محمد معین عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن خطیب چشتی دھولکہ احمدآباد ہند)
.jpg)
اللہ پاک نے دین حق کی رہنمائی اور پاسداری کے لئے لاکھوں
انبیاء کرام علیہم السّلام مبعوث فرمائے انہیں میں سے وہ جن کی اشارے سے چاند دو
ٹکڑے ہوا، وہ جن کو خاتم المرسلین کہا جاتا ہے، ہمارے مکی مدنی آقا محمدِ مصطفیٰ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جو ہر دم اپنی امت کی یاد میں تڑپتے رہے جنہوں نے
پیدا ہوتے وقت بھی اپنی امت کو یاد کرتے ہوئے رَبّ ھب لی
اُمَّتَی کہا اور وصالِ ظاہری کے وقت بھی رَبّ ھب لی
اُمَّتَی کی دعا کی ایسے کریم نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
امت یعنی ہمیں چاہئے کہ ہم حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امتی ہونے پر
فخر کریں اور خدا کا شکر کریں اور ایسے اعمال کریں جو اللہ پاک اور اس کے پیارے
محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو محبوب ہوں اور حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کو بجا لائیں ۔
آئیے کچھ مسلمانوں پر حقوقِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ملاحظہ کرتے ہیں: ۔(1)
ایمان بالرسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان لانا اور جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں صدق دل سے سچا ماننا ہر ہر امتی پر فرض عین ہے۔
کیونکہ ہر مؤمن کا عقیدہ ہے کہ رسول پر ایمان لائے بغیر ہرگز ہرگز کوئی بھی شخص
مسلمان نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ اللہ پاک نے قراٰن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13) اس آیت میں نہایت وضاحت کے ساتھ اللہ کے ساتھ ساتھ رسول پر
ایمان نہ لانے والے کو کافر قرار دیا ہے اور اس کے لئے سزا بھی بیان کردی ہے ۔
(2) اتباع سنت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی کرنا
ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے کیونکہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سنتوں کی اتباع میں ہی اللہ پاک کی محبت ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰن مجید میں
ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم
فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت
فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)
(3) اطاعتِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و فرمانبرداری بھی ہر امتی پر رسولُ اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ہے کہ ہر امتی ہر حال میں آپ کے ہر حکم کی
اطاعت کرے اور آپ جس بات کا حکم دیں اس کی خلاف ورزی کرنے کا تصور بھی نہ کرے
کیونکہ آپ کی اطاعت اور آپ کے احکام کے آگے سرِ خم تسلیم کر دینا ہر مسلمان کے لئے
اشد ضروری اور زندگی کا ایک اہم حصہ ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا
اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے
ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول
کی اطاعت کرو ۔(پ 5 ، النسآء : 59)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اطاعت میں ہی اطاعتِ الٰہی ہے جیسا کہ اللہ پاک قراٰن مجید میں ارشاد
فرماتا ہے: مَنْ یُّطِعِ
الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚترجمۂ
کنزالایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا۔(پ5،النسآء:80)
(4) تعظیمِ رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: امت پر حقوقِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں سے نہایت ہی اہم اور ضروری حق یہ ہے کہ
ہر مسلمان حضور آخر الزماں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ سے نسبت اور تعلق
رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم توقیر کرے اور ادب بجالائے اور کبھی بھی ہرگز ہرگز
ان کے شان میں بے ادبی نہ کرے کیونکہ یہ ایمان کا بنیادی اور اہم حصہ ہے اس کے
بغیر ایمان کامل تو کیا ایمان کی ابتدا بھی نہیں ہوسکتی اللہ پاک قراٰن مجید میں
ارشاد فرماتا ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ
وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو
اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)
(5) صلاۃ و سلام بارگاہِ رسالتِ مآب محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم : ہر مسلمان پر زندگی میں ایک بار حضور سیدِ عالم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ طیبہ پر درود پڑھنا فرض ہے۔ جیسا کہ خالقِ کائنات کا
ارشاد ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر
درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)
درود شریف کی تو اتنے فضائل و برکات ہیں کہ ان کے بارے میں
باقاعدہ مصنفین و مؤلفین ( Writer's) نے مستقل مفصل و مطول کتابیں تصنیف و تالیف کی ہیں جن کا مختصر
ذکر آپ امیر اہل سنت حضرت علامہ مولانا الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کے
رسالے ، ضیاء درود و سلام پڑھ سکتے ہیں۔ خداوند قدوس ہم تمام مسلمانوں کو زیادہ سے
زیادہ درود شریف پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام حقوق مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم صدق دل سے اور خلوص و للہیت کے ساتھ بجالانے کی توفیق رفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین۔
محمد ندیم عطّاری (درجہ دورۃ الحدیث شریف جامعۃُ
المدینہ فیضانِ عطار (تاجپور ہند)
.jpg)
اللہ ربّ العزت کا کروڑہاں کروڑ احسان عظیم ہے کہ اس نے
ہمیں اپنے پیارے حبیب حبیبِ لبیب احمدِ مجتبیٰ محمدِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا کیونکہ ہمارا وجود حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے صدقہ سے ہے اگر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات نہ
ہوتی ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیدائش سے ظاہری وصال تک ہم گناہ گار امت
کو یاد فرماتے رہے اور بروزِ قیامت بھی اپنی امت کی شفاعت کرنے کے لئے اللہ پاک کی
بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں گے، تو کبھی اپنی امتی کی نیکیوں کے پلے بھاری کر رہے ہوں
گے، تو کبھی اپنی امت کو پل صراط سے سلامتی کے ساتھ گزار رہے ہوں گے، تو کبھی حوض
کوثر پر جام کوثر سے سرفراز فرما رہے ہوں گے اور بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے بہت سارے احسانات ہیں جن کا شمار کرنا ممکن نہیں ۔ اور بیشک ان بے شمار
احسانات کے کچھ تقاضے جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور مطالبہ احسان ہے اور اسی
تقاضے کو حقوق کہتے ہیں ۔(1) حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت و رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم من جانب اللہ لائے اسے صدق دل سے تسلیم کیا جائے
۔یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر کیونکہ آپ کا احسان تمام
انسانوں بلکہ تمام مخلوقات پر ہے ۔(2) امتی پر یہ بھی حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر حضور پُر
نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صدق دل سے محبت کرے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے ۔
(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ
اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا ہے ۔(4) رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم مان کر اس پر عمل کیا جائے جس چیز کا حکم فرمائے اسے
بجالائے اور جو فیصلہ فرمائے اسے قبول کیا جائے اور جس چیز سے روکیں اس سے روکا جائے
۔( 5) حضور پُرنور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود شریف پڑھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے کہ اس کے
ذریعے ہم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے مزید در مزید قرب رفع درجات اور
اعلائے منزلت کی دعا کرکے آپ کے احسانات کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔
پیارے اسلامی بھائیو! وہ نبی ہوکر امتی امتی کہے تو ہم امتی
ہوکر کیوں نہ یا رسولُ اللہ یا رسولُ اللہ کہے ہم پر ضروری ہے کہ ہم آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے صدق دل سے محبت کرنے کے ساتھ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اتباع بھی کریں اور روزانہ کے معمولات میں درود شریف پڑھنے کو بھی شامل
کریں ۔
اللہ کریم ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد توفیق عطّاری ( درجۂسادسہ جامعۃُالمدینہ
فیضانِاولیاء،احمد آباد،ہند)
.jpg)
ہمارا ایمان اور قراٰن کا فرمان ہے کہ اللہ پاک نے ہمیں سب
سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے، ہمارا تو وجود بھی حضور
سید دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقہ سے ہے کہ اگر آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔ رحیم و کریم رسول صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی ولادت مبارکہ سے وصال مبارک تک مسلسل رحمت و شفقت کے دریا
بہاتے رہے اس طرح کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لبہائے مبارکہ پر امت کی
یاد تھی۔ آرام دہ راتوں میں جب سارا جہاں محوِ استراحت (سویا) ہوتا، اس وقت حبیبِ
کبریا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنا بستر مبارک چھوڑ اللہ پاک کی بارگاہ میں
ہم گناہگاروں کے لئے دعائیں فرمایا کرتے۔ یقیناً پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات بےشمار ہیں۔ انہی بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جن
کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور
مطالبۂ احسان ہے۔
(1)پہلا حق یہ ہےکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نبوت
و رسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ اللہ پاک کی طرف سے لائے ہیں۔ اسے صدق دل سے تسلیم کیا جائے۔
اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَنْ
لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)
(2)نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ
اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضا اور حکم خداوندی ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ
لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان:تم
فرمادو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت
فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔(پ3،آل عمرٰن:31)محبوب رب العالمین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا
جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے (دین) کے تابع نہ ہو جائے۔(شرح السنه للبغوی،
1/98)
(3)امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و
مولا، سیدالمرسلین، رحمةللعالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سچی محبت کرے
کہ آپ کی محبت روحِ ایمان، جانِ ایمان اور اصلِ ایمان ہے۔
نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں
سے کسی شخص کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا، جب تک میں اسے اس کے باپ، اس کی
اولاد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(صحيح البخاری، 1/12، حدیث:15)
(4)ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہےکہ دل وجان ، روح وبدن اور
ظاہر وباطن ہر اعتبار سے نبی مکرم، رسول محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
اعلی درجے کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا
ادب و احترام کیا جائے۔ وَ
تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رسول کی تعظیم و توقیر
کرو۔(پ26،الفتح:9) اسی ادب وتعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخوں اور بےادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ
کرنا ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا
کلام و تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے۔
(5)حضور پرُنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پاک
پڑھنا بھی ایمان کا تقاضا ہے۔ ربالعالمین فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر
درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)علامہ احمد سخاوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر درود پڑھنے کا مقصد اللہ پاک کے حکم کی پیروی کر کے اس
کا قرب حاصل کرنا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حق ادا کرنا ہے۔(القول
البديع، ص 83)
محمد مختار الحیدری (دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضانِ
اولیا احمد آباد گجرات ہند)
.jpg)
الله پاک نے انسان کے ذمے دو طرح کے حقوق رکھے ہیں۔ ایک تو
وہ حقوق ہے جو الله پاک کی طرف سے بندے کے اوپر عائد ہوتے ہیں۔ جیسے نماز، روزہ،
حج، زکاۃ۔ دوسرے وہ حقوق جو ایک بندے کے دوسرے بندے پر عائد ہوتے ہیں۔ پہلے والے
حقوق کو حقوق الله کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دوسرے کو حقوقُ العباد سے جانا جاتا
ہے۔ حقوقُ العباد کے حوالے سے اسلام میں جو مقام واہمیت حاصل ہو ہے وہ کسی پر مخفی
نہیں ہے۔ قراٰنِ کریم و احادیثِ نبویہ میں اس کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اور
اس سلسلے میں غفلت برتنے والے کو موجب غضب قرار دیا گیا ہے۔ اور ان حقوقُ العباد میں
سے جو حقوق انبیائے کرام کے اسلام نے بیان کیے ہیں اس کا مقام و مرتبہ سب سے برتر
ہے خصوصاً رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کیونکہ ہمارا وجود بھی رسولِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی سے ہے۔ قراٰن، ایمان، خدا کا
عرفان، بسیار نعمتیں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہی سے نصیب ہوئیں۔
یقیناً رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات اس قدر وسیع ہیں جن
کا احاطہ انسانی عقل سے ماوراء ہے۔ انہی احسانات کے کچھ تقاضے ہیں۔ جنہیں امت پر
حقوقِ مصطفی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان مطالبہ احسان
ہے۔ اب میں قراٰن و احادیث کی روشنی میں رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے حقوق جو امتِ مسلمہ پر ہیں۔ ان میں سے پانچ تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔
(1) سب سے پہلا حق تو یہ ہے کہ ان کی رسالت و نبوت پر ایمان
رکھا جائے۔ اور جو کچھ آپ لے کر آئے ہیں اس کو صدق دل سے تسلیم کیا جائے یہ فقط
مسلمان پر ہی نہیں بلکہ پوری امت کے لیے ہیں۔ کیونکہ آپ کی رسالت تمام کے لیے عام
ہے۔ تو اس پر اقرار کرنا فرضِ عین ہے۔ اب جو اقرار کر لیں وہ مسلمان ہے اور اس کے
لیے بشارتِ عظمیٰ ہے اور جو اس سے اعراض کرے وہ کافر ہے اور رب جبار وقہار کے غضب
کا حقدار ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ
اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)
(2) اور انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم وتکریم کرنا بھی امت پر ضروری ہے اور ان سے نسبت
رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے مثلاً نعلینِ پاک، موئے مبارک خصوصاً
مدینہ منورہ، و اہل بیت، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔ ارشاد ربانی ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ
وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو
اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)امام اہل سنت اس آیت کے تحت
فرماتے ہیں: پھر جب تک نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی تعظیم نہ ہو عمر
بھرعبادتِ الہٰی میں گزارے سب بیکارو مردود ہے، بہتیرے (یعنی بہت سے) جوگی اور
راہب ترکِ دنیا کرکے، اپنے طور پر ذکرو عبادتِ الہٰی میں عمر کاٹ دیتے ہیں بلکہ ان
میں بہت وہ ہیں کہ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللہ کا ذکر سیکھتے اور ضربیں لگاتے ہیں مگر اَزانجاکہ مُحَمَّدٌ رسولُ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم نہیں
،کیا فائدہ؟ اصلاً قابل ِقبول بارگاہِ الہٰی نہیں ۔ اللہ ایسوں ہی کو فرماتا ہے: وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى
مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا(۲۳) جوکچھ اعمال انہوں نے کئے ، ہم نے سب برباد کر دیے۔ (
تمہید الایمان، ص 53)
(3) تیسرا سب سے اہم ترین حق یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سب سے آخری نبی تسلیم کیا جائے ۔ یہ دینِ اسلام کا ایسا
بنیادی عقیدہ ہے کہ جس کا انکار کرنے والا یا اس میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ کرنے
والا کافر و مرتد دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ اور آخری نبی ہونا قطعی یقینی
بابِ عقائد میں سے ہے ۔ یہ قطعیَّت قراٰن و حدیث و اِجماعِ امت سے ثابت ہے ۔
چنانچہ باری تعالیٰ کا فرمان: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕترجَمۂ
کنزُالایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول
ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے۔(پ22،الاحزاب:40)اس کے تحت امام اہل سنت فرماتے ہیں:
یونہی مُحَمَّدٌ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَ ماننا ان کے زمانے میں خواہ ان کے بعد کسی نبی ٔجدید کی بِعثَت کو
یقینا محال وباطل جاننا فرضِ اَجل وجزء اِیقان ہے۔ ’’ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ‘‘ نص ِقطعی قراٰن ہے، اس کا منکر نہ منکر بلکہ شبہ کرنے والا، نہ شاک کہ
ادنیٰ ضعیف احتمال خفیف سے توہّم خلاف رکھنے والا، قطعاً اجماعاً کافر ملعون مُخَلَّد
فِی النِّیْرَان (یعنی ہمیشہ کے لئے جہنمی) ہے، نہ ایسا کہ وہی کافر ہو
بلکہ جو اس کے عقیدہ ملعونہ پر مطلع ہو کر اسے کافر نہ جانے وہ بھی کافر، جو اس کے
کافر ہونے میں شک و تَرَدُّد کو راہ دے وہ بھی کافر بَیِّنُ
الْکَافِرْ جَلِیُّ الْکُفْرَانْ (یعنی واضح کافر
اور اس کا کفر روشن) ہے۔( فتاویٰ رضویہ،15 رسالہ: جزاء اللہ عدوہ باباۂ ختم
النبوۃ، ص 630) یاد رہے خاتم النبیین کا معنی آخری نبی ہی ہے اس پر امت کا اجماع
ہے چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ انا خاتم النبیین لا نبی بعدی ترجمہ : میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
(سنن أبي داود،4/98 ،حدیث: 4254)
(4) امت مسلمہ پر یہ بھی حق ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے دنیا و مافیہا سے بڑھ کر محبت کرے کہ ان کی محبت مدارِ نجات ،جانِ
ایمان، روحِ ایمان ،اصلِ ایمان ہے۔ ارشاد ربانی ہے: قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ
اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم
فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور
تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور
تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ
پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں
دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24) اس کے تحت اعلیٰ حضرت امامِ اہلسنّت شاہ امام احمد رضا
خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :اس
آیت سے معلوم ہوا کہ جسے دنیا جہان میں کوئی معزز، کوئی عزیز، کوئی مال، کوئی چیز
اللہ و رسول سے زیادہ محبوب ہو، وہ بارگاہِ الٰہی سے مردود ہے ،اسے اللہ پاک اپنی
طرف راہ نہ دے گا ،اسے عذابِ الٰہی کے انتظار میں رہنا چاہیے، وَالْعِیَاذُ
بِاللہِ تَعَالٰی۔ تمہارے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے
ہیں :تم میں کوئی مسلمان نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں باپ، او لاد اور سب
آدمیوں سے زیادہ پیارانہ ہوں۔(بخاری، کتاب الایمان، حدیث 14 / تمہید الایمان 55)
(5) پانچواں حق یہ ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی مدح وثنا، تعریف و توصیف نعت و منقبت و درود شریف پڑھنا بھی مطالبہ
احسان و مقتضائے ایمان ہے۔ اور ان کے لیے اقبال منزلت، رفع درجات کی دعا کر کے
محسن اعظم کا شکریہ ادا کر سکتے ہیں۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ
مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)ترجَمۂ کنز
الایمان : بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر
اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56) اعلیٰ حضرت امامِ اہل سنت احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انتہائی
عقیدت و محبت کے ساتھ بارگاہِ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں درود و سلام
کا ہدیہ پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
کعبہ کے بدرُالدُّجیٰ تم پہ
کروڑوں درود
طیبہ کے شمس الضُّحیٰ تم پہ
کروڑوں درود
مصطفٰی جانِ رحمت پہ لاکھوں سلام
شمعِ بزمِ ہدایت پہ لاکھوں سلام
(حدائق بخشش)
اللہ ہمیں حقوقِ
مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب
العالمین
حافظ غلام حسن ( ناظم مدرسۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم
ہزاری باغ جھارکھنڈ ہند)
.jpg)
اللہ پاک نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے اس دارِ فانی میں
پیدا کیا تو اس پر کچھ حقوق رکھ دئیے تاکہ یہ بندہ ان حقوق کی پاسداری کر کے اس کے
ذریعے قربِ الٰہی حاصل کر سکے نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احسانات
تمام مخلوق و کائنات پر ہیں خصوصاً اس امت پر تو بے شمار و لا تعداد احسانات ہیں ۔
آج ہر طرف حقوق و فرائض کے لئے آواز بلند کرنے والوں کا
تانتا بندھا ہوا ہے ۔ہر طبقہ ،جماعت اور فرد اپنے حقوق کی بازیابی اور بحالی کے
لیے سراپا احتجاج ہے ۔ کہیں انسانی حقوق کی پامالی پر شور و غوغا ہے تو کہیں حقوقِ
نسواں کے علم برداروں کا عجیب و غریب مطالبہ ۔ لیکن ان سب کے باوجود بحیثیت مسلمان
کبھی ہم نے اس بات پر غور کیا کہ اس محسنِ انسانیت کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟ جس نے
نوعِ انسانی کو غلامی سے چھڑایا، مظلوم و بے بس عورتوں کو حقوق و مراعات سے نوازا
،جس نے آدابِ زندگی بھی سکھائے اور اصول بندگی سے بھی آگاہ کیا،جس نے غلاموں، مزدوروں
اور غریبوں سمیت جانوروں کو بھی وہ تحفظات عطا کئے جس کی نظیر پیش کرنی مشکل ہی
نہیں نا ممکن ہے ۔ یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہم انہیں کے نام لیوا سپاس گزار
اور منت کش ہوتے ہوئے ان کی ذات والا صفات کو فراموش کر بیٹھے ان کی تعلیمات و
ہدایات کو بھلا بیٹھے نہ ہمیں انکے نام کا پاس رہا، نہ نسبت کا لحاظ ۔ نہ انکی
قربانیاں یاد رہیں نہ جانثاروں کا خیال ۔المیہ یہ ہے کہ ہم رنگینی حیات اور فانی
زندگی کے حصار سے باہر نہ آ سکے اپنے بندھے ٹکے نظام العمل سے وقت نہ پا سکے اپنی
روز مرہ مصروفیت سے دامن نہ چھڑا سکے ۔ آج امت کے کتنے افراد ایسے ہیں جنہیں نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گھرانہ اور خانوادہ معلوم ہے ۔ کتنے ایسے ہیں جو
بناتِ طاہرات کے نام جانتے ہیں نہ ازواج مطہرات کی صحیح تعداد ۔بلکہ بہت سے تیرہ
بخت و بدقسمت ایسے بھی ہیں جنہیں کلمہ طیبہ اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا نامِ نامی بھی ٹھیک سے یاد نہیں۔
المختصر: آج مناسب محسوس ہوا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے حقوق و آداب سے متعلق کچھ اہم معروضات پیش کیے جائیں ،تاکہ ہمیں معلوم ہو سکے
کہ انسانیت کے سب سے عظیم محسن اور ہمارے رہبرِ کامل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ہم پر کیا حقوق ہیں ؟
پہلا حق: حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
نبوت و رسالت آیاتِ واضحہ اور معجزاتِ ظاہرہ کے ذریعے ثابت ہو گیا تو محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا اور ان تمام احکام کی جن کو حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حق تعالیٰ کی طرف سے لیکر تشریف لائے ان سب کی تصدیق کرنا
فرض اور لازم ہو گیا۔ رب نے فرمایا: فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ النُّوْرِ
الَّذِیْۤ اَنْزَلْنَاؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ(۸) ترجمہ کنزالایمان: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول اور
اس نور پر جو ہم نے اتارا اور اللہ تمہارے کاموں سے خبردار ہے۔(پ28،التغابن:8)
وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو ایمان نہ
لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی
ہے۔( پ26 ، الفتح : 13)
مذکورہ بالا آیات سے معلوم ہوا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانا فرض اور واجب ہے۔ ایمان باللہ بھی ایمان بالرسول
کے بغیر معتبر نہیں اور جس شخص کا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر
ایمان نہ ہو وہ کافر ہی ہے جس کے لئے جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔
دوسرا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرنا۔ محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کو اللہ کی طرف سے نبی اور رسول مان لینے اور آپ کی لائی ہوئی شریعت کے ہر
ہر جز کو برحق اور منجانبِ اللہ ہونے کی تصدیق کرنے کے بعد رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا یہ بھی حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا
جائے ،جس چیز کا فیصلہ فرمائیں اسے قبول کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے رک جائے۔
اللہ پاک نے فرمایا:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا
تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان
والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن سنا کر اسے نہ پھرو۔(پ9، الانفال :20)در
اصل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے اور آپ کے
ارشادات پر عمل کرنا قراٰنِ پاک پر عمل کرنے کے مثل ہی ہے۔
تیسرا حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کی اتباع نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و
ایمان کا تقاضا اور حکمِ خداوندی ہے ۔ آسمانِ ہدایت کے روشن ستارے یعنی صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم اور سلف صالحین اپنی زندگی کے ہر قدم پر حضور پر نور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقے پر چلنے کو مقدم رکھتے اور اتباعِ نبوی سے ہرگز
انحراف نہ کرتے ۔ اس اتباع میں فرض و واجب امور بھی ہیں اور مؤکدہ و مستحب چیزیں
بھی ۔ بزرگانِ دین دونوں چیزوں میں ہی کامل اتباع کیا کرتے تھے اسی لئے کتبِ
احادیث و سیرت میں صرف فرائض و واجبات کا بیان ہی نہیں بلکہ سنن و مستحبات اور
آداب و معاملات و معاشرت کا بھی پورا پورا بیان ملتا ہے ۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں، مبارک عادتوں،
خصلتوں کی اتباع کے بارے قراٰنِ پاک میں ارشاد باری ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان : اے
محبوب تم فرما دو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہو جاؤ
اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔(پ3،آل
عمرٰن:31)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: تم میں کوئی کامل
مؤمن نہیں ہو سکتا یہاں تک کہ اس کی خواہش میری لائی ہوئی (شریعت اور احکام) کے
تابع نہ ہوجائے ۔( مشکوٰة شریف)
چوتھا حق : حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہر امتی پر لازم ہے۔ چنانچہ اللہ
پاک کا ارشاد ہے : قُلْ اِنْ كَانَ
اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ
عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ
كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ
رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ
بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) ترجمۂ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں
تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ۔(پ10،التوبہ : 24)آیت
مبارکہ میں اس بات کی صاف دلیل ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
محبت کاملہ ہر امتی پر لازم ہے جو اولاد ،والدین ،خاندان، رشتہ دار، مال و دولت، تجارت
مکانات سب کی محبت پر غالب ہے ۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا
جب تک میں اس کی اولاد اور اس کے والدین اور تمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو
جاؤں۔
حدیث پاک سے بھی ثبوتِ ایمان کے لئے آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم سے کامل محبت کا فرض ہونا ظاہر ہے ۔ محبت کے درجات مختلف ہو سکتے
ہیں جس کی وجہ سے ایمان کے درجات بھی مختلف اور متفاوت ہو سکتے ہیں لیکن مطلوب یہی
ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری پوری محبت دل میں جاگزیں ہو۔
پانچواں حق: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و تکریم: ایک انتہائی اہم حق یہ
بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبیِّ مکرم، رسول ِ
محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اعلیٰ درجے کی تعظیم و توقیرکی جائے بلکہ
آپ سے نسبت و تعلّق رکھنے والی ہر چیزکا ادب و احترام کیا جائے۔ جیسے نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ملبوسات، نعلین شریفین، مدینہ طیبہ، مسجد ِ
نبوی، گنبد خضریٰ، اہل ِ بیت،صحابہ کرام اور ہر وہ جگہ جہاں پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے پیارے قدم مبارک لگے، ان سب کی تعظیم کی جائے۔ ادب و
تعظیم میں یہ بھی داخل ہے کہ اپنی زبان و بدن اور اقوال و افعال میں امورِ تعظیم
کو ملحوظ رکھے جیسے نام ِ مبارک سنے تو درود پڑھے، سنہری جالیوں کے سامنے ہو تو
آنکھیں جھکا لے، اسی ادب و تعظیم کا ایک نہایت اہم تقاضا یہ ہے کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گستاخوں اور بے ادبوں کو اپنے جانی دشمن سے بڑھ کر
ناپسند کرے، ایسوں کی صحبت سے بچے، ان کی کتابوں کو ہاتھ نہ لگائے، ان کا کلام و
تقریر نہ سنے بلکہ ان کے سائے سے بھی دور بھاگے اور اگر کسی کو بارگاہِ نبوی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ادنیٰ سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یا
استاد یا پیر یا عالم ہویا دنیوی وجاہت والا کوئی شخص ہو ،اُسے اپنے دل و دماغ سے
ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و تکریم
ہر امتی پر فرض ہے۔ چنانچہ ارشاد باری ہے :اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ
نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ
وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-وَ تُسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۹)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا
تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیر کرو
اور صبح و شام اللہ کی پاکی بولو ۔( پ 26، الفتح : 9،8)اس آیت سے معلوم ہوا کہ
اللہ پاک کی بارگاہ میں حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم اور
توقیر انتہائی مطلوب اور بے انتہاء اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہاں اللہ پاک نے اپنی
تسبیح پر اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم و توقیر کو مُقَدَّم
فرمایا ہے اور جو لوگ ایمان لانے کے بعد آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
تعظیم کرتے ہیں ان کے کامیاب اور بامُراد ہونے کا اعلان کرتے ہوئے اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے: فَالَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْۤ
اُنْزِلَ مَعَهٗۤۙ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۱۵۷) ترجمۂ کنزُالایمان: تو وہ
جو اس پر ایمان لائیں اور اس کی تعظیم کریں اور اسے مدد دیں اور اس نور کی پیروی
کریں جو اس کے ساتھ اُترا وہی بامراد ہوئے۔( پ9، الاعراف :157)
دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ
آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ
چلا جاتا ہے تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک
شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالَم ہی نرالا ہے کہ ا س کی تعظیم اور اس کی
بارگاہ میں ادب واحترام کے اصول و قوانین نہ اس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق
میں سے کسی اور نے بنائے ہیں بلکہ اس کی تعظیم کے احکام اور اس کے دربار کے آداب
تمام شہنشاہوں کے شہنشاہ، تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے
والے ربِّ کریم نے نازل فرمائے ہیں ۔
الغرض مسلمان کی شان اور کمال یہ ہے کہ وہ آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کے ساتھ ساتھ محبت، اطاعت، تعظیم و تکریم بھی دل
سے بجا لائے۔ دعا ہے کہ اللہ پاک امت کے ہر فرد کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے حقوق ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین
.jpg)
پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں جو نعمتیں ملی ہیں وہ تمام پیارے
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی کا صدقہ ہیں، آپ کے ہم پر بےشمار احسانات،
لہٰذا ہم امتیوں پر بھی لازم ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق ادا
کریں، چند حقوق ذیل میں لکھے گئے ہیں، ملاحظہ کیجئے:
(1)ایمان لانا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اٰمِنُوْا بِاللّٰهِ
وَ رَسُوْلِهٖ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان
والو ایمان رکھو اللہ اور اللہ کے رسول پر۔(پ 5 ، النسآء
: 136)حضرت قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ آپ علیہ السّلام کی نبوت اور
رسالت کی تصدیق کرے اور جو کچھ آپ لے کر آئے اس کی تصدیق کرے اور اس کا دل اس کی
زبان کی موافقت کرے۔ (الشفا،2/3)
(2)اطاعتِ رسول:اللہ پاک فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت
کرو ۔ (پ 5، النسآء : 59) اسی طرح حدیثِ پاک میں ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی اُس نے اللہ پاک کی اطاعت کی اور جس
نے میری نافرمانی کی اُس نے اللہ پاک کی نافرمانی کی۔(بخاری، 2 / 297، حدیث : 2957)
(3)سنتوں کی اتباع: اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ
یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ﴾ترجمۂ کنزُ العِرفان: اے حبیب! فرمادو کہ اے لوگو!اگر تم اللہ سے محبت کرتے
ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے
گا۔ (پ3،اٰل عمرٰن: 31)اسی طرح اللہ پاک ایک اور مقام پر ارشاد فرماتا ہے: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ ﴾ ترجمۂ کنزُ العِرفان: بیشک
تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے۔ (پ21، الاحزاب: 21) محمد بن
علی ترمذی فرماتے ہیں: اَلاُسوۃُ فِی الرَّسُوْل سے مراد آپ کی اقتدا کرنا ، سنتوں
کی اتباع کرنا اور قول و فعل میں آپ علیہ السّلام کی مخالفت نہ کرنا ہے۔ (الشفا،2/6)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم پر میری سنت اور (میرے بعد) میرے
ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے، ان (کے طریقے) کو مضبوطی سے تھام لو۔(
ابو داؤد،4/267 حدیث:4607)
(4) محبتِ رسول:حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی کامل مؤمن نہ ہوگا جب تک میں اسے اس کے ماں
باپ، اولاد اور سب آدمیوں سے زیادہ پیارا نہ ہوں۔ (بخاری، 1/17، حدیث:15) اسی طرح
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص میں تین باتیں ہوں گی
اس نے ایمان کی حلاوت پائی (1)اللہ پاک اور اس کا
رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے زیادہ محبوب ہو۔ (2)اللہ پاک ہی کے لئے
کسی سے محبت کرے۔ (3) کفر کی طرف لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسے آگ میں ڈالے جانے
کو برا جانتا ہے۔(بخاری، 1 / 17،حدیث: 16)
(5)درود و سلام پڑھنا:جو نبی اپنی اُمّت کے لئے دعائیں کرتا رہا اور کسی موقع پر نہ بھولا تو امتیوں
کو بھی چاہئے کہ اس نبی علیہ السّلام کی یاد کثرت سے کریں ،درود و سلام بھی حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی یاد کا ایک اہم ذریعہ ہے اللہ پاک فرماتا
ہے:﴿ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ
یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا
عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک اللہ اور اس کے فرشتے
نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (پ22،الاحزاب:56)
پیارے اسلامی بھائیو!درود شریف پڑھنے کے بہت فضائل ہیں۔حضور
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب
تر وہ ہوگا جس نے دنیامیں مجھ پرزیادہ درودِ پاک پڑھے ہوں گے۔ (ترمذی، 2 / 27، حدیث
: 484)
محترم قارئین! ہم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
چند حقوق پڑھے لیکن ان کے علاوہ آپ کے اور بہت حقوق ہیں، ان کے مطالعے کے لئے کتبِ
سیرت کی طرف رجوع کریں ۔
اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق بھی ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مزمل حسین عطّاری (درجۂ خامسہ ،جامعۃُ المدینہ اشاعت
الاسلام، ملتان پاکستان)

اے عاشقانِ رسول اگر رسولِ
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرت کا مطالعہ کیا جائےتو اس بات کا اندزہ
ہوگا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمارے لئے کتنی تکالیف اور مصائب برداشت کئے ۔ جب آپ نے
طائف والوں کو دعوتِ حق دی تو انہوں نے آپ کی دعوت کو جھٹلایا، آپ کے پیچھے
اوباش لڑکے لگادئیے، یہاں تک کہ آپ پر پتھروں کا برساؤ بھی کیا گیاجس سے آپ کے
قدمینِ مبارکہ لہو لہان ہوگئے، لیکن آپ نے ان مصیبتوں کو برداشت کیا،اب ہم پر بھی
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکے کچھ حقوق بنتے ہیں ان حقوق کو علامہ
قاضی عیاض مالکی رحمۃُ اللہِ علیہنے شفاءشریف میں اور دیگر علماء نے اپنی کتابوں
میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1)ایمان بِالرّسول: مسلمان ہونے کے لئے خدا کی توحید اور
رسول کی رسالت دونوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اس کے بغیر وہ ہرگز مؤمن نہیں
ہوسکتا،کیونکہ اللہ پاک نے اس بات کی خود قراٰن میں وضاحت فرمادی ہے اللہ رب العزت
فرماتا ہے:﴿ وَ مَنْ لَّمْ
یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ
سَعِیْرًا(۱۳) ﴾ترجَمۂ کنز
الایمان : اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لئے
بھڑکتی آگ تیار کر رکھی ہے۔ (پ26،الفتح:13)
وہ کہ اُس در کا ہوا خلقِ خدا
اُس کی ہوئی
وہ کہ اس در سے پھرا اللہ اس
سے پھر گیا
(2)اتباعِ سنتِ رسول: حضور کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے
کہ ان کی سنّت کی اتباع کی جائے یعنی سنّتِ مبارکہ پر عمل کیا جائے، نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے میری سنت کو زندہ کیا اس نے مجھ
سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(ترمذی،4/309،حدیث:2687)
(3)اطاعتِ رسول:ہر اُمّتی پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ حضورِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین کی پیروی کرے کیونکہ حضور کی اطاعت
کا حکم ہمیں خود اللہ پاک نے دیا ہے: ﴿ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ ﴾ترجَمۂ کنز الایمان:حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔
( پ 5 ،النسآء:59)
(4)درود و سلام
پڑھنا: ہر مسلمان پر ضروری ہے کہ وہ حضور کی ذات پر درود و سلام بھی پڑھے کیونکہ
اس کا حکم خود ربِّ کریم نے قراٰنِ کریم میں دیا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى
النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا
تَسْلِیْمًا(۵۶)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے
ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو (پ22،الاحزاب:56)
نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد فرمایا: مَنْ صَلّٰى
عَلَيَّ وَاحِدَةً صَلَّى الله عَلَيْهِ عَشْرًا جس نے مجھ پر ایک بار دُرود پاک پڑھا اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا
ہے۔(مسلم،ص172،حدیث:912)
(5) قبرِانور کی زیارت:صحابۂ کرام کے مقدس دَور سے تمام
مسلمان قبرِ انور کی زیارت کرتے آئے ہیں اور قبرِ انور کی زیارت کرنا باعثِ برکت
وشفاعت سمجھتے آئے ہیں کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے ارشاد
فرمایا: مَنْ زَارَ قَبْرِي وَجَبَتْ لَهٗ شَفَاعَتِي یعنی جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لئے میری شفاعت
واجب ہوگئی۔(دار قطنی،2/351،حدیث:2669)
بروزِ حشر شفاعت کریں گے چُن
چُن کر
ہر اِک غلام کا چہرہ حضور
جانتے ہیں
اللہ ربُّ العزت سے دعا ہے کہ ہمیں حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّمسے سچی پکی محبت عطا فرمائے، آپ کے فرامین کے مطابق زندگی
گزارنے،آپ کی ذات پر کثرت سے درود و سلام بھیجنے اور آپ کے فضائل ومحاسن بیان
کرتے رہنے کی توفیق وسعادت عطا فرمائے اور بروزِ قیامت آپ کی شفاعت نصیب
فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد مہتاب رضا (دورۂ حدیث جامعۃُ المدینہ فیضان اولیا
احمد آباد گجرات ہند)

پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! امت محمد یہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم یعنی ہم سب سے آخری امت ہیں۔ ہم سے پہلے بھی کئیں امتیں اللہ پاک نے
دنیا بھیجی لیکن انہوں نے اپنے نبی کا انکار کیا اور اللہ پاک کی نافرمانی کی جس
کی وجہ سے اللہ پاک نے ان پر عذاب نازل فرما کر ہلاک کردیا اور اللہ پاک نے ان
قوموں کا قراٰن میں تذکرہ فرمایا تاکہ امت محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اسے پڑھے اور اسے عبرت حاصل کر کے اللہ پاک کی نافرمانی سے بچتے رہیں۔ آئیں ہم ان
میں سے چند قوم کے بارے میں سنتے ہیں:۔حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم: حضرت
نوح علیہ السّلام نے چالیس یا پچاس سال کی عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا حضرت نوح
علیہ السّلام نے قوم کو ایک خدا کی طرف بلایا اور عذابِ خدا سے ڈراتے ہوئے شرک سے
منع فرمایا، تو قوم نے کہا کہ ہم تو آپ کو اپنے ہی جیسا آدمی دیکھتے ہیں، تمہاری
ہم پر کوئی فضیلت نہیں سمجھتے اور ہم آپ کو جھوٹا خیال کرتے ہیں۔ کافروں نے یہاں
تک کہہ دیا کہ جس عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو، لے آؤ۔ آپ نے اپنی قوم کو نو سو پچاس
سال دعوت دی۔ دعوت پر صرف اسّی لوگ مسلمان ہوئے۔ اس کے بعد اللہ پاک نے کشتی بنانے
کا حکم فرمایا اور چند نشانیاں بیان فرما دی۔ نوح علیہ السّلام نے علامت ملاحظہ
فرمایا تو کشتی میں اپنے ساتھیوں اور ہر جنس سے ایک جوڑا نر اور مادہ کو لے کر سوار
ہوئے اور قوم ہلاک کر دی گئی۔ کشتی عذابِ الہی ختم ہونے کے بعد جودی پہاڑ پر ٹھہر
گئی۔ طوفان کے بعد آپ علیہ السّلام ساٹھ برس دنیا میں رہے۔ ایک ہزار سال کی عمر
میں آپ نے وفات پائی۔ ( القراٰن الکریم مع صراط الجنان سورہ ہود آیت،25تا 43)
حضرت صالح علیہ
السّلام کی قوم: حضرت صالح علیہ السّلام کو قومِ ثمود طرف بھیجا گیا۔ حضرت
صالح علیہ السّلام نے انہیں ایک اللہ پاک کی عبادت کرنے کا حکم دیا۔ قوم نے کہا تم
ہمیں ہمارے آباء کے معبودوں کو عبادت سے منع کرتے ہو۔ قوم نے معجزہ طلب کیا۔ حضرت
صالح علیہ السّلام نے دعا کی تو پتھر سے اونٹنی پیدا ہوئی۔ آپ نے ارشاد فرمایا : اسے زمین میں
چرنے دو اور کوئی تکلیف نہ پہنچاؤ ورنہ دنیا ہی میں گرفتار ِعذاب ہوجاؤگے اور
مہلت نہ پاؤ گے۔ لیکن قوم نے اونٹنی کی ٹانگوں کی رگیں کاٹ ڈالی حضرت صالح علیہ
السّلام نے فرمایا تین دن انتظار کرو۔ تین دن بعد ظالموں کو چنگھاڑ یعنی سخت چیخ
کی آواز نے آلیا جس سے قوم ہلاک کر دی گئی ۔(سورہ ہود آیت: ۶۱61تا 67)
حضرت شعیب علیہ
السّلام کی قوم: حضرت شعیب علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا گیا جو
مدین میں رہتے تھے۔ شعب علیہ السّلام نے فرمایا اے میری قوم! اللہ پاک کی عبادت کرو۔ اس کے سوا
کوئی عبادت کے لائق نہیں اور ناپ تول میں انصاف کرو گھٹا کر نہ دو قوم نے کہا کیا
تمہاری نماز یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آبا کے دین کو چھوڑ دیں حضرت شعیب علیہ
السّلام نے انہیں قوم ہود اور قومِ صالح پر آئے ہوئے عذاب سے ڈرایا تو قوم نے کہا:
ہم تمہیں کمزور دیکھتے ہیں۔ اگر تمہارا کنبہ نہ ہوتا تو تمہیں پتھراؤ کرتے۔ حضرت
شعیب علیہ السّلام نے فرمایا تم اپنا کام کرو میں اپنا کام کرتا ہوں۔ معلوم ہو
جائے گا کہ رسوا کرنے والا عذاب کس پر آتا ہے؟ پھر اللہ کا عذاب آیا اور ظالموں کو
چنگھاڑ نے آ لیا۔ (سورہ ہود آیت: 84تا94 )
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں! آپ نے سنا کہ کئیں قومیں
انبیاء علیہ السّلام کی بات نہ ماننے اور خدا کی نافرمانیوں کی وجہ سے ہلاک کر دی
گئی۔ اب غور کریں کہ کیا ہم اللہ پاک کے احکامات پر عمل اور کیا ہم نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کر رہے ہیں? اگرہم اللہ پاک کے احکامات
کی نافرمانی اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سنتوں کو چھوڑ رہے ہیں
تو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اللہ پاک ہمیں اس کے احکامات اور اس کے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سنتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کیف عطّاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن خطیب
چشتی دھولکہ احمدآباد ہند)

تمام تعریفیں اللہ پاک ہی کے لئے جس نے زمین اور آسمان پیدا
فرمائے اور اپنا پیارا کلام کلامِ ربانی قراٰن مجید کو اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل فرمایا اور اس میں عبرت کے لئے پچھلی قوموں کے قصے
بیان کئے اور کہیں کافروں کے لئے آخرت میں عذاب کی وعیدیں بیان کیں تو کہیں ایمان
والوں کے لیے آخرت میں ملنے والی بشارتیں سنائیں۔
آئیں قراٰن مجید میں انبیاء کرام علیہم السّلام اور ان کی
قوموں کا تذکرہ پڑھتے ہیں :۔
حضرت نوح علیہ السّلام: حضرت
نوح علیہ السّلام دنیا میں چوتھے نبی اور کفار کی طرف بھیجے جانے پہلے رسول ہیں۔
طوفانِ نوح کے بعد چونکہ آپ علیہ السّلام سے ہی نسلِ انسانی چلی اس لئے آپ آدمِ
ثانی کہلاتے ہیں ، آپ علیہ السّلام نے کئی سو سال تک اپنی قوم کو خفیہ، اعلانیہ ہر
طرح سے تبلیغ فرمائی اور اس دوران قوم کی طرف سے پہنچنے والی اذیتوں کو خندہ
پیشانی سے برداشت کیا اور صبر و تحمل کا مظاہرہ فرمایا ، عرصہ دراز تک قوم کو نصیحت
کرنے کے باوجود صرف 80 افراد نے ایمان قبول کیا اور جب قوم کے ایمان لانے اور راہِ
راست پر آنے کی کوئی امید باقی نہ رہی تو آپ علیہ السّلام نے ان کے خلاف دعا کی جو
قبول ہوئی اللہ پاک نے اہل ایمان کو کشتی میں سوار کر کے نجات بخشی اور کافروں کو
طوفان کے عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا ۔جس کو اللہ پاک نے قراٰن مجید ہوں بیان
کیا: كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ
قَوْمُ نُوْحٍ فَكَذَّبُوْا عَبْدَنَا وَ قَالُوْا مَجْنُوْنٌ وَّ ازْدُجِرَ(۹) فَدَعَا
رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ(۱۰) فَفَتَحْنَاۤ اَبْوَابَ السَّمَآءِ بِمَآءٍ
مُّنْهَمِرٍ٘ۖ(۱۱) وَّ فَجَّرْنَا
الْاَرْضَ عُیُوْنًا فَالْتَقَى الْمَآءُ عَلٰۤى اَمْرٍ قَدْ قُدِرَۚ(۱۲) وَ حَمَلْنٰهُ عَلٰى
ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّ دُسُرٍۙ(۱۳) تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَاۚ-جَزَآءً لِّمَنْ كَانَ كُفِرَ (۱۴) وَ
لَقَدْ تَّرَكْنٰهَاۤ اٰیَةً فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ(۱۵) ترجمۂ کنزالایمان: ان سے
پہلے نوح کی قوم نے جھٹلایا تو ہمارے بندے کو جھوٹا بتایا اور بولے وہ مجنون ہے
اور اُسے جھڑکا۔تو اس نے اپنے رب سے دعا کی کہ میں مغلوب ہوں تو میرا بدلہ لے۔ تو ہم نے آسمان
کے دروازے کھول دئیے زور کے بہتے پانی سے۔اور زمین چشمے کرکے بہا دی تو دونوں پانی
مل گئے اس مقدار پر جو مقدر تھی۔ اور ہم نے نوح کو سوار کیا تختوں اور کیلوں والی پر ۔کہ
ہماری نگاہ کے روبرو بہتی اس کے صلہ میں جس کے ساتھ کفر کیا گیا تھا ۔ اور ہم نے اسے
نشانی چھوڑا تو ہے کوئی دھیان کرنے والا ۔(پ27،القمر:9تا15)
حضرت ہود علیہ
السّلام: حضرت نوح علیہ السّلام کے برسوں بعد اللہ پاک ایک قوم پیدا
کی جسے اس زمانے میں قومِ عاد کہا جاتا ہے یہ لوگ صحت مند ، طاقتور ، بڑے قد کے
اور لمبی عمروں والے تھے لیکن ایمان و عمل کے اعتبار سے پستی کے شکار تھے۔ چنانچہ
بتوں کی پوجا کرنا ، لوگوں کا مذاق اڑانا، دوسروں کو تنگ کرنا تھا۔ تو اللہ پاک نے
اس قوم کی ہدایت کے لئے اس قوم میں ہود علیہ السّلام کو رسول بناکر ان کی طرف
بھیجا ، آپ علیہ السّلام نے انہیں وحدانیت الٰہی پر ایمان لانے، بتوں کی پوجا چھوڑ
دینے، صرف اللہ پاک کی عبادت کرنے اور برے اعمال ترک کرنے کی دعوت دی۔ لیکن بہت
تھوڑے افراد نے آپ علیہ السّلام کی تصدیق کی اور اکثر نے تکذیب و مخالفت کی اور بے
بنیاد الزامات لگانے پر کمر باندھ لی اور آپ کو دیوانہ بول کر آپ کا مذاق اڑانے
لگے ۔ جب ہود علیہ السّلام کی پیہم تبلیغ کے با وجود یہ لوگ ایمان نہ لائے اور کفر
و شرک ، انکارِ حق اور سرکشی پر ڈٹے رہے تو ان پر تند و تیز آندھی کی صورت میں
عذاب الہٰی آیا۔ یہ آندھی سات راتیں اور آٹھ دن لگاتار چلتی رہی، یہاں تک کہ قومِ
عاد کو تباہ و برباد کر کے نشانِ عبرت بنا دیا۔ اللہ پاک اس کو قراٰنِ مجید میں
یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ
هُوْدًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ
غَیْرُهٗؕ-اَفَلَا تَتَّقُوْنَ(۶۵) قَالَ الْمَلَاُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ
قَوْمِهٖۤ اِنَّا لَنَرٰىكَ فِیْ سَفَاهَةٍ وَّ اِنَّا لَنَظُنُّكَ مِنَ
الْكٰذِبِیْنَ(۶۶) قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ
مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۶۷) اُبَلِّغُكُمْ
رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ(۶۸)
اَوَ عَجِبْتُمْ اَنْ جَآءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلٰى رَجُلٍ مِّنْكُمْ
لِیُنْذِرَكُمْؕ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ قَوْمِ
نُوْحٍ وَّ زَادَكُمْ فِی الْخَلْقِ بَصْۜطَةًۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ
لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۶۹) قَالُوْۤا اَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهٗ
وَ نَذَرَ مَا كَانَ یَعْبُدُ اٰبَآؤُنَاۚ-فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ
مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷۰) قَالَ قَدْ وَ قَعَ عَلَیْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ رِجْسٌ
وَّ غَضَبٌؕ-اَتُجَادِلُوْنَنِیْ فِیْۤ اَسْمَآءٍ سَمَّیْتُمُوْهَاۤ اَنْتُمْ وَ
اٰبَآؤُكُمْ مَّا نَزَّلَ اللّٰهُ بِهَا مِنْ سُلْطٰنٍؕ-فَانْتَظِرُوْۤا اِنِّیْ مَعَكُمْ
مِّنَ الْمُنْتَظِرِیْنَ(۷۱) فَاَنْجَیْنٰهُ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗ بِرَحْمَةٍ
مِّنَّا وَ قَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ مَا كَانُوْا
مُؤْمِنِیْنَ۠(۷۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عاد کی طرف ان
کی برادری سے ہود کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی بندگی کرو اس کے سوا تمہارا
کوئی معبود نہیں تو کیا تمہیں ڈر نہیں اس کی قوم کے سردار بولے بے شک ہم تمہیں بیوقوف
سمجھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹوں میں گمان کرتے ہیں کہا اے میری قوم مجھے بے
وقوفی سے کیا علاقہ(تعلق) میں تو پروردگار عالم کا رسول ہوں۔ تمہیں اپنے رب کی
رسالتیں پہنچاتا ہوں اور تمہارا مُعَتَمد خیر خواہ ہوں۔ اور کیا تمہیں اس کا
اَچَنبھا(تعجب)ہوا کہ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آئی تم میں کے ایک
مرد کی معرفت کہ وہ تمہیں ڈرائے اور یاد کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جانشین کیا
اور تمہارے بدن کا پھیلاؤ بڑھایا تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو کہ کہیں تمہارا بھلا
ہو۔ بولے کیا تم ہمارے پاس اس لیے آئے ہو کہ ہم ایک اللہ کو پوجیں اور جو ہمارے
باپ دادا پوجتے تھے انہیں چھوڑ دیں تو لاؤ جس کا ہمیں وعدہ دے رہے ہو اگر سچے ہو۔
کہا ضرور تم پر تمہارے رب کا عذاب اور غضب پڑ گیا کیا مجھ سے خالی ان ناموں میں
جھگڑ رہے ہو جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لیے اللہ نے ان کی کوئی سند نہ
اُتاری تو راستہ دیکھو میں بھی تمہارے ساتھ دیکھتا ہوں۔ تو ہم نے اُسے اور اس کے ساتھ والوں کو اپنی
ایک بڑی رحمت فرما کر نجات دی اور جو ہماری آیتیں جھٹلاتے تھے ان کی جڑ کاٹ دی اور
وہ ایمان والے نہ تھے۔(پ8،الاعراف:65تا 72)
حضرت صالح علیہ
السّلام: قومِ عاد کے بعد قومِ ثمود قائم ہوئی اللہ پاک نے انہیں بھی
طویل عمریں اور کثیر نعمتیں عطا فرمائی تھیں۔ لیکن یہ بھی آخر کار اللہ پاک کی
نافرمانیوں اور کفر و شرک میں مبتلا ہو گئے۔ ان کی اصلاح و رہنمائی کے لئے اللہ
پاک نے حضرت صالح علیہ السّلام کو رسول بنا کر بھیجا آپ علیہ السّلام نے انہیں
توحید کو ماننے، صرف اللہ کی عبادت کرنے اور بتوں کی پوجا چھوڑ دینے کی دعوت دی۔
تو چند لوگ ایمان لے آئے اور اکثریت کفر و شرک پر ہی قائم رہی۔ قوم کے مطالبے پر
حضرت صالح علیہ السّلام نے اونٹنی کی صورت میں معجزہ بھی دکھایا۔ لیکن وہ لوگ
ایمان نہ لائے۔ حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں اونٹنی کے متعلق چند احکامات دئیے
جن سے کچھ عرصے بعد قوم نے رو گردانے کرلی اور موقع پاکر اونٹنی کو قتل کردیا۔ پھر
ایک گروہ نے حضرت صالح علیہ السّلام کے گھر پر حملہ کر کے انہیں قتل کرنے کی سازش
کی تو نتیجے میں وہ سازشی گروہ عذابِ الہٰی میں ہلاک ہو گیا۔ جبکہ منکرین تین دن
کے بعد عذابِ الہٰی کے شکار ہوگئے
۔جسے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید یوں بیان فرمایا ہے: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ-قَالَ یٰقَوْمِ
اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ
مِّنْ رَّبِّكُمْؕ-هٰذِهٖ نَاقَةُ اللّٰهِ لَكُمْ اٰیَةً فَذَرُوْهَا تَاْكُلْ
فِیْۤ اَرْضِ اللّٰهِ وَ لَا تَمَسُّوْهَا بِسُوْٓءٍ فَیَاْخُذَكُمْ عَذَابٌ
اَلِیْمٌ(۷۳) وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ جَعَلَكُمْ خُلَفَآءَ مِنْۢ بَعْدِ
عَادٍ وَّ بَوَّاَكُمْ فِی الْاَرْضِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْ سُهُوْلِهَا قُصُوْرًا
وَّ تَنْحِتُوْنَ الْجِبَالَ بُیُوْتًاۚ-فَاذْكُرُوْۤا اٰلَآءَ اللّٰهِ وَ لَا
تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(۷۴) قَالَ الْمَلَاُ
الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْا مِنْ قَوْمِهٖ لِلَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا لِمَنْ
اٰمَنَ مِنْهُمْ اَتَعْلَمُوْنَ اَنَّ صٰلِحًا مُّرْسَلٌ مِّنْ
رَّبِّهٖؕ-قَالُوْۤا اِنَّا بِمَاۤ اُرْسِلَ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۷۵) قَالَ الَّذِیْنَ اسْتَكْبَرُوْۤا اِنَّا بِالَّذِیْۤ
اٰمَنْتُمْ بِهٖ كٰفِرُوْنَ(۷۶) فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ
رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ
الْمُرْسَلِیْنَ(۷۷) فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ
جٰثِمِیْنَ(۷۸) فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ
رِسَالَةَ رَبِّیْ وَ نَصَحْتُ لَكُمْ وَ لٰكِنْ لَّا تُحِبُّوْنَ النّٰصِحِیْنَ(۷۹)
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ثمود کی طرف
ان کی برادری سے صالح کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی
معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی یہ اللہ کا ناقہ
ہے تمہارے لیے نشانی تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی زمین میں کھائے اور اسے برائی سے
ہاتھ نہ لگاؤ کہ تمہیں دردناک عذاب آلے گا۔ اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا
اور ملک میں جگہ دی کہ نرم زمین میں محل بناتے ہو ۔اور پہاڑوں میں مکان تراشتے ہو
تو اللہ کی نعمتیں یاد کرو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اس کی قوم کے تکبر
والے کمزور مسلمانوں سے بولے کیا تم جانتے ہو کہ صالح اپنے رب کے رسول ہیں بولے وہ
جو کچھ لے کر بھیجے گئے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔ متکبر بولے جس پر تم ایمان لائے
ہمیں اس سے انکار ہے۔ پس ناقہ کی کوچیں(قدم) کاٹ دیں اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی
کی اور بولے اے صالح ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو اگر تم رسول ہو تو اُنہیں
زلزلہ نے آلیا تو صبح کو اپنے گھروں میں اوندھے رہ گئے۔ تو صالح نے ان سے منہ پھیرا
اور کہا اے میری قوم بے شک میں نے تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچادی اور تمہارا بھلا
چاہا مگر تم خیر خواہوں کے غرضی(پسند کرنے والے) ہی نہیں۔(پ8،الاعراف:73تا 79)
خاتمُ الانبیاء سیدُ
المرسلین محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : سید الانبیاء احمدِ مجتبیٰ حبیبِ خدا محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم وہ عظیم ہستی ہیں جن کی سیرت اور اوصاف کا چند صفحات میں ذکر ممکن نہیں
بلکہ اس کے لئے ہزارہا صفحات بھی ناکافی ہیں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے
زندگیا ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ
گئے
پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی
پورا نہ ہوا
محمدِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ پاک کے
آخری نبی اور سب سے افضل ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے چالیس سال کی
عمر میں نبوت کا اعلان فرمایا اور تین سال پوشیدہ طور پر تبلیغ اسلام کا فریضہ
انجام دیتے رہے اور چوتھے سال آپ علانیہ طور پر دینِ اسلام کی تبلیغ اور شرک و بت
پرستی کی کھلم کھلا برائی فرمانے لگے۔ جس کی وجہ سے کفار آپ کی مخالفت پر کمر بستہ
ہو گئے اور پھر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شہید تو نہ کر سکے لیکن طرح
طرح کی تکالیف اور آپ کے کاہن ، جادو گر ، شاعر ، مجنون ہونے کا پروپیگنڈہ کرنے
لگے۔ کفار آپ کے راستوں میں پتھر اور نوکیلے کانٹے بچھاتے، کبھی آپ پر پتھر
پھینکتے، تو کبھی آپ کو گالی دیتے، تو کبھی آپ کے ساتھ ساتھ غریب مسلمانوں پر بھی
ظلم و ستم کرتے، لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم صبر و تحمل اور احتیاط فی
الدین سے کام لیتے رہے۔ کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگو کے لئے رحمت
بناکر بھیجے گئے تھے اسی لئے کافروں پر عذابِ الہٰی نازل نہ ہوا۔ جیسا کہ اللہ پاک
قراٰن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں
نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔) آخر کار لوگ آپ کی امانت اور آپ کے صبر و
تحمل کو دیکھ کر جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے اور کفر و شرک کا سد باب ہونے
لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے ہر کونے میں پرچمِ اسلام لہرانے لگا ۔ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور آپ کی امت کا تذکرہ قراٰن کی روشنی میں کیا ہی کریں
کیونکہ پورا قراٰنِ کریم ہی آپ کی شان میں نازل ہوا ہے ۔
پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے کہ اللہ پاک نے قوموں کی
اصلاح و ہدایت کے لئے کتنے انبیاء علیہم السّلام کو بھیجا لیکن پوری قوم میں سے
کچھ ہی ایمان لاتے تھے اکثریت کفر و شرک پر ڈٹی رہتی تھی۔ جس کی وجہ ان پر عذابِ
الہٰی نازل ہوا۔ لیکن ہمارے مکی مدنی آقا محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم دونوں جہاں کے لئے رحمت بنا کر بھیجے گئے، اسی وجہ سے اللہ پاک ہم پر بھی
اپنا عذاب نازل نہیں فرماتا۔ ورنہ ہم نے تو ہر وہ کام کر رکھا ہے جس کام کی وجہ سے
پچھلی قومیں عذابِ الہٰی سے ہلاک و برباد ہوگئیں۔ تو ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے
گناہوں سے توبہ کر کے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کریں اور خدا کا شکر ادا کریں کہ اس
نے ہمیں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت میں پیدا فرمایا۔
اللہ پاک ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سچی
محبت عطا فرمائے ۔اٰمین یا رب العالمین۔
حافظ مزمل عطّاری (مدرس فیضان آن لائن اکیڈمی فیضان
مدینہ ملتان پاکستان)

مقصد بعثتِ انبیائے کرام : بعثت یعنی بھیجنا۔ ظہورِ نبوت کو بعثت کہا جاتا ہے۔انبیا نبی کی جمع ہے نبی اس
انسان کو کہتے ہیں جسے اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لئے وحی بھیجی ہو۔ حضرت آدم علیہ السّلام
سے لے کر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السّلام
تشریف لائے سب کو اللہ پاک نے اس لئے بھیجا تا کہ وہ لوگوں کو اللہ پاک کی عبادت
اور وحدانیت کی طرف بلائیں اور غیر اللہ کی عبادت سے روکیں۔ اس کے علاوہ اللہ پاک نے مخلوق کی رہنمائی کے لئے
ان کی طرف انبیا اور
رسولوں کو بھیجا۔ ان پر کتابیں نازل فرمائیں۔ تمام لوگوں پر ان کو فضیلت بخشی اور
ان میں بعض کو بعض پر
فضیلت عطا فرمائی۔ قراٰنِ پاک میں ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍۘ ترجمۂ
کنزالعرفان: یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پرفضیلت عطا فرمائی ۔(پ3، ، البقرۃ:253)نبیوں میں سب سے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السّلام
اور سب سے آخری حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں۔ کچھ انبیائے کرام کا
ذکر قراٰنِ پاک میں آیا ہے کچھ کا نہیں۔ جن کا ذکر قراٰن میں آیا ہے ان میں سے نام
درج ذیل ہیں۔
(1) حضرت صالح علیہ السّلام
اور ان کی قوم کا ذکر: اللہ نے قراٰن
میں کچھ یوں فرمایا: وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ
صٰلِحًاۘ- (پ8،الاعراف:73)
(2) حضرت آدم علیہ السّلام
: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ
الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا (پ1،البقرۃ:31)
(3) حضرت ابراہیم
علیہ السّلام: وَ اِذِ ابْتَلٰۤى
اِبْرٰهٖمَ رَبُّهٗ بِكَلِمٰتٍ فَاَتَمَّهُنَّؕ (پ1، البقرۃ:124)
(4) حضرت نوح علیہ السّلام
: اِنَّ اللّٰهَ
اصْطَفٰۤى اٰدَمَ وَ نُوْحًا (پ3،آل
عمرٰن:33)
(5) حضرت اسماعیل
علیہ السّلام : وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى
اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ (پ1،البقرۃ:125)
(6) حضرت اسحاق علیہ
السّلام : وَ اِسْحٰقَ اِلٰهًا
وَّاحِدًاۖ- (پ1،البقرۃ:133)
(7) حضرت بعقوب علیہ
السّلام: وَ وَصّٰى بِهَاۤ
اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ (پ1، البقرۃ: 132
)
(8) حضرت یوسف
علیہ السّلام : اِذْ قَالَ یُوْسُفُ
لِاَبِیْهِ (پ12،یوسف:4)
(9) حضرت موسیٰ علیہ
السّلام : وَ اِذْ وٰعَدْنَا
مُوْسٰۤى اَرْبَعِیْنَ لَیْلَةً (پ1،البقرۃ:51)
(10) حضرت هارون علیہ السّلام : وَ هٰرُوْنَ
(پ6،النسآء:163)
(11) حضرت
شعیب علیہ السّلام : وَ
اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ (پ8،الاعراف:85)
(12) حضرت لوط
علیہ السّلام : (پ12،ھود:77)
(13) حضرت ھود
علیہ السّلام : وَ اِلٰى عَادٍ
اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ (پ8،الاعراف:65)
(14) حضرت
داؤد علیہ السّلام : وَ
قَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ وَ اٰتٰىهُ اللّٰهُ الْمُلْكَ وَ الْحِكْمَةَ (پ2،البقرۃ:251)
(15) حضرت سلیمان
علیہ السّلام : وَ مَا كَفَرَ
سُلَیْمٰنُ وَ لٰكِنَّ الشَّیٰطِیْنَ كَفَرُوْا (پ1،البقرۃ:102)
(16) حضرت
ایوب علیہ السّلام : وَ
اَیُّوْبَ (پ6،النسآء:163)
(17) حضرت زکریا
علیہ السّلام: وَّ كَفَّلَهَا زَكَرِیَّاؕ (پ3،اٰل عمرٰن:37)
(18) حضرت یونس
علیہ السّلام : وَ یُوْنُسَ (پ6، النسآء:163)
(19،20،21) حضرت یحیٰ ، عیسیٰ ، الیاس علیہم السّلام : وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ
الصّٰلِحِیْنَۙ(۸۵) (پ7،الانعام:85)
(22) حضرت
ادریس علیہ السّلام: وَ
اِدْرِیْسَ (پ17،الانبیا:85)
(23) حضرت ذَو
الکفل علیہ السّلام: وَ ذَا
الْكِفْلِؕ (پ17،الانبیا:85)
( 24) حضرت عزیر
علیہ السّلام : وَ قَالَتِ
الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ ﰳابْنُ اللّٰهِ (پ10،التوبۃ:30)
(25) حضرت
الیسع علیہ السّلام : وَ
الْیَسَعَ (پ7،الانعام:86)
(26) حضرت
محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ (پ26،الفتح:29)
بعض انبیا کی قوموں کے نام: حضرت موسی علیہ السّلام کو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا،
حضرت هود کو قومِ عاد کی طرف، حضرت صالح کو قومِ ثمود کی طرف، حضرت لوط کو قوم لوط
کی طرف، حضرت اسحاق علیہ السّلام کو اہل کنعان کی طرف، حضرت شعیب اور عیسیٰ علیہما
السّلام کو اہل مدین کی طرف بھیجا گیا۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں تمام انبیائے
کرام سے سچی پکی محبت عطا فرمائے، ان کی سیرت کو پڑھنے اور پڑھ کر اس کے مطابق
زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
یوں تو سارے نبی محترم ہیں مگر سرورِ انبیا تیری کیا بات ہے۔
محمد شبیر رضا (درجۂ سابعہ، مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ فیصل آباد پاکستان)

الله پاک نے انسان کو پیدا
فرمایا تو انسان کی راہِ راست کا انتظام بھی فرمایا تاکہ قیامت کے دن انسان عذر نہ
بنا سکے، لہٰذا وقتاً فوقتاً خوشخبری دینے اور ڈر سنانےوالے انبیائے کرام علیہم
السّلام کو لوگوں کی ہدایت کیلئے مبعوث فرمایا: چنانچہ خود ہی ارشاد فرماتا ہے:﴿رُسُلًا مُّبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ لِئَلَّا
یَكُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌۢ بَعْدَ الرُّسُلِؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ
عَزِیْزًا حَكِیْمًا(۱۶۵)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: رسول خوشخبری دیتے اور ڈر سناتے کہ رسولوں کے بعد اللہ کے یہاں لوگوں
کو کوئی عذر نہ رہے اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ6،النسآء:165)
انبیائےکرام علیہم الصّلوٰۃُوالسّلام کو مختلف اقوام کی طرف
رسول بنا کر بھیجا گیا جن میں سے بعض کا تذکرہ قراٰن نے قوموں کے نام اور بعض کا
ان کے علاقوں کے نام کے ساتھ کیا ہےجبکہ بعض اقوام کا ذکر ان کےسرداروں کے نام سے،
بعض کا ان کی تعداد اور بعض کا ان کے انبیا کی طرف نسبت کر کے ذکر فرمایاہے۔آیئے
قراٰنِ پاک میں ذکر ہونے والی اقوام اور ان کے انبیائے کرام علیہم الصّلوٰۃُ والسّلام
کے بارے میں پڑھتے ہیں:
(1)حضرت ھود علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اِلٰى عَادٍ
اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور عاد کی طرف ان کی برادری سے ہود کوبھیجا۔(پ8،الاعراف:65)
(2)حضرت صالح علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اِلٰى
ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح
کو بھیجا۔(پ8،الاعراف:73)
(3)حضرت شعیب علیہ السّلام کی قوم: ﴿وَ اِلٰى مَدْیَنَ
اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور
مَدیَن کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا۔ (پ8،الاعراف:85)
(4)حضرت لوط علیہ السّلام کی قوم: ﴿ كَذَّبَتْ قَوْمُ
لُوْطٍۭ بِالنُّذُرِ(۳۳)﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: لوط کی قوم نے رسولوں کو جھٹلایا۔ (پ27،القمر:33)
(5)حضرت نوح علیہ السّلام کی قوم: ﴿ لَقَدْ
اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: بیشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا۔(پ8،الاعراف:59)
(6) حضرت یونس علیہ
السّلام کی قوم: ﴿ وَ اَرْسَلْنٰهُ
اِلٰى مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَۚ(۱۴۷) ﴾ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے اسے لاکھ آدمیوں کی طرف بھیجا
بلکہ زیادہ۔(پ23، الصّٰفّٰت:147)
(7)حضرت موسیٰ علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ لَقَدْ
اَرْسَلْنَا مُوْسٰى بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡىٕهٖ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں
کے ساتھ فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف بھیجا۔(پ25،الزخرف:46)
(8)حضرت عیسیٰ علیہ السّلام کی قوم: ﴿ وَ اِذْ قَالَ
عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ
اِلَیْكُمْ ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور یاد کرو جب عیسٰی بن مریم نے کہا
اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں۔ (پ28،الصف:6)
(9)حضور نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی قوم: ﴿ قُلْ یٰۤاَیُّهَا
النَّاسُ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ جَمِیْعًا﴾ترجمۂ کنزالعرفان: تم فرماؤ: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہوں۔
(پ9،الاعراف:158)
دیگر انبیا کو خاص قوم یا علاقے کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ
آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام لوگوں کی طرف مبعوث فرمایا گیا ۔پھر
ان میں سے بعض لوگ انبیاکی نافرمانی کے سبب ہلاک ہوئے اور بعض لوگ انبیا کی پیروی
کے سبب فلاح پاگئے۔الله تعالیٰ ہمیں فلاح پانے والوں میں سے بنائے اور روزِ قیامت
سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شفاعت سے حصہ عطا فرمائے۔ اٰمین
آج رات مدنی چینل پر ہونےوالے ہفتہ وار اجتماع میں نگران
پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری بیان فرمائیں گے

عاشقان
رسول کے دلوں کو محبتِ رسول صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
سے سیراب کرنے اوران کے اندر خوفِ خداپیدا کرنے والی دینی تحریک دعوت اسلامی کے
زیر اہتمام آج دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائیگا جن
میں مبلغین دعوتِ اسلامی و اراکین شوریٰ سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔
تفصیلات
کے مطابق عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی سے مدنی چینل پر براہ راست نشر ہونے
والے ہفتہ وار اجتماع میں رات 8:30 بجے نگران پاکستان مشاورت و رکن شوریٰ حاجی
محمد شاہد عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
اس کے
علاوہ عثمانیہ مسجد عبد اللہ گوٹھ مین نیشنل ہائے وے نزد رزاق آباد پولیس ٹریننگ
سینٹر کراچی میں رکن شوریٰ حاجی مولانا عبد الحبیب عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ
فیروز پور روڈ کاہنہ نو لاہور میں رکن شوریٰ حاجی یعفور رضا عطاری، مدنی مرکز
فیضان مدینہ میر پور خاص میں رکن شوریٰ حاجی فضیل رضا عطاری اور جامع مسجد فیضان
جیلان کلفٹن کراچی میں رکن شوریٰ حاجی محمد رفیع عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں
گے۔
تمام
عاشقان رسول سے اپنے اپنے قریبی مقامات پر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت
کرنے کی درخواست ہے۔