ملازمت ایک اہم امرہے جو کسی کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ اس امر میں مخصوص حقوق اور ذمےداریاں ہوتی ہیں۔ ملازمت کے حقوق کی پامالی نے معاشرت میں بہت سی مسائل پیدا کیے ہیں لیکن ان حقوق کو اگر اچھے انداز میں اپنایا جائے تو یہ معاشرے میں بہترین ترقی کا سبب ہے ملازمت کے حقوق کی اہمیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں ان حقوق کی تشہیر کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کسی بھی قسم کی زیادہ کمی اور ناانصافی برتری کو روکا جاسکےاور ایک بہترین معاشرہ تشکیل پائے سب سے پہلے ملازم ہونا کیسا چاہتے اس بارے میں قرآن مجید میں اللہ پاک نے مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی ہے، ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّ خَیْرَ مَنِ اسْتَاْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْاَمِیْنُ(۲۶)

ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک بہتر نوکر وہ جو طاقتور امانت دار ہو۔(پ20، القصص:26)

(1) ملازم میں یہ خصوصیت ہو کہ وہ طاقتور اور ایماندار ہو: ملازم ایسا ہو کہ وہ اپنے کام کو اچھے معیار کے مطابق کرنے کے صلاحیت رکھتا ہو اور اپنا کام ایماندار سے سرانجام دے سکے۔

(2) ملازم کو اپنے کام کی شرائط کی وضاحت دینی چاہئے تاکہ وہ اپنے واجبات اور ذمےداریوں کو بہتر طریقے سے پورا کر سکے۔

(3)ملازمین کو اُنکی اُجرت لازمی طور پر دینی چائیے حدیثِ قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے:تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد،ج 3،ص278، حدیث: 8700 ملتقطاً)

(4)اسلام میں جہاں دیگر مقامات پر انسانیت پر بہت زیادہ شفقت کرنے کا حکم کیا ہے وہاں ملازمین پر بھی شفقت و محبت کا روایہ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے کہ اگر ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو معاف کر دیں منقول ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ پاک علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام سے عرض کیا کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک مُعاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:ہر روز 70 بار۔(ابو داؤد،ج 4،ص439، حدیث 5164)

(5) ملازم کا ایک حق اسکی اُجرت بھی ہے اس بارے میں آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے: قَالَ رَسُولُ اللہ صلى الله عليه وسلم ‏ أَعْطُوا الأَجِيرَ أَجْرَهُ قَبْلَ أَنْ يَجِفَّ عَرَقُه رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مزدور کو اس کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔ (سنن ابن ماجہ، كتاب الرهون باب اجر الاجراء، حديث:2443)

اللہ تعالی ہمیں عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے دین اسلام نہ صرف والدین بہن بھائیوں استادوں کے حقوق بیان کرتا ہے بلکہ ملازم و نوکر کے حقوق بھی بیان فرماتا ہے چنانچہ آپ بھی نوکر و ملازم کے چند حقوق ملاحظہ فرمائیے۔

(1)استطاعت کے مطابق کام لینا:

مالک کو چاہیے کہ اپنے نوکر پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالے اور اس کے کام میں کمی کرتا رہے، جس طرح کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اپنے خادم کے عمل میں جتنی کمی کرو گے تمہارے اعمال نامہ میں اتنا ہی ثواب لکھا جائے گا۔(صحیح ابنِ حبان، کتاب العتق، باب التخفیف عن الخادم، رقم 4293، ج 4، ص 255)

(2)مدد کرنا:

اگر کوئی کام مشکل ہو تو مالک کو چاہیے کہ خود بھی اس کی مدد کرےجس طرح کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا غلام کو کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ دو جو اس کے لیے دشوار ہو اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر خود بھی اس کی مدد کرے۔ (مسلم ص 700، حدیث: 4313)

(3)نرمی و رحم کرنا:

آدمی کو اپنے ملازم پر سختی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور رحم دلی سے پیش آئے حضور علیہ السلام نے بھی رحم دلی کے حوالے سے فرمایا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری، 4/532، حدیث: 7376)

(4)احکامات شرعیہ کو بجالانے کا حکم دینا:

مالک کو چاہیے کہ اپنے غلام کو نیکی کا حکم دیتا رہے اور اس سے نماز وغیرہ عبادات کا بجا لانے کا حکم دیتا ر ہے کیونکہ حضور علیہِ السلام نے فرمایا: خبردار تم سب چرواہے ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (مراۃ المناجيح، شرح مشکوۃ المصابيح)

(5)اچھا لباس زیب تن کروانا:

مالک کوچاہیے کہ اپنے ملازم کو اچھا لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے:حضور علیہ السلام نے فرمایا:اپنے ماتحت کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ (مسلم، ص 700 حدیث 4313)

موجودہ احادیث سے درس حاصل کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ اپنے ماتحتوں سے اچھا سلوک کریں اور ان کے حقوق کا خیال رکھیں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ماتحتوں سے اپنے بھائیوں جیسا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرما ئے۔


یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ہر ایک کا حق اس کی قرابت یا تعلق کے مطابق ہوتا ہے اور تعلق و قرابت کے بہت درجے ہیں، حقوق اس کی مقدار کے مطابق ہیں اور قوی ترین رابطہ اور تعلق خدا کے لیے ہے پھر برادری کا تعلق رابطہ ہے ہمارے اسلام نے ہر کسی کے الگ حقوق بیان کیے ہیں جیسے والدین کے حقوق اولاد کے حقوق بھائی چارگی کے حقوق رشتےداروں کے حقوق اسی طرح کچھ حقوق نوکر و ملازم کے بھی ہوتے ہیں جو درج ذیل ہیں:

(1)پہلا حق جو چیز اپنے لیے پسند نہ کرے وہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے بھی پسند کرے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ جسم کے ایک عضو (حصہ)کو تکلیف ہوتی ہے تو باقی اعضاء کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے اور رنج و تکلیف سے متاثر ہوتے ہیں۔ (کیمیائے سعادت، ص 303)

(2)دوسرا حق کسی مسلمان کو اپنے ہاتھ اور زبان سے اذیت اور تکلیف نہ دے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا پتا ہے مسلمان کون ہوتا ہے؟ تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی اللہ اور اس کا رسول جل و علا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بہتر جانتے ہیں تو فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے مسلمان سلامتی میں رہیں صحابہ کرام نے عرض کیا مومن کون ہوتا ہے؟ فرمایا مومن وہ ہیں جس سے ایمان والوں کو اپنے جان و مال میں کوئی خوف و خطرہ نہ ہو۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: مہاجر کون ہوتا ہے؟ فرمایا جو برے کام کرنا چھوڑ دے۔(کیمیائے سعادت، ص 303)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں میں نے جنت میں ایک شخص کو دیکھا جو جنت میں جھومتا پھرتا تھا یہ مقام اسے محض اتنی سے بات سے حاصل ہوا کہ دنیا میں راستے سے اس نے ایک ایسا درخت کاٹ دیا تھا جس سے گزرنے والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔

(3)تیسرا حق کسی کے ساتھ تکبر سے پیش نہ آئے کیونکہ تکبر کرنے والوں کو اللہ دوست نہیں رکھتا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا میری طرف وحی نازل ہوئی کہ ایک دوسرے کے ساتھ تواضع اور انکساری کے ساتھ پیش آؤ تاکہ کوئی کسی پر فخر نہ کرے اسی بنا پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ بیوہ عورتوں اور مسکینوں کے ساتھ جاتے اور ان کی حاجات پوری کرتے۔ اور ہرگز کسی کی طرف حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ اللہ کا ولی اور دوست ہو اور وہ نہیں جانتا کہ اللہ نے اپنے اولیاء کو لوگوں سے پوشیدہ رکھا ہے تاکہ ان تک کوئی راہ نہ پا سکے۔ (کیمیائے سعادت، ص 304)

(4)چوتھا حق کسی مسلمان کے حق میں چغلخور کی بات کا اعتبار نہ کرے کیونکہ اعتبار عادل کی بات کا ہوتا ہے اور چغلخور فاسق ہے (اور فاسق کی بات کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا)حدیث شریف میں ہے کوئی چغلخور جنت میں نہیں جائے گا اور یہ بات ذہن میں رہے کہ جو شخص کسی کی بد گوئی (برائی)تیرے سامنے کرتا ہے وہ اس کے سامنے تیری بد گوئی کرنے سے باز نہیں آئے گا لہذا ایسے آدمی سے کنارہ کشی لازمی ہے اور اسے جھوٹا تصور کرنا چاہیے۔ (کیمیائے سعادت،ص 304)

(5)پانچواں حق 3 تین دن سے زیادہ کسی آشنا اور واقف کار سے ناراض نہ رہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے کسی مسلمان کے لیے حلال اور جائز نہیں کہ مسلمان کے ساتھ 3 تین دن سے زیادہ ناراض رہے دونوں میں بہتر وہ ہے جو السلام علیکم سے ابتدا کرے۔

حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا میں نے تیرا درجہ اور نام اس لیے بلند فرمایا کہ تو نے اپنے بھائیوں کو معاف کردیاایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ اگر تو اپنے بھائی کی غلطی و خطا کو معاف کر دے گا تو تیری عزت و بزرگی میں ہی اضافہ ہوگا۔(کیمیائے سعادت، ص 305)

اللہ کریم ہمیں اپنے مسلمان بھائیوں کا احترام کرنے ان کے حقوق کا خیال رکھنے اور ان سے محبت بھرے انداز میں پیش آنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

اس دنیا کا رنگ ہے کہ کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم، کوئی آقا ہے تو کوئی غلام، کوئی بادشاہ ہے تو کوئی رعایا، کوئی غنی ہے تو کوئی فقیر، مقام ومرتبہ کا یہ فرق اس لئے ہر گز نہیں کہ ذی مرتبہ کم حیثیت شخص کو حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ بلندی دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی حامی ہے۔

بروقت وظیفہ کی ادائیگی:

اپنے ماتحتوں (نوکر و ملازم)کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں حیلے بہانے کرنے اس میں کمی اور بد دیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے حدیث قدسی ہے: الله پاک فرماتا ہے، تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی ان سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک ہے جو کسی مزدور کو اجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد، ج 3، ص 278، حدیث: 8700)

ملازمین کے ساتھ شفقت:

اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور بھلائی کا برتاؤ کرنا چاہیے ان کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہیے۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بد خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔ (ابوداؤد، ج 4، ص 439،حدیث:5163)

اچھے القاب سے پکارنا:

خادم کو اپنے اصلی نام سے پکارا جائے،پیار سے اسے کوئی اور نام سے پکارنا مقصود ہو تو وہ نام بھی اچھا ہونا چاہئے،اس کا نام بگاڑ کر لینا یا اسے بد تہذیب لقب سے پکارنا مذموم فعل ہے۔ وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بُرے نام نہ رکھو۔ (پ26،الحجرات: 11)

ماتحت کو مارنا:

حضرت ابن عمر سے روایت ہے فرماتے ہیں میں نے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو اپنے غلام کو وہ حد مارے جو جرم اس نے نہیں کیا یا اسے طمانچے مارے تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اسے آزاد کر دے۔ (مراۃ المناجیح، ص 178)

ذات پات کا طعنہ دینا: ملازم و خادم کو اس کی ذات پات کا طعنہ نہیں دینا چاہیےاور نہ اس کی کوئی عیب جوئی کرنی چاہیے وَیْلٌ لِّكُلِّ هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: خرابی ہے اس کے لیے جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(پ30، الھمزۃ: 1)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔امین

نوکروں اور ملازموں کے حقوق بھی دینِ اسلام میں اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت کو عطا فرمائے ہیں۔ قدیم زمانہ سے لے کر دورِ حاضر تک ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں۔ جو لوگ ان پر زیادتی کرتے ہیں۔ انہیں اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرنا چاہئے کیونکہ جس طرح حقوق العباد میں دیگر لوگوں کے حقوق بیان ہوئے ہیں۔ اسی طرح انہیں حقوق العباد میں نوکروں اور ملازموں کے حقوق بھی بیان ہوئے ہیں۔جن میں کچھ پیشِ خدمت ہیں۔

غلطی ہو جانے پر معاف کرنے کا حق:

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آیا اور عرض کیا اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! ہم خادم کو کتنی بار معاف کریں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سن کر خاموش رہے، پھر اس نے اپنی بات دھرائی، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر خاموش رہے، تیسری بار جب اس نے اپنی بات دھرائی تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ ہر دن میں ستر بار اسے معاف کرو۔ (سنن ابی داؤد،حدیث نمبر: 5164)

دیکھا آپ نے حضور صلی اللہ علیہ سلم نے ستر 70 بار انھیں دن میں معاف کرنے کا حکم ارشاد فرمایا، اور ہمارے معاشرے میں ایسا بہت کم ہوتا ہے۔ ہمیں بھی چاہئے کہ اگر کسی نوکر یا ملازم سے کوئی غلطی یا نقصان ہو جائے تو درگزر کریں، موقع محل کی مناسبت سے دُرست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے۔لیکن اس کو ہدفِ تنقید بنالینا، بھری بھری سنانا، ذلیل کرنا، معمولی سی غلطی پر ان کو سزا دینا اور ان پر ہاتھ اٹھانا سخت نا پسندیدہ عمل ہے۔

حسنِ سلوک کرنے کا حق:

ہمارے پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طریقہ کار یہ ہوتا تھا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرتے تھے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دس سال تک سفر و حضر میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا، اس کے بارے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے کبھی نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام کیوں کیا؟اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ نہیں فرمایا کی تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا؟(ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2019، مضمون ماتحتوں پر شفقت، بحوالہ بخاری جلد 2 صفحہ 243،حدیث: 2786)

سبحان اللہ کیا شان ہے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کہ یہ تک نہیں فرماتے کہ یہ کام کیوں نہیں کیا۔ہمیں بھی سنت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنانا چاہئے۔ کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت ہی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اور ہماری نجات کا سبب ہے، ہمیں بھی اپنے نوکروں اور ملازمین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہیے اور ان سے ان کی طاقت کے مطابق ہی کام لینا چاہیے، اور یہی ان کا حق ہے۔

وظیفہ کی ادائیگی کا حق:

ملازمین کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی، کٹوتی، بد دیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے، حدیثِ قدسی میں ہے۔کہ اللہ پاک فرماتا ہے: تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)ان میں سے ایک وہ شخص ہے، جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے کام لے اور اسے اجرت نہ دے (ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2019 مضمون ماتحتوں پر شفقت، بحوالہ مسند احمد، جلد کی، صفحہ 278 حدیث نمبر: 8700)

لہذا ہمیں ان نوکروں اور ملازموں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا چاہیے۔ اور انہیں ان کا حق دینا چاہیے کیونکہ مولا اپنے حق تو معاف کرسکتا ہے۔ مگر لوگوں کے حقوق کو جب تک نہیں معاف کرے گا جب تک جس کا حق مارا ہے وہ خود معاف نہ کردے۔

اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


خطا سے در گزر کرنا:

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے خادم کو مار رہا ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا واسطہ دے تو اس سے اپنے ہاتھ اٹھا لو۔ (صراط الجنان بحوالہ ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی ادب الخادم، 3/382، الحدیث: 1957)

عیب کی پردہ پوشی کرنا:

عَنْ أَن هُرَيْرَةَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَسْتُرُ عَبْدٌ عَبْدَا فِي الدُّنْيَا إِلَّا سَتَرَهُ اللہ يَوْمَ القيامة ترجمہ: حضرت سیدنا ابوہریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جو شخص دنیا میں کسی کی پردہ پوشی کرے گا اللہ عزوجل بروز قیامت اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔

مدد کرنا اور خیال رکھنا:

حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:یہ (غلام)تمہارے بھائی اور خادم ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے ماتحت کر دیا ہے تو جس شخص کے ماتحت اس کا بھائی ہو وہ اسے وہ چیز کھلائے جسے خود کھاتا ہو، وہ لباس پہنائے جسے خود پہنتا ہو اور تم انہیں ایسے کام پر مجبور نہ کر وجو ان کے لئے دشوار ہو اور اگر انہیں ایسے کام کے لئے کہو تو اس میں ان کی مدد کرو۔(صراط الجنان بحوالہ، مسلم، کتاب الایمان والندور، باب اطعام المملوک منا یا کل۔۔۔ الخ، ص 906، الحدیث: 1661)

اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس طرح تمام مخلوقات کے حقوق بیان فرمائے اسی طرح نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائے

(1)خادم بھائی ہے:

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تمہارے خادم تمہارے بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیر دست کر دیا ہے لہذا جس کے تحت میں اس کا بھائی (خادم)ہو وہ اس اپنے کھانے میں سے کھلائے اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف بناتا ہے جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے (صحیح البخاری)

(2)ہر دن ستر بار معاف کیا کرو:

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اس نے عرض کی:اے اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہم خادم کو دن میں کتنی بار معاف کریں؟آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاموش رہے پھر اس شخص نے اسی سوال کو دہرایا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پھر خاموش رہے جب اس نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:خادم کو ہر دن ستر بار معاف کیا کرو (ترمذی شریف)

(3)خادم کو اپنے کھانے میں شریک کیا کرو:

اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنے باورچی یا خادم کو بھی کھانے میں شریک کر لیا کرے کیونکہ اس نے اس کھانے کی تیاری میں محنت کی ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جب تم میں سے کسی کا خادم اس کیلئے کھانا بنائے پھر اس کے پاس لے کر آئے اس حال میں کہ وہ اس (کے پکانے)کی گرمی اور دھواں برداشت کر چکا ہو مالک کو چاہیے کہ اسے اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلائے اور اگر کھانا تھوڑا اور نا کافی ہو تو کم از کم ایک دو لقمے ہی اس کو دیدے۔(صحیح البخاری، حدیث نمبر:1663)

(4)حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خادم کو مارا: حضرت ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے اپنے خادم کو مار رہا تھا میں نے سنا کہ کوئی میرے پیچھے سے کہہ رہا تھا جان لے اے ابو مسعود! جان لے اے ابو مسعود! میں نے مڑ کر دیکھا تو اچانک میرے پاس حضور پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تھے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک اللہ پاک تجھ پر زیادہ قادر ہے اس سے کہ تو غلام پر قادر ہے۔ابو مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس کے بعد میں نے کسی لونڈی اور خادم کو نہیں مارا۔ (ترمذی شریف، جلد اول، 1948)

شریعت میں خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلانا اگر چہ واجب اور ضروری نہیں ہے مگر ایسا کرنا افضل اور بہتر ہے کیونکہ اس عمل سے جہاں ایک طرف اس شخص کو اپنے خادم کے ساتھ حسن سلوک اور صدقہ کا اجر حاصل ہو گا وہیں دوسری جانب خادم کے دل میں بھی اس شخص کی محبت اور عقیدت میں اضافہ ہو گا جو سیٹھ کیلئے مزید خدمت اور فرمانبرداری کا سبب بنے گا لہذا خادم کو زیادہ سے زیادہ عزت سے نوازنا چاہیے اور حسن سلوک کرنا چاہیے۔

اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا ہے کہ ہمیں خادموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور ان کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین بجاہ النبی الامین)


اللہ تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابر نہیں دیا، کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر، مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے بلکہ درجات و مقامات کی یہ اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری کے سلوک کی تلقین کرتا ہےاگر کبھی ملازم کی کسی بات پر غصہ بھی آجائے، تو صبر سے کام لینا چاہیے اور بَد اخلاقی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جب کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کر کے لائے، تو مالک کو چاہیے کہ خادم کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ کھانے پر بٹھا لے۔ اگر کھانا تھوڑا ہو تو اس میں سے ایک دو لقمے اسے کھلا دے۔

حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غلام تمہارے بھائی ہیں، اﷲ عزوجل نے انہیں تمہارے دستِ نگر بنایا ہے، انہیں وہی کھلاؤ، جو تم خود کھاتے ہو، وہی پہناؤ، جو تم خود پہنتے ہو اور ان کو ایسے کام پر مجبور نہ کرو، جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو، پھر اس کام میں خود بھی اس کی مدد اور اعانت کرو۔

اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو، تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا باعث بنتی ہے۔

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اپنے غلام کومار رہا تھا میں نے سنا کہ کوئی میرے پیچھے سے کہہ رہا تھا جان لے اے ابو مسعود! جان لے اے ابومسعود!تو میں نے مڑ کر دیکھا تو اچانک میرے پاس رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تشریف فرما تھے پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک اللہ عزوجل تجھ پر زیادہ قادر ہے اس سے کہ تو اس غلام پر ہے۔ ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے بعد میں کسی لونڈی اور غلام کو نہیں مارا۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ ہمیں ملازم کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور اس کو ایسا کام نہ دینا چاہیے جس کی وہ صلاحیت نہ رکھتا ہو۔


الحمد للہ دین اسلام نے زندگی کے ہر موڑ پر ہر لحاظ سے انسان کے معاشرتی و اخلاقی تربیت کی ہے اور قرآن کریم و احادیث طیبہ میں کئی مقامات پر اسکی مثالیں ملتی ہیں چاہے بندہ زندگی کے کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ آقا ہو یا غلام امیر ہو یا فقیر مالک ہو یا نوکر استاد ہو یا شاگرد(وعلی ھذا القیاس)لیکن آج کل معاشرے میں جس ذلت و رسوائی کا سامنا ایک ملازم و نوکر کو کرنا پڑتا ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں اسلام نے جہاں زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کے حقوق بیان فرماائے ہیں وہیں نوکر و ملازم کے حقوق بھی بیان فرمائیں ہیں۔ چند ایک حقوق ہم یہاں ذکر کرتے ہیں:

فرمان نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ فقرا کو پہچانو، ان سے بھلائی کرو انکے کے پاس دولت ہے پوچھا گیا کونسی دولت ہے؟ فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا اللہ پاک ان سے فرمائے گا جس نے تمہیں کھلایا پلایا ہو یا کپڑا پہنایا ہو اسکا ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے جاؤ۔ (مکاشفتہ القلوب)

حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ایک غلام کو مار رہے تھا آواز آئی کہ اے ابو مسعود انصاری ! آپ اس طرف پھرے، کیا دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اور فرما رہے ہیں کہ جتنی قدرت تو اس غلام پر رکھتا ہے اس سے زیادہ خدائے تعالیٰ تجھ پر رکھتا ہے۔ (کیمیائے سعادت صفحہ نمبر 320)

لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ انکو روٹی سالن اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں اور یہ بھی خیال کرے کہ یہ میری طرح بندے ہے اور اگر ان سے کوئی قصور سر زد ہوجائے تو آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے انکا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔ (کیمیائے سعادت، صفحہ نمبر 320)

اللہ پاک ہمیں اپنے متعلقین اور ماتحتوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین

دنیا میں ایسا کوئی بھی طبقہ نہیں جس کے متعلق ہمارے پیارے دین نے معتدل رہنمائی نہ دی ہو۔ نوکروں، ملازموں، اور مزدوروں کے حوالے سے بھی اسلام کی تعلیمات میں واضح رہنمائی ہے۔ جس طرح اسلام نے ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والوں کو حقوق دیئے ہیں اسی طرح نوکروں اور ملازمین کو بھی حقوق دیئے ہیں جو درج ذیل ہیں:

ساتھ حُسنِ سلوک کرنا:نوکروں اور ملازموں کے ساتھ اچھے اخلاق سے بات کرنا اور ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا یہ انکا حق اور ہماری اخلاقی ذمےداری ہے۔

طاقت سے زیادہ کام نہ کروانا:اُن سے اتنا ہی کام کروایا جائے جتنی اُن میں طاقت ہو اگر اسکے برعکس کیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی۔چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے انہیں اتنے زیادہ کام کا مکلف نہ کرو کہ وہ ان کی طاقت سےزیادہ ہو، اگر ایسا کرو تو ان کی مُعاوَنت بھی کرو۔ (بخاری، 1/23، حدیث:30، اللامع الصبیح شرح الجامع الصحیح،1/210، تحت الحدیث: 30)

وقت پر اجرت دینا:انہیں وقت پر اُن کی اجرت یا تنخواہ دینا اخلاقی اور شرعی دونوں طرح سے بہت ضروری ہے اس سے انکا دل بھی خوش ہوگا اور کوئی فساد بھی برپا نہ ہوگا۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی ترغیب دیتے ہوئے فرمایا: مزدور کا پسينہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری ادا کرو۔(ابن ماجہ،3/162، حدیث:2443)

انہیں تحفظ فراہم کرنا:اسلام ملازموں کو جانی و مالی تحفظ دینے میں بھی سب سے آگے ہے۔اگر ہم کسی شخص کو ملازمت پر رکھیں خواہ وہ گھر کے کام کاج کے لیے رکھیں یا کاروبار میں مدد کے لیے تو اسے ہر طرح سے تحفظ دینا ہماری ذمےداری ہے۔ نوکروں اور ملازمین کا یہ بھی حق ہے کہ انہیں جن کاموں کی اجرت دی جاتی ہو اُن سے صرف وہی کام کروائے جائیں۔

انکا ادب و احترام کرنا:ملازمین کی عزت نفس کا خیال رکھنا چاہئے ان سے نرمی سے بات کرنی چاہیے اور اپنے گھر والوں کو بھی یہ تلقین کرنے چاہیے کے وہ بھی ایسا ہی کریں اگر اُنسے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو پیار سے اور اکیلے میں سمجھایا جائے نہ کے سب سے سامنے جھاڑ دیا جائے۔اگر وہ زیادہ عمر کے ہوں تو انکا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے۔

انہیں بہترین اجرت دینا:دور حاضر میں ملازمین کو اتنی اجرت دے جاتی ہے کے اس سے دو وقت کی روٹی کا انتظام مشکل ہوجاتا ہےاور اکثر ملازمین معاشی اعتبار سے کمزور سے کمزور ترین ہوجاتے ہیں لہٰذا انہیں اتنی اجرت دی جائے جیسے انکا گزر بسر اچھا ہوسکے۔

اُنکی جسمانی صحت کا خیال رکھا جائے:اِنسانی جسم کو راحت و آرام کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور یہ انسانی جسم کا فطری تقاضا بھی ہے۔لہٰذا ہمیں بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔

اچھے کام پر حوصلہ افزائی کرنا:اگر نوکر اپنے کام کو بخوبی مکمل کریں یہ کوئی ایسا کام کرے جس سے ملک کو فائدہ ہو تو مالک کو چاہیے کہ وہ اسکی تعریف کرے اسکی حوصلا افزائی کرے اور ممکن ہو تو اسے تحفہ بھی دے۔

انہیں فرائض و واجبات کی تلقین کرنا اور سہولت دینا:انہیں فرائض و واجبات کی تلقین کرنا اور سہولت دینا بھی اُنکی حقوق میں شامل ہے مثلا جب نماز کا وقت ہو تو اُنھیں نماز پڑھنے کا وقت دینا لازم ہے اور بہتر جگہ فراہم کی جائے۔

اسلام نے نوکروں اور ملازمین کے حقوق کو روز روشن کی طرح واضح کردیا ہے۔ اور ہر ایک کو پابند کیا ہے کہ انکے حقوق میں ذرا برابر بھی کوتاہی نا برتی جائے۔ ابھی جو معاشی حالات چل رہے ہیں اس میں ہمیں چاہیے کہ ایسے طبقے کا زیادہ سے زیادہ خیال رکھا جائے اور اُنکی ضروریات کو پورا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔

اللہ کریم ہم سب کو نوکر و ملازمین کے حقوق مکمل طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔

اللہ کے نزدیک وہ افضل ہے کہ جو متقی ہو، اللہ نے مال ودولت، عقل و فہم، جاہ و منصب میں فرق اس لئے رکھا کہ مالدار غریب سے، عہدیدار ماتحت سے، عقل و فہم میں بلند رتبہ شخص اپنے سے کم عقل و فہم والے سے کام لے سکے، ہمارے معاشرے کا ایک طبقہ ملازموں کا بھی ہے۔ آئیے ان کے چند حقوق آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔

حسن سلوک: نیکی اور خیر کے کاموں میں حسن سلوک کی بڑی اہمیت ہے، اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی ہے، ہمیں بھی ملازموں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنا چاہیے ان سے اچھا برتاؤ کرنا چاہیے۔

اجرت کی بروقت ادائیگی: ملازم کی طے شدہ اجرت کی ادائیگی بروقت کرنی چاہیے اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی پریشانیوں میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے، اسی طرح لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ میں بلاوجہ کٹوتی کرتے ہیں جو کہ درست نہیں۔

عفوودرگزر سے کام لینا:دنیا میں ہر انسان بتقضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے، ملازم بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، ملازم چونکہ ہمیں آرام پہنچانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ہماری خدمت کرتا ہے تو بعض اوقات وہ ایسا کام کرتا ہے جو ہماری منشاء کے خلاف ہوتاہے، لیکن ہمیں پھر بھی ملازم کو معاف کردینا چاہیے اور اس سے اچھا سلوک کرنا چاہیے۔

سختی کرنے کی ممانعت:ہمارے معاشرے میں غربت کے ہاتھوں مجبور چھوٹے گھریلو ملازمین پر تشدد کرنے کے واقعات سامنے آتے ہیں، یہ سلوک وہ لوگ کرتے ہیں کہ جن کے دل میں خوف خدا ختم ہوچکا ہوتا ہے، لوگ اپنے بچے کی غلطی تو نظر انداز کر دیتے ہیں لیکن اپنے کمسن ملازموں کی ذرا سی غلطی پر آگ بگولہ ہو کر اس پر تشدد کرتے ہیں، ان ظالموں کو سوچنا چاہیے کہ کراما ً کاتبین ہماری ہر بات لکھ رہے ہیں اور ہمیں ان باتوں کا جواب اللہ کی بارگاہ میں دینا ہے تو سوچئے کہ ظلم کرنے کا حساب کس طرح دیں گے۔

ملازم پر مال خرچ کرنا:ملازم کی ضروریات کا خیال رکھنا ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے، جس کا اللہ کے یہاں بڑا اجرو ثواب ہے، ملازم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں جیسے عید وغیرہ کے موقع پر ملازم اور اس کے اہل خانہ کے کپڑے بنوادینا، ملازم کے بچوں کی شادی ہو تو اس کے اخراجات اٹھانا وغیرہ۔

دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرنا:اسلام میں جو تعلیم کی اہمیت ہے وہ دنیا کے کسی بھی مذہب میں نہیں ہے، مالکان کا فریضہ ہے کہ جہاں تک ہو سکے وہ اپنے ملازم کی دینی و دنیاوی تعلیم کا انتظام کرے اور اسے معاشرے کا بہترین و باعزت شہری بننے میں اس کی مدد کرے۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے ملازموں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے حقوق ادا کرنے اور ان پر رحم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین

معاشرہ ایک دوسرے سے منسلک ہوتا ہے کسی بھی کاروبار کی ترقی کا انحصار اس میں کام کرنے والے ملازمین پر ہوتا ہے۔ اگر مالک اپنے ملازمین کا خیال رکھے اور ملاز مین بھی اچھے طریقے سے کام سر انجام دیں تو کاروبار اور ملازمین دونوں ہی ترقی کے زینے طے کریں گے۔ یہاں پر ملازمین کے حقوق بیان کئے جارہے ہیں۔

ملازمین کو دیر تک بیٹھنے پر مجبور کیا جاتا ہے، اور بات کرنے پر ملازمت سے چھٹی کروائے کی دھمکی دی جاتی ہے، یہ اچھا رویہ نہیں، ہاں اگر کبھی کبھار کچھ تاخیر ہوتی ہے تو ملازم کو بھی اس میں تعاون کرنا چاھئے۔

ملازم کو دوران ملازمت ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو اسکے کام کی نوعیت کے حساب سے بھی مناسب ہو اور صحت بھی متاثر نہ ہو۔ مثلاً: کمروں کا ہوادار ہونا، روشنی کا معقول انتظام ہونا تحقیق وریسرچ کا کام ہو تو خاموشی کا ماحول ہونا وغیرہ کمپنی یا ادارہ چھوٹا ہو یا بڑا، ملازمین کی تنخواہیں ملازمین کی قابلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر مقرر کی جائیں اور ہر سال اس میں اضافے کی گنجائش بھی رکھنی چاہئے تاکہ ملازمین کی سالانہ حوصلہ افزائی ہو اور وہ لگن سے کام کر سکیں یہ بھی ملاز مین کا حق ہے۔

ملازمین سے مرضی کے مطابق کام لینے کا طریقہ: اگرملاز مین سے اپنی مرضی کے مطابق کام لینا چاہتے ہیں تو ان سے صرف سختی اور ڈانٹ ڈپٹ والا راستہ اپنانے کے بجائے پیار و محبت، نرمی اور حوصلہ افزائی والا رویہ اپنائیے، آدمی جو بھی کام کرتا ہے وہ حوصلے کے ذریعے کرتا ہے حوصلہ ہی آدمی کو آگے بڑھاتا ہے اور اسی حوصلہ کی بنیاد پر محنت اور لگن کے ساتھ ملاز مین اپنی ذمہ داریاں پوری کریں گے، عقلمند مالک وہی ہے جو ملازمین کی حوصلہ افزائی کرتا رہے اور اپنا کام نکالتا رہے۔

الله پاک ہمیں اپنے ملاز مین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور شفقت بھرا نرم انداز اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