آج ہم ان شاءاللہ حضرت شعیب علیہ السلام کی نصیحتیں پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے جو قرآن پاک میں بیان ہوئی ہیں اور اس میں مشترک بات یہ ہے کہ جو انہوں نے اپنی قوم کو نصیحتیں کی ان نصیحتوں کی ہمیں بہت ضرورت ہے کیونکہ جیسا انکی قوم کرتی تھی ان میں سے اکثر چیزیں وہ ہے جو آج کے دور میں ہمارے درمیان بھی پائی جاتی ہے تو ہم پہلے آپ کا تعارف پڑھتے ہے

خطیب الانبیاء حضرت شعیب علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول ، حضرت موسیٰ کلیم اللہ علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر کے صبری والد اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں سے تھے۔ آپ علیہ السلام مدین شہر میں رہتے تھے ۔ یہاں کے لوگ کفر و شرک ، بت پرستی اور تجارت میں ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے۔ آپ علیہ السلام نے انہیں احسن انداز میں توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع کیا۔ آپ علیہ السلام کو اصحاب ایکہ کی طرف بھی مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ بھی اہل مدین جیسے ہی گناہوں میں مبتلا تھے ، انہوں نے بھی حضرت شعیب علیہ السلام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی ۔

آپ علیہ السلام کا اسم گرامی شعیب “ ہے اور حسن بیان کی وجہ سے آپ کو ” خطیب الانبیاء “ کہا جاتا ہے۔ امام ترندی رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں : حضور پر نور صلی الله عليه واله وسلم جب حضرت شعیب علیه السلام کا تذکرہ کرتے تو فرماتے "وہ خطیب الانبیاء تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی قوم کو انتہائی احسن طریقے سے دعوت دی اور دعوت دینے میں لطف و مہربانی اور نرمی کو بطورِ خاص پیش نظر رکھا۔ ( نوادر الأصول، الأصل الخامس والستون والمائتان،1121/2، تحت الحدیث: 1439)حضرت شعیب علیہ السلام اور ان کی قوموں کا اجمالی ذکر قرآن پاک کی متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی تذکرہ درج ذیل 5 سورتوں میں ہے،

(1) سوره اعراف، آیت: 85 تا 93 (2) سورہ ہود، آیت: 84 تا 95

(3) سورہ حجر، آیت : 78، 79 ۔

(4) سوره شعراء، آیت : 176 تا 190

(5) سورۂ عنکبوت، آیت : 37،36۔

اللہ پاک سورہ ھود میں آپ کی نصحتوں کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمہ کنزالعرفان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا۔ انہوں نے کہا :اے میری قوم !اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہاراکوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو۔ بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہوں اور بیشک مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔ (پ 12، ھود، آیت نمبر 84)

اس آیت میں آپ کی اس نصیحت کو بیان کیا جارہا ہے جو آپ نے مدین والوں کو کی تھی اور وہ یہ تھی کہ آپ نے انہیں فرمایا ۔تم اللہ کی عبادت کرو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھراوں ، ناپ و تول میں کمی نہ کروں، میں تمہیں خوشحال دیکھ رہا ہو لیکن آپ نے فرمایا کہ مجھے خوف ہے عذاب کا جو تمہیں گھیر لے گا اور اس سے اگلی آیت کے اندر بھی اللہ پاک ان کی نصیحت کو تذکرہ کچھ یوں بیان فرماتا ہے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے۔

وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور اے میری قوم !انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پوراکرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو۔ (پ 12،س ھود،آیت نمبر 85)

اس آیت میں آپ اپنی قوم کو ناپ و تول میں انصاف کرنے ، لوگوں کو ان کی مکمل چیزیں دینے اور زمین میں فساد نہ کرنے کے متعلق نصیحت فرما رہیں ہے کیونکہ آپ کی قوم ناپ و تول وغیرہ میں کمی کرتی تھی اور اس سے اگلی آیت میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمہ کنزالعرفان: اللہ کا دیا ہوا جو بچ جائے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں تم پر کوئی نگہبان نہیں ۔

مزید ایک دوسرے مقام پہ آپ کی اپنی قوم کے لیے جو نصیحتیں کی تھی ان کو اللہ پاک نے قرآن پاک میں اس طرح ارشاد فرمایا وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ترجمہ کنزالعرفان:  اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ (پ19، الشعراء،آیت نمبر 180)

