دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 01 ستمبر 2023ء
بروز جمعہ صوبہ لومبینی، نیپال کے شہر بٹوال میں 8 دینی کام کورس منعقد ہو اجس میں
بٹوال شہر سمیت چندروٹہ اور بھیراہ کی اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔
اس کورس میں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی
بہن نے اسلامی بہنوں کی تربیت و رہنمائی کرتے ہوئے انہیں درس و بیان کا حلقہ
لگانے، بچیوں کے اجتماعات شروع کرنے اور شعبہ محبت بڑھاؤ میں ”دینی کام
کرنے کا طریقہ ٔ کار“ کے متعلق مدنی پھول دیئے۔
نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے دورانِ
گفتگو ہفتہ وار سنتوں بھرا اجتماع منعقد کرنے، نیکی کی دعوت عام کرنے اور مبلغات
کی تعداد بڑھانے کے اہداف دیئے نیز ذمہ دار اسلامی بہنوں کی حوصلہ افزائی کے لئے
تحائف بھی تقسیم کئے۔
دعوت
اسلامی کے شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی بوائز کے تحت 8 ستمبر2023ء کو فیصل آباد کیمپس میں مدنی مشورہ ہوا جس میں ایڈمیشن ڈیپارٹمنٹ
کے کالنگ آپریٹرز نے شرکت کی ۔
رکن
مجلس حافظ سلمان عطاری نے سابقہ مدنی
مشورہ میں طے شدہ مدنی پھولوں کا جائزہ لیا اور نئے
اہداف دیئےنیز اسلامی بھائیوں کی
جانب سے کئے گئے سوالات کے جوابات دئیے اور انہیں اختلاف رائے کے آداب بیان کئے۔ ساتھ ساتھ نئے تنظیمی اسٹرکچر کی اپڈیٹ سے آگاہ بھی کیا۔(کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
پچھلے
دنوں جنت السندھ زرعی یونیورسٹی ٹنڈوجام میں سیلف ڈویلپمنٹ کے ٹاپک پر ایک سمینار
منعقد ہوا جس میں ڈاکٹر پروفیسر منظور ابڑو ڈین فیکلٹی کراپ پروٹیکشن سمیت یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس و اساتذہ نے شرکت کی۔
اس سمینار
میں مبلغ دعوت اسلامی ثوبان عطاری نے’’نئی ایجادات کے مطابق اپنے آپ کا تیار کرنے ‘‘ کے عنوان پر تربیت کی جس میں اسٹوڈنٹس کو جدید تحقیق کی طرف بڑھنے
نیز اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کے لئے
کامیاب لوگوں کے تجربات سے سیکھنے کا ذہن
دیا۔
اس
کے علاوہ دورانِ سیشن ثوبان عطاری نے شرکا
کو اپنے سارے کام مینج کرنے کی سوچ دی اور جدید دور کے مطابق اپنے آپ
کو ڈھالنے کی ترغیب دلائی۔ (کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
داتا
گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے عرس مبارک
کے موقع پر لاہور میں تینوں دن
فرض علوم پر مشتمل جزوقتی مختلف مدنی
کورسز کا سلسلہ ہوا جن میں وضو،
غسل،تیمم اور نماز کے شرائط و فرائض اورواجبات سکھائے گئے۔
اس
موقع پر مزار شریف کے وسیع احاطے میں 404 حلقے لگائے گئے ،ان حلقوں میں تقریباً 8 ہزار 80 شرکا نے شرکت کی۔حلقوں میں شریک زائرین کو راوی ٹاؤن کے معلمین نے فرض علوم کے ساتھ ساتھ نیکی کی دعوت پیش کرتے ہوئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے ، مدنی مذاکرہ دیکھنے اور مدنی قافلوں میں سفر کرنے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھے تاثرات کا اظہار کیا ۔ (رپورٹ:
راوی ٹاؤن معاون ذمہ دار شعبہ مدنی کورسز،کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)
دعوتِ
اسلامی کے زیرِ اہتمام مدنی مرکز فیضان مدینہ حیدر آباد میں 9ستمبر 2023ء بروز ہفتہ مدنی مشورے کا انعقاد
ہوا جس میں رکن شوریٰ حاجی قاری محمد ایاز رضا عطاری نے شعبہ ہفتہ وار اجتماع کے حیدرآباد سٹی اور ڈویژن کے ذمہ داران کی تربیت فرمائیں۔
مدنی
مشورے میں رکنِ شوریٰ نے اسلامی بھائیوں کو ہفتہ وار اجتماعات کو مضبوط کرنے اور انتظامات کو مزید بہتر کرنے کے حوالے سے مدنی پھول و
اہداف دیئے جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔
اس موقع پر شعبہ ہفتہ وار اجتماع کے نگران مولانا محمد بلال عطاری مدنی اور صوبائی ذمہ دار مولانا محمد شہادت عطاری مدنی بھی موجود تھے۔(کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)
23
صفر المظفر 1445ھ بمطابق 9ستمبر2023ء بروز
ہفتہ عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
کراچی میں مدنی مذاکرہ منعقد ہوا جس میں شہرِ کراچی کے مختلف علاقوں سے عاشقانِ
رسول نےفیضانِ مدینہ کراچی آکر جبکہ دیگر شہروں اور ملکوں سے کثیر اسلامی بھائی
