اگر کسی مجلس میں خوشبو آ رہی ہو تو اس مجلس میں موجود سب ہی معطر معلوم ہوتے ہیں اور ہر ایک دوسرے سے کہتا دکھائی دیتا ہے کہ آپ کی خوشبو کتنی پیاری ہے اور پھر اس مجلس کی کیا شان ہوگی جس میں خوشبو اس ذات کی ہو جس کو اللہ پاک نے وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان:اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے (پ 17،الانبیاء 107)اور اس ذات کی مجلس کی عظمت کس قدر بلند ہوں گی کہ اللہ پاک نے خود رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمہ کنزالایمان (آپس میں نرم دل )کہہ کر اس مجلس کی تعریف کی ہو۔ اور اس مجلس کا اس ذات کی شان کتنی بلند ہوگی کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں جس کو ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ هُمَا فِی الْغَارِ ترجمہ کنزالایمان( صرف دو جان میں سے جب وہ دونوں غار میں تھے) کہہ کر پکارا ہو۔

اس بلند پایا عظمت اور رفعت والے صحابی کا شان کیوں نہ کوئی بیان کرے جن کو رسول اللہ نے مردوں میں سب سے پسندیدہ قرار دیا۔(صحیح البخاری 2/519،الحدیث:3662)

ایسی شان والےخلیفہ کی مدح و سرائی میں خاندان اہلِ بیت کے عظیم چراغ شیر خدا حضرت علی رضی اللہ عنہ کےفرامین میں ہمیں کتب سیر وتاریخ میں کثرت سے ملتے ہیں۔ یہاں اختصار کے پیش نظر چند ذکر کیے جاتے ہیں چنانچہ فرمان مولا علی رضی اللہ عنہ ہے:

قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جب ہم نے کسی خیر میں پیشی چاہی تو ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم پر سبقت لے گئے ہیں۔(المعجم الاوسط 8/82،الحدیث:7164)

مزید فرماتے ہیں: جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا وہ میرے اور تمام اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کا منکر ہوگا۔(جامع الحدیث 12/221،الحدیث:7733)

ایک شخص نے امیر المومنین علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی:آپ خیر الناس ہیں۔ ارشاد فرمایا :کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟ اس شخص نے کہا: نہیں۔ ارشاد فرمایا: ابوبکر اور عمر کو دیکھا ہے؟ اس نے پھر کہا: نہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: سن لے اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے کے بعد خیر الناس بعد رسول اللہ کا اقرار کرتااور پھر مجھے خیر الناس کہتا تو میں تجھے قتل کرتا۔ اور اگر تو ابوبکر و عمر کو دیکھتا اورمجھے افضل بتاتا تو میں تجھے حد لگاتا۔(کنزالعمال 13/26،الحدیث:32153)

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں ایسے شخص کو پاؤں جو مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دیتا ہے اسے مفتری کی حد یعنی اسّی(80) کوڑے لگاؤں گا۔

(مختصر تاریخ دمشق 13/110)


حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اے علی جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے بھی اسی مبارک برتن سے غسل دینا جس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا تھا۔ پھر مجھے کفن دے کر نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کی جانب لے جانا اور بارگاہ رسالت سے یوں اجازت طلب کرنا: السلام علیک یا رسول اللہ ! ھذا ابو بکر یستاذن یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلام ہو ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہے اور اجازت چاہتے ہیں۔ اگر روضہ اقدس کا دروازہ کھلے تو مجھے اس میں دفن کرنا نہ اور اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے قبرستان ( جنّت البقیع) میں دفن کر دینا۔ حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غسل و کفن کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی کے مطابق روضہ محبوب کے دروازے پر حاضر ہوا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یوں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکر آپ سے اجازت کے طالب ہیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے میرے الفاظ مکمل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ روزہ رسول اللہ کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے آواز آئی: ادخلوا الحبیب الی الحبیب یعنی محبوب کو محبوب سے ملا دو۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔(الخصائص الکبریٰ، 2/492)

حضرت سیدنااصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ امت میں رسول اللہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا: اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھر میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ )۔(الریاض النضرۃ، 1/57)

حضرت علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: غزوہ بدر کے روز ہم نے دو عالم کے مالک کو مختار مکی مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اور نگہداشت کے لئے ایک سائبان بنایا تاکہ کوئی کافر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر کے تکلیف نہ پہنچا سکے، اللہ پاک کی قسم ہم سے کوئی بھی آگے نہیں بڑھا صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ننگی تلوار ہاتھ میں لئے آگے تشریف لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہو گئے اور پھر کسی کافر کو یہ جرأت نہ ہو سکی کہ آپ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب بھی پھٹکے اس لئے ہم میں سب سے زیادہ بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ہیں۔

( کنزالعمال ،کتاب الفضائل، فضائل الصحابہ 6/235،الحدیث:35685)


علمائے اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیاء کرام کے بعد سب سے افضل ہیں۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں! حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شان بیان کرتے ہوئے مولائے کائنات جناب علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

خیر ھذہ الامۃ بعد نبیھا ابوبکر و عمر یعنی اس امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہتر حضرت ابوبکر کو عمر رضی اللہ عنہما ہیں۔

نوٹ: علامہ ذھبی اس قول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول ان سے تواتر کے ساتھ مروی ہے۔( تاریخ الخلفا)

اور اسی طرح بخاری شریف میں ہے۔حضرت محمد بن حنفیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں کہ: میں نے اپنے والد گرامی حضرت سیدنا علی المرتضیٰ سے پوچھا کہ رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے بعد سب سے افضل کون ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا:( قَالَ: اَبُوْ بَکْرٍ)حضرت ابو بکر سب سےافضل ہیں ۔پھر میں نے عرض کی ان کے بعد کون؟تو آپ نے فرمایا: ( قَالَ: عُمَرُ )حضرت عمر رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں۔حضرت محمد بن حنفیہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں( خشیتُ ان یقول عثمان)کہ مجھے خوف ہوا کہ اب اس کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کا نام لیں گے۔ تو میں نے کہا کہ اس کے بعد آپ سب سے افضل ہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:(ما انا الا رجل من المسلمین) کہ میں تو مسلمانوں میں سے ایک آدمی ہوں ۔(مشکوٰۃشریف)

امیر المومنین ہیں آپ، امام المسلمین ہیں آپ

نبی نے جنتی جن کو کہا صدیق اکبر ہیں

عمر سے بھی وہ افضل ہیں وہ عثماں سے بھی اعلیٰ

یقیناً پیشوائے مرتضیٰ صدیق اکبر ہیں

اور محترم اسلامی بھائیو! حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سارے صحابہ کرام میں سب سے زیادہ شجاع اور بہادر بھی تھے۔

علامہ بزار رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسند تحریر فرماتے ہیں۔ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے دریافت کیا کہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ ان لوگوں نے کہا کہ سب سے بہادر آپ رضی اللہ عنہ ہیں۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں تو ہمیشہ اپنے جوڑ سے لڑتا ہوں۔ پھر میں کیسے بہادر ہوا ۔تم لوگ یہ بتاؤ سب سے زیادہ بہادر کون ہے؟ تو لوگوں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم آپ ہی بتا دیں۔ تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سب سے زیادہ شجاع اور بہادر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔ سنو ! جنگ بدر میں ہم لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جھونپڑا بنایا تھا۔ تاکہ گرد و غبار سے حضور علیہ السلام محفوظ رہ سکیں۔ تو ہم لوگوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کون رہے گا؟ کہیں کوئی ان پر حملہ نہ کردے۔(فواللہ ما دنا منّا احد الا ابو بکر) یعنی خدا کی قسم اس کام کے لئے سوائے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے کوئی آگے نہیں بڑھا۔ آپ شمشیرِ برہنہ ہاتھ میں لے کر حضور علیہ السلام کے پاس کھڑے ہوگئے۔ پھر کسی دشمن کو آپ علیہ السلام کے پاس آنے کی جرأت نہ ہوسکی۔ اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی سب سے زیادہ شجاع اور بہادر تھے۔(تاریخ الخلفاء)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار کا واقعہ ہے کہ کافروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ لیا اور کہنے لگے کہ تم ہی ہو جو کہتے ہو کہ خدا ایک ہے ۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :تو قسم خدا کی !اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب نہیں گیا ۔ آپ آگے بڑھے اور کافروں کو مارا اور انہیں دھکے دے دے کر ہٹایا اور فرمایا :تم پر افسوس ہے کہ تم لوگ ایسی ذات کو تکلیف پہنچارہے ہو جو یہ کہتا ہے کہ میرا پروردگار صرف اللہ ہے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ اپنے ایمان کو چھپاتے تھے مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنے ایمان کو علی الاعلان ظاہر فرماتے تھے اس لئے آپ سب سے زیادہ بہادر تھے ۔

( تاریخ الخلفا ، ابو بکر صدیق، شجاعتہ، ص28)

جان دی ، دی ہوئی اُسی کی تھی

حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا


بعثت نبوی سے قبل اہل مکہ اگرچہ بت پرستی کفروشرک، ظلم و ستم ، زنا کاری، شراب نوشی وحشت و بربریت اور ان جیسےکئی دیگر معاملات فاسدہ میں گھڑے گرے ہوئے تھے ۔مگر اس وقت بھی چند ایسے لوگ تھے جو ان تمام معاملات کو نہ صرف غلط سمجھتے بلکہ ان کے خلاف حق کی تلاش میں سرگرداں بھی رہتے۔ انہی لوگوں میں ایک ایسا بھی جوان تھا جس کا شمار قریش کے شرفاء میں ہوتا تھا۔ اور اس کی نیک نامی کی وجہ سے چھوٹے بڑے سب ہی اس کی عزت کیا کرتے تھے۔ اور وہ تھے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ۔آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و کمالات بہت زیادہ ہے۔ لیکن یہاں حیدرِ کرار علی المرتضیٰ کے اقوال آپ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نقل کرتے ہیں کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے ایک بڑا عرصہ آپ کے ساتھ گزارا۔

خلافت صدیق اکبر اور حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ:

امام حاکم رضی اللہ عنہ نقل فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا شیر خدا نے خلافت صدیق اکبر کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: غور سے سن لو! ہم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ہی خلافت کا اہل سمجھا ہے۔( المستدرک علی الصحیحین ،الحدیث:4519)

افضلیت صدیق اکبر بزبان حیدر کرار رضی اللہ عنہ:

حضرت سیدنااصبغ بن نباتہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ سے استفسار کیا کہ امت میں رسول اللہ کے بعد سب سے افضل کون ہے؟ فرمایا: اس امت میں سب سے افضل حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ، پھر حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پھر میں (یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ ) (الریاض النضرۃ، 1/57)

حضرت سیدناابو شریحہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نےحضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کومنبر پر یہ فرماتے ہوئےسنا کہ حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا دل بہت مضبوط ہے۔‘‘ (الریاض النضرۃ،1/139)

حضرت سیدناموسی بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المؤ منین حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ:’’ ہم سب صحابہ میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سےافضل ہیں۔‘‘(الریاض النضرۃ،1/138)

حضرت سیدنا ابویحییٰ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہےکہ حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نےقسم کھاکرارشاد فرمایا:’’اللہ تعالٰی نے سیدنا ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایاہے۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین،کتاب معرفۃ الصحابۃ،4/4، الحدیث : 4461)

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیااس میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے۔‘‘

(مجمع الزوائد،کتاب المناقب،9/29، الحدیث: 14332)

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں کہ ’’قیامت میں آنے والے حکمرانوں اور والیوں پر اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرت سیدنا ابوبکرصدیق وحضرت سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہما کو حجت اور دلیل بنایا ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم یہ دونوںسب پرسبقت لے گئےہیں اوران دونوں نے بعد میں آنے والوں کو (اخلاص و تقوی کے اعتبار سے)مشکل میں ڈال دیا۔‘‘ (کنز العمال،کتاب الفضائل،فضل الشیخین،7/13،الحدیث:36150)


یا رسول اللہ ابوبکر حاضر ہے:

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حیات طیبہ کے آخری لمحات میں آپ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اے علی جب میرا انتقال ہو جائے تو مجھے بھی اسی مبارک برتن سے غسل دینا جس برتن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا گیا تھا۔ پھر مجھے کفن دے کر نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر انور کی جانب لے جانا اور بارگاہ رسالت سے یوں اجازت طلب کرنا: السلام علیک یا رسول اللہ ! ھذا ابو بکر یستاذن

یعنی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ پر سلام ہو ابوبکر آپ کی خدمت میں حاضر ہے اور اجازت چاہتے ہیں۔ اگر روضہ اقدس کا دروازہ کھلے تو مجھے اس میں دفن کرنا نہ اور اگر اجازت نہ ملے تو مسلمانوں کے قبرستان ( جنّت البقیع) میں دفن کر دینا۔ حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا کرم اللہ وجہ الکریم فرماتے ہیں کہ میں حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو غسل و کفن کے معاملات سے فارغ ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کی کے مطابق روضہ محبوب کے دروازے پر حاضر ہوا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یوں عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ابوبکر آپ سے اجازت کے طالب ہیں۔ حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جیسے میرے الفاظ مکمل ہوئے تو میں نے دیکھا کہ روزہ رسول اللہ کا دروازہ کھل گیا اور اندر سے آواز آئی: ادخلوا الحبیب الی الحبیب یعنی محبوب کو محبوب سے ملا دو۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کو سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفنا دیا گیا۔(الخصائص الکبریٰ 2/492)

قیامت تک ثواب کے حقدار: حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبٔی رحمت شفیع امّت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا: اے ابوبکر ! آدم علیہ السلام سے قیامت تک اللہ پاک پر ایمان لانے والوں کا ثواب اللہ پاک نے مجھے عطا کیا اور میری بعثت سے قیامت تک ایمان لانے والوں کا ثواب اللہ پاک نے تجھے عطا فرمایا۔( تاریخ مدینہ دمشق، 30/118)

تقدیم صدیق اکبر میں جانب رب اکبر: حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارشاد فرمایا:" میں نے بارگاہ الٰہی میں تین بار تمہیں مقدم کرنے کا سوال کیا، مگر بارگاہ الٰہی سے ابوبکر ہی کو مقدم کرنے کا حکم آیا"۔

( کنزالعمال ،6/11،الحدیث:32634)

صدیق اکبر پر رب کا خصوصی کرم: حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی رحمت شفیع امت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: روز قیامت منادی ندا کرے گا: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کہاں ہیں ؟ پوچھا جائے گا: وہ کون ہیں؟ ندا کرنے والا کہے گا :ابوبکر رضی اللہ عنہ کہاں ہیں؟ پھر اللہ پاک لوگوں کے لئے عام اور ابوبکر کے لئے خاص تجلی فرمائے گا۔(الآلی المصنوعۃ 1/264،الریاض النضرۃ 1/165)

سیدنا ابوبکر و عمر جنتیوں کے سردار: حضرت سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ایک بار میں بارگاہ رسالت میں حاضر تھا، حضرت سیدنا ابوبکر عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :ابوبکر وہ عمر اولین وہ آخرین میں سوائے انبیاء و مرسلین کے تمام جنتیوں کے سردار ہیں، اے علی! تم ان دونوں کو نہ بتانا۔

( سنن الترمذی 5/376،حدیث:3685)

سیدنا ابوبکر و عمر کے ساتھ جبرائیل و میکائیل: حضرت سیدنا علی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر کے موقع پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر و سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما سے ارشاد فرمایا: تم میں سے ایک کے ساتھ جبرائیل اور ایک کے ساتھ میکائیل ہیں۔(مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل ذکر ابی بکر 7/475،الحدیث:32)

