یقیناً اللہ پاک کےہر کام میں ہزار ہا حکمتیں ہوتی ہے جو ہمیں پتہ نہیں ہوتیں۔کبھی کبھار تو اللہ پاک مصیبتیں نازل فرما کر اپنے بندوں کو آزماتا ہے اور جب وہ صبر کرتے ہیں تو اُن کے  گناہوں کو مٹاتا اور درجات کو بلند فرماتا ہے۔لہٰذا ہم پر بھی جو مصیبتیں آتی ہیں ہمارے ہی بھلے اور بہتری کے لیے آتی ہے اگر چہ ہمیں اس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی۔چنانچہ ایک روایت ہےکہ آقاﷺ نے فرمایا :اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)ایک اور حدیثِ مبارک میں ہے کہ نبیِ کریمﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

سبحان اللہ!اس حدیثِ مبارک میں بیان کیا گیا ہے کہ اگر کسی مسلمان کو معمولی سی مصیبت بھی در پیش آ جائے گی تو اللہ اس کا ایک گناہ مٹا دے گا۔لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس حدیثِ پاک پر عمل کرتے ہوئے مصیبت کے وقت صبر کا مظاہرہ کرے کیونکہ ہر مصیبت کے ساتھ آسانی بھی ہوتی ہیں جیسا کہ قرآنِ پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًاۙ(۵) (پ30 ،الانشراح:5)ترجمہ :توبے شک دشواری کے ساتھ آسانی ہے ۔

بعض اوقات تو مصیبتیں ہمارے بُرے اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔چنانچہ امیر المومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں تم کو اللہ پاک کی کتاب میں سب سے افضل آیت کی خبر دیتا ہوں جو ہمیں رسول اللہ ﷺ نے بتائی ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

بعض مسلمان مصیبت کے موقع پر معاذ اللہ کفریہ کلمات بول کر ایمان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں ان میں سے ایک مثال تو یہ ہے کہ اگر کسی نے بیماری،بے روزگاری،غربت یا کسی مصیبت کی وجہ سے اللہ پاک پر اعتراض کرتے ہوئے کہا:اے میرے رب! تو مجھ پر کیوں ظلم کرتا ہے؟ حالانکہ میں نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں!تو وہ کافر ہے۔اسی طرح معاذ اللہ اس طرح کہنا کہ اللہ پاک نے ہمیشہ برے لوگوں کا ساتھ دیا ہےیا اللہ پاک نے مجبوروں کو اور پریشان کیا ہےتو یہ سب کلماتِ کفر ہیں۔اللہ پاک ہمیں مصیبت کے وقت صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اہلِ علم اور دین داروں کا کہنا ہے کہ مصیبتیں خدا کے حکم سے بہت سی حکمتوں کے پیشِ نظر آتی ہیں۔چنانچہ

1. ایک حکمت مصیبتوں میں لوگوں کا امتحان مقصود ہوتا ہے کہ صبر کرتے ہیں یا بے صبری۔

2. ایک حکمت نیک بندوں کے کردار و عمل کو سامنے لانا ہوتا ہے تاکہ عام لوگ ان کے حسنِ عمل کی پیروی کریں۔

3. ایک حکمت نیک بندوں کے مراتب و درجات کی بلندی ہوتی ہے۔

4. ایک حکمت گناہگاروں کو تنبیہ اور نصیحت ہوتی ہے کہ وہ گناہوں سے باز آ جائیں اور زندگی کی مہلت سے فائدہ اٹھائیں۔

5. ایک حکمت گناہوں کی سزا ہے اور ان گناہوں میں سب سے بڑھ کر بے حیائی ، بدکاری اور بے شرمی ہے۔

دوسری طرف آزاد خیال ، دین بیزار ،مغربی فلسفے کے اسیر اور خود کو عقلِ کُل سمجھنے والے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے قلموں کو تیر بنا کر اہلِ ایمان کے دلوں کو چھلنی کرنے اور مسلمانوں کے دین و ایمان کا شکار کرنے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔طرح طرح سے ان باتوں کا مذاق اڑانے ، عذابِ الٰہی پر مزاحیہ جملے کسنے کے لئے کمر کَس لیتے ہیں۔بہرحال مسلمان کی حیثیت سے ہم مسلمانوں کی تسلی کے لئے مسلمانوں کے قرآن اور احادیث سے دلائل پیش کرتے ہیں کہ مصیبتوں کے اسباب کیا ہوتے ہیں:

بعض مصیبتیں بعض وجوہات کی بنا پر بھی آتی ہیں اور یہ وجوہات بھی لوحِ محفوظ میں لکھی ہوئی ہیں،ان وجوہات میں سے ایک وجہ گناہ کرنا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کا ایک سبب ان کا اللہ پاک کی نافرمانی اور گناہ کرنا ہے۔اگر یہ اللہ پاک کی اطاعت کرتے رہیں تو مصیبتوں سے بچ سکتے ہیں۔

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:بندے کو جو چھوٹی یا بڑی مصیبت پہنچتی ہے وہ کسی گناہ کی وجہ سے پہنچتی ہے اور جو گناہ اللہ پاک معاف فرما دیتا ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہوتے ہیں۔( ترمذی ،5/169 ، حدیث:3263)

مصیبتوں کے ذریعے درجات میں بلندی :

دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر اُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔اُن تکلیفوں کو اللہ پاک اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔جیسا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،تاجدارِ رسالت ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

امام محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہِ علیہ کی زوجہ پھسل گئیں تو ان کا ناخن ٹوٹ گیا،اس پر وہ ہنس پڑیں ،ان سے پوچھا گیا کہ کیا آپ کو درد نہیں ہو رہا؟انہوں نے فرمایا:اس کے ثواب کی لذت نے میرے دل سے درد کی تلخی کو زائل کر دیا ہے۔(احیاء العلوم، 4/90)

جب مصیبت پہنچے تو اسی وقت صبر و اِستِقلال سے کام لیا جائے، جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:صبر صدمہ کی ابتداء میں ہوتاہے۔

(بخاری،1/433، حدیث:1283)

