آج مدنی چینل پر ہفتہ وار اجتماع میں رکن شوریٰ
حاجی امین عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے
امر
بالمعروف و نہی عن المنکر کا پیغام عام کرنے والی عاشقانِ رسول کی عالمگیر دینی
تحریک دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ 08 اگست 2024ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب دنیا بھر میں ہفتہ
وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں اراکینِ شوریٰ و مبلغین
دعوتِ اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔تلاوت و نعت سے شروع ہونے والے اجتماع
میں اصلاحِ نفس، اصلاح معاشرہ اور دینی معلومات کے موضوعات پر بیانات کئے جاتے ہیں
جس کے بعد ذکر و اذکار، رقت انگیز دعا اور صلوۃ و سلام کا سلسلہ ہوتا ہے۔
تفصیلات
کے مطابق آج رات عثمانیہ مسجد عبد اللہ گوٹھ نزد پولیس ٹریننگ سینٹر رزاق آبادمین
نیشنل ہائے کراچی سے رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری خصوصی بیان فرمائیں
گے۔
اس کے
علاوہ عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں رکن شوریٰ حاجی محمد علی عطاری،
نور محل شادی ہال شرقپور شریف میں رکن شوریٰ حاجی منصور عطاری، مدنی مرکز
فیضان مدینہ G-11اسلام
آباد میں رکن شوریٰ مولانا حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری مدنی، جامع مسجد
محمدیہ حنفیہ سوڈیوال لاہور میں رکن شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری اور مدنی
مرکز فیضان مدینہ آفنڈی ٹاؤن حیدر آباد میں مبلغ دعوتِ اسلامی یوسف سلیم عطاری
سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
تمام
عاشقانِ رسول سے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔
امریکہ میں ”افتتاحِ بخاری“ کی تقریب منعقد،
مفتی محمد قاسم عطاری نے پہلی حدیث شریف پڑھی
امریکی ریاست Taxes کے شہر
Houston میں قائم دعوتِ اسلامی کے مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ میں ”افتتاحِ
بخاری“ کے موقع پر ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں طلبۂ کرام، اساتذۂ کرام اور
مقامی ذمہ داران نے شرکت کی۔
معلومات کے مطابق دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں کے
سلسلے میں امریکہ دورے پر موجود شیخ الحدیث والتفسیر مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی کی بھی خصوصی شرکت ہوئی ۔
دورانِ تقریب مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی نے ”اطاعتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم“ کے
حوالے سے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اطاعتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اہمیت پر
روشنی ڈالی اور حاضرین
کو مدنی پھولوں سے نوازا۔
بعدازاں مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی نے بخاری شریف
کی پہلی حدیث پڑھی اور اُس حدیث شریف سے ملنے والے اہم نکات پر طلبۂ کرام کی
رہنمائی کی۔
اپنی گفتگو کے دوران مفتی محمد قاسم عطاری مدظلہ العالی نے بتایا کہ جامعۃ المدینہ بوائز کے تحت امریکہ میں دو (2) بیج کے اسلامی بھائی ”دورۂ
حدیث شریف“ مکمل کر چکے ہیں اوراب تیسرے
(3) بیج کے
اسلامی بھائی بخاری شریف سمیت حدیث کی دیگر کتابیں پڑھیں گے۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
شعبہ فیضان آن لائن اکیڈمی دعوت اسلامی کے تحت29جولائی2024ء کو فیصل آباد میں مدنی مشورہ ہوا جس میں ایڈمیشن
ڈیپارٹمنٹ کے کالنگ آپریٹرز نے شرکت کی۔
مشورے میں رکن مجلس ایڈمیشن ڈیپارٹمنٹ حافظ سلمان عطاری اور رکن
مجلس عرفان عطاری نے ایڈمیشن ڈیپارٹمنٹ کی ورکنگ سے متعلقہ گفتگو کرتے ہوئے
ایڈمیشن ڈیپارٹمنٹ میں موصول ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے حوالے سے کلام کیا اور
ڈیپارٹمنٹ میں مزید بہتری لانے سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے اسلامی بھائیوں کے سوالات
کے جوابات دئیے۔(رپورٹ: محمد
وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی،کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)
رکن شوری ٰعبدالوہاب عطاری کا حیدرآبادپاکستان میں مختلف
تعلیمی اداروں کا وزٹ
30جولائی2024ء کو دعوت اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن عبدالوہاب عطاری نے حیدرآبادپاکستان کا وزٹ کیا جہاں شعبہ تعلیم کے حوالے سے مختلف تعلیمی اداروں اور مجلس کے مدنی مشوروں کا جدول کیا۔
اس دوران رکن شوریٰ نے فیضان آن لائن اکیڈمی کی برانچ کلاتھ مارکیٹ
حیدرآباد کا وزٹ بھی فرمایا اور شعبے کی
خدمات کو سراہتے ہوئے اپنے مدنی پھولوں سے بھی نوازا۔(رپورٹ: محمد وقار یعقوب مدنی برانچ ناظم فیضان آن لائن اکیڈمی
بہاولپور برانچ،کانٹینٹ:محمدشعیب احمد عطاری)
شعبہ فیضان آن لائن
اکیڈمی دعوت اسلامی کے تحت 29جولائی2024ء کو لاہور میں مدنی مشورہ ہوا جس میں فیضان آن لائن اکیڈمی
لاہور ڈویژن کے تمام برانچ ناظمین اور ڈویژن و صوبائی ذمہ دار نے شرکت کی ۔
مشورے میں نگران مجلس فیضان آن لائن اکیڈمی مولانا یاسر عطاری نے
مختلف موضوعات پر کلام کرتے ہوئے دینی کاموں کو بڑھانے کے حوالے سے گفتگو کی جس پر حاضرین نے اپنی اچھی اچھی
نیتوں کو اظہار کیا۔ (رپورٹ:نواز
حسین فیاض شفٹ انچارج برانچ اچھرہ،کانٹینٹ:شعیب احمد)
01اگست2024کو فیضان مدینہ فیصل آباد میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃالعلمیہ ) کے ذمہ داران کا مدنی مشورہ فرمایا جس میں اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃالعلمیہ ) کے ذیلی شعبہ ہفتہ وار
اجتماع اور جمعۃالمبارک بیان کے ذمہ داران سمیت اسلامک ریسرچ سینٹر( المدینۃالعلمیہ ) کے دیگر ذمہ داران اسلامی
بھائیوں بھائیوں نے شرکت کی
اس مدنی مشورے میں ہفتہ
وار اجتماع کے بیانات کی تیاری اور چیکنگ
پروسیجر ، اور جمعۃالمبارک بیان کے بارے
میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ نگران پاکستان مشاورت نے ذمہ داران
کو قیمتی مدنی پھولوں سے نوازا۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار نگرانِ پاکستان
مشاورت، کانٹینٹ:شعیب احمد عطاری)
زندگی
کی مہارتوں کو نئے انداز اور نئے ماحول میں سیکھنا طلبہ کے لیے کافی فائدہ مندہوتا
ہے۔سمر کیمپ ان باتوں کو نہ صرف بہتر انداز میں پورا کرتا ہے بلکہ طلبہ کو کم وقت
میں زیادہ سے زیادہ سیکھنے کا موقع بھی فراہم کرتا ہے۔ دارالمدینہ ، سندھ اور
پنجاب ریجن کے کیمپسز میں سمرکیمپس کا
انعقاد ہوا۔
دارالمدینہ نے اس سمر کیمپ کے لیے کئی منفرد سرگرمیاں تیار کیں
۔ ان میں تربیہ اورکردار سازی کے علاوہ روبوٹکس،STEM،
انگریزی بول چال، ذاتی تربیت، ری سائیکلنگ ، آرٹ اورپودے اگانے سمیت کئی تعلیمی،
ذہنی، جسمانی اور ماحولیاتی آگاہی کی دلچسپ سرگرمیاں کروائی گئیں۔ یہ سرگرمیاں
طلبہ کی تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے ، نئی صلاحیتیں دریافت کرنے اور زندگی کی
قیمتی مہارتیں حاصل کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی ۔اس سمر کیمپ میں دارالمدینہ کے
علاوہ دوسرے اسکولوں کےطلبہ نے بھی شرکت کی۔(رپورٹ: غلام
محی الدین ترک ،اردو کانٹینٹ رائیٹر(مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ
،ہیڈ آفس کراچی))
ہمارا پیارا مذہب اسلام انسان کے بنیادی حقوق کے
تحفظ کا ضامن اور علمبردار ہے۔ اسلام نے ہر انسان کے ہر حیثیت و رشتے کے لحاظ سے حقوق
و فرائض ایسے خوبصورت پیرائے/انداز میں بیان کیے کہ ہر شخص اپنے فرائض ادا کرے تو
دوسرے کےحقوق خود بخود ادا ہونے لگ جاتے ہیں۔ آج ہم انہی حقوق میں سے مہمان کے
حقوق اور دوسرے لفظوں میں میزبان کے آداب و فرائض قرآن و حدیث اور بزرگان دین کے
اقوال و افعال کی روشنی میں جاننے کی سعادت حاصل کریں گے ان شاء اللہ
حدیث مبارکہ میں ہے: روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید
سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے
وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ اس کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی مراۃ
المناجیح میں لکھتے ہیں: آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا
جتنا آپ نے کیا آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔(مراۃ المناجیح، 6/329)معلوم
ہوا کہ مہمان نوازی کرنا سنت ابراہیمی ہے۔
مہمان کے چند حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ مہمان کی عزت کرنا: رسول
اللہ ﷺ نے کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا
احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018) اس
کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں مہمان کا احترام یہ ہے کہ اس سے
خندہ پیشانی سے ملے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے۔
اہل عرب کہتے ہیں کامل مہمان نوازی اول ملاقات میں
مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آنا اور کھاتے ہوئے مہمان کے ساتھ دیر تک گفتگو
کرنا ہے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 432)
2۔ مہمان کو دروازے تک چھوڑنا:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے
تک جائے۔ اس کی شرح میں ہے کہ مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا
احترام ہے اور اس میں اور بہت سی حکمتیں ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
3۔ مہمان کو کھانے کا کہنا: میزبان
کو چاہیے کہ مہمان سے وقتاً فوقتاً کہے کہ اور کھاؤ مگر اس پر اصرار نہ کرے، کہ
کہیں اصرار کی وجہ سے زیادہ نہ کھا جائے اور یہ ا س کے لیے مضر ہو،، میزبان کو
بالکل خاموش نہ رہنا چاہیے اور یہ بھی نہ کرنا چاہیے کہ کھانا رکھ کر غائب ہوجائے،
بلکہ وہاں حاضر رہے۔ (بہار شریعت، 3/394، حصہ: 16)
4۔ مہمانوں کو مانوس کرنا: مہمان
نوازی کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ اپنے مہمانوں کے ساتھ ایسی گفتگو کرے کہ اس سے
ان کا دل اس کی طرف مائل ہو۔ ان سے پہلے نہ سوئے۔ (دین دنیا کی انوکھی باتیں، ص 433)
رات کو کچھ وقت اپنے مہمانوں کے ساتھ گزارے انہیں
دلچسپ واقعات سنا کر مانوس کرے۔ (دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 434)
5۔ مہمان کو خوف زدہ نہ کرنا: میزبان
پر لازم ہے کہ مہمانوں کے دلوں کی رعایت کرے اور ان کے سامنے کسی پر غصہ نہ کرے ان
کے ہوتے ہوئے کوئی نا پسندیدہ کام نہ کرے اور ناخوشگواری اور بخل کا مظاہرہ نہ کرے۔
(دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 433)
اللہ پاک ہمیں بہترین میزبان بننے کی توفیق دے۔
آمین
آئیے ترغیب کے لیے ایک نظر صحابہ کرام علیہم
الرضوان اور بزرگان دین کی میزبانی پر ڈالتے ہیں کہ وہ کیسے میزبانی کے آداب کو
بجالاتے اور مہمان کا اکرام کرتے چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم ﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور عرض
کی: یا رسول اللہ! مجھے بھوک لگی ہوئی ہے۔ آپ نے ازواج مطہرات کے پاس کسی کو بھیج
کر معلوم کیا لیکن کھانے کی کوئی چیز نہ ملی، حضورِ اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو
شخص آج رات اسے مہمان بنائے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائے۔ انصار میں سے ایک
شخص کھڑے ہوئے اور عرض کی: یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ چنانچہ وہ اس آدمی کو اپنے
گھر لے گئے اور اپنی زوجہ سے کہا: رسول اللہ ﷺ کا مہمان آیا ہے، لہٰذا تم نے اس سے
کوئی چیز بچا کر نہیں رکھنی۔ انہوں نے عرض کی: ہمارے پاس تو بچوں کی خوراک کے
علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہے۔ فرمایا:جب عشاء کا وقت ہو جائے تو تم بچوں کو بہلا
پھسلا کر سُلا دینا،پھر جب ہم کھانا کھانے بیٹھیں تو تم چراغ درست کرنے کے بہانے آ
کر اسے بجھا دینا،اگر آج رات ہم بھوکے رہیں تو کیا ہو گا۔چنانچہ یہی کچھ کیا گیا
اور جب صبح کے وقت وہ شخص نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے تو آپ نے ارشاد
فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہاری کار گزاری کو بہت پسند فرمایا ہے۔ (بخاری، 3/348،
حدیث: 3889)
بزرگان دین اور مہمان نوازی: حضرت
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاذ محترم حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے
مہمان بنے تو حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے خود اپنے ہاتھوں سے ان کے ہاتھوں
پر پانی ڈالا اور ان سے کہا: یہ دیکھ کر گھبراؤ نہیں بلکہ ذہن نشین کر لو کہ مہمان
کی خدمت کرنا میزبان پر لازم ہے۔
اسلام میں مہمان کو اللہ کی رحمت قرار دیا گیا ہے۔ اسلام
نے بیٹی کو بھی اللہ کی رحمت قرار دیا ہے اور ہم دعاؤں میں بھی اللہ کی رحمت کے
طلبگار رہتے ہیں۔ مہمان کی عزت و احترام اور خاطر تواضع کرنا انبیائے کرام کی سنت
ہے۔ اگرچہ میزبان اس سے واقف بھی نہ ہو۔ رحمت عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو کوئی
اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس پر لازم ہے کہ وہ مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)
آپ ﷺ خود بہت مہمان نواز تھے۔ آپ ﷺ اپنے مہمانوں سے
بہت عزت سے پیش آتے۔ ان کی خوب خاطر مدارت کرتے۔ان کے ساتھ وقت گزارتے۔جاتے ہوئے
انہیں تحفے تحائف دیتے اور انتہائی عزت سے انہیں رخصت فرماتے۔
ایک دفعہ ایک بھوکا شخص حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا
اور کھانے کے لیے درخواست کی۔آپﷺ نے تمام ازواج مطہرات سے پتا کروایا لیکن کھانے
کے لیے کچھ میسر نہ تھا۔ آپ ﷺ کے حکم پر ایک صحابی حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے
انہیں اپنے پاس مہمان ٹھرالیا لیکن ان کے ہاں بھی کھانا بہت کم تھا۔یا تو مہمان
کھا سکتا تھا یا حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے بچے لہذا انہوں نے بچوں کو بہلا کر
سلا دیا اور کھانا مہمان کے سامنے رکھ دیا۔ ان کے کہنے پر ان کی بیوی نے کسی بہانے
سے چراغ بجھا دی۔ اس سے میزبان تو خالی منہ ہلاتے رہے اور مہمان نے خوب پیٹ بھر کر
کھانا کھالیا۔اگلی صبح حضورﷺ نے ابو طلحہ کو فرمایا کہ آپ کی میزبانی اللہ تعالی
کو بے حد پسند آئی۔ (بخاری، 3/348، حدیث: 4889)
حضور ﷺ نے مہمان اور میزبان دونوں کیلیے احکامات ارشاد
فرمائے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
مہمان ایک دن اور ایک رات یعنی 24 گھنٹے تک مہمان
ہے۔اس دوران اس کی حتی المقدور خدمت کرنی چاہیے یعنی روٹین سے ہٹ کر اس کے لیے کچھ
خاص کھانے کا بندوبست کیا جائے لیکن حضور ﷺ نے مہمان کے لیے اپنی حیثیت سے بڑھ کر
یعنی اسراف کی حد تک خرچہ کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے اور ایسے میزبان کو دوزخ
میں جانے کی وعید سنائی ہے۔
مہمان زیادہ سے زیادہ تین دن اور تین رات تک مہمان
ہو گا لیکن پہلے دن کے بعد اس کو روٹین والا کھانا دیا جائے گا۔ تین دن کے بعد
مہمان پر جو خرچ کیا جائے گا وہ صدقہ ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہمان کو عام
حالات میں تین دن سے زیادہ نہیں ٹھہرنا چاہیے۔
مہمان کو چاہیے کہ وہ میزبان کی جان، مال اور عزت
کی ایسے ہی حفاظت کرے جیسے وہ اپنی کرتا ہے۔میزبان کو حکم ہے کہ مہمان کے ساتھ نہ
چپکا رہے کیونکہ اس طرح مہمان کو آرام کرنے کا تو موقع ہی نہیں مل سکے گا۔
مہمان کو جاتے ہوئے کچھ (بے شک وہ قیمتی نہ ہو)بھی
دیں تو اچھی بات ہے۔
جاتے ہوئے مہمان کو گھر کے دروازے تک یا کچھ دور تک
ساتھ چھوڑنا بھی سنت ہے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)
مہمان کو چاہیے کہ اپنے میزبان کے لیے دعائیں کرے۔
مہمان کی تعریف: کسی
کے ہاں ضیافت یا دعوت کے لیے یا عارضی قیام کے لیے آنے والا شخص مہمان کہلاتا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ پر اور آخرت
کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے۔ (بخاری، 4/105،
حدیث: 6019)
مہمانوں کے بہت سے حقوق ہیں یہاں چند آپکے پیش خدمت
ہیں:
میزبان کو چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے اسکے ساتھ احترام
سے پیش آئے۔ میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں کو پیار دیں۔ میزبان کو چاہیے کہ مہمانوں
کا اپنی حیثیت کے مطابق شاندار استقبال کریں۔ مہمان کو اچھا کھانا کھلائیں۔ مہمان
کے آنے پر اچھے سے خوش آمدید کرے اور جاتے وقت الوداع کرے اور دوبارہ آنے کی دعوت
دے۔
ہمیں بھی چاہیے کہ مہمانوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش
آئیں اور انہیں بوجھ نہ سمجھیں کیونکہ مہمان اپنا رزق اپنے ساتھ لاتا ہے، جیسا کہ
فرمانِ مصطفی ﷺ ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لاتا ہے
اور جب کسی کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحبِ خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف
الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
اللہ پاک ہمیں مہمانوں کے حقوق پورے کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر
میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی
ہے۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)
آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر
ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری،4/105، حدیث:6019) حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اونٹ کی کوہان میں
ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چُھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہ تک
پہنچ جاتی ہے اس لئے اس سے تشبیہ دی گئی یعنی ایسے گھر میں خیر و برکت بہت جلد
پہنچتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 6/67)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا انبیاء و صالحین کی سنّت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم،2/18)
نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی
کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب
خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
مہمانوں کے حقوق: مہمان
کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا، اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔ مہمانوں
کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا
مروت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ رکھنا دکھلاوا ہے۔ (احیاء العلوم، 2/21 تا 23 ملخصاً)
مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا، اس
کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا
اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا،
اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا، اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ
کرنا، مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔
نبی پاک ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان
کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو
صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی
کرنا آدابِ اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم،2/18) حکیمُ
الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان کا احترام یہ
ہے کہ اسے خندہ پیشانی (یعنی مُسکراتے چہرے)سے ملے، اس کے لئے کھانے اور دوسری
خدمات کا انتظام کرے حتی الاِمکان(یعنی جہاں تک ہوسکے) اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت
کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/52)
مہمان کے حقوق: آمد کے وقت
اسے خوش آمدید کہنا، جانے کے وقت دروازہ تک چھوڑنے جانا، اس کے معمولات و ضروریات
کا انتظام کرنا جس سے ان کو راحت پہنچے، تواضع و تکریم ومدارات کے ساتھ پیش آنا، جتنا
ہو سکے بہتر کھانے کا انتظام کرنا، کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے، کھانے میں
اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا
زیادہ بہتر ہے، مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے
والوں میں سے جو چاہے کھالے، جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک
دسترخوان نہ اُٹھایاجائے، مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو
کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہےاور ضرورت سے زیادہ رکھنا دکھلاوا
ہے۔ (احیاء العلوم، 2/21 تا 23 ملخصاً)
کم از کم تین روز تک اس کی مہمانداری کرنا، اتنا تو
اس کا ضروری حق ہے۔ جب وہ واپس جائے تو اسے دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