بذریعہ مدنی چینل شریک ہوئے۔
اس
مدنی مذاکرے میں عاشقانِ رسول کی جانب سے مختلف موضوعات پر سوالات کئے گئے جس کے
امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے علم و حکمت سے بھرپور جوابات ارشاد فرمائے۔
مدنی مذاکرے کے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
سوال: اعلیٰ حضرت
امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے
عرس کے موقع پرگھرمیں کس اندازسے محفل کا
اہتمام کیا جائے ؟
جواب: دوست احباب کو بلائیں،گھرمیں قرآن
خوانی کریں ،سورۂ یٰسین شریف پڑھ لیں ،نعت خوانی کریں ،کچھ پکایاہوتوفاتحہ پڑھ کر
مہمانوں کوکھانا کھلادیا جائے ۔
سوال:صفرالمظفرمیں
صدقہ وخیرات اس لیے کرنا
کہ صفرمیں بلائیں اُترتی ہیں ،ایساکرنا کیسا؟
جواب:صدقہ وخیرات کرنا تو اچھی بات ہے مگرصفرالمظفرکو منحوس سمجھنا غلط ہے ۔اللہ پاک کے آخری نبی،محمدِ عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے ہیں :لَا عَدْوَى وَلَا صَفَرَ یعنی نہ مرض کا اڑکر لگنا ہے،
نہ صفر کوئی چیز ہے۔ (بخاری،ج4،ص26،حدیث:5717) زمانۂ جاہلیت سے لوگوں میں یہ
وہم عام تھا کہ صفر کے مہینے میں بلائیں اُترتی ہیں،صفر بلاؤں والا مہینا ہے
تونبی ِکریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے لَا صَفَرَ (صفرکوئی
چیزنہیں)فرماکر ان وہمی باتوں کا رد فرما
دیا۔ ( عمدۃ القاری،ج14،ص693 ) مراٰۃ المناجیح میں ہے کہ بعض لوگ صفر کے آخری چہار شنبہ(یعنی بدھ) کو خوشیاں مناتے ہیں کہ منحوس شہر(یعنی صفرکا مہینا) چل دیا ،یہ باطل ہے۔(مراٰۃ المناجیح ،ج6،ص257)
سوال: آپ فتاویٰ
رضویہ کامطالعہ کس طرح کرتے تھے
اورہمیں کس طرح اس کو پڑھنا چاہئے؟
جواب:
دعوتِ اسلامی سے بہت پہلے مجھے فتاویٰ رضویہ سے
تعارف ، دلچسپی اورتعلق رہا ہے ۔اس وقت فتاویٰ رضویہ تخریج شدہ ،عربی وفارسی عبارتوں کا ترجمہ نہیں
تھا ،اس کی 11جِلدیں تھیں ،سمجھنے میں دُشواری ہوتی تھی اب اس کی تخریج ہوچکی ہے
،عربی وفارسی عبارتوں کے ترجمے ہوچکےہیں ۔ اپنی دلچسپی کے مطابق اس کا مطالعہ کریں
جیسے جلد نمبر20سے 26 میں ضروریاتِ زندگی سے متعلق مختلف سوال جواب ہیں، پہلےیہ پڑھ لیں ۔البتہ علماءِ اہلسنّت سے رابطے میں
رہیں ،جو بات سمجھ نہ آئے ان سے سمجھ لیں۔
سوال: امام محمد بن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے رسالے اَیُّھَاالْوَلَدْ(ترجمہ بنام:بیٹے کو نصیحت)کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب: ’’بیٹے
کونصیحت‘‘ کے نام سے یہ بہت پیارارسالہ مکتبۃ المدینہ سے شائع
ہواہے،یہ رسالہ پڑھنے سے بہت ساری معلومات حاصل ہوں گی۔
سوال: امام
احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب:امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ ہیں تو ہم ہیں،میری تَو شہرت
تعلیماتِ رضا( جوکہ قرآن وحدیث کی تعلیمات ہیں
)کو عام کرنے
کی وجہ سے ہے۔
سوال:آپ ماہِ ر بیع الاو ل میں تمام
عاشقانِ رسول (بالخصوص دعوتِ اسلامی والوں )کو کتنا درود
شریف پڑھنے کا ہدف ارشاد فرماتے ہیں؟
جواب :ربیع الاول کے پورے مہینے میں 12ارب دُرود شریف پڑھنے کا ہدف ہے، کوشش کریں کہ روزانہ
کم ازکم1200مرتبہ دُرود شریف پڑھ لیں۔
سوال: ماہِ ربیع الاول شریف میں نفل روزے رکھنے اور درودوسلام پڑھنے
والوں کوامیراہل سنت دامت
برکاتہم العالیہ نے کیا دعا دی؟
جواب: یاربِّ
کریم !جو کوئی ماہِ ربیع الاول شریف میں 12 ،7یا 3 روزے رکھے یا
روزانہ 1200
مرتبہ درودشریف پڑھے یا دونوں کام کرے، ان
کو دونوں جہاں کی بھلائیوں سے مالامال فرما اورجس آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردُرود و سلام پڑھتے ہیں،اُن کا خواب میں جلوہ دِکھا۔ مرتے وقت بھی ان کی زیارت نصیب
فرمایا ۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ”فیضانِ
دعوتِ اسلامی“ پڑھنے یاسُننے والوں کوجانشینِ
امیراہل سنت نے کیا دُعا دی؟
جواب: یااللہ کریم!جو کوئی تقریباً 40 صفحات پر مشتمل
ماہنامہ فیضانِ مدینہ کا خصوصی شمارہ ”فیضانِ دعوتِ اسلامی“ کے کم ازکم 14 صفحات پڑھ یا سُن لے اسے ایمان و عافیت کے ساتھ میٹھے مدینے
میں موت نصیب فرما، جنت البقیع مقدر فرما اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تحریر: محمد آصف