صبر کی سب سے بہترین صورت یہ ہے کہ مصیبت زدہ پر مصیبت کے آثار ظاہر نہ ہوں جیسا کہ مسلم شریف میں ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا کے بطن سے حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا ایک لڑکا فوت ہو گیا۔حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں سے کہا:حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بیٹے کے انتقال کی خبر اس وقت تک نہ دینا جب تک میں خود انہیں نہ بتا دوں۔جب حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ آئے تو حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے انہیں شام کا کھانا پیش کیا،انہوں نے کھانا کھایا اور پانی پیا،پھر حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھا بناؤ سنگھار کیا۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے ان سے ازدواجی عمل کیا۔جب حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ وہ سیر ہو گئے اور اپنی فطری خواہش بھی پوری کر لی ہے تو پھر انہوں نے کہا:اے ابو طلحہ! یہ بتائیں کہ اگر کچھ لوگ کسی کو عاریت کے طور پر کوئی چیز دیں پھر وہ اپنی چیز واپس لے لیں تو کیا وہ ان کو منع کر سکتے ہیں ؟ حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا :نہیں۔حضرت ام سُلَیم رضی اللہ عنہا نے کہا:تو پھر آپ اپنے بیٹے کے متعلق یہی گمان کر لیں (کہ وہ ہمارے پاس اللہ پاک کی امانت تھا جو اس نے واپس لے لی یعنی اس کا انتقال ہو چکا ہے۔) (مسلم، ص1333،حدیث:2144)

حضرت مطرف رحمۃ اللہ علیہ کا بیٹا فوت ہوگیا۔لوگوں نے انہیں بڑا خوش و خرم دیکھا تو کہا کہ کیا بات ہے کہ آپ غمزدہ ہونے کی بجائے خوش نظر آرہے ہیں؟ فرمایا:جب مجھے اس صدمے پر صبر کی وجہ سے اللہ پاک کی طرف سے درود و رحمت اور ہدایت کی بشارت ہے تو میں خوش ہوں یا غمگین؟

(مختصرمنہاج القاصدین، ص277۲۷۷)

اللہ پاک قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌۙ-قَالُوْۤا اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَؕ(۱۵۶) (پ2،ا لبقرۃ:156)ترجمہ:جب ان پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں ہم اللہ کے مال ہیں اور ہم کو اسی کی طرف پھرنا۔

اس آیت میں یہ بتایاگیا کہ صبر کرنے والے وہ لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں:ہم اللہ ہی کے مملوک اور اسی کے بندے ہیں وہ ہمارے ساتھ جو چاہے کرے اور آخرت میں ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(تفسیر جلالین، ص22) کثیر احادیث میں مسلمانوں پر مصیبت آنے کا جو ثواب بیان کیا گیا ہے ان میں سے چند احادیث درج ذیل ہیں:

1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)

2۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:مسلمان مرد و عورت کے جان و مال اور اولاد میں ہمیشہ مصیبت رہتی ہے، یہاں تک کہ وہ اللہ سے اس حال میں ملتا ہےکہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔(ترمذی ، 4 / 179، حدیث:2407)

3۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش! دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی ،4/180،حدیث:2410)

یاد رہے! بندے کو پہنچنے والی ہر مصیبت ا س کی تقدیر میں لکھی ہوئی ہے۔ ہر مصیبت اللہ پاک کے حکم سے ہی پہنچتی ہے جیسا کہ ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-(پ28،التغابن:10)ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر مصیبت اللہ کے حکم سے ہی پہنچتی ہے۔

مصیبت آنے پر کون سی دعا پڑھنی چاہیے ؟

1۔ایک مرتبہ نبیِ اکرم ﷺ کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَپڑھا۔عرض کی گئی:کیا یہ بھی مصیبت ہے ؟ ارشاد فرمایا:ہاں ! اور ہر وہ چیزجو مومن کو اَذِیَّت دے وہ اس کے لئے مصیبت ہے اور اس پر اجر ہے۔(تفسیردر منثور،1 /380)

2۔ایک اور حدیث شریف میں ہے:مصیبت کے وقت اِنَّا لِلّٰهِ وَ اِنَّاۤ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَپڑھنا رحمت ِالٰہی کا سبب ہوتا ہے۔(کنز العمال،2/122، الجزء الثالث، حدیث:6646)

لہٰذا جس پر کوئی مصیبت آئے تواسے چاہئے کہ وہ اس بات پر یقین رکھے کہ یہ مصیبت ا س کے نصیب میں لکھی ہوئی تھی اور ا س بات پر غور کرے کہ کہیں اس سے کوئی ایسا گناہ صادر نہ ہو ا ہو جس کے نتیجے میں ا س پر یہ مصیبت آئی!نیزاللہ پاک سے یہ امید رکھے کہ وہ اس مصیبت کے سبب اس کے گناہ مٹا دے اور اس کے درجات بلند فرما دے۔ایسا کرنے سے ذہن کو سکون نصیب ہو گا،دل کو تسلی حاصل ہو گی اور مصیبت پر صبر کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


فرمانِ مصطفیٰ ﷺ ہے :اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔( بخاری 4/4، حدیث 5645)ہر وہ ناپسندیدہ چیز جو انسان کو آزمائش میں ڈالے وہ مصیبت ہے۔مصیبت  سےاولاد،بیماریوں اورمال کی صورت میں پہنچنےوالی آزمائش بھی مراد ہے یعنی بندے کو کبھی بیماری،کبھی اولاد اور کبھی مال کے ذریعے آزمایا جاتا ہے،یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہتا ہے اور بندہ اللہ پاک کی بارگاہ میں گناہوں سے پاک ہوکر حاضری دیتا ہےیہاں تک کہ قرب پا چُکا ہوتا ہے۔

نزول ِ مصائب کی پہلی وجہ مومن بندے کی آزمائش ہوتی ہے۔اللہ پاک کی ذات علام الغیوب ہے لیکن وہ اہلِ دنیا پر واضح کرنے کے لئے کہ اس کا بندہ مصیبت آنے پر صبر کرتا ہے یا بے صبری کا مظاہرہ کرتا ہے،مختلف طریقوں سے آزماتا رہتا ہے۔ارشادِ باری ہے :وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-(پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے۔

دوسرا سبب مسلمان کے گناہوں کا کفارہ ہے۔اللہ پاک مصیبت میں مبتلا فرماکر گناہوں کا بدلہ دنیا میں ہی دے کرآخرت کی سزا سے بچا لیتا ہے،چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی ِکریم ﷺ کا فرمان نقل کرتے ہیں:مومن کو کانٹاچبھےبلکہ اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اللہ پاک اس کے گناہ ایسے جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت سے پتے جھڑتے ہیں۔

( بخاری،4/5 ،حدیث:5648بتغیر قلیل)

تیسرا سبب نیک اور متقی لوگوں کے درجات کو بلند کرنا ہے۔انبیائے کرام علیہم السلام اور بزرگانِ دین کی سیرت پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی میں بڑے کٹھن حالات اور دشوار گزار مراحل آئے۔چنانچہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد منقول ہے:سب سے زیادہ مصیبتیں انبیائے کرام علیہم السلام پر آئیں،پھر ان کے بعد جولو گ بہتر ہیں پھر ان کے بعد جوبہتر ہیں۔

(ابن ماجہ،4/369، حدیث:4023)

ان جلیل القدر شخصیات کے اللہ پاک کے مقرب و محبوب ہونے کے باوجود ان پر تکالیف اس لئے آئیں تاکہ اللہ پاک انہیں اپنے ہاں مزید بلندیِ درجات سے نوازے۔

نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:جب اللہ پاک کی طرف سے کسی بندے کے لیے کوئی درجہ مقدر ہوچکا ہو جہاں تک یہ اپنے عمل سے نہیں پہنچ سکتاتو اللہ پاک اسے اس کے جسم یا مال یا اولاد کی آفت میں مبتلا کردیتا ہے، پھر اسے اس پر صبر بھی دیتا ہے حتی کہ وہ اس درجے تک پہنچ جاتا ہے جو اللہ پاک کی طرف سے اس کے لیے مقدر ہوچکا۔( ابوداؤد،3/246،حدیث:3090)

چوتھا سبب غافل انسان کو خبردار کرنا ہے۔اللہ پاک بندے سے غفلت کی چادر کو اتارنے اور اسے اپنی بندگی اور اطاعت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اس پر مصائب اتارتا ہے۔چنانچہ فرمانِ باری ہے:وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱)(پ21،السجدۃ:21)ترجمۂ کنزُ العِرفان:اور ضرور ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے قریب کا عذاب چکھائیں گے(جسے دیکھنے والا کہے) امید ہے کہ یہ لوگ باز آجائیں گے۔

زندگی کی الجھنوں،مشقتوں اور مصیبتوں کا آخری اور عمومی سبب انسان کی بد عملی،فسق و فجور،خدا کی حکم عدولی اورشریعت کے احکام سے روگردانی ہے۔اللہ پاک جب گناہوں کی وجہ سے اپنے بندے پر ناراض ہوتاہے تو اس پر اپنی رحمت کے دروازے بند کر دیتا ہے اور اس کی زندگی سے راحت و سکون ختم کر دیتا ہے جس کی علامت یہ ہوتی ہے کہ مسرت و شادمانی کے تمام اسباب و وسائل کے ہوتے ہوئے بھی دل بے چین رہتا ہے۔خلاق ِ عالم نے اپنے مقدس کلام میں بارہا اس حقیقت کو آشکار کیا ہے۔ارشادِ خداوندی ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزالعرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا وَّ نَحْشُرُهٗ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ اَعْمٰى(۱۲۴)(پ16،طہ:124)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور جس نے میرے ذکر سے منہ پھیرا تو بیشک اس کے لیے تنگ زندگی ہے اور ہم اسے قیامت کے دن اندھا اٹھائیں گے۔

قرآن ِ کریم میں گزشتہ ہلاک شدہ اقوام و امم کا متعدد مقامات پر تذکرہ ہے،اس کا سبب بھی ان کی سرکشی، نافرمانی اور وقت کے نبی کی تعلیمات سے انحراف کو بیان کیا گیا ہے۔نبیِ کریم ﷺ نے بھی اپنے ارشادات میں مختلف گناہوں کو مختلف مصیبتوں کے نازل ہونے کا سبب بتایا ہے۔چنانچہ

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے:اے مہاجرین کے گروہ! جب تم پانچ باتوں میں مبتلا کر دئیے جاؤ (تو اس وقت تمہاری کیا حالت ہو گی) اور میں اللہ پاک سے پناہ طلب کرتا ہوں کہ تم انہیں پاؤ۔(1)جب کسی قوم میں اعلانیہ فحاشی عام ہو جائے گی تو ان میں طاعون اور ایسی بیماریاں ظاہر ہو جائیں گی جو ان سے پہلوں میں کبھی ظاہر نہ ہوئی تھیں(جیسے آج کل ایڈز، Aidsوغیرہ)(2) جب لوگ ناپ تول میں کمی کرنے لگ جائیں گے تو قحط سالی، شدید تنگی اور بادشاہ کے ظلم کا شکار ہوجائیں گے۔(3)جب زکوٰۃ کی ادائیگی چھوڑ دیں گے تو آسمان سے بارش روک دی جائے گی اور اگر چوپائے نہ ہوتے تو ان پر کبھی بارش نہ برستی۔(4)جب لوگ اللہ پاک اور اس کے رسول کا عہد توڑنے لگیں گے تو اللہ پاک ان پر دشمن مسلط کر دے گا جو ان کا مال وغیرہ سب کچھ چھین لے گا۔(5)جب حکمران اللہ پاک کے قانون کو چھوڑ کر دوسرا قانون اور اللہ پاک کے احکام میں سے کچھ لینے اور کچھ چھوڑنے لگ جائیں گے تو اللہ پاک ان کے درمیان لڑائی جھگڑا ڈال دے گا۔(ابن ماجہ، 4 /367،حدیث:4019)

مسائل کے حل اوردورکرنے کے سلسلہ میں شریعت نے تین کام کرنے کی ترغیب دی ہے جو غم کو ہلکا کرنے اور دل کی تسلی میں معاون و مددگار ثابت ہوتے ہیں:(1)صبر کیا جائے(2)صلوۃ الحاجت ادا کی جائےاور (3)تمام آداب کی رعایت رکھتے ہوئے خوب عاجزی اور انکساری سے دعا مانگی جائے۔پھر بھی اگر مصیبت دور نہ ہو تو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اللہ پاک نے اس کا اجر آخرت کے لئے ذخیرہ کر لیا ہے یا چھوٹی مصیبت دے کر بڑی مصیبت سے بچا لیا ہے۔چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو آرام و سکون والے تمنا کریں گے:کاش!دنیا میں ان کی کھالیں قینچیوں سے کاٹ دی گئی ہوتیں۔(ترمذی،4 /180،حدیث:2410)

اللہ پاک ہمیں نفسِ امّارہ کے وار اور شیطان سے محفوظ رکھے،قربِ مصطفےٰ عطا کرے،ریاکاری سے بچائے، ہمارا خاتمہ ایمان پے ہو،رسول اللہ ﷺ کا دیدار کرتے ہوئے جان نکلے اور اللہ پاک ہم سب کو مدینے پاک کی با ادب حاضریاں نصیب فرمائے۔آمین 


انسان مختلف حالات و واقعات کے زیرِاثر زندگی گزارتا ہے۔کچھ حالات اس کے لیے بہت ہی خوشگوار ثابت ہوتے ہیں اور کچھ نہایت ہی کٹھن۔کٹھن حالات مختلف پریشانیوں اور مشکلات کی صورت میں ہوتے ہیں، مثلاً صحت کے مسائل، جاب نہ ملنا،کاروبار میں بندش،رشتےاورشادی میں رکاوٹ یا گھریلو ناچاقیاں وغیرہ۔انسان ان تمام مصائب سے رہائی تو حاصل کرنا چاہتا ہے مگر عموماً ان کے اسباب کی طرف توجہ نہیں دیتا۔آئیے! اس کے کچھ اسباب ملاحظہ کیجئے:

(1) رب کریم کی طرف سے آزمائش:

اللہ پاک انسان کو مختلف پریشانیوں اور مسائل میں مبتلا فرما کر آزماتا ہے تاکہ کامل ایمان والوں اور فقط زبانی ایمان کے دعویداروں میں فرق ظاہر ہو جائے، جیسا کہ ارشادِ باری ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵) (پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ آزمائش میں اللہ پاک کے فرمانبرداروں کی طرح صبر سے کام لیں۔

(2)درجات کی بلندی یا گناہوں کی بخشش:

مصائب آنے کا سبب مومنین کے درجات بلند فرمانا بھی ہے۔اللہ پاک اپنے محبوب بندوں اور بندیوں پر مصیبت نازل فرما کر ان کے درجات بلند فرماتا ہے یا گناہگاروں کے گناہ معاف فرماتا ہے۔جیسا کہ حدیثِ پاک میں ہے:رسول اللہ ﷺنے فرمایا:مومن کو کوئی کانٹا نہیں چبھتا یا اس سے زیادہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر اللہ پاک اس سے اس کا ایک درجہ بلند کر دیتا ہے یا اس کی بنا پر اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔

(مسلم، ص 1067،حدیث:6562)

انبیائےکرام گناہوں سے معصوم اور متقی و پرہیزگار گناہوں سے محفوظ ہوتے ہیں،ان پر جو مشکلات آئیں اس کا سبب ان کے درجات کی بلندی ہے جبکہ عام مسلمانوں کے یا تو گناہ مٹائے جاتے ہیں یا درجات بلند کیے جاتے ہیں۔

(3)غفلت سے بیداری:

بعض اوقات انسان دنیا کی رنگینیوں میں اس قدر گم ہو جاتا ہے کہ اپنے اُخروی انجام کو بالکل فراموش کر بیٹھتا ہے۔چنانچہ اسے مختلف مسائل میں مبتلا کر کے خبردار کیا جاتا ہے جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے:وَ لَنُذِیْقَنَّهُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰى دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱) (پ21، السجدۃ: 21) ترجمہ کنز الایمان:اور ضرور ہم انہیں چکھائیں گے کچھ نزدیک کا عذاب اس بڑے عذاب سے پہلے جسے دیکھنے والا امید کرے کہ ابھی باز آئیں گے۔

ہمیں چاہئے کہ گناہوں سے بچیں اور آخرت کی زیادہ سے زیادہ تیاری کریں۔

(4)اعمال کی سزا:

مصیبتیں آنے کا ایک اہم سبب انسان کے اعمال ہیں۔جب کوئی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کی پروا نہیں کرتا، شریعت کے اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا یا اسلام سے ہی لاتعلق ہوجاتا ہے تو بعض اوقات اسے اس کے اعمال کے سبب دنیا میں ہی مشکلات اور پریشانیوں میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔چنانچہ ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰) 25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ اللہ پاک کی نافرمانی سے بچیں اور نیک اعمال کرتے ہوئے زندگی گزاریں۔اللہ پاک متقین کے صدقے ہمیں تمام آزمائشوں،مشکلات،مصائب و آلام میں صبرِ جمیل اور صبرِ جمیل پر اجرِ عظیم عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین


دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثر ان کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں۔اللہ پاک ان تکلیفوں کو ان کے گناہوں کا کفارہ کر دیتا ہے اور کبھی مومن پر تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لیے آتی ہے۔ارشادِ باری ہے:وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا عَنْ كَثِیْرٍؕ(۳۰)25،الشوریٰ:30)ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور تمہیں جو مصیبت پہنچی وہ تمہارے ہاتھوں کے کمائے ہوئے اعمال کی وجہ سے ہے اور بہت کچھ تو (اللہ) معاف فرما دیتا ہے۔

اس آیت میں ان مُکَلَّف مومنین سے خطاب ہے جن سے گناہ سرزد ہوتے ہیں اور مراد یہ ہے کہ دنیا میں جو تکلیفیں اور مصیبتیں مومنین کو پہنچتی ہیں اکثراُن کا سبب ان کے گناہ ہوتے ہیں ،اُن تکلیفوں کو اللہ اُن کے گناہوں کا کفارہ کردیتا ہے اور کبھی مومن کی تکلیف اس کے درجات کی بلندی کے لئے ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،9/67)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور ﷺنے ارشاد فرمایا:مسلمان کو پہنچنے والا کوئی دکھ،تکلیف،غم،ملال، تکلیف اور درد ایسا نہیں،خواہ اس کے پیر میں کانٹا ہی چبھے مگر اس کی وجہ سے اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے۔(بخاری،4/3،حدیث:5641-5642)

فرمانِ آخری نبیﷺ:اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے مصیبت میں مبتلا فرما دیتا ہے۔

( بخاری 4/4، حدیث 5645)

وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَّا تَرَكَ عَلَیْهَا مِنْ دَآبَّةٍ وَّ لٰكِنْ یُّؤَخِّرُهُمْ اِلٰۤى اَجَلٍ مُّسَمًّىۚ-فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّ لَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱)(پ14،النحل:61)ترجمۂ کنزُ العِرفان:جو آخرت پر ایمان نہیں لاتے ان کیلئے بری حالت ہے اور اللہ کی سب سے بلندشان ہے اور وہی عزت والا، حکمت والا ہے۔اور اگر اللہ لوگوں کو ان کے ظلم کی بنا پر پکڑ لیتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا لیکن وہ انہیں ایک مقررہ مدت تک مہلت دیتا ہے پھر جب ان کی مدت آجائے گی تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہٹیں گے اور نہ ہی آگے بڑھیں گے۔

تفسیر :اس سے پہلی آیتوں میں اللہ پاک نے کفارِ مکہ کے بہت بڑے کفر اور برے اَقوال کا بیان فرمایا جبکہ اس آیت میں یہ بیان فرمایا کہ اللہ پاک ان کافروں پر جلدی عذاب نازل نہ فرما کر انہیں ڈھیل دیتا ہے تاکہ اس کی رحمت اور اس کے فضل و کرم کا اظہار ہو۔( تفسیرکبیر، 7 /227) چنانچہ فرمایا گیا کہ اگر اللہ پاک لوگوں کو ان کے گناہوں پر پکڑ لیتا اور عذاب میں جلدی فرماتا تو زمین پر کوئی چلنے والا نہ چھوڑتا بلکہ سب کو ہلاک کردیتا۔ایک قول یہ ہے کہ زمین پر چلنے والے سے کافر مراد ہیں۔(تفسیر صراط الجنان،5/339)

یہ اس کا حلم اور حکمت و مصلحت کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی نافرمانیاں دیکھتا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی نعمتیں سلب کرتا ہے نہ فوری مؤاخذہ کرتا ہے حالانکہ ارتکابِ معصیت کے ساتھ ہی وہ مؤاخذہ کرنا شروع کر دے تو ظلم و معصیت اور کفر و شرک اتنا عام ہے کہ روح زمین پر کوئی جاندار باقی نہ رہے کیونکہ جب برائی عام ہو جائے تو پھر عذاب عام میں نیک لوگ بھی ہلاک کر دیے جاتے ہیں تاہم آخرت میں وہ سرخرو رہیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:اے لوگوں!تمہارا رب ارشاد فرماتا ہے:اگر میرے بندے میری اطاعت کریں تو میں انہیں رات میں بارش سے سیراب کروں گا ،دن میں ان پر سورج طلوع کروں گا اور انہیں کڑک کی آواز نہ سناؤں گا۔(مسند امام احمد،3/281،حدیث:8716)اللہ پاک ہمیں اپنی اطاعت میں مصروف رہنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


انسان کی زندگی خوشی وغم کا مجموعہ ہے۔ہر انسان کی زندگی میں جہاں خوشیوں سے بھر پور لمحات آتے ہیں وہی کچھ ایسے بھی لمحات آتے ہیں جو کٹھن ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ میری زندگی میں کبھی کوئی غم،مشکل وقت یا تنگی نہیں آئی یا پھر کوئی خوشی یا آسانی نہیں آئی تو یہ حقیقت کے خلاف ہے،کیونکہ ہر انسان کی زندگی میں اچھا اور بُرا وقت آتا ہے۔خواہشات تو بادشاہوں کی بھی رہ جاتی ہیں۔لہٰذا ہمیں دل بڑا رکھنا چاہیے، اللہ پاک کا شکر کرنے کا کوئی نہ کوئی پہلو ڈھونڈ لینا چاہیے، یوں زندگی آسان ہو جائے گی۔اللہ پاک کی شان یہ ہے کہ وہ اپنے بندے کو مختلف پہلوؤں سےآزماتا ہےلیکن یہ بات یاد رہے کہ بندے کو کوئی حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے رب کو آزمائے۔بندے کاکام ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دے۔وہ جس حال میں بھی رکھے اسی میں راضی رہے اور اس کا شکر ادا کرتارہے۔مصیبتیں آنے کے چند اسباب درج ذیل ہیں :

(1)بعض اوقات خوشی دے کر آزماتا ہے کہ میرا بندہ نعمتیں حاصل کرنے کے بعد بھی عاجزی اختیار کرتا ہے یا متکبر بنتا ہے۔

(2)بعض اوقات غم دے کر آزماتا ہے کہ غم میں بھی میرا بندہ شکر کرتا ہے جیسے خوشی میں شکرکرتا ہے یا نا شکری کرتا ہے۔

(3)بعض اوقات گناہ میں مبتلاانسان پر کوئی مصیبت نازل ہوتی ہے تاکہ اس کے گناہ کا کفارہ ہو جائے۔

(4)بعض اوقات گناہ گار کو خبردار کرنے کیلئے مصیبت نازل ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ گناہ سے باز آجاتا ہے۔

(5)مصیبت اس لئے بھی نازل ہوتی ہے تاکہ درجات بلند ہوں۔

(6)بعض اوقات چھوٹی آزمائش بہت بڑی مصیبت کی دوری کاسبب بنتی ہے۔

(7)انسان جب مشکل میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے۔آزمائش ومصیبت پر صبر کرنے پر اللہ پاک سے انعام واکرام اور اللہ پاک کا قرب پاتا ہے۔

بزرگانِ دین فرماتے ہیں:اگر کسی کو خوشیاں اورنعمتیں ہی نعمتیں مل رہی ہیں تو اس کو غور کرنا چاہیے کہ کہیں اس کی نیکیوں اور اچھے کاموں کا صلہ دنیا میں تو نہیں مل رہا!

بہر حال مسلمان خوشحال ہے تو اللہ پاک کا شکر ادا کرکے اور آزمائش و مصیبت میں مبتلا ہے تو اس پر صبر کر کے ثواب کماتا ہے۔اگر سمجھا جائے تو مسلمان کیلئے گھاٹے کا سودا ہے ہی نہیں۔اللہ پاک قرآنِ عظیم،فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَۙ(۱۵۵)(پ2،البقرۃ:155)ترجمۂ کنز العرفان:اور ہم ضرور تمہیں کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر کے تحت لکھا ہے:آزمائش سے فرمانبردار اور نافرمان کے حال کا ظاہر کرنا مراد ہے۔امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے بقول خوف سے اللہ پاک کا ڈر،بھوک سے رمضان کے روزے، مالوں کی کمی سے زکوٰۃ و صدقات دینا، جانوں کی کمی سے امراض کے ذریعہ اموات ہونا، پھلوں کی کمی سے اولاد کی موت مراد ہے کیونکہ اولاد دل کا پھل ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان،1/250)حدیث میں اولاد کو دل کا پھل کہا گیا ہے۔(ترمذی،2/313،حدیث:1023)اللہ پاک ہمیں تمام آلام ومصائب پر صبرو تحمل نصیب فرمائے۔آمینِ بجاہ النبی الامین ﷺ


موجودہ دور فتنوں اور آزمائشوں کا دور ہے لوگوں کی اکثریت نفس کی خواہش کو پوری کرنے والی ہے اور اپنے مفاد اور تسکین قلب کے لیے ہر قسم کے اقدام کر گزرتے ہیں معاشرتی برائیوں کی ایک طویل فہرست ہے جن میں سے ایک قتل ناحق بھی ہے ناحق قتل کرنا کفر و شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ شمار کیا گیا ہے۔ قتل کی ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد میں سے قابیل نے اپنے بھائی کو قتل کر کے کی۔

قرآن پاک میں بھی قتل ناحق کی مذمت آئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ اسی طرح کثیر احادیث میں بھی اس کا ذکر ہے چند ایک درج ذیل ہیں:

احادیث مبارکہ:

1۔ بڑے گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث:6871)

2۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے شریعت میں قتل عمد(یعنی جان بوجھ کر قتل کرنے)کی سزا دنیا میں فقط قصاص(یعنی قتل کا بدلہ قتل) ہے یعنی یہی مقرر ہے اگر مقتول کے گھر والے معاف کردیں یا قاتل سے مال لے کر صلح کر لیں تو یہ بھی ہو سکتا ہے قاتل اگر توبہ کر لے تو اسکی توبہ قبول ہوگی یا نہیں اسکے متعلق صحابہ کرام کا اختلاف ہے صحیح یہ ہے کہ اس کی توبہ بھی قبول ہو سکتی ہے اور صحیح یہ ہے کہ اس کی مغفرت ہو سکتی ہے اللہ کی مشیت میں ہے۔

قیامت کے دن حقوق العباد میں سب سے پہلے خون کے بارے میں ہی پوچھا جائے گا۔(مسلم، ص711، حدیث: 4381) ایک شخص کو قبرستان میں دفن کیا گیا تو اس کے پاس عذاب کے فرشتے آئے اور کہا تجھے سو کوڑے ماریں گے مردے نے کہا کہ میں تو ایسا اچھا اچھا آدمی تھا تو فرشتوں نے اس کی رعایت کرتے ہوئے دس کوڑوں کی کمی کردی وہ معذرت کرتا رہا اور فرشتے دس کوڑے کم کرتے رہے آخر میں فرشتوں نے کہا ہم ایک کوڑا ضرور ماریں گے جب انہوں نے ایک کوڑا مارا تو قبر میں آگ بھڑک اٹھی مردے نے کہا تم نے مجھے یہ کوڑا کیوں مارا فرشتوں نے کہا تو ایک مظلوم آدمی کے پاس سے گزرا اس نے تجھے مدد کے لیے پکارا مگر تو نے اسکی مدد نہ کی یہ اس کا بدلہ ہے جب مظلوم کی مدد نہ کرنے کا یہ انجام ہے تو خود ظالم کا انجام کتنا برا ہوگا اور خصوصاً وہ ظالم جو کسی کو قتل کر کے حدود الٰہی کو پامال کرنے والا ہو۔

اللہ پاک قاتلوں کو شریعت کے مطابق سچی تونہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، ہمیں اس گناہ کے ارتکاب سے بچائے اور معاشرے سے قتل و غارت کو دور فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


دین اسلام ایک مکمل دین ہے جو انسان کی نہ صرف عائلی و انفرادی زندگی میں رہنمائی کرتا ہے بلکہ اس کی اجتماعی، معاشی اور معاشرتی زندگی میں بھی مکمل ضابطہ حیات پیش کرتا ہے اور تمام مسلمانوں کو انما المؤمنون الاخوة کے دل نشین خطاب سے ایک مربوط اور مضبوط رشتے میں باندھ دیتا ہے لیکن افسوس آج مسلمان ان تعلیمات کو پس پشت ڈال کر ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن گئے ہیں چھوٹی چھوٹی بات پر جان سے مار دینا غنڈا گردی، دہشت گردی،خاندانی لڑائی جائیداد کے تنازعے اور خون بہانا عام سی بات ہو گئی ہے جبکہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ اور حرام ہے۔

قتل ناحق کی مذمت پر درج ذیل قرآنی آیات اور احادیث قابل غور ہیں:

وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ اگر کسی مسلمان کے قتل کو حلال سمجھ کر اس کا قتل کیا تو کفر ہے اور ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اگر قتل کو حرام ہی سمجھا پھر بھی اس کا ارتکاب کیا تب یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص عرصہ دراز تک جہنم میں رہے گا۔

2۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک فرماتا ہے: قَدْ خَسِرَ الَّذِیْنَ قَتَلُـوْۤااَوْلَادَهُمْ (پ8، الانعام: 140) ترجمہ: بے شک وہ لوگ تباہ ہو گئے جو اپنی اولاد کو قتل کرتے ہیں۔ تنگدستی کے خوف سے اولاد کو قتل کرنے والوں کی نسبت ارشاد ہوا کہ ان کے لیے تباہی ہے اللہ پاک انہیں اس فعل سے منع کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ خَشْیَةَ اِمْلَاقٍؕ-نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ اِیَّاكُمْؕ-اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْاً كَبِیْرًا(۳۱) (پ 15، بنی اسرائیل: 31) ترجمہ کنز الایمان: اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو مفلسی کے ڈر سے ہم تمھیں بھی اورانہیں بھی روزی دیں گے بےشک ان کا قتل بڑی خطا ہے۔

احادیث مبارکہ:

1۔ بڑے گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (بخاری، 4/358، حدیث:6871)

2۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے اسلام کی نظر میں انسانی جان کی بہت قدر ہے اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو دامن اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا بد نما دھبہ لگاتے ہیں اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو عقل سلیم عطا فرمائے۔ آمین


خالق کائنات نے انسان کو اپنی عبادت و فرمانبرداری کے لئے پیدا فرمایا انسان کوکسی صورت بھی یہ حق نہیں دیاکہ وہ کسی کی جان کو ناحق نقصان پہنچائے۔ اسلام میں انسانی جان کی حرمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کی مثل قرار دیا گیا۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

یعنی اگرایک ہزار افراد ایک قتل میں شریک ہوجائیں توان میں سے ہرایک قتل کے جرم میں برابر کا شریک ہے اور سب پر تمام لوگوں کے قتل کاگناہ ہوگا۔ (نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص86)

جس طرح قرآن کریم نے فقط ایک انسان کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل ٹھہرایا اسی طرح قتلِ ناحق کے مرتکب شخص کے لئےجہنم اور عذاب جہنم کی سخت وعیدات سنائی ہیں۔

ارشاد ہوتا ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

یعنی کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور کثیر احادیث میں اس کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے۔ (صراط الجنان،2 /277)

قتل ناحق کی مذمت میں احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ بروز قیامت سب سے پہلا فیصلہ: قیامت کے دن سب سے پہلے خونِ ناحق کے بارے میں لوگوں کے درمیان فیصلہ کیا جائے گا۔ (مسلم، ص711، حدیث: 4381)

2۔ قتلِ مؤمن دنیا کی تباہی سے بڑا گناہ: اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کاختم ہو جانا ایک مسلمان کے ظلماًقتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3 / 261، حدیث: 2619)

3۔ قاتل اوندھا جہنم میں: اگر آسمان و زمین والے ایک مرد مومن کے خون میں شریک ہو جائیں تو سب کو ﷲ تعالیٰ جہنم میں اوندھا کر کے ڈال دے گا۔(ترمذی، 3/100، حدیث: 1403)

مذکورہ آیات و احادیث کے ایک مختصر مجموعے سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوتی ہے کہ ایک انسان کی جان کی قیمت و حرمت کتنی زیادہ ہے اور اس معصیت کا مرتکب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو غضبناک کرتا اور ان کی ناراضی کا سبب بنتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالی ہمیں جانِ مسلم کی حرمت سمجھنے اسکی پامالی سے بچنے اور احکاماتِ الٰہیہ کی پیروی کرنے کی توفیق عطا فرما۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


اسلام میں انسانی جان کو بہت حرمت حاصل ہے قرآن و حدیث میں ناحق قتل کی شدید مذمت ہے علاوہ ازیں قانون کی رو سے بھی کسی انسان کا ناحق قتل سنگین جرم ہے ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اگر کوئی شخص اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ اسلامی شریعت کا مجرم ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کا، مقتول کے وارثوں کا اور معاشرے کا بھی مجرم قرار پائے گا۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

قتل ناحق گناہ کبیرہ ہے، سرکار دو عالم ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے: اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا کسی جان کو قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہ ہیں۔ (بخاری، 4/295، حدیث: 6675)

قاتل و مقتول دونوں جہنمی: فرمان مصطفیٰ ﷺ: جب دو مسلمان اپنی تلواروں کے ساتھ باہم ٹکراتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ عرض کی گئی: یا رسول الله! ایک تو قاتل ہے لیکن مقتول کا کیا قصور ہے؟ ارشاد فرمایا: وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے پر حریص ہوتا ہے۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

جنت کی خوشبو: فرمان مصطفیٰ: جو کسی عہد و پیمان والے کو قتل کر دے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگ سکے گا حالانکہ اس کی خوشبو 40 سال کی راہ سے محسوس کی جائے گی۔ (بخاری، 2/ 365، حدیث: 3166)

اللہ پاک کی رحمت سے مایوس: جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہو گا یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 262، حدیث: 2620)

ہلاک کرنے والا امر: حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ناحق حرام خون بہانا ہلاک کرنے والے اُن اُمور میں سے ہے جن سے نکلنے کی کوئی راہ نہیں۔ (بخاری، 4/357، حدیث:6863)

قتل کی جائز صورتیں: قتل کی شدید ممانعت کے ساتھ قرآن و حدیث کی رو سے چند صورتوں کو اسلامی شریعت نے جائز قرار دیا ہے وہ صورتیں یہ ہیں: قاتل کو قصاص میں قتل کرنا جائز ہے۔ زمین میں فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا جائز ہے۔ شادی شدہ مرد یا عورت کو زنا کرنے پر بطورِ حد رجم کرنا۔ مرتد کو قتل کرنا۔ باغی کو قتل کرنا۔

افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہوگیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تَعَصُّب والی لڑائیاں عام ہیں۔ مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، گروپ اور جتھے بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ اللہ پاک ہدایت نصیب فرمائے۔ آمین


کسی مسلمان کو جان بوجھ کر، حلال سمجھ کر، ناحق قتل کیا تو یہ خود کفر ہے اور ایسا شخص ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اور قتل کو حرام سمجھتے ہوئے اس کا ارتکاب کیا تو یہ گناہ کبیرہ ہے اور ایسا شخص مدت دراز تک جہنم میں رہے گا۔ (صراط الجنان، 2/ 277) جبکہ اسکی دنیاوی سزا یہ ہےکہ شریعت میں ناحق قتل عمد ( اسلحہ کیساتھ جان بوجھ کر قتل کرنے) کی سزا دنیا میں فقط قصاص (جان کے بدلے جان) ہی ہے یہی متعین ہے ہاں! اگر اولیائے مقتول معاف کردیں یا قاتل سے دیت کے بدلے صلح کرلیں یہ بھی ہو سکتا ہے۔ (بہار شریعت، 3/752، حصہ: 17)

قرآن کریم میں ناحق قتل کی ممانعت پر کئی آیات موجود ہیں آپ ان میں سے 2 ملاحظہ فرمائیے۔

(1) وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) (پ5، النساء: 93) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔

(2) مَنْ قَتَلَ نَفْسًۢا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَكَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًاؕ- (پ 6، المائدۃ: 32) ترجمہ کنز الایمان: جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فساد کئے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا۔

قتل ناحق کی مذمّت احادیث کی روشنی میں: قتل ناحق سخت ترین کبیرہ گناہ ہے احادیث میں بھی بکثرت اسکی مذمت کی گئی ان میں سے 6 احادیث درج ذیل ہیں:

(1) بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا ہے۔(بخاری، 4/358، حدیث: 6871)

(2) اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہوجائیں تو اللہ پاک سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال ڈے۔ (معجم صغیر، 1/ 205)

(3) جب دو مسلمان اپنی تلواروں سے لڑیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنم میں جائیں گے۔ راوی فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: حضور مقتول کیوں جہنم میں جائے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اس لیے کہ وہ اپنے بھائی کو قتل کرنے پر مُصِر تھا۔ (بخاری، 1/23، حدیث: 31)

(4) جس نے کسی مسلمان کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اس حال میں اللہ پاک کے حضور حاضر ہوگا کہ اسکی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا یہ اللہ پاک کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)

(5) آگ کو 70 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے 69 حصے قتل کا حکم دینے والے کے لیے اور ایک حصہ قاتل کے لیے ہے۔ (شعب الایمان، 4/ 349، حدیث: 5360)

(6) اللہ پاک کے نزدیک دنیا کا ختم ہوجانا ایک مسلمان کے ظلماً قتل سے زیادہ سہل ہے۔ (ابن ماجہ، 3/ 261، حدیث: 2619)

خلاصہ کلام: مذکورہ بالا تمام آیات و احادیث اسلام کی تعلیمات کو واضح کرتی ہیں کہ اسلام کس قدر امن و سلامتی والا مذہب ہے اور اسلام کی نظر میں انسانی جان کی کتنی اہمیت ہے ۔ اس سے ان لوگوں کو عبرت حاصل کرنی چاہیے جو اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈال کر دامن اسلام پر قتل و غارت گری کے حامی ہونے کا داغ لگاتے ہیں اور ان لوگوں کو بھی نصیحت حاصل کرنی چاہیے جو خود کو مسلمان بتا کر بے قصور لوگوں کو ناحق قتل ،خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے موت کی نیند سلا کر یہ گمان کرتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کے لیے بہت بڑا جہاد کردیا، رب کریم ایسوں کو ہدایت دے۔ آمین بجاہ خاتم النبی الامین ﷺ


ہمارے معاشرے میں آج کل جہاں بہت سے فتنے سر اٹھا رہے ہیں وہیں کچھ لوگ ایک دوسرے کو ناحق قتل کرنے جیسے بڑے گناہ میں بھی مبتلا ہیں۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں چاہیے کہ ہم دوسرے مسلمانوں کو اپنی ذات سے کوئی تکلیف نہ دیں۔ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان سے تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس بارے میں یہ حدیث پیش نظر رکھنی چاہیے جیسا کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (1)

مندرجہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح ہوا کہ حقیقی مسلمان وہی ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔

کسی مسلمان کو جان بوجھ کر ناحق قتل کرنا سخت ترین کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُهٗ جَهَنَّمُ خٰلِدًا فِیْهَا وَ غَضِبَ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَ لَعَنَهٗ وَ اَعَدَّ لَهٗ عَذَابًا عَظِیْمًا(۹۳) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کوئی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے کہ مدتوں اس میں رہے اور اللہ نے اس پر غضب کیا اور اس پر لعنت کی اور اس کے لیےتیار رکھا بڑا عذاب۔ (2)

اللہ اکبر! کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرنے کی کتنی سخت سزا ہے کہ اس کا بدلہ جہنم ہے اور اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے اور اس کی لعنت ہے۔

قتل نا حق کی مذمت کثیر احادیث میں بھی بیان کی گئی ہے جن میں سے 5 درج ذیل ہیں:

احادیث مبارکہ:

1۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! بے شک ایک مومن کا قتل کیا جانا اللہ کے نزدیک دنیا کے تباہ ہو جانے سے زیادہ بڑا ہے۔ (3) دیکھا آپ نے کہ ایک مومن کی جان اللہ کے نزدیک کتنی عزت والی اور مرتبے والی ہے۔

2۔ بڑے کبیرہ گناہوں میں سے ایک کسی جان کو ناحق قتل کرنا ہے۔ (4)

3۔ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا قیامت کے دن بڑے خسارے کا شکار ہوگا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر زمین و آسمان والے کسی مسلمان کے قتل پر جمع ہو جائیں تو اللہ تعالی سب کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دے۔ (5)

4۔ ہر گناہ کے بارے میں امید ہے کہ اللہ تعالی بخش دے گا لیکن جو شرک کی حالت میں مر گیا اور جس نے کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر دیا ان دونوں کو نہیں بخشے گا۔ (6)

5۔ جس نے کسی مومن کے قتل پر ایک حرف جتنی بھی مدد کی تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالی کی بارگاہ میں اس حال میں آئے گا کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (7)

اللہ اکبر! ایک مسلمان کو قتل کرنا کتنا سخت اور کبیرہ گناہ ہے۔ مزید یہ کہ کسی مومن کے قتل کرنے والے کے ساتھ اس کی مدد کرنا بھی کتنا بڑا گناہ ہے کہ قیامت کے دن اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھا ہوگا کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہے۔ (ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620)افسوس کہ آج کل قتل کرنا بڑا معمولی کام ہو گیا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں پر جان سے مار دینا، غنڈہ گردی، دہشت گردی، ڈکیتی، خاندانی لڑائی، تعصب پر لڑائیاں عام ہیں۔

مسلمان کا خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے گروپ اور جتھے اور عسکری ونگ بنے ہوئے ہیں جن کا کام ہی قتل و غارت گری کرنا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم ایسے کبیرہ گناہ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باز رہیں اور دوسرے مسلمانوں کی عزت کی حفاظت کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے لوگوں سے محفوظ فرمائےاور ہم سب کو بھائی بھائی بن کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ

حوالہ جات:

1۔بخاری، 1/15، حدیث: 10

2۔پ 5، النساء: 93

3۔ نسائی، ص 652، حدیث: 3992

4۔ بخاری، 4/358، حدیث: 6871

5۔ معجم صغیر، 1/ 205

6۔ مشکاۃ المصابیح، 2/289، حدیث: 3468

7۔ ابن ماجہ، 3/262، حدیث: 2620