حضرت سیدنا امام فخرالدین رازی رحمۃ  اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :       "وأما الموعظة فهي الكلام الذي يفيد الزجر عما لا ينبغي في طريق الدين. یعنی نصیحت وہ کلام ہےجو راہ راست میں ناروا اور نامناسب باتوں سے روکے"(1)"۔(تفسیر کبیر،سورہ آل عمران تحت الآیہ 138 ج 3 ص 37)   وعظ و نصیحت کی اہمیت و افادیت ایک مسلّمہ حقیقت ہے ۔ہر دور میں اس کی ضرورت پیش آئی ہے ۔اس کے فوائد و ثمرات بے شمار ہیں۔ رب العالمین قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ (سورہ نخل آیت نمبر 125) ترجمۂ کنز الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکی تدبیر اور اچھی نصیحت سے اور ان سے اس طریقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو "

وعظ و نصیحت حضرات انبیاء کرام ومرسلین عظام(على نبينا وعليهم الصلاة والسلام) کی عظیم سنت ہے ۔ان برگزیدہ ہستیوں کو اللہ پاک نے انسانیت کی ھدایت کے لئے بھیجا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان میں سے ایک برگزیدہ ہستی ہیں۔آپ نے اس سنت کو کمال کی بلندیوں تک پہنچایا۔کیوں نہ ہو کہ اللہ پاک نے آپ کو جوامع الکلم عطا فرمائے یعنی ایسے کلمات جو عبارت کے لحاظ سے مختصر اور معانی و مطالب کے لحاظ سے جامع ہوں۔قرآن کریم کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی قوم کو کی جانے والی چند نصیحتیں پیش کرتا ہوں آئیے پڑھیئے اور آپ بھی نصیحت حاصل کیجئے۔

1.میں اللہ کا بندہ ہوں: حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ  الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے بعد حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا انہیں  اُٹھائے ہوئے اپنی قوم کے پاس آئیں  ، جب لوگوں  نے حضرت مریم رَضِیَ  اللہ  تَعَالٰی  عَنْہا کو دیکھا کہ ان کی گود میں  بچہ ہے تو وہ روئے اور غمگین ہوئے ، کیونکہ وہ صالحین کے گھرانے کے لوگ تھے اور کہنے لگے : اے مریم! بیشک تم بہت ہی عجیب و غریب چیز لائی ہو۔ اے ہارون کی بہن! نہ تو تیرا باپ عمران کوئی برا آدمی تھا اور نہ ہی تیری ماں  حنہ بدکار عورت تھی تو پھر تیرے ہاں  یہ بچہ کہاں  سے ہو گیا۔(خازن، مریم، تحت الآیۃ: 27،28)

اس وقت حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی ماں کی برأت کی گواہی دی اور فرمایا جسے اللہ پاک نے قرآن مجید میں یوں بیان فرمایا:قَالَ اِنِّیْ عَبْدُ اللّٰهِ ﳴ اٰتٰىنِیَ الْكِتٰبَ وَ جَعَلَنِیْ نَبِیًّا۔ وَّ جَعَلَنِیْ مُبٰرَكًا اَیْنَ مَا كُنْتُ۪-وَ اَوْصٰنِیْ بِالصَّلٰوةِ وَ الزَّكٰوةِ مَا دُمْتُ حَیًّا(سورہ مریم،آیت نمبر 31،30) ترجمۂ کنز الایمان:"بچہ نے فرمایا میں ہوں اللہ کا بندہ اس نے مجھے کتاب دی اور مجھے غیب کی خبریں بتانے والا (نبی) کیا۔اور اس نے مجھے مبارک کیا میں کہیں ہوں اور مجھے نماز و زکوٰۃ کی تاکید فرمائی جب تک جیوں" ۔

2.میں اللہ کی طرف سے بھیجا گیا رسول ہوں: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قوم بنی اسرائیل کی طرف بھیجا۔ انہوں نے بنی اسرائیل کی طرف اپنی نبوت اور معجزات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا جسے قرآن پاک میں کچھ اس طرح ذکر کیا گیا: وَ رَسُوْلًا اِلٰى بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُكُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ اَنِّیْۤ اَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطِّیْنِ كَهَیْــٴَـةِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَكُوْنُ طَیْرًۢا بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُبْرِئُ الْاَ كْمَهَ وَ الْاَبْرَصَ وَ اُحْیِ الْمَوْتٰى بِاِذْنِ اللّٰهِۚ-وَ اُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَاْكُلُوْنَ وَ مَا تَدَّخِرُوْنَۙ-فِیْ بُیُوْتِكُمْؕ-اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیَةً لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(سورہ آل عمران ،آیت نمبر 49)

ترجمۂ کنز الایمان:اور رسول ہوگا بنی اسرائیل کی طرف یہ فرماتا ہوا کہ میں تمہارے پاس ایک نشانی لایا ہوں تمہارے رب کی طرف سے کہ میں تمہارے لئے مٹی سے پرند کی سی مورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ فوراً پرند ہوجاتی ہے اللہ کے حکم سے اور میں شفا دیتا ہوں مادر زاد اندھے اور سپید داغ والے کو اور میں مُردے جِلاتا ہوں اللہ کے حکم سے اور تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر رکھتے ہو بیشک ان باتوں میں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو"۔

3.میں اپنے بعد تمہیں ایک نبی کی خوشخبری سناتا ہوں: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو نبئ کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم کے آنے کی بشارت دی۔قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ-فَلَمَّا جَآءَهُمْ بِالْبَیِّنٰتِ قَالُوْا هٰذَا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ(سورہ صف، آیت نمبر 6) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے پھر جب احمد ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر تشریف لائے بولے یہ کھلا جادو ہے"۔

  4. ایک رب کی عبادت کرو اور شرک نہ کرو: حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو ایک رب  کی عبادت کرنے کا حکم دیا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانے سے بھی منع فرمایا ۔قرآن مجید میں ہے: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ هُوَ الْمَسِیْحُ ابْنُ مَرْیَمَؕ-وَ قَالَ الْمَسِیْحُ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اعْبُدُوا اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبَّكُمْؕ-اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ(سورۃالمآئدہ،آیت نمبر72)

ترجمۂ کنز الایمان:"بیشک کافر ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ اللہ وہی مسیح مریم کا بیٹا ہے اور مسیح نے تو یہ کہا تھا اے بنی اسرائیل اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب اور تمہارا رب بیشک جو اللہ کا شریک ٹھہرائے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کردی اور اس کا ٹھکانا دوزخ ہے اور ظالموں کا کوئی مددگار نہیں"۔

5.صراط مستقیم:ایک اور مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو مخاطب کر کے فرمایا جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نےاس طرح  نقل فرمایا ہے کہ: ”اِنَّ اللہَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہ ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْم“(سورہ آل عمران ،آیت نمبر 51) ترجمۂ کنز الایمان: بلا شبہ، اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے، تو اسی کی عبادت کرو، یہی سیدھا راستہ ہے۔“

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا یہ فرمانا اپنی عَبْدِیَّت یعنی بندہ ہونے کا اقرار اور اپنی ربوبیت یعنی رب ہونے کا انکار ہے اس میں عیسائیوں کا رد ہے۔ گویا فرمایا کہ  میں اتنی قدرتوں اور علم کے باوجودبھی خدا نہیں بلکہ خدا کا بندہ ہوں۔

اللہ پاک ہمیں بھی ان تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم ۔