اقبال مدنی
خانہ کعبہ کا ہر حصہ ہر گوشہ لاتعداد برکات و فضائل
کا منبع ومرکز ہے، انوار وتجلیات ہمہ وقت اس پر برستے رہتے ہیں، خوش نصیب زائرینِ
بیت اللہ ان فیوض و برکات سے خوب مستفیض ہوتے ہیں، اپنے
دامن کودینی ودنیاوی فوائد وثمرات سے بھرتے ہیں اور اپنے جسمانی و روحانی سکون و راحت کا بھرپور سامان کرتے
ہیں۔اس مختصر تحریر میں بیت اللہ شریف کے صرف ایک کونے "رکنِ یمانی" کا
تذکرۂ خیر کرتے ہیں۔
٭رکنِ یَمانی: یہ یمن کی جانب خانہ کعبہ
کا مغربی کونہ ہے۔ (رفیق الحرمین،ص 61)
٭رکنِ یَمانی کو یہ عظمت حاصل ہے کہ یہ بنیاد ابراہیمی پر ہے۔(مراۃ
المناجیح،4/183)
٭رکنِ یمانی کی عظمت کے لئے اتنا کافی ہے کہ حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم رکن یمانی کا استلام کرتے، اسے بوسہ دیتے
اور اپنا رُخسارِ پُرانوار اس پر رکھ دیتے تھے۔(المستدرک، 2/107، حدیث:1718، 1719)
٭رکنِ یَمانی کی یُمن و برکت سے ہے کہ یہ خطاؤں
کو مٹاتا ہے، رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: حجر اسود
اور رکنِ یَمانی دونوں خطاؤں کو مٹاتے ہیں۔ (تر مذی ،2/285،رقم:961)
٭یہاں آنسو بہانا سنت ہے اور اس رکن کا استیلام کرنا روز محشر کام
آئے گا۔ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حجرِ اسود
اور رکنِ یمانی دونوں قيامت کے دن اٹھائے جائيں گے تو ان کی دو آنکھيں ، ایک زبان
اور دو ہونٹ ہوں گے، جس نے ان کا صحيح طريقے سے استلام کياہو گا يہ اس کے حق ميں
گواہی ديں گے۔(معجم کبیر،11/146،
حدیث:11432)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں
کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
حجرِ اسود کے پاس تشریف لائے پھر اس پر اپنے مبارک ہونٹ رکھ کر دیر تک روتے
رہے، پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ملاحظہ فرمایاکہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی
رورہے ہیں توآپ نے ارشاد فرمایا : اے عمر! یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہانے چاہییں ۔
٭اس کا عظیم وفضیلت والا ہونا یوں بھی عیاں ہے
کہ یہ جنتی یاقوت ہے۔ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رکنِ
یمانی اور مقامِ ابراہيم جنت کے ياقوتوں میں سے دو ياقوت ہيں، اور يہ کہ اللہ پاک نے
ان کا نور بجھا ديا اگر ايسا نہ ہوتا تو مشرق و مغرب ہر شے روشن ہو جاتی۔ (صحیح
ابن حبان،6/10، حدیث:3702)
٭مولائے کریم اس رکنِ عظیم کی زیارتِ عمیم سے
نوازے، وہاں بخشش و عافیت مانگنے کا موقع بہت بڑی سعادت ہے۔حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: رکنِ يمانی پر 70,000 فرشتے مؤکل ہيں،جوبھی
يہ دعا مانگتا ہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْعَفْوَ وَ الْعَافِيَۃَ فِی الدِّين
وَ الدُّنْيا رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْيا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ
حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ (یعنی اے اللہ پاک ! میں تجھ سے دين و دنيا میں بخشش اور
عافيت کا سوال کرتا ہوں، اے ہمارے رب!ہميں دنيا و آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہميں جہنم کے عذاب سے بچا) تووہ فرشتے اس کی دعا پر آمین کہتے ہيں۔ (سنن ابن ماجۃ، 3، ص 439، حدیث:2957)
٭اس عالی شان مقام پر کی جانے والی خاص دعا
پر آمین کہنے کو خاص فرشتہ مقرر ہے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے زمین وآسمان کی پیدائش کے وقت سے رکْنِ
یمانی پر ایک فرشتہ مقرر کر رکھا ہے۔ جب تم وہاں سے گزرو تو یہ دعاکیاکرو کیونکہ
وہ فرشتہ اٰمین کہتا ہے: رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِی
الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ
النَّار یعنی اے ہمارے رب! ہمیں
دنیا میں بھی بھلائی عطافرمااورآخرت میں بھی بھلائی عطا فرمااور ہمیں آگ کے عذاب
سے بچا۔ (حلیۃ الاولیا،5/ 95،
حدیث:6457)
٭رکن یمانی پر فرشتوں کی کثرت کی گواہی ان کے
سردار جبریل امین علیہ
السلام نے بھی دی ہے۔ ایک بار حضرت جبریل علیہ السلام بارگاہ رسالت صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں یوں