اس آیت میں آپ اپنی قوم کو ارشاد فرما رہے ہے کہ اے میری قوم میں جو تمہیں نصیحت کرتا ہو میں اس پر تم سے کوئی اجرت نہیں مانگتا بلکہ اس کا اجر جو ہے وہ اللہ پاک ہی عطاء فرمائے گا۔

تو میرے محترم اسلامی بھائیوں آج اگر ہم دیکھیں تو ہمیں کتنی ضرورت ہے ان نصیحتوں پہ عمل کرنے کی۔ کیا آج کے دور میں ہم ناپ و تول میں کمی نہیں کرتے ؟ ہم کتنے ہی لوگوں کو جانتے ہے جو پہلے مسلمان تھے پھر انہوں نے معاذاللہ توحید کا انکار کر دیا جنہیں ہم سیکولر ازم اور لادینیت وغیرہ کے نام سے جانتے ہے تو میرے محترم اسلامی بھائیوں یاد رکھو ایک موت سب کو آنی ہے اور اس موت کو پوری دنیا میں کوئی بھی شخص انکار نہیں کرتا، تو جب موت آنی ہے تو ہمیں اس کی تیاری بھی کرنی چاہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں موت کی تیاری کرنے اور ان نصحتوں پہ عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین


حضرت عیسی علیہ السَّلام:آپ عَلَيْهِ السَّلام اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے، برگزیدہ نبی اور اولو العزم یعنی عزم و ہمت والے رسول ہیں۔ آپ عَلَيْهِ السَّلام کی ولادت قدرت الہی کا حیرت انگیز نمونہ ہے ، آپ عَلَيْهِ السَّلام حضرت مریم رضی الله عنها سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے، بنی اسرائیل کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے، یہودیوں نے آپ علیہ السلام کے قتل کی سازش کی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے بچا کر آسمان پر زندہ اٹھا لیا اور اب قرب قیامت میں دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے ، ہمارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت پر عمل کریں گے ، صلیب توڑیں اور خنزیر و دجال کو قتل کریں گے ، چالیس سال تک زمین پر قیام فرمائیں گے ، پھر وصال کے بعد مدینہ منورہ میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حجرہ میں مدفون ہوں گے۔

نام و نسب:آپ علیہ السلام کا مبارک نام عیسی “ اور آپ کا نسب حضرت داؤد علیہ السلام سے جاملتا ہے۔

کنیت و لقب :آپ علیہ السلام کی کنیت " ابن مریم“ ہے اور تین القاب یہ ہیں۔ (1) مسیح۔ (2)كلمۃ الله (3) روح الله

نماز و زکوة:نماز و زکوۃ سے متعلق آپ علیہ السلام نے شیر خوارگی کی عمر ہی میں لوگوں سے فرمادیا تھا کہ وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا ترجمہ کنز العرفان: اور اس نے مجھے نماز اور زکوٰۃ کی تاکید فرمائی ہے جب تک میں زندہ رہوں 16.مریم31)

اور رہی مال کی زکوٰۃ تو یہ حضرت عیسی علیہ السلام پر فرض نہ تھی کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ انبیاء علیهم السلام پر زکوۃ فرض نہیں اور مذکورہ بالا آیت میں زکوۃ دینے کی تاکید حضرت عیسی علیہ السلام کے ذریعے آپ کی امت کو ہے، یعنی اللہ تعالی نے مجھے تاکید فرمائی کہ اپنی امت کو مال کی زکوۃ دینے کا حکم دوں۔

عاجزی و انکساری: آپ علیہ السلام تکبیر سے دور اور عاجزی و انکساری کے پیکر تھے ، جس کی گواہی خود رب کریم نے قرآن مجید میں بھی دی ہے ، چنانچہ ارشاد فرمایا: لَنْ یَّسْتَنْكِفَ الْمَسِیْحُ اَنْ یَّكُوْنَ عَبْدًا لِّلّٰهِ وَ لَا الْمَلٰٓىٕكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَؕ-وَ مَنْ یَّسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهٖ وَ یَسْتَكْبِرْ فَسَیَحْشُرُهُمْ اِلَیْهِ جَمِیْعًاِ ترجمہ کنز العرفان ۔نہ تومسیح اللہ کا بندہ بننے سے کچھ عارکرتا ہے اور نہ مقرب فرشتے اور جو اللہ کی بندگی سے نفرت اور تکبر کرے توعنقریب وہ ان سب کو اپنے پاس جمع کرے گا6.النساء172)

