
شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوت اسلامی کے زیرِ اہتمام رکن شوری حاجی محمد اظہر عطاری نے سیالکوٹ میں ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیو محمد
اقبال،ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر جنرل اسد کاظمی،اسسٹنٹ
کمشنر سیالکوٹ غلام سرور،ایس پی انویسٹی گیشن ملک نوید،ڈی ایس پی سی آئی اے محمود
الحسن،ڈی ایس پی سی ٹی ڈی محمد اکرام،ایس ایچ او کینٹ محمد الطاف سے ملاقات کی۔
دورانِ ملاقات رکن شوریٰ نے اتھارٹی پرسنز کو دعوت اسلامی کے تحت ہونے والے دینی و فلاحی کلام
کے بارے بتایا جس پر انہوں نے خدماتِ دعوت
اسلامی کو سراہتے ہوئے اچھے تاثرات دیئے۔
٭ دوران
گفتگو رکنِ شوریٰ نے محمد عرفان کو 11 جنوری 2024ء کو
ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کی دعوت دی جس پر انہوں نے ہفتہ وار اجتماع میں آنے اور اس میں
ہر طرح کے تعاون کی اچھی نیت کا اظہار کیا۔
واضح
رہے کہ! 11 جنوری کو سیال کوٹ میں ہونے والا ہفتہ وار اجتماع مدنی چینل پر لائیو نشر کیا جائے گا جس میں رکن شوری حاجی اظہر عطاری سنتوں بھرا بیان
فرمائیں گے۔(رپورٹ:رابطہ
برائے شخصیات گوجرانولہ ڈویژن، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)

عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیرِ اہتمام ترکی میں ترکش ریسٹورنٹ میں مدنی حلقہ
ہوا جس میں وہاں کام کرنے والے افراد نے شرکت کی ۔
مدنی
حلقے میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری نے بیان کیا اور حلقے میں شریک اسلامی
بھائیوں کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے نمازوں کی پابندی کرنے کا ذہن دیا نیز ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں آنے کی ترغیب
بھی دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں
کیں۔ (کانٹینٹ:رمضان
رضا عطاری)

دعوت
اسلامی کے شعبہ روحانی علاج کے تحت
مدنی مرکز فیضان مدینہ ملتان میں مدنی مشورے کا سلسلہ ہوا جس میں نگران مجلس سمیت تمام صوبائی وڈویژن ذمہ داران نے شرکت کی ۔
رکنِ
شوریٰ حاجی فضیل عطاری نے مدنی مشورہ لیاجس
میں اسلامی بھائیوں سے شعبے کے سابقہ دینی
کاموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور
انہیں آئندہ کے لئے اہداف دیئے۔( کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری مدنی)

پچھلے
دنوں فیصل آباد مدنی مرکز فیضان مدینہ میں اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے اسلامی بھائیوں
کا مدنی مشورہ ہوا جس میں نگران مجلس عمیر ہاشمی عطاری نے فیصل آباد ڈویژن میں
شعبے کے دینی کاموں کے حوالے سے کلام کیا اور
شرکا کو 2024 ءکے اہداف دیئے۔
اس
موقع پر ڈویژن/ڈسٹرکٹ ذمہ داران کے ساتھ اسپیشل ایجوکیشن پاکستان ذیلی سطح ذمہ دار
احمد اویس عطاری، صوبۂ پنجاب ذمہ دار محمد وقاص عطاری اور صوبہ پنجاب پر نابینا مجلس
کے ذمہ دار قاری محمد خالد عطاری نے بھی شرکت کی۔( رپورٹ:محمد
وقاص عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ صوبہ پنجاب، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری مدنی)
فیضان
مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور میں 3 دن پر
مشتمل بریل لینگویج کورس کا انعقاد

ایک
زمانے تک تحریر کو پڑھنا صرف آنکھ والوں کا ہی کام تھااور نابینا افراد کےلئے کوئی
ایسا طرز تحریر نہ تھا جس کی بدولت وہ تحریر کو پڑھ سکیں۔پھروہ وقت آیا کہ نابینا