حاضر ہوئے کہ انہوں نے سبز رنگ کا عمامہ شریف باندھا ہوا تھا جس پر کچھ غبار تھا۔
رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان سے پوچھا: آپ کے عمامے پر غبار کیسا ہے؟ حضرت
جبریلِ امین علیہ
السلام نے عرض کی: میں کعبۃ اللہ کی زیارت کو حاضر ہوا تھاتو رکنِ یمانی پر
فرشتوں کا اِزدِحام تھا یہ ان کے پروں سے اڑنے والا غبار ہے۔ (اخبار مکہ للازرقی،ج1،
ص35۔ الحبائک
فی اخبار الملائک ، ص186)
محمد مبشر عبدالرزاق (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھو کی لاہور پاکستان)
اسلام ایک امن پسند کامل ترین ، لاجواب خوبیوں کا حامل
انسانی طبیعت و فطرت کے عین مطابق آسمانی اور سچا دین ہے۔ یہ جس طرح اپنے ماننے والو کو عبادات و عشقِ
مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا درس دیتا ہے اسی طرح اسلامی معاشی اصولوں
پر کار بند رہ کر سچائی اور امانت داری کے ساتھ تجارت کرنے اور دوسروں کے مالی
حقوق کی ادائیگی کی بھی تعلیم دیتا ہے۔ مگر فی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیتِ مجموعی
عمل کمزور ہونے نے کی وجہ سے رشوت، چوری، دھوکا دہی، خیانت ، غصب، ناپ تول میں کمی
کرنے اور بھی کئی طریقوں سے دوسروں کے مالی حقوق کو دبایا جاتا ہے حالانکہ قراٰن و
احادیث میں اس کی سخت مذمت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں
ارشاد فرماتا ہے: ﴿ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان:
آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔ (پ5، النسآء:29) صراط الجنان میں ہے کہ: اس آیت میں باطل
طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کرہو یا چھین کر ،چوری سے یا
جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی
گواہی سے یہ سب ممنوع و حرام ہے۔(احکام القرآن، باب ما یحلہ حکم الحاکم وما لا یحلہ،1/ 304) اور ابن عباس رضی
اللہ عنہما فرماتے ہیں: اس آیت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو انسان ناحق حاصل کر لیتا
ہے۔ (مکاشفۃ القلوب مترجم، ص 473 ،مطبوعہ مكتبۃُ المدینہ کراچی)
اسی طرح بہت سی احادیثِ کریمہ میں ناحق مال کھانے کی شدید
مذمت بیان کی گئی ہے۔ جن میں سے پانچ ملاحظہ ہوں:
( 1) حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : چار شخص ایسے ہیں جن کے لئے
اللہ پاک نے لازم کردیا ہے کہ انہیں جنت میں داخل نہیں کرے گا اور نہ ہی وہ اس کی
نعمتوں سے لطف اندوز ہوں گے، شرابی، سودخور، ناحق یتیم کا مال کھانے والا اور والدین
کا نافرمان۔( المستدرک للحاکم ،کتاب البیوع ، باب اربی الربا۔۔۔الخ ، 2/338، حدیث: 2307)
(2) حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص پرایا مال لے لے گا
وہ قیامت کے دن اللہ پاک سے کوڑھی (یعنی برص کا مریض) ہو کر ملے گا۔( المعجم الکبیر،1/233،حدیث:637)
(3) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
: یتیم کا مال ظلماً کھانے والے قیامت میں
اس طرح اُٹھیں گے کہ ان کے مُنہ، کان اور ناک سے بلکہ ان کی قبروں سے دُھواں
اُٹھتا ہو گا جس سے وہ پہچانے جائیں گے کہ یہ یتیموں کا مال ناحق کھانے والے ہیں۔(
دُرِّمنثور،2/443،پ4،النسآء،تحت الآیۃ:10)
(4) حضور نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ملعون (لعنت کیا گیا) ہے وہ شخص جس نے کسی مؤمن
کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا ۔ ترمذی كتاب البر والصله باب ماجاء في الخيانۃ
والغش، ص 475 ،حدیث :1941)
(5)نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : خبردار ظلم نہ کرنا، خبردار کسی
شخص کا مال دوسرے کو حلال نہیں مگر اس کی خوش دلی سے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشكوة
المصابیح، جلد 4 ،حدیث: 2946)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ذرا غور کیجئے کسی کے مالی حقوق
دبانے کا کیا فائدہ محض دنیاوی عیش و عشرت۔ جبکہ اس کے مقابلے الله و رسول کی ناراضگی ، ایمان
کی دولت چھن جانے کا خطرہ، نیکیوں کا ضائع ہو جانا، عبادات کا مقبول نہ ہونا، دنیا
و آخرت میں ذلت و رسوائی کا سبب اور بغیر حساب جہنم میں داخلہ۔ لہذا یہ ایک مذموم فعل ہے اور ہر مسلمان کو اس سے بچنا لازمی ہے۔ مذکورہ فعل میں مبتلا ہونے کے