سب سے افضل صدیق اکبر ہے: حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اللہ کے محبوب دانائے غیوب صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل اس امت میں ابوبکر ہیں ان کے بعد حضرت سیدنا عمر فاروق ہیں۔( مصنف ابن ابی شیبہ کتاب الفضائل 7/475،الحدیث:28)


 تمہید: اللہ رب العزت نے قرآن مجید برہانِ رشید میں اپنے محبوب کریم علیہ السلام کے اصحاب کا ذکر خیر اس انداز میں بیان فرمایا: رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمہ کنز الایمان :اور آپس میں نرم دل ہے۔(پ 26، الفتح:29)

صحابہ کرام آپس میں ایسے نرم دل تھے کہ ایک دوسرے سے محبت اس طرح فرماتے کہ جیسے ایک باپ اپنے بیٹے سے کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت میں مسلمانوں کے لئے نصیحت کے مدنی پھول ہیں، کہ ایک مسلمان اپنے مسلمان بھائی سے نفرت نہ کرے بلکہ شفقت اور نرمی سے پیش آئے۔

شان یارِ غار بزبانِ حیدرِ کرّار:

1۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیا اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے۔( مجمع الزوائد،9/29،الحدیث:14332)

2۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس امت میں اللہ پاک کے محبوب کے بعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ معزز شخص سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ ہیں۔ کیونکہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے پہلے قرآن مجید کو جمع کرنا شروع کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو اس کی قدیم حسن و خوبیوں کے ساتھ قائم فرمایا۔

(جمع الجوامع، مسند ابی بکر،11/39،الحدیث:157)

3۔حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ چار باتوں میں مجھ سے سبقت لے گئے:(1) انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔ (2)مجھ سے پہلے ہجرت کی۔ (3) سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِغار ہونے کا شرف پایا۔ (4) سب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔( الریاض النضرۃ 1/89)

4۔ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں تو سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔( تاریخ مدینہ دمشق 30/383)


اللہ کریم نے قرآن پاک پارہ 24،سورہ زمر، آیت نمبر 33 میں ارشاد فرمایا :وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیزگار ہیں۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت مبارکہ کی تفسیر: جب مولا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم کو اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر پہنچی تو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے گھر پر تشریف لائے اور انصار و مہاجر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے درمیان شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر عظیم خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :اے صدیق رضی اللہ عنہ تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بمنزل سمع و بصر ( گویا آنکھ اور کان) تھے۔ تم نے اس وقت حضور علیہ الصلوۃ التسلیم کو سچّا جانا ۔جب تمام لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلاتے تھے۔ اس لئے اللہ پاک نے وحی ( قرآن) میں آپ کا نام صدیق رکھا، جیسا کہ اللہ پاک نے فرمایا:

وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ ،ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی ۔یعنی سچ لانے والے حضور افضل الصلوٰۃ والتسلیم ہیں اور تصدیق کرنے والے آپ صدّیق ہیں، اے ابوبکر رضی اللہ عنہ تمہاری وفات سے بڑھ کر مسلمانوں پر کبھی کوئی مصیبت نہیں پڑے گی۔( ریاض النضرہ )

حضرت مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی وہ اولاد جو حضرت فاطمۃ الزہرہ کے علاوہ آپ کے دیگر ازواج سے ہوئیں ان میں سے ایک بیٹے محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا یعنی حضرت علی سے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ رتبے والا کون ہے؟ تو آپ نے فرمایا :ابو بکر رضی اللہ عنہ (مشکوٰۃ، ص:555)

نیز حضرت مولا علی کرّم اللہ وجہہ الکریم نے شان صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے فقط اپنی زبان سے ہی نہ کی بلکہ عملاً صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ادب و تعظیم بجا لاکر بدگمانی کے دلدل میں پھنسے ہوئے اور شیطان کے جالوں میں جکڑے ہوئے راہ سے بھٹکے ہوئے لوگوں کو عملی طور پر راہ راست دکھا دی۔

چنانچہ ایک مرتبہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں حاضری کے لئے دونوں حضرات بیک وقت تشریف لائے تو بارگاہ سرکار کے دروازے پر کھڑے ہو کر مکالمہ ہونے لگا ، جناب خلیفہ اول نے مولا علی سے فرمایا: آپ پہلے تشریف لے جائیں، تو مولا علی نے جواب عرض کیا: میں اس ہستی سے آگے کیسے بڑھوں جس کے بارے میں سرکار علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: کہ جسے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کا سینہ دیکھنا ہو، وہ آپ کا سینہ دیکھ لے، مگر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پھر فرمایا کہ آپ پہلے تشریف لے جائیں، تب مولا علی نے عرض کی میں ان ہستی سے آگے کیسے بڑھوں جن کے لئے حضور نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن ندا ہو گی "اے ابوبکر تو اور تجھ سے محبت کرنے والے جنت میں داخل ہو جائے "۔(اختصاراً نور الابصار ،ص 5)

ذرا غور فرمائیں حضرت علی شیر خدا کرم اللہ وجہہ الکریم تو اپنی تعلیمات میں قولاً عملا ًصدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی محبت و تعظیم سکھائیں، اور آپ علیہ الرحمۃ کی صحبت کا دم بھرنے والا صدیق اکبر اسلام کے پہلے خلیفہ انبیاء کے بعد افضل البشر کے لئے دل میں بغض اور کینہ رکھے۔ خدارا اپنے حال پر رحم فرمائیں اور مولا علی کی تعلیمات سے دنیا و آخرت کا فائدہ اٹھائیں ۔

اللہ کریم حق قبول کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


 مختصر تعارف: اسلام کے پہلے خلیفہ ،افضل البشر بعد الانبیاء ( یعنی انبیاء علیہم السلام کے بعد مخلوق میں سب سے زیادہ افضل) حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اسم گرامی "عبداللہ " کنیت "ابوبکر "اور دو لقب زیادہ مشہور ہے "عتیق" اور "صدیق"۔

آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل:

قرآن پاک کی متعدد آیات وہ کثیر احادیث مبارکہ و اقوال سلف صالحین میں آپ کے فضائل و مناقب مروی ہوئے ہیں۔ یہاں پر ان روایات کو بیان کیا جاتا ہے جن میں اسلام کے چوتھے خلیفہ حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب کو بیان فرمایا ہے۔

(1) سب سے زیادہ رحم دل:

ایک بار حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نےحضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فرمایا:’’ جو شخص کسی ایسے انسان کو دیکھنا چاہتاہے کہ جونبیٔ اکرم رسول محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے قریبی رشتے دار ہو،سب سے زیادہ خصائص نبوت سے فیضیاب ہواہو اور رسولِ اَکرم، شاہ ِبنی آدم صلی اللہ علیہ وسلم کا محبوب ترین ہوتو وہ علی المرتضی کو دیکھ لے۔‘‘ جب حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو ارشاد فرمایا:’’ابوبکر نے میرے بارے میں اگر یہ کہا ہے تو یاد رکھو! وہ انسانوں میں سب سے زیادہ رحم دل،نبی ِّکریم صلی اللہ علیہ وسلم کےیارِ غار اور اپنے مال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ نفع پہچانےوالے ہیں۔‘‘ (الریاض النضرۃ، ج:1، ص:130)

(2) صحابہ میں سب سے افضل:

حضرت سیدناموسی بن شداد رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے امیر المؤ منین حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سناکہ:’’ ہم سب صحابہ میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سب سےافضل ہیں۔‘‘ (الریاض النضرۃ، ج:1، ص:130)

(3)ہر نیک کام میں سبقت:

حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!میں نے جس کام میں بھی سبقت کا ارادہ کیااس میں حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مجھ سے سبقت لے گئے۔

(مجمع الزوائد،کتاب المناقب،جامع فی فضلہ، الحدیث: 14332، 9/29 )

(4)تمام نیکیوں میں سے ایک نیکی:

حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ ارشادفرماتے ہیں: ’’میں توحضرت سیدنا ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تمام نیکیوں میں سے صرف ایک نیکی ہوں۔‘‘

(تاریخ مدینہ دمشق، 30/383)

(5)چار باتوں میں سبقت:

حضرت سیدناعلی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بلا شبہ حضرت سیدناابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان چار باتوں میں مجھ سےسبقت لے گئے:(۱)انہوں نے مجھ سے پہلے اظہار اسلام کیا۔(۲)مجھ سے پہلے ہجرت کی۔ (۳)سیِّد عالَم، نُورِ مُجَسَّم صلی اللہ علیہ وسلم کےیار غار ہونے کا شرف پایا۔(۴)اورسب سے پہلے نماز قائم فرمائی۔‘‘(الریاض النضرۃ ،1/89)

(6) پل صراط سے گزرنے کا اجازت نامہ:

ایک بارحضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کی ملاقات ہوئی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر مسکرانے لگے ۔حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ’’آپ کیوں مسکرارہے ہیں؟‘‘ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےکو یہ فرماتے سنا کہ پل صراط سے وہ ہی گزرے گا جس کو علی المرتضی تحریری اجازت نامہ دیں گے۔‘‘یہ سن کر حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ بھی مسکرادئیے اور عرض کرنے لگے: ’’کیا میں آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے آپ کے لئے بیان کردہ خوشخبری نہ سنائوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:پل صراط سے گزرنے کا تحریری اجازت نامہ صرف اسی کوملے گا جو ابو بکر صدیق سے محبت کرنے والا ہوگا ۔‘‘

(الریا ض النضرۃ،ج1،ص207)

نہایت متقی و پارسا صدیق اکبر ہیں

تَقِیْ ہیں بلکہ شاہِ اَتْقِیَا صدیق اکبر ہیں


پیارے اسلامی. بھائیو!

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی اقتدا کروگے ہدایت پا جاؤگے۔(خلفائے راشدین،ص 2)

پیارے اسلامی بھائیو ! یوں تو تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی ہدایت کے درخشندہ ستارے ہیں لیکن خلیفہ اول ان تمام سے ممتاز ہے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کی شان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بلند و افضل ہیں۔ آئیے جنابِ ابوبکر صدیق کی شان بزبان حیدر کرار سنئے:

مدارج النبوۃ میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:قدمک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فمن الذی یؤخرک، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو آگے بڑھایا تو پھر کون شخص آپ کو پیچھے کر سکتا ہے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فرمان میں اس واقعہ کی جانب اشارہ ہے جو سرکار اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی علالت کے زمانے میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو آگے بڑھایا اور آپ ہی کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کا امام بنایا۔( خلفائے راشدین ص:10)