خود عجز و انکسار کے پیکر ہونے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیا کرتے تھے، چنانچہ ایک بار آپ علیہ السلام نے حواریوں سے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تمہیں افضل عبادت کرتے ہوئے نہیں دیکھتا ؟ انہوں نے عرض کی : اے روح الله علیہ السلام، افضل عبادت کیا ہے ؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کے لیے عاجزی اختیار کرنا۔

حواریوں کی تربیت : آپ علیہ السلام اپنے حواریوں کی تربیت کا خصوصی اہتمام فرماتے اور موقع محل کی مناسبت سے انہیں نصیحت کرتے رہتے تھے ، چنانچہ ایک بار آپ علیہ السلام نے انہیں نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو ورنہ تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور جس کا دل سخت ہو وہ اللہ تعالی سے دور ہو جاتا ہے اور اسے اس کا علم تک نہیں ہوتا اور تم لوگوں کے گناہوں کو ایسے مت دیکھو جیسے تم آقا ہو اور اپنے گناہ یوں دیکھو گویا کہ تم غلام ہو۔ لوگ دو طرح کے ہیں (1) عافیت والے۔ (2) مصیبت میں مبتلا۔ اس مصیبت زدوں پر ان کی مصیبت کے وقت رحم کرو اور عافیت والوں کو دیکھ کر اللہ تعالی کی حمد کرو۔( سيرت الانبياء)

زہد و قناعت: حضرت عیسی علیہ السلام خود بھی دنیا سے بہت زیادہ بے رغبت تھے ، کبھی بھی دنیوی نعمتوں کو خاطر میں نہ لاتے، یہاں تک کہ آپ علیہ السلام نے ایک ہی اونی جبہ میں اپنی زندگی کے اس سال گزار دیئے، جب وہ جبہ کہیں سے پھٹ جاتا تو اسے باریک رتی سے باندھ لیتے یا پیوند لگا لیتے۔

حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا: میں نے دنیا کو منہ کے بل گرایا اور اس کی پشت پر سوار ہوا، میرا نہ کوئی بیٹا ہے جس کے مرنے کا مجھے غم ہو اور نہ گھر ہے جس کی بربادی کا خوف ہو۔ لوگوں نے عرض کی : کیا ہم آپ کے لیے گھر نہ بنادیں ؟ ارشاد فرمایا: سر راہ گھر بنادو۔ عرض کی گئی: وہاں تو یہ قائم نہ رہے گا، لوگوں نے پھر عرض کی : کیا ہم آپ کیلئے زوجہ کا انتظام نہ کر دیں ؟ فرمایا: میں ایسی بیوی کا کیا کروں گا جو مر جائے گی۔( سيرت الانبياء)

حضرت عبید بن عمیر سے مروی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام صبح کے کھانے سے رات اور رات کے کھانے سے صبح کے لیے کچھ نہ بچاتے اور ارشاد فرماتے : ہر دن کا رزق اس کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ بالوں سے بنا ہوا لباس پہنتے، درختوں پر لگے ہوئے پھل پتے وغیر ہو کھا لیتے اور جہاں رات ہو جاتی وہیں آرام فرما لیتے تھے۔ (سيرت الانبياء )

آپکی نصیحت امیز گفتگو:(1) احسان یہ نہیں کہ تو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ کیا کیونکہ یہ تو اچھے سلوک کے بدلے میں اچھا سلوک کرنا ہے ، ہاں احسان یہ ہے کہ تو اس کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرے جس نے تیرے ساتھ بر اسلوک کیا۔

(2) جس کا جھوٹ زیادہ ہو گا اس کا حسن و جمال چلا جائے گا، جو لوگوں کے سامنے گڑ گڑائے گا اس کی عزت و مقام ختم ہو جائے گا، جو زیادہ پریشان رہے گا اس کا جسم بیمار پڑ جائے گا اور جس کے اخلاق برے ہوں گے وہ اپنی جان کو تکلیف میں ڈالے گا۔

(3) عمدہ لباس دل کے تکبر کی علامت ہے۔ (یعنی علامت ہو سکتی ہے۔ )

(4) جنت کی محبت اور جہنم کا خوف، مصیبت پر صبر کرنے کی تلقین کرتا ہے اور بندے کو دنیوی لذات، نفسانی

خواہشات اور گناہوں سے دور کرتا ہے۔

(5) اپنی نظر کی حفاظت کرو، کیونکہ یہ دل میں شہوت کا بیج ہوتی ہے اور فتنہ کے لئے یہی کافی ہے۔

(6) ان لوگوں کے ساتھ بیٹھا کرو جنہیں دیکھنا تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد دلائے ، جن کا کلام تمہارے نیک اعمال

میں اضافہ کرے اور جن کا عمل تمہیں آخرت کی جانب راغب کر دے۔

(7) تم دنیا کو آقا نہ بناؤ ورنہ وہ تمہیں اپنا غلام بنالے گی، اپنا خزانہ اس کے پاس جمع کروا دو جو اسے ضائع نہیں ہونے دے گا کیونکہ دنیوی خزانے والے کو اپنے مال پر آفت و مصیبت آنے کا ڈر رہتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ کے پاس خزانہ جمع کروانے والا اس پر آفت آنے سے بے خوف ہو جاتا ہے۔

(8) گناہ کی بنیاد دنیا کی محبت ہے اور عور تیں شیطان کی رسیاں ہیں (جن کے ذریعے وہ نفسانی خواہشات میں مبتلا لوگوں کا شکار کرتا ہے) اور شراب ہر شر و فساد کی چابی ہے۔ ( (سيرت الانبياء)

(9) وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو اپنی آخرت کی جانب رواں دواں ہے (یعنی موت کی طرف بڑھتا جا رہا ہے) لیکن اس کی توجہ اپنی دنیا کے راستے پر ہے۔ وہ علم والوں میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو صرف معلومات کے لیے علم

حاصل کرے نہ کہ اس پر عمل کرنے کے لیے ۔ ( (سيرت الانبياء ص810)

اللہ پاک ہمیں تمام انبیاء کرام علیھم السلام کا صدقہ نیک اور صالح بنائے اور ان پر لیے گئے انعامات میں سے ہمیں بھی اپنی رحمت کے ساتھ حصہ عطا فرمائے آمین


نسل انسانی میں فرد اول سے ہی انسانوں کی اصلاح و تربیت کا عمل جاری و ساری ہے۔ ہر دور میں اسکے حالات کے تقاضوں کے مطابق رب تعالیٰ تربیت انسانی کے لیے اپنے معزز بندوں کا چناوُ کرتا رہا ہے۔ جنہیں عالم انسانیت انبیاء جیسے مقدس لفط سے جانتی ہے۔ انھیں انبیاء کرام علیھم السلام میں سے اللہ تعالی کے ایک مقدس پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ چونکہ ان کا مقصد بھی نفوس بشریہ کی اصلاح کرنا تھا اسی کے پیش نظر آپ نے وعظ و نصیحت کی۔ جن میں سے بعض کو قرآن پاک میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ جیسا کی رب تعالیٰ نے فرمایا:

وَاِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔

ایک مسلمان کا سب سے بنیادی مقصد اللہ تعالی کی عبادت کرنا ہے۔ جس کے لیے اس کو پیدا کیا گیا ہے۔ تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی بھی رب تعالیٰ کی بندگی کرنے کا حکم دیا تاکہ دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل ہو سکے۔ رب العزت کی بندگی کے بجائے انسانی عقول و خواہش پر عمل کرنے سے سیدھی راہ نہین ملتی بلکہ سیدھا راستہ تو صرف یہی ہے۔ کہ رب تعالیٰ کی بندگی کی جائے۔

ایک اور مقام جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں نے دسترخوان کا مطالبہ کیا تو آپ نے اس کے مقابلے میں انھیں ڈرنے کا حکم دیا جیسا کہ رب تعالی فرماتا ہے۔ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(112) ترجمۂ کنز الایمان:جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔

یہاں پر اللہ تعالی سے حکم دینے کا مطلب یہ تھا کہ نفسانی خواہشات کو ترک کر دیں۔ اور صرف جو چیزیں میسر ہیں۔ انھیں پر ہی اکتفاء کریں۔

اس سے آگے ایک اور مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف کچھ نصیحتیں کی بلکہ قوم کو ان کی نجات کے تما م ذرائع بھی بتائے کے مستقبل میں وہ کیسے زندگی گزاریں گے۔ جب نبوت سے دوری ہو گی۔ تو وہ حق کو کیسے پہچان کر اس پر عمل پیرا ہوں گئے۔ جیسا کی رب العزت نے فرمایا:

