوں میری سادگی دیکھ کیا
چاہتا ہوں
بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی بڑا بےادب ہوں
سزا چاہتا ہوں

عشق حقیقی ایک لافانی اور لامحدود انسانی جذبہ ہے
جس کا تعلق براہ راست ایک روح سے دوسری روح تک ہوتا ہے عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی
نعمت عشق رسول ﷺ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول ﷺ کے بغیر بندہ مومن کا گزارہ ہو
ہی نہیں سکتا۔ مومن تبھی ہی کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور
کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
عشق و محبت کیا ہے؟ اگر
دل کسی پسندیدہ چیز کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہتے ہیں اور یہی محبت حد سے
تجاوز کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔
عشق حقیقی سے مراد الله و رسول ﷺ کی محبت کامل ہے کیونکہ الله و رسول سے محبت
تو ہر مسلمان کرتا ہے لیکن عاشق کا درجہ کوئی کوئی پاتا ہے۔ آقا ﷺ کا فرمان
عالیشان ہے: کوئی مومن ایسا نہیں جس کیلئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے
زیادہ اولیٰ و اقرب نہ ہوں۔ (بخاری، 2/108، حدیث:2399)
رسول الله ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک
مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اس کے باپ،اس کی اولاد،اور تمام لوگوں سے
زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس میں ہوں گی وہ
حلاوت ایمان پا جائے گا پہلی بات تو یہ کہ اس مرد مومن کے نزدیک الله اور اس کا
رسول ﷺ سب سے زیادہ محبوب ہوں اور دوسری بات یہ کہ وہ کسی سے محبت کرے تو صرف الله
کے لئے کرے اور تیسری بات یہ کہ کفر سے نجاب پالینے کے بعد اس کی طرف پلٹ کر آنے
کو اس طرح نا پسند کرے جس طرح وہ آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔ (بخاری،
1/17، حدیث:16)
حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول ﷺ
کی شمع روشن ہو جاتی ہے وہ محبت رسول کے جام پی لیتا ہے شب و روز اسی محبت میں
گزارتا ہے عشق رسول کی لازوال لذت سے آشنا ہو جاتا ہے تو پھر بقول اعلیٰ حضرت وہ
اپنی زبان حال سے یہی کہتا نظر آئے گا:
جان ہے عشق مصطفےٰ روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد
کا مزہ ناز دوا اٹھائے کیوں