مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت اور اسلام کے آداب میں سے ہے مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء عظام کی خصلت ہے مہمان نوازی کے کچھ حقوق ملاحظہ ہوں ۔

1) مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالی اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے۔ (صراط الجنان جلد 2 صفحہ 201)

2) میزبان کے لیے آداب: 1) کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2) کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کیے جائیں کیونکہ طبی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ موافق ہے (3) مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھا لے (4) جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اٹھایا جائے (5) مہمانوں کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہے اور ضرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ اور دکھلاوا ہے (احیاء العلوم ج 2 ص 21تا 23)

3) مہمانوں کی خاطرداری: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں خود مشغول ہو خادموں کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضہ مروت ہے اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں مشغول ہو مہمانوں کے ساتھ ایسے کو نہ بٹھائے جس کا بیٹھنا ان پر گراں ہو۔ ( بہار شریعت ج 3 ص 394)

4) مہمان نوازی میں جلدی کرنا: میزبان کو چاہیے کہ وہ مہمان نوازی میں جلدی کرے اور مہمان کو اس کا علم نہ ہونے دے اس ڈر سے کہ کہیں وہ اسے مہمان نوازی سے نہ روک دے۔ ( فیضانِ ریاض الصالحین ج 6 ص 70)

5) مہمان کو دروازے تک چھوڑنا: مہمان کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے اور پڑوسیوں کا اطمینان کے وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست یا عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ ایا تھا اس میں اور بہت حکمتیں ہیں انے والے کی محبت میں کبھی کھڑا ہو جانا بھی سنت ہے۔۔ (فیضان ریاض الصالحین ج 6 ص 76)


دینِ اسلام نے جس طرح والدین ،اولاد،اساتذہ وغیرہا کے حقوق بیان کیے ہیں ،اسی طرح مہمان کے حقوق بھی بیان کیے ہیں ـمہمان باعثِ برکت ہوتا ہے،اس کا خوش دلی سےاستقبال و احترام کرنا چاہیے۔ اسی متعلق (حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس طرح دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان سے چْھری (تیزی سے گزرتی ہے)،بلکہ اِس سے بھی تیزـ (سنن ابنِ ماجہ ،باب الضیافۃ،الحدیث3356،ج4،ص51)

٭مہمان ، میزبان  کی بخشش کا سبب بنتاہےـ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ، جب  کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ـ آئیے مہمان کے حقوق ملاحظہ کیجیئےـ

٭ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے  کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو اللہ اور روزِ حشر پر ایمان رکھتا ہے  اس کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جواللہ اور روزِ حشر پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ صلہ رحمی کرے  اور جو اللہ اور روزِ حشر پر ایمان رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے یا خاموش رہے ـ   (متفق علیہ)  (صحیح بخاری ،باب الاکرام الضیف و خدمتہ ،صحیح مسلم ، باب الحث علی اکرام الجار و الضیف

٭حکیم الامت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پاک کے تحت مہمان کے حقوق بیان فرمائیں ہیں ـ

٭1:مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا ـ

٭2:مہمان کے لیے معمول سے ہٹ کر خاص کھانے کا  انتظام کرناـ

٭3: حتی الامکان اپنے ہاتھ سے مہمان کی خدمت کرنا ـ

٭4: مہمان کے آگے خود دسترخوان بچھانا ـ

٭5 : مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ ہے کہ اگر مہمان حاضر ہو جائے اور آپ کے پاس اْس کی مہمان نوازی کے لئے مال نہ ہو تو قرض لے کر اس کی مہمان نوازی کی جائے۔ ایک دفعہ سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ایک مہمان حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔

٭ ابو رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ، خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ فلاں یہودی سے کہو مجھے آٹا قرض دے ، میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کردوں گا (کیوں کہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہے)  یہودی نے کہا، جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے ، نہ دوں گا ـ حضرت سیدنا رافع  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں واپس آیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیاـ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، و اللہ !میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوںـاگر وہ دے دیتا تو میں ادا کردیتا (اب میری وہ زرہ لے جاؤ اور گروی رکھ آؤـ تو میں زرہ گروی رکھ کر آٹا لے آیا(المعجم الکبیر ، الحدیث 989 ،ج1،ص331)

:مہمان کی خاطر و خدمت مومن کی  علامت ہے ـاللہ ہمیں حقوق کی ادائیگی کی توفیق  عطا فرمائے ـآمین بجا ہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم ـ


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ حقوق العباد کی بہت ساری قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم مہمان کے حقوق ہیں مہمان نوازی اچھا عمل ہے نیکیوں والا عمل ہے مگر افسوس ہمارے ہاں اس نیک کام کو اول تو نیکی سمجھ کر نہیں کیا جاتا دوسرا یہ کہ اس اچھے عمل کے آداب کا لحاظ بھی لوگ نہیں کرتے۔ جب مہمان کی آمد پر  حقوق و آداب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو طرح طرح کے مسئلے ہو جاتے ہیں بعض اوقات لڑائ جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں ہماری شریعت کا خاصہ ہے کہ اس میں نیک اعمال کے فضائل ہی بیان نہیں کیئے جاتے بلکہ نیکیاں کرنے کے آداب اور اچھے انداز بھی سکھائے جاتے ہیں اس لئیے مہمان نوازی کے آداب و حقوق سیکھ لینے چاہیئے آئیے مہمان کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں ۔ مہمان کے چند حقوق

1۔ مہمان کا استقبال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو اللّہ پاک اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کا احترام کرے۔

مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی (مسکرا کر اچھی طرح)سے ملے ، اس کے لئیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(550 سنتیں اور آداب ص23)

2 کھانا جلدی حاضر کیا جائے :کھانا جلدی حاضر کیا جائے تاکہ مہمان انتظار نہ کرے یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے چنانچہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے جو اللّہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ مہمان کی عزت کرے۔(احیاء العلوم جلد2, ص149)

3 نرم (اور (عمدہ و لذیذ) کھانا پہلے پیش کیا جائے): تاکہ کھانے والوں سے جو چاہے اسی میں سے سیر ہو جاۓ اور بعد میں زیادہ نہ کھاۓ- بعض مالدار لوگ سخت کھانا پہلے رکھتے ہیں تاکہ بعد میں نرم (لزیز) کھانا دیکھ کر دوبارہ خواہش پیدا ہو - یہ خلاف سنت اور زیادہ کھانے کا یہ ایک حیلہ (بہانا ہے) ہے ۔ (احیاء العلوم،جلد2،ص 151تا152)

4 کھانا اٹھانے سے جلدی نہ کی جائے:یعنی جب تک کھانے والے کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں(رک جائیں)تب تک دستر خوان نہ اٹھایا جاۓ کیونکہ ممکن ہے کسی کو بچے ہوئے کھانے کی خواہش باقی ہو یا کوئ ابھی مزید کھانا چاہتا ہو جلدی اٹھا لینے سے بد مزگی ہو گی بزرگوں کے قول "دستر خوان پر سب کو کھانا پہنچ جانا زیادہ کھانوں سے بہتر ہے" کا یہی مطلب ہے(برتن اٹھانے میں جلدی نہ کی جاۓ) یہ بھی احتمال ہے اس سے مکان کی وسعت (کشادہ جگہ) مراد ہو (تاکہ مہمان کو بیٹھنے میں کسی قسم کی تنگی نہ ہو) (احیاء العلوم جلد2،ص153تا154)

5 مہمان کی واپسی: مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جاۓ کہ یہ سنت ہے نیز اس میں اکرام(حق) بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا حکم بھی دیا گیا ہے چناچہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے ۔


حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ    روایت کرتے ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس گھر میں مہمان ہو بھلائی اس گھر کی طرف کوہان میں چھری چلنے سے بھی زیادہ تیز چلتی ہے (سنن ابن ماجہ کتاب الطعمۃ، باب الضیافہ جلد 4 رقم  3356 ص،51)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں : ہمارا مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے باہر سے آئے خواہ اس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو۔ جو ہمارے اپنے ہی محلہ یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دوچار منٹ کے لیے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں اس کی خاطر تو کرو مگر اس کی دعوت نہیں ہے اور جو ناواقف شخص اپنے کام کے لیے ہمارے پاس آئے وہ مہمان نہیں جیسے حاکم یا مفتی کے پاس مقدمہ والے یا فتویٰ والے آتے ہیں یہ حاکم کے مہمان نہیں۔ (   کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:6 , حدیث نمبر:4244)

(1)مہمان کو کھانا کھلانا : خاتم المرسلین رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں سب سے بدتر شخص کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ وہ شخص ہے جو خود تو کھائے مگر اپنے مہمان کو کھانے سے روک دے ۔(کنز العمال،الفصل الثامن،الحدیث،44038،ج16ص،40)

(2)مہمان نوازی میں جلدی کرنا : منقول ہے کہ جلد بازی شیطان کی طرف سے ہے مگر ان چھ کاموں میں جلدی کرنا شیطان کی طرف سے نہیں وہ یہ ہے ۔

(1)جب نماز کا وقت ہو جائے تو اس میں جلدی کرنا

(2) مہمان آئے تو اس کی مہمان نوازی کرنا

(3) کسی کے ہونے پر اس کی تجہیز و تکفین کرنا

(4) بچی کے بالغ ہونے پر اس کی شادی کرنا

(5) قرض کی ادائیگی کا وقت ا جائے تو اس سے جلدی جلدی ادا کرنا

(6) کوئی گناہ ہو جائے تو فورا توبہ کرنا ۔ (الرؤض الفائق مترجم ص،164،مکتبۃ المدینہ )

(3) مہمان پر اکرام کرنا : طبرانی نے کبیر میں  ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت کی، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے اور جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ حق بولے یا سکوت کرے یعنی بُری بات زبان سے نہ نکالے اورجو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے۔ ( المعجم الکبیر ‘‘ ، الحدیث :   13561 ، ج 12 ، ص324 )۔ 

 (4) مہمان کو رخصت کرنا :   ابن ماجہ نے ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے روایت کی، رسول  اﷲ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  نے فرمایاکہ ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔(’’ سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ، باب الضیافۃ،الحدیث: 3358 ،ج 4 ،ص 52)

(5) جنت میں داخل ہوگا۔حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہماسے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور، دو جہاں کے تاجور ، سلطان نحر وبر صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا، جو نماز قائم کرے اور زکوة ادا کرے اور بیت اللہ کا حج کرے اور رمضان کے روزے رکھے اور مہمان کی مہمان نوازی کرے جنت میں داخل ہوگا۔(المعجم الکبیر حدیث 12692،ج12،ص106)


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں و قرآن وحدیث میں مہمان کے حقوق کو بہت تفصیل سے بیان فرمایا، مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضح کرنا انبیائے کرام علیہ السلام کی سنت ہے ۔ مہمان کو رخصت کرتے وقت کچھ دور پہنچانے جانا سنت ہے. جب کبھی مہمان آجائے تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اُس کی خاطر مدار ت کرنی چاہیے: اللہ عزوجل ہمیں اخلاص کے ساتھ مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

مہمان کی تعریف :مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہمارا مہمان وہ ہے جو ہم سے ملاقات کے لیے۔ باہر سے آئے خواہ اُس سے ہماری واقفیت پہلے سے ہو یا نہ ہو جو ہمارے اپنے ہی محلے یا اپنے شہر میں سے ہم سے ملنے آئے دو چار منٹ کے لیے وہ ملاقاتی ہے مہمان نہیں ۔

(1) تکلف نہ کرنا : اللہ کے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ ۔ اس طرح تم اُس سے نفرت کرنے لگوگے اور جو مہمان اسے نفرت کرتا ہے وہ اللہ عزوجل سے بغض کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے بغض کرتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ( احیاء العلوم کا خلاصہ صفی سمبر 134)

(2) تعظیم کرنا : تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مہمان خدا کی طرف سے برکت ہے : اور اللہ تعالٰی کی نعمت ہے تو جس نے مہمان کی تعظیم کی وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا اور جس نے مہمان کی تعظیم نہ کی وہ مجھ سے نہیں ۔ (فیضان سنت ھی نمبر 830)

(3) دروازہ تک رخصت کرنا : حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا بیان ہے تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے ۔ ( فیضان سنت صفحہ نمبر 831)

(4) کھانا کھلانا : حضرت حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جلد باز شیطان کا کام ہے مگر پانچ چیزوں میں جلدی کرنی چاہے . (1) مہمان کو کھانا کھلانا (2) میت کو دفن کرنے میں (3) لڑکیوں کے نکاح میں (4) قرض ادا کرنے میں (5) گناہوں سے توبہ کرنے میں نیز دعوت ولیمہ میں جلدی کرنا ۔(فیضان سنت صفحہ نمبر 824)

(5) سوال نہ کرنا : حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کوئی آدمی اپنے کسی مسلمان بھائی کے پاس مہمان بن کر جائے تو وہ اُسے جو کچھ کھلائیں پلائے وہ کھا پی لے اور اس کے متعلق نہ تو سوال کرے نہ فرمائش کرے اور نہ کوئی جستجو کرے ۔( ایمان کی شاخیں صفحہ نمبر 600)


جس گھر میں مہمان ملاقاتی لوگ کھانا کھاتے رہیں وہاں برکت رہتی ہے ورنہ خود کھانے والے تو ہر گھر میں ہی کھاتے ہیں جس گھر میں مہمان ہوتے ہیں اس گھر میں خیر و برکت جلدی پہنچتی ہے ائیے کچھ مہمانوں کے حقوق کے بارے میں ہم جانتے ہیں۔

1)مہمان کی تعظیم کرنا : حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اور قیامت قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کریں یا خاموش رہے۔ (صحیح بخاری جلد 4 صفحہ 136 حدیث 2138)

2)جو مہمان نہ بنایا اس کا مہمان بنانا : روایت حضرت ابو الاحوص جشمی سے وہ اپنے باپ سے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ فرمائیے تو اگر میں کسی شخص پر گزروں تو نہ وہ میری مہمانی کرے اور نہ مجھے دعوت دے وہ مجھے پر اس کے بعد گزرے تو میں اسے مہمان بناؤں یا بدلہ فرمایا بلکہ میں مہمان بناؤ ۔ (مراۃ المناجیح جلد 6 صفحہ 71)

3)گھر کے دروازے تک جانا : روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (مراۃ المناجیح جی جلد 6 صفحہ 77)


مہمان نوازی کرنا سنت مبارکہ ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کیے گئے ہیں۔یہاں تک کہ فرمایا مہمان باعث خیر و برکت ہے۔جیسا کہ حضرت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔(سنن ابن ماجہ ،الحدیث3356،جلد4،ص51)

اگر مہمان رات گزارنے کے لیےآئے تومیزبان اسے قبلہ،قضائے حاجت اور وضو کی جگہ بتائےکہ حضرت سیدناامام مالک علیہ الرحمہ نے حضرت سیدناامام شافعی علیہ الرحمہ کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا(احیاء العلوم،جلد2،ص146)

کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے کہ یہ مہمان کے اکرام میں سےہے چنانچہ اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے۔جو اللہ عزوجل اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے(صحیح بخاری،جلد4،الحدیث:6135)

کھانا پیش کرنے کے کچھ آداب۔اسلاف کا طریقہ تھا کہ وہ تمام اقسام کے کھانے اور پیالے ایک بار میں ہی دسترخوان پر رکھ دیا کرتے تھے تاکہ ہر شخص اپنی خواہش کے مطابق کھائے۔ اگر ایک قسم کا کھانا ہو تو مہمانوں کو بتا دیا جاتا ہے کہ وہ اسی سے سیرہوجائیں اور اس سے عمدہ کے انتظارمیں نہ رہیں۔

واپسی کےآداب: مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے کہ یہ سنت ہے۔اس میں مہمان کا اکرام بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا حکم دیا گیا ہے۔(چنانچہ رسول عربی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے)،،مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے۔ (سنن ابن ماجہ،الحدیث3358)

مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو کی جائے۔حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سے پوچھا گیا: کہ کون سا کام مہمان کی تعظیم ہے؟ فرمایا خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور اچھی بات کرنا۔

مہمان کی مہمان نوازی میزبان پر واجب ہے۔ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نوازی فرمائی۔ چنانچہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو رافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا۔ فلاں یہودی سے کہو کہ مجھے آٹا قرض دےکہ میں رجب شریف کے مہینے میں ادا کر دوں گا (کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے) یہودی نے کہا،جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گے،نہ دوں گا۔ حضرت سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا اور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا و اللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں۔ اگر وہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا ۔ اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ ۔ میں لےگیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا ) (المعجم الکبیر الحدیث 989 ، ج 1، ص 331)

اے ہمارے پیارے اللہ عزوجل ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار ہمیں میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں میٹھے میٹھے مدنی آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرما۔


اسلام ایک پرامن دین ہے ۔جو زندگی  کے ہر معاملے میں انسان کی رہنمائی کرتا ہے۔ اور اپنے ماننے والوں کو زندگی کے ہر اچھے معاملے کا درس دیتا ہے۔ ۔انھیں معاملوں میں ایک معاملہ مہمان کے حقوق بھی ہیں۔مہمان کی خاطر(داری) ایمان کا تقاضاء ہے۔اور مہمان نوازی کرنا سنت انبیاء ہے،دین اسلام نے مہمان کے حقوق کو میزبان پر لازم قرار دیا۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی مہمان کے حقوق کا خیال رکھنے کی بہت  تاکید فرمائی۔  اور فرمایا: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ،یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔ (صحیح بخاري،433/2،حدیث:6138)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (مراة المناجیع ، 52/6 )

سنت ابراہیم علیہ السلام ہے: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا تذکرہ فرمایا ہے۔ وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذ ([69])(ھود) ترجمۂ*کنز العرفان،اور بیشک ہمارے فرشتے ابراہیم کے پاس خوشخبری لے کر آئے ۔انہوں نے ’’سلام‘‘ کہا تو ابراہیم نے ’’سلام‘‘ کہا۔ پھر تھوڑی ہی دیر میں ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔

  تفسیر خزائن العرفان میں ہے  ۔ سادہ رُو، نوجوانوں کی حسین شکلوں میں فرشتے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاس حضرت اسحق اور حضرت یعقوب عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی پیدائش کی خوشخبری لے کر آئے۔ فرشتوں نے سلام کہا تو حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے بھی جواب میں فرشتوں کو سلام کہا، پھر تھوڑی ہی دیر میں حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے۔ مفسرین فرماتے ہیں کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بہت ہی مہمان نواز تھے اور بغیر مہمان کے کھانا تَناوُل نہ فرماتے ،اس وقت ایسا اتفاق ہوا کہ پندرہ روز سے کوئی مہمان نہ آیا تھا، آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اس کا غم تھا ۔اور جب ان مہمانوں کو دیکھا تو آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ان کے لئے کھانا لانے میں جلدی فرمائی، چونکہ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یہاں گائے بکثرت تھیں اس لئے بچھڑے کا بھنا ہوا گوشت سامنے لایا گیا۔ (خزائن العرفان ھود تحت الایۃ 69ص 413)

مہمان نوازی کی فضیلت پر دو احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ عیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اتنی تیزی سے اُترتی ہے۔جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔  (مشکوۃ المصابیح 2 /457 حدیث4257)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث كے تحت فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے ۔اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہے۔اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔ (مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص67 )

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء،33/2، حدیث:1641 )

حضورصلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے مہمان نوازی کی: حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم   کے غلام تھے ۔ آپ فرماتے ہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مہمان آیا۔  حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے  مجھے فرمایا جاؤ!  فلاں یہودی   کے پاس  اور کہو کہ میرا مہمان آیا ہے۔ مجھے رجب کے مہینے تک کے لیے کچھ آٹا بھیج دے۔  یہودی یہ سن کر بولا ! بخدا میں ان کو کچھ  نہیں دوں گا مگر یہ کہ کچھ رہن رکھا  جاۓ۔  میں نے جاکر حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو خبر اس کی دی ۔آپ نے فرمایا بخدا!  میں آسمانوں  میں  امین ہوں، اور زمینوں میں امین ہوں،  اور اگر وہ مجھے دے دیتا تو میں ضرور اسے ادا کردیتا ،جاؤ میری زرہ لے جاؤ  اور اس کے پاس رہن  رکھ دو ۔( مسند البزار،315/ 9،حدیث: 3863)

مہمان کی خدمت خود کرے: حضرت سیدنا امام شافعی اپنے استاذ محترم حضرت امام مالک کے مہمان بنے تو امام مالک نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھ پر پانی ڈالا اور ان سے کہا یہ دیکھ کر تم گھبراؤنہیں بلکہ اس بات کو زہن نشین کر لو کہ مہمان کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہیں ۔   (دین و دنیا کی انوکھی باتیں،436/1)

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی خاطرداری میں   خود مشغول ہو، خادموں   کے ذمہ اس کو نہ چھوڑے کہ یہ حضرت ابراہیم   علیہ ا لصلوۃ والتسلیم کی سنت ہے اگر مہمان تھوڑے ہوں   تو میزبان ان کے ساتھ کھانے پر بیٹھ جائے کہ یہی تقاضاء مُروت(اخلاق) ہے۔ اور بہت سے مہمان ہوں تو ان کے ساتھ نہ بیٹھے بلکہ ان کی خدمت اور کھلانے میں   مشغول ہو۔      (بہار شریعت، 3/ 397 )

مہمان کیلیے تکلف کرنا: حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم   نے ہمیں حکم دیا کہ ہم مہمان کے لیے تکلف نہ کریں کسی مہمان کے لیےاس چیز کا جو ہمارے پاس نہ  ہو   ہم وہی چیز پیش کریں ہمارے پاس موجود ہو ۔ ( در منثور، صٓ، تحت الایة :86 )

بعض بزرگ فرماتے ہیں تکلف یہ ہے  کہ تو اپنے بھائی کو وہ کھلائے جو تو خود نہیں کھاتا اور اس سے بھی عمدہ اور قیمتی  کھانا کھلانے کا ارادہ کرے۔  بلکہ جو اسے آسانی سے میسر آۓ وہی پیش کرے۔   ( احیاء العلوم،2/ 35 )

بخل نہ کرے :اور جو اپنے پاس ہے اس میں بخل نہ کرے۔ روایت ہے حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے کہ میں نے نبی اکرم رصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ ہم کو بھیجتے ہیں بعض اوقات ہم ایسی قوم پر اترتے ہیں  وہ ہماری خدمت نہیں کرتے تو حضور کیا حکم ہے تب آپ نے فرمایا ۔جب تم کسی قوم پر اترو پھر تھمارے لیے وہ دیں جو مہمانی کیلے مناسب ہے تو اسے قبول کرلو۔اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان سے مہمان کا  وہ حق لے  لو جو مہمانی کیلے کافی ہو ۔ (ابو داوٗد،176/2حدیث :3752 )

حضور کا گزر ایسے شخض کے پاس سے ہوا جس کے پاس بہت سی گاۓ اور بکریاں تھی مگر اس نے مہمان نوازی نہ کی اور ایک ایسی عورت کے پاس سے آپ کا گزر جس کے پاس چھوٹی چھوٹی بکریاں تھی اور اس نے حضور کیلئے ایک بکری کو زبح کیا۔ تب آپ نے فرمایا ان دو کو دیکھو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں اخلاق ہے ۔ ( شعب الایمان،7/ 93، حدیث: 9597)

خلیل اللہ ہونے کی وجہ:حضرت  ابراہیم خلیل اللہ  علیہ السلام سے عرض کی گئی کہ آپ کو کس وجہ سے خلیل بنایا۔ ارشاد فرمایا تین وجوہات کی بنا پر :1،مجھے جب بھی دو چیزوں میں اختیار دیا  گیا۔ تو  میں نے غیر اللہ  کے مقابلے میں اسے اختیار کیا جو مجھ پر اللہ کے لیے ہو۔ 2،جس چیز کا زمہ اللہ نے میرے لئے کیا ہے میں نے کھبی اس کے لیے اہتمام نہیں کیا۔ 3,میں نے کھبی کھانا مہمان کے بغیر نہیں کھایا۔ ( دین و دنیا کی انوکھی باتیں431/ 1)                            

ایک بستر مہمان کے لیے: حضرت جابر سے روایت رسول  ﷲ  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایاکہ ’’ایک بچھونا مرد کے لیے اور ایک اُس کی زوجہ کے لیے اور تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا شیطان کا ہو گا ۔ (صحیح مسلم، 2/ 202حدیث5452 )  

اس حدیث کے تحت مفتی احمد یار خان  نعیمی فرماتے ہیں ۔اہل عرب فخریہ طور پر بہت سے بستر  بناتے اور ان سے گھر سجاتے ۔(مراة المناجیع ،ج 6ج97 )یعنی گھر کے آدمیوں   اور مہمانوں   کے لیے بچھونے جائز ہیں اور حاجت سے زیادہ نہ چاہیے۔

مہمان کو رخصت کرنے: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ  سے روایت ہے، رسول  اﷲ   صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم  نے فرمایا ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔‘‘     ( سنن ابن ماجہ،86/2، حدیث: 3358)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق  عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان  نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرپانچ احادیث

روایت ہے حضرت مقدام ابن معدیکرب سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا جوکسی قوم کا مہمان ہو پھر مہمان محروم رہے تو ہر مسلمان پر اس کی مدد کرنا لازم ہے یہاں تک کہ وہ اپنی مہمانی اس کے مال اور کھیت سے حاصل کرے ۔

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے (مسلم،بخاری۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

روایت ہے حضرت ابوالاحوص جشمی سے وہ اپنے باپ سے راوی فرماتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ فرمایئے تو اگر میں کسی شخص پرگزروں تو نہ وہ میری مہمانی کرے نہ مجھے دعوت دے پھر وہ مجھ پر اس کے بعد گزرے تو میں اسے مہمان بناؤں یا بدلہ لوں فرمایا بلکہ مہمان بناؤ۔(ترمذی کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4248)

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔ (ابن ماجہ۔ کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

شرح حدیث مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اسکا احترام ہے،پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ آیا تھا۔(مرقات)اس میں اور بہت حکمتیں ہیں آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔

مہمان نوازی کی فضیلت:

امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔( شرح النووی علی المسلم،ج2،ص18)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے! حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔( مراٰۃ المناجیح،ج 6،ص52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی مہمانی کرو (شرح البخاری لابن بطّال،ج4،ص118)

نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔( کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

میزبان کے لئے آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔ ( احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو: مہمان کے آنے پر اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارات کرنے کا رواج روزِ اوّل سے ھی اللہ و آخرت پر ایمان رکھنے والوں  کا شعار رھا ھے۔

ہر ملک، علاقے اور ہر قوم میں گو کہ مہمان نوازی کے انداز و اطوار مختلف ضرور ہیں لیکن اس بات میں کسی قوم کا بھی اختلاف نہیں کہ آنے والے مہمان کے اعزاز و اکرام میں اس کا پرتپاک استقبال کرنا، اسے خوش آمدید کہنا اور اس کی اپنی حیثیت کے مطابق بڑھ چڑھ کر ہر ممکنہ خدمت سر انجام دینا اس کا بنیادی حق ھے۔ اس لئے کہ دنیا کی ھر مہذب قوم کے نزدیک مہمان کی عزت و توقیر خود اپنی عزت و توقیر اور مہمان کی ذلت و توہین خود اپنی ذلت و توہین کے مترادف سمجھی جاتی ھے۔

لیکن ہمارے دینِ اسلام نے مہمان نوازی کے متعلق جو بہترین اصول و قواعد مقرر کئے ہیں یا جس خوب صورت انداز سے اسلام نے ہمیں مہمان نوازی کے آداب و ضوابط کا پابند بنایا ھے، دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی۔قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں مہمان نوازی کی بڑی فضیلتیں وارد ھوئیں ھیں ان میں سے چند ایک پیشِ خدمت ہیں ۔۔

چنانچہ حضرتِ سیدنا ابوشریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ تعالی اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی جائزہ( کے طور پر )مہمان نوازی کرے لوگوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم جائزہ سے کیا مراد ہے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک دن اور ایک رات اہتمام کے ساتھ دعوت کرنا اور تین دن عام مہمان نوازی کرنا اس کے بعد اگر وہ مہمان نوازی کرے تو یہ اس کی طرف سے اس مہمان کے لئے صدقہ ھوگا۔

مسلم کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کسی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں ھے وہ اپنے بھائی کےپاس اتنا عرصہ رھے کہ اس سے گنہگار کر دے۔ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم وہ اسے گنہگار کیسے کرے گا اپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایاوہ اس کے پاس ٹھہرا رھے یہاں تک کہ اس میزبان کے پاس کوئی ایسی چیز نہ رھے کہ جو اس کے سامنے پیش کر سکے ۔(شرح ریاض الصالحین ص32 حدیث 710، بابُ اِکرَام الضَّیفِ، باب94مطبوعہ شبیربرادرز)

2) حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رھے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308،)

3)۔ایک انوکھی سی مہمان نوازی والا پیارا سا واقعہ سنتے ہیں۔ ایک دن حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نےحُضور نبیِّ کریم صَلَّی اللہ عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی دعوت کی۔جب دونوں عالَم کےمیزبان حضرتِ سیِّدُنا عثمان بن عفان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے مکان پر رونق افروز ہوئے تو حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ آپ کےپیچھے چلتے ہوئے آپ کےقدموں کو گننے لگے اور عرض کیا:

یارسولَ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!میرے ماں باپ آپ پرقربان! میری تمنا (Wish) ہےکہ حُضور کے ایک ایک قدَم کے عِوَض میں آپ کی تعظیم و تکریم کےلیےایک ایک غلام آزاد کروں۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ کےمکان تک جس قدَر حُضور علیه الصلوۃوالسلام کےقدَم پڑے تھے حضرتِ سیِّدُنا عثمانِ غنی نےاتنی ہی تعدادمیں غلاموں کو خرید کر آزاد کر دیا۔

حضرتِ سیِّدُناعلی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اس دعوت سے مُتَأثِّر ہو کر حضرتِ سیِّدَہ فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا سےکہا:اےفاطمہ!آج میرےدِینی بھائی حضرتِ سیِّدُناعثمان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نےحُضورِاَکرَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بڑی ہی شانداردعوت کی ہے اورحُضورِ اَکرَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کےہرہرقدَم کےبدلےایک غلام آزاد کیاہے، میری بھی تمنّاہےکہ کاش!ہم بھی حُضورکی اسی طرح شانداردعوت کر سکتے۔

حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نےاپنےشوہرِنامدارحضرتِ سیِّدُناعلیُّ المرتضٰی کَرَّمَ اللّٰہُ وجہہ الکریم کے اس جذبہ سے مُتَأثِرہوکرکہا: بَہُت اچھا،جائیے، آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ بھی حُضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ کواسی قسم کی دعوت دیتےآئیے!

ہمارے گھر میں بھی اسی قسم کا سارا اِنتِظام ہو جائےگا۔چُنانچِہ حضرتِ سیِّدُنا علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نےبارگاہِ رِسالت میں حاضِر ہوکر دعوت دے دی اور شہنشاہِ دو عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام کی ایک کثیر جماعت کو ساتھ لے کر اپنی پیاری بیٹی کے گھرمیں تشریف فرما ھو گئے۔حضرتِ سیِّدَہ خاتونِ جنّت تنہائی میں تشریف لےجاکر خداوندِ قُدُّوْس کی بارگاہ میں سربسجود ہوگئیں اور یہ دعامانگی:

یااللہ! تیری بندی فاطمہ نے تیرےمحبوب اور اَصحابِ محبوب کی دعوت کی ہے، تیری بندی کاصرف تجھ ہی پر بھروسا ہے، لہٰذااے میرےربّ! تُو آج میری لاج رکھ لےاور اس دعوت کےکھانوں کا تُو عالَمِ غیب(یعنی دوسرا جہاں جو چھپا ہوا ہے) سےاِنتِظام فرما۔یہ دُعا مانگ کر حضرتِ سیِّدَتُنا بی بی فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہانے ہانڈیوں کوچولہوں پرچڑھا دیا۔ اللہ کریم کادَرْیائے کرَم ایک دم جوش میں آگیااور(فوراً) ان ہانڈیوں کو جنّت کےکھانوں سےبھر دیا۔ حضرتِ سیِّدَتُنابی بی فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہانےان ہانڈیوں میں سےکھانا نکالنا شروع کر دیا اورحُضورصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنے صحابۂ کرام کے ساتھ کھانا کھانے سے فارِغ ہوگئے،لیکن خدا کی شان کہ ہانڈیوں میں سے کھانا کچھ بھی کم نہیں ہوا اور صحابۂ کرام ان کھانوں کی خوشبو اور لذّت سے حیران رہ گئے۔حُضورِاَکرم علیه الصلوۃوالسلام نے صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو حیران دیکھ کرفرمایا:

کیا تم لوگ جانتے ہوکہ یہ کھاناکہاں سے آیا ہے؟صحابَۂ کِرام نے عرض کیا: نہیں یَارَسُوْلَ الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!آپ نےارشاد فرمایا: یہ کھانا اللہ پاک نے ہم لوگوں کےلئےجنّت سے بھیجا ھے۔پھرحضرتِ سیِّدَتُنا فاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا گوشۂ تنہائی میں جاکرسجدہ ریز ہو گئیں اوریہ دُعا مانگنے لگیں:

یااللہ!حضرتِ عثمان رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہ نے تیرےمحبوب کےایک ایک قدَم کے عِوَض ایک ایک غلام آزاد کیا ھے ۔لیکن تیری

بندی فاطمہ کواتنی اِستِطاعت نہیں ہے، اے خداوند ِعالَم!جہاں تُونےمیری خاطِر جنّت سے کھانابھیج کر میری لاج رکھ لی ہے، وہاں تُو میری خاطِر اپنے محبوب کےان قدَموں کےبرابر جتنےقدَم چل کر میرے گھرتشریف لائے ہیں، اپنےمحبوب کی اُمَّت کے گنہگاربندوں کوجہنّم سے آزاد فرمادے۔

حضرتِ سیِّدَتُنافاطمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا جُوں ہی اس دعاسےفارِغ ہوئیں ایک دم حضرتِ سیِّدُناجبریل امین عَلَیْہِ السَّلَام یہ بِشارت لےکر بارگاہِ رِسالت میں حاضر ہوئےکہ یارسولُالله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلِہٖ وَسَلَّمَ!حضرتِ فاطمہ(رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا)کی دُعابارگاہِ الٰہی میں مقبول ہو گئی، اللہ کریم نےفرمایاھے کہ ہم نےآپ کے ہر قدَم کے بدلےمیں ایک ایک ہزار 1000گنہگاروں کو جہنّم سے آزاد کر دیا۔ (جامِعُ الْمُعْجِزات،ص۲۵۷ملخصاً)


پیارے پیارے اسلامی بھائیو کوئی بھی اچھی خصلت اور عادت ایسی نہیں جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبی ثقافتی  تعلیمات اسلام میں موجود ہے۔

ان میں سے ایک بہترین خصلت مہمان نوازی بھی ہے مہمان کے کئی حقوق ہیں جن کا ہمیں خیال رکھنا چاہیے لہذا مہمان نوازوں کے لیے اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔ (پارہ 28، سورہ حشر،آیت نمبر 9)

اس مبارک آیت کا شان نزول یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، مجھے بھوک لگی ہوئی ہے ۔آپ نے ازواجِ مُطَہّرات رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی ،حضورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے ۔انصار میں سے ایک شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی : یا رسول اللّٰہ! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں حاضرہوں ۔چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہمان آیا ہے ، لہٰذا تم نے اس سے کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی ۔ انہوں نے عرض کی :ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے ۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے ،پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ۔( بخاری، کتاب التفسیر، باب ویؤثرون علی انفسہم۔۔۔ الخ، 3 328 الحدیث: 2889)

اسی طرح مہمان نوازی کی فضیلت کے بارے میں ہے : آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کسی قوم کے پاس مہمان جاتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر جاتا ہے اور جب واپس اتا ہے تو ان کے گناہ بخشوا کے اتا ہے ( اتحاد ذوالمروت والانافه المتوفی 974 )

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مہمان کے انے پر دل میں یہ نہیں محسوس کرنا چاہیے کہ خرچہ ہوگا کیونکہ مہمان اپنا رزق ساتھ لے کر اتا ہے

( حدیث) اسی طرح بری قوم کے بارے میں ایک حدیث ہے اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا بری قوم وہ ہے جن کے ہاں مہمان نہیں ٹھہرتے ( شعب الایمان 458 ) اسی طرح مہمان کے کچھ حقوق ہیں جن میں سے چند عرض کرتے ہیں:

(1):: مہمانوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے؛(:2): اسی طرح کسی بہانے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے دور ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو ارام کرنے اور دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو ؛(:3): کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے ہاں بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے

(؛4،) مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ خانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام ا جائے :(:5): مہمانوں کی دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اور بیکار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے :::( 6) مہمانوں کی تکریم جز ایمان ہے اگر کوئی شخص ان سے اہانت امیز برتاؤ کرے تو میزبان پر فرض ہے کہ مہمان کی طرف سے مدافعت کرے (7) مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا چاہیے اس لیے کہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ ازرائے تکلف اس سے روکیں ( 8 ) اسی طرح مہمانوں کے انے پر ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا چاہیے اور خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ اپ کے انے سے خوشی ہوئی

اللہ تعالی ہم سب کو مہمانوں کی خدمت اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کی کوتاہیوں کو معاف فرمائے آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


اسلام حقوق العباد کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ حقوق العباد کی بہت ساری قسمیں ہیں ان میں سے ایک قسم مہمان کے حقوق ہیں مہمان نوازی اچھا عمل ہے نیکیوں والا عمل ہے مگر افسوس ہمارے ہاں اس نیک کام کو اول تو نیکی سمجھ کر نہیں کیا جاتا دوسرا یہ کہ اس اچھے عمل کے آداب کا لحاظ بھی لوگ نہیں کرتے۔ جب مہمان کی آمد پر  حقوق و آداب کا لحاظ نہیں رکھا جاتا تو طرح طرح کے مسئلے ہو جاتے ہیں بعض اوقات لڑائ جھگڑے بھی ہو جاتے ہیں ہماری شریعت کا خاصہ ہے کہ اس میں نیک اعمال کے فضائل ہی بیان نہیں کیئے جاتے بلکہ نیکیاں کرنے کے آداب اور اچھے انداز بھی سکھائے جاتے ہیں اس لئیے مہمان نوازی کے آداب و حقوق سیکھ لینے چاہیئے آئیے مہمان کے کچھ حقوق پڑھتے ہیں

مہمان کے چند حقوق

1۔ مہمان کا استقبال

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو اللّہ پاک اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیئے کہ مہمان کا احترام کرے۔

مفسر قرآن حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمہ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے خندہ پیشانی (مسکرا کر اچھی طرح)سے ملے ، اس کے لئیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (550 سنتیں اور آداب ص23)

2 کھانا جلدی حاضر کیا جائے۔ کھانا جلدی حاضر کیا جاۓ تاکہ مہمان انتظار نہ کرے یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے چنانچہ ہمارے آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: جو اللّہ پاک اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیئے کہ مہمان کی عزت کرے۔ (احیاء العلوم جلد2, ص149)

3 نرم اور (عمدہ و لذیذ) کھانا پہلے پیش کیا جائے ) تاکہ کھانے والوں سے جو چاہے اسی میں سے سیر ہو جائے اور بعد میں زیادہ نہ کھاۓ- بعض مالدار لوگ سخت کھانا پہلے رکھتے ہیں تاکہ بعد میں نرم (لذیذ) کھانا دیکھ کر دوبارہ خواہش پیدا ہو - یہ خلاف سنت اور زیادہ کھانے کا یہ ایک حیلہ (بہانا ہے) ہے ۔(احیاء العلوم،جلد2،ص 151تا152)

4 کھانا اٹھانے سے جلدی نہ کی جائے : یعنی جب تک کھانے والے کھانے سے ہاتھ نہ کھینچ لیں(رک جائیں)تب تک دستر خوان نہ اٹھایا جاۓ کیونکہ ممکن ہے کسی کو بچے ہوئے کھانے کی خواہش باقی ہو یا کوئ ابھی مزید کھانا چاہتا ہو جلدی اٹھا لینے سے بد مزگی ہو گی بزرگوں کے قول "دستر خوان پر سب کو کھانا پہنچ جانا زیادہ کھانوں سے بہتر ہے" کا یہی مطلب ہے(برتن اٹھانے میں جلدی نہ کی جاۓ) یہ بھی احتمال ہے اس سے مکان کی وسعت (کشادہ جگہ) مراد ہو (تاکہ مہمان کو بیٹھنے میں کسی قسم کی تنگی نہ ہو) (احیاء العلوم جلد2،ص153تا154)

5 مہمان کی واپسی:مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جاۓ کہ یہ سنت ہے نیز اس میں اکرام(حق) بھی ہے اور مہمان کے اکرام کا حکم بھی دیا گیا ہے چناچہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مہمان نوازی کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ میزبان مہمان کو رخصت کرنے کے لیے دروازے تک جائے ۔

مہمان کا مکمل اکرام: 6 -مہمان کا پورا اکرام یہ ہے کہ آتے جاتے اور دسترخوان پر اس کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملاقات کی جائے اور اچھی گفتگو کی جائے ۔حضرت سیدنا امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا: "کون سا کام مہمان کی تعظیم ہے ؟" فرمایا خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آنا اور اچھی بات کرنا یزید بن ابی لیلیٰ کا کہنا ہے کہ "میں جب بھی حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھ سے اچھی بات کی اور عمدہ کھانا کھلایا" (احیاء العلوم جلد 2 ص 157)