قرآن مجید اللہ تعالیٰ نے بہت سے انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر فرمایا ہے اور قرآن مجید میں ان انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات اور واقعات بیان فرمائے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بھی قرآن مجید میں ذکر فرمایا اور صفات بیان فرمائی ہیں آئیے ان میں سے چند آیتیں مبارکہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

(1)۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا قیامت کی خبر ہونا: وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ فَلَا تَمْتَرُنَّ بِهَا وَ اتَّبِعُوْنِؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(61) ترجمۂ کنز الایمان: اور بیشک عیسیٰ قیامت کی خبر ہے تو ہرگز قیامت میں شک نہ کرنا اور میرے پیرو ہونا یہ سیدھی راہ ہے۔( حوالہ سورتہ الزخرف آیت نمبر 61)

تفسیر : {وَ اِنَّهٗ لَعِلْمٌ لِّلسَّاعَةِ: اور بیشک عیسیٰ ضرورقیامت کی ایک خبر ہے۔} اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ارشاد فرمایا کہ آپ فرما دیں : ’’حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا آسمان سے دوبارہ زمین پر تشریف لانا قیامت کی علامات میں سے ہے،تو اے لوگو! ہرگز قیامت کے آنے میں شک نہ کرنا اور میری ہدایت اور شریعت کی پیروی کرنا، یہ سیدھا راستہ ہے جس کی میں تمہیں دعوت دے رہا ہوں

2۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کہنا کہ اللہ تعالیٰ میرا اور تیرا رب ہے:وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-هٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ(36) ترجمۂ کنز الایمان:اور عیسیٰ نے کہا بیشک اللہ رب ہے میرا اور تمہارا تو اس کی بندگی کرو یہ راہ سیدھی ہے۔( حوالہ سورتہ مریم آیت نمبر 36)

تفسیر :

{وَ اِنَّ اللّٰهَ رَبِّیْ وَ رَبُّكُمْ:اور بیشک اللہ میرا اور تمہارا رب ہے۔} اس آیت میں مذکور کلام حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے، چنانچہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نےفرمایا: بیشک اللہ عَزَّوَجَلَّ میرا اور تمہارارب ہے، اس کے سوا اور کوئی رب نہیں ، تو تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اللہ تعالیٰ کے جو اَحکامات میں نے تم تک پہنچائے یہ ایسا سیدھا راستہ ہے جو جنت کی طرف لے کر جاتا ہے

3۔ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اگر ایمان لائے ہو تو:اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ یٰعِیْسَى ابْنَ مَرْیَمَ هَلْ یَسْتَطِیْعُ رَبُّكَ اَنْ یُّنَزِّلَ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِؕ-قَالَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(112) ترجمۂ کنز الایمان: جب حواریوں نے کہا اے عیسیٰ بن مریم کیا آپ کا رب ایسا کرے گا کہ ہم پر آسمان سے ایک خوان اُتارے کہا اللہ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔( حوالہ سورتہ المائدہ آیت نمبر 112)

تفسیر :

{ اِذْ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ : جب حواریوں نے کہا۔} حواریوں نے حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے عرض کی کہ کیا آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا رب عَزَّوَجَلَّ ہم پر آسمان سے نعمتوں سے بھرپور دسترخوان اتارے گا۔ ان کی مراد یہ تھی کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بارے میں آپ کی دعا قبول فرمائے گا؟ یہ مراد نہیں تھی کہ کیا آپ کا رب عَزَّوَجَلَّ ایسا کرسکتا ہے یا نہیں ؟ کیونکہ وہ حضرات اللہ تعالیٰ کی قدرت پر ایمان رکھتے تھے۔ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو تاکہ یہ مراد حاصل ہو جائے۔ بعض مفسرین نے کہا: اس کے معنیٰ یہ ہیں کہ تمام اُمتوں سے نرالا سوال کرنے میں اللہ عَزَّوَجَلَّ سے ڈرو یا یہ معنی ہیں کہ جب اللہ عَزَّوَجَلَّ کی کمالِ قدرت پر ایمان رکھتے ہو تو ایسے سوال نہ کرو جن سے تَرَدُّد کا شبہ گزر سکتا ہو

4۔ فرشتوں کا حضرت مریم رحمۃ اللہ تعالیٰ کو ایک کلمہ کی بشارت دینا :اِذْ قَالَتِ الْمَلٰٓىٕكَةُ یٰمَرْیَمُ اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُۙ-اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَ(45) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب فرشتو ں نے مریم سے کہا، اے مریم اللہ تجھے بشارت دیتا ہے اپنے پاس سے ایک کلمہ کی جس کا نام ہے مسیح عیسیٰ مریم کا بیٹا رُو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں اور قرب والا۔ ( حوالہ سورتہ آل عمران آیت نمبر 45)

تفسیر :

{اِنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكِ: بیشک اللہ تجھے بشارت دیتا ہے۔} حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کلمۃُ اللہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسم شریف کی پیدائش کلمہ’’ کُن‘‘ سے ہوئی، باپ اور ماں کے نطفہ سے نہ ہوئی۔ رب تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰى عِنْدَ اللّٰهِ كَمَثَلِ اٰدَمَؕ-خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ كُنْ فَیَكُوْنُ(آل عمران:۵۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بےشک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی طرح ہے۔ اُسے مٹی سے پیدا کیا پھر اسے فرمایا ’’ہوجا‘‘ تو وہ ہوگیا۔

حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام کے بارے میں فرمایا کہ وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کا کلمہ ہیں ، نام مبارک عیسیٰ ہے، لقب مسیح ہے کیونکہ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مَس کرکے یعنی چھو کر شفا دیتے تھے، دنیا و آخرت میں عزت و وجاہت والے ہیں اور رب کریم عَزَّوَجَلَّ کے مقرب بندے ہیں۔ اس آیت میں حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی ،اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَ السَّلَام بغیر باپ کے صر ف ماں سے پیدا ہوئے ہیں کیونکہ اگر آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا کوئی باپ ہوتاتو یہاں آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نسبت ماں کی طرف نہ ہوتی بلکہ باپ کی طرف ہوتی ۔جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ(احزاب: ۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان:لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے نزدیک انصاف کے زیادہ قریب ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ پڑھا اس پر عمل کرنے اور انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم