جانِ عالَم ﷺ کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا۔ آپ ﷺ کی کامل حیات تا صبحِ قیامت ہر حوالے سے لوگوں کے لیے نمونہ ہے یہاں تک کہ سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کا ہر ہر گوشہ ہی روشن و منور ہے چنانچہ احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مہمانوں کے چند حقوق بیان کیے جا رہے ہیں:

1) خاطر تواضع: مہمان کا ایک حق یہ ہے کہ اس کی خاطر تواضع کی جائے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیئے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

2) تکریم و ضیافت: مہمان کا اکرام و ضیافت بھی اس کا ایک حق ہے۔ حضرت ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور انور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، وہ مہمان کا اکرام کرے، ایک دن رات اس کا جائزہ ہے (یعنی ایک دن اس کی پوری خاطر داری کرے، اپنے مقدور بھر اس کے لیے تکلف کا کھانا تیار کرائے) اور ضیافت تین دن ہے (یعنی ایک دن کے بعد جو موجود ہو وہ پیش کرے) اور تین دن کے بعد صدقہ ہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

3) خدمت: خدمت حقِ مہمان کے ساتھ ساتھ سنّتِ مبارکہ بھی ہے۔ اس کی فضیلت میں آقا کریم ﷺ نے فرمایا: مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش، ص 18) لہذا مہمان کی خدمت میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا جائے کہ رسالت مآب ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

4) مدد کرنا: مسلمان پر مہمان کی مدد کرنا بھی لازم اور مہمان کے حقوق میں سے ہے۔ حضرت مقدام ابن معدیکرب سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے سُنا: جو کسی قوم کا مہمان ہو پھر مہمان محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا لازم ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مہمانی اس کے مال اور کھیت سے حاصل کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/95)

5) دروازے پر الوداع کرنا: مہمان کا یہ بھی حق ہے کہ اسے دروازے تک جا کر رخصت کیا جائے اس میں مہمان کا احترام بھی ہے اور یہ سنتِ مبارکہ بھی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو تمام حقوق بالخصوص مہمان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دینِ اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ہر ایک کے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور اس پر خوشخبری و وعیدات بیان کی گئی ہیں کہ حقوق اللہ پر بھی اتنی وعیدات نہیں ہیں جتنی حقوق العباد پر بیان کی گئی ہیں چاہے کوئی بادشاہ ہے چاہے فقیر حقوق العباد کا معاملہ سب کے لیے یکساں بیان کردیاگیا ہے اسی طرح مہمان کے بھی میزبان پر کچھ حقوق لازم ہیں جن کو بجالانا میزبان کی ذمہ داری ہے۔

اچھے انداز میں مہمان نوازی کرنا عمدہ اخلاق اور تہذیب کی علامت ہے، انبیائے کرام اور اولیائے عظام کی خصلت ہے، اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت مولی علی کرّم اللہُ وجہہ الکریم ارشاد فرماتے ہیں: مجھے تین چیزیں بڑی پیاری ہیں: (1) مہمان کی خدمت (2) گرمی کے روزے اور (3) تلوار سے جہاد۔ (مراۃ المناجیح، 3/293) مہمان کی عزت کرنا اللہ پاک کی عزت کرنا ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 20/272) مہمان کے حقوق جو علما نے ذکر فرمائے ہیں وہ درج ذیل ہیں کچھ حقوق کے تحت آتے ہیں اور کچھ آداب ہیں کہ ہمیں ان کا خیال رکھناچاہیے:

1) میزبان کے لیے ایک ادب یہ ہے کہ مہمان کی خاطرتواضع میں جلدی کرے اور مہمان کو پتہ نہ چلنے دے اس ڈر سے کہ وہ منع نہ کردے۔

2) جب مہمان آئے تو اسے کھانا جلد کھلایا جائے۔

3) مہمان کو کھانے کے لیے نرمی سے بلانا چاہیے۔

4) میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے کھانا کھانے پر خوش ہو اس کے کھانا ترک کرنے پر خوش نہ ہو۔

5) مہمان کو وداع کے وقت کچھ دور تک پہنچانے جائے یہ سنت بھی ہے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)


مصیبت کے معنی سخت تکلیف ، کڑی مشکل ، دکھ ،  رنج ،صدمہ اور حادثہ کے ہیں۔مصیبت میں مبتلا ہونے کے بہت سے اسباب ہیں۔چنانچہ اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے :وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ پاک کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے۔اس کے علاوہ اللہ پاک کی یاد کو فراموش کر دینا، مالکِ حقیقی سے رجوع کرنے کی بجائے لوگوں سے امیدیں باندھنا بھی بندے کو مصیبت میں مبتلا کر دیتا ہے۔لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ ہر وقت اللہ پاک کی اطاعت و فرمابرداری والے کام کرے، نافرمانی سے بچے،خود کو نیکی کے کاموں میں مصروف رکھے، ان شاء اللہ اس کی برکت سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور ہوں گی۔اللہ پاک ہم سب کو مصیبت پر صبر کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مصائب و تکالیف و حوادث انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔اس فانی دنیا میں عمر کی کچھ ساعتیں عیش کے سائے میں گزرتی ہیں اور کچھ رنج کی دھوپ میں کٹ جاتی ہیں۔زندگی میں کبھی مسرتیں ڈیرے ڈال کر لمحات کو خوشگوار بنا دیتی ہیں تو کبھی رنج و غم خوشیوں کے آشیانے کو تنکا تنکا کر دیتے ہیں۔اب وہ کون سے اسباب و وجوہات ہیں جن کی وجہ سے مصیبتیں آتی ہیں؟قرآن و سنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتیں مختلف ہوتی ہیں ۔مصیبتوں کے اسباب پر غور کیا جائے تو درج ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

1- مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے۔2۔تکالیف گنہگاروں کے لیے تنبیہ ہوتی ہے۔3۔ کئی مصیبتیں اللہ پاک کا عذاب ہوتی ہیں۔

مصائب نازل ہونے کے اسباب کے متعلق اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

دنیا میں جو تکالیف و مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔ان تکالیف کو اللہ پاک ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لیے ہوتی ہے۔اگر انسان اللہ پاک کی اطاعت کرے تو وہ ان مصیبتوں سے بچ سکتا ہے جیسا کہ حدیثِ مبارکہ میں ہے:

1-حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے لوگوں!تمہارا رب ارشاد فرماتا ہے:اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا، دن میں ان پر سورج طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز نہ سناؤں گا۔

(مسند امام احمد،3/281،حدیث:8716)

2-حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔پھر رسولُ اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔)(ترمذی،5/169، حدیث:3263)اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے، ہماری مصائب سے حفاظت فرمائے اور آنے والے مصائب پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین بجاہِ خاتمِ النبیین ﷺ


مصیبت سے متعلق آیتِ مبارکہ:

وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)اَلَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) (پ2،البقرۃ:156،155)ترجمۂ کنزالعرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔وہ لوگ کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں:ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔

مصیبت کے بارے میں احادیث :

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش! دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی ،4/180،حدیث:2410)

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(ترمذی ، 4 / 179، حدیث:2407)

مصیبت پر صبر کےآ داب :

1- جب مصیبت پہنچے تو اسی وقت صبر و اِستِقلال سے کام لیا جائے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:صبر صدمہ کی ابتدا میں ہوتاہے۔(بخاری،1 /433، حدیث:1283)

2- حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ کا بیٹا فوت ہوگیا۔ لوگوں نے انہیں بڑا خوش و خرم دیکھا تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ غمزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں۔ فرمایا: جب مجھے اس صدمے پر صبر کی وجہ سے اللہ پاک کی طرف سے درود و رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے تو میں خوش ہوں یا غمگین؟

(مختصرمنہاج القاصدین، ص277)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں :حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہ علیہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا،اس پر وہ ہنس پڑیں ،ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہو رہا؟ انہوں نے فرمایا: اس کے ثواب کی لذت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔ (احیاء العلوم،4 /90)

اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْن پڑ ھنے کے فضائل :

ایک مرتبہ نبیِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْن پڑھا۔ عرض کی گئی:کیا یہ بھی مصیبت ہے؟ارشاد فرمایا:جی ہاں!اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لئے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔(تفسیر در منثور،1 /380)ایک اورحدیث شریف میں ہے:مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّا اِلَیْهِ رٰجِعُوْن پڑھنا رحمت ِالہٰی کاسبب ہوتا ہے۔(کنز العمال،2/122، الجزء الثالث، حدیث:6646)

یاد رہے!ان مَصائب اور تکالیف میں اللہ پاک کی بے شمار حکمتیں ہیں۔ہمارا نفسِ اَمّارہ مست گھوڑا ہے۔ اگر اس کے منہ میں ان تکالیف کی لگام نہ ہو تو یہ ہمیں ہلا ک کردے گا کیونکہ ان تکالیف کی لگام کے باوجود انسان کا حال یہ ہے کہ ظلم اور قتل و غارت گری انسان نے کی،چوری ڈکیتی کی وارداتوں کا مُرتکِب انسان ہوا،فحاشی و عُریانی کے سیلاب انسان نے بہائے ،نبوت کا جھوٹا دعویٰ حتّٰی کہ خدائی تک کا دعویٰ انسان نے کیا اور اگر ان تکالیف کی لگام ہٹا لی جائے تو انسان کا جو حال ہوگا وہ تصوُّر سے بالا تر ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو مصیبت پر صبر کرنے کی توفیق دے۔آمین


موجودہ دور میں تمام مسلمانوں کو مصیبتیں پیش آتی رہتی ہیں مثلاًوہ کاروبار، اولاد، جان، مال، یا اس کے علاوہ کسی بھی حوالے سے ہوں ان مصیبتوں پر مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ بعض مصیبتیں ہمارے گناہوں کی شامت سے آتی ہیں مگر آتی اللہ پاک کے حکم سے ہیں۔چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-(پ28،التغابن:10)ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔

مصیبتیں آنے کے 5 اسباب :

1-رسولِ اکرم نورِ مجسم ﷺ نے فرمایا: مومن مرد و عورت کی جان ، اولاد اور مال میں مسلسل مصیبتیں آتی رہتی ہیں یہاں تک کہ وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔

(ترمذی ، 4/179، حدیث:2407)

2- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)

3- حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔پھر رسولُ اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔)(ترمذی،5/169، حدیث:3263)

4-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے۔( شعب الایمان،7/158 ، حدیث:9835)

5-حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ بندۂ مومن پر جو بھی مصیبت یا بیماری آتی ہے وہ اس کے صغیرہ گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے۔جب ہم پر کوئی مصیبت آن پڑے تو یہ ذہن بنانا چاہیے کہ اللہ پاک ہم پر اپنی نعمتوں کی چھما چھم برسات فرماتا ہے یہ مصیبت اسی کی جانب سے ہے اور اس میں ہماری بھلائی پوشیدہ ہے تو اس طرح مصیبت پر صبر کرنا آسان ہو جائے گا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ، مشکلات اور مَصائب سے ہماری حفاظت فرمائے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


دنیا کی زندگی عارضی ہے،اس کے تمام معاملات و مشکلات عارضی ہیں،اس دنیا کی حیثیت ایک سفر کی سی ہے۔صحابہ کرام کی زندگیاں صبر کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں۔ان کے ہاں تو یہ عالم تھا کہ دورانِ جہاد جسم کا کوئی حصہ کٹ جاتا تو فخر کرتے کہ ہمارا عضو اللہ پاک کے پاس ہے جو بہتر اجر دینے والا ہے۔پیارے نبی ﷺ نے اپنی زندگی میں بے شمار تکلیفیں اور آزمائشیں دیکھیں لیکن صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ،اونٹ کی اوجھڑی اُن پر رکھ دی گئی، پتھر برسائے گئے لیکن آپ نے صبر کیا اور اپنی اُمت کی بہتری کے لئے دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔

تمام امتوں میں حکمتوں اور مصلحتوں کے پیشِ نظر اللہ پاک کا یہ طریقہ جاری رہا ہے کہ وہ ایمان والوں کو آزمائشوں میں مبتلا فرماتا ہے۔یادر ہے!اس امت سے پہلے لوگوں پر انتہائی سخت آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں لیکن پہلے کے لوگوں نے ان مصیبتوں اور آزمائشوں پر صبر کیا اور اپنے دین پر استقامت کے ساتھ قائم رہے۔ یوں ہی ہم پربھی آزمائشیں اور مصیبتیں آئیں گی تو ہمیں بھی چاہئے کہ پچھلے لوگوں کی طرح صبر و ہمت سے کام لیں اور اپنے دین کے احکامات پر مضبوطی سے عمل کرتی رہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْؕ-مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ(۲۱۴) (پ2،البقرۃ:214)ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اُٹھے: الله کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک الله کی مدد قریب ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے:وَ كَاَیِّنْ مِّنْ نَّبِیٍّ قٰتَلَۙ-مَعَهٗ رِبِّیُّوْنَ كَثِیْرٌۚ-فَمَا وَ هَنُوْا لِمَاۤ اَصَابَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ مَا ضَعُفُوْا وَ مَا اسْتَكَانُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الصّٰبِرِیْنَ(۱۴۶)(پ4،الِ عمرٰن:146)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور کتنے ہی انبیاء نے جہاد کیا، ان کے ساتھ بہت سے اللہ والے تھے تو انہوں نے اللہ کی راہ میں پہنچنے والی تکلیفوں کی وجہ سے نہ تو ہمت ہاری اور نہ کمزور ی دکھائی اور نہ (دوسروں سے) دبے اور اللہ صبر کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔

بخاری شریف میں حضرت خَبّاب بن ارت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمخانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر مبارک سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے ،ہم نے حضور اقدس ﷺ سے عرض کی:یارسول اللہ ﷺ!ہمارے لیے کیوں دعا نہیں فرماتے؟ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟ارشاد فرمایا: تم سے پہلے لوگ گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے،آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے لیکن ان میں سے کوئی مصیبت انہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی۔(بخاری،2/503،حدیث:3612)

مصیبت میں صبر:

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس بندے کو مصیبت پہنچے پھر وہ یہ دعا پڑھ لے: اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اَللّٰھُمَّ اْجُرْنِیْ فِیْ مُصِیْبَتِیْ وَاَخْلِفْ لِیْ خَیْرًا مِنْھَا ہم اللہ پاک کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طر ف لوٹنا ہے۔اے اللہ پاک!مجھے میری مصیبت میں اجرعطا فرمااور مجھے اس سے بہتر بدلہ عطا فرما۔

تو اﷲ پاک اسے اس مصیبت کا ثواب عطا فرماتا ہے اور اسے اس سے بہتر بدلہ عطا فرماتاہے۔

(مسلم ،ص 356 ،حدیث :2127)

مصیبت چھپانے کی فضیلت:

فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے :جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اُس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں کو اس کی شکایت نہ کی تو اللہ پاک پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرمادے۔(معجم اوسط،1/ 214 ،حدیث:737)

اللہ پاک ہمیں عافیت عطا فرمائے اور اگر مصائب و آلام آئیں تو ان پر صبر کرنے اور دینِ اسلام کے احکامات پر مضبوطی سے عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مصیبتوں کے اسباب پر جب قرآن و سنت کی روشنی میں غور کیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہےکہ  مختلف لوگوں پر آنے والی مصیبتوں کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے مختلف لوگ مختلف قسم کی مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں۔مثلاً