بہت سے اسباب ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں : (1) علم دین کی کمی (یعنی دوسروں کے مال
کے شرعی احکام معلوم نہ ہونا ) (2) مال و دولت کی حرص (3)دنیا کی محبت (4) راتوں
رات امیر بننے کی خواہش (5) مفت خوری کی عادت اور کام کاج سے دور بھاگنا (6) بری
صحبت۔ اللہ پاک ہمیں دوسروں کے مالی حقوق
کی ادائیگی اور دینی احکامات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کلیم اللہ چشتی عطاری( درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
فاروق اعظم سادھوکی لاہور پاکستان)
اگر ہم عالم دنیا غور و فکر کریں تو کثیر فتنوں کو ملاحظہ
کریں گے اور وہ نہایت وسیع و فراخ ہیں ان سے صرف وہی بچ سکتا ہے جسے اللہ پاک توفیق
دے۔ ان میں سے ایک بڑا فتنہ مال کاہے جو
سب سے زیادہ آزمائش کا سبب ہے۔ مال کا ایک بڑا فتنہ یہ ہے کہ کوئی بھی اس سے بے نیاز
نہیں جسے نہ ملے وہ محتاجی کی وجہ سے کفر تک جا سکتا ہے اور جسے مل جائے اس ہے
سرکشی کا خطرہ ہوتا ہے۔ مال کی مذمت اتنی
زیادہ ہے کہ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بکریوں میں چھوڑے
گئے دو بھوکے بھیڑیے اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا نقصان جاہ و منصب اور مال کی محبت
مسلمان آدمی کے دین میں کرتی ہے۔ (سنن الترمذی کتاب الزہد ،حدیث :2383) اس مال کی وجہ سے ہمارا معاشرہ لڑائی جھگڑوں کا
شکار ہے، اسی وجہ سے کئی برائیاں سر اٹھا رہی ہے۔ مثلاً دھوکا ، جوا، غصب، ناپ تول
میں کمی کرنا وغیرہ ان کے حوالے سے احادیث میں کئی وعیدات وارد ہوئی ہیں۔ آئیے ان
میں سے بعض کا مطالعہ کرتے ہیں۔
دھوکا: آج ایک دوسرے کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کرنے کے لیے دھوکا عام ہے اور دھوکے
کے حوالے سے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ملعون ہے وہ شخص
جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔ ( ترمذی)
جوا: ناجائز طریقے سے کسی کا مال حاصل کرنے کے لیے آج کل
جوا بھی عام ہے جوئے کے حوالے سے رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جس نے نَرْدْ شِیْر (جوئے کا ایک کھیل)
کھیلا تو گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں ڈبو دیا۔ (مسلم، کتاب
الشعر، باب تحریم اللعب بالنردشیر، ص1240، حدیث: 2260)
غصب
: کسی کا مال جبراً چھیننا بھی حرام ہے۔ اور وعیدات بھی وارد
ہوئی ہیں۔ رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص پرایا مال
لے لے گا وہ قیامت کے دن اللہ پاک سے کوڑھی (یعنی برص کا مریض) ہو کر ملے گا۔( المعجم الکبیر،1/233،حدیث:637)
خیانت: مالی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ خیانت نہ کی جائے۔ خیانت کے حوالے سے رسولِ
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایسا نہیں ہو سکتا کہ خائن خیانت
کرنے کی حالت میں مؤمن ہو، لہذا ان سے
بچو! ان سے بچو ! ( مرآۃ المناجیح شرح
مشکوۃ المصابیح، جلد 1 ،حدیث : 53)
چوری: مالی حقوق دبانے میں ایک بڑا گناہ چوری بھی ہے اور چوری کے حوالے سے رسولِ پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایسا نہیں ہو سکتا کہ چور چوری کرنے کی حالت میں مؤمن ہو۔(ایضاً)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں مال کمانے کی اتنی دھن ہے
کہ ہم اتنا بھی فکر نہیں کرتے کہ اس مال میں میرا حق ہے یا میرے بھائی کا۔ اکثر اوقات اپنے بھائیوں کے اموال کو ناجائز طریقے
سے حاصل کرنے کا سوچتے رہتے ہیں۔ حالانکہ ہم نے اس نبی علیہ الصلوۃ و السّلام کا
کلمہ پڑھا ہے جن پر اپنے تو اپنے غیر بھی اعتماد کرتے، جانی دشمن بھی اپنی امانتیں
رکھواتے تھے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ دوسروں کے اموال پر نظر کی بجائے قراٰن و حدیث کے
اصول کے مطابق اموال حاصل کرے۔
ابو الخبر عبد الواجد عطاری (درجہ سادسہ جامعۃُ المدینہ
اپر مال روڈ لاہور پاکستان)
جہاں اللہ پاک نے انسان کو اتنی نعمتیں دی ہے اسی نعمتوں میں
سے ایک نعمت مال ہے اور (یہ ایک ایسی نعمت ہے جس کے بغیر انسان کا زندگی گزارنا
بہت دشوار ہے)۔ یہ بندے کے ہاں اللہ پاک کی امانت ہے۔ ایسا بالکل نہیں ہے کہ بندے