حضرت سیدنا محمد بن علی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی یعنی حضرت سیدنا علی المرتضی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’نبیٔ کریم،رءوف رَّحیم صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدسب سے افضل کون ہے؟‘‘ارشادفرمایا:’’ابوبکر‘‘میں نے کہا:’’پھر کون؟‘‘ فرمایا:’’عمر‘‘۔مجھے خدشہ ہواکہ اگرمیں نے دوبارہ پوچھا کہ’’پھر کون؟‘‘ توشاید آپ رضی اللہ عنہ حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا نام لے لیں گے، اس لئے میں نے فورا کہا:’’حضرت سیدناعمر رضی اللہ عنہ کے بعدتوآپ رضی اللہ عنہ ہی سب سے افضل ہیں؟‘‘ارشادفرمایا:’’میں تو ایک عام سا آدمی ہوں۔‘‘( فیضان صدیق اکبر، ص 505)

طبرانی نے اوسط میں حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہ سے روایت کی آپ نے فرمایا :بعدِ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے بہتر ابوبکر وہ عمر ہے۔ میری محبت اور ابوبکر و عمر کا بغض کسی مومن کے دل میں جمع نہ ہو گا۔(سوانح کربلا ،ص 40)

ابن عساکر نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت کی کہ حضرت علی مرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا جو مجھے حضرت ابوبکر و عمر سے افضل کہے گا تو میں اس کو مقتری (یعنی الزام لگانے والے) کی سزا دوں گا۔( سوانح کربلا ،ص:39)

حاکم نے مستدرک میں نزال بن سبرہ سے باسناد جید روایت کی کہ ہم نے حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی نسبت دریافت کیا تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہ شخص ہیں جن کا نام اللہ پاک نے بزبان جبریلِ امین و بزبانِ سرورِانبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدیق رکھا ، وہ نمازمیں حضور کے خلیفہ تھے۔حضور نے انھیں ہمارے دین کے لئے پسند فرمایا تو ہم اپنی دنیا کے لئے ان سے راضی ہیں۔

دار قطنی وحاکم نے ابو یحییٰ سے روایت کیا کہ میں شمار نہیں کرسکتا کتنی مرتبہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کوبرسرِمنبر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان پر ابو بکر کا نام صدیق رکھا۔

طبرانی نے بسندِجید صحیح حکیم بن سعد سے روایت کی ہے کہ میں نے علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو بحلف فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے ابوبکر کا نام صدیق آسمان سے نازل فرمایا۔

( سوانح کربلا ،ص:34)


 صحابہ کرام علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ ساری امت سے افضل و اعلی ہے۔ اب قیامت تک چاہے کوئی کتنی ہی عبادت وہ ریاضت کرے، ان کے برابر نہیں ہو سکتا۔ یہ شان ہر صحابی کو حاصل ہے۔ پھر ذرا سوچئے کہ امام الصحابہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے برابر کون ہو سکتا ہے جنہوں نے مردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا پھر تبلیغ اسلام کی راہ میں آنے والی مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔ سفرِ ہجرت میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا ۔آپ عشرہ مبشرہ میں بھی شامل ہیں۔ یعنی وہ دس صحابہ جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں جنت کی خوشخبری سنائی۔

آپ کی شان اتنی بلند ہونے کے باوجود بعض لوگ آپ کو برا بھلا کہتے ہیں ان کی شان کو گھٹاتے ہیں مگراہلسنت ان کی شان کو کھل کر بیان کرتے ہیں۔

چونکہ بعض لوگ مولا علی کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر فضیلت دیتے ہیں۔ آئیے مولا علی کے فرامین آپ کی تفسیر سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی شان پڑھتے ہیں۔

" قرآن" کے چار حروف کی نسبت سے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے چار فضائل

1۔ قرآن کریم کی سورۃ الزمر میں اللہ پاک نے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی شان میں ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیزگار ہیں۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سیدناعلی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: والذي جاء بالحق محمد وصدق به ابوبكر الصديق، ترجمہ:وہ جو حق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور جنہوں نےان کی تصدیق کی وہ ابو بکر صدیق ہیں ۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ برسرمنبرعلی الاعلان حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے مقام صدیقیت کا تذکرہ فرماتے تھے۔ چنانچہ ابویحیی کہتے ہیں:”میں نے بار ہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کومنبر پر یہ فرماتے سنا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا نام صدیق رکھا‘‘۔

یونہی حکیم بن سعد روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک بار قسم اٹھا کریہ فرماتے ہوئے سنا:’’اللہ پاک نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کانام صدیق آسمان سے نازل فرمایا ہے۔(شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر ،ص:9)

2۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ: ابوبکر سے بہتر شخص پر سورج طلوع نہیں ہوا ۔(امام الامۃ ابوبکر صدیق،ص 32،33)

بیاں ہو کس سے مرتبہ صدیق اکبر کا

ہے یارِ غار محبوب خدا صدیق اکبر کا

عن علی رضی اللہ عنہ قال خیر الناس بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو بکر و خیر الناس بعد ابی بکرٍ عمر ،یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام لوگوں سے افضل ابوبکر ہیں اور ابوبکر کے بعد سب سے افضل عمر ہیں۔

( امام الامۃ ابوبکر صدیق ص:33)

4۔اہل جنت کے سردار:

چنانچہ حدیث پاک میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوبکر صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما اچانک آتے نظر آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا: هذان سيدا كهول أهل الجنة من الأولين والآخرين إلّا النّبيين والمرسلين لا تخبرهما يا عليّ،ترجمہ: یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں۔ اے علی ! تم انہیں نہ بتانا۔

مسند امام احمد بن حنبل اور کنزالعمال میں "وشبابھا" کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی ادھیڑ عمر جنتیوں کے ساتھ ساتھ جوانوں کے بھی سردار ہیں۔ قرآن و حدیث کے ترجمان امام احمد رضا اسی حدیث پاک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

فرماتے ہیں یہ دونوں ہیں سردار دو جہاں

اے مرتضیٰ عتیق و عمر کو خبر نہ ہو

( شان صدیق اکبر بزبان فاتح خیبر ،ص11)


 شان صدیقی میں نازل ہونے والی آیات کی علوی تفسیر:وَ الَّذِیْ جَآءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِهٖۤ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُتَّقُوْنَ(۳۳)ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جو یہ سچ لے کر تشریف لائے اور وہ جس نے ان کی تصدیق کی یہی پرہیز گار ہیں ۔(پ 24،الزمر:33)

اس آیت کی تشریح و توضیح میں حضرت سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَالَّذِىْ جَاءَ بِالْحَقِّ مُحَمَّدٌ وَصَدَّقَ بِهٖ ابوبكر الصّديق،"وہ جو حق یعنی دین اسلام لے کر آئے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور جنہوں نے ان کی تصدیق کی وہ ابوبکر صدیق ہیں"

(تاریخ دمشق،ص:222)

شان صدیقی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیثیں:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا تو حضرت ابوبکر اورعمر رضی اللہ عنہما آتے نظر آئے تو ان کے بارے میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں نبیوں اور رسولوں کے سوا سب اولین و آخرین، ادھیڑ عمر جنتیوں کے سردار ہیں اے علی تم انہیں نہ بتانا ۔(جامع ترمذی،ص:207)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا سہارا لئے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے تو حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے علی ! کیا تم ان دونوں سے محبت کرتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں یا رسول اللہ۔ فرمایا: ان سے محبت رکھو جنت میں داخل ہو جاؤ گے۔

( ابن عساکر، تاریخ دمشق الکبیر، 32/96)

ارشاد علی در فضیلت صدیقی:

(1) مردوں میں سب سے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اسلام لائے۔

( تاریخ الخلفا،ص:33)

(2)یقینا حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے درد مند، نرم دل اور خدا کی طرف رجوع کرنے والے تھے۔( تاریخ دمشق،32/250)

(3) عقیدہ اہل سنت کا ثبوت اس فرمان علی میں :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت میں حضرت ابوبکر سب سے بہتر ہے اور ان کے بعد حضرت عمر ان کے بعد حضرت عثمان اور ان کے بعد میں ہوں ۔

(تاریخ دمشق ، 61/106)

(4) خلافت صدیق اکبر کے بارے میں فرمان علی:

" پس ہم اپنے دنیاوی معاملات میں بھی ان کی قیادت پر راضی ہوگئے جس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے دین کے بارے میں ان کی امامت پر رضامندی کا اظہار فرمایا۔

(تاریخ دمشق، 32/174)

(5)گستاخانِ غار پر ضربِ حیدرِ کرار:

" جو شخص بھی مجھے ابوبکر و عمر پر فضیلت دے گا۔ میں اس کو مقتری کی سزا یعنی اسی کورے لگاؤں گا۔( تاریخ الخلفا،ص:46)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں ایمان والی زندگی اور موت عطا فرما ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


حضرتصدیقِ اکبر کا مختصرتعارف:

نام و کنیت : نامِ نامی اسمِ گِرامی عبدُاللہ آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت: ابوبکر اور صِدِّیق وعتیق آپ رضی اللہ عنہ  کے اَلقاب ہیں ۔

صدیق و عتیق کے معنیٰ اور وجہ: 

صِدِّیق کامعنی ہے :بہت زیادہ سچ بولنے والا ۔ آپ رضی اللہ عنہ  زمانَۂ جاہِلیّت ہی میں  اِس لقب سے مُلَقّب ہو گئے تھے کیونکہ ہمیشہ ہی سچبولتے تھے اور آپ رضی اللہ عنہ  کے لقبعتیق کا معنی ہے :آزاد ۔ اس لقب کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ  کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:اَنْتَ عَتِیْقٌ مِّنَ النَّارِ یعنی تُو نارِ دوزخ سے آزاد ہے ۔ اِس لئے آپ رضی اللہ عنہ  کا یہ لَقَب ہوا ۔( تاریخ الخلفا، ص:22)

خاندانی نسب:آپ رضی اللہ عنہ  قریشی ہیں اور ساتویں پُشت میں شجرۂ نسب رسولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندانیشَجَرے سے مل جاتا ہے ۔

تاریخِ پیدائش:آپ رضی اللہ عنہ  عام ُالفیل کے تقریباً اڑھائی برس بعد مکہ میںپیدا ہوئے ۔

تاریخِ وصال و تدفین:2 سال7 ماہ خلافت کے منصب پر فائز رہ کر 22جمادَی الاُخریٰ 13ہجری پیرشریف کادن گزار کر وَفات پائی۔

 امیرُ المومنین حضرت  عُمر رضی اللہ عنہ  نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور روضۂ منوَّرہ میں حضورِ اَقْدَس رضی اللہ عنہ  کے پہلوئے مقدَّس میں دَفن ہوئے ۔

( الاکمال فی اسماء الرجال لصاحب المشکوۃ، فصل فی الصحابہ، ابو بکر الصدیق، ص:587؛ تاریخ الخلفا، ص26 ، 27 ماخوذا )

ابو بکر صدیق اور قرآن :ثَانِیَ اثْنَیْنِاللہ پاک نے آپ رضیَ اللہُ عنہ کیلئےقراٰنِ مجید میں’’صَاحِبِہٖ‘‘یعنی ”نبی کے ساتھی“ اور ثَانِیَ اثْنَیْنِ(دو میں سے دوسرا)فرمایا، یہ فرمان کسی اور کے حصّے میں نہیں آیا۔

٭ امیرُ المؤمنین حضرت صِدِّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کو یہ شرف حاصل ہے کہ آپ  وہ صَحابی ہیں جنہوں  نے آزاد مردوں میں سب سے پہلے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رِسالت کی تصدیق کی۔ 

٭ آپ رضی اللہ عنہ  اِس قدَر کمالات و فضائل والے ہیں کہ اَنبیاء ِکِرام علیہم السلامکے بعد اگلے اور پچھلے تمام  انسانوں  میں  سب سے اَفضل واَعلیٰ ہیں۔

٭ اورتمام جِہادوں  میں  مجاہدانہ کارناموں  کے ساتھ شریک ہوئے اور صُلْح وجنگ کے تمام فیصلوں  میں  پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفے ٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے  وزیر ومُشیر بن کر، زندَگی کے ہر موڑ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دے کرجاں  نثاری و وفاداری کا حق ادا کیا۔

جہاں بے شمار احادیثِ نبوی میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  کی شان و عظمت کو بیان کیا گیا وہی بے شمار صحابہ کرام نے اپنے اقوال میں آپ رضی اللہ عنہ  کی شان مرتبہ کو واضح فرمایا ہے اُ ن صحابہ کرام میں حضرت علی المرتضیٰ شیرِ خدا رضی اللہ عنہ  بھی شامل ہیں چنا نچہخیر البشر بعد الانبیاء بالتحقیق کے اعزاز کے حامل اُمت محمدیہ کے اولین امیر و خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے وہ فضائل و مناقب جس خلیفہ رابع امیر المومنین حضرت سیدنا علی مرتضی رضی اللہ عنہ  نے بیان فرمائے ہیں،پیش خدمت ہیں:

لوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟

جب حضرت سیّدنا علیُّ المرتضی رضی اللہ عنہ  سے  پوچھاگیا: رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد (اس اُمّت کےلوگوں میں سب سے بہترین شخص کون ہیں؟ تو حضرت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ  نے ارشاد فرمایا: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ  ۔

(بخاری،ج2،ص522، حدیث:36717)

شانِ صدیق اکبر بزبانِ علیُّ المرتضیٰ:

حضرت اُسَیْد بن صفوان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:جب حضرت  صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کاوصال ہوا تومدینے کی فضا میں رنج وغم کے آثارتھے ، ہر شخص شِدَّتِ غم سے نڈھال تھا، ہر آنکھ سے آنسو جاری تھے ، صحابَۂ کرام رضی اللہ عنہم  پر اسی طرح پریشانیکے آثار تھے جیسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے وصالِ ظاہری کے وقت تھے ، سارا مدینہ غم میں ڈوبا ہواتھا ۔ جب حضرت  صدیق اکبر رضی اللہ عنہ  کو غسل دینے کے بعد کفن پہنایا گیا تو حضرت علیُّ المرتضیٰ رضی اللہ عنہ  تشریف لائے اور کہنے لگے :آج کے دن نبی آخرُ الزّماں صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہم سے رخصت ہو گئے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ  حضرت صِدّیقِ اکبر رضی اللہ عنہ  کے پاس کھڑے ہوگئے اور آپ رضی اللہ عنہ کی شان و کمالات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے صِدّیقِ اکبر! اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے ، آپ رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین رفیق، اچھے عاشق، بااعتماد رفیق اور محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے رازداں تھے ۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ رضی اللہ عنہ  سے مشورہ فرمایا کرتے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ  لوگوں میں سب سے پہلے مومن، ایمان میں سب سے زیادہ مخلص، پختہ یقین رکھنے والے اور متقی و پرہیزگار تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ  دین کے معاملات میں بہت زیادہ سخی اور رَسُولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب سے زیادہ قریبی دوست تھے ۔ آپ رضی اللہ عنہ  کی صحبت سب سےاچھی تھی، آپ رضی اللہ عنہ  کا مرتبہ سب سے بلند تھا، آپ رضی اللہ عنہ  ہمارے لئے بہترین واسطہ تھے ، آپ رضی اللہ عنہ  کا اندازِ خیر خواہی، دعوت و تبلیغ کا طریقہ، شفقتیں اور عطائیں رَسُولُ الله صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح تھیں، آپ رضی اللہ عنہ  رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت زیادہ خدمت گزار تھے ۔ اللہ پاک آپ رضی اللہ عنہ  کو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خدمت کی بہترین جزا عطافرمائے ۔

) الریاض النضرۃ،  1 / 262تا 263 ملتقطاً(