1-کچھ نیک لوگوں کو اللہ پاک مصیبت میں مبتلا فرما کر اُنہیں اپنا قُرب نصیب فرماتا ہے۔نیکوکاروں کو لوگ مصیبت میں مبتلا دیکھ کر دُکھ اور غم کی کیفیات میں مبتلا ہو جاتے ان کے لئے اللہ پاک سے رحمت کے طلبگار بن جاتے ہیں۔

2 - کچھ گناہگاروں کو اللہ پاک دنیا میں ہی اُن کے گناہوں کے سبب مصیبت میں مبتلا کر کے اُن کے گناہ بخش دیتا ہے۔گناہگاروں کو لوگ مصیبت میں دیکھ کر اُن سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔مصیبتوں کے اَسباب پر غور کیا جائے تو مندرجہ ذیل وجوہات سامنے آتی ہیں:

01:پارہ2، سورۃالبقرہ، آیت نمبر 155 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)(پ2،البقرۃ: 155) ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے:آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ پاک کا ڈر،بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/250)حدیث میں اولاد کو دل کا پھل کہا گیا ہے۔(ترمذی،2/313،حدیث:1023)

02:قرآنِ کریم کے پارہ25،سورۃالزخرف، آیت نمبر 48میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اَخَذْنٰهُمْ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۴۸)ترجمہ کنزالایمان:اور ہم نے اُنہیں مصیبت میں گرفتار کیا کہ وہ باز آئیں۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:یعنی جب فرعون اور اُس کی قوم نے سرکشی کی تو ہم نے اُنہیں مصیبت میں گرفتار کیاتاکہ وہ اپنی حرکتوں سے باز آجائیں اور کُفر چھوڑ کر ایمان کو اختیار کر لیں۔یہ عذاب قحط سالی ،طوفان اور ٹڈی وغیرہ سے کئے گئے۔(تفسیر صراط الجنان،9/140)

03: قرآنِ کریم کے پارہ25،سورۃ الشوریٰ، آیت نمبر30 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

تفسیر صراط الجنان : اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،9/67)

04:قرآنِ کریم کے پارہ27،سورۃ الحدید، آیت نمبر22میں اللہ پاک فرماتاہے:مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ(پ27،الحدید:22)ترجمہ کنزالایمان: نہیں پہنچتی کوئی مصیبت زمین میں اور نہ تمہاری جانوں میں مگر وہ ایک کتاب میں ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے:اس آیت میں اللہ پاک نے اپنی قضاء اور تقدیر کا بیان فرمایا ہے کہ اے لوگو! زمین میں قحط کی، بارش رک جانے کی، پیداوار نہ ہونے کی ،پھلوں کی کمی کی اور کھیتیوں کے تباہ ہونے کی ،اسی طرح تمہاری جانوں میں بیماریوں کی اور اولاد کے غموں کی جو مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے (یعنی زمین کو یا جانوں کو یا مصیبت کو)پیدا کرنے سے پہلے ہی ہماری ایک کتاب لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اور انہیں لوحِ محفوظ میں لکھ دینا ہمارے لئے آسان ہے۔( تفسیر نسفی،ص1211 )(تفسیر خازن،4 /231 ، ملتقطاً)

مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَاؕ-(پ27،الحدید:22) ترجمۂ کنزُالعِرفان:زمین میں اور تمہاری جانوں میں جو مصیبت پہنچتی ہے وہ ہمارے اسے پیدا کرنے سے پہلے (ہی) ایک کتاب میں (لکھی ہوئی)ہے۔

مصیبتیں آنے کے اَسبَاب پر چند فرامینِ مصطفےٰ ﷺ ملاحظہ فرمائیے:

01: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔( ترمذی ،5/169 ، حدیث:3263)

02: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری، 4/4، حدیث: 5645)

اِن آیاتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مصیبتیں فقط گناہوں کے سبب نہیں آتی۔بلکہ اللہ پاک کچھ لوگوں کو اپنے قریب کرنے اور اپنے رحمت کے سائے میں کرنے کے لئے مصیبتوں میں مبتلا کرتا ہے۔لہٰذا ہر ایک کو چاہیےکہ جب بھی کوئی مصیبت، مشکل پیش آئے۔تو صبر کا دامن مضبوطی سے تھام لےکہ دنیا کی مصیبتیں اُخروی مصیبتوں کے سامنے کچھ بھی نہیں۔رب سے شکوہ و شکایت کرنے کے بجائے اللہ پاک کا شکر ادا کریں کہ جس حال میں رب رکھے وہ حال اچھا ہے ۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہر حال میں شکر کرنے اورمصیبتوں کا صبر و تحمل سے سامنا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


جس طرح خوشیاں اللہ پاک کی طرف سے ہوتی ہیں اس طرح مصیبتیں بھی اللہ پاک کی طرف سے آتی ہیں۔  جس طرح ہم خوشی کو انجوائے کرتی ہیں یعنی خوشی کا اظہار کرتی ہیں اس طرح ہمیں مصیبتوں پر صبر و شکر سے کام لینا چاہیے اور اللہ پاک کے نزدیک ہو جانا چاہیے یہی امید و یقین کے ساتھ صبرِ اور دعائیں کرتی رہیں۔ جس مالک نے مصیبتوں میں ڈالا ہے وہ نکال بھی دے گا۔مصیبتیں آنے کے کئی اسباب ہوتے ہیں۔یاتو بندے کے گناہوں کے زیادہ ہونے کی وجہ سے آتی ہیں یا پھر اللہ پاک اس بندے کو بلندی عطا فرمانے کے لیے مصیبت میں ڈالتا ہے تاکہ بندہ اللہ پاک کا محبوب ہو جائے۔وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) (پ2،البقرۃ:155 )ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو یاد کرنا چاہیے کہ انہوں نے کتنی مصیبتیں برداشت کیں اور صبرِ و دعا کا دامن نہیں چھوڑا۔

مصیبتیں آنے کے اسبابِ پر پانچ فرمانِ مصطفےٰﷺ :

(1)مومن کا معاملہ کس قدر اچھا ہے کہ اس کا ہر معاملہ بھلائی پر مشتمل ہے اور یہ بات صرف مومن ہی کے لئے ہے۔ اگر اسے کوئی خوشی پہنچتی ہے تو شکر کرتا ہے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے اور اگر اسے کوئی دکھ یا تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے اور یہ بھی اس کے حق میں بہتر ہے۔(مسلم، ص 1598، حدیث:2999)

(2)اپنے بھائی کی شماتت نہ کر یعنی اس کی مصیبت پر اظہار مسرت نہ کر کہ اﷲپاک اس پر رحم کرے گا اور تجھے اس میں مبتلا کردے گا۔(ترمذی،4/227، حدیث: 2514)

(3)حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

(4)حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:جب میں اپنے بندہ مومن کی دنیا کی کوئی پیاری چیز لے لوں پھر وہ صبر کرے تو میرے پاس اس کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں۔ (بخاری ، 4/ 225 ، حدیث :6424)

(5)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ِکریم ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں:مومن کو کانٹاچبھےبلکہ اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ پاک اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔

( بخاری،4/5 ،حدیث:5648بتغیر قلیل)

حدیثِ مبارک سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک کسی بندے کو مصیبتوں میں مبتلا کرتاہے تو اس کے بدلے بہت سارا اجر اور بلندیاں عطا کرتاہے۔اس لیے جب بھی کسی پر مصیبت آئے ہر کسی کو بتانے کے بجائے اللہ پاک سے عافیت کی دعا اور صبر مانگے،کیونکہ شور اور ہائے ہائے کرنے یا لوگوں کو بتانے سے مصیبت ختم نہیں ہو گی لیکن اس کے بدلے ملنے والا اجر ضائع ہو جائے گا ۔ا للہ پاک ہمیں کتنی ہی بڑی مصیبت کیوں نہ آجائے ہمیشہ صبرِ وشکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے بدلے بہترین اجراور دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب کرے۔ آمین 


وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) 25، الشوریٰ: 30) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ پاک کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے۔اگر یہ اللہ پاک کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔گانے باجے،بے حیائی،ظلم و تشدد،فتنہ انگیزی،شراب نوشی،حلال و حرام میں فرق نہ ہونا،گناہ کو معمولی سمجھ کر کر لینا،دوسرے کو مصیبت میں دیکھ کر خوش ہونا وغیرہا انسان کے ہاتھوں ہی کیے ہوں اعمال ہوتے ہیں جو مصیبت کی صورت میں ان پر معلق کر دیے جاتے ہیں۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے لوگوں!تمہارا رب ارشاد فرماتا ہے:اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا ، دن میں ان پر سورج طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز نہ سناؤں گا۔

(مسند امام احمد،3/281،حدیث:8716)

اللہ پاک کے بہت ہی مقرب و عزیز بندے جنہوں نے دن رات ایک کر کے اپنے رب کریم کا قرب حاصل کیا۔دن رات کی آزمائشیں پھر ان پر صبر اور اپنے رب کریم پر پختہ یقین اور ثواب کی امید اللہ اکبر۔جیسا کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔پھر رسولُ اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔)(ترمذی،5/169، حدیث:3263)

ادھر ہمیں مصیبت پہنچے تو ہمارا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔جب تک 10 لوگوں کو اس تکلیف کا علم نہ ہو جائے تب تک قلب سکون نہیں پاتا،لیکن جب بندہ کو صبر پر ملنے والے ثواب پر پختہ یقین ہو تو مصیبت بڑی ہو یا چھوٹی اس پر صبر کرتا ہے۔تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

مسائل کے حل اور مصائب کو رفع کرنے کے سلسلہ میں شریعت نے تین کام کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ایک یہ کہ صبر کیا جائے ،دوسرا صلوۃ الحاجت ادا کی جائے،تیسرا تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگی جائے۔ پھر بھی اگر مصیبت دور نہ ہو تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ پاک نے اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش!دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی،4 /180،حدیث: 2410)

حضرت ابی بن کعب نے فرمایا :بندۂ مؤمن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو وہ اللہ پاک سے اس حال میں ملے گا کہ اس پر کوئی گناہ نہ ہوگا۔(الزهد لہناد،1/235،حديث :397)اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مصیبت پر صبر کرنے والے کی توفیق عطا فرمائےاور اپنے صابر عبادت گزار بندوں میں شامل فرمالے۔آمین


اہلِ علم اور دین داروں کا کہنا یہ ہے کہ مصیبتیں خدا کے حکم سے بہت سی حکمتوں کے پیشِ نظر آتی ہیں، ایک حکمت مصیبتوں میں لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری؟ ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔ایک حکمت نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ایک حکمت گناہوں کی سزا ہے اور ان گناہوں میں سب سے بڑھ کر بے حیائی،بدکاری اور بے شرمی ہے۔یہ چند ایک حکمتوں کا بیان ہے جس پر مزید بھی بہت سے اسباب کا اضافہ کیا جا سکتا ہے۔بعض اوقات  مصائب وآلام کے پیچھے ہماری بداعمالیاں بھی کارفرماہوتی ہیں۔چنانچہ

مصیبتوں کا سبب ہمارے کرتوت ہیں:

امیرُالمومنین حضرت على المرتضى رضی اللہ عنہ نے فرمایا :مىں تم كواللہ پاک كى كتاب مىں سب سے افضل آىت كى خبر دیتا ہوں جو رسو لُ اللہ ﷺ نے بتائی ہے :وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

(حُضُور اکرم ، نُورِمجسم ﷺ نے ہمارے سامنے یہ آیت تلاوت کرنے کے بعد ارشادفرمایا:)اے علی!میں اِس كى تفسىر بیان کرتا ہوں ،تمہیں دنیا میں جو بیمارى ، سزا یا کوئی بَلا پہنچتی ہےوہ اس سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کمایا ، تو اللہ پاک اس سے بہت زیادہ كریم ہےکہ آخرت مىں دوبارہ سزا دے۔اللہ پاک نے جب دنیا مىں تم سے گناہ معاف فرما دیئے تو وہ اس سے بہت زىادہ حلیم ہے كہ معاف كرنے كے بعد سزا دے۔