افراد کے لئے بھی ایک خاص قسم کے طرز تحریر سے پڑھنا اور لکھنا ممکن ہوا جسے بریل
کا نام دیا گیا۔بریل ایک ایسے طرز تحریر کا نام ہے جو ابھرے ہوئے چھ(6)نقطوں(Dots)پر مشتمل ہوتا ہےاور اس کی مدد
سے نابینا افراد بآسانی پڑھ اور لکھ سکتے ہیں۔
دعوت
اسلامی کے تحت 7
جنوری 2023ء کو مدنی مرکز فیضان مدینہ جوہر ٹاؤن لاہور
میں 3 دن پر مشتمل بریل لینگویج کورس منعقد ہوا جس میں گلگت اور اسکردو سے آئے
ہوئے ٹیچرز حضرات نے شرکت کی ۔
صوبائی
ذمہ دار نابینا افراد کامران عطاری نے ٹیچرز کو تین دن کےتربیتی
کورس میں نابینا افراد کو بریل لینگویج پڑھانے اور ان کی تربیت کرنے کے حوالے سے رہنمائی کی۔ کامران عطاری نے شرکا
کو اسپیشل پرسنز میں دینی کام کرنے کاذ ہن دیا اور ان کو ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی ترغیب بھی دلائی جس پر انہوں نے اچھے خیالات کا اظہار کیا۔(کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری مدنی)
مدرسہ
القادریہ مورو روڈ دادومیں جاری سات دن کا فیضان نماز کورس اختتام پذیر
.jpg)
دعوتِ
اسلامی کے شعبے مدنی کورسز کے زیر اہتمام مورو روڈ دادو میں قائم مدرسہ القادریہ
میں 05 جنوری 2024 ء کو سات دن کے فیضان
نماز کورس کا اختتام ہوگیا۔
کورس
کے اختتام پر اختتامی تقریب کا
انعقاد کیا گیا جس میں صوبائی ذمہ دار و شعبہ
مدنی کورسز کے معلم اظہر حسین عطاری اور مدرسہ
ہذا کے مہتمم، مدرسین، علاقے کے معززین ، شرکائے کورس کے سرپرستوں اور کثیر عاشقان رسول
نے شرکت کی۔
اختتامی
تقریب میں کورس کے معلم اظہر حسین عطاری نے
سنتوں بھرا بیان کیا اور شرکا کو
دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں میں حصہ لیتے
رہنے ، نمازوں کا اہتمام کرنے سمیت دیگر نیک اعمال کی ترغیب دلائی جس پر اسلامی
بھائیوں نے اپنی اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔
کورس
کے آخر میں تمام شرکائے کورس کواسناد دی گئیں اور تحائف سے بھی نوازا گیا۔(رپورٹ:شعبہ
مدنی کورسز، کانٹینٹ: محمد عمر فیاض عطاری مدنی)
محمد
طلحہ محمود عطّاری(درجۂ خامسہ مرکزی جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ خانیوال،پاکستان)

اسلام
سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ تھا اور تصورِ اخلاق ناتراشيده
تھا، طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے
بسى كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور
ميں يہ رسم اپنى بھيانك شكل ميں قائم رہى یہاں تک کہ جان عالم،خاتم النبين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر
كارى ضرب لگائى۔
حضور
علیہ السلام کی آمد سے قبل ہر اعتبار سے حضرت انسان جہالت کے سمندر میں غوطہ زن
تھا، جہاں دیگر معاملات زندگی میں پستی کا شکار تھا، وہیں پر ایک آفت یہ تھی کہ
اپنے خادموں کے ساتھ انتہائی ناروا سلوک اختیار کرتا تھا۔ جہاں دین اسلام نے دنیا
کے جاہلانہ نظام کو تبدیل فرما دیا وہیں پر انسان كى معاشرتى زندگى ميں بهى اسلام
نے ايك عظيم انقلاب پيدا كيا۔ رنگ ونسل كے امتيازات ريت كےگھر وندے كى طرح گرادے
گئے،اصول مساوات كے تحت سفيد وسياه،حاكم اور محكوم،عربى اور عجمى سب ايك ہى صف ميں
كھڑے كردے گئے،صرف مسجد ميں ہى نہيں بلكہ ہر جگہ اور مقام پر مسلمان ايك دوسرے سے
يكساں سطح اور مرتبہ پر ملتے ہيں يہ اس لئے اسلام كى نگاه ميں مادى شے مثلاً دولت
ومنصب،نسلى ولسانى امتيازات،خاندانى وجاہت اور برترى كا باعث نہيں ہيں صرف كردار
اخلاق سے مراتب ودرجات كا تعين ہوتا ہے جيسا ارشاد ربانى ہے: ﴿ اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ
اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اللہ کے یہاں تم میں
زیادہ عزت والا وہ جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ26، الحجرات:13)
اس
طرح اسلام نے انسانى درجہ بندى كا معيار ہى بدل ڈال جس سے حسب ونسب اور دولت،
انسان كے مرتبہ كى كسوٹى نہيں رہى بلكہ معاشره ميں انسان كا مقام اس كے كردار سے
متعين ہونے لگا۔فرمان آخری نبی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:
عَنْ اَبِي
ذَرٍّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِخْوَانُكُمْ
جَعَلَهُمُ اللہ فِتْيَةً تَحْتَ اَيْدِيكُمْ فَمَنْ كَانَ اَخُوهُ تَحْتَ يَدِهِ
فَلْيُطْعِمْهُ مِنْ طَعَامِهِ وَلْيُلْبِسْهُ مِنْ لِبَاسِهِ وَلَا يُكَلِّفْهُ
مَا يَغْلِبُهُ فَاِنْ كَلَّفَهُ مَا يَغْلِبُهُ فَلْيُعِنْهُ قَالَ وَفِي
الْبَابِ عَنْ عَلِيٍّ وَاُمِّ سَلَمَةَ وَابْنِ عُمَرَ وَاَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ
اَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ
ابوذر
رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، اللہ
تعالیٰ نے ان کو تمہارے زیرِ دست کر دیا ہے، لہٰذا جس کے تحت میں اس کا بھائی
(خادم)ہو وہ اسے اپنے کھانے میں سے کھلائے، اپنے کپڑوں میں سے پہنائے اور اسے کسی
ایسے کام کا مکلف نہ بنائے جو اسے عاجز کر دے اور اگر اسے کسی ایسے کام کا مکلف
بناتا ہے جو اسے عاجز کر دے تو اس کی مدد کرے۔(ترمذی)
اللہ
تبارک تعالیٰ کی بارگاہ میں بنیادی حقوق کے اعتبار سے تمام انسان برابر ہیں اللہ
کے نزدیک سب سے زیادہ نیک اور افضل وہ ہے جو سب سے زیادہ متقّی ہے خادم، آقا،
ملازم، مالک، یہ سب اللہ کے بندے ہیں، معاشی فرق صرف اور صرف اس لئے ہے، تاکہ نظام
عالم چلتا رہے۔
عفو و درگزر سے کام لینا:
دنیا
میں ہر انسان بہ تقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی
اس سے مستثنیٰ نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصّہ ہماری خدمت
گزاری میں وقف کرتے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروفِ عمل رہتے
ہیں، تو بعض اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم
کی اپنی کوئی پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام
نہیں ہوپاتا یا متاثر ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی
پر تحمّل سے کام لیتے ہوئے درگزر کرنا چاہیے۔ اگر اسے کوئی پریشانی لاحق ہو تو دور
کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو، تو اس کے علاج کی فکر کرنی چاہیے۔ بعض اوقات
ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصّہ کرنے کے بجائے، صبر سے کام لینا
چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور ٹھنڈے لہجے اور اچھے انداز میں
اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و اطمینان کا
باعث بنتی ہے۔
حضرت
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور عرض کیا۔یارسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم !میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟‘‘ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ہر
روز ستّر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)
حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:کیا میں تمہیں وہ شخص نہ