کو اس بات کا اختیار ہو کہ وہ جس طرح چاہے اس مال کو کمائے اور جہاں چاہے صرف کردے
بلکہ جس طرح قراٰن و احادیثِ مبارک میں بیان کیا گیا ہے کہ( اگر تم نے اس طرح مال
کمایا تو یہ تمہارے لیے حلال ہوگا اور اگر اس طرح مال کمایا تو یہ تمہارے لیے حرام
ہوگا اور جب مال کما لیا تو اس کو کس طرح خرچ کرنا ہے۔ کہاں خرچ کرنا ہے اور کہاں
نہیں کرنا ؟) اس طرح کمانا ہوگا اور اسی طرح خرچ کرنا ہوگا۔ کیونکہ اس کے بارے میں
بروزِ قیامت سوال کیا جائے گا کہ تم نے مال
کہاں کمایا اور کہا خرچ کیا، کیا تم نے یہ مال حلال ذرائع سے کمایا تھا یا پھر حرام ذرائع سے۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا
تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔ (پ5،
النسآء:29) اس لیے مال حلال طریقے سے ہی
کمانا چاہیے نہ کہ حرام طریقے سے ، اور اگر کوئی ایسا شخص ہے جس نے ناجائز طریقے
سے مال کمایا اور اس میں خو د بھی کھایا
اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلایا ہو جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو تو اس کے جسم پر
جنت حرام فرما دی جاتی ہے۔
جیسا کہ حدیثِ پاک میں آیا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
سرورِ کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم
پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع،
قسم الاقوال، 2 / 8، الجزء الرابع،
حدیث: 9257)
حرام کا لقمہ : تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے
ارشاد فرمایا: ’’اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے،
اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی
جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں
ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہواس کے لئے آگ زیادہ بہترہے۔ (معجم
الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں ناجائز طریقے سے مال کمانا یا
کسی کا ناحق مال دبا لینا عام ہوتا جا رہا ہے۔ بندہ یہ سمجھتا ہی نہیں ہے کہ وہ حرام مال کما
رہا ہے اور یہ بات یاد رہے کہ کسی کا بھی حق دبا کر اس کا مال کھا جانا
حرام ہے کسی دوسرے کا حق دبانے کی کئی
صورتیں ہیں اور ان پر بہت سخت وعید بھی آئی
ہیں۔ان صورتوں میں سے چند صورتیں پیش خدمت ہے:
(1)امانت میں خیانت: یعنی جب کسی کے پاس امانت
رکھوائی جائے اور جب واپس مانگی جائے تو وہ دینے سے انکار کردے۔ یا اس میں کمی کردے۔
حدیث پاک میں امانت میں خیانت کرنے والے
کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضا سے روایت ہے کہ
الله رسول الله صلے سے ہم سے ارشاد فرمایا: منافق کی تین علامتیں ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے
تو پورا نہ کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت
رکھی جائے تو خیانت کرے۔ اگرچہ وہ نماز
پڑھتا ہو، روزے رکھتا ہو اور اپنے آپ کو
مسلمان سمجھتا ہو۔ (صحيح مسلم، كتاب
الايمان، باب بيان خصال المنافق، حديث: 59، ص50)
(2) مال غصب کرنا: یعنی جب کسی سے کوئی چیز مانگ کر لی پھر اس کو واپس نہ کرے یا پھر کسی کی جگہ
پر قبضہ کر لے، ایسے شخص کے بارے میں حدیثِ پاک میں بہت مذمت بیان ہوئی ہے جیسا کہ
حضرت سعید ابن زید سے فرماتے ہیں فرمایا
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے کہ جو بالشت بھر زمین ظلمًا لے لے تو قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا
جائے گا۔ (مسلم، بخاری)
(3) یتیم کا ناحق مال کھانا : یتیم کا مال ناحق کھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سے کھائے
تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی اس یتیم کا مال کھانے میں ملوث ہوتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں
ہوتا۔ انہی صورتوں میں سے ایک صورت پیشِ خدمت ہے۔
جیسے جب میت کے ورثاء میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا
اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ
وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے اور حدیث پاک میں بھی ایسے
شخص ( جو یتیم کا مال ناحق طریقے سے کھاتا ہے) کے بارے میں بھی بہت شدید وعیدیں آئی
ہیں۔ جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
چار شخص ایسے ہیں جنہیں جنت میں داخل نہ کرنا اور اس کی نعمتیں نہ
چکھانا اللہ پاک پر حق ہے: (1)شراب کا عادی۔ (2)سود کھانے والا۔ (3)ناحق یتیم کا
مال کھانے والا۔ (4)والدین کا نافرمان۔( مستدرک حاکم، کتاب البیوع ، انّ اربی الربا عرض الرجل
المسلم ، 2/338، حدیث:2307)
(4) مال چوری کرنا: چوری کر کے بھی بندہ دوسرے کا ناحق طریقے سے مال دباتا ہے۔ اس کی بھی حدیث پاک میں مذمت بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
زانی زنا نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مؤمن ہو، اور چور چوری نہیں کرتا اس حال میں کہ وہ مؤمن ہو۔( نزهۃ القاری،حدیث : 2840)
(5) قسم کے ذریعے کسی کا ناحق مال کھانا: اس کی بہت صورتیں بن سکتی ہے مثلاً، بائع (بیچنے
والا) مشتری سے کہے: قسم سے تمہاری اتنی ہی
رقم بنتی ہے کیونکہ یہ چیز مجھے اتنے کی ملی ہے حالانکہ اس کی قیمت کم بنتی ہے، یا پھر کسی نے اس کے پاس چیز رکھیں تو جب یہ اس سے مانگے تو یہ کہے کہ قسم سے
مجھے تم نے اتنی ہی رقم دی تھی۔ ایسوں کے بارے میں حدیثِ پاک میں مذمت بیان کی گئی۔ جیسا کہ حضرت ابو امامہ
باھلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص نے مسلمان کا حق اپنی(جھوٹی)
قسم کے ذریعے کھا لیا تو اللہ پاک اس پر جہنم واجب کر دیتا ہے اور جنت حرام کر دیتا
ہے ایک شخص نے آپ سے پوچھا: یا رسولَ اللہ! اگرچہ وہ کوئی معمولی چیز ہو! فرمایا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: اگرچہ وہ پیلو کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو۔(صحیح
مسلم، کتاب الایمان،باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین، حدیث:137)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ خالق کائنات اپنے پیارے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور رزقِ حلال کمانے ،کھانے
کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
تنویر احمد عطاری (درجہ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور
پاکستان)
آیت مبارکہ کا ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک
دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ ۔ (پ5، النسآء:29) غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا بھی ناحق مال کھانے
میں داخل ہیں اور حرام ہے۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: میں نے جہنّم
میں ایک شخص کو دیکھا جو اپنی ٹیڑھی لاٹھی کے ذریعے حاجیوں کی چیزیں چُراتا ، جب
لوگ اُسے چوری کرتا دیکھ لیتے تو کہتا : میں چور نہیں ہوں ، یہ سامان میری لاٹھی میں اٹک گیا
تھا۔ وہ آگ میں اپنی ٹیڑھی لاٹھی پر ٹیک لگائے یہ کہہ رہا تھا : میں ٹیڑھی لاٹھی
والا چور ہوں۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو شخص پرایا
مال لے لے گا وہ قیامت کے دن اللہ پاک سے کوڑھی (یعنی برص کا مریض) ہو کر ملے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو لوگ ناپ
تول میں کمی کرتے ہیں وہ قحط اور شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم میں گرفتار ہوتے ہیں۔
حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان ارشادات پر غور کریں اور اپنے افعال سے توبہ کریں۔
حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خیانت کرنے والے کی پر وہ پوشی کرے
وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔( ابو داؤد، کتاب الجہاد)
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کسی کی زمین میں سے کچھ بھی ناحق
لے لیا قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنسا دیا جائے گا۔(صحیح بخاری)
حضرت عبد الله حضرت سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے ایک بالشت زمین
ظلم کے طور پر لے لی قیامت کے دن ساتوں زمینوں سے اتنا حصہ طوق بنا کر اس کے گلے میں
ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح بخاری اور مسلم)
امام احمد نے یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ
الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ناحق زمین
لی قیامت کے دن اسے یہ تکلیف دی جائے گی کہ اس کی مٹی اٹھا کر میدان حشر میں لائے۔
