مدینہ ٹاؤن،فیصل آباد  کی کالونی خیابان میں حاجی عمر عطاری کے گھر پر عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام 13 ستمبر 2024ء کو سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں شخصیات سمیت دیگر ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی کی شرکت ہوئی۔

حلقے میں شریک اسلامی بھائیوں کی تربیت کے لئے مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری کا سنتوں بھرا بیان ہو اجس میں انہوں نے شرکا کو مدنی پھولوں سے نوازتے ہوئے انہیں دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں حصہ لینے اور نمازوں کی پابندی کرنے کا ذہن دیا۔حلقے کے اختتام پر نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے دعا کروائی اور اسلامی بھائیوں نے اُن سے ملاقات بھی کی۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ  بوائزکے تحت 10 ستمبر 2024ء کو مدنی مرکز فیضانِ مدینہ فیصل آباد میں اجتماعِ میلاد منعقد ہوا جس میں نگرانِ فیصل آباد ڈویژن حاجی سلیم عطاری، نگران فیصل آباد سٹی مولانا مظہر عطاری مدنی، فیصل آباد سٹی کے شعبہ تعلیم ذمہ دار، مختلف اسکولز و کالجز کے اسٹوڈنٹس اور اسٹاف عاشقان رسول نے شرکت کی۔

تلاوت و نعت سے اجتماع کا آغاز کرنے کے بعد رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ ونگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا جس میں انہوں نے سیرتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حوالے سے حاضرین کی تربیت و رہنمائی کی۔

اجتماع کے اختتام پر صلوٰۃ و سلام پڑھا گیا جبکہ نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے دعا کروائی اور اسلامی بھائیوں کو سلسلہ قادریہ میں داخل بھی کروایا۔

بعدازاں اجتماع میں شریک اسٹوڈنٹس نے نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری سے ملاقات کی۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


فیصل آباد سمندری   میں قائم فٹبال اسٹیڈیم نزد واپڈا آفس میں عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے تحت 12 ستمبر 2024ء کو سنتوں بھرا اجتماع منعقد ہوا جس میں ڈجکوٹ، تاندلیانوالہ، ماموں کانجن، مریدکے، گوجرہ اور سمندری سٹی سمیت اطراف سے کثیر عاشقان رسول نے شرکت کی۔

آغازِ اجتماع تلاوتِ قراٰن و نعتِ رسولِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ہوا جس کے بعد مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئےآقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف و کمال کو بیان کیا۔

نگرانِ پاکستان مشاورت نے حاضرین کو پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کرنے، نمازوں کی پابندی کرنے اور نیک کاموں میں حصہ لیتے رہنے کی ترغیب دلائی۔

بعدِ بیان عاشقانِ رسول نے آقائے دوجہاں حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں درود و سلام کا نذرانہ پیش کیا جبکہ نگرانِ پاکستان مشاورت نے رقت انگیز دعا کروائی۔

آخر میں نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے جامعۃالمدینہ سمندری سے فارغ التحصیل ہونے والے اسلامی بھائیوں کی دستار بندی بھی کی اور انہیں دعاوں سے نوازا جبکہ وہاں موجود اسلامی بھائیوں نے نگرانِ پاکستان مشاورت سے ملاقات بھی کی۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار نگرانِ پاکستان مشاورت، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


زندگی میں صبر ضروری ہے

Wed, 18 Sep , 2024
66 days ago

عمران رضا عطاری مدنی

(تخصص فی الحدیث ناگپور،ہند)

زندگی کے ہر موڑ پر کوئی نہ کوئی آزمائش ، مصیبت اور پریشانی لاحق ہوتی رہتی ہے۔ اگر ان چیزوں سے پریشان ہوکر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھ جائیں تو پھر زندگی کے کسی شعبے میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ ہمارے لئے ضروری ہے کہ آزمائش و مصیبت پر صبر کریں اور ہمت سے کام لیں جیسے کسی رشتہ دار کا انتقال ہوجاتا ہے تو لازمی طور پر صبر ہی کرنا ہوگا، اگر صبر نہ کرے واویلا کرے، چلائے ، سینہ پیٹے اور یوں ناجائز و حرام کام میں مبتلا ہوجائے تو اس سے مرنے والا واپس تو نہیں آئے گا ہاں جو صبر پر ثواب ملنے والا تھا وہ ضائع ہو جائے گا۔ اسی طرح مختلف مواقع پر صبر کی عادت ڈالنا ضروری ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنے والا اللہ کے نزدیک اور لوگوں کے نزدیک بھی اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ پاک انہیں پسند فرماتا ہے جو مصیبتوں پر صبر کرتے ہیں ویسے بھی دنیا آزمائش ہی کا نام ہے ۔ تمام پریشانیوں سے نجات تو جنت میں جاکر ہی ملے گی ۔

دنیا مؤمن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت:

حدیث پاک میں ہے :الدُّنْيَا سجن الْمُؤمن وجنة الْكَافِر دنیا مومن کا قید خانہ اور کافر کی جنت ہے۔ ( الفردوس بمأثور الخطاب، ج:2، ص:229، رقم الحدیث: 3113)اس حدیثِ پاک پر غور کریں کہ مسلمان کے لئے دنیا قید خانہ ہے۔ ایک قید خانہ میں ہوتا کیا ہے؟ مصیبت ، پریشانی ، آزمائش ، کھانے کی قلت لیکن پھر بھی ہمیں بے شمار نعمتیں ملی ہوئی ہیں۔ اگر ساتھ میں کچھ پریشانیاں آتی ہیں تو ہمیں صبر کرنا ہے اور اس حدیثِ پاک پر نظر رکھنا ہے۔ آپ چاہیں کہ ہر طرح کی چھوٹی بڑی تمام مصیبت ختم ہو جائیں تو ایسامرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے۔ ہمارے اسلافِ کرام رحمہم اللہ کی حالت یہ تھی کہ چند دن گزرے اور کوئی مصیبت و پریشان نہیں آئی تو ٹیشن میں آجاتے تھے کہ کہیں اللہ ناراض تو نہیں ہوگیا۔

ہم تمہیں آزمائیں گے:

خود قرآن پاک میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ ہم تمہیں آزمائیں گے چنانچہ ارشاد فرمایا : وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ والثَّمَرٰتِؕوَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ. ترجمۂ کنز الایمان : اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سناؤ ان صبر والوں کو۔ ( القرآن الکریم ، السورۃ : البقرۃ، الآیۃ : 155)اللہ پاک قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے:وَ اصْبِرُوْاؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ’’اور صبر کرو بیشک اللہ صبر والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (القرآن الکریم ، السورۃ:الانفال، الآیۃ:46)اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں ہے:ما مِنْ مُصِيبَةٍ تُصِيبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا كفَّر اللَّهُ بها عنه، حتى الشوكة يُشاكهاترجمہ : مسلمان کو جو تکلیف و ہم وحزن و اذیت و غم پہنچے، یہاں تک کہ کانٹا جو اس کے چُبھے، اﷲ تعالیٰ ان کے سبب اس کے گناہ مٹا دیتا ہے۔(صحیح بخاری، ج:5، ص:2137، رقم :5317، کتاب المرضی، باب: ما جاء في كفارة المرضى، طبع : دار ابن كثير )

تبلیغِ دین میں قدم قدم پر آزمائشیں:

شیخ الحدیث و التفسیر مفتی محمد قاسم قادری عطاری لکھتے ہیں : یاد رہے کہ زندگی میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کبھی مرض سے، کبھی جان و مال کی کمی سے، کبھی دشمن کے ڈر و خوف سے، کبھی کسی نقصان سے، کبھی آفات و بَلِیّات سے اور کبھی نت نئے فتنوں سے آزماتا ہے اور راہِ دین اور تبلیغِ دین تو خصوصاً وہ راستہ ہے جس میں قدم قدم پر آزمائشیں ہیں ، اسی سے فرمانبردار و نافرمان، محبت میں سچے اور محبت کے صرف دعوے کرنے والوں کے درمیان فرق ہوتا ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام پر اکثرقوم کا ایمان نہ لانا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں ڈالا جانا، فرزند کو قربان کرنا، حضرت ایوب علیہ السلام کو بیماری میں مبتلا کیا جانا ،ان کی اولاد اور اموال کو ختم کر دیا جانا، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مصرسے مدین جانا، مصر سے ہجرت کرنا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ستایا جانا اور انبیائے کرام علیہم السلام کا شہید کیا جانا یہ سب آزمائشوں اور صبر ہی کی مثالیں ہیں اور ان مقدس ہستیوں کی آزمائشیں اور صبر ہر مسلمان کے لئے ایک نمونے کی حیثیت رکھتی ہیں لہٰذا ہر مسلمان چاہیئے کہ اسے جب بھی کوئی مصیبت آئے اوروہ کسی تکلیف یا اَذِیَّت میں مبتلا ہو تو صبر کرے اور اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کرے۔ ( صراط الجنان، ج:1، ص:250، طبع : مکتبۃ المدینہ)

بیماری نعمت ہے:

صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : بیماری بھی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کے منافع بے شمار ہیں ، اگرچہ آدمی کو بظاہر اس سے تکلیف پہنچتی ہے مگر حقیقۃً راحت و آرام کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہاتھ آتا ہے۔ یہ ظاہری بیماری جس کو آدمی بیماری سمجھتا ہے، حقیقت میں روحانی بیماریوں کا ایک بڑا زبردست علاج ہے ۔حقیقی بیماری امراض روحانیہ ہیں کہ یہ البتہ بہت خوف کی چیز ہے اور اسی کو مرض مہلک سمجھنا چاہیئے۔ بہت موٹی سی بات ہے جو ہر شخص جانتا ہے کہ کوئی کتنا ہی غافل ہو مگر جب مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو کس قدر خداکو یاد کرتا اور توبہ و استغفار کرتا ہے اور یہ تو بڑے رتبے والوں کی شان ہے کہ تکلیف کا بھی اسی طرح استقبال کرتے ہیں جیسے راحت کا۔

ع انچہ از دوست میر سد نیکوست

یعنی وہ چیز جو دوست کی طرف سے پہنچتی ہے، اچھی ہوتی ہے

مگر ہم جیسے کم سے کم اتنا تو کریں کہ صبر و استقلال سے کام لیں اور جزع و فزع کرکے آتے ہوئے ثواب کو ہاتھ سے نہ دیں اور اتنا تو ہر شخص جانتا ہے کہ بے صبری سے آئی ہو ئی مصیبت جاتی نہ رہے گی پھر اس بڑے ثواب سے محرومی دوہری مصیبت ہے۔ بہت سے نادان بیماری میں نہایت بے جا کلمے بول اٹھتے ہیں بلکہ بعض کفر تک پہنچ جاتے ہیں معاذ اﷲ۔ اﷲ عزوجل کی طرف ظلم کی نسبت کر دیتے ہیں ، یہ تو بالکل ہی خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةَ ( یعنی دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والوں کی طرح)کے مصداق بن جاتے ہیں۔ (بہار شریعت، ج:1، ح:4، ص:799، طبع : مکتبۃ المدینہ )

شیخ طریقت امیرِ اہلِ سنت مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : اللہ تعالی مصیبتیں دے کر آزماتا ہے تو جس نے ان میں بے صبری کا مظاہرہ کیا ، واویلا مچایا، ناشکری کے کلمات زبان سے ادا کئے یا بیزار ہو کر معاذ اللہ عزوجل خودکشی کی راہ لی، وہ اس امتحان میں بری طرح ناکام ہو کر پہلے سے کروڑہا کروڑ گنا زائد مصیبتوں کا سزاوار ہو گیا۔ بے صبری کرنے سے مصیبت تو جانے سے رہی الٹا صبر کے ذریعے ہاتھ آنے والا عظیم الشان ثو اب ضائع ہو جاتا ہے جو کہ بذات خود ایک بہت بڑی مصیبت ہے۔ ( خود کشی کا علاج )

میلاد مصطفٰے اور ظاہر وباطن کی پاکیزگی

Wed, 18 Sep , 2024
66 days ago

اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی تشریف آواری کے مقاصد میں سے ایک مقصد انسان کے ظاہر وباطن کو پاک کرنا بھی ہےجیساکہ ابو الانبیا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام نے بیت اللہ شریف کی تعمیر مکمل ہونے کے بعد دعا فرمائی جس کی قبولیت کوقرآن کریم میں مختلف انداز میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ

دعائے ابراہیم:

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:

رَبَّنَا وَ ابْعَثْ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِكَ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ۠(۱۲۹) (پ1، البقرۃ:129)

ترجمہ کنز الایمان: اے رب ہمارے اور بھیج ان میں ایک رسول انہیں میں سے کہ ان پر تیری آیتیں تلاوت فرمائے اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے بےشک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔

تفسیر خزائن العرفان:

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل کی ذریت میں یہ دُعا سیّدِ انبیاء صلّی اللہ ُعلیہ وسلّم کے لئے تھی یعنی کعبہ معظمہ کی تعمیر کی عظیم خدمت بجالانے اور توبہ و استغفار کرنے کے بعد حضرت ابراہیم و اسمٰعیل نے یہ دعا کی کہ یارب! اپنے محبو ب نبی آخر الزماں صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو ہماری نسل میں ظاہر فرما اور یہ شرف ہمیں عنایت کر، یہ دعا قبول ہوئی اور ان دونوں صاحبوں کی نسل میں حضور کے سوا کوئی نبی نہیں ہوا، اولادِ حضرت ابراہیم میں باقی انبیاء حضرت اسحٰق کی نسل سے ہیں۔

میلاد مصطفٰے کا بیان:

صدر الافاضل مزید فرماتے ہیں کہ سیِّد عالَم صلّی اللہُ علیہ وسلّم نے اپنا میلاد شریف خود بیان فرمایا امام بغوی نے ایک حدیث روایت کی کہ حضور نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک ’’خَاتَمُ النَّبِیِّیْن‘‘ لکھا ہوا تھا بحالیکہ حضرت آدم کے پتلا کا خمیر ہورہا تھا، میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کی اس خواب کی تعبیر ہوں جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھی اور ان کے لئے ایک نور ساطع (پھیلتا ہوا نور) ظاہر ہوا جس سے ملک شام کے ایوان و قصور اُن کے لئے روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، کتاب الفضائل، باب فضائل سید الاولین والآخرین محمد، 7/ 13، حدیث:3520) اس حدیث میں دعائے ابراہیم سے یہی دعا مراد ہے جو اس آیت میں مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دعا قبول فرمائی اور آخر زمانہ میں حضور سیِّدِ انبیاء محمد ِمصطفیٰ صلّی اللہُ علیہ وسلّم کو مبعوث فرمایا۔(خازن، بقرہ، تحت الآیہ:129، 1/ 91) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَانِہٖ۔(جمل و خازن)

تفسیر صراط الجنان:

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہِ الصَّلوٰۃُ وَالسَّلَام نے حضور اقدس صلَّی اللہُ علیہ واٰلِہ وسلَّم کے متعلق بہت سی دعائیں مانگیں جو رب تعالیٰ نے لفظ بلفظ قبول فرمائیں۔ حضور پُر نور صلَّی اللہُ علیہِ وسلَّم مومن جماعت میں، مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے، رسول ہوئے، صاحب ِ کتاب ہوئے، آیات کی تلاوت فرمائی، امت کو کتابُ اللہ سکھائی، حکمت عطا فرمائی، اُن کے نفسوں کا تزکیہ کیا اور اسرارِ الٰہی پر مطلع کیا۔

طہارت، طیب اور تزکیہ:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی (دعا میں) اس ترتیب سے اس طرف اشارہ ہے کہ بندے آیات قرآنیہ تلاوت کر کے، علم وحکمت سیکھ کر بھی پاک نہیں ہو سکتے جب تک حضور کی نگاہ انہیں پاک نہ کرے اسی لئے تلاوت وغیرہ کے بعد تزکیہ کا ذکر فرمایا اور اس تزکیہ کو حضور پاک صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی طرف منسوب کیا۔ خیال رہے کہ ’’ظاہری پاکی کو طہارت اور قلبی پاکی کو طیب کہا جاتا ہے مگر جسمانی، قلبی، روحانی خیالات وغیرہ کی مکمل پاکی کو تزکیہ‘‘ کہتے ہیں۔(تفسیر نعیمی، 1/ 654)

دعائے ابراہیمی کی مقبولیت:

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی جسے دوسرے پارے کے شروع میں ان الفاظ میں بیان فرمایا۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

كَمَاۤ اَرْسَلْنَا فِیْكُمْ رَسُوْلًا مِّنْكُمْ یَتْلُوْا عَلَیْكُمْ اٰیٰتِنَا وَ یُزَكِّیْكُمْ وَ یُعَلِّمُكُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُعَلِّمُكُمْ مَّا لَمْ تَكُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ ؕ(۱۵۱)۔(پ2، البقرۃ:151)

ترجمہ کنز الایمان: جیسے ہم نے تم میں بھیجا ایک رسول تم میں سے کہ تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں پاک کرتا اور کتاب اور پختہ علم سکھاتا ہے اور تمہیں وہ تعلیم فرماتا ہے جس کا تمہیں علم نہ تھا۔

تفسیر نعیمی:

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتےہیں: سب سے بڑھ کر یہ کہ تم میں اپنا یہ بڑا پیغمبر بھیجا جو سر تا پا رحمَتِ الٰہی ہیں۔ یوں تو ان کے تم پر لاکھوں احسان ہیں مگر پانچ احسان بالکل ظاہر: ایک یہ کہ وہ تم تک رب کی آیتیں پہنچاتے ہیں، تمہیں پڑھ کر سناتے اور پڑھنا سکھاتے ہیں، تمہارے الفاظ صحیح کراتے، تلاوت کے آداب بتاتے ہیں بلکہ اس کے لکھنے کی جانچ بتاتے ہیں پھر تمہیں شرک، بت پرستی، کفر وگندے اخلاق، بدتمیزی، عداوت، آپس کے جھگڑے، جدال، جسمانی گندگی غرض یہ کہ ہر ظاہری اور باطنی عیوب سے پاک فرماتے ہیں کہ عرب جیسے سخت ملک کو جو انسانیت سے گر چکا تھا اور جہاں باشندے انسان نما جانور ہو چکے تھے ان کو عالَم کا معلم بنا دیا۔ بت پرستوں کو خدا پرست، رہزنوں کو رہبر، شرابیوں کو نشَۂ محبت الٰہی کا متوالا، بےغیرتوں کو شرمیلا، جاہلوں کو عالِم اور نہ معلوم کسے کسے کیا کیا بنا دیا غرض یہ کہ مخلوق کو خالق تک پہنچا دیا۔ (تفسیر نعیمی، 2/ 64)

نیز سورۂ آل عمران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا کی قبولیت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا۔ چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:

لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ۚ وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)۔(پ4، آل عمران :164)

ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہےاور انہیں پاک کرتا اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتاہے اور وہ ضرور اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے ۔

تفسیر صراط الجنان:

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت ہے: عربی میں مِنَّت عظیم نعمت کو کہتے ہیں۔ مراد یہ کہ اللہ تعالیٰ نے عظیم احسان فرمایا کہ انہیں اپنا سب سے عظیم رسول عطا فرمایا۔ کیسا عظیم رسول عطا فرمایا کہ اپنی ولادتِ مبارکہ سے لے کر وصالِ مبارک تک اور اس کے بعد کے تمام زمانہ میں اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہار ہے ہیں بلکہ ہمارا تو وجود بھی حضور سیِّدِ دو عالَم صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ نہ ہوتے تو کائنات اور اس میں بسنے والے بھی وجود میں نہ آتے۔پیدائِشِ مبارکہ کے وقت ہی آپ نے ہم امتیوں کو یاد فرمایا،شبِ معراج بھی ربُّ العالمین کی بارگاہ میں یادفرمایا، وصال شریف کے بعد قَبرِ انور میں اتارتے ہوئے بھی دیکھا گیا تو حضور پُر نور صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے لب ہائے مبارکہ پر امت کی نجات و بخشش کی دعائیں تھیں۔آرام دہ راتو ں میں جب سارا جہاں محو اِستراحت ہوتا وہ پیارے آقا حبیب کبریا صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم اپنا بستر مبارک چھوڑ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے ہیں۔ عمومی اور خصوصی دعائیں ہمارے حق میں فرماتے رہتے۔قیامت کے دن سخت گرمی کے عالَم میں شدید پیاس کے وقت ربِّ قہار کی بارگاہ میں ہمارے لئے سر سجدہ میں رکھیں گے اور امت کی بخشش کی درخواست کریں گے ۔ کہیں امتیوں کے نیکیوں کے پلڑے بھاری کریں گے، کہیں پل صراط سے سلامتی سے گزاریں گے، کہیں حوضِ کوثر سے سیراب کریں گے، کبھی جہنم میں گرے ہوئے امتیوں کو نکال رہے ہوں گے، کسی کے درجات بلند فرما رہے ہوں گے، خود روئیں گے ہمیں ہنسائیں گے، خود غمگین ہوں گے ہمیں خوشیاں عطا فرمائیں گے، اپنے نورانی آنسوؤں سے امت کے گناہ دھوئیں گے اوردنیا میں ہمیں قرآن دیا، ایمان دیا ، خدا کا عرفان دیا اور ہزار ہا وہ چیزیں جن کے ہم قابل نہ تھے اپنے سایہ رحمت کے صدقے ہمیں عطا فرمائیں۔ الغرض حضور سید دو عالَم صلَّی اللہُ علیہ وسلَّم کے احسانات اس قدر کثیر در کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔

تفسیر نور العرفان:

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم کی تشریف آوری تمام نعمتوں سے اعلیٰ ہے کہ لفظ ’’مَنّ‘‘ قرآن شریف میں اور نعمتوں پر ارشاد نہ ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ تمام نعمتیں فانی ہیں اور ایمان باقی، یہ ہی حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملا۔ تمام نعمتوں کو نعمت بنانے والے حضور ہیں۔ اگر ان نعمتوں سے گناہ کئے جائیں تو وہ عذاب بن جاتی ہیں نیز ہاتھ پاؤں وغیرہ رب کے آگے شکایت بھی کریں گے اور حضور صلّی اللہُ علیہ وسلّم سفارش فرمائیں گے لہٰذا حضور نعمت مطلقہ ہیں۔ (نیز یہ بھی) معلوم ہوا کہ پاکی صرف نیکیوں سے حاصل نہیں ہوتی۔ یہ نیکیاں تو پاکی کے سبب ہیں۔ پاکی نگاہِ کرم مصطفیٰ صلّی اللہُ علیہ وسلّم سے ملتی ہے۔ نیکیاں تخم (بیج) ہیں اور حضور کی نگاہِ کرم رحمت کا پانی۔ بغیر پانی تخم بیکار ہے جیسے کہ شیطان کی عبادات بیکار ہوئیں لہٰذا کوئی متقی اور ولی حضور سے بےنیاز نہیں ہو سکتا۔

تفسیر نعیمی:

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ تفسیر نعیمی میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: حضور انور صلّی اللہُ علیہ وسلّم تاقیامت ہمارے جسموں کو شریعت کے پانی سے، دلوں کو طریقت کے پانی سے، خیالات کو حقیقت کے پانی سے اور روح کو معرفت کے پانی سے پاک فرماتے ہیں اور پاک فرماتے رہیں گے۔(تفسیر نعیمی، 4/ 317)

خلاصہ:

مذکورہ آیت مبارکہ میں میلاد مصطفٰے کے تذکرے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بیان بھی ہے کہ حضور نبی کریم صلّی اللہُ علیہ وسلّم ظاہر وباطن کی گندگی دور کر کے انسانوں کو طہارت وپاکیزگی عطا فرماتے ہیں۔ ظاہری پاکیزگی کے لئے وضو و غسل وغیرہ کے احکام اور اس کے طریقے سکھائے جبکہ باطنی گندگی سے طہارت کے لئے باطنی بیماریوں کی تفصیل اور وضاحت بیان فرمائی جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے ظاہر وباطن کو سنوار سکتا ہے۔ یاد رکھیئے! نماز پڑھنے کے لئے ظاہر کا پاک ہونا ضروری ہے کہ نمازی کا بدن، لباس اور جس جگہ نماز پڑھ رہا ہے وہ نجاست غلیظ وخفیفہ سے پاک ہو لیکن نماز کی قبولیت کے لئے باطن کا پاک ہونا ضروری ہے کہ وہ تکبر، خود پسندی اور ریاکاری وغیرہ گندگیوں سے پاک ہو لہٰذا ظاہر کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطن کی طہارت کا بھی اہتمام ہونا چاہیئے بلکہ باطنی طہارت کا زیادہ خیال رکھا جائےکیونکہ لوگوں کی نظریں صرف ظاہر کو دیکھتی ہیں جبکہ اللہ پاک ظاہر کے مقابلے میں باطن پر خاص نظر فرماتا ہے۔چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے:

صرف ظاہر نہیں باطن کو بھی سنوارو:

حضرت سیِّدُنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پا ک کے سب سے آخری نبی، محمد عربی صلّی اللہُ علیہ والہ وسلّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ اللہَ لَا یَنْظُرُ اِلٰی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ وَلٰکِنْ یَّنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُم یعنی اللہ پاک تمہاری صورتوں اور تمہارے اموال کی طرف نظر نہیں فرماتا بلکہ وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف نظر فرماتا ہے۔(مسلم، کتاب البر و الصلۃ و الآداب، ص 1064، حدیث: 6543)

ربِّ کریم کے دیکھنے سے مراد:

حضرت علامہ علی قاری رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: اللہ پاک تمہاری صورتوں کی طرف نہیں دیکھتا کیونکہ اس کے ہاں تمہاری خوبصورتی وبدصورتی کا کوئی اعتبار نہیں اور نہ ہی وہ تمہارے مال ودولت کی طرف نظر فرماتا ہے اس لئے کہ اس کے نزدیک مال ودولت کی کمی زیادتی کی کوئی حیثیت نہیں بلکہ وہ تمہارے دلوں میں موجود یقین، سچائی، اخلاص، ریاکاری، شہرت اور بقیہ اچھے و بُرے اَخلاق کو دیکھتا ہے اور ’’اعمال دیکھتا ہے‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تمہاری نیت کو ملاحظہ فرماتا ہے کہ کس نیت سے کئے گئے پھر اس کے مطابق تمہیں اس کی جزا عطا فرمائے گا۔ نہایہ میں ہے کہ یہاں ’’نظر‘‘ کا معنیٰ پسندیدگی یا رحمت ہے کیونکہ کسی پر نظر رکھنا محبت کی دلیل ہے جبکہ نظر ہٹا لینا غضب ونفرت کی علامت۔ (مرقاۃ المفاتیح، 9/ 174، تحت الحدیث:5314 )

تقویٰ کس طرح حاصل ہوتا ہے؟

حضرت ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں: اس کا مطلب یہ ہے کہ تقویٰ صرف ظاہری اعمال سے حاصل نہیں ہوتابلکہ دل میں اللہ پاک کی عظمت، اس کے ڈر اور اس کی طرف متوجہ ہونے سے جو کیفیت پیدا ہوتی ہے اس سے حاصل ہوتا ہے۔ (شرح مسلم للنووی، جز16، 8/ 121)

ظاہر وباطن کو شریعت کے مطابق رکھو:

مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حدیث پاک میں ’’دیکھنے‘‘ سے مراد ’’کرم ومحبت سے دیکھنا ہے‘‘ مطلب یہ ہے کہ وہ تمہارے دلوں کو بھی دیکھتا ہے۔ جب اچھی صورتیں اچھی سیرت سے خالی ہوں، ظاہر باطن سے خالی ہو (یعنی صرف ظاہر اچھا ہو اور باطن برا)، مال صدقہ وخیرات سے خالی ہو تو ربّ تعالیٰ اسے نظر رحمت سے نہیں دیکھتا نیز حدیث شریف کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ صرف اعمال اچھے کرو اور صورت بُری بناؤ بلکہ صورت وسیرت دونوں ہی اچھی (یعنی شریعت کے مطابق) ہونی چاہئیں۔ کوئی شریف آدمی گندے برتن میں اچھا کھانا نہیں کھاتا، ربّ تعالیٰ صورت بگاڑنے والوں کے اچھے اعمال سے بھی خوش نہیں ہوتا۔ اگر صرف صورت اچھی ہو اور کردار برا ہو تو بھی نقصان اور اگر باطنی حالت درست اور ظاہری شریعت کے خلاف تب بھی نقصان۔ (ملخص از مراٰۃ المناجیح، 7/ 128)

لہٰذا مسلمان کو چاہئے کہ جس طرح اپنے ظاہر کو پاک صاف رکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ باطن کی پاکیزگی وصفائی کا خیال رکھے۔ تعجب ہے اس پر جو مخلوق کی نظر میں اچھا بننے کے لئے ظاہر کو تو گندگی سے بچاتا ہے مگر دل جو ربِّ کریم کی خاص تجلی کا مقام ہے اسے باطنی بیماریوں کے میل کچیل سے نہیں بچاتا۔ خیال رہے! باطنی بیماریوں کا شکار تو ایک فرد ہوتا ہے لیکن اس کے اثرات پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔

پس ہر مسلمان کو چاہیئے کہ باطنی امراض سے دل کی حفاظت کا خاص خیال رکھے تاکہ اس میں ایسے امراض داخل نہ ہوں جو دنیا وآخرت میں ہلاکت وبربادی کا باعث بنتے اور انسان کو بےسکونی کا شکار بنائے رکھتے ہیں۔جیسے غصہ، کینہ اور حسد ان تینوں امراض کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے کہ غصے سے کینہ پیدا ہوتا ہے اور کینہ حسد کو لاتا ہے یوں یہ تینوں بیماریاں مل کر انسان کو تباہی وبربادی کے گہرے گڑھے میں دھکیل دیتی ہیں۔ اسی طرح ’’حب جاہ اور ریاکاری‘‘ ایسی باطنی بیماریاں ہیں جن میں مبتلا شخص دل ہی دل میں خوش تو ہوتا ہے لیکن اسے احساس نہیں ہوتا کہ وہ دھوکے کا شکار ہےاور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بڑے بڑے نیک اعمال اور مجاہدے کرنے کے باوجود وہ ان کے حقیقی فوائد سے محروم رہتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ معاشرے کو فتنہ وفساد کا شکار بننے سے بچانے کے لئے بزرگانِ دین ظاہر کے مقابلے میں باطن کی اصلاح پر زیادہ زور دیا کرتے تھے۔ بزرگانِ دین کا قرآن وحدیث کی روشنی میں لکھا گیا اصطلاحی لٹریچر بھی اسی کی ایک کڑی ہے جو مجرب تریاق کا کام کرتی ہے، حضرت سیِّدُنا امام محمد غزالی رحمۃ اللہِ علیہ کی شہرۂ آفاق تصنیف ’’اِحْیَاءُ الْعُلُوْم ‘‘ اس باب میں ایک روشن مینار ہے جسے بزرگانِ دین نے اپنے مریدین کی تربیت کا نصاب بنایا۔دورِ حاضر کے ایک عظیم روحانی پیشوا شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائے دامت برکاتہم العالیہ بھی وقتاً فوقتاً اپنے مریدین و متعلقین کو اسے پڑھنے کی ترغیب دلاتے رہتے ہیں لہٰذا اپنے باطن کو سنوارنے لئے انسان کو ایسی کتابوں کو اپنے مطالعہ میں رکھنا چاہیئے۔

باطنی پاکیزگی کے لئے چند رہنما کتب:

(01)...بہار شریعت، حصہ16۔ (02)...احیاء العلوم(اردو) جلد:3۔ (03)...قوت القلوب۔ (04)...جہنم میں لے جانے والے اعمال۔ (05)...غیبت کی تباہ کاریاں۔ (06)...دل کی سختی کے اسباب وعلاج۔ (07)...احیاء العلوم کا خلاصہ۔ (08)...اچھے برے عمل۔ (09)...مکاشفۃ القلوب۔ (10)...تکبر۔ (11)...بدگمانی۔ (12)...ریاکاری۔ (13)...بغض وکینہ۔ (14)...منہاج العابدین۔ (15)...باطنی بیماریوں کی معلومات۔ (16)...جہنم کے خطرات۔ (17)...مختصر منہاج العابدین۔ (18)...76 کبیرہ گناہ۔ (19)...حرص۔ (20)...حسد۔ (21)...جہنم کے عذابات (حصہ اول ودوم)۔

نوٹ: یہ تمام کُتُب دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ سے قیمتاً حاصل کی جاسکتی ہیں نیز دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہیں، مطالعہ کے ساتھ ساتھ ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہیں۔ خود بھی پڑہیئے اور دوسرے مسلمانوں کو بھی ترغیب دلایئے۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں ظاہر کے ساتھ ساتھ باطنی پاکیزگی کا خیال رکھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

محمد عمران الٰہی عطاری مدنی

۱۳ ربیع الاول ۱۴۴۵ھ

2023/ 09/ 30

بروز ہفتہ


(1) عربی حدیث مبارکہ ۔قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا الله و رسول تمام ماسواءسےزیادہ پیارے ہوں جوبندےسےصرف الله کے لیے محبت کرے جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔ ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:8 )

(2) عربی حدیث مبارکہ ۔عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ سُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُّسْلِـمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبِ الزَّانِی وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکِ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَۃ. ‘‘(رَوَاہُ الْبُخَارِی وَمُسْلِم) ترجمہ حدیث مبارکہ :حضرت سیِّدُنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان (قصاص) اور (3)… اپنے دین کوچھوڑ کرجماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘ (بخاری، كتاب الديات، باب قول اللہ تعالٰى: ان النفس بالنفس...الخ، ۴/ ۳۶۱، حدیث:۶۸۷۸ ۔ مسلم، کتاب القسامة، باب ما یباح بہ دم المسلم، ص۷۱۰، حدیث:۴۳۷۵)( کتاب:شرح اربعین نوویہ(اردو) , حدیث نمبر:14 , مسلمان کے خون کی حرمت)

(3) عربی حدیث مبارکہ ۔وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ» . زَادَ مُسْلِمٌ: «وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَ زَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ» . ثُمَّ اتَّفَقَا «إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ »ترجمہ حدیث مبارکہ ۔روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتےہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی تین علامتیں ہیں مسلم نے یہ زیادتی بھی بیان کی کہ اگرچہ روزہ رکھے،نماز پڑھے،اپنے کو مسلمان سمجھے۔پھرمسلم و بخاری متفق ہوگئے کہ جب بات کرے جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف کرے،امانت دی جائے تو خیانت کرے۔

وضاحت ۔

منافق سے اعتقادی منافق مراد ہیں،یعنی دل کے کافر زبان کے مسلم،یہ عیوب ان کی علامتیں ہیں مگر علامت کے ساتھ علامت والا پایا جانا ضروری نہیں۔کوّے کی علامت سیاہی ہے مگر ہر کالی چیزکوّا نہیں۔ یعنی یہ منافقوں کے کام ہیں۔مسلمان کوا س سے بچنا چاہئے ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:55 )

(4) عربی حدیث مبارکہ ۔عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ: اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ، فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَیَبْقٰی وَاحِدٌ، یَرْجِعُ اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ. ترجمہ حدیث مبارکہ :حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ، مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ ‘‘ ( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:104 )

( 5) عربی حدیث مبارکہ ۔وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَبْغَضُ النَّاسِ إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ. رَوَاهُ البُخَارِيُّ ترجمہ حدیث مبارکہ ۔

روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں : حرم میں بے دینی کرنے والا ۔ اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی۔ مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے

(بخاری) ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:142 )

(6) عربی حدیث مبارکہ ۔وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَہَا ثَلَاثًا. ( قَالَ النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی:) اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ:اَلْمُتَعَمِّقُوْنَ الْمُشَدِّدُوْنَ فِی غیْرِمَوْضِعِ التَّشْدِیْدِ. ترجمہ حدیث مبارکہ: حضرتِ سَیِّدُناعبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ُسے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین مرتبہ ارشادفرمایا: ’’ غلوو تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ ‘‘ (امام نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :)اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاملے کی گہرائی میں پڑتے ہیں اور جہاں شدت کی حاجت نہ ہو وہاں شدت کرتےہیں ۔( کتاب:فیضان ریاض الصالحین   جلد:2 , حدیث نمبر:144)(1) عربی حدیث مبارکہ ۔قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ  عَلَيْهِ وَسَلَّمَ    ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ  وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ  وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ  مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ  (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ)ترجمہ حدیث مبارکہ ۔ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا  الله  و رسول تمام ماسواءسےزیادہ پیارے ہوں جوبندےسےصرف  الله  کے لیے محبت کرے جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔ (  کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:1 , حدیث نمبر:8 )

(2) عربی حدیث مبارکہ ۔عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ سُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ’’لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُّسْلِـمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبِ الزَّانِی وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکِ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَۃ. ‘‘(رَوَاہُ الْبُخَارِی وَمُسْلِم) ترجمہ حدیث مبارکہ :حضرت سیِّدُنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ پاک صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان (قصاص) اور (3)… اپنے دین کوچھوڑ کرجماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘ (بخاری، كتاب الديات، باب قول اللہ تعالٰى: ان النفس بالنفس...الخ، ۴/ ۳۶۱، حدیث:۶۸۷۸ ۔ مسلم، کتاب القسامة، باب ما یباح بہ دم المسلم، ص۷۱۰، حدیث:۴۳۷۵)( کتاب:شرح اربعین نوویہ(اردو) , حدیث نمبر:14 , مسلمان کے خون کی حرمت)

(3) عربی حدیث مبارکہ ۔وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ» . زَادَ مُسْلِمٌ: «وَإِنْ صَامَ وَصَلَّى وَ زَعَمَ أَنَّهُ مُسْلِمٌ» . ثُمَّ اتَّفَقَا «إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ »ترجمہ حدیث مبارکہ ۔روایت ہے حضرت ابوہریرہ سے فرماتےہیں کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی تین علامتیں ہیں مسلم نے یہ زیادتی بھی بیان کی کہ اگرچہ روزہ رکھے،نماز پڑھے،اپنے کو مسلمان سمجھے۔پھرمسلم و بخاری متفق ہوگئے کہ جب بات کرے جھوٹ بولے،وعدہ کرے تو خلاف کرے،امانت دی جائے تو خیانت کرے۔

وضاحت ۔

منافق سے اعتقادی منافق مراد ہیں،یعنی دل کے کافر زبان کے مسلم،یہ عیوب ان کی علامتیں ہیں مگر علامت کے ساتھ علامت والا پایا جانا ضروری نہیں۔کوّے کی علامت سیاہی ہے مگر ہر کالی چیزکوّا نہیں۔ یعنی یہ منافقوں کے کام ہیں۔مسلمان کوا س سے بچنا چاہئے ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:55 )

(4) عربی حدیث مبارکہ ۔عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ: اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ، فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَیَبْقٰی وَاحِدٌ، یَرْجِعُ اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ. ترجمہ حدیث مبارکہ :حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ، مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ ‘‘ ( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:104 )

( 5) عربی حدیث مبارکہ ۔وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَبْغَضُ النَّاسِ إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ. رَوَاهُ البُخَارِيُّ ترجمہ حدیث مبارکہ ۔

روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں : حرم میں بے دینی کرنے والا ۔ اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی۔ مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے

(بخاری) ( کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 , حدیث نمبر:142 )

(6) عربی حدیث مبارکہ ۔وَعَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍرَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:ہَلَکَ الْمُتَنَطِّعُوْنَ قَالَہَا ثَلَاثًا. ( قَالَ النَّوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی:) اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ:اَلْمُتَعَمِّقُوْنَ الْمُشَدِّدُوْنَ فِی غیْرِمَوْضِعِ التَّشْدِیْدِ. ترجمہ حدیث مبارکہ: حضرتِ سَیِّدُناعبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ُسے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تین مرتبہ ارشادفرمایا: ’’ غلوو تکلف کرنے والے ہلاک ہو گئے۔ ‘‘ (امام نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :)اَلْمُتَنَطِّعُوْنَ سے مراد وہ لوگ ہیں جو معاملے کی گہرائی میں پڑتے ہیں اور جہاں شدت کی حاجت نہ ہو وہاں شدت کرتےہیں ۔( کتاب:فیضان ریاض الصالحین جلد:2 , حدیث نمبر:144)


عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ الْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ مَجَالِسَ:‏‏‏‏ سَفْكُ دَمٍ حَرَامٍ، ‏‏‏‏‏‏أَوْ فَرْجٌ حَرَامٌ، ‏‏‏‏‏‏أَوِ اقْتِطَاعُ مَالٍ بِغَيْرِ حَقٍّ . حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مجالس امانت ہیں ۔ سوائے تین مجلسوں کے جن میں ناحق خون بہانے ‘ یا ناحق فحش کاری ‘ یا ناحق مال مارنے کی بات ہو ۔‘‘ مسند احمد (جلد 3)(صفحہ 342)

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَامْسِكُوا مَا بَدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ النَّبِيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ فَاشْرَبُوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا وَلَا تَشْرَبُوا مُسْكِرًا»حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ میں نے تمھیں قبروں کی زیارت سے روکا تھا ، اب تمھیں قبروں کی زیارت کرنے ( قبرستان میں جانے ) کی اجازت ہے ۔ ( اسی طرح ) میں نے تمھیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے سے منع کیا تھا ، اب تم رکھ سکتے ہو ، جب تک تمھارا دل چاہے ۔ ( اسی طرح ) میں نے تمھیں مشکیزے کے علاوہ کسی اور برتن میں نبیذ بنانے سے روکا تھا ، اب تم ہر قسم کے برتن میں نبیذ بنا سکتے ہو ، البتہ نشے والا نبیذ نہ پینا ۔‘‘ سنن ابی داؤد (جلد 7)(صفحہ 3698)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ لَا تُرَدُّ دَعْوَتُهُمْ الْإِمَامُ الْعَادِلُ وَالصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی : انصاف کرنے والا حکمران ، اور افطار کرنے تک روزہ دار ، اور مظلوم کی دعا ۔ ( مسند احمد (447)

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا يَحِلُّ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يَهْجُرَ أَخَاهُ فَوْقَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ» حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : مومن کے لیے حلال نہیں کہ تین دن سے زیادہ اپنے ( مسلمان ) بھائی سے تعلق ترک کرے ۔ کتاب صحیح مسلم ( حدیث 6535)

عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ثَلَاثَةٌ تَحْتَ الْعَرْشِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْقُرْآنُ يُحَاجُّ الْعِبَادَ لَهُ ظَهْرٌ وَبَطْنٌ وَالْأَمَانَةُ وَالرَّحِمُ تُنَادِي: أَلَا مَنْ وَصَلَنِي وَصَلَهُ اللَّهُ وَمَنْ قَطَعَنِي قَطَعَهُ اللَّهُ .حضرت عبدالرحمن بن عوف ، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں ، آپ ﷺ نے فرمایا :’’ تین چیزیں روز قیامت عرش کے نیچے ہوں گی ،1: قرآن بندوں کی طرف سے جھگڑا کرے گا ، اس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی ، اور2: امانت بھی ، جبکہ 3:رحم آواز دے گا ، سن لو ! جس نے مجھے ملایا ، اللہ اسے ملائے اور جس نے مجھے قطع کیا اللہ اسے قطع کرے ۔(مشکاۃ المصابیح)(حدیث 3433)


میرے پیارے اور محترم اسلامی بھائیو آج آپ کے سامنے وہ احادیث بیان کروں گا کہ جس میں تین کا عدد ہے

حدیث نمبر 1: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ بندے کے لیے صرف تین قسم کا مال ہےعبارت : ما اکل فافنی او لبس فابلی او اعطی فاقتنی و ما سوی ذالک فھو ذاھب و تارکہ اللناس ترجمہ : جو اس نے کھا لیا اور ختم کر دیا جو اس نے پہن لیا اور وہ بوسیدہ کر دیا اور جو اس نے صدقہ کیا اور آخرت کے لیے ذخیرہ کر لیا ان امور کے علاوہ جو بھی ہے وہ اسے لوگوں کے لیے چھوڑنے والا ہے (مسلم: کتاب الزھد والرقائق: حدیث نمبر : 2959 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 660 پر موجود ہے )

حدیث نمبر 2: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا تین صفات ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں بھی ہوں اللہ تعالی اس سے آسان حساب لے گا اور اسے اپنی رحمت سے جنت میں داخل کرے گا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم وہ تین صفات کون سی ہیں آپ نے ارشاد فرمایا،تعطی من حرمک و تعفو من ظلمک و تصل من قطعک،ترجمہ: جو تجھے محروم کرے تو اسے عطا کرو جو تجھ پر ظلم کرے اسے تو معاف کرو اور جو تجھ سے رشتہ داری کا تعلق توڑے تو اس سے تعلق جوڑو ۔حدیث نمبر 2 کا حوالہ: ((المستدرک للحاکم کتاب التفسیر: حدیث نمبر 3912اور یہ حدیث 365درس حدیث کے صفحہ نمبر 643پر موجود ہے))

حدیث نمبر 3: سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالی تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند نہیں کرتا (قیل و قال واضاعۃ المال و کثرۃ السوال) ترجمہ: فضول گفتگو کرنا، مال ضائع کرنا ،اور کثرت سے سوال کرنا۔( سورۃ النساء : 114، اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 644پر موجود ہے )

حدیث نمبر 4: نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین لوگ ایسے ہیں جن سے اللہ تعالی قیامت والے دن کلام نہیں کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا نہ ان کی طرف نظر رحمت کرے گا، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے، (وہ تین شخص یہ ہیں) بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ ، اور تکبر کرنے والا فقیر (مسلم کتاب الایمان: باب نمبر: 46 : حدیث نمبر 107 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 646 پر موجود ہے )

حدیث نمبر 5: حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا میں ایسےآدمی کو جھوٹا شمار نہیں کرتا جو لوگوں میں صلح کرانے کی غرض سے کوئی بات بناتا ہے اور اس کا مقصد سوائے صلح اور اصلاح کے کچھ نہیں ہوتا اور جو شخص لڑائی میں کوئی بات بنائے اور شوہر اپنی بیوی سے یا بیوی اپنے شوہر کے سامنے کوئی بات بنائےحدیث نمبر 5 کا حوالہ: ((ابو داؤد کتاب الادب: باب نمبر 50 : حدیث نمبر : 4921،اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 648 پر موجود ہے ))

حدیث نمبر 6 : حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین اعمال ایسے ہیں جو مرنے کے بعد بھی نفع دیتے ہیں (1) صدقہ جاریہ (2)ایسا علم جس سے لوگ نفع اٹھاتے ہیں ( 3)اور نیک اور صالح اولاد جو مرحوم کے لیے دعا کرے, حدیث نمبر 6 کا حوالہ :(مسلم کتاب الوصیۃ: باب نمبر 3 : حدیث نمبر 1631اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 650 پر موجود ہے )

حدیث نمبر 7: حدیث پاک میں ہے حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ بروز قیامت تین آدمیوں کی طرف اللہ سبحانہ و تعالی نظر رحمت نہیں فرمائے گا وہ تین آدمی یہ ہیں (1)والدین کا نافرمان(2) مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت اور(3) دیوث۔ حدیث نمبر 7 کا حوالہ: ((نسائی کتاب الزکاۃ: المنان بما اعطی: 2562اور یہ حدیث نمبر 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 652 پر موجود ہے ))

حدیث نمبر 8: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ میں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول نجات کس چیز میں ہے آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا(1) اپنی زبان پر قابو رکھو (2)بلا ضرورت گھر سے نہ نکلو (3)اور اپنے گناہوں پر آنسو بہاؤ۔ حدیث نمبر 8 کا حوالہ: (ترمذی ابواب الزھد: باب نمبر 60 : حدیث نمبر 2406 اور یہ حدیث 365 درس حدیث کے صفحہ نمبر 654 پر موجود ہے )


حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی چند اور 70 شاخیں ہیں ان سب میں اعلی یہ کہنا ہے کیا اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سب سے ادنی تکلیف دہ چیز کا راستے سے ہٹانا ہے اور غیرت بھی ایمان کی شاخ ہے۔

شرح حدیث (1)کلمہ طیبہ پڑھتے رہنا اس کی عادت ڈال دینا، مردے کو کلمے طیبہ کا ثواب پہنچانا،تیجہ وغیرہ کرنا اس حدیث سے ماخوذ ہے کہ افضل عبادت کا ثواب بھی افضل ہے یہی بخشنا چاہیے۔

( 2)پتھر واینٹ،لکڑی وغیرہ جس سے لوگ الجھن یا ٹھوکر کھائیں دور کر دینا ثواب ہے۔ایسے ہی مخلوق کو فائدہ پہنچانا بڑا ثواب ہےحتی کہ پانی پلانا، اسی لیے بعض لوگ سبیلیں لگاتے ہیں۔

( 3)غیرت سے ایمانی غیرت مراد ہے،جو گناہوں سے روک دے۔بندہ مخلوق سے ،اللہ کے رسول سے،فرشتوں سے،اللہ تعالی سے شرم کر گناہ نہ چھپ کر کریں کہ اللہ،رسول،فرشتے دیکھتے ہیں،نہ اعلانیہ کرے کہ مسلمان بھی دیکھ رہے ہیں۔نفسانی یا شیطانی غیرت مراد نہیں جیسے نماز یا غسل سے شرمانا ہے۔

مراۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح۔ جلد 1۔حدیث نمبر 5

حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ میں اسے ماں باپ اولاد اور سب لوگوں سے پیارا ہو جاؤں۔(مسلم ، بخاری)

شرح حدیث ۔آپ انس بن مالک ابن نضر انصاری خزرجی ہیں ۔ حضور کے خادم خاص ہیں دس سال صحبت پاک میں رہے،سو برس سے زائد عمر پائی،عہد فاروقی میں بصرہ چلے گئے تھے وہاں سے قریب ہی 93 ہجری میں آپ کا انتقال ہوا، بصرہ میں آخری صحابی کی وفات آپ کی ہوئی،آپ کی قبر انور زیارت گاہ خاص و عام ہے۔

بحمدللہ تعالی ہر مومن کو حضور جان و مال اور اولاد سے زیادہ پیارے ہیں۔۔ عام مسلمان بھی اولاد بدین ماں باپ کو چھوڑ دیتے ہیں،،حضور کی عزت پر جان بچھاور کر دیتے ہیں۔۔مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد 1۔۔ حدیث نمبر 7۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا منافقین کی تین علامتیں ہیں۔(1) اللہ جب بات کرے جھوٹ بولے۔(2) جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔(3) اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ جو کچھ لکھا ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور منافقین سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں نیکی کی دعوت دینے اور برائی سے منع کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین ثم امین


نبی پاکﷺ کی مبارک زندگی ہمارے لیے کامل  نمونہ ہے ۔نبی  کریم ﷺ کا  ہر ہر طریقہ وادا ایک کامل ایمان والے کیلئے دنیا و آخرت میں  نجات  کا ذریعہ ہے اگر بندہ مومن حضور ﷺکی مبارک اداؤں کو  ادا کرکے اپنی زندگی بسر کرے  تو وہ یقینا ایمان کی حقیقی مٹھاس اپنے دل میں محسوس کرے گا۔ نبی پاک ﷺ کا اپنی امتی کی تربیت فرمانے کے متعلق اب ان چیزوں کو بیان  کیا جاتا ہے جہاں سرکار ﷺ نے تین  چیزوں کی تربیت و راہنمائی ارشاد فرمائی ۔

1:-نجات دلانے اور ہلاک کر دینے والی خصلتیں: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  راوی ہیں  کہ رسو ل  اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا کہ تین(خصلتیں )نجات دلانے والی اور تین(خصلتیں )ہلاکت میں  ڈالنے والی ہیں ۔نجات دلانے والی (خصلتیں )یہ ہیں :

1:.  ظاہر و باطن میں  اللہ سے ڈرنا 

2:. خوشی و ناراضگی میں  حق بولنا 

3:. مالداری اور فقیری میں  درمیانی چال چلنا،

  ہلاکت میں  ڈالنے والی (خصلتیں )یہ ہیں : 

1:.   نفسانی خواہشوں  کی پیروی کرنا 

2:.   بخیلی کی اطاعت کرنا   

3:.  اپنی ذات پر َگھمنڈ کرنا اور یہ ان تینوں  میں  سب سے زیادہ سخت ہے۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الآداب،باب الغضب والکبر، الحدیث: 5122، ج2،ص235)

حضور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   کے اس ارشاد گرامی کا مطلب بالکل واضح ہے کہ تین خصلتیں  وہ ہیں  جو دُنیا اور آخرت کے عذابوں  سے نجات دلانے والی ہیں  اور تین خصلتیں  ایسی ہیں  جو انسان کو دنیا و آخرت دونوں  جگہوں  میں  ہلاک کردینے والی ہیں۔اللہ پاک ہمیں اچھی خصلتیں اپنانے اور بری خصلتوں سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

2:_ مرنے کے بعد ملنے والے  ثوابِ جاریہ کے بارے میں تربیت فرمانا :     حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کہا کہ رسول  اللّٰہ  عَزَّوَجَلَّ  و  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   نے فرمایا ہے کہ جب انسا ن مرجاتا ہے تو اس سے اس کے عمل کا ثواب کٹ جاتا ہے مگر تین عمل سے (کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے )

1:-  صدقہ جاریہ کا ثواب

2:-اس علم کاثواب جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں

3:_ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔(  مشکاۃ المصابیح،کتاب العلم،الفصل الاوّل، الحدیث:203، ج1،ص60 )

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ انسان جب تک زندہ رہتا ہے قسم قسم کے اعمال ِصالحہ کرتا رہتا ہے اور اس کے نیک اعمال کا ثواب ملتا رہتا ہے مگر جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے اس کے اجر و ثواب کا سلسلہ بھی کٹ جاتا ہے لیکن تین آدمی ایسے خوش نصیب ہیں  کہ مرنے کے بعد بھی ان کے اعمال کے اجر و ثواب کا سلسلہ قائم رہتا ہے اور برابر ان کی قبروں  میں  ثواب پہنچتا رہتا ہے۔

ان میں  سے پہلا شخص تو وہ ہے جو اپنی زندگی میں  کوئی ’’صدقہ جاریہ ‘‘ کر کے مرا ہو تو اگر چہ وہ مرکر قبر میں  سو رہا ہے اور کوئی عمل نہیں  کررہا ہے مگر اُس کے نامۂ اعمال میں  اس کے ’’صدقہ جاریہ ‘‘کا ثواب برابر درج ہوتا رہتا ہے۔صدقہ جاریہ جیسا  کہ مسجد بنوانا، مدرسہ بنوانا، کنواں بنوانا، مسافر خانہ بنوانایاکارخیر کے لیے کوئی جائداد وقف کردینا ۔جب تک یہ چیزیں  باقی رہیں گی برابر ان کے ثواب کا سلسلہ قائم رہے گا ۔

دوسر ا شخص و ہ ہے جو کوئی ایسا علم چھوڑ کر مرا ہوجس سے اُمَّت ِرسو لﷺ کو نفع حاصل ہوتا ہومثلًا کوئی مفید کتاب لکھ کر مرا ہویا کچھ شاگردوں  کو علم پڑھا کر مرگیا ہوتو جس طرح علم دین پڑھنے پڑھانے والوں  کوثواب ملے گا اسی طرح اس شخص کو قبر میں  بھی اجر و ثواب ملتا رہے گا۔

تیسرا شخص وہ ہے جس نے اپنی اولاد کو اچھی تعلیم و تربیت دے کر نیک اور صالح بنادیا ہو تو اس کے مرنے کے بعداس کی سب اولادجو اس کے لیے ایصال ثواب اور دعا ئے مغفرت کرتی رہے گی اس کا اجر و ثواب اس کو ہمیشہ ملتا رہے گا۔

