اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔اور مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا طریقہ بھی ہے چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے۔

فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہے :جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

آئیے مہمان کے 5 حقوق پڑھتے ہیں :

1 :مہمان کی خدمت کرنا: مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہے اور اس کی خدمت کرے۔ فرمان مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔(تمہید الفرش،ص18)

2: تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرنا: مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتاہے۔(کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)

3 :مہمان کے ساتھ کھانا : جب مہمان کَم ہوں توميزبان كو چاہئے کہ مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔ حکمت: اِس سے اُن کی دل جوئی ہو گی۔قُوتُ الْقُلوب میں ہے: جو شخص اپنے بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا۔( قوت القلوب،ج2،ص 306)

4 :مہمان کا احترام کرنا : میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے ۔چنا نچہ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243 )

5 :مہمان کو الوداع کرنا : جب مہمان رخصت ہو تو اسے اچھے طریقے سے الوداع کہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ)

اسی طرح جب مہمان جانے کی اجازت مانگے تو میزبان اُسے روکنے کے لئے اِصرار نہ کرے۔ حکمت: ہو سکتا ہے مہمان کوئی ضَروری کام چھوڑ کر آیا ہو، زبردستی روک لینے کی صورت میں اُس کا نقصان ہوسکتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:اپنے بھائی کا اِحتِرام اِس طرح نہ کرو کہ اُسے بُرا معلوم ہو۔ (بستان العارفین، ص61)


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے حضور صلی  اللہ علیہ والہ وسلم مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے تھے اور ان مہمانوں کے ساتھ نہآیت ہی خوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہمانوں کے حقوق بھی بیان فرمائے آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں ۔

مہمان کے ساتھ دروازے تک جانا :(1) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

مہمان کا احترام کرنا : (2) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

مہمان کی خاطر تواضع کرنا: (3) حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رہے۔ ‘‘( فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308)

مہمان سے نفرت نہ کرنا: (4)مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بغض رکھتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ۔(احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 41)


                                       میری اس تحریر کا موضوع مہمان کے حقوق ہے ہمارے معاشرے میں آج کل اگر کسی کے گھر مہمان آجائے تو لوگوں کے منہ لٹک جاتے ہیں اور خوش نہیں ہوتے تو مہمان کی فضیلت سب سے پہلے ذکر کی جائے گی اس کے بعد میں اس تحریر میں مہمان کے حقوق بیان کرو گا ۔

یہ آج کل جو ہمارے معاشرے میں ایک خرابی چل رہی ہے کہ مہمان کے آنے پر ہم غمی کا اور نا خوشی کا اظہار کرتے ہیں یہ ہمیں نہیں کرنا چاہیے پیارے اسلامی بھائیوں مہمان کی فضیلت اگر آپ کو معلوم ہو جائے تو آپ لوگ ہی پھر کہے گے کہ مہمان ہمارے گھر روز آئے آئے ہم قرآن مجید سے مہمان کی فضیلت پڑتےہیں اللہ نے قرآن پاک میں فرمایا :

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَ•اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ•فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ•فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ قَالَ اَلَا تَاْكُلُوْنَ: (سورت الزاریات آیت نمبر 27 _24)ترجمہ کنزالایمان: اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشناسا لوگ ہیں ۔پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اُسے ان کے پاس رکھا کہا کیا تم کھاتے نہیں ۔

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں زدا اس آیت میں غور تو کرے کہ حضرت ابراھیم اجنبی لوگوں کے لیے تازہ موٹا بچھڑا ان کے لیے پیش کیا دیکھے کہ وہ اجنبی ہے حضرت ابراھیم ان لوگوں کو نہیں جانتے لیکن پھر بھی ان کو اچھا کھانا پیش کیا تو آئے تھوڑی سی فضیلت مہمان کے بارے میں حضرت ابراھیم علیہ السلام سے سماعت کی جائے ۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام مہمانوں کے بغیر کچھ بھی تناول نہیں فرماتے تھے آپ مہمانوں کو تلاش کرتے تھے ایک دو مل ہی جاتے تھے پھر اس کے بعد کھانا کھاتے تھے اور ان کے خلوص و برکت سے آج تک ان کے علاقے میں مہمان نوازی کی رسم باقی ہے۔(مقصود الصالحین شرح ریاض الصالحین باب اکرم الضیف صفحہ نمبر41)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھے کہ حضرت ابراھیم علیہ السلام مہمانوں کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تو ہمیں ان مبارک و عظیم و ہستی کی سیرت پر عمل کرنا چاہیے اور مہمان کی عزت کرنی چاہیے ۔(اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت ابراھیم علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے والا بنائے آمین)

حدیثِ مبارکہ میں بھی مہمان نوازی کی بہت فضیلت آئی ہے: دو جہاں کے آقا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہوں تو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے (موطا امام محمد صفحہ 360 باب حق الضیافۃ)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں دیکھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کی عزت کرنے کا حکم دیا ہے تم اب ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن مجید اور حضرت ابراھیم کی حکآیت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرے اور مہمان کی عزت کرے اور پیارے بھائیوں ہمیں چاہیے کہ جب مہمان آئے تو ہمیں ان سے خوش اخلاقی سے ملنا چاہیے اور ان کی اچھی خاطر توازوں کی جائے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کی عزت کرنے والا بنائے ( آمین)

مہمان کے حقوق :

1: مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے پاس اتنا ٹھہرا رہے یہاں تک کہ وہ تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے

2: مہمان کے سامنے جو کچھ پیش کیا جائے اس اچھے طریقے سے کھا لے

3: مہمان کو چاہیے کہ کھانے میں عیب بھی نہ نکالے

4: مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان سے کسی بھی قسم کا گلہ و شکوہ نہ کرے

5: مہمان کو چاہیے کہ میزبان کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اٹھے

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کی عزت کرنے والا اور اسلام پر چلنے والا بنائے۔


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں اللّہ پاک کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے کیونکہ اللّہ تعالیٰ نے ہم سب کو مسلمان پیدا کیا ہے تاکہ ہم سب اللّہ تعالٰی کی عبادت اور اطاعت کرے اور اللّہ تعالیٰ کا حکم مانے جس طرح اللّہ تعالیٰ نے ہم سب کو نماز "روزے" زکوٰۃ "حج" جہاد "حقوقُ اللّہ" حقوقُ العباد وغیرہ کا حکم دیا ہے اور حقوقُ العباد میں پڑوسیوں کے حقوق "ہمسایوں کے حقوق" مہمانوں کے حقوق "میزبانوں کے حقوق وغیرہ ہیں ان میں سے آج اپنے موضوع کے مطابق مہمانوں کے حقوق کے بارے میں جانے گۓ مہمان نوازی کرنا انبیاء کرام کی سنت ہے

مہمانوں کے حقوق کے بارے میں پیارے پیارے نبی صلی اللّہ علیہ والہ وسلم کے ارشادات :

1)آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (آدمی کو تین بستر بنانے چاہیے)

1) ایک اپنے لیے

2) ایک اپنی زوجہ کیلئے

3) اور تیسرا مہمان کیلئے ۔ (مکارم الاخلاق للخراءطی؛ باب مایستحب من اتخاذـ ـ ـ الخ؛ جلد 2؛ صفحہ 99)

2)اللّہ کے پیارے پیارے رسول صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (من کان یؤمن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفا)

یعنی جو اللّہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے (بخاری؛ جلد نمبر 4؛ صفحہ نمبر 105؛ حدیث 6019)

3)ایک روایت میں ہے (اذا جاءکم الزاءر فاکرموہ) یعنی جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو (مکارم الاخلاق للخراءطی باب ماجاء فی اکرام الضیف ـ ـ ـ الخ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 156 حدیث 330)

4)نبی کریم صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ اس بنادے میں کوئی بہلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا (مکارم الاخلاق للخراءطی باب ماجاء فی اکرام الضیف ـ ـ ـ الخ جلد نمبر 2 صفحہ نمبر 155 حدیث 329)

5)حضرت انس رضی اللّہ تعالیٰ عنہ کا بیان ہے کہ تاجرار مدینہ صل اللّہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا جس کے گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح دوڑ کر آتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چہری (تیزی سے گرتی ہے) بلکہ اس سے بھی تیز (ابن ماجہ کتاب الاطعمہ باب الضیافۃ صفحہ نمبر 545 حدیث 3356)

انبیاء کرام کی مہمان نوازی :1)حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی ـ ان کی مہمان نوازی کے واقعہ کو قرآن پاک میں یوں بیان فرمایا گیا ہے (ھل اتاک حدیث ضیف ابراہیم المکرمین اذ دخلو علیہ فقالوا سلاما قال سلام) یعنی اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر آئی ـ جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کھا ـ سلام نا شنا سا لوگ ہیں (پارہ 26 سورۃ الزاریات آیت نمبر 24)

پھر آیت نمبر پھر آیت نمبر 26 میں فرمایا (فراغ الی اھلہ فجاء بعجل سمیں) ترجمہ تو جلدی سے گھر میں جاکر ایک تازہ بچھڑا لئے ااور مہمانوں کے سامنے پیش کیا ـ

2) حضرت ایوب علیہ السلام بہت مال و دولت کے مالک تھے ـ نھآیت ہی نیک اور پارسا تھےـ مسکینوں پر شفقت فرماتے؛؛ یتیموں اور بیواؤں کی کفالت فرماتے؛ مہمان نوازی کرتے اور فقیروں کی مدد فرماتے تھے (تفسیر الفزطبی جلد 11 صفحہ نمبر 323)

مہمان نوازی کی فضیلت :

امام نووی رحمہ اللّہ علیہ فرماتے ہیں کہ مہمان نوازی کرنا آداب اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے (شرح النووی علی المسلم جلد 2 صفحہ نمبر 18)

فرمان مصطفےٰ صلی اللّہ علیہ والہ وسلم ہے کہ آدمی جب اللّہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللّہ تعالیٰ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللّہ تعالیٰ کی تسبیح و تھلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے) کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللّہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی پاکیزہ غذائیں "جنۃالخلد" اور نہ فنا ہونے والی بادشاہت میں کہلاۓ (کنزالعلمال جلد 5 ص 110 حدیث 25878)

اللّہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔

مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے

مہمان نوازی کی سُنتیں اور آداب:

مہمان نوازی کرناسنت ِمبارکہ ہے ، احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں بلکہ یہاں تک فرمایاکہ مہمان باعث ِخیروبرکت ہے ۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے غلام ابو رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُکہتے ہیں ، سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دے ۔ میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کردوں گا( کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا، جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے، نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابو رافع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ ُکہتے ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا، ’’ و اللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں ۔ اگروہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا۔‘‘( اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ آ۔ میں لے گیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا)(المعجم الکبیر، الحدیث ۹۸۹، ج۱، ص۳۳۱)

مہمان باعث خیرو برکت ہے : حضرت سیدنا انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چُھری، بلکہ اس سے بھی تیز۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ، کتاب الاطعمۃ، باب الضیافۃ ، الحدیث ۳۳۵۶، ج۴، ص۵۱)

پیارے اسلامی بھائیو ! اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی۔

مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے : سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان عالیشان ہے، ’’ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ۔‘‘ (کشف الخفا، حرف الضاد المعجمۃ، الحدیث ۱۶۴۱، ج۲، ص۳۳)

دس ۱۰ فرشتے سال بھر تک گھر میں رحمت لٹاتے ہیں : سرکارِ مدینہ راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت سیدنا براء بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُسے ارشاد فرمایا : ’’ اے برائ! آدمی جب اپنے بھائی کی، اللہ عَزَّ وَجَلَّ کیلئے مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزاء اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کے گھر میں دس۱۰ فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔اورجب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں ’’جَنَّۃُ الْخُلْدِ‘‘ اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے ۔ ‘‘ (کنزالعمال، کتاب الضیافۃ، قسم الافعال، الحدیث ۲۵۹۷۲، ج۹، ص۱۱۹)

سُبْحٰنَ اللہ ، سُبْحٰنَ اللہ ! کسی کے گھر مہمان تو کیا آتا ہے گویا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی رحمت کی چھما چھم برسات شروع ہو جاتی ہے اس قدر اجر و ثواب اللہ ! اللہ !

مہمانوں کے حقوق:

مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:

• مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

• مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

• اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

• اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

• اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

• اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

• مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ

• مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔

• مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

• مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مہمان نوازی انبیاء کرام علیہم السلام کے اوصاف میں سے ایک عظیم وصف ہے حضرت سیدنا ابرھیم علیہ السلام اتنے بڑے مہمان نواز تھے کہ علماء کرام فرماتے ہیں: کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے۔

دینِ اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور بہترین اخلاق کی حیثیت حاصل ہے دین اسلام میں مہمان نوازی کے فضائل کے ساتھ ساتھ مہمان کے حقوق بھی بیان کیے گئے مہمان کے حقوق سے مراد وہ چیزیں جو میزبان پر مہمان کے لیے کرنا ضروری و مستحب ہیں چنانچہ الله پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌۚ-قَوْمٌ مُّنْكَرُوْنَ(25)فَرَاغَ اِلٰۤى اَهْلِهٖ فَجَآءَ بِعِجْلٍ سَمِیْنٍ (26) فَقَرَّبَهٗۤ اِلَیْهِمْ؛(الذریت آیت 25,26)۔ ترجمۂ کنز الایمان: جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشناسا لوگ ہیں اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا۔ پھر اُسے ان کے پاس رکھا ۔

مذکورہ آیت میں حضرت سیدنا ابراھیم علیه السلام کے پاس مہمانوں کے آنے کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے آیت کے ابتدائی حصے میں چند حقوق بیان فرمائے گئے ہیں مہمانوں کو سلام کرنا،ان کے سلام کا جواب دینا،ان کے لئے اچھے کھانے کا انتظام کرنا وغیرہ حقوق اس آیت میں مذکور ہیں۔ اس کے علاؤہ احادیث طیبات میں مہمان کے کئی حقوق بیان ہوئے ہیں :

مہمان کی عزت و تکریم کرنا:مہمان کے حقوق وفرائض میں سے سب سے بڑھ کر اس کی عزت و تکریم کرنا ہے مہمان کی عزت و تعظیم کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے چنانچہ حضرت سیدنا ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے مروی کہ اللہ کے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔(بخاری کتاب الآداب حدیث 6018)

مہمان کے لیے عمدہ کھانا پیش کرنا:مہمان کے حقوق میں سے اس کے لئے اچھے و عمدہ کھانے کا اہتمام کرنا بھی ہے چنانچہ حضرت سیدنا مقدام ابو بکر کریمہ رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”اگر کسی کے یہاں رات کو کوئی مہمان آئے تو اس رات اس مہمان کی ضیافت کرنی واجب ہے، اور اگر وہ صبح تک میزبان کے مکان پر رہے تو یہ مہمان نوازی میزبان کے اوپر مہمان کا ایک قرض ہے، اب مہمان کی مرضی ہے چاہے اپنا قرض وصول کرے، چاہے چھوڑ دے۔(سنن ابن ماجہ بَابُ : حَقِّ الضَّيْفِ حدیث 3677)

الله پاک کی رضا حاصل کرنے اور حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین پر عمل کی نیت سے مہمان کے حقوق و فرائض پورا کرنا مہمان کا اکرام کرنا یقیناً ثواب آخرت کا باعث بنے گا الله پاک ہمیں مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین

افسوس آج اس دور میں مہمان نوازی کی کوئی قدر ہی نہیں گھر میں جب مہمان کی آمد اور اس کی قیام کو زخمت سمجھتے ہیں جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے آئیے مہمانوں کے حقوق کے بارے میں حدیث سنتے ہیں :

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان عالیشان ہے جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے جب اس کے یہاں جاتاہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشوا جاتا ہے ۔(مسند الفردوس جلد 2صفحہ432 حدیث 3896)

اس سے پتہ چلا مہمان کی آمد پر خوب خرچ کرنا چاہیے کیونکہ مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے اور مہمان کی آمد پر خوشی ہونی چاہیے کہ مہمان اتنا برکت والا ہے کہ اس کا لوٹنا بھی برکت والا ہے کہ اس کے بدلے گناہ معاف ہونگے۔

پیارے اسلامی بھائیو!دین اسلام نے مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئ ہے یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کے بنیادی تقاضوں میں شامل کیا گیا ہے ۔ حدیثِ پاک میں ہے "ہمارے آقا مولا مکی مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا

ترجمہ؛یعنی جو اللہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کے مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری کتاب الادب ،باب من کان یومن باللہ التح صفحہ 1500احدیث 6018)

سبحن اللہ! دیکھیے کسی پیاری بات ہے رسول ذیشان ،مکی مدنی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ کر ذکر فرمایا ۔گویا یہ بتایا کہ مہمان کی عزت کرنا مہمان کی اچھے انداز میں خاطر داری کرنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے ،جو مسلمان ہے ،جو بندہ ایمان رکھتا ہے قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے اخلاق میں یہ بنیادی بات ہونا ضروری ہے مہمان کی عزت کرنا ضروری ہے۔

گھر میں خیر برکت دوڑ کر آتی ہے ۔حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر برکت اس طرح دوڑ کر آتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چھڑی (تیزی سے گزرتی ہے) بلکہ اس بھی تیز آپ نے اونٹ دیکھا ہوگا اونٹ کی کوہان پہاڑ کی شکل کی ہوتی ہے اس کے اوپر کوئی چیز ٹھہرتی نہیں ہے اس پراگر چھڑی رکھ دی جائے تو تیزی سے لڑھک کر نیچے آجاتی ہے

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مثال کے ذریعے سمجھایا کہ اگر اونٹ کی کوہان پر چھڑی رکھ دی جائے تو جیتنی تیزی سے وہ چھڑی لڑھک کر نیچے ای گی جو بندہ مہمان نوازی کرتا ہے خیر وبرکت اس سے بہی تیزی کے ساتھ اس خوش نصیب کے گھر کی طرح آ تی ہے۔(ابن ماجہ ،کتاب الا طعمہ ،باب الفیافتہ،صفحہ545حدیث 3356)

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں مہمان نوازی کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے ۔ہمارے دین اسلام میں مہمان کے حقوق اور ان کی عزت افزائی پر بہت زور دیا  گیا ہے بلکہ مہمان نوازی کرنا حضرت ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوۃ والسلام کی خاص خصوصیت ہے کہ آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا جتنا آپ نے کیا ،آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہیں کھاتے تھے۔(مراۃ المناجیح،ج6،حدیث نمبر:4488)لہذا ایک میزبان کو مہمان کے درج ذیل حقوق کا لحاظ رکھنا چاہیے۔

(1)مہمان کا اکرام کرے: جب کوئی مہمان آئے تو اس کا اکرام کرنا چاہیے،یہ خاص اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والوں کا انداز ہے۔ جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اُسے چاہیے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(مسلم، باب الحث علی اکرام الجار، رقم الحدیث:77)

مفتی احمد یار خان نعیمی اس کے تحت فرماتے ہیں: مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے نیز مہمان کی خاطر (تواضع) مومن کی علامت ہے۔(مراۃ المناجیح،ج6،حدیث نمبر :4243)

(2) مسکراتے چہرے سے ملیں: میزبان اپنے مہمانوں کی خدمت اور ان کے لیے کشادگی کا اظہار کرے نیز ان سے خندہ پیشانی سے ملے۔ کہا گیا ہے کہ خندہ پیشانی سے ملنا مہمان نوازی سے بہتر ہے۔ ایک عربی شعر کا ترجمہ ہے: ہم مہمان کے ٹھہرنے سے پہلے ہی اس کی مہمان نوازی کردیتے ہیں کہ ہم اس سے مسکراتے چہرے کے ساتھ ملتے ہیں۔(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 432)

(3)تکلف نہ کرے جو کچھ ہو پیش کردے : میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی میں تاخیر نہ کرے اور کھانے کی کمی کے سبب مہمانوں کو منع نہ کرے بلکہ جو کچھ پاس ہو اسے مہمانوں کے سامنے پیش کردے۔ حضرت انس بن مالک اور دیگر صحابہ کرام علیھم الرضوان وہ خشک روٹی کے ٹکڑے اور ردِّی کھجوریں مہمان کے سامنے رکھ کر فرماتے:" ہم نہیں جانتے دونوں میں کس کا گناہ زیادہ ہے اس کا جو پیش کی گئی چیز کو حقیر جانے یا اس کا جو اپنے پاس موجود چیز پیش کرنے کو حقیر جانے۔" (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 436)

(4)مہمان نوازی خود کرے : میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے۔

(5)میزبان مہمانوں کے پاس حاضر رہے: میزبان کو بِالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائِب ہوجائے، بلکہ وہاں حاضِر رہے اور مہمانوں کے سامنے خادِم وغیرہ پر ناراض نہ ہو اور اگر صاحِبِ وُسْعَت ہو تو مہمان کی وجہ سے گھر والوں پر کھانے میں کمی نہ کرے۔ ( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)

(6)میزبان ساتھ بیٹھ کر کھائے : اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔ (بہار شریعت، ج3، حصہ 16،ص397)

(7)رات کا کچھ حصہ مہمانوں کے ساتھ گزارے:رات کو اپنے مہمانوں کے ساتھ کچھ وقت گزارے، انہیں اچھی باتیں اور دلچسپ و انوکھے واقعات سنا کر مانوس کرے اور مزاح سے بھرپور باتوں کے ذریعے ان کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کرے (لیکن خلاف شرع اور حد سے زیادہ نہ ہوں ، دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص434)

(8)گھر کے دروازے تک رخصت کرکے آئے: میزبان کو چاہیے کہ سنت پر عمل کرتے ہوئے مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ( ابن ماجہ،باب الضیافۃ،رقم الحدیث :3358)

مزید کچھ آداب:امام بہاء الدین محمد بن احمد مصری شافعی علیۃ الرحمن میزبان کے آداب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مہمان نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے جس کے سبب ان کا دل اُس کی طرف مائل ہو، ان سے پہلے نہ سوئے، ان کی موجودگی میں زمانے سے شکوہ نہ کرے اور جانے پر غمگین ہو اور ان کے سامنے ایسی بات نہ کرے جس سے یہ خوفزدہ ہوں۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ج1، ص 433)

اللہ پاک ! ہمیں اچھے انداز مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین)


جس گھر میں مہمان کھانا کھاتے ہیں اس گھر میں برکت ہوتی رہتی ہے ویسے تو لوگ اپنے گھر میں کھانا کھاتے ہیں لیکن اس گھر میں خیر و برکت نازل ہوتی رہتی ہے ائیے ہم مہمانوں کے حقوق کے بارے میں جانیں گے

(1)مہمان کی تعظیم: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے ۔ (صحیح بخاری جلد 6صفحہ 136 حدیث 6138)

گھر کے دروازے تک جانا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سنت ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (مرأۃ المناجیح جلد 6 ص 77)

مہمان کی عزت کرنا: حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپ نے فرمایا حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہما میرے پاس تشریف لائیں اور انہوں نے مجھے ایک کتاب دی جس میں لکھا تھا جو اللہ اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اور اسے چاہیے کہ مہمان سے بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔(اکرام الضعیف مترجم ص 21) جمعیت اشاعت اہلسنت پاکستان)

پانچ کاموں میں جلدی کرنا: حضرت سیدنا خاتم اصم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم فرماتے ہیں جلد بازی شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے مہمان کو کھانا کھلانے میں میت کو دفن کرنے میں کنواری لڑکی کا نکاح کرنے میں قرض کی ادائیگی میں اور گناہوں سے توبہ کرنے میں۔ (احیاءالعلوم جلد 2 ص56)

مہمانوں کی میزبانی کرنا: حضرت ابو کریم رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا رات کے آنے والے مہمان کی میزبانی کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ (ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 598)


مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلَّی  اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سُنّت ِمُبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کِرام علٰی نَبِیِّنا وعلیہم الصلٰوۃ و السَّلَام کاطریقہ بھی ہےچنانچہ ابوالضَّیفان حضرتِ سیِّدُنا اِبراہیم خلیلُ اللہ علیہ السَّلام بہت ہی مہمان نواز تھےاور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے(یعنی نہ کھاتے) تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مہمانوں کا ذکر قرآن پاک میں بھی ہے۔ چناچہ اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَ ترجمہ کنز الایمان: اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ (الذّٰریٰت آیت نمبر 24) ایک اور مقام میں فرمایا۔ وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے مہمانوں کا۔ (الحِجر: آیت نمبر 51)

مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا ۔ (روح البیان، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۴ / ۱۶۱، خازن، ہود، تحت الآیۃ: ۶۹، ۲ / ۳۶۰-۳۶۱، ملتقطاً)

مہمان کی تعریف: مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو۔ جو ہمارے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دوچار منٹ کے لیے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جو ناواقف شخص اپنے کام کے لیے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے مہمان نہیں۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4244)

مہمان کے حقوق احادیث کی روشنی میں: مہمان نوازی ایک فطری و احسن عمل ہے اور متعدد احادیث میں مہمانوں کے حقوق اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی ترغیب دی گئی ہے جن میں سے کچھ فرامینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پیش کئے جاتے ہیں:-

(1)۔۔۔۔ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے.(ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث:3356)

(2)۔۔۔۔ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

(3)۔۔۔۔ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتاہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اس کی مہمانی ایک دن رات ہے اور دعوت تین دن ہے اس کے بعد وہ صدقہ ہے مہمان کو یہ حلال نہیں کہ اس کے پاس ٹھہرا رہے حتی کہ اسے تنگ کردے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4244)

(4)۔۔۔۔ مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔ (تمہید الفرش،ص18)

(5)۔۔۔۔ آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے ( مہمان نواز )کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ (کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)

(6)۔۔۔۔ جوشخص اللہ عَزَّوَجَلَّ اور قِیامت کے دن پراِیمان رکھتا ہےاسے چاہیے کہ وہ دستور کے مطابق اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے۔عرض کی گئی: یارسولَ اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! دستور کیاہے؟فرمایا:’’ایک دن اور ایک رات اور ضِیافت(مہمانی) تین دن ہےاورتین دن کے بعد صَدَقہ ہے۔‘‘اورمُسْلِم کی رِوآیت میں ہے:کسی مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اپنے مسلمان بھائی کے یہاں اِتنا عرصہ ٹھہرے کہ اُسے گُناہ میں مبتلا کر دے۔صحابہ ٔکِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی: یارسولَ اللّٰہ!وہ اُس کو کیسے گُناہ میں مبتلا کرے گا؟اِرشاد فرمایا:’’وہ اُس شخص کے یہاں اِتنے وقت تک ٹھہرے کہ اُس کے پاس مہمان نوازی کے لیے کچھ نہ رہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)

مہمان نوازی کی مُدّت: عَلَّامَہ خَطَّابِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں:میزبان ایک دن رات مہمان کے لیے(کھانے پینے کی چیزوں میں) تکلُّف کرےاور اُس کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں(بِلا تکلُّف واِہْتِمام) اُس کے سامنے جو حاضِر ہو(یعنی گھر میں جو کھانا بنا ہو) پیش کردے اور جب تین دن گزرجائیں تو مہمان کا حق گزر گیا اور جب اِس سے زِیادہ اُس کی ضِیافت کرے گاتو وہ صَدَقہ ہوگی۔مرآۃ المناجیح میں ہے:پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلُّف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے، بعد میں صَدَقہ ہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:6 , حدیث نمبر:707)

(7)۔۔۔۔ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

مہمان کے احترام سے مراد:- مفسّر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے،بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اس کے ہاتھ دھلاتے ہیں یہ اسی حدیث پر عمل ہے،بعض لوگ مہمان کے لیے بقدر طاقت اچھا کھانا پکاتے ہیں وہ بھی اس عمل پر ہے جسے کہتے ہیں مہمان کی خاطر تواضع۔اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے ۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تقاضاء ایمان ہے جیسے باپ اپنے بیٹے سے کہے کہ اگر تو میرا بیٹا ہے تو میری خدمت کر،مہمان کی خاطر مؤمن کی علامت ہے۔خیال رہے کہ پہلے دن مہمان کے لیے کھانے میں تکلف کر،پھردو دن درمیانہ کھانا پیش کر،تین دن کی بھی مہمانی ہوتی ہے بعد میں صدقہ ہے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243) احادیثِ مذکورہ اور ان کی وضاحت سے ملنے والے10مدنی پھول:-

(1) مہمان کی عزت و اِحتِرام اور اِس کی خاطِر تواضُع کرنا اَنبیائے کِرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی سُنَّت ہے۔

(2) اسلام میں مہمانوں کی مہمان نوازی کاحکم دیا گیاہے۔

(3) مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق بھی اپنے ساتھ لاتا ہے۔

(4) حضرت اِبراہیم عَلَیْہِ السَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے، بِغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ۔

(5) مہمان وہ ہے جو مُلاقات کے لیے باہَر سے آئے خَواہ اُس سے ہماری جان پہچان پہلے سے ہو یا نہ ہو۔

(6) مہمان کا اکرام یہ ہے کہ اُس سے خَنْدہ پَیشانی سے ملے،اُس کیلئےکھانے وغیرہ کا اہتمام کرے۔

(7) ایک دن رات مہمان کیلئے کھانے میں تکلُّف اُس کے ساتھ زِیادہ نیکی کرےاور بعد کے دو دن میں بِلا تکلُّف اُس کے سامنے جو کھانا حاضِر ہو پیش کردے ۔

(8) مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کے پاس تین دن سے زِیادہ نہ ٹھہرے ۔

(9) میزبان کی خواہش پرتین دن سے زِیادہ ٹھہرنے میں حرج نہیں۔

(10) مہمان کورخصت کرتے وَقت کچھ دُور پہنچانے جانا سُنَّت ہے۔

اب یہاں ضمنًا مہمان و میزبان کے لئے کچھ آداب بیان کیے جاتے ہیں:-

"مہمان کے لیےآداب"

صَدْرُالشَّرِیْعَہ بَدرُالطَّرِیْقَہ حضرتِ علامہ مولانامفتی محمدامجدعلی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہ الْقَوِی فرماتے ہیں: ’’مہمان کو چار باتیں ضَروری ہیں:(1)جہاں بِٹھایا جائے وہیں بیٹھے۔(2) جو کچھ اُس کے سامنے پیش کیا جائے اُس پر خوش ہو،یہ نہ ہو کہ کہنے لگے: اِس سے اچھا تو میں اپنے ہی گھر کھایا کرتا ہوں یا اِسی قِسْم کے دُوسرے اَلفاظ جیسا کہ آج کل اکثر دعوتوں میں لوگ آپَس میں کہا کرتے ہیں۔(3) بِغیر اِجازتِ صاحِبِ خانہ وہاں سے نہ اُٹھے۔(4)اور جب وہاں سے جائے تو اُس کے لیے دُعا کرے۔ (بہارشریعت،ج3،ص394ملخصاً)

"میزبان کے لئے آداب"

(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ (احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)

(6) سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔

(ابن ماجہ کتاب الطعمۃ، باب الضیافۃ، الحدیث 3358 ،ج 4 ،ص 52)

اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمیں اخلاص کے ساتھ مہمانوں کے حقوق ادا کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ


اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اللہ ربُّ العزت نے زندگی گزارنے کے تمام تر معاملات میں انسان کی راہنمائی ‏فرمائی اور جہاں دیگر کثیر احکام بیان فرمائے وہیں مہمان نوازی کو بھی ایک بنیادی وصف اور اعلیٰ خلق کے طور پر بتایا گیا ہے اور ‏مہمان کی تعظیم، خدمت اور ضیافت وغیرہ کا اہتمام میزبان پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم قرار دیا۔ ذیل میں انہیں حقوق میں ‏سے پانچ حقوق بیان کیے گئے ہیں۔ ملاحظہ کیجئے:‏

(1)خندہ پیشانی کے ساتھ استقبال کرنا: مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ ان کا پرتپاک استقبال کیا جائے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ ‏وسلَّم مختلف قبائل سے آنے والے وفود کے اِستقبال اور ان کی ملاقات کا خاص طورپر اہتمام فرمایا کرتے تھے اور ہر وفد کے آنے پر ‏آپ علیہ السّلام نہایت ہی عمدہ پوشاک زیب ِتن فرما کر کاشانۂ اقدس سے نکلتے اور اپنے خصوصی اصحاب رضی اللہُ عنہم کو بھی حکم دیتے ‏تھے کہ بہترین لباس پہن کر آئیں۔(صراط الجنان، 7/498)‏

(2)عزت و احترام سے پیش آنا: مہمان کے حقوق میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے ساتھ عزت و احترام والا معاملہ کیا جائے۔ ‏جیسا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جو اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مہمان کا ‏احترام کرے۔(بخاری، 4/136، حدیث: 6136)‏

اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ نہیں کہ جو مہمان کی خدمت نہ کرے وہ کافر ہے۔مطلب یہ ہے کہ مہمان کی خاطر تواضع کرنا ‏ایمان کا تقاضا اور مؤمن کی علامت ہے۔ (دیکھئے: مراٰۃ المناجیح، 6/52)‏

(3)اچھا کھانا کھلانا:مہمان کے بنیادی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ میزبان ان کے لئے اپنی حیثیت کے مطابق عمدہ و لذیذ ‏کھانے کا اہتمام کرے۔ قراٰنِ پاک میں جلیل القدر پیغمبر حضرت سیدنا ابراہیم خلیلُ اللہ علیہ السّلام کا اسی (ضیافت)کے ساتھ وصف ‏بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب آپ علیہ السّلام کے پاس فرشتے بصورتِ انسان تشریف لائے تو آپ نے بچھڑے کے بھنے ہوئے گوشت ‏سے ان کی ضیافت فرمائی۔ (صراط الجنان، 4/464)‏

(4)مہمان نوازی میں خود مشغول ہو اور کھانے میں شامل ہو: بہار شریعت میں ہے: میزبان کو چاہئے کہ مہمان کی خاطر داری ‏میں خود مشغول ہو، خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو ‏میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضائے مُروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی ‏خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو۔(بہار شریعت، 3/394)‏

(5)رخصت کرنے کے لئے دروازے تک چھوڑنا: میزبان کو چاہئے کہ وہ اپنے مہمانوں کو رخصت کرنے کیلئے دروازے تک ‏چھوڑنے آئے۔ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے ‏دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ،4/52، حديث: 3358)‏

مہمان کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی ‏اجنبی نہیں آیا۔ اس میں اور بہت حکمتیں ہیں: آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔(دیکھئے:مراٰۃ المناجیح، 6/67)‏

دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرتے ہوئے ہمیشہ مہمانوں کی تعظیم کرتے رہنے کی ‏توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


معاشرےکےافرادکےظاہروباطن کو بُری خصلتوں سے پاک کرکےاچّھے اوصاف سے مزیّن کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک باکردار فرد بنانا بہت بڑا کام اور انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ و السَّلام کا طریقہ ہے۔ جن میں ہمارے آخری نبی  صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے جس گوشے پر بھی نظر ڈالیے آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کامل ومکمل نظرآئیں گے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی مربیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے تمام ہی معلّمین آپ کے خوشہ چین نظر آئیں، آپ  صلی اللہ علیہ وسلم  کی ازدواجی زندگی کا جائزہ لیں تو آپ  صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کے لیے بہترین شوہر ہیں، آپ کی مجاہدانہ وسپاہیانہ زندگی پر نظر کریں تو دنیا کے بہادر آپ سے کوسوں دور ہوں گے، اسی طرح بچوں کے ساتھ آپ کے حسنِ سلوک کا جائزہ لیں تو آپ بہترین مربی بھی ہیں،جس طرح پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے افعال وکردار سے تربیت فرمائی اسی طرح اپنے فرامین سے بھی تربیت فرمائی۔آیئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ اقوال جن سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو چیزوں کے ذریعے تربیت فرمائی ملاحظہ فرمائیے۔

دو چیزیں جوان رہتی ہیں : فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَيَشِبُّ مِنْهُ اثْنَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ ترجمہ: انسان بوڑھا ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں (01) مال کی حرص اور(02) عمر کی حرص (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 2405)

مومن کے لئے بہتر ہے:فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : اثْنَتَانِ يَكْرَهُهُمَا ابْنُ آدَمَ: يَكْرَهُ الْمَوْتَ وَالْمَوْتُ خَيْرٌ لِلْمُؤْمِنِ مِنَ الْفِتْنَةِ، وَيَكْرَهُ قِلَّةَ الْمَالِ وَقِلَّةُ الْمَالِ أَقَلُّ لِلْحِسَابِ. ترجمہ:دو چیزیں ہیں جنہیں انسان ناپسند کرتا ہے،وہ موت کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ موت مؤمن کے لیے فتنے سے بہتر ہے اور مال کی کمی کو ناپسند کرتا ہے حالانکہ مال کی کمی حساب کو کم کردے گی(مشکوۃ المصابیح:5251)

کس کو اختیار کریں اور کس کو چھوڑیں: حضرت سیِّدُنا ابو محمد حسن بن علی رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں: میں نےرسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (سے سن کر)یہ بات یاد کی کہ ’’جو چیز تجھے شک میں ڈالے اسے چھوڑ کر وہ اختیار کر جو تجھے شک میں نہ ڈالے۔‘‘(ترمذی، كتاب صفة القیامة والرقائق والورع، 4/232، حدیث:2526)

گمراہی سے بچانے والی دو چیزیں: فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ الله وَسُنَّةَرَسُولِه ترجمہ:میں نے تم میں دو چیزیں وہ چھوڑی ہیں جب تک انہیں مضبوط تھامے رہو گے گمراہ نہ ہوگےاللہ کی کتاب اور اس کے پیغمبرکی سنت (مشکوۃ المصابیح:66)

عورت کو حکم:فرمان آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم : لَوْ کُنْتُ آمِرًا اَحَدًا اَنْ یَّسْجُدَ لِاَحَدٍ لَاَمَرْتُ المَرْاَۃَ اَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِہَا ترجمہ:اگر میں کسی کو کسی کے لئے سجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔ (ترمذی،ج2، ص386، حدیث: 1162) شرح حدیث: اس حدیثِ پاک میں دو چیزوں کا بیان ہے:

(1)اگر مخلوق میں سے کسی کو سجدۂ تعظیمی کرنے کی اجازت ہوتی تو عورت کو حکم دیا جاتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے کیونکہ بیوی پر شوہر کے کثیر حُقوق ہیں جن کی ادائیگی سے وہ عاجز ہے۔ اس حدیثِ پاک میں عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت کرنے کے وُجوب میں انتہائی مبالغہ ہے۔

(2)اللہ پاک کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنا حلال نہیں۔(مرقاۃ المفاتیح،ج 6،ص401، تحت الحدیث:3255)

اللہ پاک ہمیں آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک فرامین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیاء سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم