ایک مسلمان کی زندگی میں پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی احادیث مبارکہ کی بے انتہا اہمیت ہے کلام اللہ( قرآن مجید) کے بعد کلام رسول (حدیث شریف) کا ہی درجہ ہے ، کوئی بھی کلام اس سے بڑھ نہیں سکتا۔

حدیث مبارک ہی سے انسان کو معرفتِ الہی حاصل ہوتی ہے اور معرفتِ الہی ہی توحید کی اصل ہے، حدیث مبارک ہی مسلمان کو عبادت کا طریقہ سکھاتی ہیں اور عبادات کا شرعی مفہوم بھی احادیث سے ہی ملتا ہے حدیث مبارکہ زندگی کے ہر ہر شعبے میں رہنمائی فرماتی ہیں، خواہ وہ سیاسی شعبہ ہو یا کاروباری خواہ وہ سائنس ہو یا نجی زندگی، دینی معاملات ہوں یا دنیوی۔

ایک مسلمان کی زندگی میں جہاں قرآن کریم دماغ کی حیثیت رکھتا ہے تو وہیں حدیث شریف دل کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ ان دونوں کے بغیر ہی انسان نامکمل ہے۔ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری تعلیمات حکمت سے بھرپور کلمات کے ذریعے امت تک پہنچ رہی ہیں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر اس کی رہنمائی کررہی ہیں۔ پیارے آقا خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر وقت اپنی امت کی خیر خواہی و رہنمائی میں کوشاں رہتے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے (5) فرامین مبارکہ پڑھیے اور عمل کی نیت کیجئے :

(1)...حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ کون سی چیز زیادہ لوگوں کو جنت میں داخل کرتی ہے الله سے ڈر اور اچھی عادت کیا جانتے ہو کہ لوگوں کو آگ میں کون چیز زیادہ لے جاتی ہے دو خالی چیزیں منہ اور شرمگاہ۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

یعنی انسان منہ سے کفر بولتا ہے غیبتیں چغلیاں کرتا ہے،نوے فی صدی گناہ منہ سے ہی ہوتے ہیں،شرمگاہ سے گناہ کرتا ہے جو بدترین گناہ ہے عقل کو مغلوب کرنے والی دین برباد کرنے والی چیز شہوت ہے جس کی جگہ شرمگاہ ہے۔ (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 , حدیث نمبر:4832)

(2)... حضرت سَیِّدُنَا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشاد فرمایا: ’’ تندرستی اورفراغت دو نعمتیں ایسی ہیں کہ اکثر لوگ اُن کی وجہ سے خسارہ اٹھاتے ہیں یا ان سے دھوکا کھاتے ہیں ۔ ‘‘

یعنی صحت و فراغت یہ دو ایسے کام ہیں کہ اِنہیں اگر اُن کاموں میں استعمال نہ کیا جائے جہاں کرنا چاہیے تھا تو یہ دونوں نعمتیں پانے والا شخص نقصان اٹھائے گا یعنی وہ اِن دونوں کو نقصان کے ساتھ فروخت کرے گا۔کیونکہ جو شخص تندرستی وفراغت کی حالت میں عبادتِ الٰہی نہ بجا لائے تووہ بیماری و مشغولیت میں بدرجہ اَولیٰ عبادت نہ کرسکے گالہٰذا وہ بےعملی کے سبب نقصان و دھوکے میں رہ جائے گا۔اسی طرح بعض اوقات انسان صحت مند ہوتا ہے لیکن اَسبابِ معاش یعنی کاروبار وغیرہ میں مشغولیت کی وجہ سےعبادت کے لیے فارغ نہیں ہوتا اور کبھی اس کے بر عکس (یعنی فارغ تو ہوتا ہے لیکن مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے عبادت نہیں کر پاتا ) تو جسے صحت وفراغت کی نعمت ملے اور وہ پھر بھی فضائل حاصل کرنے میں کوتاہی کرے تو ایسا شخص سرا سردھوکے وغفلت میں ہے۔(کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:97)

(3)... حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دو چیزیں لازم کرنے والی ہیں کسی نے عرض کیا یا رسول الله لازم کرنے والی کیا ہیں فرمایا جو الله کا شریک مانتا ہوا مرگیا وہ آگ میں جائے گا اور جو اس طرح مرا کہ کسی کو الله کا شریک نہیں مانتا وہ جنت میں جائے ۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:38)

(4)...حضرت انس سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان بوڑھا ہوجاتا ہے اور اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں مال کی حرص اور عمر کی حرص (مسلم،بخاری)

یہاں انسان سے مراد عام دنیا دار مراد ہے جو بڑھاپے میں بھی حریص رہتا ہے،بعض اللہ کے بندے جوانی میں بھی حریص نہیں ہوتے وہ اس حکم سے علیحدہ ہیں مگر ایسے خوش نصیب بندے ہیں بہت تھوڑے عمومًا وہ ہی حال ہے جو یہاں ارشاد ہوا۔ عمومًا بوڑھے آدمی مال جمع کرنے،مال بڑھانے میں بڑے مشغول رہتے ہیں،ہمیشہ زندگی کی دعائیں کراتے ہیں،اگر کوئی انہیں کوسے تو لڑتے ہیں یہ ہے محبت مال و عمر۔حریص کا دل یا قناعت سے بھرتا ہے یا قبر کی مٹی سے۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:7 , حدیث نمبر:5270)

(5)...حضرتِ سَیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں :میں نے رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے :جب میں اپنے کسی بندے کو اس کی دو محبوب چیزوں کے ذریعے آزمائش میں مبتلا کروں پھر وہ صبر کرے تو میں اس کے عوض اسے جنت دونگا ۔ دومحبوب چیزوں سے مراد اس کی دونوں آنکھیں ہیں۔(بخاری، کتاب المرضی، باب فضل من ذھب بصرہ، 6\4 حدیث: 5653)

حدیث میں فرمایا ’’حَبِیْبَتَیْہ‘‘ یعنی دو محبوب چیزیں دوسری حدیث میں اس کی وضاحت بھی فرمائی یعنی دونوں آنکھیں ، اس لئے کہ انسان کے بدن میں سب سے اہم اور محبوب عضو آنکھیں ہیں اور یہ بات کسی پر مَخْفِی (ڈھکی چھپی) نہیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ جب اس کی آنکھیں چلی جائیں پھر وہ صبر کرے ۔

حِبْرُ الْاُمَّۃ، (اُمَّت کے عالِم) ترجمانِ قراٰن، حضرتِ سَیِّدُنا عَبْدُاللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہما جب نابینا ہو گئے تو یہ شعر پڑھا کرتے تھے :اِنْ یُّذْھِبِ ﷲُ مِنْ عَیْنِیْ نُوْرَ ھُمَا فَفِیْ لِسَانیْ وَقَلْبِی لِلْھُدٰی نُوْرٌ ترجمہ : اگراللہ عَزَّوَجَلَّ میری آنکھوں کا نور لے گیا تو کیا ہوا؟ میری زبان اور دل میں تو ہدایت کا نور ہے۔(مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الجنائز، باب عیادۃ المریض،28\4، تحت الحدیث:1549)

اللہ پاک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم