اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا فرمان عظیم ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔  (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مہمان کا احترام (اکرام) یہ ہے کہ اسے خندہ پیشانی (یعنی مسکراتے چہرے) سے ملے، اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے۔ (مراۃ المناجیح، 6/118)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی کرنا آدابِ اسلام اور انبیاء و صالحین کی سنت ہے۔ (شرح النووی علی المسلم، 2/18)

نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مہمان کسی مہمان کے یہاں آ تا ہے تو اپنا رزق لےکر آ تاہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمان کے حقوق: کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے، جب تک مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے دسترخوان نہ اٹھایا جائے، مختلف قسم کے کھانے ہوں تو عمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھا لے، مہمان کے سامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مروت کے خلاف ہے اور ضرورت سے زیادہ کھانا رکھنا بناوٹ و ریاکاری ہے، کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائے کیونکہ طبی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مفید ہے۔


فرمان نبوی ﷺ: اس شخص کے پاس خیر و برکت نہیں جس میں مہمان نوازی نہیں۔ (مسند امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)

حضور ﷺ سے پوچھا گیا: ایمان کیا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ کھانا کھلانا اور سلام کرنا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 652)

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس گھر میں مہمان داخل نہیں ہوتے اس گھر میں فرشتے بھی داخل نہیں ہوتے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص652)

مہمان کی فضیلت اور کھانا کھلانے کے بارے میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں نبی اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ اگر مجھے گائے یا بکری کی پتلی سی پنڈلی کی بھی دعوت دی جائے تو میں قبول کر لوں کا اور اگر مجھے جانور کا دست ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کر لوں گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2567)

مہمان کے حقوق:

(1)کھانا حاضر کرنے میں جلدی کی جائے۔

(2)کھانے میں اگر پھل بھی ہوں تو پہلے پھل پیش کئے جائیں کیونکہ طِبّی لحاظ سے ان کا پہلے کھانا زیادہ مُوافِق ہے۔

(3)مختلف اقسام کے کھانے ہوں تو عُمدہ اور لذیذ کھانا پہلے پیش کیا جائے، تاکہ کھانے والوں میں سے جو چاہے اسی سے کھالے۔

(4)جب تک کہ مہمان کھانے سے ہاتھ نہ روک لے تب تک دسترخوان نہ اُٹھایاجائے۔

(5)مہمانوں کےسامنے اتنا کھانا رکھا جائے جو انہیں کافی ہو کیونکہ کفایت سے کم کھانا رکھنا مُرَوَّت کے خلاف ہےاور ضَرورت سے زیادہ رکھنا بناوٹ و دِکْھلاوا ہے۔

اور یہ بھی مناسب ہے کہ اس شخص کو دعوت دے جس کے متعلق معلوم ہو کہ وہ اسے قبول کر لے گا۔


ایک انسان کے دوسرے انسان پر بے شمار حقوق ہیں ان حقوق کو ہی حقوق العباد کہتے ہیں۔ حقوق العباد کا مطلب ہے وہ وہ تمام تمام کام جو بندوں کو ایک دوسرے کیلئے کرنے ضروری ہیں ان حقوق کو پورا کرنا انسان کے ذمہ ہوتا ہے ہمسایوں کے حقوق رشتہ داروں کے حقوق اسی طرح مہمانوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں میزبان کو چاہیے کہ ان کے حقوق کا خاص خیال رکھے۔

مہمان نوازی پر احادیث مبارکہ:

فرمانِ مصطفیٰ ہے: آدمی جب الله پاک کی رضا کیلئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو الله پاک اس کے گھر میں دس فرشتے بھیجتا ہے۔ جو پورے ایک سال تک اللہ ہاں کی تسبیح اور تکبیر پڑھتے اور اس بندے کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو فرشتے کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اوراللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے کہ اسے جنت کی پاک غذائیں جنت الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں سے کھلائے۔(کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)

فرمایا: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہے جتنی تیزی سے اونٹ کی کو ہان تک چھری پہنچتی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ کسی مسلمان کی مہمان نوازی کرنے والا بھی الله پاک کی رحمت و فضل سے خالی نہیں رہتا یہ الله پاک کا اپنے بندوں پر احسان ہے کہ وہ مختلف طریقوں سے بندوں کو اپنی رحمت سے نوازتا ہے اور اسے ان کی مغفرت کا ذریعہ بناتا ہے۔

مہمانوں کے حقوق: مہمانوں کے بے شمار حقوق ہیں ان میں سے کچھ بیان کیے جاتے ہیں: مہمان جب گھر میں داخل ہو تو اچھے طریقے سے اس کا استقبال کیا جائے۔ اپنی حیثیت کے مطابق اُسے کھانا کھلائے، مہمان کو بھی چاہیے کہ یہ نہ کہے کہ اس سے اچھا تو میں اپنے گھر میں کھا لیتا تھا۔ نیز میزبان اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھے میزبان مہمان کی پسند کا خیال رکھے۔ مہمان کے حقوق میں ایک حق یہ بھی ہے کے میزبان مہمان کی اچھی رہائش کا انتظام کرے۔ اسی طرح میزبان کو چاہیے کہ وقت نکال کر مہمان کے پاس بیٹھے اور چپ کر کے نہ بیٹھا رہے بلکہ اس آنے والے سے باتیں کرتا رہے۔ میزبان کھانا رکھ کر غائب نہ ہو جائے بلکہ مہمان کے پاس بیٹھا رہے تاکہ اس کو کسی چیز کی ضرورت نہ رہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں مہمانوں کے تمام حقوق اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے، مہمانوں کے ساتھ ساتھ تمام مسلمانوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مہمانوں کی خاطر داری کرنا میزبان کا فرض ہے کیونکہ مہمان الله پاک کی رحمت ہوتے ہیں ان سے گھر میں برکت آتی ہے ان کی میزبانی کرنا سنت ہے، رسول اللہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔(کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمان نوازی کے متعلق واقعہ: ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ دوستوں کو گھر میں دعوت دیتا رہتا ہے اور مہمانداری میں وہ تھک جاتی ہے ان کی مہمانداری میں کھانا بنا بنا کر۔ رسول الله ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا اور وہ عورت چلی گئی۔ پھر کچھ دیر بعد رسول کریم ﷺ نے اس عورت کے شوہر کو بلوایا اور فرمایا آج میں تمہارا مہمان ہوں۔ وہ آدمی بہت خوش ہوا اور گھر جا کر اپنی بیوی کو بتایا کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے آج مہمان ہیں اس کی بیوی بھی بے حد خوش ہوئی اور وقت لگا کر محنت کرکے اپنے معزز مہمان کے لیے کھانا تیار کیا، اس پرتکلف دعوت کے بعد رسول کریم ﷺ نے اس شخص سے کہا کہ اس اپنی بیوی سے کہنا کہ اس دروازے کو دیکھتی رہے جس سے میں جاؤں گا تو اس کی بیوی نے ایسا ہی کیا اور دیکھتی رہی کہ کس طرح رسول اللہ ﷺ اس کے گھر سے نکلتے ہیں، آپ ﷺ کے پیچھے بہت سے حشرات، بچھو اور بہت سے مہلک حشرات بھی گھر سے باہر نکل گئے اور یہ منظر دیکھ کر وہ عورت بے ہوش ہوگئی اور جب ہوش آیا تو آپ ﷺ کے پاس آئی آپ نے فرمایا کہ جب تمہارے گھر سے مہمان جاتا ہے تو ہر طرح کے مشکلات اور آزمائشیں اور مہلک امراض گھر سے باہر لے جاتا ہے اور یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ تم محنت کر کے اسکی خدمت مدارت کرتی ہو جس گھر میں مہمان آتے جاتے رہتے ہیں اللہ اس گھر سے محبت کرتا ہے اس گھر سے بہتر کیا ہو کے جو ہر چھوٹے بڑے کیلئے کھلا ر ہے۔ ایسے گھر پر اللہ کی خاص رحمتیں اور بخشش نازل ہوتی رہتی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب الله کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اسے نوازتا ہے انہوں نے پوچھا کس انعام سے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: مہمان اپنا نصیب خود لے کر آتا ہے جاتے ہوئے گھر والوں کے گناہ اپنے ساتھ لے جاتا ہے، (تنبیہات، ص 180)

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اسی طرح دوڑتی ہے جیسے اونٹ کے کوہان پر چھری، بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

چھری اونٹ کے کوہان پر رکھ دیں تو فوراً لڑھک کر نیچے کی طرف آجاتا ہے مہمان کی وجہ سے خیر و برکت اس سے بھی تیزی سے نازل ہوتی ہے مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مہمان نوازی کرنا آدابِ اسلام اور انبیا و صالحین کی سنت ہے۔


آج ہمارے معاشرے میں مہمانوں کی آمد پر میزبان کا بہت بد دلی سے مہمان نوازی کرنا ہماری آخرت کی بربادی بھی بن سکتا یہ سب دین سے دوری کی بناء پر ہے اگر ہم علم دین سیکھیں مہمان نوازی کے حقوق سیکھیں تو ہم کبھی بھی مہمان کو برا بھلا یا نا پسند نہ کریں مہمان نوازی کرنے کا خود حضور ﷺ نے کثیر احادیث مبارکہ میں حکم دیا۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت کرے اور جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اچھی بات زبان سے نکالے ورنہ خاموش رہے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

2۔ آدمی کا اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جانا مسنون ہے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

3۔ ایک بستر آدمی کے لیے، ایک اس کی اہلیہ کے لیے، تیسرا مہمان کے لیے اور چوتھا (اگر ہو تو وہ) شیطان کے لیے ہے۔ (مسلم، ص 889، حديث:2084)

4۔ضیافت کا حق تین دن ہے، اس کے بعد مہمان جو کچھ پائے گا، وہ اس کے لیے صدقہ ہوگا۔(بخاری، 4/105، حدیث: 6019)

5۔ مہمان کی ایک رات (مہمان نوازی کرنا) واجب ہے۔ اگر مہمان صبح تک اس کے گھر رہا (اور اس نے مہمانی نہ کی) تو یہ اس (صاحب خانہ) پر قرض ہے۔ مہمان چاہے تو اس کا مطالبہ (کر کے وصول) کر لے، چاہے تو چھوڑ دے۔


حقوق العباد کا معنیٰ اور اہمیت: حقوق جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں فرد یا جماعت کا ضروری حصہ جبکہ حقوقُ العباد کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ تمام کام جوبندوں کو ایک دوسرے کے لئے کرنے ضروری ہیں۔ ان حقوق کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ ان کی حق تلفی کی صورت میں اللہ نے یہی ضابطہ مقرر فرمایا ہے کہ جب تک وہ بندہ معاف نہ کرے معاف نہ ہوں گے۔ ان حقوق میں مہمانوں کے حقوق بھی شامل ہیں۔ اسلام میں مہمان نوازی کو ایک اعلی مقام حاصل ہے یہاں تک کہ ان حقوق کو ایمان کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ آقا جان ﷺ کا فرمان دلنشین ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

آئیے اب مہمانوازی کی فضیلت کے بارے میں تھوڑا جانتے ہیں تاکہ مہمانوں کے حقوق صحیح انداز میں ادا کرنے کا جذبہ ملے۔

مہمان نوازی کی فضیلت پر احادیث:

(1) جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اس تیزی سے اُترتی ہےجتنی تیزی سے اونٹ کی کوہان تک چُھری پہنچتی ہے۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

(2) جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمانوں کے بہت سے حقوق ہیں چند یہاں بیان کئے جا رہے ہیں۔

مہمانوں کے حقوق:

1۔خوشی کا اظہار: مہمان کا پہلا حق تو یہ ہے کہ اس کے آنے پر میزبان خوشی کا اظہار کرے اور جوش بھرے انداز میں اپنی حیثیت کے مطابق اس کا استقبال کرے۔

2۔عزت دینا: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو عزت دے۔ اسکا احترام کرے اسے آرام دہ جگہ پر بٹھائے اور اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آئے۔

3۔مہمان سے بات چیت کرنا: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کو تنہا نہ چھوڑے بلکہ اسکے ساتھ بات چیت کرے تاکہ وہ اجنبیت یا اکیلا پن محسوس نا کرے۔

4۔اچھا کھانا کھلانا: میزبان کو چاہیے کہ اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کو اچھا کھانا کھلائے۔خود اسکے برتن میں کھانا ڈال کر دے لیکن اسے بار بار زیادہ کھانے پر مجبور نہ کرے کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مہمان میزبان کے کہنے پر زیادہ کھا لے اور بیمار ہو جائے اور جب تک مہمان کھانا نہ کھا لے دسترخوان نہ اٹھائے۔

5۔اچھے بستر کا انتظام: اگر مہمان میزبان کے گھر رات گزارے تو میزبان کو چاہیے کہ اسکے لیے موسم کی مناسبت سے اچھے صاف ستھرے اور آرام دہ بستر کا انتظام کرے تاکہ مہمان سکون سے رات گزار سکے اور اسے کوئی تکلیف پیش نہ آئے۔

6۔ذاتی معاملات میں دخل اندازی: میزبان کو چاہیے کہ مہمان کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ دے۔

7۔دروازے تک رخصت کرنا: مہمان کا ایک حق یہ بھی ہے کہ میزبان اسے دروازے تک رخصت کرنے جائے اسے ڈھیروں دعائیں دے کر رخصت کرے۔ فی امان اللہ کہے اور اسے دوبارہ آنے کی دعوت بھی دے۔

مہمان نوازی کے فوائد: مہمان نوازی سے معاشرے میں محبت اور بھائی چارہ کو فروغ ملتا ہے۔ جب ہم اپنے مہمانوں کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں گے تو وہ بھی ہمارے ساتھ عزت و احترام والا سلوک کریں گے۔ مہمان نوازی سے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملتی ہے۔ جب ہم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو مہمان کے طور پر اپنے گھر میں بلاتے ہیں تو اس سے ہمارے رشتے مضبوط ہوتے ہیں۔ مہمان نوازی سے معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ ملتا ہے۔ مل جل کر بیٹھنا، پاکیزہ گفتگو کرنا اور اکٹھے ہو کر محبت بھرے انداز میں کھانا کھانا۔ یہ سب معاشرے میں مثبت ماحول کو فروغ دینے میں مدد کرتے ہیں۔

خلاصہ کلام: لہذا ان سب باتوں سے پتا چلا کہ مہمانوں کے حقوق کیا ہیں،اسلام میں ان کی کیا اہمیت و فضیلت ہے اور یقینا ان سب باتوں سے مہمان نوازی کا جذبہ بھی بڑھتا ہو گا۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے اور مہمانوں کے حقوق کو اچھی طرح ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


(1) نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ مہمان کی عزت کرے۔  (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

(2) سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ ہے کہ مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائیں۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

(3) جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ مہمان کی عزت کرے ایک رات اس کا جائزہ ہے اور تین دن کے بعد صدقہ ہے مہمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے کہ اسے حرج میں ڈال دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

(4) مہمان کے آنے کے بعد اس کی خیریت معلوم کرے۔ اچھے لوگ مہمانوں کے کھانے پینے پر مسرت کا اظہار کرتے ہیں مہمان کو زحمت نہیں رحمت سمجھتے ہیں۔

(5) مہمان کا خندہ پیشانی سے استقبال کرے مہمان کی رہائش کا انتظام کرے کہ اس کو کوئی تکلیف نہ پہنچے۔


اسلام کی تعلیمات میں مہمان نوازی کو ایک بنیادی وصف اور اعلی خلق کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ دنیا کے دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام مہمانوں کے حقوق کی زیادہ تعلیم و ترغیب دیتا ہے۔ کھانا پیش کرنا تو ایک ادنیٰ پہلو ہے۔ اسلام نے مہمان کے قیام و طعام کے ساتھ اس کی چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کی دیکھ بھال، بے لوث خدمت اور خاطر تواضع اور اس کے جذبات کے خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔

سب سے پہلے مہمان نوازی کرنے والے: روایت ہے حضرت یحیی ابن سعید سے انہوں نے سعید ابن مسیب کو فرماتے سنا کہ رحمن کے خلیل ابراہیم لوگوں میں پہلے وہ ہیں جنہوں نے مہمانوں کی مہمانی کی۔ (مراۃ المناجیح، 6/329)

اس طرح کہ آپ سے پہلے کسی نے مہمان نوازی کا اتنا اہتمام نہ کیا جتنا آپ نے کیا آپ تو بغیر مہمان کھانا ہی نہ کھاتے تھے۔

1۔ مہمان کے حقوق میں سے پہلا حق اس کا احترام ہے اور اس سے مراد مہمان کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملنا ہے اس کے لیے کھانے اور دوسری خدمات کا انتظام کرے حتی الامکان اپنے ہاتھ سے اس کی خدمت کرے بعض حضرات خود مہمان کے آگے دسترخوان بچھاتے اور اس کے ہاتھ دھلاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو اللہ تعالیٰ اور آخری دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا احترام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

2۔ مہمان کے حقوق میں سے دوسرا حق یہ ہے کہ اس کی آمد پر اسے خوش آمدید کرنا اور اس کا اپنی حیثیت کے مطابق پرتپاک استقبال کرنا۔ اس کی عزت کرنا اس کے ساتھ احترام کے ساتھ پیش آنا اس کو اچھا کھانا کھلانا اور اچھی رہائش فراہم کرنا۔

3۔ مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی مہمانی کر کے اس سے کوئی جزا یا شکریہ نہ چاہنا۔ فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: آدمی جب اللہ پاک کی رِضا کے لئے اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ پاک اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورےایک سال تک اللہ پاک کی تسبیح و تہلیل اورتکبیر پڑھتےاور اس بندے (یعنی مہمان نوازی کرنے والے)کے لئے مغفِرت کی دُعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہوجاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامۂ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ پاک کے ذمّۂ کرم پر ہےکہ اس کو جنّت کی پاکیزہ غذائیں، جَنّۃُ الْخُلْداور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔ (کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)

4۔ اس کی حفاظت کرنا اور سلامتی کا خیال رکھنا اس کے ذاتی معاملات میں دخل اندازی نہ کرنا یہ بھی مہمان کے حقوق میں سے ایک حق ہے۔

5۔ مہمان کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ مہمان کو جانے سے پہلے الوداع کرنا اور اس کو دوبارہ آنے کی دعوت دینا اور اس کو الوداع کرتے وقت دروازے تک چھوڑ کر آنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ سنت سے ہے کہ انسان اپنے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان ملاقاتی کو دروازے تک پہنچانے میں اس کا احترام ہے، پڑوسیوں کا اطمینان کہ وہ جان لیں گے کہ ان کا دوست عزیز آیا ہے کوئی اجنبی نہ آیا تھا۔ (مرقات)اس میں اور بہت حکمتیں ہیں آنے والے کی کبھی محبت میں کھڑا ہوجانا بھی سنت ہے۔

آخر میں اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں مہمانوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور صحیح معنوں میں ہمیں ان کے حقوق کو ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


فرمان نبوی ہے کہ اس شخص کے پاس خیر و برکت نہیں جس میں مہمان نوازی نہیں۔ (مسند امام احمد، 2/142، حدیث: 17424)

مہمان کی فضیلت اور کھانا کھلانے کے بارے میں حدیث پاک ملاحظہ ہو، چنانچہ حضور ﷺ سے حج مبرور کے متعلق پو چھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: کھانا کھلانا اور شیر یں گفتاری۔ (معجم اوسط، 5/74، حدیث: 6618)

مہمان کی تلاش کے لئے نکل جایا کرتے: حضرت ابراہیم علیہ السّلام جب کھانا کھانے کا ارادہ فرماتے تو میل دو میل مہمان کی تلاش میں نکل جایا کرتے تھے آپ کی کنیت ابو الضیفان تھی اور آپ کی صدق نیت کی وجہ سے آج تک ان کی جاری کردہ ضیافت موجود ہے، کوئی رات نہ گزرتی مگر آپ کے ہاں تین سے لے کر 10 اور 100 کے درمیان جماعت کھانا نہ کھاتی ہو۔

مہمان کی فضیلت پر شاعر نے کیا خوب کہا: میں مہمان کو کیوں نہ محبوب سمجھوں اور اس کی خوشی سے راحت محسوس کیوں نہ کروں! کہ وہ میرے پاس اپنا رزق کھاتا ہے اور اس پر میرا شکریہ ادا کرتا ہے۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: نیک کے کھانے کے علاوہ کسی کا کھانا نہ کھاؤ اور نیک پرہیزگار کو کھلانے کے علاوہ کسی کو نہ کھلاؤ۔

دعوت قبول کرنا سنت موکدہ ہے، نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اگر مجھے گائیں یا بکری کی پتلی سی پنڈلی کی بھی دعوت دی جائے تو میں اسے قبول کر لوں گا اور اگر مجھے جانور کا دست ہدیہ کیا جائے تو میں قبول کر لوں گا۔ (بخاری، 2/ 166، حدیث: 2567)

میزبانی کے آداب:

کھانا پیش کرنے میں جلدی کریں کیونکہ مہمان کی تعظیم و خاطر میں شمار ہے اس میں اکرام بھی ہے اور اس میں اکرامِ ضیف کا حکم بھی ہے کہ شاید وہ بھوکا ہو اور اسے کھانے کی ضرورت ہو۔

حاتم اصم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جلد بازی کا کام شیطان کا ہے، لیکن پانچ چیزوں میں جلدی کرنا سنت ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہمان کے لیے کھانا لانے میں جلدی کرنی چاہیے۔

کھانا دسترخوان پر بقدر ضرورت لائیں کہ ضرورت سے کم لانا بخل میں داخل ہے۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے، مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا میرے آقا کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی اپنے پیارے حبیب ﷺ کے گھر کا مہمان بنائے اور ہمیں مہمانوں کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرمائے اور بار بار ہمیں میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں مدنی آقا ﷺ کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین 

مہمان کسے کہتے ہیں؟ کسی کے ہاں فیاضت یا دعوت میں عارضی قیام کے لیے آنے والا شخص، وہ شخص جو عارضی قیام کے لیے کسی کے گھر یا مہمان خانے میں آکر اترے اسے مہمان کہتے ہیں۔

مہمان نوازی خیر و برکت ہے: تاجدار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں مہمان ہوں اس گھر میں خیر و برکت اس طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

پیاری اسلامی بہنوں! اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی۔

مہمان کے حقوق:

مہمان کے ساتھ تواضع اور تکریم سے پیش آنا چاہیے۔

مہمان کی خدمت بذات خود اپنے ہاتھوں سے کریں۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: مہمان کے حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جاتے وقت صاحب خانہ کم از کم گھر کے دروازے تک اس کے ساتھ جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان کی عزت کی جائے۔

مہمان کا اچھے سے استقبال کیا۔

پیاری بہنو! سنا آپ نے کہ مہمان کے ساتھ تواضع اور تکریم سے پیش آنا چاہیے جیسا کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو مہمان کی خاطر تواضع کرے اس کا جائزہ ایک دن اور ایک رات ہے اور فیاضت تین دن تک ہے اور اس کے بعد صدقہ ہے اور اس کے لیے یہ جائز نہیں کہ یہ اس کے یہاں ٹھہرا رہے اسے حرج میں ڈال دے۔ (بخاری، 4/136، حدیث: 6135)

سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان ہے: جب کو ئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمان کی آؤ بھگت کرنا اس کی دلجوئی کرنا اور اس کو کھلانا پلانا سب سنت ہے اور اس کے بارے میں بہت سے فضائل وارد ہیں، مثلاً مہمان کی آمد پر 10 لاکھ رحمتیں اور 10 لاکھ برکتیں آتی ہیں۔ خدمت کرنے والے کی قبر 70 ہزار فراخ(کھلی) ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں بھی حضرت لوط حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا ذکر ہے۔ حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا واقعہ سورہ ذاریات اور حضرت لوط کا واقعہ سورہ حجر میں بیان ہوا ہے۔

پیاری بہنو! حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت ہی مہمان نواز تھے اس وقت تک کھانا تناول نہیں فرماتے جب تک کسی مہمان کو شریک نہ کر لیتے ایک بار دو تین دن گزر گئے کوئی مہمان نہ ملا چند روز یونہی گزرے تھے کہ اللہ کے فرشتے حاضر ہوئے آپ علیہ السلام چونکہ مہمان کے منتظر تھے اس طرف توجہ ہی نہیں رہی کہ یہ فرشتے ہیں کھاتے پیتے نہیں آپ نے ایک بچھڑا ذبح کر کے بھون کر ان کے سامنے رکھا جب ان کے معزز مہمان نے کھانے کی طرف رغبت نہ دی تو اس وقت آپ کی اس طرف توجہ آئی کہ یہ فرشتے ہیں۔ سبحان اللہ! یہ تھا ہمارے نبیوں کا طریقہ۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا بھی سنت ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔(ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

اے ہمارے پیارے اللہ! ہمیں مہمان کی خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں پیارے آقا ﷺ کا مہمان بننے کے ساتھ سعادت نصیب فرما۔ آمین


پیارے آقا ﷺ نے فرمایا: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہئے کہ مہمان کا اکرام کرے۔  (بخاری، 4/105، حدیث: 6018) حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ایک بار بارگاہ رسالت میں ایک مہمان حاضر ہوا، آپ نے ایک یہودی سے ادھار غلہ لینے کیلئے بھیجا مگر یہودی نے آٹا نہ دیا تو آپ نے اپنی زرہ گروی رکھ کر ادھار غلہ لیا۔(مسند البزار، 9/315، حدیث: 3863ملخصاً)

مہمان باعث خیر و برکت ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ کا فرمایا: بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیر و برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)پیاری پیاری اسلامی بہنو! بیان کردہ حدیث میں اونٹ کی کوہان کی مثال دی گئی، چونکہ اونٹ کی کوہان میں ہڈی نہیں ہوتی چربی ہی ہوتی ہے لہٰذا اسے چھری بہت ہی جلد کاٹتی ہے اور اس کی تہہ تک پہنچ جاتی ہے اس لیے اس سے تشبیہ دی گئی۔

مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشنے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

مہمان باعث رحمت: دس فرشتے سال بھر تک گھر میں رحمت بناتے ہیں۔ سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: آدمی جب اپنے بھائی کی مہمان نوازی کرتا ہے اور اس کی کوئی جزا اور شکریہ نہیں چاہتا تو اللہ اس کے گھر میں دس فرشتوں کو بھیج دیتا ہے جو پورے ایک سال تک اللہ کی تسبیح و تہلیل اور تکبیر پڑھتے اور اس کیلئے مغفرت کی دعا کرتے رہتے ہیں اور جب سال پورا ہو جاتا ہے تو ان فرشتوں کی پورے سال کی عبادت کے برابر اس کے نامہ اعمال میں عبادت لکھ دی جاتی ہے اور اللہ کے ذمہ کرم پر ہے کہ اس کو جنت کی لذیذ غذائیں جنۃ الخلد اور نہ فنا ہونے والی بادشاہی میں کھلائے۔(کنز العمال، جز9، 5/110، حدیث:25878)

سبحٰن اللہ! کسی کے گھر مہمان تو کیا آتا ہے گویا اللہ کی رحمت کی چھماچھم برسات شروع ہو جاتی ہے اس قدر اجر و ثواب الله الله! ایک وہ دور تھا کہ جب لوگ مہمان کی آمد کو باعث برکت سمجھتے اور مہمان نوازی میں ایک، دوسرے سے سبقت لے جانے کے لئے بے تاب نظر آتے تھے جبکہ آج کے دور میں مہمان کو وہال جان سمجھ کر مہمان نوازی سے دامن چھڑاتے ہیں۔ اگر کسی کی مہمان نوازی کرتے بھی ہیں تو اس سے دنیوی مفاد اور غرض وابستہ ہوتا ہے حالانکہ مہمان نوازی بہت بڑی سعادت اور فضیلت کا باعث ہے۔

اللہ پاک ہمیں مہمان نوازی کے آداب کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


مہمان نوازی کرنا سنتِ مبارکہ ہے، احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا ﷺ کا فرمان ہے: جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے تو اسے چاہیے کہ مہمان کا اکرام کرے۔ (بخاری، 4/105، حدیث: 6018)

مہمان باعث خیر و برکت ہے: حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ تاجدارِ مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس گھر میں مہمان ہو اس گھر میں خیرو برکت اسی طرح تیزی سے دوڑتی ہے جیسے اونٹ کی کوہان پر چھری، بلکہ اس سے بھی تیز۔ (ابن ماجہ، 4/51، حدیث: 3356)

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا سنت ہے: نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سنت یہ ہے کہ آدمی مہمان کو دروازے تک رخصت کرنے جائے۔ (ابن ماجہ، 4/52، حدیث: 3358)

مہمان میزبان کے گناہ معاف ہونے کا سبب ہوتا ہے: سرکار مدینہ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے: جب کوئی مہمان کسی کے یہاں آتا ہے تو اپنا رزق لے کر آتا ہے اور جب اس کے یہاں سے جاتا ہے تو صاحب خانہ کے گناہ بخشے جانے کا سبب ہوتا ہے۔ (کشف الخفاء، 2/33، حدیث: 1641)

اے ہمارے پیارے اللہ! ہمیں خوش دلی کے ساتھ مہمان نوازی کی توفیق عطا فرما اور بار بار میٹھے میٹھے مدینے کی مہکی مہکی فضاؤں میں میٹھے میٹھے مدنی آقا ﷺ کا مہمان بننے کی سعادت نصیب فرما۔ آمین بجاہ النبی الامین