بتاؤں جو آگ پر حرام اور آگ اس پر حرام ہے۔ وہ نرم طبیعت، نرم زبان، گھل مل کر
رہنے والا اور درگزر کرنے والا ہے۔ (ترمذی شریف)
حضرت
سہیل بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جو
اپنے غصّے کو پی جائے، اگرچہ وہ اس کے مطابق کرنے پر قدرت رکھتا ہو، تو قیامت کے
روز اللہ تعالیٰ اسے مخلوق کے سرداروں میں بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ جس
حور کو چاہے، پسند کرلے۔ (ترمذی شریف)
کلیم
اللہ عطّاری(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

ایک
عرصہ تک دنیا میں انسانی غلامی کا رواج رہا، ا نہیں منڈیوں میں خریدا اور بیچا
جاتا حقوق سلب اور ضائع کیے جاتے بے پناہ تشدد کیا جاتا بنیادی انسانی حقوق سے
محروم رکھا جاتا معاشرے کاحقیر اور گھٹیا فرد تصور کیا جاتا لیکن جب آفتاب اسلام
کے انوار چمکے اور محسن انسانیت تشریف لائے تو غلاموں اور نوکروں کے ساتھ بہترین
سلوک کا درس دیا جس طرح اسلام معاشرے کے ہر طبقے کے حقوق کا خیال رکھنے کا درس
دیتا ہے اسی طرح نو کروں و غلاموں کے حقوق کی حفاظت کا درس دیتا ہے۔ آئیے غلاموں
ونوکروں کے چند حقوق کا مطالعہ کرتے ہیں:
کام میں کمی کرنا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے نوکر پر اس کی استطاعت کے مطابق بوجھ ڈالے اور اس کے کام میں کمی
کرتا رہے۔جس طرح کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم اپنے
خادم کے عمل میں جتنی کمی کرو گے تمھارے اعمال نامہ میں اتنا ہی ثواب لکھا جائے
گا۔ (صحیح ابنِ حبان، کتاب العتق، باب التخفیف عن الخادم، رقم 4293، ج 4، ص 255)
ملازم کی مدد کرنا:
اگر
کوئی کام مشکل ہو تو مالک کو چاہیے کہ خود بھی اس کی مدد کرےجس طرح کہ حضور علیہ
السلام نے فرمایا غلام کو کسی ایسے کام کی ذمہ داری نہ دو جو اس کے لیے دشوار ہو
اگر ایسے کام کی ذمہ داری سونپ ہی دے تو پھر خود بھی اس کی مدد کرے۔ (مسلم ص 700،
حدیث: 4313)
نرمی و
رحم کرنا:
آدمی
کو اپنے ملازم پر سختی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کے ساتھ نرمی اور رحم دلی سے پیش
آئے حضور علیہ السلام نے بھی رحم دلی کے حوالے سے فرمایا: اللہ اس پر رحم نہیں
کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔(بخاری 4/532، حدیث: 7376)
احکامات شرعیہ کو بجالانے کا حکم دینا:
مالک
کو چاہیے کہ اپنے غلام کو نیکی کا حکم دیتا رہے اور اس سے نماز وغیرہ عبادات کا
بجا لانے کا حکم دیتا ر ہے کیونکہ حضور علیہِ السلام نے فرمایا: خبردار تم سب حاکم
ہو اور تم سب سے اپنی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ (مراۃ المناجيح شرح مشکوۃ
المصابيح)
اچھا لباس زیب تن کروانا:
مالک
کوچاہیے کہ اپنے ملازم کو اچھا لباس پہنائے جو وہ خود پہنتا ہے:حضور علیہ السلام
نے فرمایا:اپنے ماتحت کو وہی پہنائے جو خود پہنتا ہے۔ (مسلم، ص 700 حدیث 4313)
جنید
یونس(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

اﷲ
تعالیٰ نے دنیاوی لحاظ سے سب کو برابری نہیں دی کوئی حاکم تو کوئی محکوم، کوئی آقا
تو کوئی غلام، کوئی غنی تو کوئی فقیر، مقام و مرتبے کا یہ فرق اس لیے ہرگز نہیں کہ
ذی مرتبہ شخص کم حیثیت ملازمین کو نیچ اور حقیر سمجھے۔ بلکہ درجات و مقامات کی یہ
اونچ نیچ کارخانۂ دنیا کو چلانے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی ضامن ہے۔ اسلام کا
یہ حسن ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو ماتحتوں اور محکوموں کے ساتھ شفقت کا برتاؤ
کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام ہی یہ تصور دیتا ہے کہ کسی کا ماتحت یا نگران ہونا
ایک وقتی تعلق ہے ورنہ بحیثیتِ انسان سب برابر ہیں۔ وہ لوگ جنہیں گردشِ زمانہ
ملازمت کی دہلیز پر لا کھڑا کرتی ہے اسلام انہیں اپنا بھائی سمجھ کر ان سے برابری
کے سلوک کی تلقین کرتا ہے۔
ملازمین کے ساتھ حُسنِ سلوک:
خیر
کے کاموں میں حُسنِ سلوک کی بڑی اہمیت ہے اس کے ذریعے انسان میں تواضع پیدا ہوتی
ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اپنے خدام کے ساتھ سب سے مثالی سلوک کرتے تھے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
کہ میں حضور علیہ السلام کی سفر اور حضر میں خدمت کرتا رہا، لیکن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے
کبھی یہ نہیں کہا کہ تم نے فلاں کام ایسے کیوں کیا اور ایسے کیوں نہ کیا۔ نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی
اور بَد خلقی سے پیش آنا بد بختی ہے۔
طے
شدہ اجرت کی ادائیگی ملازم کو بروقت کرنا چاہیے، اس میں دیر کرنا ملازم کی معاشی
پریشانیوں کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح عموماً لوگ مختلف بہانوں سے ملازم کی تنخواہ
میں سے کٹوتی کرلیتے ہیں، جو ناجائز ہے۔
عفو و
درگزر سے کام لینا:
ہر
انسان بتقاضائے بشریت غلطی کرسکتا ہے۔ گھریلو ملازم، خادم اور نوکر بھی اس سے
مستثنٰی نہیں۔ ملازم، خادم چوں کہ دن رات کا بیش تر حصہ ہماری خدمت گزاری میں وقف
کیے ہوئے ہیں اور حتی الامکان ہمیں آرام پہنچانے میں مصروف رہتے ہیں، تو بعض
اوقات ہمارے مزاج اور منشا کے مطابق کام نہیں ہوتا۔ بعض اوقات ملازم کی اپنی کوئی
پریشانی یا اس کی طبیعت کی خرابی سے بھی تفویض کیا گیا کام نہیں ہوپاتا یا متاثر
ہوجاتا ہے، ایسی صورت میں ملازم سے سرزد ہونے والی غلطی پر تحمل سے کام لیتے ہوئے
درگزر کرنا چاہیے۔
اگر
اسے کوئی پریشانی لاحق ہو تو دور کرنی چاہیے اور اگر وہ بیمار ہو تو اس کے علاج کی
فکر کرنا چاہیے۔ بعض اوقات ملازم سے نقصان بھی ہوجاتا ہے، ایسے میں غصہ کرنے کے
بجائے صبر سے کام لینا چاہیے۔ اس کی غلطی اور کوتاہی کو معاف کرکے نرم اور میٹھے
لہجے میں اس کی اصلاح کی جائے کہ ملازمین کی اصلاح و تربیت مالک کے بھی سکون و
اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
حضرت
عبداﷲ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اﷲ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کتنی بار اپنے خادم کو معاف کروں؟ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر روز ستر مرتبہ۔ (ترمذی شریف)
ملازم
پر مال خرچ کرنا:
ملازم یا خادم کی ضروریات کا خیال رکھنا اور
تنخواہ کے علاوہ بھی ان کی مالی مدد کرنا نہایت پسندیدہ فعل ہے جس کا اﷲ کے یہاں
بڑا اجر و ثواب ہے۔ ملازم اور خادم پر مال خرچ کرنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ اسے
ماہانہ بنیادوں پر غذائی اجناس دلائی جاسکتی ہیں۔ سردیوں میں کمبل، لحاف اور تہوار
کے مواقع پر ملازم کے اہلِ خانہ کے کپڑے بنوا کر دے سکتے ہیں۔ ان کے بچوں کی تعلیم
اور شادی بیاہ کے اخراجات کی مد میں رقم دی جا سکتی ہے۔ یہ اضافی معاونت ہے جو ان
کی اجرت اور دیگر ماہانہ سہولتوں کے علاوہ ہوگی۔
خادم
کے لیے دعا:
حضور
سرور عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ہمیں اس سے منع کیا ہے کہ اپنے آپ کے لیے اپنی اولاد اور خادموں کے لیے اور
اپنے مال کے حق میں بددعا کریں۔ ابوداؤد میں یہ روایت ہے کہ نبیِّ کریم نے
فرمایا:اپنے لیے بددعا نہ کرو، نہ اپنی اولاد کو بددعا دو، نہ اپنے خادموں کو
بددعا دو اور نہ اپنے مال پر بددعا دو۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قبولیت
دعا کی کوئی گھڑی لکھ دی ہو اور یوں تمہاری بددعا قبول ہوجائے۔ حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خادم کے حق میں دعا کرتے تھے۔حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی نہ رہی جس کی حضور اکرم صلی اللہ عنہ
نے میرے حق میں دعا نہ کی ہو۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی یوں دعا
دی:اے ہمارے رب انس کو مال واولاد سے نواز دے اور اس میں برکت عطا فرما، جب آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو پانی پلایاگیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے پانی پلانے والےخادم کے حق میں دعا کی: اے ہمارے رب تو اپنی طرف سے اس
شخص کو کھانا کھلا جس نے مجھے کھلایا اور اس شخص کو پانی پلا جس نے مجھے پانی
پلایا۔ (مسلم)
مزمل
حسن خاں(درجہ سادسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

اسلام
سے پہلے انسانوں كےحقوق وفرائض كاپورا اہتمام نہ تھا اور تصورِ اخلاق ناتراشيده
تھا، طاقت ور كاحكم كمزور كے لئے قانون تھا،اور اس كى اطاعت لازم،اس غلامى نے بے
بسى كو جنم ديا جسے پھر انسان نے اپنى اغراض كے تحت پروان چڑھايا، تاريخ كے ہر دور
ميں يہ رسم اپنى تمام بھيانك شكل ميں قائم رہى یہاں تک كہ خاتم النبين صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس پر
كارى ضرب لگائى خادم معاشرے كے ديگر افراد كى طرح
بھى اس شخص پر حقوق ہيں جس كےتحت وه فرائض انجام ديتا ہے، ان حقوق كو چار حصوں ميں
تقسيم كيا جا سكتا ہے:(خوش گفتارى، حسن ِسلوك، كام ميں معاونت، اور تحفظ ِملازمت)۔
خادم كو اصلى نام سے پكارنا:
پيار سے اسے كوئى اور نام سے پكارنا مقصود ہو تو
وه نام بھى اچھا ہونا چاہئے، اس كا نام بگاڑ كر لينا يا اسے بد تہذيب لقب دينا
مذموم فعل ہے، قرآن كريم ميں اس كى مذمت آئى ہے: وَ لَا تَلْمِزُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ لَا تَنَابَزُوْا
بِالْاَلْقَابِؕ-
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے برے نام نہ
رکھو۔(پ26، الحجرات:11)
خادم كا مذاق بھى نہيں اڑانا چاہئے:
اكثر
لوگ باتوں باتوں میں ايسا كرتے رہتے ہيں، ارشاد ربانى ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ
مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں
سے بہتر ہوں۔ (پ26، الحجرات:11)
ملازم وخادم كو اس كى ذات پات كا طعنہ نہيں
دينا چاہئے:
اور
نہ اس كى كوئى عيب جوئی كرنى چاہئے، قرآن مجيد ميں اس بارے ميں سخت حكم ہے: وَیْلٌ لِّكُلِّ
هُمَزَةٍ لُّمَزَةِ ﹰۙ (۱)ترجَمۂ کنزُالایمان:خرابی ہے اس کے لیے
جو لوگوں کے منہ پر عیب کرے پیٹھ پیچھے بدی کرے۔(پ30، الھمزۃ:1)
4 بر وقت اجرت دینا:
حدیث شریف مزدور کی مزدوری پسینہ سوکھنے سے پہلے
دے دو۔(بہار شریعت، جلد 3،حصہ 14،ص 105)
معاف
کرنا:
وَعَنْ
عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ! كَمْ نَعْفُو عَنِ الْخَادِمِ
فَسَكَتَ، ثُمَّ أَعَادَ عَلَيْهِ الْكَلَامَ فَصَمَتَ، فَلَمَّا كَانَتِ
الثَّالِثَةُ قَالَ:اعْفُوا عَنْهُ كُلَّ يَوْمٍ سَبْعِينَ مَرَّةً ترجمہ:روایت
ہے حضرت عبداﷲ ابن عمر سےفرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی
خدمت میں حاضر ہواعرض کیا یارسول اﷲ ہم خادم کو کتنی بار معافی دیں حضور خاموش رہے
اس نے پھر وہ سوال دہرایا آپ خاموش رہے پھر جب تیسری بار سوال ہوا تو فرمایا اسے
ہر دن میں ستر بار معافی دو۔
عبدالرحمٰن
عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضان عثمان غنی کراچی، پاکستان)

الحمد
لله دین اسلام مکمل ضابطہ اخلاق سے مزین ہے۔دنیا و آخرت میں انسان جس جس چیز کی
طرف محتاج ہے۔اسلام نے اسکو بڑے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔نظام زندگی کو
چلانے کے لئے دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف مراتب دیئے گئے ہیں۔کوئی مالک ہے تو
کوئی ملازم کوئی امیر ہے تو کوئی غریب کوئی امام ہے تو کوئی خادم (علی ھذا
القیاس)۔جہاں اسلام نے مختلف لوگوں کو مختلف مراتب دیئے ہیں۔وہی ان مراتب کے
لوازمات کا خیال رکھنے کا بھی حکم دیا ہے۔کہ اگر کسی کے ماتحت افراد ہیں تو ان کے
حقوق کا خیال رکھے۔اگر کوئی والد ہے تو اپنی گھر والوں کے حقوق کا خیال رکھے۔اگر
کسی کے پاس ملازم و نوکر ہیں تو وہ ان ملازمین و نوکروں کا خیال رکھے۔
دین
اسلام نے جہاں حقوق کو بیان کیا ہے وہی ان حقوق کو ادا کرنے والے کے لئے اجر کو
بھی بیان کیا ہے اور حقوق کو ادا نہ کرنے والے کے لئے سزا کو بھی بیان کی ہے۔
سب سے
بڑا مفلس کون؟
حدیث
شریف میں ہے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ایک مرتبہ صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمایا کہ کیا تم
لوگ جانتے ہو کہ مفلس کون شخص ہے؟ تو صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا کہ جس
شخص کے پاس درہم اور دوسرے مال و سامان نہ ہوں وہی مفلس ہے تو حضور علیہ الصلوۃ
والسلام نے فرمایا کہ میری امت میں اعلیٰ درجے کا مفلس وہ شخص ہے کہ وہ قیامت کے
دن نماز روزہ اور زکوٰۃ کی نیکیوں کولے کر میدان حشر میں آئے گا مگر اس کا یہ حال
ہوگا کہ اس نے دنیا میں کسی کو گالی دی ہوگی کسی پر تہمت لگائی ہوگی۔ کسی کا مال
کھالیا ہوگا۔ کسی کا خون بہایا ہوگا کسی کو مارا ہوگا تو یہ سب حقوق والے اپنے
اپنے حقوق کو طلب کریں گے تو اﷲتعالیٰ اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کو ان کے
حقوق کے برابر نیکیاں دلائے گا۔ اگر اس کی نیکیوں سے تمام حقوق والوں کے حقوق نہ
ادا ہو سکے بلکہ نیکیاں ختم ہوگئیں اور حقوق باقی رہ گئے تو اﷲتعالیٰ حکم دے گا کہ
تمام حقوق والوں کے گناہ اس کے سر پر لاد دو۔ چنانچہ سب حق والوں کے گناہوں کو یہ
سر پر اٹھائے گا پھر جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو یہ شخص سب سے بڑا مفلس
ہوگا۔(جنتی زیور ص 105)
جو خود کھاتے ہو وہی انہیں بھی کھلاؤ:
نبی
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا ہے: لونڈی غلاموں کے حقوق ادا کرنے میں خدائے تعالی سے ڈرو جو تم لوگ
خود کھاتے ہو وہیں ان کو کھلاؤ جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ۔ اور ایسا مشکل
کام ان کے ذمہ نہ لگاؤ جو وہ نہ کر سکیں۔ اگر تمہارے مطلب کے ہیں تو ان کو رکھو
ورنہ فروخت کر دو۔ اور خدا کے بندوں کو اذیت اور تکلیف میں نہ رکھو۔ کیونکہ خدائے
تعالیٰ نے تمہارے لونڈی غلام بنایا اور تمہارے تابع کر دیا ہے۔ اگر چاہتا تو تم
کوان کے جانی اور زیر دست کر دیتا۔(کیمیائے سعادت، مترجم، ص 319)
کتنی مرتبہ معاف کریں؟ایک شخص نے
حضور علیہ الصلوۃ و السلام سے عرض کیا ہم لوگ دن میں کتنی بار اپنے لونڈی غلاموں
کے قصور معاف کریں۔ فرمایا ستر بار۔(ایضاً)
ضروریات سے محروم نہ رکھے:امام
غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:لونڈی غلاموں کے حقوق یہ ہیں کہ ان کو روٹی سالن
اور کپڑے وغیرہ ضروریات سے محروم نہ رکھے اور انہیں حقارت کی نظر سے نہ دیکھے اور
یہ خیال کرے کہ یہ بھی میری طرح بندے ہیں اور اگر ان سے کوئی قصور سرزد ہو جائے تو
آقا خود خدا کے جو قصور اور گناہ کرتا ہے ان کا خیال کرے اور یاد کرے اور جب ان پر
غصہ آئے تو اللہ احکم الحاکمین کا جو اس پر قدرت رکھتا ہے خیال کرے۔(کیمیائے سعادت
مترجم ص 320)
اللہ
کریم ہمیں تمام حقوق کو بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے اور کل بروز قیامت ہمیں اہل
جنت کی صف میں جگہ عطا فرمائے۔آمین
محمد
ہارون عطاری (درجہ خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور،پاکستان)

الله
تبارک و تعالی نے ہم کو بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں ہیں ان نعمتوں میں سے ایک اہم
نعمت خدمت گاروں کا وجود ہے جو روز مرہ کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے ہیں قلیل معاوضے
پر راحت پہچانے میں دن رات کام کے لیے حاضر ہوتے ہیں اللہ تعالٰی کی مشیت کے تحت بعض
لوگوں کو بعض پر فوقیت مل جاتی ہے: اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَهُمْ یَقْسِمُوْنَ رَحْمَتَ رَبِّكَؕ-نَحْنُ قَسَمْنَا بَیْنَهُمْ
مَّعِیْشَتَهُمْ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ رَفَعْنَا بَعْضَهُمْ فَوْقَ بَعْضٍ
دَرَجٰتٍ لِّیَتَّخِذَ بَعْضُهُمْ بَعْضًا سُخْرِیًّاؕ-وَ رَحْمَتُ رَبِّكَ خَیْرٌ
مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(۳۲)ترجمہ کنز الایمان: کیا تمہارے رب کی
رحمت وہ بانٹتے ہیں ہم نے ان میں ان کی زیست (زندگی گزارنے)کا سامان دنیا کی زندگی
میں بانٹا اور ان میں ایک دوسرے پر درجوں بلندی دی کہ ان میں ایک دوسرے کی ہنسی
بنائے اور تمہارے رب کی رحمت ان کی جمع جتھا سے بہتر ہے۔ (پ25، الزخرف:32)
نوکر و
ملازم کے حقوق پر احادیث:
(1)نوکر کی مزدوری دینا: حضرت عبدالله
بن عمر رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا مزدور کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے اس کی مزدوری دے دیا کرو۔)ابن
ماجہ)
(2)نوکر کو نہ مارنا: حضرت عمار بن
یاسر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا جو آقا اپنے غلام کو ناحق مارے گا قیامت کے دن اس سے بدلہ لیا جائے
گا۔(طبرانی مجمع الزوائد)
(3)خادم کو معاف کرنا:حضرت عبد الله
بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔کہ ایک شخص رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول خادم کو ہم کتنی بار
معاف کریں؟ آپ صلی الله خاموش رہے پھر اس نے اسی سوال کو دہرایا آپ پھر بھی خاموش
رہے جب اس نے تیسری بار پوچھا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اسے
ہر دن ستر بادمعاف کیا کرو۔(ترمذی، ابوداؤد)
(4)خادم کو کھانا کھلانا:حضرت ابو
ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لیے کھانا تیار کرے پھر وہ اسی کے
پاس لے کر آئے جبکہ اس نے اس کے پکانے میں گرمی اور دھوئیں کی تکلیف اٹھائی ہو تو
مالک کو چاہیے اس خادم کو بھی کھانے میں اپنے ساتھ بٹھائے اور وہ بھی کھائے اگر وہ
کھانا تھوڑا ہو تو مالک کو چاہیے کہ کھانے میں سے ایک دو لقمے ہی اس خادم کو دے
دے۔