وَ اِذ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(6) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا : اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

آپ نے فرمایا کی میں اپنے سے پہلی کتب کی تصدیق کرتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ تم بھی ان کی تصدیق کرو۔ کیونکہ راہنما ہوتا ہی وہ ہے جو پہلے راستے پر خود چلے پھر قوم کو چلنے کا حکم دے اور وہ قوم کے لے آئیڈیل ہوتا ہے۔ اور یہ نصیحت عملی ہے ۔

اس کے بعد آپ نے اپنی قوم پر سب سے بڑا احسان کیا کہ میں تم کو سب سے بڑی خوشخبری دیتا ہوں کہ میرے اللہ تعالی کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما ہوں گئے۔ تم ان کی پیروی کرنا اسی میں تمھاری نجات ہو گی۔ وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمۂ کنز الایمان:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔

اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنی قوم کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ تم میرے حکم کی تعمیل بھی کرو۔ نبی ماننے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ بندہ اقرار تو انکی نبوت کا کرے مگر ان کی تعلیمات سے روگردانی کرے۔ بلکہ ماننے کا مطلب یہ ہے اقرار کے ساتھ ساتھ اپنے راہنما پیغمبر کی تعلیمات پر عمل بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی پیروی کرنے کی نصیحت فرمائی۔

اللہ تعالی ہمیں وہ مشترکہ تعلیمات جو امت محمدیہ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ہیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبیین صلی اللہ علیہ وسلم۔


اللہ تعالی نے اپنی مخلوق کی اصلاح اور ترقی کےلئے انبیاء کرام علیھم السلام کو بھیجا اور نبیوں نے اپنی قوم کو نصیحتیں بھی کی ہے ان انبیاء کرام علیھم السلام میں سے حضرت عیسی علیہ السلام بھی ہیں جن کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمایا : وَ لَمَّا جَآءَ عِیْسٰى بِالْبَیِّنٰتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَ لِاُبَیِّنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِیْ تَخْتَلِفُوْنَ فِیْهِۚ-فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ:اور جب عیسیٰ روشن نشانیاں لایا اس نے فرمایا میں تمہارے پاس حکمت لے کر آیا اور اس لیے میں تم سے بیان کردوں بعض وہ باتیں جن میں تم اختلاف رکھتے ہو تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (آیت نمبر 63 سورہ زخرف)

وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(6) ترجمۂ کنز الایمان :اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَارَ اللّٰهِ كَمَا قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْۤ اِلَى اللّٰهِؕ-قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰهِ فَاٰمَنَتْ طَّآىٕفَةٌ مِّنْۢ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ وَ كَفَرَتْ طَّآىٕفَةٌۚ-فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰى عَدُوِّهِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰهِرِیْنَ(14) ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو دین خدا کے مددگار ہو جیسے عیسیٰ بن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کون ہے جو اللہ کی طرف ہو کر میری مدد کریں حواری بولے ہم دین خدا کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل سے ایک گروہ ایمان لایا اور ایک گروہ نے کفر کیا تو ہم نے ایمان والوں کو ان کے دشمنوں پر مدد دی تو غالب ہوگئے۔

ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ ﳔ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةًؕ- وَ رَهْبَانِیَّةَ-ﰳابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَاۚ-فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْۚ-وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ(۲۷)

ترجمۂ کنز الایمان:پھر ہم نے ان کے پیچھے اسی راہ پر اپنے اَور رسول بھیجے اور اُن کے پیچھے عیسیٰ بن مریم کو بھیجا اور اسے انجیل عطا فرمائی اور اس کے پیرووں کے دل میں نرمی اور رحمت رکھی اور راہب بننا تو یہ بات انہوں نے دین میں اپنی طرف سے نکالی ہم نے ان پر مقرر نہ کی تھی ہاں یہ بدعت انہوں نے اللہ کی رضا چاہنے کو پیدا کی پھر اُسے نہ نباہا جیسا اس کے نباہنے کا حق تھا تو ان کے ایمان والوں کو ہم نے ان کا ثواب عطا کیا اور ان میں بہتیرے فاسق ہیں ۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(28) ترجمۂ کنز الایمان:اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ وہ اپنی رحمت کے دو حصے تمہیں عطا فرمائے گا اور تمہارے لیے نور کردے گا جس میں چلو اور تمہیں بخش دیگا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔


پچھلے دنوں برمنگھم یوکے میں اسلامی بھائیوں کے ساتھ میٹ اپ ہوا جس میں ذمہ داران نے شرکت کی۔  دعوت اسلامی ویلز اور ایف جی آر ایف یوکے کے نگران سید فضیل رضا عطاری نے اعلیٰ برٹش ایوارڈ کے حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔

دعوت اسلامی ویلز اور ایف جی آر ایف یوکے کے نگران سید فضیل رضا عطاری نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ دعوت اسلامی نے ہمیں لوگوں کی مدد کرنے کا پلیٹ فارم فراہم کیا جس کی وجہ سے اعلیٰ برٹش ایوارڈ کا حصول ممکن ہوا۔ انہوں نے دعوتِ اسلامی اور امیر اہل سنت کو دینی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا اور شرکا کو دینی کام کرنے کی ترغیب بھی دلائی۔


نصیحت کا لغوی معنی ”اچھی صلاح، نیک مشورہ “ کے ہیں۔ اسی کا ایک دوسرا لفظ ہے نصیحت آمیز یعنی عبرت دلانے والی بات۔ (فیروزاللغات،ص1430)

نصیحت قولی بھی ہوتی ہے اور فعلی بھی۔ لوگوں کو اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندیدہ باتوں کی طرف بلانے اور ناپسندیدہ باتوں سے بچانے اور دل میں نرمی پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ وعظ و نصیحت بھی ہے۔وعظ و نصیحت دینی، اخلاقی، روحانی اور معاشرتی زندگی کے لئے ایسے ہی ضروری ہے جیسے طبیعت خراب ہونے کی صورت میں دوا ضروری ہے۔یہی وجہ ہے کہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام اپنی قوموں وعظ و نصیحت فرماتے رہے، حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے بھی اپنی قوم کو مختلف مواقع پر مختلف انداز میں نصیحتیں فرمائیں جن کا ذکر قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے ان میں سے چند درج ذیل ہیں:

(1)اللہ پاک سے ڈرنے کی نصیحت:حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَاَطِیْعُوْنِ(۵۰)ترجمۂ کنزالایمان: تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔ (پ3، اٰل عمرٰن:50)

(2)اللہ کی عبادت اور سیدھے راستے کی نصیحت:قراٰنِ کریم میں حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی ایک نصیحت کا ذکر کچھ یوں ملتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(۵۱) ترجَمۂ کنزالعرفان: بیشک اللہ میرااور تمہارا سب کا رب ہے تو اسی کی عبادت کرو۔ یہی سیدھا راستہ ہے۔ (پ3، اٰل عمرٰن: 51)

(3)شرک کی مذمت کرتے ہوئے اس سے بچنے کی نصیحت: حضرت عیسیٰ علیہ السّلام نے اپنی قوم کو نصیحت فرمائی کہ ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں اللہ پاک کے ساتھ شرک کرنے والوں پر اللہ پاک نے جنت حرام اورجہنم حلال فرما دی ہےاور اسی طرح ظالموں کا بھی کوئی مددگار نہیں جیسےارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَقَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَرَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَمَاْوٰىهُ النَّارُؕ- وَمَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(۷۲)﴾ترجَمۂ کنزُ الایمان: اور مسیح نے تو یہ کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب اور تمہارا رب بے شک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنّت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں۔ (پ6، المآئدۃ: 72)

(4)مستحق عبادت صرف اللہ پاک ہے: مستحق عبادت وہی ہوسکتا ہے جو نفع نقصان وغیرہ ہر چیز پر ذاتی قدرت و اختیار رکھتا ہو اورجو ایسا نہ ہو وہ مستحق عبادت نہیں ہوسکتا جیسا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کا قول قراٰنِ پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے: ﴿قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا یَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًاؕ-وَاللّٰهُ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۷۶) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ کیا اللہ کے سوا ایسے کو پوجتے ہو جو تمہارے نقصان کا مالک نہ نفع کا اور اللہ ہی سنتا جانتا ہے۔ (پ6، المآئدۃ: 76)

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی مبارک نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیا سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