(مسند امام احمد ،1 /185 ، حدیث :649)

جو كچھ ہیں وہ سب اپنے ہى ہاتھوں كے ہیں كرتوت

شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گلہ ہے

حدیثِ مبارک:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پُر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔پھر رسولُ اللہ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو(اللہ)معاف فرما دیتا ہے۔)(ترمذی،5/169، حدیث:3263)

(3)حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے،رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:لکڑی کی خراش لگنا،قدم کا ٹھوکر کھانا اور رگ کا پھڑکنا کسی گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)(ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔)۔(کنزالعمال، 2/304، الجزء الثالث، حدیث:8666)

دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ پاک اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

صوفیاء فرماتے ہیں:رنج و غم میں درود شریف زیادہ پڑھو کیونکہ اکثر رنج و غم گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں۔ درود شریف کی برکت سے گناہ مٹتے ہیں جب گناہ گئے تو ان کا سامان یعنی رنج و غم بھی گیا۔

( مراۃ المناجیح،2/ 429)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کی بیماری ا س کے گناہوں کے لئے کفارہ ہوتی ہے۔( شعب الایمان،7/158 ، حدیث:9835)

اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے،مشکلات اور مَصائب سے ہماری حفاظت فرمائے اور آنے والی مشکلات پر صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین


ہر وہ نا پسندیدہ چیز جو انسان کو آزمائش میں ڈالے وہ مصیبت ہے۔

(لمعات التنقیح،4/19،تحت الحدیث:1536)

مصیبت سے اولاد،بیماریاں اور مال کی صورت میں پہنچنے والی آزمائش بھی مراد ہے یعنی بندے کو کبھی بیماری،کبھی اولاد اور کبھی مال کے ذریعے آزمایا جاتا ہے،یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے اور بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں گناہوں سے پاک ہو کر حاضری دیتا ہے۔(الکوثر الجاری،9/231،تحت الحدیث:5645)

مصیبتوں کے آنے کی بہت سی حکمتیں ہوتی ہیں مثلاً

بعض اوقات مصیبتوں کے آنے کا سبب گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے جیسا کہ حدیثِ مبارک کا خلاصہ ہے کہ مومن کو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے تاکہ یہ آزمائش اس کے گناہوں کا کفارہ بن جائے۔(شرح بخاری لابن بطال،9/372)ایک حدیثِ پاک کا خلاصہ ہے کہ جان و مال،مصیبت و پریشانی سے محفوظ ہوں تو بسا اوقات غفلت کا مرض بھی لگ جاتا ہے ،ایسی صورت میں آنے والی مصیبت نفس کے لئے لگام کا کام دیتی ہے جس سے بندہ اللہ پاک کی باگاہ کی طرف لوٹ آتا ہے اور ثواب کا حق دار پاتا ہے۔(کشف المشکل من احادیث الصحیحین،3/529،تحت الحدیث:2039 ماخوذاً)اس سے معلوم ہوا کہ کبھی مصیبت کا سبب یہ ہوتا ہے کہ بندہ غفلت کو چھوڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ کی طرف رجوع کرے۔

اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا :وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

ایک حکمت یہ ہے کہ مصیبتوں میں لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری؟

ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔

ایک حکمت نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔

ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔ہمیں چاہیے کہ ہم پر اپنے ہی اعمال کی وجہ سے جو مصیبتیں آتی ہیں ان میں بے صبری اور شکوہ و شکایت کا مظاہرہ نہ کریں بلکہ انہیں اپنے گناہوں کا کفارہ سمجھتے ہوئے صبر و شکر سے کام لیں۔

ترغیب کے لئے چند احادیث ملاحظہ ہوں:

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پرنور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔( ترمذی،5/129 ،حدیث:3263)

ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

اللہ پاک ہمیں نیک اعمال پر عمل اور مصیبتوں پر صبر و شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین