1۔ سلام کا جواب فورا دینا واجب ہے سلام بلند آواز میں کرنا چاہیے۔ سلام میں پہل کرنا سنت مبارکہ ہے۔ گھر میں آتے جاتے سلام کرنا سنت ہے۔ جس سے سلام کیا جارہا ہے وہ اگر تنہا ہے تو سلام کا جواب دینا فرض عین ہے اور اگر ایک سے زیادہ لوگ ہیں تو فرض کفایہ ہے۔

2۔ مریض کی تیمار داری کرنا فرض کفایہ ہے۔

3۔ جنازے کےساتھ چلنا فرض کفایہ ہے اس سے مراد جنازے کو اسکی یا نماز کی جگہ سے دفن کی جگہ تک لے جاناہے۔

4۔ شادی کے ولیمے کی دعوت، اگر فقہ کی کتابوں میں بیان کی گئی شرطوں کے مطابق ہو تو قبول کرنا واجب ہے جبکہ تقریبات کی دعوت قبول کرنا سنت مؤکدہ ہے۔

5۔ چھینک آنا اللہ کی نعمت ہے اس لیے کہ اس سے انسان کے اجزائے بدن میں جمع شدہ ہوا خارج ہوتی ہے اللہ تعالی اس کے نکلنے کے راستے کو کھول دیتا ہے اور یوں چھینک لینے والے کو راحت ہوتی ہے۔ چھینکنے والا جب الحمد لله کہے تو اسکا جواب دینا، کچھ علما کے نزدیک فرض عین ہے اور اگر ایک سے زیادہ لوگ ہیں تو فرض کفایہ ہے جبکہ کچھ دوسرے علما کا کہنا ہے یہ مستحب ہے۔

چھینک آنے پر الحمد لله کہنا سنت ہے۔ سننے والے پر واجب ہے کہ جواب میں یرحمک اللہ کہے۔ جواب سن کر چھینکنے والا کہے یغفراللہ لنا ولکم۔


شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوت اسلامی کے تحت ڈویژن فیصل آباد  کے شہرجڑانوالہ میں 24جولائی 2024ء کو مدنی مشورہ ہوا جس میں شعبہ معاونت برائے اسلامی بہنیں دعوت اسلامی کے ڈویژن اور ڈسٹرکٹ ذمہ داران اور ناظم الامور سمیت دیگر عاشقان رسول نے شرکت کی ۔

نگران مجلس غلام الیاس عطاری اور لاہور سٹی ذمہ دار عبدالماجد عطاری نےحاضرین کے درمیان فیضان صحابیات اور علاقائی دورہ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ نگران کیلئے ایصال ثواب کا سلسلہ کیا ۔(رپورٹ: محمد علی رفیق، کانٹینٹ:محمد شعیب احمد عطاری)


قدرت الٰہی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے باہمی جوڑ کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ اور اسی جوڑ میں اس کے طرح طرح کے رشتے بنائے ہیں جیسے اولاد کا رشتہ ماں باپ سے، پڑوسی کا رشتہ ہمسائے سے، شوہر کا بیوی سے اور استاد کا طالب علم سے انہی رشتوں میں سے عام معاشرہ میں پائے جانے والے مسلمان کا بھی باہمی تعلق قائم کیا ہے اور ان کو حقوق و فرائض سے نوازا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے: مومن مومن کے لئے عمارت کی مثل ہے، جس کا بعض حصہ بعض کو مضبوط رکھتا ہے۔ (بخاری، 2/127، حدیث: 2446)

حقوقِ مسلمان:

باہمی محبت: مسلمان آپس میں ایک عمارت کی مانند ہیں، عمارت کی مضبوطی باہمی محبت و اتفاق میں ہوتا ہے! لہذا ہر مسلمان کو چاہیے جو چیز اپنے لئے پسند کریں وہی چیز اپنے دوسرے مسلمان بھائی کے لئے چنے جیسے حدیث شریف میں ہے: باہمی محبت اور رحم دلی میں مسلمانوں کی مثال ایک جسم کی طرح ہے، جب جسم کی کسی عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو تمام جسم بخار اور بیداری کی تکلیف برداشت کرتا ہے۔ (بخاری، 4/103، حدیث: 6011)

تکلیف نہ پہنچانا: ایک مسلمان بھائی کا حق ہے کہ اسی اپنے زبان و ہاتھ سے کسی بھی قسم کی تکلیف نہ دی جائے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: افضل مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔(مسلم، ص 41، حدیث: 65)

عاجزی کرنا: عاجزی سے مراد جھک جانا، نرمی کرنا متکبر شخص اللہ تعالیٰ کو نا پسند ہے اس لئے مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ اپنی دولت یا خوبصورتی کی وجہ سے اترائے۔ چونکہ حضور پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: اللہ تعالیٰ نے میری طرف وحی فرمائی کہ عاجزی اختیار کرو حتی کہ تم سے کوئی ایک دوسرے پر فخر نہ کرے۔ (مسلم، ص 1174، حدیث: 7210)

معاف کردینا: جب کسی مسلمان کی کسی دوسرے مسلمان سے ناراضگی باسبب کسی طرح ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض نہ رہے اور معاف کردے۔ چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: جو کسی مسلمان کی لغزش کو معاف کرے گا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی لغزش کو معاف فرمائے گا۔ (ابن ماجہ، 3/36، حدیث: 2199)

غیبت و چغلی سے بچنا: مسلمان کا ایک دوسرے کے خلاف باتیں کرنا یا سننا یا کسی کی غیبت کرنا جائز نہیں۔ حدیث مبارکہ میں ہے: چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (بخاری، 4/115، حدیث: 6056)

ویسے تو مسلمان کے بہت سے حقوق ہیں جیسے دعوت قبول کرنا، چھینک کا جواب دینا وغیرہ اللہ تعالیٰ ہمیں سب کے حقوق پورا کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین


ہمارا پیارا دین اسلام مسلمانوں کے ساتھ خیر خواہی اور ہمدردی کا درس دیتا ہے وہ اپنے ماننے والوں کو ظلم و زیادتی سے منع کرتا اور مظلوم وکمزور لوگوں کی مدد کرنے کا درس دیتا ہے اسی طرح حدیث پاک کا مفہوم ہے: بہترین مسلمان وہ ہے کہ جس کے ہاتھ، زبان اور فعل سے کسی دوسرے مسلمان کو تکلیف نہ ہو کہ ایک مسلمان کو بلاوجہ شرعی کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔ (مسلم، ص 41، حدیث: 65) روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے کہ الله تعالی قیامت کے دن فرمائے گا اے انسان میں بیمار ہوا تو نے میری مزاج پرسی نہ کی بندہ کہے گا الٰہی میں تیری عیادت کیسے کرتا تو تو جہانوں کا رب ہے فرمائے گا کیا تجھے خبر نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تو تو نے اس کی بیمار پرسی نہ کی کیا تجھےخبرنہیں کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا، اے آدمی میں نے تجھ سے کھانا مانگا تو نے مجھے نہ کھلایا عرض کرے گا الٰہی تجھے میں کیسےکھلاتا تو تو جہانوں کا رب ہے فرمائے گا کیا تجھےعلم نہیں کہ تجھ سے میرے فلاں بندے نے کھانا مانگا تونے اسے نہ کھلایا کیا تجھے پتہ نہیں کہ اگر تو اسے کھلاتا تو میرے پاس پاتا، اے انسان میں نے تجھ سے پانی مانگا تو تو نے مجھے نہ پلایا عرض کرے گا مولا میں تجھے کیسے پلاتا تو تو جہانوں کا رب ہے فرمائے گا تجھ سے میرے فلاں بندے نے پانی مانگا تو نے اسے نہ پلایا اگر تو اسے پلاتا تو آج میرے پاس وہ پاتا۔ (مسلم، ص 1389، حدیث: 2569)

اس حدیث مبارکہ میں بیان فرمایا گیا ہے کہ مسلمان جب تکلیف میں ہوتا ہے تو اللہ عزوجل کے قریب ہوتا ہے جو کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کی تکلیف دور کرتا ہے کسی بھی حوالے سے کھلا کر، پلا کریاعیادت کر کے تو وہ اللہ سے ثواب حاصل کرتا ہے، حدیث پاک کا حصہ میرے پاس پاتا یعنی میرے پاس سے ثواب پاتا۔

اس سے پتا چلا کہ ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق ہیں مختلف روایات میں مختلف حقوق بیان فرمائے گئے ہیں۔ چند حقوق ملاحظہ فرمائیں:

روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله ﷺ نے: مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں: (1) سلام کا جواب دینا(2)بیمارکی عیادت کرنا(3)جنازوں کے ساتھ جانا(4)دعوت قبول کرنا(5)چھینک کا جواب دینا۔ (مسلم، ص 1192، 2162)

اس حدیث مبارکہ کی رو سے جو حقوق ثابت ہوئے وہ کچھ تفصیل کے ساتھ درج ذیل ہیں:

پہلا حق: جب کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کا جواب دیا جائے جواب نہ دینے سے اس کی دل آزاری بھی ہوسکتی ہے۔ سلام کرنا سنت ہے اور سلام کا جواب دینا واجب ہے۔

دوسرا حق: جب کوئی مسلمان بیمار پڑ جائے تو اس کی عیادت کرے کہ یہ اس کیلئے خوشی کا باعث ہوگا۔ حدیث میں عیادت کرنے کے بہت فضائل ہیں حدیث پاک کا مفہوم ہے ایک مسلمان جب دوسرے مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو لوٹنے تک جنت کے باغ میں رہتا ہے۔ (مسلم، ص 1388، حدیث:2568)

تیسرا حق: اگر کوئی مسلمان فوت ہوجائے اس کیلئے دعائے مغفرت کرے ہوسکے تو کچھ نہ کچھ ایصال ثواب بھی کرے اورجنازے میں شرکت کرے۔ جنازے میں شرکت کرنا فرض کفایہ ہے۔

چوتھا حق: اگر کوئی مسلمان دعوت کرے تو اس میں دلجوئی کی نیت سے اگر کوئی شرعی رکاوٹ نہیں تو شرکت کی جائے۔

پانچواں حق: اگر کسی کو چھینک آئے تو الحمد للہ کہے سننے والا جواب میں یرحمک اللہ کہے چھینکنے والا یہ سن کر یغفراللہ لنا ولکم کہے۔ چھینک کا جواب دینا واجب ہے۔


بچّہ ابتدائی عمر میں سکھائی جانے والی باتیں  ساری عمر یاد رکھتا ہے۔جن بچّوں کے والدین یا اساتذہ نے قرآن سے اُن کا مضبوطی سےتعلق قائم کیا،وہ بچے ساری زندگی قرآن سے اپناتعلق قائم رکھتے ہیں۔ الحمد للہ عزوجل دارالمدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکول سسٹم میں جہاں بچوں کو پاکیزہ دینی ماحول میں دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق تعلیم فراہم کی جاتی ہے ، وہیں اُن کی دینی تعلیم کا بھی خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔

تعلیمی سال 2023-24کے اختتام پر دارالمدینہ انٹرنیشنل اسلامک اسکول سسٹم کےتحت 5731طلباوطالبات نے مدنی قاعدہ اور ناظرہ مکمل کیا۔اس طرح اب تک تقریباً 29ہزار طلباوطالبات قاعدہ اور ناظرہ مکمل کرچکے ہیں۔( غلام محی الدین ترک ،اردو کانٹینٹ رائیٹر(سوشل میڈیا ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ ،ہیڈ آفس کراچی)


اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (القلم:4)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔

نبیِ کریم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہمیں لیے بہترین نمونہ ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے زندگی کے ہر ہر پہلو میں ہماری رہنمائی فرمائی۔ہمیں زندگی گزارنے کے آداب سکھائے۔ہمیں بڑوں کا ادب چھوٹوں پر شفقت کرنا سکھائے۔آج ہم نبیِ پاک ﷺ کی بچوں پر شفقت کے متعلق جانتی ہیں۔نبیِ کریم ﷺ بچوں سے بے حد پیار کیا کرتے،ان کو چومتے،ان کو سونگھتے اور ان کے ساتھ کھیلتے تھے۔چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریم ﷺ سب سے زیادہ بچّوں پر مہربان تھے۔(مسلم،ص974،حدیث:6026)ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا :ایک بار حضور اپنے ننھے نواسے حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ سے پیار کرتے ہوئے منہ چوم رہے تھے۔وہاں موجود ایک شخص نے حیران ہو کر کہا : میرے دس بیٹے ہیں مگر میں نے کبھی کسی کو پیار نہیں کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا : جو رحم نہیں کرتا اللہ پاک بھی اس پر رحم نہیں فرماتا۔

(بخاری 4/100، حدیث:5997)

سرکارِ مدینہ منورہ ﷺ کافرمانِ عالیشان ہے : فلیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا۔ ترجمہ:جو ہمارے چھوٹے پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑے کی تعظیم نہ کرے تو وہ ہم میں سے نہیں۔

(ترمذی ،3/ 369، حدیث:1926)

حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:یعنی ہماری جماعت سے یا ہمارے طریقہ والوں سے یا ہمارے پیاروں سے نہیں یا ہم اس سے بیزار ہیں وہ ہمارے مقبول لوگوں سے نہیں ،یہ مطلب نہیں کہ وہ ہماری امت یا ہماری ملت سے نہیں کیونکہ گناہ سے انسان کافر نہیں ہوتا ۔(مراة المناجیح،6/ 560)

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ بچوں کے پاس سے گزرے تو انہیں سلام کیا اور فرمایا: آپ ﷺ بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔(بخاری،4/170،حدیث:6247 )

بیان کردہ احادیث کی روشنی سے ہمیں بھی یہ درس ملتا ہے کہ نبیِ پاک ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی چھوٹوں پر شفقت کریں،ان سے سلام میں پہل کریں اور ان سے محبت کریں ۔اللہ پاک ہمیں نبیِ پاک ﷺ کی سیرتِ طیبہ پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے حضور ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔جب آپ ﷺ دنیا میں آئے تو عورتوں، بچوں ، مردوں،غریبوں، یتیموں کو ان کے حق ملے۔ اسلام سے قبل بچیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا،جب آپ کی آمد ہوئی تو بچیوں پر شفقت ہونے لگی۔آپ بچوں سے بہت پیار کرتے اور اُن کو چومتے تھے۔ آپ جب کوئی چیز کھاتے تو پہلے بچوں کو دیتے اور پھر خود کھاتے تھے۔ آپ جب سواری پر بیٹھتے تو آگے بچوں کو بٹھاتے تھے۔آپ جب راستے سے گزرتے تو بچوں کو سلام کرتے ،ان کے سر پر دست ِشفقت پھیرتے اور ان سے حُسنِ سلوک کرتے تھے۔

اللہ پاک کا فرمان ہے :وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَ اِیَّاهُمْۚ- (پ8،الانعام: 151)ترجمہ: اور اپنی اولاد قتل نہ کرو مفلسی کے باعث ہم تمہیں اور انہیں سب کو رزق دیں گے۔

آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو چوم رہے تھے۔اقرع بن حابس تمیمی آپ کے پاس بیٹھے تھے دیکھ کر کہنے لگے:میرے دس لڑکے ہیں میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما ۔توآپ نے فرمایا :جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

(بخاری، 4/100 ، حدیث: 5997)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل پکتا تو لوگ اسے رسول الله ﷺ کی خدمت میں لایا کرتے، آپ اس پر یہ دعا پڑھا کرتے: خدایا! ہمیں اپنے مدینے،اپنے پھل،اپنے مُد اور اپنے صاع میں برکت دے۔اس دعا کے بعد جو بچے حاضرِ خدمت ہوا کرتے ان میں سے سب سے چھوٹے کو وہ پھل عنایت فرماتے۔(مسلم، ص 813، حدیث:1373)

حضرت عبد اللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول الله ﷺ کسی سفر سے تشریف لاتے تو آپ ﷺ کے اہل بیت کے بچے خدمت شریف میں لائے جاتے۔ایک دفعہ آپ ﷺ کسی سفر سے تشریف لائے تو پہلے مجھے خدمت شریف میں لے گئے۔ آپ ﷺ نے مجھے اپنے آگے سوار کر لیا ،پھر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہ کے دو لڑکوں میں سے ایک لائے گئے ، آپ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کر لیا، اس طرح تینوں ایک سواری پر داخل مدینہ ہوئے۔(مسلم، ص1014، حدیث:6268)


شفقت بنا ہے شفق سے جس کے معنی ہیں:ڈروخوف ۔پھر اصطلاح میں شفقت اس مہر بانی کو کہتے ہیں جو ڈر کے ساتھ ہویعنی کسی پر مہر بانی کرنا اس ڈر سے کہ ان پر مہر بانی نہ کرنا اللہ پاک کی ناراضی کا باعث ہے ۔

(مراۃ المناجیح،6/544)

ہمارے پیارے نبی ﷺ بچوں پر بہت زیادہ شفقت کیا کرتے تھے۔پیارے نبی ﷺ بچوں کے سروں پر ہاتھ رکھتے تھے،ان کو بہت زیادہ پیار کرتے تھے اور بچوں کو گود میں اٹھاتے تھے۔یہی نہیں بلکہ بچوں کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا بھی کھلا تے،بوسہ دیتے اور کندھوں پر سواری کرواتے۔صفحے بڑھ جائیں گے، لیکن پیارے نبی ﷺکی صفات ختم نہ ہوں گی۔آئیے!اب احادیث کی روشنی میں پیارے نبی ﷺ کی بچوں پر شفقت شفقت ملاحظہ کیجئے ۔

ہمارے پیارے نبی ﷺ بچوں کو چوما کرتے تھے :

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:ایک بدوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکربولا:کیا آپ لوگ بچوں کو چومتے ہیں؟ہم تو نہیں چومتے! تو نبی ﷺ نے فرمایا:میں تیرے لیے اس کا مالک ہوں کہ اللہ پاک نے تیرے دل سے رحم نکال لیا۔(بخاری،4/100، حدیث:5998)

یعنی تم لوگوں کو اپنے بچوں کو نہ چومنا اس لیے ہے کہ رب تعالی نے تمہارے دلوں سے رحم وکرم نکال دیا ہے جن کے دلوں سے اللہ رحم نکال دے اس کے دل میں ہم رحمت و کرم کس طرح ڈالیں ہم تو اللہ کی رحمتوں کے دروازے ہیں ۔(مراۃ المناجیح،6/245)

پیارے نبی ﷺ بچوں کو ادب سکھانے کی تلقین فرماتے تھے :

رسولِ پاک ﷺ نے فرمایا:کوئی اپنے بچے کو ادب کی تعلیم دے اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ ایک صاع خیرات کرے۔(ترمذی،3/382، حدیث: 1958)

یعنی اپنی اولاد کو ایک اچھی بات سکھانا خیرات کرنے سے افضل ہے ۔(مراۃ المناجیح،6/564)

اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن نہ کرنے کی تلقین :

نبی ﷺ نے فرمایا کہ جس شخص کی بیٹی ہو پھر نہ تو اسے بُرائی دی، نہ زندہ دفن کیا اور نہ اس پر اپنے لڑکے کو ترجیح دی تو اللہ پاک اسے جنت میں داخل کرے گا ۔(ابو داود،4/435 ،حدیث : 5146)

جیسا کہ عرب میں رواج تھا کہ اپنی بیٹی کو یا تو زندہ دفن کر دیتے یا اسے زندہ رکھتے تو نہایت زلیل کر کے اپنے بیٹوں کو بہت پیار کرتے اور بیٹیوں کو زلیل کرتےتھے۔(مراۃ المناجیح،6/567)

پیارے نبی ﷺ نیا پھل بچوں میں تقسیم فرمایا کرتے تھے :

روایت ہے کہ جب بھی کوئی نیا پھل پیارے نبی ﷺ کی بارگاہ میں پیش کیا جاتا تو آقا ﷺ اسے ہونٹوں اور آنکھوں سے لگاتے اور برکت کی دعا فرماتے،پھر وہاں موجود چھوٹے بچے کو عطا فرماتے۔

(دعوات كبير، 2/112، حدیث:512)

یتیم بچوں پر آقا ﷺ کی شفقت:

پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص یتیم کی کفالت کرے وہ یتیم اسی گھر کا ہو یا غیر کا، میں اور وہ دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے۔ حضور ﷺنے کلمہ کی انگلی اور بیچ کی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں انگلیوں کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ کیا۔(بخاری،4/102،حديث:6005)

تیرے خُلق کو حق نے عظیم کہا تیری خِلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہو گا شہا تیرے خالقِ حسن و ادا کی قسم

اللہ پاک ہمیں بھی پیارے نبی ﷺ کی سنتوں پر عمل کرنے، بچوں سے پیار کرنے اور بڑوں کا احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


نبیِ کریم،نورِ مجسم ﷺ کو اللہ پاک نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔اللہ پاک قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107)ترجمہ کنزالعرفان:

اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔

تفسیر صراط الجنان

حضورِ اقدس ﷺ کی رحمت:

تاجدارِ رسالت ﷺنبیوں، رسولوں اور فرشتوں علیہم السلام کے لئے رحمت ہیں ، دین و دنیا میں رحمت ہیں ، جِنّات اور انسانوں کے لئے رحمت ہیں ،مومن و کافر کے لئے رحمت ہیں ،حیوانات،نباتات اور جمادات کے لئے رحمت ہیں۔ الغرض عالَم میں جتنی چیزیں داخل ہیں سیّدُ المرسَلین ﷺ ان سب کے لئے رحمت ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:حضورِ اقدس ﷺ کا رحمت ہونا عام ہے،ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔مومن کے لئے تو آپ ﷺ دنیا و آخرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اس کے لئے آپ دنیامیں رحمت ہیں کہ آپ کی بدولت اس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اس سے زمین میں دھنسانے کا عذاب، شکلیں بگاڑ دینے کا عذاب اور جڑ سے اکھاڑ دینے کا عذاب اٹھا دیا گیا۔(تفسیر خازن،3/297)

اسی طرح آپ بچوں پر بے حد رحمت و شفقت فرماتے تھے ۔آپ بچوں سے بھی بے حد پیار کرتے تھے۔ آیئے! اس کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ

آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے تھے۔ ایک روز آپ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو چوم رہے تھے،اقرع بن حابس تمیمی آپ کے پاس بیٹھے تھے، دیکھ کر کہنے لگے کہ میرے دس لڑکے ہیں ، میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما۔آپ نے فرمایا:جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری،4/100، حديث :5997)

حضرت جابر بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز ظہر پڑھی،نماز سے فارغ ہو کر آپ دولت خانہ کو تشریف لے گئے ، میں آپ کے ساتھ ہولیا، راستے میں بچے ملے ، آپ نے ہر ایک کے رخساروں پر دستِ شفقت پھیرا اور میرے رخساروں پر بھی پھیرا، میں نے آپ کے دستِ مبارک کی ٹھنڈک یا خوشبو ایسی پائی کہ گویا آپ نے اپنا ہاتھ مبارک عطار کے صندوقچہ میں سے نکالا تھا۔

(مسلم، ص1271 ،حديث : 2329)

آپ کا گزر بچوں پر ہوتا تو ان کو سلام کیا کرتے تھے۔(بخاری،4/170،حديث:6247)

حضرت عبد الله بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جب رسول الله ﷺ کسی سفر سے تشریف لاتے تو آپ کے اہلِ بیت کے بچے خدمت شریف میں لائے جاتے۔ ایک دفعہ آپ کسی سفر سے تشریف لائے تو پہلے مجھے خدمت شریف میں لے گئے، آپ نے مجھے اپنے آگے سوار کر لیا، پھر حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کے دولڑکوں میں سے ایک لائے گئے،آپ نے ان کو اپنے پیچھے سوار کر لیا،اس طرح تینوں ایک سواری پر داخل مدینہ ہوئے۔ (مسلم ،2/41 ،حديث: 3900)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ فصل کا کوئی پھل پکتا تو لوگ اسے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں لایا کرتے ،آپ اس پر یہ دعا پڑھا کرتے :خدایا! ہمیں اپنے مدینے،اپنے پھل،اپنے مُد اور اپنے صاع میں برکت دے۔ اس دعا کے بعد بچے جو حاضر خدمت ہوا کرتے ان میں سے سب سے چھوٹے کو وہ پھل عنایت فرماتے۔(مسلم،ص713،حديث:1373)

سبحان اللہ!میرے نبی کی شان ہی نرالی ہے۔بچوں سے کس قدر پیار کرتے تھے کہ نیا پھل آتا تو بچوں کو دے دیا کرتے،سواری پر اپنے ساتھ بٹھا لیتے اور شفقت و محبت سے بچوں کو چوم لیتے۔ان احادیثِ طیبہ کو وہ لوگ پیشِ نظر رکھیں جو بچوں پر ظلم و زیادتیاں کرتے ہیں اور ان کو جابجا ڈانٹتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔کسی شاعر کا قول ہے:اس ذات ِاقدس کی مہربانی اور سختی دونوں سراپا رحمت ہیں۔مہر بانی دوستوں کے لئے اور سختی دشمنوں کے لیے رحمت ہے۔وہ ذاتِ اقدس جس نے دشمنوں پر رحمت کے دروازے کھولے دئیے تھےاور فتحِ مکہ پر لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَکا اعلان فرما دیا۔


حضور نبیِ کریم ﷺ کے بارے میں اللہ پاک کا ارشاد ہے:وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)(پ 29،القلم : 4 ) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو۔

پیارے آقا ﷺ بچوں پر حد درجہ مہربان تھے۔سواری پر آ رہے ہوتے تو انہیں آگے بیٹھا لیتے۔راستے میں بچوں سے ملتے تو انہیں سلام میں پہل فرماتے ۔جب بھی خدمتِ اقدس میں کوئی نیا میوہ آتا تو حاضرین میں سب سے کم عمر بچے کو دیتے ۔ بچوں کو بوسہ دیتے،اپنی شفقتوں سے نوازتے اور پیار کرتے۔

پیارے آقا ﷺ کی بچوں پر شفقت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور کانوں سے سنا ہے کہ ایک روز رسولِ کریم،صاحبِ خلقِ عظیم ﷺ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں کو پکرے ہوئے تھے، امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاؤں نبیِ کریم ﷺ کے پاؤں مبارک پر رکھے ہوئے تھے اور حضور انور،مدینے کے تاجور ﷺ فرمارہے تھے :شہزادے! اوپر چڑھتے آؤ ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ جو کہ ابھی بہت چھوٹے تھے سرکار ﷺ کے ہاتھ مبارک پکڑ کر اوپر چڑھنے لگے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے سینہ اقدس پر اپنے قدم رکھ دیے۔آپ ﷺ نے فرمایا:منہ کھولو!امام حسین رضی اللہ عنہ نے منہ کھولا تو آپ ﷺ نے ان کے منہ کو چوم لیا،پھر بارگاہِ الٰہی میں دعا فرمائی: الٰہی! میں اسے محبوب رکھتا ہوں تو بھی اسے محبوب رکھ ۔

( الادب المفرد ، ص72،حدیث:249 )

اس سے یہ مدنی پھول حاصل ہوا کہ چونکہ نبیِ کریم ﷺ تمام جہاں والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ہیں لہٰذا جس طرح آپ ﷺ کی رحمتوں اور شفقتوں کے دریا نے بڑوں کو فیض یاب کیا بلکہ کر رہا ہے، اسی طرح آپ ﷺ کی رحمتوں کی بارشیں بچوں کو بھی خوب سیراب کرتی تھیں اور آپ ﷺ بچوں بچیوں کو بھی پیار و محبت اور الفت کے جام بھر بھر کے پلاتے تھے۔کیونکہ آپ بچوں کی نفسیات کو بہت ہی اچھی طرح جانتے تھے کہ ان نرم و نازک کلیوں پر جس قدر شفقت و مہربانی کے پانی کا چھڑکاؤ کیا جائے گا اسی قدر ان کی ترو تازگی اور خوبصورتی میں نکھار آئے گا ۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:بے شک جنت میں ایک گھر ہے جسے دارالفرح کہا جاتا ہے اس میں وہی لوگ داخل ہوں گے جو بچوں کو خوش کرتے ہیں۔

( جامع صغیر ،ص140 ،حدیث:2321)

الحمد لله خوش نصیب ہیں وہ مسلمان جو بچوں کے دلوں میں خوشی داخل کرتے ہیں ان شاءاللہ ایسوں کو اللہ پاک جنت میں ایک عالیشان گھر سے نوازے گا ۔

نبیِ اکرم،نورِ مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میری امت تک کوئی اسلامی بات پہنچائے تاکہ اس سے سنت قائم کی جائے یا اس سے بد مذہبی دور کی جائے تو وہ جنتی ہے۔

(حلیۃ الاولیاء،10/45،حدیث: 14466)

ہمارے آقا،مدینے والے مصطفےٰ ﷺ بچوں سے حُسنِ سلوک کرنے میں بے مثل و بے مثال تھے۔ہمیں بھی پیارے آقا،مکی مدنی سرکار ﷺ کے مبارک طریقے پر چلنا چاہیے۔بے شک بچے اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہیں۔بچوں سے ہی گھرکے آنگن میں بہار آتی ہے۔ہمیں ہمیشہ ان کے ساتھ حُسنِ سلوک سے پیش آنا چاہیے۔چاہے بچے اپنے ہوں یا دوسروں کے سب بچے ایک جیسے،میٹھے،پیارے اور اپنے والدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتے ہیں۔سب سے ایک جیسا برتاؤ رکھنا چاہیے ۔آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ہمیشہ پیارے آقا ﷺ کی مبارک سنتوں کو ادا کرنے اور بچوں سے حُسنِ سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین 


بچے اللہ پاک کی نعمت ہوتے ہیں۔بچے اپنے ہو یا دوسروں کے، بچے بچے ہی ہوتے ہیں۔لہٰذا ان سے ہمیشہ پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے۔ بعض لوگ ایسے سخت مزاج ہوتے ہیں کہ اپنے بچوں پر بھی شفقت نہیں کرتے لہٰذا ان کو اس حدیث سے ڈر جانا چاہیے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو چوما تو ایک شخص نے عرض کی:میرے دس بچے ہیں۔میں نے ان میں سے کسی کو نہیں چوما تو آقاﷺ نے انہیں دیکھا،پھر ارشاد فرمایا:جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری، 4/100 ، حدیث: 5997)

بعض لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو اپنے بچوں پر بڑے شقیق و مہربان ہوتے ہیں لیکن دوسروں کے بچوں پر شفقت نہیں کرتے ۔حالانکہ حضور اکرم ﷺ کی شفقت و محبت صرف اپنے بچوں کے ساتھ خاص نہیں تھی بلکہ آپ ﷺ دیگر مسلمانوں کے بچوں سے بھی شفقت فرماتے تھے۔ جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے : حضرت جابر بن عبد الله رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ ﷺ کو تحفے میں ایک برتن میں حلوا پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے ہم سب کو تھوڑا تھوڑا حلوا دیا، جب میری باری آئی اور مجھے ایک بار دینے کے بعد فرمایا:کیا تمہیں اور دوں ؟میں نے عرض کی:جی ہاں ! تو آپ ﷺ نے میری کم عمری کی وجہ سے مجھے مزید دیا ، اس کے بعد جو لوگ باقی رہ گئے تھے ، اُن کو اُن کا حصہ دے دیا گیا ۔(شعب الایمان،5/ 99 ، حدیث: 5935)

سبحن اللہ!آقا کریم ﷺ نے کمسن صحابی کو دیگر صحابہ سے زیادہ حلوا دے کر کس طرح ان کو خوش کیا!لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی بچوں کو خوش کریں۔

سرکارِ مدینہﷺ کی بچوں سے شفقت کے مزید انداز احادیثِ مبارکہ میں موجود ہیں۔چنانچہ آپﷺ کی بچوں سے شفقت کا عالم یہ بھی تھا کہ دورانِ نماز سجدے کی حالت میں پُشتِ اطہر پر بچوں کی موجودگی محسوس فرما کر سجدہ طویل فرما دیتے ۔ (مسند احمد،5/ 426، حدیث: 2033 ملخصاًومفہوما)بعض دفعہ تو دورانِ نماز بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپ ﷺ نماز میں تخفیف فرما دیتے۔(بخاری،1/ 253 ، حدیث: 707 مفہوماً)

بچوں سے شفقت و مہربانی کا ایسا برتاؤ دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ بچوں سے شفقت فرمانے والے تھے۔(مسند ابویعلی ،3/ 425 ،حدیث :4181)


نبیِ کریم ﷺ  تمام جہان والوں کی طرف رحمت بن کر تشریف لائے۔جس طرح آپ ﷺ کی رحمتوں اور شفقتوں کے دریا نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو سیراب فرمایا اسی طرح بچوں اور بچیوں کو بھی پیار و محبت سے نوازا،نیز ان سے لطف و کرم فرما کر چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کا عملی نمونہ بیان فرمادیا۔ چنانچہ اس سلسلے میں چند احادیثِ مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:

1- پیارے آقا ﷺ کی حضرت حسن اور حضرت اسامہ رضی اللہ عنہما پر شفقت :

حضرت اسامہ ابنِ زید نبیِ کریم ﷺ سے راوی ہیں کہ حضور ﷺ انہیں اور جناب حسن رضی اللہ عنہما کو پکڑ کر عرض کرتے تھے:الٰہی!میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر ۔ایک اور روایت میں ہے کہ رسول الله ﷺ مجھے پکڑتے اور مجھے اپنی ران پر بٹھاتے تھے جبکہ امام حسن ابنِ علی رضی اللہ عنہما کو اپنی دوسری ران پر بٹھالیتے تھے۔پھر ان دونوں کو لپٹا کر فرماتے:الٰہی!ان دونوں پر رحم فرما کہ میں ان پر رحم کرتا ہوں۔ (بخاری ،4/101،حدیث:6003)

2-بچوں کو چومنا:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے حسن ابنِ علی کو چوما اور آپ کے پاس اقرع ابن حابس رضی اللہ عنہ تھے،وہ بولے کہ میرے دس بچے ہیں،میں نے ان میں سے کسی کو نہ چوما ۔تو رسول الله ﷺ نے انہیں دیکھا،پھر فرمایا کہ جو رحم نہیں کرتا وہ رحم نہیں کیا جاتا۔(بخاری،4/100، حدیث:5997)

3-چھوٹوں پر رحم:

ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول الله ﷺ نے فرمایا: وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی تعظیم نہ کرے اور اچھی باتوں کا حکم نہ کرے اور بُری باتوں سے منع نہ کرے۔(ترمذی، 3 /369،حدیث:1928)

4-بچوں کو چومنا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک بدوی نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر بولا: کیا آپ لوگ بچوں کو چومتے ہیں؟ہم تو نہیں چومتے!تو نبی ﷺ نے فرمایا: کیا میں تیرے لیے اس کا مالک ہوں کہ الله پاک نے تیرے دل سے رحم نکال لیا۔(بخاری،4/100، حدیث:5998)

5-بچیوں پر شفقتِ مصطفےٰ:

حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ پیارے آقا ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے تو آپ ﷺ (اپنی نواسی) امامہ بنتِ ابو العاص کو اپنے کندھے پر اٹھا ئے ہوئے تھے،پھر آپ ﷺ نماز پڑھانے لگے تو رکوع میں جاتے وقت انہیں اتار دیتے اور جب کھڑے ہوتے تو انہیں اٹھا لیتے۔

(بخاری،4/100،حدیث: 5996)

اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ نہ صرف بچوں کو شفقت و محبت سے نوازتے بلکہ بچیوں کو بھی اپنی برکتوں سے حصہ عنایت فرمایا کرتے تھے۔

6- صحابہ کرام علیہم الرضوان کے بچوں پر شفقت:

حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے ایک صاحبزادے کا نام ابو عمیر تھا۔اس وقت وہ دودھ پیتے بچے تھے۔ایک چھوٹی چڑیا ان سے بہت مانوس تھی اور ان کے ساتھ کھیلتی تھی۔نبیِ پاک ﷺ جب ان کے گھر تشریف لاتے تو ارشاد فرماتے: اے ابو عمیر، نُغَیْر (پرندے) نے کیا کیا؟ (بخاری،4/ 134، حدیث:6129)

ان احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ ہمیں بچوں اور بچیوں سے پیار و محبت سے پیش آنا چاہیے، ان کو پیار سے چومنا اور لپٹانا چاہیے۔نہ صرف اپنے بچوں بلکہ دوسروں کے بچوں بلکہ اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں اور بھتیجے بھتیجیوں وغیرہ سے بھی پیار کرنا چاہیے۔ان کے لیے رب کریم سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے،ان کی نفسیات کا خیال رکھنا چاہیے اور انہیں اچھے آدابِ زندگی سکھانے چاہئیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺ کے پیارے طریقہ مبارکہ پر عمل کرتے ہوئے بچوں سے مہربانی و شفقت سے پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہِ خاتم النبیین ﷺ