سیرتِ حضرت سیدنا شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ

محمد عمر فیاض عطاری مدنی

سن 1101 ہجری میں وادیِ مہران کے تاریخی شہر ہالہ میں عراق سے آکر بسنے والے سادات گھرانے میں وہ چراغ روشن ہوا جسے دنیا شاہ عبداللطیف بھٹائی کے نام سے جانتی ہے۔

حضرت سیدنا شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شمار بارہویں صدی ہجری کے عظیم صوفی بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش 1101ہجری مطابق 1689سن عیسوی میں ہالا حویلی ضلع مٹیاری سندھ پاکستان میں ہوئی۔ (تذکرہ صوفیائے سندھ، ص 175)

آپ کے والد گرامی کا نام سید حبیب شاہ رحمۃ اللہ علیہ ہے۔ان کا شما ر بھی اپنے زمانے کے برگزیدہ بندوں میں ہوتا تھا۔ سید حبیب شاہ ہالا حویلی، سندھ میں رہتے تھے لیکن شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت کے کچھ ہی دن بعد اپنے آبائی گاؤں کو چھوڑ کر کوٹری میں آکر رہنے لگے۔ (تذکرہ اولیائے سندھ، ص 196)

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والدِ محترم سید حبیب شاہ رحمۃ اللہ علیہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد پانچ سال کی عمر میں آخوند نور محمد کی مشہور درسگاہ میں تحصیل علم کے لئے بھیج دیا گیا جس کے سربراہ نور محمد صاحب تھے اور ان سے آپ نے مزید علوم وفنون کی تعلیم حاصل کی۔ (تذکرۂ عبداللطیف بھٹائی، ص 25)

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نہ صرف اپنی زبان پر عبور حاصل تھا بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی اثر آفرینی ہر سننے والے کو مسحور کردیتی ہے ۔ (تذکرۂ عبداللطیف بھٹائی، ص 25)

آپ رحمۃ اللہ علیہ روزانہ کئی کئی میل پیدل چل کر سفر کرتے اور راستے میں جتنے بھی گاؤں آتے، قافلے ملتے یا کوئی بھی شخص ملتا تو اس کو دین کی دعوت دیا کرتے۔ آپ نے سندھ کے کئی علاقے پیدل گھومے اور لوگوں میں علمی جواہر لُٹائے۔ (تذکرۂ عبداللطیف بھٹائی، ص 33)

آپ کے کلام کا مجموعہ ”شاہ جو رسالو“ کے نام سے مشہور ہے جو کہ نہایت عقیدت واخلاص کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا ہے۔

آپ نے عبادت و ریاضت کے لئے جنگل میں ایک ایسی جگہ کا انتخاب کیا جو ایک ٹیلے کی شکل میں تھی اور چاروں طرف سے خاردار جھاڑیوں سے گھری ہوئی تھی۔ چونکہ سندھی زبان میں چونکہ ٹیلے کو ”بھٹ“ کہا جاتا ہے اس لئے آپ بھٹائی کہلائے۔ (تذکرہ اولیائے پاکستان، ص162)

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال کی عمر میں 14 صفر المظفر 1165سن ہجری مطابق 1752سن عیسوی میں بھٹ شاہ ضلع مٹیاری میں وصال فرمایا اور وہیں آپ کا مزارِ پُرانوار موجود ہے ۔ (تذکرہ سید عبداللطیف بھٹائی، ص41)

آپ کا عرس ہر سال نہایت دھوم دھام سے منایا جاتا ہے اور لاکھوں عقیدت مند پاکستان کے کونے کونے سے حاضر ہوکر نذرانہ عقیدت پیش کرتے ہیں اور روحانی فیض پاتے ہیں۔

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو


سندھ کے مشہور صوفی بزرگ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃُ اللہِ علیہ کے عرس کے سلسلے میں گزشتہ رات 18 اگست 2024ء کو فیضانِ مدینہ بھٹ شاہ میں عظیم الشان محفلِ نعت منعقد کی گئی جس میں دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوری کے رکن حاجی اطہر عطاری نے خصوصی بیان کیا۔

اجتماع میں بڑی تعداد میں ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی اور دیگر عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

حاجی اطہر عطاری نے بیان کرتے ہوئے حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃُ اللہِ علیہ کی سیرت پر روشنی ڈالی اورعاشقانِ رسول کو بزرگانِ دین کی سیرت کو اپنانے، نمازوں کا اہتمام کرنےاور دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے کا ذہن دیا۔

واضح رہے کہ حضرت سیدنا شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا شمار بارہویں صدی ہجری کے عظیم صوفی بزرگوں میں ہوتا ہے۔ آپ کی پیدائش 1101ہجری مطابق 1689سن عیسوی میں ہالا حویلی ضلع مٹیاری سندھ پاکستان میں ہوئی۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ کو نہ صرف اپنی زبان پر عبور حاصل تھا بلکہ عربی، فارسی، ہندی اور دوسری علاقائی زبانوں میں بھی خاصی دسترس حاصل تھی۔یہی وجہ ہے کہ آپ کے کلام کی اثر آفرینی ہر سننے والے کو مسحور کردیتی ہے ۔

حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ نے 63 سال کی عمر میں 14 صفر المظفر 1165سن ہجری مطابق 1752سن عیسوی میں بھٹ شاہ ضلع مٹیاری میں وصال فرمایا اور وہیں آپ کا مزارِ پُرانوار موجود ہے ۔ 


دین اسلام ہمارا مکمل دین ہے جس نے ہمیں پیدا ئش سے لیکر وفات تک  زندگی گزارنے کے تمام اصول بیان کردیئے ہیں۔ زندہ رہنے اور قوت حاصل کرنے کے لئے انسانوں کو روزانہ کھانا کھانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ دین اسلام نے ہمیں کھانا کس طرح کھانا ہے، کھانے میں کس طرح برکت ہوگی اور کس طرح کھانے سے کیا کیا فوائد حاصل ہوگی تمام طریقے سمجھادیئے ہیں۔

کھانے میں کس طرح برکت ہوگی؟ اس طرح کی معلومات سے عاشقانِ رسول کو آگاہی فراہم کرنے کے لئے شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے اس ہفتے 17 صفحات کا رسالہ کھانے میں برکت پانے کے طریقےپڑھنے / سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/ سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے نوازاہے۔

دعائے عطار

یاربّ کریم! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”کھانے میں برکت پانے کے طریقے“ پڑھ یا سن لے اُس کو ہمیشہ کھانے کا احترام کرنا اور حلال کھانا نصیب فرما اور اس کی ماں باپ سمیت بے حساب مغفرت کر۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ آڈیو میں سننے اور ڈاؤن لوڈ کرنے کے لئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کیجئے:

Download


لوگوں کی اصلاح کرنے والی عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے تحت 3 اگست 2024ء کو  آن لائن ایک مدنی مشورہ منعقد ہوا جس میں پاکستان مجلسِ مشاورت کی نگران اور عالمی مجلسِ مشاورت کی اراکین اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

معلومات کے مطابق اس مدنی مشورے میں دعوتِ اسلامی کی نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے مختلف امور پر کلام کیا بالخصوص پاکستان بھرے کی اسلامی بہنوں کے لئے کراچی میں ہونے والے اجتماع کے متعلق بھی مشاورت کی۔

بعدازاں تمام ذمہ دار اسلامی بہنوں نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں ترقی کے لئے اپنی اپنی رائے پیش کی اور آئندہ کے اہداف لئے۔


ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ گرلز دعوتِ اسلامی کے تحت3 اگست 2024ء کو  ایک مدنی مشورہ منعقد کیا گیا جس میں ملک سطح کی ذمہ دار اسلامی بہنوں سمیت دیگر نگرانِ پاکستان مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے شرکت کی۔

مدنی مشورے کے دوران نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں کے 8 دینی کاموں کا جائزہ لیتے ہوئے کوئٹہ شیڈول کے متعلق گفتگو کی نیز کوئٹہ میں قائم ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں کس طرح دین کا کام بڑھایا جائے اس پر تبادلۂ خیال کیا۔


3 اگست 2024ء کو دعوتِ اسلامی کے تحت کراچی سٹی کے علاقے PIB کالونی میں قائم اسلامی بہنوں کے مدنی مرکز فیضانِ صحابیات میں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت، نگرانِ کراچی سٹی اور کراچی سٹی کی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ذمہ دار اسلامی بہن کی آمد ہوئی۔

اس موقع پر نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے نگرانِ کراچی سٹی اور ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ذمہ دار کے ہمراہ فیضانِ صحابیات شجرکاری کرتے ہوئے پودے لگائے نیز پاکستان سمیت دعوتِ اسلامی کی ترقی کے لئے دعا کروائی۔