پیارے پیارے اسلامی بھائیوں مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم اور ترغیب دیتا ہے کھانا پیش کرنا تو ایک ادنی پہلو ہے اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی چھوٹی ضرورت کی دیکھ بھال بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدر اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہے گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کوزحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دسترخواہ سکڑ گۓ ہیں آۓ آج میں آپ کو مہمان کے حقوق بتانے کی کوشش کرتا ہوں اللہ پاک سے دعا ہے کہ مجھے حق اور سچ بیان کرنے کی توفیق عطاء فرمائے مہمان نوازی کے بہت سے فوائد ہے جن میں سے چند آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں

نمبر 1: مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تووہ بھی ہمارے ساتھ عزت اور احترام والا سلوک کریں گے ۔

نمبر *2 مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے جب ہم آپ دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں

نمبر 3: مہمان کو اچھی جگہ ٹھہرا کر فورا اس کے کھانے پینے کا انتظام کرنا چاہیے

نمبر 4: مہمانوں کی تکریم جزوایمان ہے کہ اگر کوئی شخص ان سے اہانت آمیز برتاؤ کرے تو میزبان پر فرض ہے کہ مہمان کی جانب سے مدافعت کرے کیونکہ اس سے خود میزبان کی توہین ہوتی ہے چنانچہ مہمان نوازی کے متعلق حدیث پاک ملاحظہ

حدیث پاک : ہو فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتاہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دہتا ہے جو پورے سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں لکھ دی جاتی ہے اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے کہ اسکو جنت کی پاکیزہ غذائیں جنتہ الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ ( کنزالعمال *الحدیث*25878 )

اللہ پاک ہمیں مہمان کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطاء فرمائے امین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں فی زمانہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی اس کائنات میں غور وفکر کرتا ہے تو بہت ساری چیزوں اور لوگوں سے اس کا تعلق و واسطہ ہوتا ہے تو اسلام نے  قرآنِ مجید اور احادیث میں ان کے حقوق بیان کئے ہیں جیسے نماز کا طریقہ ادائیگی کے ساتھ نماز پڑھنے والوں کے فضائل بیان کئے گئے اور نہ پڑھنے والوں کی مذمت بیان کی گئی ہے اسی طرح حج و عمرہ زکوٰۃ و عیدین کا طریقہ کار وغیرہ بیان کیا گیا اور ان کے آداب و حقوق بھی بیان ہوئے

آج ہم مہمان کے حقوق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے ۔ مہمان کے حقوق درج ذیل ہیں :

ایک روایت میں ہے : ان وفد عبد القیس قدموا علی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال مرحبا بالوفد الذین جاءوا غیر خزایا ولا ندمی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب عبدالقیس کا وفد آیا تو آپ نے فرمایا: وفد کو خوش آمدید تم ہمارے پاس آنے پر رسوا ہوگے نہ ہی شرمندہ ۔ (بخاری شریف، کتاب الادب، باب قول الرجل : مرحبا، جلد8 صفحہ 41، حدیث 6176، دار طوق النجاۃ)

اس سے پتہ چلا مہمان کو اچھے انداز سے ویلکم کرنا چاہیے اور اس کے استقبال میں خوبصورت جملے کہنے چاہیے۔ ایک روایت میں ہے : اذا جاءکم الزائر فاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے تو اسکی تعظیم کرو (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:156، حدیث:330)

حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، کہ حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مال کی زکاۃ ادا کرے اور جو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ حق بولے یا سکوت کرے یعنی بُری بات زبان سے نہ نکالے اورجو اﷲ و رسول (عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) پر ایمان لاتا ہے، وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے ’’ المجعم الکبیر ‘‘ ، (الحدیث : 135، ج 16 ، ص 332)

ان دونوں حدیثوں سے پتہ چلا کہ مہمان کی عزت کرنی چاہیے اور اس کی عزت نفس کا خیال رکھا جائے۔ ایک روایت میں ہے

تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب کسی کے پاس کوئی مہمان آتا ہے تو اپنا رزق ساتھ لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو اہل خانہ کے گناہ بخشوا کر جاتا ہے۔ (مسند الفردوس ،صفحہ 432، حدیث 3896،)

اس حدیث پاک سے پتہ چلا مہمان کے آنے کا تو فائدہ ہی فائدہ ہے ۔ ایک حدیث پاک میں ہے : لا خیر فیمن لایضیف

اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں جو مہمان نوازی نہیں کرتا۔ (مکارم الاخلاق للخرائطی، باب ماجاء فی اکرام الضیف۔۔الخ، جلد:2، صفحہ:155، حدیث:329)

اسی طرح ایک حدیث پاک میں ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے، رسول اﷲ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم نے فرمایا کہ ’’سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازہ تک رخصت کرنے جائے۔ (سنن ابن ماجہ ‘‘ ،کتاب الأطعمۃ، باب الضیافۃ،الحدیث: 3358 ،ج 2 ،ص 52۔)

اس سے پتہ چلا واپسی پر مہمان کو دروازے تک رخصت کیا جائے۔

اللہ کریم ہم سب کو تمام حقوق سیکھ کر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین الکریم صلی اللہ علیہ وسلم


مہمان نوازی ہماری ثقافت اور مذہب دونوں میں ایک اہم حیثیت رکھتی ہے۔ اسلام میں مہمانوں کے حقوق پر بہت زور دیا گیا ہے، اور اس حوالے سے قرآن و حدیث میں متعدد احکامات اور روایات موجود ہیں۔ یہاں مہمانوں کے حقوق پر ایک مختصر مضمون پیش کیا گیا ہے:

مہمان نوازی کسی بھی معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوتی ہے اور اس سے انسانیت اور اخلاقیات کا اندازہ ہوتا ہے۔ مختلف ثقافتوں اور مذاہب میں مہمانوں کے حقوق اور ان کی عزت و تکریم پر زور دیا گیا ہے۔ خاص طور پر اسلام میں، مہمان نوازی کو ایک عظیم نیکی قرار دیا گیا ہے۔

اسلام میں مہمان نوازی: اسلامی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی قدر قرار دیا گیا ہے۔ اسلام میں مہمان کو خوش آمدید کہنا، اس کے آرام و سکون کا خیال رکھنا، اور اس کے لئے کھانے پینے کا انتظام کرنا صاحب خانہ کی ذمہ داری ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال ہمیں بتاتی ہے کہ وہ کیسے اپنے مہمانوں کے لئے بہترین انتظام کرتے تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مہمان نوازی کی۔ ان کی مہمان نوازی کے واقعہ کو قرآن پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔ هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكْرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سَلَامًا قَالَ سَلَامٌ . ترجمہ : اے محبوب! کیا تمہارے پاس ابراہیم علیہ السلام کے معزز مہمانوں کی خبر آئی۔ جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا، سلام ناشنا سا لوگ ہیں۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام فوراً ان کے کھانے پینے کے انتظام میں لگ گئے اور جو موٹا تازہ بچھڑا ان کے پاس تھا اس کا گوشت بھون کر مہمانوں کی خدمت میں پیش کر دیا۔ (الذاریات 24)

مہمانوں کے حقوق: 1. استقبال اور عزت: مہمان کا استقبال خوشی اور مسکراہٹ کے ساتھ کرنا چاہئے اور اس کی عزت و احترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

2. راحت کا خیال: مہمان کو ہر ممکن آرام اور سکون فراہم کرنا چاہئے، جیسے کہ اسے صاف ستھرا بستر اور تازہ ہوا مہیا کرنا۔

3. کھانے پینے کا اہتمام: مہمان کے لئے مناسب اور لذیذ کھانے کا انتظام کرنا چاہئے، چاہے گھر کے معمولی وسائل ہی کیوں نہ ہوں۔

4. وقت کی قدر: مہمان کو ایسے وقت میں بلانا چاہئے جب میزبان کے لئے سہولت ہو، اور اس کی موجودگی سے میزبان کو تکلیف نہ ہو۔

5. مناسب رخصتی: مہمان کو رخصت کرتے وقت اس کی مزید ضرورتوں کا خیال رکھنا چاہئے اور اسے عزت کے ساتھ الوداع کہنا چاہئے۔

آنحضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعض مرتبہ وفود کی مہمان نوازی کا فرض صحابہ کے سپرد فرماتے۔ ایک دفعہ قبیلہ قیس کا وقد آپ صلی اعلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی الم نے انصار کو ان کی مہمان نوازی کا ارشاد فرمایا، چناں چہ انصاران مہمانوں کو لے گئے۔ صبح وہ حاضر ہوئے تو آپ صلی ہم نے دریافت فرمایا: تمہارے میزبانوں نے تمہاری کیسی خدمت کی ، انہوں نے کہا یارسول اللہ صلی الیم بڑے اچھے لوگ ہیں۔ ہمارے لیے نرم بستر بچھائے ، عمدہ کھانے کھلائے اور پھر رات بھر کتاب و سنت کی تعلیم دیتے رہے۔

انس بن مالک سے مروی ہے۔ کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم لا يأكل وحده رسول اللہ صلی علیم اکیلے کھانا تناول نہیں فرمایا کرتے تھے۔ (25 مكارم الأخلاق ومعاليها ومحمود طرائقها، لأبي بكر محمد بن جعفر الخرائطي السامري (المتوفى: 327هـ)، تقديم وتحقيق: أيمن عبد الجابر البحيري، دار الآفاق العربية، القاهرة، الطبعة: الأولى، 1419 هـ - 1999 م، باب ما جاء في إطعام الطعام وبذله للضيف وغيره من أبناء السبيل، ص 119)

نتیجہ:

مہمان نوازی ایک ایسی صفت ہے جو معاشرے میں محبت، بھائی چارے اور انسانیت کو فروغ دیتی ہے۔ یہ نہ صرف مہمان کے لئے بلکہ میزبان کے لئے بھی باعث برکت ہوتی ہے۔ اسلام نے مہمان نوازی کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے، اور ہمیں چاہئے کہ ہم ان تعلیمات پر عمل کریں اور اپنے مہمانوں کی خدمت کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔

مہمان نوازی کے یہ اصول نہ صرف ہمارے مذہبی فرائض ہیں بلکہ ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل کے لئے بھی ضروری ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے گھروں کو مہمانوں کے لئے ایک پناہ گاہ بنائیں اور ان کی خدمت کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

پیارے اسلامی بھائیو اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

اللہ کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عظیم ہے: مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قِیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اِکرام کرے بخاری،ج4،ص105، حدیث:6019 )

نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء، حدیث:1641)

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ السلام نے مجھے ایک یہودی سے ادھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرہ گروی رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔( مسند البزار، ج 9، حدیث: 3863)

فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، ”جَنّۃُ الْخُلْد“اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمّال، جز9،ج 5،ص110، حدیث:25878)

اللہ پاک ہمیں میزبانی اورمہمانی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مہمان نوازی اچھے اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی علامت ہے۔ اور اسلام کے آداب میں سے ہے مہمان کی عزت و احترام اور اس کی خاطر تواضع کرنا انبیاء اکرام علیہم السلام کی سنت اور اولیاء عظام رحمھم اللہ تعالی کی خصلت امیر المؤمنین حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مجھے تین چیزیں بڑی پیاری ہیں۔

1مہمانوں کی خدمت

2 گرمی کے روزے

3 تلوار سے جہاد

فتاوی رضویہ شریف میں ہے : مہمان کا اکرام عین اکرام خدا ہے جب کبھی آ جائے تو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے بلکہ خوش دلی کے ساتھ اس کی خاطر مدارت کرنی ۔

1۔مہمان نوازی سنت ابراھیمی :ترجمہ کنز الایمان : اے محبوب کیا تمہارے پاس ابراھیم کے معزز مہمانوں کی خبر آئی جب وہ اس کے پاس آکر بولے سلام کہا سلام ناشنا سا لوگ ہیں پھر اپنے گھر گیا تو ایک فربہ بچھڑا لے آیا پھر اسے ان کے پاس رکھا کیا کیا تم کھاتے نہیں ۔ پ 26 الذاریات/آیت 26 تا 27)

تفسیر خزائن العرفان میں ہے : مفسرین نے فرمایا کہ حضرت ابراھیم بہت ہی مہمان نواز تھے بغیر مہمان کے کھانے تناول نہ فرماتے اس وقت ایسا اتفاق ہوا کے پندرہ روز سے کوئی مہمانا نہ آیا تھا آپ اس غم میں ان مہمانوں کو دیکھتے ہی آپ نے ان کے لیے کھا نہ لانے میں جلدی کی چونکہ آپ کے یہاں گائے بکثرت تھی اس لیے بچھڑے کا بھونا ہوا گوشت سامنے لایا گیا، (تفسیر خزائن العرفان پ 12 آیت نمبر (29)

( 2مہمان کا اکرام) مہمان کے اکرام کا مطلب یہ ہے کہ خندہ پیشانی سے اس کا خیبر مقدم کیا جائے اگر کھانے کا وقت ہو تو بقدر استطاعت کھانے سے اس کی تواضع کی جائے بلکہ ایک حدیث کی رو سے یہ بھی مہمان کا حق ہے کہ اگر استطاعت ہو تو پہلے دن اس کے لیے خصوصی کھانا تیار کیا جائے جس کو حدیث. میں (جائزہ) کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ (صحیح بخاری عن ابی شریح رضی الله عنه)

البتہ ان تمام باتوں میں محض رسمیات نام و نمور اور تکلفات سے پرہیز کرنا چاہیے- مہمان کے اکرام کا سب سے اول مطلب یہ ہے کہ اس کو محض آرام پہنچانے کی فکر کی جائے ۔ لہذا اگر اسے کھانے سے تکلیف ہو تو محض رسم کی خاطر کھانے پر اصرار کرنا اکرام کے خلاف ہے اس صورت میں اس کا اکرام یہی ہے کہ اس کے آرام اور منشا کو مد نظر رکھا جائے۔

( 3فرمان مصطفے صلی الله عليه وسلم)

اللہ کے محبوب دانائے غیوب نے فرمایا : : مہمان کہ لیے تکلیف نہ کرو کیونکہ اس طرح تم اس سے نفرت کرنے لگو گے اورجو مہمان سے نفرت کرتا ہے۔ واللہ عزوجل سے بغض رکھتا ہے اور جو شخص اللہ جل سے نفرت کرتا ہے اللہ عزوجل اسے ناپسند کرتا ہے (البحر زخار بمسند البراز الحدیث 2513ج6)

فقیر و غنا کے لیے غنا قبول کرنا سنت ہے بعض آسمانی کتابوں میں مذکور ہے کہ ایک میل چل کر مریض کی عیادت کرو دو میل چل کر جنازہ میں شریک ہوں تین مل جل کر دعوت قبول کرو سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر مجھے بکرے کے پائے کی دعوت دی جائے تو میں قبول کروں گا (صحیح بخاری کتاب الباب باب القلیل من الھبھ الحدیث 287ص202)

(4مہمان کی تعظیم ایمان کا تقاضا ) حضرت سیدنا ! ابو ہریرہ ر رضی الله عنه سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله عز وجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ۔اسے چاہیے وہ مہمان کی تعظیم کرے اور جو شخص الله عز وجل اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اورقیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ بھلائی کی۔بات کرے یا خاموش رہے . ) ) بخاری کتاب الادب وباب اکرام الفيف الخ حدیث نمبر 6138)

(5 دوست کو کھانا کھلانے کی برکت ) حضرت سیدنا سلام بن مسكين عليه رحمة الله المتین حضرت سیدنا ثابت سے روایت فرماتے ہیں ایک مرتبہ چند لڑکے لکڑیا کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قریب سے گزرے تو آپ علیہ السلام نے اپنے حواریوں سے فرمایا : و اپسی پر ان میں ایک لڑکا ہلاک ہو جائے گا جب ان کی واپسی ہوئی تو سب سلامت تھے اور کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا تھا حواریوں نے عرض کی یا نبی علیہ السلام اپ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا تھا کہ ان میں سے ایک لڑکا ہلاک ہو جائے گا لیکن اس سب بالکل سلامت ہیں فرمایا ان لڑکوں کو میرے پاس بلاؤ جب وہ حاضر خدمت ہوئے تو اپ علیہ السلام نے فرمایا اپنے سروں سے لکڑیوں کے گٹے اتار دو سب نے لکڑیاں نیچے اتار دی فرمایا اب انہیں کھولو جب اکٹھے کھولے گئے تو اس میں سے ایک گٹے میں ایک بہت خوفناک مردہ اژدھا ایک کانٹے سے الجھا ہوا تھا آپ علیہ السلام نے اس لڑکے سے پوچھا تم نے کون سی بڑی نیکی کی ہے اس نے عرض کی میں نے اج کوئی بڑی نیکی نہیں کی ہاں اتنا ضرور ہے کہ اج ہمارے دوستوں میں سے ایک دوست اپنے ساتھ کھانا نہیں لایا تھا تو میں نے اس سے اپنے ساتھ کھانے میں شریک کر لیا لڑکے کے بعد سن کر اپ علیہ السلام زبان سے فرما رہے تھے بس اتنی سی نیکی کی وجہ سے آج تو ہلاک ہونے سے محفوظ رہا۔ (عیون الحکایات جلد دوم مترجم ص335،336 )


پیارے پیارے اسلامی بھائیو دین اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کی بنیاد تقاضوں میں شامل کیا گیا ہے)  حدیث پاک میں ہے کہ ہمارے اقا مولا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (من کان یؤمن باللہ والیوم الاخرفلیکرم ضیفا) یعنی جو اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کیا کرے ) (سبحن اللہ)

دیکھیےکیسی پیاری بات ہے رسول ذیشان مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ کر ذکر فرمایا ) گویا یہ بتا دیا کہ مہمان کی عزت کرنا مسلمان کی اچھے انداز میں خاطر داری کرنا ایمان کا بنیادی تقاضہ ہے جو مسلمان ہے جو بندہ اللہ پاک پر ایمان رکھتا ہے قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے اخلاق میں بنیادی بات شامل ہونا ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کیا کریں)

(مہمان کی عزت و تکریم کرنا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے واقف اجنبی فقیر اور غنی کا فرق کےبغیر مطلقا مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامتوں میں سے ایک علامت قرار دیا ہے(عربی کاترجمہ) ابو شریح العدوی سے مروی ہے-

میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے- جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے۔ جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے - اور جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھر-یعنی پہلے دن خوب اعزاز و کرام کے ساتھ تکریم کرے- کسی پوچھا- یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیا ہےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک دن رات (مہمان کا خصوص) اعزاز و اکرام کرنا مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہےاور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے اور جو شخص اللہ پر اور اخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہےاسے چاہیے کہ وہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے ۔ ( دارالبشائر السلامیتہ بیروت الطبعتہ-1409- 1989 صفحہ-259)

مہمان نوازی کے آداب: حدیث پاک میں ہےکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اذاجاءکم الزائرفاکرموہ جب تمہارے پاس کوئی مہمان ائے تو اس کی تکریم کرو(مسندالفردوس جلد 2 صفحہ432حدیث3896)

یہاں دیکھیں ہمیں حکم دیا گیا کہ مہمان کی تکریم کرو اس کی عزت کرو اب اس عزت کا کیا مطلب ہےوہ کون کون سے کام ہیں جو ہم اپنے مہمان کے لیے کریں گے تو اسے مہمان کی تکریم کہا جائے گا اس تعلق سے قران کریم میں ایک عظیم مہمان نواز کی بے مثال مہمان نوازی کو بیان کیا گیا ہے۔ ( مکارم الاخلاق للخرائطی -باب ماجاءفی اکرام الضیف. الخ جلد 2صفحہ 156 حدیث330(مہمان گناہ بخشواجاتا ہے)

سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے - جب کوئی مہمان کسی کے یہاں اتا ہے تو اپنا رزق لے کر اتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(سبحان اللہ)

کیا شان ہے: بعض دفعہ لوگ مہمان کو دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں ایسوں کو مطمئن رہنا چاہیے کہ مہمان جب آتا ہے تو آپنا رزق لے کر اتا ہے جب جاتا ہے تو صاحب کانہ کے گناہ بخشواجاتا ہے۔

دعا کرتےہیں کہ اللہ تعالی ہم سب کو مہمان کی مہمان نوازی کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور مہمان کی عزت اور ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائےاور مہمان کی اچھی طرح خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین آمین ثم آمین جزاک اللہ خیرا


دین اسلام ایک پاک اور منزہ مذہب ہے اس میں ہر ایک کی عزت اور حقوق کا خاص خیال رکھا جاتا ہے چاہے وہ حقوق دینی لحاظ سے ہوں یا دنیاوی لحاظ سے ہوں۔ہر ایک کو اس کے منسب کے و عہدے کے لحاظ سے اسکا حق دیا جاتا ہے انہیں حقوق میں سے ایک حق مہمان کا حق بھی ہے جسے دین اسلام نے ایک احسن انداز میں بیان کیا ہے۔

آئیے مہمان کے حقوق کے بارے میں 5احادیث مبارکہ پڑھیے اور پر عمل کرنے کی بھی نیت کرلیجئے ۔

(1) گھر کے دروازے تک جائے۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد:6,حدیث نمبر:4258)

(2) مہمان کا اکرام کرے۔ صحیح بخاری و مسلم میں ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے، کہ رسول الله صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جو شخص اللہ (عز وجل) اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کا اکرام کرے اور جو شخص اللہ (عز وجل) اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ اپنے پڑوسی کو ایذا نہ دے اور جو شخص اللہ (عزوجل) اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے ، وہ بھلی بات بولے یا چپ رہے۔(صحیح مسلم، كتاب الإيمان باب الحث على إكرام الجار إلخ،الحديث : 77(38) ، ص44)

(3) مہمان کی خاطر تواضع (عاجزی) کرنا۔ حضرت سیدنا ابوہریرہ رَضِی اللهُ تَعَالَى عَنْہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صَلَّی اللَّهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: “ جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو اذیت نہ دے اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کی خاطر تواضع کرے اور جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(کتاب:فيضان رياض الصالحین جلد:3,حدیث نمبر:308)

(4) مہمان کی تعظیم کرنا : حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهُ سے ہی روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ

مہمان کی تعظیم کرے، جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اپنے رشتہ دار سے صلہ رحمی کرے، جو شخص اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے تو وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔(کتاب:فيضان رياض الصالحین جلد:3,حدیث نمبر:314)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے مہمانوں کے حقوق ادا کرتے ہوئے انکا ادب احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

مہمان نوازی ایمان کی علامت اور انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عظیم ہے:مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہٗ یعنی جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ ( بخآری حدیث 6019 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے ایک وصف مہمان نوازی بھی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود مہمانوں کی خدمت کرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرض لے کر بھی مہمان نوازی کی ہے۔

حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ علیہ السلام نے مجھے ایک یہودی سے ادھار غلّہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے رَہْن کے بغیر آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زِرہ گروی رکھ کر ادھار غلّہ لیا۔ ( مسند البزار ج 9 حدیث: 3863 )

مہمان نوازی کی فضیلت پر احادیث:

(1)فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ ( ابن ماجہ حدیث: 3356 )

(2)نبیّ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ ( کشف الخفاء حدیث:1641 )

(3)فرمان مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ آدمی جب اللہ پاک کی رضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے۔ جو پورے ایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے یعنی مہمان نوازی کرنے والے کے لئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہےکہ اس کو جنت کی پاکیزہ غذائیں، ”جنۃ الخلد“ اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنزالعمال ؛ حدیث: 25878)

مہمانوں کے حقوق:

مندرجہ ذیل چیزیں مہمانوں کے حقوق میں شامل ہیں:

مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔

مہمان کے ساتھ بات چیت کرنا اس کو پیار محبت دینا۔

اس کی عزت کرنا اور اس سے احترام کے ساتھ پیش آنا۔

اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا۔

اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا۔

مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا۔

مہمان نوازی کے فوائد:

مہمان نوازی کے بہت سے فوائد بھی ہیں۔ جیسا کہ مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔

مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

مہمان نوازی اور ہمارا معاشرہ: افسوس کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں مہمان نوازی کی قدریں اور ثقافت دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ گھر میں مہمان کی آمد اور اس کے قیام کو زحمت سمجھا جانے لگا ہے جبکہ مہمان اللہ پاک کی رحمت ہوتا ہے۔ ایسے حالات میں مہمانوں کے لئے گھروں کے دستر خوان سکڑ گئے ہیں۔

ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے۔ جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وبال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے۔ حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دین اسلام میں مہمان نوازی کو بہت اہمیت دی گئی ہے اچھا یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کہ بنیادی تقاضوں میں شامل کیا گیا ہے حدیث پاک میں ہے ہمارے اقا و مولا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا

حدیث :

جو اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے ( بخآری کتاب الادب الخ ص 1500 حدیث نمبر 6018 )

اس حدیث میں رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑ کر ذکر فرمایا گویا یہ بتا دیا کہ مہمان کی عزت کرنا مہمان کے اچھے انداز میں خاطرداری کرنا ایمان کا بنیادی تقاضا ہے جو بندہ اللہ پاک پر ایمان رکھتا ہے قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس کے اخلاق میں یہ بنیادی بات شامل ہونا ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کیا کریے

اسی طرح ایک حدیث پاک میں مہمان نوازی کو ادمی کے کردار کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا گیا رسول ذیشان مکی مدنی سلطان صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اس بندے میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو مہمان نوازی نہیں کرتا ( مکارم الاخلاق للخراءطی باب ما جاء فی اکرام الضیف جلد 2 ص 155 حدیث 329 )

اس حدیث پاک کی شرح میں یہ بتایا گیا ہے کہ آدمی کی اچھائی اور برائی اس کے شر اور اس کی بھلائی کا معیار مہمان نوازی ہے جو مہمان نواز ہے مہمان کی عزت کرتا ہے مہمان کو راحت و آرام پہنچاتا ہے مہمان گھر ائے تو خوشی سے کھل اٹھتا ہے وہ ادمی بہت اچھا ہے اس کے کردار میں اس کے اخلاق میں اس کے سیرت و ذات میں بھلائی ہے اور مہمان کے تمام حقوق کو ادا کر لیا جو بندہ مہمان کی عزت نہیں کرتا مہمان گھر ا جائے تو اس کا چہرہ مرجھا جاتا ہے دل ہی دل میں پریشان ہو جاتا ہے مہمان کی اچھی میزبانی نہیں کرتا ایسے ادمی کے اخلاقوں کردار اور اس کی ذات میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔

مہمان نوازی پر ایک واقعہ :