فی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیتِ مجموعی عمل کمزور ہونے
کی وجہ سے اخلاقی و معاشرتی برائیاں اتنی عام ہوگئی ہیں کہ لوگوں کی اکثریت ان کو
بُرا سمجھنے کو بھی تیار نہیں، انہی میں سے ایک مالی حقوق کو دبانا بھی ہے ۔یہ ایسا
بدترین گناہ ہے کہ قراٰنِ کریم میں ارشاد باری ہے : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ
تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ
رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال
ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو
اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔ (پ5، النسآء:29) اس آیت میں باطل طریقے سے مراد وہ طریقہ ہے جس
سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے مال
حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور
گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل
طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔(خازن،1/370،
النساء، تحت الآیۃ: 29)
اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا،
ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پرچیاں بھیج کر
ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ ان میں سے چند کے متعلق وعیدیں
درج ذیل ہیں:۔
(1) مزدور کی مزدوری دبانا: مزدوروں کی مزدوری نہ دینے والوں کو تنبیہ فرماتے ہوئے حدیثِ
قدسی میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : میں
قیامت کے دن تین افراد کا مقابل ہوں گا(یعنی سخت سزا دوں گا) : (1) ایک وہ شخص جو
میرے نام پر وعدہ دے پھر عہد شکنی کرے (2)وہ شخص جو کسی آزاد انسان کو بیچ دے اور پھر اس کی قیمت کھالے (3)وہ شخص
جس نے کوئی مزدور اُجرت پر لیا اور پھر اس سے کام تو پورا لیا لیکن اس کی اُجرت
اسے نہ دی۔ (بخاری، 2/52، حدیث:2227، مراۃ
المناجیح،4/334)
(2) مالِ وراثت سے حق نہ دینا: کسی وارث کی میراث
نہ دینے سے متعلق حدیث پاک میں ہے کہ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے وارث کو میراث دینے
سے بھاگے ، اللہ قیامت کے دن جنت سے اس کی میراث قطع فرما دے گا۔(سنن ابن ماجہ، کتاب
الوصایا،ص194،مطبوعہ کراچی)
(3) قرض وقت پر واپس نہ کرنا: فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مالدار کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔
(بخاری ، 2 / 109 ، حدیث : 2400)اس فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شرح میں شارحِ بخاری مفتی شریفُ الحق
امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مالدار کو یہ جائز نہیں کہ میعاد
پوری ہونے پر قرض کی ادائیگی میں حیلہ بہانہ کرے۔ ہاں اگر کوئی تنگ دست ہے تو وہ
مجبور اور معذور ہے۔ (نزھۃ القاری ، 3 / 578)
(4) خیانت : ہمارے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: تین باتیں
ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز، رو زہ کا پابند ہی کیوں
نہ ہو: (1)جب بات کرے تو
جھوٹ بولے (2)جب وعدہ کرے تو
خلاف ورزی کرے (3)جب امانت اس کے
سپر د کی جائے تو خیانت کرے ۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص176)
(5) ڈنڈی مار کر سودا بیچنا : حُضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلّے کی ڈھیری
کے پاس سے گزرے، آپ نے اُس میں ہاتھ ڈالا تو اُنگلیوں میں تَری محسوس ہوئی، ارشاد
فرمایا: اے غلّے والے! یہ کیا ہے؟ اُس نے عرْض کی: یارسولَ اللہ!(صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم) اس پر بارش کا پانی پڑ گیا تھا۔ ارشاد فرمایا :تو نے بھیگے ہوئے کو
اوپر کیوں نہیں کر دیا کہ لوگ دیکھتے، جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ ( مسلم،
ص64، حدیث:284)
(6) رشوت کا لین دین کرنا : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرورِ کائنات صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی
ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2 / 8، الجزء الرابع،
حدیث: 9257)
اللہ پاک ہمیں اسلام کی تعلیمات کو سمجھنے اس پر عمل کرنے
اور دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم