پیارے اسلامی بھائیو اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کے زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔کھانا پیش کرنا تو ایک ادنی پہلو ہے اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضرورت کی دیکھ بھال بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ اج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدر اور ثقافت دم توڑتی نظر ارہی ہے گھر میں مہمان کی امد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے ایسے حالات میں مہمانوں کے لیے گھروں کے دسترخواہ سکڑ گئے ہیں۔

آئیے آج میں اپ کو مہمان کے حقوق بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین

حدیث پاک 1 : فرمان اخری نبی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اترتی ہے کہ جتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چھری پہنچتی ہے ۔ (ابن ماجہ 3356)

حدیث پاک 2: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں اتا ہے تو اپنا رزق لے کر اتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے ۔ (کشف الخفا حدیث 1614) درج ذیل چیزیں مہمان کے حقوق میں شامل ہیں

1۔مہمان کی امد پر اسے خوش امدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتباک استقبال کرنا

2۔اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا

3۔اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا

4۔ہم مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ انے کی دعوت دینا

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے اداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے امین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


کوئی بھی اچھی خصلت اور  روایت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی عادات و رسوم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلیمات موجود ہیں۔ ایسی طرح مہمان نوازی اچھی ثقافتوں میں سے ایک ہے اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اور اسے ایک اعلیٰ اخلاقی قدر سمجھا جاتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث میں مہمان نوازی کے بارے میں کئی احکام اور مثالیں ملتی ہیں

"مہمان" اردو زبان کا لفظ ہے جو کسی ایسے شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے جو کسی کے گھر ، مقام یا تقریب میں مدعو کیا گیا ہو یہ عام طور پر اس شخص کی عزت اور خاطر مدارت کے ساتھ استقبال اور میزبانی کے لیے بولا جاتا ہے مہمان نوازی اردو اور پاکستانی ثقافت کا اہم حصہ ہے جہاں مہمان کو خصوصی توجہ، کھانا پینا، اور آرام کی سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی كا قصہ بیان فرما کر اس فعل کو محمود قرار دیاہے۔

اور انکے اس فعل کی وجہ سے ابوالضیفان كا لقب عطا کیاگیا۔

نبی اکرم علیہ سلام کے آباء و اجداد بھی اپنی سخاوت اور مہمان نوازی میں مشہورتھے حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ کے متولی تھے اور دور دراز سے آنے والے مہمانوں کے کھانے پینے كا انتظام کرتے تھے۔شریعت اسلامیہ میں مہمان نوازی کی بہت تعریف کی گئ ہے اور مہمان نواز شخص کو معاشرے کے بہترین لوگوں میں سے شمار کیا گیا ہے

1۔ حضرت ابراھیم علیہ سلام کی مہمان نوازی: آپ علیہ سلام کی مہمان نوازی کو اللہ کریم نے قرآن میں ارشاد فرمایا

هَلْ اَتٰىكَ حَدِیْثُ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَ الْمُكْرَمِیْنَ ترجمۃ _ اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔(القرآن سورۃ زاریات آیات نمبر 24 تفسیر صراط الجنان)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے ۔

مہمان نوازی کے آداب :1 خوش آمدید کہنا۔ مہمان کو خوش آمدید کہنا اور اس کی خاطر مدارت کرنا

2 مہمان کی ضروریات کا خیال رکھنا:مہمان کی پسند اور ناپسند کا خیال رکھنا

3 تکلیف نہ دینا:مہمان کو کسی بھی طرح کی تکلیف نہ دینا اور اس کی راحت کا پورا خیال رکھنا

4 ضرورت سے زیادہ نہ پوچھنا:مہمان کی نجی زندگی یا ضروریات کے بارے میں غیر ضروری سوالات نہ کرنا

اسلام میں مہمان نوازی کو ایک عظیم عبادت سمجھا جاتا ہے اور اس کا ثواب بھی بہت زیادہ ہے مہمان کا اکرام دراصل اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔

2_ ایک مرتبہ نبی کریم صلى اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور بولا حضور! میں بھوک سے بے تاب ہوں

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمہات المومنین رضی اللہُ عنہن میں سے کسی ایک کو اطلاع کرائی جواب آیا کہ یہاں تو پانی کے سوا کچھ نہیں ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے گھر آدمی کو بھیجا وہاں سے بھی یہی جواب آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابیوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا آج کی رات کون اسے قبول کرتا ہے ایک صحابی انصاری نے اس مہمان کی میزبانی كا شرف حاصل کرنے کی استدعا کی اور وہ انصاری مہمان کو اپنے گھر لے گئے ان کی بیوی نے کہا ہمارے پاس تو صرف بچوں کے لائق کھاناہے صحابئ رسول نے کہا بچوں کو کسی طرح بہلا کر سلا دو اور جب مہمان کے سامنے کھانا رکھو تو کسی بہانے چراغ بجھا دینا اور کھانے پر مہمان کے ساتھ بیٹھ جانا تا کہ اس کو یہ محسوس ہو کہ ہم بھی اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہیں صبح ہوئی تو نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کو رات فلاں اور فلانہ نے اپنے مہمان کے ساتھ جو حسن سلوک کیا ہے وہ خدا کو بہت پسند آیا ہے۔(صحيح البخار کتاب التفسیر القرآن باب قوله: {ويؤثرون على أنفسهم} 6ج،ص148، رقم الحديث:4889)

3۔ مہمان نوازی کا حکم:ابن عربی نے فرمایا: ضیافت فرض کفایہ ہے :( تفسير القرطبي، ج9،ص65) اور کچھ علماء نے کہا: یہ ان دیہاتوں میں واجب ہے ۔ جہاں نہ کھانے کے لئے کچھ ملتا ہو اور نہ ہی رہنے کے لیے کوئی جگہ ہو بخلاف شہروں کے جہاں رہنے كا انتظام بھی ہوتا ہے اور کھانے پینے کی بھی فراوانی ہوتی ہے اور اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مہمان کریم ہوتا ہے اور مہمان نوازی کرنا اعزاز ہے۔

4_ مہمان کی عزت وتکریم کرنا :نبی کرم علیہ سلام نے واقف اور اجنبى، فقیر اور غنی كا فرق کیے بغیر مطلقا مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت قراردیا ہے۔

أبو شريح العدوی سے مروی ہے میرے ان كانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر (یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے کسی نے پوچھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیاہے!؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک دن رات ( مہمان كا خصوصی ) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پرایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔ (الأدب المفرد، لمحمد بن إسماعيل البخاري، ابو عبد الله (المتوفى:256هـ) ، بتحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي، دار البشائر الإسلامية بيروت، الطبعة : الثالثة 1409-9198،ص 259)

مجموعی طور پر مہمان کے حقوق کا احترام اور ان کی فراہمی میزبان کی ذمہ داری ہے، جو معاشرتی تعلقات کو مضبوط کرنے اور خوشگوار ماحول پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے ۔

اللہ کریم ہمیں اسلامی اصولوں پر اور شریعتِ اسلامی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


جہاں اسلام نے دیگر چیزوں کے حقوق کا خیال رکھا وہی مہمان کے حقوق کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ۔ اللہ پاک قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔(پارہ نمبر 28، سورہ حشر، آیت نمبر 9)

اس آیت مبارکہ میں عظیم الشان مہمان نوازی کی طرف اشارہ ہے حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ اور ان کے اہل و عیال کو خود کھانے کی خواہش تھی مگر وہی کھانا مہمان کو پیش کر دیا تو قرآن مجید نے ان کے اس فعل کی تعریف بیان کی ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنی ذات پر مہمان کو ترجیح دیں

مہمان کے حقوق پر مشتمل ایک حدیث پاک پڑھیے:

عَنْ ابی ہریرۃ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ :مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ،فَلَايُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ،وَمَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ، فَلْيَقُلْ خَيْرًا اَوْ لِيَسْكُتْ. ترجمہ : حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّوَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رھے۔(فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308،)

اس حدیث پاک سے پتہ چلا کہ میزبان کو چاہیے کہ اپنے مہمان کی خدمت میں کوئی کمی نہ کرے۔آئیے چند حقوق مزید پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں۔

1 مہمانوں کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا جائے

2 اسی طرح کسی بہانے تھوڑی دیر کے لیے مہمانوں سے دور ہو جانا چاہیے تاکہ ان کو ارام کرنے اور دوسری ضروریات سے فارغ ہونے میں تکلیف نہ ہو

3 کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا چاہیے اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے ہاں بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ اپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے

4 مہمانوں کے کھانے سے مسرور اور نہ خانے سے مغموم ہونا چاہیے کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام آ جائے

5 مہمانوں کی دل جوئی کے لیے خوش خلقی اور خندہ پیشانی سے بات چیت کرنی چاہیے اور بیکار بات چیت کر کے دماغ کو پریشان نہیں کرنا چاہیے

6 مہمانوں کی عزت و تکریم کرنی چاہیے اگر کوئی شخص ان سے اہانت امیز برتاؤ کرے تو میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی طرف سے مدافعت کرے

7 مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا چاہیے اس لیے کہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ ازرائے تکلف اس سے روکیں

8 اسی طرح مہمانوں کے انے پر ان سے خوش اخلاقی کے ساتھ ملنا چاہیے اور خوشی کا اظہار کرنا چاہیے کہ آپ کے انے سے خوشی ہوئی

اللہ تعالی ہم سب کو مہمانوں کے حقوق کی پاسداری کرنے اور شریعت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ امین


اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ

یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری، ج4،ص105،حدیث:6019)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے!حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہفرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مرآۃالمناجیح، ج6،ص52)

علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطال،ج4،ص118)

مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم، ج2،ص18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔(ابن ماجہ،ج4،ص51،حدیث:3356)

حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہےاس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔(مرآۃالمناجیح، ج6،ص67)

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء، ج2،ص33، حدیث:1641)

3)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمال، ج5،ص110،حدیث:25878)

میزبان کے لئے آداب: (1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاءالعلوم، ج2،ص21)

مہمان کیلئے آداب:(1)جہاں بٹھایا جائے وہیں بیٹھے (2)جو کچھ اس کے سامنے پیش کیا جائے اس پر خوش ہو(3)صاحبِ خانہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے نہ اُٹھے(4)جب وہاں سے جائے تو اس کے لئے دُعا کرے۔ (بہارشریعت، ج3،ص394)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مہمان کی مہمان نوازی کرنا انبیائے کرام کا طریقہ ہے۔ اسلامی معاشرے میں مھمان کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ اسلامی معاشرے میں مہمان کی مہمان نوازی بڑی اہمیت کی حامل ہے ۔ اسلام میں جسطرح پڑوسیوں رشتہ داروں بزرگوں اور یتیموں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ اسی طرح مہمانوں کے حقوق بھی ذکر کئے گئے ہیں ۔ موجودہ چیز پیشیں کرنا : حضرت سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں ۔ پیارے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ جو چیز ہمارے پاس نہیں اس کے بارے میں ہم مہمان کے لیے تکلف نہ کریں اور جو کچھ موجود ہو پیش کر دیں.( التاريخ الكبير بالنحاري ، باب الحاء باب حسین ۳۷۵/۲ الرقم ۲۸۶ حسین بن الرماس العبدي )

مہمان نوازی کی اہمیت : ایک دفعہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے یہاں مہمان حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے قرض لے کر اس کی مہمان نواز فرمائی چنانچہ تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ابو رافع کہتے ہیں سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کے فلاں یہودی سے کہو مجھے آٹا قرض دے رجب شریف میں ادا کر دوں گا۔ کیونکہ ایک مہمان میرے پاس آیا ہوا ہے۔ یہودی نے کھا جب تک کچھ گروی نہیں رکھو گئے نہ دوں گا۔ حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ کہتے ہیں کہ میں واپس آیا۔ اور تاجدار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں اس کا جواب عرض کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ سلم نے فرمایا ۔ واللہ ! میں آسمان میں بھی امین ہوں اور زمین میں بھی امین ہوں اگر وہ دے دیتا تو میں ادا کر دیتا ۔ اب میری وہ زرہ لے جا اور گروی رکھ آ میں لے گیا اور زرہ گروی رکھ کر لایا ( کیمیائے سعادت)

اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوست کون : سرکار مدینه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے دوست رکھے تو اسے چاہیے کہ مہمان کے ساتھ کھانا کھائے۔،،( درة الناصحين)

مہمان کا حق سنت سے ثابت: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ۔ جس گھر میں مہمان نہیں آتا اس میں رحمت کے فرشتے نہیں آتے۔( احیا العلوم 43 / م /2/ج)

دعوت کرنے والے کو چاہیے کہ نیک لوگوں کی دعوت کرے نہ کے فساق و فجار کی میزبان کو چاہیے کہ آگے بڑھ کر مہمان کو سلام کرے اور خندہ پیشانی کے ساتھ پیش آئے۔

میزبان پر لازم ہے کہ مہمان کو اچھا کھانا کھلائے : میزبان اگر مہمان کو کھانا نا کھلانا چاہتا ہو تو ان کے سامنے کھانا ظاہر کرنا یا اس کے اوصاف بیان کرنا مناسب نہیں ۔ حضرت سفیان ثوری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تمہارا بھائی جب تم سے ملنے آئے تو اس سے یہ نہ پوچھو کہ کھانا کھاؤ گئے بلکہ کھانا پیش کر دو۔


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت اور اسلام کے اداب میں سے ہے مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء عظام رحمہم اللہ تعالی کی خصلت ہے کیا نام ہے فتاوی رضویہ میں ہے،،مہمان کا اکرام عین اکرام خدا ہے،،جب کبھی مہمان آ جائے تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خدمت کرنی چاہیے جس گھر میں مہمان اتا ہے اس گھر میں خیر و برکت اتنی تیزی سے اتی ہے جتنی تیزی سے چھری اونٹ کا کوہان کاٹ دیتی ہے الغرض مہمان کی عزت و تکریم میں فائدہ ہی فائدہ ہے اب ہم کچھ مہمان کے حقوق پیش خدمت کرتے ہیں 

کھانا حاضر کرنا :کھانا مہمان کے سامنے لا کر رکھنا چاہیے مہمان کو کھانے کی طرف نہیں بلانا چاہیے ۔ (تفسیر کبیر پارہ 26 جلد 10 صفحہ نمبر 177)

صلہ رحمی کرنا : سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے اور صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کرے یا خاموش رہے۔ (بخاری شریف کتاب الادب جلد 4 صفحہ 136 حدیث 4138)

جانور ذبح کرنا : نبی پاک صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو اپنے مہمان کے لیے جانور ذبح کرے وہ جانور دوزخ سے اس کا فدیہ ہو جائے گا ۔ (جامع صغیر حرف المیم صفحہ 526 حدیث 8672)

مہمان کو کھانا کھلانا :سرکار مدینہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کھانا کھلایا یہاں تک کہ وہ سیر ہو گیا اور پانی پلایا یہاں تک کہ وہ سیراب ہو گیا تو اللہ عزوجل اسے جہنم سے سات خندقوں کی مسافت دور کرے گا ہر دو خندقوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت ہے ۔(المعجم الکبیر جلد 13 صفحہ 39 حدیث 135)

الوداع کے وقت ساتھ جانا : مہمان کو الوداع کے وقت کچھ دور پہنچانے جانا سنت ہے ۔ (مراۃ المناجیح جلد4 صفحہ 38)


الحمد لله ہم مسلمان ہیں اور اسلام ہماری ہر معاملے میں رہنمائی فرماتا ہے زندگی کیسے۔ اور کس طرح گزارنی ہے اس حوالے سے بھی ہماری رہنمائی فرماتا ہے جس طرح اسلام نے ہماری دیگر معاملات میں ہماری رہنمائی کی ہے وہیں پر مہمان کے حقوق کے بارے میں بھی ہماری رہنمائی کی ہے آئیں اس بارے میں کچھ احادیث مبارکہ پڑھتے ہیں۔

(1) مہمان کی تعظیم: حضور نبی کریم صلى الله تعالى عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے۔ (فیضان ریاض الصالحین ، 72/6)

(2)مہمان کی خاطر داری کرنا: جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی،عزت، خاطر داری کرے۔ صحابہ نے عرض کی یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم جائز تہ کا کیا مطلب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن اور ایک رات کی خدمت " جائزہ ہے اور تین دن کی خدمت ضیافت ہے اور اس سے زیادہ خدمت اس پر صدقہ ہے۔( ایمان کی شاخیں ، 598)

(3) مہمان کا استقبال: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدمی اپنے مہمان کا استقبال دروازے سے باہر نکل کر کرے اور رخصت کے وقت (مہمان کو )گھر کے دروازے تک پہنچائے۔ ( ایمان کی شاخیں ، 600 صفحہ) (4)

مہمان کو تکلیف نہ دیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے. اسے چاہیے کہ وہ مہمان کو ایذا نہ دے۔ ) (اکرام الضيف ، مترجم ، 21 / صفحہ جمیعت اشاعت اهلسنت پاکستان) (5)

مہمان سے اچھا سلوک: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خوشخص اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لائے اسے چاہیے کہ ان (مہمان) کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ ( اکرام الضیف ، مترجم ، 20 صفحه جمیعت اشاعت اهلسنت پاکستان)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مہمان کی تعظیم کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اللہ کے پیارے حبیب  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے۔(بخاری جلد 4 ص 105 حدیث نمبر6019)

مہمان کے اِکرام سے کیا مُراد ہے:حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان (Guest) کا احترام (اکرام)یہ ہے کہ اسے خَنْدَہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتَّی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔(مراۃالمناجیح ج6 ص 52) علّامہ ابنِ بَطّال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کے اِکرام میں سے یہ بھی ہے کہ تم اس کے ساتھ کھاؤ اور اسے اکیلے کِھلا کر وَحْشت میں مبتلا نہ کرو۔ نیز تمہارے پاس جو بہترین چیز ہو اس سے مہمان کی ضِیافت (مہمانی )کرو۔(شرح البخاری لابن بطال ج4ص118)

مہمان نوازی کی فضیلت:امام نَوَوِی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مہمان نوازی کرنا آدابِِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنّت ہے۔(شرح النووی علی المسلم ج2ص 18)

مہمان نوازی کی فضیلت پرتین احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔([ابن ج4 ص51 حدیث 3356]) حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک پہنچ جاتی ہےاس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد پہنچتی ہے۔([مرۃ االمناجیح ج 6 ص 67])

(2)نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رِزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء،ج2،ص33، حدیث:1641)

(3)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہ وسلم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔([کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878])

میزبان کے لئے آداب:

(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے (2)کھانے میں اگر پھل (Fruit) بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ (Medical Point of View) سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے (3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ (Delicious)کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے (4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔([احیاء العلوم ،ج 2،ص21 تا 23 ملخصاً])

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


شریعت مطہرہ نے ہر کام کے کچھ اصول و ضوابط بیان کئے ہیں جن کو پیشِ نظر رکھنے سے دنیا و آخرت میں بھلائیاں نصیب ہوتی ہیں اور یہ ہمارے پیارے دین اسلام کا خاصہ ہے کہ یہاں قرآن و سنت، تہذیب، ملکی قوانین کے پیش نظر ہر چیز کے جدا جدا حقوق و آداب بیان کئے جاتے ہیں آج ہم مہمان کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے تاکہ ہم ان حقوق کو پڑھ کر یاد کرلیں اور عمل کی سیڑھی چڑھنا بھی نصیب ہو۔  چند حقوق بیان کئے جاتے ہیں

مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ مہمان کی آمد پر خوش ہوا جائے اچھے الفاظ و انداز سے استقبال کیا جائے ۔

ان وفد عبد القیس قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مرحبا بالوفد الذین جاءوا غیر خزایا ولا ندمی

رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبدالقیس کا وفد آیا تو آپ نے فرمایا وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہوگے نہ ہی شرمندہ ۔ (بخاری شریف، کتاب الادب، باب قول الرجل : مرحبا، جلد8 صفحہ 41، حدیث 6176، دار طوق النجاۃ)

مہمان کی عزت کی جائے حدیثِ پاک میں ہے : اذا جاءکم الزائر فاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو ۔(مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:156، حدیث:330)

مہمان کو کھانا پیش کیا جائے اور خرچ کرنے میں تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے پاس کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو اہل خانہ کے گناہ بخشوا کر جاتا ہے۔ (مسند الفردوس ،صفحہ 432، حدیث 3896،)

مہمان کے ساتھ عزت و تکریم کے ساتھ پیش آیا جائے ۔ لا خیر فیمن لایضیف اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا ۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:155، حدیث:329)

آئیے مہمان کے چند مزید حقوق سنئے:

مہمان کی میزبانی میں جلدی کرنا۔ میزبانی اپنے ہاتھ سے کرنا کہ اس طرح مہمان مانوس ہوگا۔ مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرانا

کھانا مہمانوں کے سامنے پیش کرنا اور ان کو کھانے کا حکم نہیں دینا چاہیے بلکہ اس طرح کہہ سکتے ہیں کہ آپ کھانا کیوں نہیں کھا رہے۔

*مہمانوں کے کھانے سے مسرور ہونا اور نہ کھانے سے مغموم ہونا کیونکہ جو لوگ بخیل ہوتے ہیں وہ کھانا تو مہمانوں کے سامنے پیش کر دیتے ہیں لیکن ان کے دل میں ایک خواہش ہوتی ہے کہ مہمان کھانا کم کھائے یا نہ کھائے تاکہ وہ ہمارے اہل و عیال کے کام آ جائے

*مہمانوں کے کھانے پینے کا انتظام پوشیدہ طور پر ان کی نگاہوں سے چھپا کر کرنا تاکہ اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ ہمارے لیے کچھ کیا جا رہا ہے تو وہ از راہ تکلف اس سے روکیں گے۔

*مہمان کی واپسی کے وقت دروازے تک الوداع کہنا۔

مہمان کے حقوق میں سے ہے۔

حضور سیدی داتا گنج بخش علیہ الرحمہ نے مہمان نوازی کے چند حقوق بیان فرمائے ہیں:لکھتے ہیں: جب مہمان آئے تو نہایت خندہ پیشانی سے ( یعنی مسکرا کر پرجوش انداز میں) استقبال کیجئے،،عزت کی جگہ پر بٹھائیے،مہمان کا آنا بھی حق کی جانب سے سمجھے جانا بھی حق کی جانب سے سمجھے اور مہمان کو بندۂ حق سمجھے(یعنی یہ سمجھے کہ مہمان اللہ پاک کی مرضی سے آیا ہے جب واپس جائے تو یہی خیال کرے اور مہمان کو اللہ پاک کا بندہ جان کر مہمان نوازی کرے پھر دیکھئے کیسے مہمان نوازی کا مزہ دوبالا ہوتا ہے)

اگر مہمان تنہائی چاہے تو اس کیلئے اہتمام کردے۔اگر مہمان کو جلوت کی ضرورت ہے (یعنی مہمان کا دل چاہے کہ کوئی اس کے پاس بیٹھے باتیں کرے تو) میزبان اس کے پاس بیٹھے اس کے ساتھ اچھی اچھی باتیں کرے۔اگر مہمان کو اچھے کپڑے مہیا کرنے کی طاقت ہو تو وہ بھی کرے اگر اس کی طاقت نہ ہو تو تکلف نہ کرے ۔

یہ بیان کرنے کے بعد داتا صاحب علیہ الرحمہ نے ایک بڑا پیارا اور دلنشیں ادب بیان فرمایا۔

سنیئے داتا گنج بخش علیہ الرحمہ فرماتے ہیں میزبان کو چاہیے کہ اس کے شہر میں جو (عاشقانِ رسول) علمائے کرام اللہ پاک کے نیک بندے رہتے ہیں اپنے مہمان کو ان سے ملوانے کیلئے بھی لے کر جائے۔(کشف المحجوب، کشف الحجاب التاسع۔۔۔الخ، باب الثانی والعشرون۔۔الخ، صفحہ407)احیاء العلوم میں ہے

کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے :2کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے 3مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے

4جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔

5مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفآیت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔(احیاءالعلوم، ج2،ص21)

اللہ کریم ہمیں مہمان نوازی کے آداب سیکھ کر خوب مہمان نوازی کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیو! کوئی بھی اچھی خصلت اور  روایت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو - دنیا کی تمام تہزیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی عادات ورسوم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلیمات موجود ہیں ۔ اعلی اخلاقی اقدار اور روایات میں سے بہترین روایت مہمان نوازی ہے دین اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے مہمان نوازی کی ترغیب دلائی گئ ہے اور مہمان نوازی کے حقوق بیان کیے گئے ہیں۔

جیسا کہ 1-حدیث پاک میں ہے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا (آدمی کو تین بستر بنانے چاہیے!) (1) ایک اپنے لیے (2)ایک اپنی زوجہ کیلئے (3)اور تیسرا مہمان کیلئے ۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب مایستحب من اتخاذ..... الخ، جلد2، صفحہ :199،حدیث 372)

2-رسول ذیشان مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : من کان یومن باللہ والیوم الآخر فلیکرم ضیفا یعنی جو اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کیا کرے. (بخاری، کتاب الادب من کان یومن باللہ.... الخ، صفحہ :1500،حدیث 6018)

3-ابوشریح سے مروی ہے میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری آنکھوں نے دیکھا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم یہ ارشاد فرمارہے تھے: " جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہمسائے کی تکریم کرے - اور جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کےدن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر (یعنی پہلے دن خوب اعزازواکرام کے ساتھ) تکریم کرے - کسی نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم! "جائزہ" کیا ہے"

نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ایک دن رات (مہمان کا خصوصی ) اعزاز اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے (بخاری، الادب المفرد، ص 259)

4-امام بخاری رحمہ اللہ نے مہمان اور اہل خانہ کے ساتھ رات کو عشا کے بعد گفتگو کرنے"کے نام سے ایک باب قائم کیا ہے - اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ہاں تشریف لے گئے پھر اپنے مہمانوں کے پاس واپس تشریف لائے اور ان کے ساتھ رات کا کھانا کھایا ۔ (صحیح بخاری،کتاب مواقیت الصلاۃ، باب السرمع الضیف والاھل، ج1ص24)

میزبان پہ فرض ہے کہ مہمان کی عزوآبرو کا لحاظ رکھے- اسے قولی فعلی یا کسی طریقے سے تکلیف دینے سے گریز کرے حتی کہ اس کے سامنے ایسی احادیث اور اقوال کو بھی بیان نہ کرے جس سے اسے شرمندگی ہو اور کوشش کرے کہ مہمان خوش وخرم رخصت ہو۔

5-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آیا - آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس اس کاکھانا منگانے کیلئے ایک آدمی کو بھیجا - تو انہوں نے جواب دیا ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کون ہے؟ جو اس مہمان کو اپنے ساتھ لے جایا یہ فرمایا کہ کون ہے؟ جو اس کی میزبانی کرےایک انصاری نے عرض کیا کہ میں (یارسول اللہ) پس وہ اپنی زوجہ کے پاس لے گیا اور اس سے کہا کہ رسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے مہمان کی خوب خاطر کرنا اس نے کہا ہمارے پاس تو صرف بچوں کا کھانا ہے تو انصاری نے کہا تم کھانا تیار کرو اور چراغ روشن کرو بچے اگر کھانا مانگیں تو انہیں سلادینا اس بی بی نے کھانا تیار کرکے چراغ روشن کیا اور بچوں کو سلادیا پھر وہ گویا چراغ کو ٹھیک کرنے کیلئے کھڑی ہوئی - مگر اسے گل کردیا اب وہ دونوں میاں بیوی مہمان کو یہ دکھاتے رہے کہ کھانا کھارہے ہیں حالانکہ (درحقیقت ) انہوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری جب وہ انصاری صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں آے تو آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اللہ پاک تمھارے کام سے بڑا خوش ہوا پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود حاجت مند ہیں اور جو اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے - (صحیح بخاری، کتاب مناقب الأنصار، باب قول اللہ:{ویؤثرون علی أنفسهم ولو..... } ج5،ص34، رقم الحدیث3798. )

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کرنےوالا بناے اور جو ہم نے احادیث طیبہ کی روشنی میں مہمانوں کے حقوق پڑھنے کو ملے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ والہ وسلم


میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتی ہے حضور صلی  اللہ علیہ والہ وسلم مہمانوں کو اچھے سے اچھے مکانوں میں ٹھہراتے تھے اور ان مہمانوں کے ساتھ نہآیت ہی خوشی اور خندہ پیشانی کے ساتھ گفتگو فرماتے اور حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مہمانوں کے حقوق بھی بیان فرمائے آئیے میں آپ کے سامنے چند احادیث مبارکہ پیش کرتا ہوں ۔

مہمان کے ساتھ دروازے تک جانا : (1) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے ۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4258 )

مہمان کا احترام کرنا : (2) روایت ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے اور جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے اور جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات کہے یا چپ رہے ایک روایت میں پڑوسی کے بجائے یوں ہے کہ جو اللہ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243)

مہمان کی خاطر تواضع کرنا: (3) حضرت سَیِّدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : “ جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اوریومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جواللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یاخاموش رہے۔ ‘‘۔ ( فیضان ریاض الصالحین جلد:3 , حدیث نمبر:308)

مہمان سے نفرت نہ کرنا: (4)مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ سے بغض رکھتا ہے اللہ اسے ناپسند کرتا ہے ۔ ( احیاء العلوم جلد 2 صفحہ 41)


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب کی علامت اور اسلام کے اداب میں سے ہے جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اتنی تیزی سے اتی ہے جتنی تیزی سے چھری اونٹ کا کوہان کاٹ دیتی ہے میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے کھانا کھانے پر خوش ہو اس کے کھانا چھوڑنے سے مسرور نہ ہو مہمان کی وجہ سے گھر میں خیر و برکت اس سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اترتی ہے الغرض مہمان کی عزت و تکریم اور اس کی خدمت میں فائدہ ہی فائدہ ہے

مہمان کی تعظیم ایمان کا تقاضا(1) حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلح رحمی کرے اور جو شخص اللہ عزوجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی بات کرے یا خوش رہے (بخاری کتاب الادب باب اکرام الضیف حدیث 6138(

مہمان کو تکلیف نہ دو(2) مہمان کے لیے تکلف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اور جو مہمان سے نفرت کرتا ہے وہ اللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو اللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اللہ عزوجل اسے ناپسند کرتا ہے۔ (شعب الایمان للبھیقی کی باب فی اکرام الضعیف حدیث 95 99)

مہمان کا اکرام(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ اور یوم اخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ( بخاری مسلم)

مہمان نمازی سے محروم ہو تو کیا کریں(4) جامع صغیر ہی کی ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے جو شخص کسی قوم کے مہمان بنے اور وہ مہمان نوازی سے محرومی کی حالت میں صبح کرے تو اس کی مدد کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے حتی کہ وہ اپنی رات کی مہمانی کا حق ان کی زراعت اور مال میں سے لے سکتا ہے (جامع صغیر سیوطی حدیث)(2984 )