ایک مرتبہ پیارے اقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کہیں تشریف لے جا رہے تھے راستے میں ایک امیر شخص کے قریب سے گزر ہوا اس شخص کے پاس کافی سارے اونٹ اور بکریاں تھیں اس کے باوجود اس شخص نے رسول اکرم نور مجسم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی مہمان نوازی نہ کی پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ایک ایک صحابیہ کے گھر کے قریب سے گزرے یہ صحابیہ رضی اللہ عنہا زیادہ امیر نہیں تھی ان کے پاس چند اور چھوٹی چھوٹی بکریاں ہی تھیں انہوں نے جب رسول خدا احمد مجتبیٰ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو دیکھا تو خوش ہو گئی اپنی قسمت پر ناز کرنے لگی کہ واہ کیا شان ہے معراج کے دولہا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم آج اس غریب کے گھر تشریف لائے ہیں چنانچہ ان صحابیہ نے جلدی سے ایک بکری کو ذبح کروایا اور اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی خوش دلی سے مہمان نوازی کرنے کی سعادت پائی جب یہ معاملہ ہوا تو اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ایک طرف وہ شخص ہے اس کے پاس اونٹوں اور بکریوں کے ریوڑ ہیں مگر اس نے ہماری میں مہمان نوازی نہ کی دوسری طرف یہ خاتون ہے اس کے پاس چند چھوٹی چھوٹی بکریاں ہی ہیں مگر اس کا دل بڑا ہے اس نے ہماری اچھی مہمان نوازی کی ہے پھر اپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا یہ اچھے اخلاق ہیں جو اللہ پاک کے قبضے میں ہیں اللہ پاک جسے چاہتا ہے اچھے اخلاق سے نواز دیتا ہے اس واقعے سے معلوم ہوا کہ مہمان نوازی ایک بہت اچھا اخلاق ہے ۔

حدیث :ایک اور حدیث میں اپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے پاس کوئی مہمان ائے تو اس کی تکریم کرو ( مکارم الاخلاق للخراءطی باب ما جاء فی اکرام الضیف الخ جلد 2 ص 156 حدیث 330)

اس حدیث پاک میں ہمیں حکم دیا گیا کہ مہمان کی تقریم کرو اس کی عزت کرو اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ جب گھر مہمان ائے تو جلد از جلد اس کی میزبانی کریں مہمان کو پانی پیش کریں چائے بنوائیں کھانا بنوائیں جیسا موقع ہو جیسا مہمان ہو جیسا موسم چل رہا ہو اس کے مطابق جلد از جلد میزبانی میں لگ جائیں اس سے مہمان کے تمام حقوق ادا ہو جائیں گے

اللہ پاک ہمیں مہمان کی مہمان نوازی اس کے حقوق کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

پیارے پیارے بھائیو آج ہم مہمان کے حقوق کے بارے میں سنے گے اللہ تعالٰی مجھ اچھی طرح بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے  کوئی بھی اچھی خصلت یا روایت ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں اسلام نے ہمیں تعلیم نہ دی ہو دنیا کی تمام تہذیبوں اور ثقافتوں میں جو اچھی عادات ہیں اوررسم رواج ہیں اسلام میں ان کے بارے میں تعلمیات موجود ہیں ۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھاہیو جہاں اسلام  نے دیگر چیزوں  کے حقوق کا خیال رکھا وہی مہمان کے حقوق  کو تفصیل سے بیان فرمایا  :اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ وَ لَوْ كَانَ بِهِمْ ترجمہ کنزالعرفان:اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو۔(پ28، س حشر،آیت نمبر 9)

اس آیت مبارکہ میں ایک عظیم شان مہمان نوازی کی طرف اشارہ ہے حضرت طلحہ انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کےاہل وعیال کو خود  کھانے  کی خواہش تھی  مگر  وہی کھانا  مہمان کو پیش کردیا    تو قرآن نے اس فعل کی تعریف بیان کی۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھاہیو ہمیں بھی چاہئے کے ہم  اپنی ذات پر مہمانوں کو ترجیح دے میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں (مہمان  کے آداب و حقوق )

حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ترجمہ :جب تمہارے پاس کوئی مہمان آئے اس کی تکریم کرو ۔ (مکارم الا خلاق للخراہطی باب ماجاءفی اکرام الفیف الخ  جلد ہی 2 صفحہ 156 حدیث 330)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں یہاں ہمیں حکم دیا جاتا ہے کہ  مہمان کی تکریم کرو اس کی عزت کرو یہ اس کا حق ہے میٹھے میٹھے اسلامی بھاہیو مہمان گناہ بخشواجاتا ہے حدیث پاک میں ہےسرکار مدینہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تورزق لےکرآتا ہے کہ اور جب اسکے یہاں سے جاتاہے توصاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (مسند الفردوس جلد 2صفحہ 432حدیث 3896)

مہمان نوازی ایمان کا تقاضا ہے:میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں دین اسلام میں مہمان  نوازی کی اہمیت دی گئ ہے یہاں تک کہ اس نیک عمل کو ایمان کے بنیادی تقاضوں میں شامل کیا ہے حدیث مبارکہ میں ہے کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ترجمہ : جو لوگ اللہ پاک پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے ۔ (بخاری کتاب الادب باب من کان یومن بااللہ الخ صفحہ 1500 حدیث 6018)

سبحن اللہ دیکھے کیسی پیاری بات ہے اور کیسا حق بیان کیا ہے مہمان کا اس حدیث پاک میں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مہمان نوازی کو ایمان کے ساتھ جوڑکرذکر فرمایاگویایہ بتایاکہ مہمان کی عزت کرنااچھے انداز میں خاطر داری کرنا ایمان کا تقاضا ہیں ۔

مہمان جب گھر آئے اسکی عزت کرنا۔

مہمان کے ساتھ گفتگو کرنا

مہمان کو کسی قسم کی تکالیف نہ دینا

مہمان جب جانے لگے اس کو گھر کے دروازے تک ساتھ جانا اور الوداع کہنا

یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لی کرنا یہ تمام کام جو ہے اس میں مہمان کا حق ہے کہ ایسا کیا جائے ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کےوہ ہماری اور ہماری والدین کی مغفرت فرمائے اور ہم کو مہمان نواز بنائے۔ آمین ثم آمین


کائناتی نظام کو رب تعالی نے اس طرح ترتیب دیا ہے کہ اس میں ایک چیز دوسری کی محتاج ہے دوسری چیز کسی تیسری شے کی محتاج ہے اس طرح یہ سارا نظام ایک لڑی بنائے ہوئے ہے۔ اس کی بدولت ہم ایک دوسرے کے نہ صرف محتاج ہیں بلکہ یہی چیز ہم لوگوں میں تعلق بنائے ہوئے ہے۔ کبھی یہی ضرورتیں خود غرضی پیدا کرتیں ہیں اور کبھی ایسا جذبہ متحرکہ پیدا کرتیں ہیں۔ کہ ایک انسان کو سراپا احساس کرنے والا بنا دیتیں ہیں۔جس کی بدولت ہم باقی مخلوق سے ممتاز ہیں محبت و احساس، حسن اخلاق ، قرب خدا اور جذبہ ایثار سے جو چیز سرشار کرتی ہے اسے مہمان نوازی کہتے ہیں۔ ہر عمل کی طرح اس کے بھی اصول و ضوابط ہیں۔ جو اس عظیم کام کو عظمت کی بلندی تک پہنچا دیتے ہیں۔ ذیل میں ہم مہمان کے حقوق کا جائزہ لیتے ہیں۔

مہمان کی عزت و تکریم کرنا! مہمان کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ اس کی عزت و تکریم ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہمان کی عزت و تکریم کو ایمان کی علامت قرار دیا جیسا کہ ابو شرح العدوی سے مروی ہے۔ میرے ان کانوں نے سنا ہے اور میری ان آنکھوں نے دیکھا ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ ارشاد فرما رہے تھے: "جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ہم سایہ کی تکریم کرے۔ اور جو شخص اللہ تعالی پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے مہمان کی جائزہ بھرے ( یعنی پہلے دن خوب اعزاز و اکرام کے ساتھ ) تکریم کرے۔ کسی پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جائزہ کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ایک دن رات ( مہمان کا خصوصی) اعزاز و اکرام کرنا، مہمان نوازی تین دن تین رات تک ہوتی ہے اور جو ان کے بعد ہو وہ صدقہ شمار ہوتی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اس کو چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے ۔ (الادب المفرد، محمد بن اسماعیل البخاری،ص 259 )

مہمان کا استقبال کرنا: مہمان کا سب سے اہم حق ہے کہ اس کا استقبال کیا جائے۔ مہمانوں کا اچھے انداز سےاستقبال کرنے سے دلی سکون حاصل ہوتا ہے اور باہمی پیارو محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ مہمانوں کا استقبال کرنا مستحب قرار دیا گیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آپ نے فرمایا: اس وفد کو خوش آمدید کہا جو شرم اور ندامت کے بغیر آئے۔ (صحیح البخاری، ج 8،ص 41حدیث نمبر6176)

مہمان کو اپنے اور اہل و عیال پر ترجیح دینا: یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ہے کہ ان کو اپنے اہل و عیال پر ترجیح دے۔ یہ مہمان کی حالت کے پیش نظر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مہمان کا حق یہ ہے کہ میزبان اپنی برابر کا اور احوط یہ ہے کہ اپنے سے اعلیٰ کھانا دے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج کے پاس اس کا کھانا منگوانے کے لئے ایک آدمی کو بھیجا۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا کچھ نہیں ہے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کون ہے ؟ جو اس مہمان کو اپنے ساتھ لے جائے یا یہ فرمایا کہ کون ہے ؟ جو اس کی میزبانی کرے؟ ایک انصاری نے عرض کیا کہ میں یا رسول اللہ ) پس وہ اسے اپنی زوجہ کے پاس لے گیا اور اس کو کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خوب خاطر کرنا اس نے کہا ہمارے ہاں تو اپنے لیے ہے تو انصاری نے کہا تم کھانا تو تیار کرو اور چراغ روشن کرو بچے اگر کھانا مانگیں تو انہیں سلا دینا اس نے کھانا تیار کر کے چراغ روشن کیا اور بچوں کو سلا دیا پھر وہ گویا چراغ کو ٹھیک کرنے کے لئے کھڑی ہوئی۔ مگر اس نے بجھا دیا اب وہ دونوں میاں بیوی مہمان کو یہ دکھاتے رہے کہ کھانا کھا رہے ہیں حالانکہ ( در حقیقت) انہوں نے بھوکے رہ کر رات گزاری۔ جب وہ انصاری صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی رات تمہارے کام سے بڑا خوش ہوا پھر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی " ترجمہ! اور وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ خود حاجت مند ہوں اور جو اپنے نفس کی حرص سے بچالیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہوں گے۔" (صحیح البخاری، ج5، ص 34، حدیث نمبر: 3798)

مہمان کو تکلیف دینے سے گریز کرنا: میزبان پر یہ فرض ہے کہ مہمان کی عزت و آبرو کا لحاظ رکھے۔ اسے قولی عملی یا کسی بھی طریقے سے تکلیف دینے سے گریز کرے حتی کہ اس کے سامنے ایسی بات کو بھی بیان نہ کرے جس سے اسے شرمندگی ہو اور کوشش کرے کہ مہمان خوش ہو کر رخصت ہو۔ عبداللہ بن عمر بن عبدالعزیز سے روایت ہے کہ رجاء بن حیوا نے مجھ سے کہا کہ میں نے آپ کے باپ سے زیادہ صاحب مروت آدمی نہیں دیکھا۔ میں نے ایک دفعہ ان کے ہاں رات گزاری۔ چراغ جل رہا تھا اور وہ اچانک بجھ گیا۔ انہوں نے کہا اے رجاء چراغ بجھ گیا ہے۔ غلام بھی ہمارے ساتھ سویا ہوا تھا۔ میں نے عرض کی کیا میں غلام کو جگا دوں۔ تاکہ وہ چراغ درست کر دے ۔ آپ نے فرمایا وہ تو اب سویا ہوا ہے۔ میں نے کہا آپ مجھے اجازت نہیں دیتے کہ میں اسے درست کر دوں۔ آپ نے فرمایا نہیں مہمان سے کام لینا مروت کے خلاف ہے۔ پھر آپ خود اٹھے چراغ کی طرف بڑھے اس میں تیل ڈالا اور سلائی جلائی اور وہ چراغ جلتے گیا۔ پھر واپس اپنی جگہ پر لوٹ آئے اور کہا جب میں اٹھا تو عمر بن عبدالعزیز تھا اب بیٹھ گیا ہوں تب بھی عمر بن عبدالعزیز ہوں ۔ (المعارفۃ و التاریخ،ج 1، ص578)

مہمان کو بنفس نفیس رخصت کرنا:جس طرح مہمان کی آمد پر اسکا اچھی طرح استقبال کرنا چاہیے اسی طرح اس کو رخصت کرتے وقت خود ساتھ چل کر دروازے تک الودع کرنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إن من السنة أن تشيع الضيف إلى باب الدار. ترجمہ: سنت میں سے ہے کہ تم مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک چلو۔(الخرائطی ص 122 حدیث نمبر348)

حضرت ابو سعید القاسم امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے تشریف لے گئے ۔ ابو عبید القاسم فرماتے ہیں کہ جب میں واپسی کے لیے کھڑا ہوا تو آپ بھی میرے ساتھ کھڑے ہو گئے۔ میں نے عرض کیا حضور آپ زحمت نہ فرمائیں تو احمد بن حنبل نے فرمایا: یہ بات مہمان کی تکریم میں سے ہے کہ گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ چلے۔ (سنن الترمذی ، ج 4، ص 178,حدیث نمبر 2395)

اس لیے ہمیں چاہیے کہ نہ صرف ہم مہمان کے حقوق کے بارے میں معلومات حاصل کریں۔ بلکہ عملی زندگی میں ان کا نفوذ بھی کریں۔ تاکہ پرسکون زیست کے سے لطف اندوز ہو سکیں۔


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کی دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔اور مہمان نوازی نہ صرف ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے بلکہ دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کا طریقہ بھی ہے چنانچہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے۔

فرمان مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہے :جس گھر میں مہمان ہو اُس میں خیرو برکت اُونٹ کی کوہان سے گرنے والی چھڑی سے بھی تیز آتی ہے۔ (ابن ماجہ،ج4،ص51، حدیث: 3356)

آئیے مہمان کے 5 حقوق پڑھتے ہیں :

1 :مہمان کی خدمت کرنا: مہمان کی آمد پر اسے خوش آمدید کہے اور اس کی خدمت کرے۔ فرمان مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:مہمان نوازی کرنے والے کو عرش کا سایہ نصیب ہوگا۔(تمہید الفرش،ص18)

2: تنگ دلی کا مظاہرہ نہ کرنا: مہمان آئے تو اُس کی خدمت میں تنگ دِلی کا مُظاہَرہ نہ کرے کہ فرمانِ مصطَفٰےصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّمہے:جب کسی کے یہاں مہمان آتا ہے تو اپنا رِزْق لے کر آتا ہے اور جب اُس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحِبِِ خانہ کے گُناہ بخشے جانے کا سبب ہوتاہے۔(کنزالعمال، جز9، ج5،ص107،حدیث:25831)

3 :مہمان کے ساتھ کھانا : جب مہمان کَم ہوں توميزبان كو چاہئے کہ مہمانوں کے ساتھ مل کر کھانا کھائے۔ حکمت: اِس سے اُن کی دل جوئی ہو گی۔قُوتُ الْقُلوب میں ہے: جو شخص اپنے بھائیوں کے ساتھ کھاتا ہے اُس سے حساب نہ ہو گا۔( قوت القلوب،ج2،ص 306)

4 :مہمان کا احترام کرنا : میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے ساتھ عزت واحترام سے پیش آئے ۔چنا نچہ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کہ جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4243 )

5 :مہمان کو الوداع کرنا : جب مہمان رخصت ہو تو اسے اچھے طریقے سے الوداع کہے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :یہ سنت سے ہے انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔ (ابن ماجہ)

اسی طرح جب مہمان جانے کی اجازت مانگے تو میزبان اُسے روکنے کے لئے اِصرار نہ کرے۔ حکمت: ہو سکتا ہے مہمان کوئی ضَروری کام چھوڑ کر آیا ہو، زبردستی روک لینے کی صورت میں اُس کا نقصان ہوسکتا ہے۔حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمدبن سِیْرین رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتےہیں:اپنے بھائی کا اِحتِرام اِس طرح نہ کرو کہ اُسے بُرا معلوم ہو۔ (بستان العارفین، ص61)