خداوند کریم ہر مسلمان کودنیا میں  ان تینوں  اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین

3:- ایمان کی لذت و مٹھاس پانے کے متعلق تربیت فرمانا : حضرت اَنس  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے کہ حضور  صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ تین چیزیں  جس شخص میں  ہوں  وہ ایمان کی مٹھاس پائے گا 

1: جس کو  اللّٰہ  و رسول ان دونوں  کے ماسوا (سارے جہان ) سے زیادہ مَحبوب ہوں ۔

2: جو کسی آدمی سے خاص  اللہ  ہی کے لئے محبت رکھتا ہو-

3:جو اسلام قبول کرنے کے بعد پھر کفر میں  جانے کو اتنا ہی بُرا جانے جتنا آگ میں  جھونک دئیے جانے کو بُرا جانتا ہے۔(  صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حلاوۃ الایمان، الحدیث:16، ج1،ص17)

جوشخص کلمہ پڑھ کر مومن ہوگیا اور ایمان کے بعد اس میں  تین خَصْلَتیں  پیدا ہوگئیں  تو وہ شخص ایمان کی مٹھاس یعنی ایمانی لذت کا لُطف و مزہ بھی پالے گااور جس شخص میں  یہ تینوں  خصلتیں  نہیں  پیدا ہوئیں  تو وہ شخص اگرچہ صاحب ایمان تو ہوگامگر ایمان کی مٹھاس یعنی ایمان کی لذت خاص کے لطف و مزہ سے مَحروم رہے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے،  دنیا میں رہتے ہوئے قبر وحشر کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْنْ بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنْ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم


پیارے اسلامی بھائیو !  آج ہم تین چیزوں کے متعلق پڑھنے کی سعادت حاصل کریں گے احادیث کی روشنی میں جن کے ذریعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ہماری تربیت فرمائی ہے ۔

1 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : منافق کی تین علامتیں ہیں مسلم نے یہ زیادتی بھی بیان کی کہ اگر یہ روزہ رکھے، نماز پڑھے اپنے کو مسلمان سمجھے پھر مسلم بخاری متفق ہوگئے کہ 1-جب بات کرے، جھوٹ بولے، 2-وعدہ کرے تو خلاف کرے 3-امانت دی جاے تو خیانت کرے۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب الکبائر وعلامات النفاق جلد اول حدیث 48صفحہ 73)

2 حضرت انس سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا 1-اللہ ورسول تمام ماسوا سے زیادہ پیارے ہوں 2-جو بندے سے صرف اللہ کے لیے محبت کرے 3-جوکفر میں لوٹ جانا جبکہ رب نے اس سے بچالیا ایسا برا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا - (متفق علیہ) (مرآة المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان حدیث نمبر 6 صفحہ 39)

3- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کجاوہ پر تھے معاذ حضور کے ردیف تھے _ حضور نے فرمایا : اے معاذ! عرض کیا: حاضر ہوں یارسول اللہ خدمت میں،فرمایا: اے معاذ !عرض کیا حاضر ہوں خدمت میں، تیسری بار عرض کرنے پر فرمایا، ایسا کوئی نہیں جو گواہی دے کہ اللہ کےسوا معبود نہیں اور بےشک محمد اللہ کے رسول ہیں-سچے دل سے مگر اللہ اسے آگ پر حرام فرمادے گا عرض کی یارسول اللہ تو کیا میں لوگوں کو اس کی خبر دے دوں کہ وہ خوش ہو جائیں فرمایا تب تو وہ بھروسہ کر بیٹھیں گے۔پھر حضرت معاذ نےکتمان علم سے بچنے کیلئے اپنی وفات کے وقت خبر دے دی۔(مسلم بخاری،. مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح کتاب الایمان جلد اول صفحہ نمبر 51 حدیث نمبر 22)

4-حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا :لوگ پوچھ گچھ کرتے رہیں گے حتیٰ کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کوخدا نے پیدا کیا تو خدا کو کس نے پیدا کیا جب یہ کہیں تو تم کہہ دینا اللہ ایک ہے، بے نیاز ہے، نہ اس نے جنا نہ جنا گیا اور نہ کوئی اس کے برابر کا پھر اپنے بائیں طرف تین بار تھتکاردے اور مردود شیطان سے اللہ کی پناہ مانگے۔(باب فی الوسوسۃ مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر 68 ص 84)

5_حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا سےروایت ہے فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم بقدر طاقت اپنے تمام کاموں میں داہنے سے شروع فرمانا پسند کرتے تھے - 1-اپنی طھارت 2-اور کنگھی کرنے3-اور نعلین پہننے میں (مسلم بخاری) (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب سنن الوضو حدیث 368ص 266)

7-حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا : اے علی تین چیزوں میں دیر نہ لگاؤ 1-نماز جب آجائے اور 2 -جنازہ جب تیار ہوجائےاور 3-لڑکی جب اس کا ہم قوم مل جائے (ترمذی) (مرآہ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح باب تعجیل الصلوۃ حدیث 557 ص 363)

9- نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے :1-ماں باپ کو ستانے والا اور 2-دیوث اور 3- مردانی وضع بنانے والی عورت (معجم اوسط جلد 2ص43 حدیث2443 )

10-کسی مسلمان کیلئے جائز نہیں کہ تین سے زائد اپنے مسلمان بھائی سے تعلق توڑے جو تین دن سے زیادہ تعلق توڑے اسی حال میں مرجاے تو جہنم میں جائے گا (ابو داؤد کتاب الادب باب فیمن یھجر اخاہ المسلم ص 770 حدیث 4914)

اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات پہ عمل کی توفیق عطا فرمائے


پیارے پیارے اسلامی بھائیو اسلام کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات مسلمانوں کے لئے رہنمائی اور ہدایت کا ایک مکمل مجموعہ ہیں۔ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں ہمیں ایسا نمونہ ملتا ہے جو انسانیت کے لئے بہترین اصول فراہم کرتا ہے۔ اس مضمون میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تین اہم باتوں میں تعلیم کو بیان کریں گے جن کا ذکر احادیث میں ملتا ہے۔

1. *سچائی اور امانت داری کی تعلیم: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں سچائی اور امانت داری کا بہت بڑا مقام ہے۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص جھوٹ بولتا ہے، وہ نیکی نہیں کرسکتا" (صحیح بخاری: 6094)۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا کہ جھوٹ بولنا نیکی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "امانت داری ایمان کا حصہ ہے" (مسلم: 211)۔ اس قول سے واضح ہوتا ہے کہ امانت داری ایمان کی مضبوطی کا بنیادی عنصر ہے۔

2. *حقوق العباد کی پاسداری: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں دوسروں کے حقوق کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں (صحیح بخاری: 10)۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو دوسروں کے حقوق کی پاسداری کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بہترین مسلمان وہ ہے جو اپنے پڑوسی کے لئے بہترین ہو" (مسند احمد: 23489)۔ یہ قول اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اپنے پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنا چاہئے۔

3. *صبر اور شکر کی تعلیم: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں صبر اور شکر کا بہت زیادہ ذکر ملتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مسلمان کی زندگی کا ہر لمحہ خیر ہے، اگر اسے خوشی ملے تو وہ شکر کرتا ہے اور اگر مصیبت آتی ہے تو صبر کرتا ہے" (صحیح مسلم: 2999)۔ اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر اور شکر کو مومن کی زندگی کا لازمی حصہ قرار دیا ہے۔ صبر اور شکر کی یہ تعلیم ہمیں اس بات کی رہنمائی کرتی ہے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور مصائب پر صبر کریں۔ *خلاصہ:* نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنی امت کو سچائی اور امانت داری، دوسروں کے حقوق کی پاسداری، اور صبر و شکر کی اہمیت کو سمجھایا۔ یہ تین باتیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جامع تعلیمات کا حصہ ہیں جو نہ صرف مسلمانوں کے لئے بلکہ پوری انسانیت کے لئے بہترین اصول فراہم کرتی ہیں۔ ان اصولوں پر عمل کر کے ہم ایک بہتر اور پرامن معاشرے کی تشکیل کر سکتے ہیں۔