علی حسن بن غلام مصطفیٰ (جامعۃُ المدینہ فیضان غوث اعظم
ولیکا ، کراچی پاکستان)
محبت دل کی قلبی میلان کو کہتے ہیں اور اس قلبی میلان کی
وجہ وہ خوبیاں ہیں جو محبوب کے اندر پائی جاتی ہے اور جس کے اندر جتنی خوبیاں
زیادہ ہوں دل اس کی طرف مائل ہوتا ہے اور وہ ذات جن کی وجہ سے رب نے پوری کائنات بنائی ، جن کو اپنا محبوب
بنایا ان کی صفات کا اندازہ کون کر سکتا
ہے اور وہ ذات کوئی اور نہیں بلکہ تمام نبیوں کے سر ور حبیب اکبر محمد صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات ہے۔
آئیے
اب ہم قراٰنِ کریم آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی دس صفات کو سن کر اپنے دلوں میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے عشق کی شمع کو روشن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
(1) تمام مخلوقات کے رسول : تمام
انبیا علیہمُ السّلام مخصوص قوموں کی طرف مبعوث کیے گئے اور ہمارے
نبی مصطفیٰ جانِ رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوقات کے رسول ہیں ۔
اللہ پاک پیارے آقا صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے فرماتا ہے : مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا وَّ
لٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اے محبوب ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر ایسی رسالت سے جو
تمام آدمیوں کو گھیرنے والی ہے خوشخبری دیتا اور ڈر سناتالیکن بہت لوگ نہیں جانتے ۔ (پ 22،سبا : 28)
(2)سراپا معجزہ بن کر تشریف لائے :
ہر نبی کچھ نہ کچھ معجزات لے کر
آیا ، کوئی کم کوئی زیادہ مگر حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی باری آئی تو رب کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ معجزہ یا یہ معجزات لے کر
آئے بلکہ فرمایا : یٰاٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی۔( پ 6، النساء :174)
(3) چہرہ مبارک چاشت : اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: چاشت کی قسم اور رات کی جب پردہ ڈالے ۔(پ 30 ، الضحی : 1،2)بعض مفسرین فرمایا کہ چاشت سے اشارہ ہے۔
نورِ جمال مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف اور شب کنایہ ہے آپ کے
گیسوئے کی عنبرین سے ۔ ( خزائن العرفان ، تحت الآیۃ مذکورہ )
(4) سب سے اولیٰ و اعلیٰ : اللہ پاک نے ارشاد فرماتا ہے : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا
رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے
تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔( پ 17 ، الانبیاء:107)
امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہ علیہ
اس آیۃ کے تحت لکھا کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالم کے لیے
رحمت ہیں واجب ہوا کہ تمام ماسوا اللہ سے
افضل ہوں ۔
(5) تیرے شہر و کلام و بقا کی قسم
: اللہ پاک اپنے حبیب سے فرماتا ہے : لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب
تمہاری جان کی قسم بےشک وہ اپنے نشہ میں
بھٹک رہے ہیں۔( پ 14، الحجر : 72)
لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ
بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ترجَمۂ
کنزُالایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اس شہر میں تشریف فرما ہو ۔( پ 30، البلد: 1،2)
اللہ ارشاد فرماتا ہے : وَ قِیْلِهٖ یٰرَبِّ اِنَّ هٰۤؤُلَآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَۘ(۸۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: مجھے رسول کے اس کہنے کی قسم کہ اے
میرے رب یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔( پ 25، الزخرف :88)
بریلی کے امام نے لکھا :
وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ
کسی کو ملے نہ کسی کو ملا
کہ کلام مجید نے کھائی شاہ تیرے
شہر و کلام و بقا کی قسم
سب سے آخری نبی : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک
نے سب سے آخری نبی بنا کر بھیجا ، اس کو
ماننا ضروری ہے اگر نہ مانے تو بندہ اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔
قراٰن پاک میں آیا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ
اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:محمّد تمہارے
مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے ۔اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔(پ 22،الاحزاب: 40)
اعلیٰ اخلاق والا : جس طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی ذات بابرکت تمام انسانوں سے
افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق بھی سب سے
بلند و با لا ہیں ۔ جس کی گواہی خود ذات
باری نے دی ہے ، ارشاد ہوتا ہے : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک
تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔(
پ 29، القلم : 4)
نور والے مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم اللہ کا نور ہیں اور تمام مخلوق حضور کے نور سے ہے ۔اللہ پاک ارشاد
فرماتا ہے : قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ
نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ
کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(
پ 6 ، المائدۃ: 15)
غیب دان نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں کو غیب پر مطلع فرماتا ہے اور پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اللہ پاک کے وہ پسندیدہ و محبوب ہیں کہ جن کی خاطر اللہ پاک نے کائنات بنائی، اللہ
پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی غیب عطا فرمایا ہے ، اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے :وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ
عَظِیْمًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے اور اللہ
کا تم پر بڑا فضل ہے ۔( پ5،
النساء: 113)
حاضر و ناظر نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم : اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے جسم اقدس کے ساتھ روضۂ انور میں تشریف فرما ہیں اور
تمام کائنات آپ کے سامنے حاضر ہے آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں آپ جب چاہیں جہاں
چاہیں تشریف لے جا سکتے ہیں ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ
اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی)
بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ22، الاحزاب: 46)
محمد زبیر (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان عبد اللہ
شاہ غازی کراچی پاکستان)
ہمارے آقا و مولا حضرت محمد
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے کئی صفات سے نوازا ہے۔ ان صفاتِ عظیمہ میں سے فقیر دس کو ذکر کرنے،
اللہ پاک کے نزدیک ثواب پانے کی امید کرتا ہوں ۔اللہ رب العالمین حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رحمۃ العالمین کی صفت عطا کرتے ہوئے فرماتا ہے:
(1)وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ
بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔( پ17،الانبیا ء : 107)
(2) اللہ پاک حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو مقامِ محمود کی نعمت عطا فرماتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ
مَقَامًا مَّحْمُوْدًا ترجَمۂ کنزُالایمان: قریب ہے کہ
تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔(پ 15، بنی اسرائیل : 79)
(3) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ
مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے
پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔( پ 26 ، الحجرات : 4)
(4) اللہ رب العزت فرماتا ہے : وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ
كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ
لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى
ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ
مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور یاد کرو جب اللہ نے پیغمبروں سے ان کا عہد لیا جو میں تم کو کتاب
اور حکمت دوں پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے
تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا فرمایا کیوں تم نے
اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لیا سب نے عرض کی ہم نے اقرار کیا فرمایا تو
ایک دوسرے پر گواہ ہو جاؤ اور میں آپ تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔( پ 3،آل عمران :
81)
(5) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰى۪(۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تمہیں اپنی محبّت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف
راہ دی۔( پ 30،الضحی : 7)
(6) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کوئی وہ
ہے جسے سب پر درجوں بلند کیا۔(پ 3 ، البقرۃ:
253) تفسیر جلالین میں ہے کہ بعض سے مراد حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں ۔
(7) وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا
مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ
ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَلَهُمُ
الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس
لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں
تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی
شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(پ5، النساء :
64)
(8)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اَعْطَیْنٰكَ
الْكَوْثَرَؕ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب بے
شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔(پ 30، الکوثر : 2)
(9) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸)
ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے
تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر
سناتا۔ (پ 26 ، الفتح : 8)
(10) اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت
کرتے ہیں۔(پ 26 ، الفتح : 10)
محمد زاہد عطّاری ( درجۂ خامسہ مدنی مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ فیصل آباد پاکستان)
نبئ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان و عظمت بہت
ہی بلند و بالا ہے ، اللہ پاک نے آپ کو
بہت سے کمالا ت عطا کئے ہیں جن کا شمار
نہیں ہے ، اور آپ کو عظیم صفات سے نوازا ہے ، اللہ پاک نے قراٰن پاک میں انبیا ء
کرام کا ذکر فرمایا تو ان کی چند صفات بھی بیان فرمائیں ۔جیسے ( اسمعیل ، صادق الو
عدہ وغیرہ ) اور اپنے محبوب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایک دو صفت نہیں بلکہ کئی صفات کا تذکرہ فرمایا ، اگر
عشق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو سارا قراٰن ہی نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی صفت ( تعریف ) ہے ۔ جیسا کہ ایک شاعر کا شعر ہے ۔
دساں کی میں مصطفیٰ دی کڈی اُچی
شان اے
آپ دی تعریف وِچ سارا ای قراٰن
اے
آئیےمعزز قارئین ِ کرام ان صفات میں سے چند صفات ملاحظہ ہوں ۔
(1)رحمۃ
اللعالمین:تفسیر رو ح االبیان میں ہے کہ سرکار دو عالم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام جہانوں کے لئے خواہ عالم ارواح ہوں یا عالم اجسام ، ذوی العقول ہوں یا
غیر ذوی العقول سب کے لئے مطلق ، تام ، کامل ، عام ، شامل اور جامع رحمت بن کر بھیجا
گیا ۔ اور جو تمام جہانوں کے لئے رحمت ہو تو لازم ہے کہ وہ تمام جہانوں سے افضل ہوں۔( تفسیر روح البیان، الانبیا ء تحت الآیۃ ،107 ،5/528)
(2) خاتم النبیین : محمد مصطفیٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آخری نبی ہیں کہ اب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ، اور نبوت آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر
ختم ہو گئی ہے ، حتی ٰ کہ جب عیسی ٰ علیہ السّلام
نازل ہوں گے تو نبیِّ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت پر عمل پیرا ہوں گے اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم ہی کے قبلے یعنی کعبہ معظمہ کی طرف نماز پڑھیں گے ۔( تفسیر خازن ، الاحزاب
، تحت الآیۃ 140 ، 3/ 503)
(3) شاھد : حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک ہونے والی ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے اعمال
،انعام ، احوال ، تصدیق ، تکذیب ، ہدایت اور گمراہی سب کا مشاہد ہ فرماتے ہیں ۔(
تفسیر ابو سعود ، احزاب ، تحت الآیۃ ۔45، 4/325)
(4) نذیر : حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ساری
مخلوق کی طرف رسو ل بنا کر بھیجے گئے ، خواہ جن ہوں یا بشر ہوں یا فرشتے ہوں یا
دیگر مخلوقات ۔
(5،6) مبشر و نذیر: سید العالمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اوصاف بیان کئے گئے ہیں کہ اللہ
پاک نے اپنے حبیب علیہ السّلام کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب ڈر سنانے
والا بنا کر بھیجا ۔ ( تفسیر مدارک ، الاحزاب تحت الآیۃ 45،ص944)
(7) داعی: حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم خدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلا نے والا ہیں ۔( جلالین،
الحزاب تحت الآیۃ 461، 355، ملتقطا)
(8) سراج منیر :صدر الافاضل مفتی
نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نورِ نبوت نے
ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی پہنچائی اور
کفر و شر ک کے ظلمات ِ شیدیدہ کو اپنے نورِ حقیقت افروز سے دور کردیا اور خلق کے لئے
معرفت و توحید الہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کردیں ۔ ( تفسیر خزائن
العرفان ، الحزاب تحت الآیۃ 46،ص784)
( 9،10) اول و
آخر : شیخ محمد عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اول و آ خر جس طرح صفات الہی ہیں اسی طرح
نعت مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی ہیں ۔اول تو اس طرح کہ سب سے پہلے
آپ کا نور پیدا ہوا ، سب سے پہلے نبوت
آپ کو عطا ہوئی اور قیامت میں سب سے پہلے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
شفاعت فرمائیں گے ۔اور آخر اس طرح کہ سب سے پہلے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ظہور ہو ا، سب سے آخر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کتاب ملی
سب سے آخر حضور کا ہی دین آیا ۔ اعلیٰ
حضرت علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :
نمازِ اَقْصٰی میں تھا یہی سِرّ، عِیاں ہو معنی اوّل آخر
کہ دست بستہ ہیں پیچھے حاضر، جو سلطنت آگے کر گئے تھے
( شانِ حبیب الرحمٰن ص 26،27،ملخصا)
(11) عزیز : سید المرسلین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم امت پر بہت مہر بان ہیں ۔ امت کا مشقت میں پڑنا ان پر بہت
بھاری گزرتا ہے اور مشقتوں کو دور کرنے
میں سب سے اہم اللہ پاک کے عذاب کی مشقت کو دور کرنا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی مشقت کو دور کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں ۔( تفسیر کبیر
التوبہ تحت الآیۃ 128،ص178)
اس کے علاوہ اور
بہت سی صفات قراٰن پاک میں مذکور ہیں ۔ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی صفات کا کوئی بھی احاطہ نہیں کر سکتا۔ بقولِ شاعر
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم
ٹوٹ گئے
پر تیرے وصف کا ایک باب بھی پورا نہ ہو سکا
حدیث پاک (1) حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انگھوٹی
چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشی تھا ۔( شمائل ترمذی شریف، ص 82)
حدیث پاک (2)قتادہ
کہتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نعل شریف کیسے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ ہر ایک جوتے میں
تسمے تھے ۔ (شمائل ترمذی شریف، 71)
حدیث پاک (3) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم درمیانہ قد تھے ، نہ زیادہ طویل نہ کچھ ٹھگنے ، نہایت خوبصور ت
معتدل بدن والے ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بال نہ بالکل پیچیدہ تھے نہ بالکل سیدھے بلکہ
تھوڑی سی پیچیدگی اور گھونگریالہ پن
تھا( نیز آپ گندمی رنگ کے تھے ۔ ( شمائل ترمذی، شریف 2)
حدیث پاک(4)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس قدر صاف شفاف حسین و خوبصورت تھے کہ گویا کہ چاندی سے آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بدن مبارک ڈھالا گیا ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے بال مبارک قدرے خمدار گھونگریالے تھے۔ (شمائل ترمذی شریف 11)
حدیث پاک (5)حضرت ابو اسحاق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حضرت
براء رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
چہرہ مبارک تلوار کی طرح شفاف تھا ، انہوں
نے کہا کہ نہیں بلکہ بدر کی طرح روشن گولائی سے ہوئے تھے ۔ ( شمائل ترمذی شریف 10)
حدیث پاک (6)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ
میں ایک مرتبہ چاندی رات میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھ
رہا تھا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس وقت سرخ جوڑا زیبِ تن فرما تھے میں کبھی چاند کو دیکھتا اور
کبھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بالآخر میں نے یہ ہی فیصلہ کیا کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم چاند سے کہیں زیادہ جمیل ، حسین اور منور ہیں ۔(شمائل ترمذی شریف 9)
حدیث پاک (7)حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم فراخ دہن تھے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی آنکھوں کی
سفیدی میں سرخ ڈورے پڑے ہوئے تھے ، ایڑی مبارک پر بہت کم گوشت تھا ۔ ( شمائل تر مذی شریف 8)
حدیث پاک (8) حضرت براء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی بھی کسی سرخ جوڑے والے
کو حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے زیادہ حسین نہیں دیکھا ، اس وقت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
بال مبارک مونڈھوں کے قریب تھے۔ (شمائل ترمذی شریف 60)
حدیث پاک( 9)حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سب کپڑوں میں کرتے کو پسند فرما تے
تھے ۔(شمائل ترمذی شریف 52)
حدیث پاک (10) حضرت اسماء رضی
اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کرتے کی آستین پہنچے تک ہوتی تھی ۔( شمائل ترمذی شریف 54)
حدیث پاک (11)حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی انگلیاں
تین مرتبہ چاٹ لیا کرتے تھے ۔(شمائل ترمذی شریف 129)
حدیث پاک (12)حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ حضور اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں ٹیک لگا کر کھانا نہیں کھا تا۔(شمائل
ترمذی شریف 131)
حدیث پاک( 13) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضورِ اقدس ص صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کی تین چیزیں نہیں لوٹانی چاہئیں: (1)تکیہ (2)خوشبوو تیل اور(3) دو دھ۔(شمائل
ترمذی شریف 207)
اللہ کریم نے اپنے
محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جو خوبیاں اور شانیں عطا فرمائیں ، ان کا احا طہ طا قت بشری سے ماورا ہے ، حسن و جما ل ہو با رعب و جلا ل ، خلق عظیم
ہو یا با علمی کمال ، عادات و افعال ہوں
یا پھر با طنی خصال، الغرض ہر وصف بے غایت عطا فرمایا ۔
حضرات صحابۂ کرام جو دن رات ، سفر و حضر میں جمالِ نبوت کی
تجلیاں دیکھتے رہے انہوں نے محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جمالِ بے
مثال کے فضل و کمال کی جو مصوری کی ہے اس
کو مان کر کہنا پڑتا ہے کہ
لم یخلق الرحمٰن مثل محمد ابد و علمی انہ لا
یخلق
ترجمہ : اللہ پاک
نے حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا مثل پیدا فرمایا ہی نہیں اور میں بھی جانتا ہوں کہ وہ کبھی نہ پیدا کرے
گا۔ ( سرتِ مصطفیٰ ص 561۔ مکتبۃ المدینہ )
صفت عام ہے کہ کسی شخص کی خوبی کو صفت کہتے ہیں جبکہ خصوصیت وہ خوبی ہے جو کسی فردِ واحد
کے ساتھ خاص ہو ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خصوصیات بھی عقل و علمِ انسانی سے خارج ہیں کہ ان کی بھی کوئی حد نہیں ۔
قراٰنِ کریم سے چند صفات مصطفی ٰ ذکر کی جاتی
ہیں :۔
(1)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالَم کے لئے رحمت
ہیں ۔ ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (پ17، الانبیاء :107)امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جب حضورِ انور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالمین کے لئے رحمت ہیں تو واجب ہوا کہ وہ ( اللہ
تعالی ٰ کے سوا ) تمام سے افضل ہوں۔ ( صراط الجنان 16)
(2) رحمت و رافت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے : بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ترجَمۂ کنزُالایمان: مسلمانوں پر کمال مہربان
مہربان۔( پ11،التوبۃ : 128) آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا و آخرت دونوں میں رحیم ہیں ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں
:۔
مؤمن ہوں ،مؤمن پہ رؤف ہو
سا ئل ہوں ، سائلوں کو خوشی
لا نہر کی ہے
(3، 4، 5) ارشاد فرمایا : اِنَّاۤ
اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر
سناتا۔ (پ27،الفتح :8)
تفسیر خازن کے حوالے سے ہے کہ بےشک ہم نے آپ کو اپنی امت کے
اعمال اور احوال کا مشاہدہ فرمانے والا بنا کر بھیجا تاکہ آپ قیامت کے دن ان کی گواہی دیں اور دنیا میں
ایمان والوں اور اطاعت گزاروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو ،
نافرمانوں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنا نے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ ( صراط الجنان، 9)
(6، 7) ارشاد ہوا : وَّ دَاعِیًا
اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا
آفتاب۔ (پ22،احزاب :46) آپ خدا کے حکم سے لوگوں خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا
گیا ہے۔ ( روح البیان 7/196) حقیقت میں آپ
کا وجود مبارک ایسا آفتاب عالم تاب ہے جس
نے ہزارہا آفتاب بنادئیے ، اسی لیے اس کی صفت میں منیر ارشا د
فرمایا گیا۔ ( خزائن العرفان، ص184)
(8، 9، 10)سورہ قلم آیت 4 میں آپ کے عظیم ترین خلق کو یا د فرمایا
تو سورۃ النسا ء آیت 113 میں بے حد اور وسیع علم کا ذکر فرمایا ۔
سورہ احزاب آیت 40 میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کو ختم نبوت کا اعلان فرمایا ۔
محمد وسیم عطّاری (درجہ سابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
مدینہ گوجرانولہ پنجاب پاکستان )
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! صفات صفت کی جمع ہے صفت کا مترادف ایک لفظ خوبی بھی ہے اور ہم اگر
کسی میں کوئی ایک دو صفت، خوبی دیکھ لیں تو ہم اس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں اس کی عزت
کرتے ہیں نا چاہتے ہوئے بھی اس سے محبت کرتے ہیں اور اگر حلقہ احباب میں بھی
بیٹھیں تو اس شخصیت کا ذکر کیے بغیر رہ نہیں سکتے۔ یہ تو ایک عام انسان کی بات ہے
کہ جس کی ایک دو صفت یا خصوصیت دیکھ لیں
تو اس کی تعریف کرتے ہوئے تھکتے نہیں تو پھر سیدِ عالم شاہِ موجودات شاہِ بنی آدم
فخرِ موجودات اللہ پاک کے سب سے آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا عالم کیا ہوگا۔
ذات ہوئی اِنتِخاب وَصف ہوئے
لاجواب
نام ہوا مُصطَفیٰ تم پہ
کروروں درود
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اللہ کریم نے اپنے پیارے محبوب
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے شمار صفات و خصوصیات سے نوازا ہے۔ اللہ نے
اپنے پیارے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایسی ایسی خوبیاں عطا فرمائی
کہ کسی اور کو عطا نہیں کی۔(1)صفت اور خصوصیت میں معنوی اعتبار سے کوئی خاص فرق
نہیں ۔(2) البتہ لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو صفت وہ کلمہ جو اسم کی تعریف یا خاصیت بیان کرتا ہے
اور خصوصیت وہ وصف یا خوبی جو فرد واحد کی امتیازی حیثیت کو برقرار رکھے۔(3)کسی
شئی کا خاصہ یہ ہے کہ وہ بالخصوص اس میں پایا کسی غیر میں وہ وصف نہ پایا جائے۔
اللہ کریم نے رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو
ایسے ایسے وصف عطا اور ایسے باکمال خاصے عطا فرمائے کہ کسی اور کو ان کا حصول نہیں۔
اللہ پاک کے سب سے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفات بے
شمار ہیں جن کا ذکر قراٰن عظیم میں بڑے احسن انداز میں بیان ہوا ہے۔ اللہ پاک نے
اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(1) وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو
۔ ( پ 29، القلم:4 )حضرت سعد بن ہشام رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضرت
عائشہ صدیقہ رضی
اللہُ عنہا سے دریافت کیا:
اے اُمُّ المؤمنین! رضی اللہُ عنہا،
مجھے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے اَخلاق کے بارے میں بتائیے۔ حضرت
عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے
فرمایا: کیا تم قراٰن نہیں پڑھتے
؟میں نے عرض کی: کیوں نہیں !
تو آپ نے ارشاد فرمایا: رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خُلْق قراٰن ہی تو ہے۔( مسلم ، کتاب صلاۃ المسافرین
وقصرہا، باب جامع صلاۃ اللیل... الخ، ص374، حدیث: 139)
(2) حضور سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رؤف ہونے
کے حوالے سے اللہ فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ
عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم
رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (پ11،
التوبۃ:128)
تم ہو جَواد و کریم تم ہو
رَؤف و رَحیم
بھیک ہو داتا عطا تم پہ
کروروں درود
(3) اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے نرم دل ہونے کے حوالے سے کیا خوب ارشاد فرمایا : فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ لِنْتَ لَهُمْۚ-وَ لَوْ
كُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَا نْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِكَ۪- فَاعْفُ
عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ-فَاِذَا عَزَمْتَ
فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِیْنَ(۱۵۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے حبیب! اللہ کی کتنی بڑی مہربانی
ہے کہ آپ ان کے لئے نرم دل ہیں اور اگر آپ تُرش مزاج ، سخت دل ہوتے تو یہ لوگ
ضرورآپ کے پاس سے بھاگ جاتے تو آپ ان کو معاف فرماتے رہو اور ان کی مغفرت کی دعا
کرتے رہو اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو پھر جب کسی بات کا پختہ ارادہ کر لو
تو اللہ پر بھروسہ کرو بیشک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے ۔ ( پ 4، اٰلِ
عمرٰن:159 ) اس آیت میں اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے پانچ اوصاف بیان فرمائے ہیں اور ان کے علاوہ ترش مزاج اور سخت دل نہ ہونا بھی
بہت اچھے وصف ہیں۔
(4) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ
اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ
النَّبِیّٖنَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔
(پ22، الاحزاب:40) اس آیتِ کریمہ کے
درمیان والے حصے میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے آخری نبی
ہونا ثابت ہے اور یہ وصف کسی بھی نبی علیہ
السّلام کو حاصل نہیں ہے۔
(5) وَ مَا مُحَمَّدٌ
اِلَّا رَسُوْلٌۚ ترجمۂ کنز العرفان :اور محمد ایک رسول ہی ہیں۔(پ 4، اٰلِ
عمرٰن: 144) اس آیت پاک میں اللہ پاک نے اپنے سب سے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رسالت کے وصف کو بیان فرمایا۔
فَذَكِّرْ فَمَاۤ
اَنْتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَّ لَا مَجْنُوْنٍؕ(۲۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تو اے محبوب!تم نصیحت فرماؤ تو تم
اپنے رب کے فضل سے نہ کاہن ہو، اور نہ ہی مجنون۔(پ 27، الطور:29)
(6) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام
جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ17،الانبیاء:107)
حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تمام جہانوں
کے لیے رحمت بن کر آنا یہ بھی حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف ہے۔ آپ
کی بہترین خوبی ہے۔
(7) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا(۵۶) ترجمۂ کنز
العرفان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا۔ (پ
19، الفرقان:56) اس آیتِ مبارکہ میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو
اوصاف کا ذکر ہوا ہے۔ حضور علیہ السّلام خوشخبری دینے والے بھی ہیں اور ڈر سنانے
والے بھی۔
یٰسٓۚ(۱) وَ
الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳) عَلٰى صِرَاطٍ
مُّسْتَقِیْمٍؕ(۴) ترجمۂ کنز العرفان : یس۔ حکمت والے قراٰن کی قسم۔ بیشک تم
رسولوں میں سے ہو۔ سیدھی راہ پر ہو۔(پ 22، یٰسٓ: 1تا 4)
(8) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ
اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک
تمہارے لئے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ
موجود ہے اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد
کرتا ہے۔(پ21،الاحزاب:21) اس آیت سے معلوم ہوا کہ حقیقی طور پر کامیاب زندگی وہی
ہے جو تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نقش ِقدم پر ہو، اگر ہمارا
جینا مرنا، سونا جاگنا حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نقش ِقدم پر
ہو جائے تو ہمارے سب کام عبادت بن جائیں گے۔
(9) وَ لَوْ اَنَّ مَا
فِی الْاَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ اَقْلَامٌ وَّ الْبَحْرُ یَمُدُّهٗ مِنْۢ بَعْدِهٖ
سَبْعَةُ اَبْحُرٍ مَّا نَفِدَتْ كَلِمٰتُ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ
حَكِیْمٌ(۲۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور زمین میں جتنے درخت ہیں اگر وہ سب قلمیں بن جاتے اور سمندر
(ان کی سیاہی، پھر) اس کے بعد اس (پہلی سیاہی) کو سات سمندر مزید بڑھادیتے تو بھی
الله کی باتیں ختم نہ ہوتیں بیشک الله عزت والا، حکمت والا ہے۔
(پ21،لقمٰن:27)مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اپنی تصنیف لطیف بنام شانِ حبیب
الرحمن کے صفحہ 141 پر فرماتے ہیں:(مذکورہ بالا آیت میں لفظ کلمات ذکر ہوا ہے )
یعنی صفاتِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نہ ہوں ۔(شان حبیب الرحمن،
ص 141)
(10) حضور تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وصفِ
علم کے بارے میں اللہ پاک اپنے پاکیزہ کلام میں کیا خوب ارشاد فرمایا: اَلرَّحْمٰنُۙ(۱)
عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) ترجمۂ کنزالایمان : رحمٰن
نے اپنے محبوب کو قراٰن سکھایا ۔ (پ27، الرحمٰن: 2،1) مفتی
احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے
ہیں: سبحان اللہ، سکھانے والا رحمن، سیکھنے والا حبیب الرحمن، کتاب قراٰن پھر علمِ
مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا کیا پوچھنا، غرض کہ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی ہر صفت و ہر کمال عظیم ہے۔(شان حبیب الرحمن، ص 141، 142)
زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم
ٹوٹ گئے
پر تیرے اوصاف کا ایک باب بھی
پورا نہ ہوا
ابوالتبسم
نصر اللہ عطّاری (درجہ دورۂ حدیث جامعۃُ
المدینہ فیضان مہر اسلام آباد پاکستان)
پیارے اسلامی بھائیو! اللہ رب العزت نے حضرت محمد مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس ہستی کو تمام بنی نوع انسان کے لیے رحمۃُ
للعالمین بناکر بھیجا آپ کی مقدس شخصیت نہ صرف اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے
اور بزمِ جہاں میں شمعِ ہدایت بن کر آئی بلکہ آپ تمام بشری کمالات و محاسن کا
مجموعہ اور سراپا حسن و جمال بن کر تشریف لائے۔ پیکر دلربا بن کے آئے، روح ارض و
سما بن کے آئے، آپ حبیب خدا بن کے آئے۔ آپ کو رب کائنات نے چونکہ انسانوں کی
ہدایت و رہنمائی کے لیے بھیجا اس لیے اللہ پاک نے آپ کو نہایت احسن تقویم کا
شاہکار بناکر بھیجا ۔ آئیے دس اوصافِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ کیجئے ۔
( 1)سراپا مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بیان: قراٰن حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
وجود مسعود کو سراپا نور قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ
نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجمۂ کنز
الایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔
(پ6،المآئدۃ : 15) اکثر مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ یہاں نور سے مراد ذات مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے۔
(2) حسن سراپا مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سراج
منیر قرار دینا۔ وَّ دَاعِیًا اِلَى
اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمۂ کنز الایمان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب ۔(پ22،احزاب :46)
(3) اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی
کی قسم کھائی ہے ۔ قراٰن مجید میں اللہ رب
العزت نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پوری زندگی کی قسم کھائی ہے۔
ارشاد باری ہے: لَعَمْرُكَ اِنَّهُمْ
لَفِیْ سَكْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ(۷۲) ترجمۂ کنز
الایمان: اے محبوب تمہاری جان کی قسم بےشک
وہ اپنے نشہ میں بھٹک رہے ہیں۔(پ14، الحجر : 82)
(4) چہرۂ انور اور گیسوئے عنبریں کی قسم: قراٰن مجید کے صفحات
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جسد اطہر کے اعضاء مبارک یعنی چہرہ انور
گیسوئے مبارک اور چشمان مقدس کے ذکر تک سے معمور ہیں۔جیسے کہ ارشادِ باری ہے : وَ الضُّحٰىۙ(۱) وَ
الَّیْلِ اِذَا سَجٰىۙ(۲) مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلٰىؕ(۳) ترجمہ کنزالایمان: چاشت کی قسم اور
رات کی جب پردہ ڈالے کہ تمہیں تمہارے رب نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا ۔( پ30،الضحی :1تا3)
( 5) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چشمان مقدس کا
بیان:قراٰن مجید میں اللہ پاک نے آقا دو جہاں کی مبارک آنکھوں کا بھی ذکر کیا
ہے: جیسے کہ ارشادِ باری ہے : مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷) ترجمۂ کنز الایمان : آنکھ نہ کسی
طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔(پ27، النجم : 17)
(6) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سینے مبارک کا بیان:قراٰن مجید نے حضور پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی سینے مبارک کا بھی ذکر کیا ہے: جیسا کہ ارشادِ باری ہے: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱)ترجمۂ کنز الایمان : کیا ہم نے
تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا ۔(پ30،الشرح : 1)
(7) گفتار مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر: قراٰن مجید حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی بول چال، گفتگو اور ذہن مبارک کا ذکر بھی کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری ہے :اِنَّهٗ لَقَوْلُ
رَسُوْلٍ كَرِیْمٍۚۙ(۴۰)ترجمہ کنز الایمان : بے شک یہ قرآن ایک کرم والے رسول سے باتیں ہیں۔
( پ29،الحاقة : 40)
(8) فعلِ مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فعلِ خدا ہے: جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی ہر بات از روئے قراٰن اور وحی الٰہی ہوتی ہے اسی طرح حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے فعل کو بھی فعل خداوندی قرار دیا جاتا ہے۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُوْنَكَ
اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ ترجمۂ کنز الایمان : وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں
پر اللہ کا ہاتھ ہے ۔ (پ26، الفتح : 10)
( 9) قلبِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراٰن: اسی طرح قراٰن آپ کے قلبِ انور کا ذکر بھی
کرتا ہے۔ ارشاد باری ہے: مَا
كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) ترجمۂ کنز
الایمان : دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔ (پ27،النجم
: 11)
(10) حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دست اقدس کا بیان: قراٰن مجید میں اللہ نے اپنے حبیب صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھوں کا ذکر اس شان سے کیا ہے کہ دستِ مصطفی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنا دست اقدس قرار دے دیا: یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْۚ ترجمۂ کنزالایمان :ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔ (پ26،الفتح: 10)
محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین راولپنڈی پاکستان)
صفت سے مراد ایسے کلمات جن کے ذریعے کسی شخص کی اچھائی یا
برائی یا اس کی حالت و کیفیت کو بیان کیا جاتا ہو۔ اللہ پاک نے حضور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ بابرکت کو بری صفات سے پاک رکھا اور اعلٰی
اوصاف سے زینت بخشی کہ جس نے بھی دیکھا تو کہہ اٹھا ” مَا اَرٰی
مِثلَہٗ قَبلَہٗ وَلَا بَعدَہٗ “ یعنی میں نے
آپ کی مثل پہلے دیکھا تھا نہ کبھی بعد میں دیکھ سکوں گا۔ اور صحابہ تو صحابہ خود
خالقِ سرورِ کائنات اپنے محبوب کی اعلٰی وعرفہ صفات، قراٰنِ پاک میں جگہ بہ جگہ
بیان فرماتا ہے، بلکہ قراٰنِ مجید خود آپ کی صفاتِ میں سے ایک صفت ہے، لیکن قراٰن
پاک میں موجود بہت ساری صفات میں سے 10 کو ذکر کیا جاتا ہے: (1)افضل الخلق : سب سے بڑی
صفت یہ عطا ہوئی کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذات کو تمام مخلوقات پر
فضیلت ملی کہ فرمانِ باری ہے: تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلٰى
بَعْضٍۘ-مِنْهُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَ رَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالعرفان: یہ رسول ہیں ہم نے ان میں ایک کو
دوسرے پرفضیلت عطا فرمائی ،ان میں کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کوئی وہ ہے جسے
سب پر درجوں بلند ی عطا فرمائی۔(پ3،البقرة:253) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ ہمارے
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے اعلیٰ ہیں ، یہی اس آیت کا مضمون ہے اور
اسی پر تمام امت کا اجماع ہے۔( صراط الجنان،1/380)
(2)افضل امت: جس طرح حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیا و رسل سے افضل ہے اسی
طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت بھی تمام امتوں سے افضل ہے۔ جیسا کہ قراٰنِ
پاک میں ہے: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ- ترجمہ
کنزالعرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی
گئی (پارہ:4، اٰلِ عمران:110)
(3)کل کائنات کے رسول: تمام انبیا و رسول کسی خاص خطے یا قوم کی طرف اور مخصوص وقت تک کے لیے مبعوث فرمائے جاتے تھے لیکن حضور سرورِعالم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک کے لیے کل کائنات کے لوگوں کی طرف رسول بنا کر
بھیجے گئے جیسا کہ فرمانِ باری ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ بَشِیْرًا
وَّ نَذِیْرًا ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور اے محبوب!ہم نے آپ کو تمام لوگوں کیلئے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا
کر بھیجا ہے ۔(پ22، سبا:28)
(4) رحمت للعالمین: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت بفضل اللہ تمام مخلوقات خواہ جن و
بشر، ملائکہ، حیوانات و جمادات وغیرہ، سب پر ہے کہ رب کا فرمان ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام
جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ17،الانبیاء:107)
(5)شفیق ومہربان: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت کے معاملے میں اتنے زیادہ فکر مند
رہتے ہیں کہ قراٰن مجید کہتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ
عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم
رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (
پ11، التوبۃ:128 )
(6) خاتم النبیّین: یہ فیصلہ قراٰن مجید نے فرما دیا : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ
لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب
نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں۔ (پ22، الاحزاب:40) حضور
خاتم النبییّن ہیں، یعنی اللہ تعالٰی نے سلسلۂ نبوّت حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر ختم فرما دیا ، کہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں ہو سکتا ، جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے زمانہ میں یا حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد کسی کو نبوّت
ملنا مانے یا جائز جانے، کافر ہے۔(بہارِ شریعت، 1/63)
(7)اوصافِ کمالیہ کے جامع: فرمانِ باری ہے: اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ هَدَى اللّٰهُ فَبِهُدٰىهُمُ
اقْتَدِهْؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: یہی وہ ہستیاں ہیں جنہیں ہم نے کتاب اور حکمت اور نبوت عطا کی۔ (پ7،
الانعام:90) تفسیر صراط الجنان میں ہے، علمائے دین نے اس آیت سے یہ مسئلہ ثابت کیا
ہے کہ سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء علیہمُ السّلام سے افضل ہیں کیونکہ جو
شرف و کمال اور خصوصیات و اوصاف جدا جدا انبیاء علیہمُ السّلام کو عطا فرمائے گئے تھے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے سب کو جمع فرمادیا۔(صراط الجنان، 3/155)
(8)خدا چاہتا ہے رضائے محمد: تمام مکلِّفینِ شرع رضائے رب حاصل کرنا میں سخت تکالیف تک
برداشت کرتے ہیں اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصفِ اعلٰی یہ ہے کہ اللہ
پاک اپنے محبوب کی رضا چاہتا ہے، اور فرماتا ہے: وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰىؕ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک قریب ہے کہ تمہارا رب تمہیں اتنا دے گا کہ تم راضی ہوجاؤ گے۔(پ30، الضحی:5)
خدا کی رضا چاہتے ہیں دو عالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
(حدائق بخشش، ص49)
(9) منصبِ شفاعت: دنیا میں ہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو شفاعت کا حق ملا کہ
خداوندِ غفار نے ارشاد فرمایا: وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْۢبِكَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ
الْمُؤْمِنٰتِؕ- ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے حبیب!اپنے خاص غلاموں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔ (پ26،
محمد:19)
(10) اطاعتِ رسول ہی اطاعتِ خدا: جو چاہتا ہے کہ خدائے ذوالجلال کی فرمانبرداری کرے، تو
رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی فرمانبرداری کرے کہ خدا کی رضا رسول اللہ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا میں ہے اور یہی اصولِ بندگی ہے جسے خدا
تعالٰی نے بھی بیان فرمایا: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(پ5، النسآء:80)
اللہ پاک کی عطا سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے صفات و کمالات اتنے کثیر ہیں کے
ان کو شمار کرنا انسانی طاقت سے باہر ہے آقائے دو جہاں تمام اوصاف و کمالات وغیرہ
کہ ایسے عظیم جامع ہیں کہ اللہ پاک نے آپ کا کوئی ثانی نہ پیدا فرمایا ۔ یاد رہے کہ (صفات) صفت کی جمع ہے جس کے
معنی بیان فضائل ، گن باد وغیرہ کہ ہیں۔
اور خصوصیت کے معنی: خاص بات ، خاص صفت وغیرہ کہ ہیں۔
صفت اور خصوصیت میں فرق :(1) صفت
کسی انسان کے ساتھ خاص نہیں ہوتی جیسے عالم ہونا، رنگ کا سفید ہونا وغیرہ
(2) جبکہ خاصیت کسی
ایک انسان کے ساتھ خاص ہوتی ہے ۔جیسا کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر تہجد کا فرض ہونا ۔دنیا میں دیدارِ الہی کا
ہونا وغیرہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خاصیات میں سے ہیں۔
قراٰن کریم میں پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی بےشمار صفات و کمالات مذکور ہیں۔
(1) حضور اکرم کو اللہ پاک نے معلم کائنات بنا کر مبعوث فرمایا
ہے جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ یُعَلِّمُهُمُ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ ترجمۂ کنز
العرفان: اور انہیں تیری
کتاب اور پختہ علم سکھائے۔(پارہ1، البقرۃ: 129)آیت میں کتاب سے مراد قراٰن ہے اور
اس کی تعلیم سے اس کے حقائق و معانی کا سکھانا مراد ہے اور حکمت میں سنت ، احکامِ
شریعت اور اسرار وغیرہ سب داخل ہیں۔ اس سے
یہ معلوم ہوا کہ پورا قراٰن آسان نہیں ورنہ اس کی تعلیم کے لیے حضور کو نا بھیجا
جاتا۔ (صراط الجنان)
(2) حضور نبی کریم کے کسی بھی قول کا عبث ہونا ممکن و متصور ہی
نہیں کیونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی خواہش سے کوئی بات نہیں
فرماتے مگر جو فرماتے ہیں وحی الٰہی ہوتی ہے جیساکہ قراٰن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ
الْهَوٰىؕ(۳) اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ کوئی بات خواہش سے نہیں کہتے۔ وہ وحی ہی ہوتی ہے جو انہیں کی جاتی ہے۔ (پ27، النجم : 3،4)
(3) پیارے پیارے آقا مدینے والے مصطفی کی تعظیم و توقیر کرنا
اللہ پاک نے تمام مؤمنین پر لازم فرما دی
قراٰن کریم میں ارشاد باری ہے: وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ
تُوَقِّرُوْهُؕ ترجمۂ کنز
العرفان : اور رسول کی تعظیم و توقیر
کرو ۔(پ26،الفتح: 9 )
سرکارِ دو عالم کی ہر وہ تعظیم جو خلاف شرع نہ ہو، کی جائے
گی کیونکہ یہاں تعظیم و توقیر کے لیے کسی
قسم کی کوئی قید بیان نہیں کی گئی اب وہ چاہے کھڑے ہو کر صلوۃ و سلام پڑھنا ہو یا کوئی
دوسرا طریقہ۔
(4) حضور نبی کریم رؤف الرحیم پر اللہ پاک نے کتاب و حکمت نازل
فرمائی اور آپ علیہ الصلاۃ و السّلام کو دین کے امور اور شریعت کے احکام اور غیب
کے وہ علوم عطا فرمائے جو آپ نہ جانتے تھے۔ اللہ پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے: وَ اَنْزَلَ اللّٰهُ
عَلَیْكَ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕ-وَ
كَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكَ عَظِیْمًا(۱۱۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ نے آپ پر کتاب اور حکمت نازل فرمائی اور آپ
کو وہ سب کچھ سکھا دیا جو آپ نہ جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا فضل بہت بڑا
ہے۔(پ5، النسآء : 113)
(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وجود امت کے
لیے محافظ ہے کہ اللہ پاک حضورِ اکرم کی برکت سے عذاب نازل نہیں فرماتا۔ جیساکہ قراٰن
میں ارشادِ باری ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ
لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو ۔(پ9،الانفال:33)
اس لئے کہ سورۃُ الانبیاء کی آیت 107 سے واضح ہے کہ حضور
اکرم ( رحمۃ للعالمین ) بنا کر بھیجے گئے ہیں اور سنت الٰہیہ یہ ہے کہ جب تک کسی
قوم میں اس کے نبی موجود ہوں ان پر عام بربادی کا عذاب نہیں بھیجتا جس سے سب کے سب
ہلاک ہو جائیں اور کوئی نا بچے۔ ( صراط الجنان )
(6) سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مؤمنوں پر
کرم کرنے والے اور مہربان ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ
عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ
رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم
رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری
بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ (
پ11، التوبۃ:128 )
(7) حضور علیہ الصلوۃ و السّلام تمام مؤمنوں کی جانوں کہ مالک
ہیں اور ان کی ازواج مطہرات مؤمنوں کی مائیں ہیں۔ جیسا کہ قراٰن میں ہے: اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى
بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْؕ ترجمۂ
کنزُالعِرفان: یہ نبی مسلمانوں کے ان کی
جانوں سے زیادہ مالک ہیں اور ان کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ (پ21، الاحزاب: 33) اَوْلٰى ۔ کا معنی زیادہ
قریب ، زیادہ حقدار ، زیادہ مالک کہ ہیں یہاں تینوں معنی درست ہیں۔ ( تفسیر صراط
الجنان )
(8) حضورِ اکرم اللہ پاک کی معرفت کی دلیل ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک خود قراٰن کریم میں ارشاد
فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ
قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا
مُّبِیْنًا(۱۷۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے لوگو! بیشک تمہارے پاس تمہارے رب
کی طرف سے واضح دلیل آگئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نورنازل کیا۔ (پ6،النسآء :174)
(9) رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رب کائنات نے خوشخبری دینے والا اور ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ پاک قراٰن میں فرماتا ہے:
اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ
بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ ترجمۂ کنزالعرفان:اے حبیب!بیشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈر
کی خبریں دینے والا بنا کر بھیجا ۔(پ1،البقرۃ : 119)
(10) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خلقِ عظیم پر
فائز ہے۔ اللہ پاک قراٰن میں فرماتا ہے : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى
خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو ۔ ( پ 29، القلم:4 )
الله پاک نے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کئی
اوصاف و کمالات کے ساتھ متصف فرمایا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ان
اوصاف کو قراٰن مجید میں بیان کر کے آپ کے مرتبہ کو بلند فرمایا آپ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کئی صفات ہیں ان میں سے چند ان آیات میں مذکور ہیں۔
آیاتِ قراٰنیہ (1) لَقَدْ
جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ
عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر
تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال
مہربان مہربان۔ ( پ11، التوبۃ:128 ) (2) لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ
حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ
اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ(۲۱) ترجمۂ کنز الایمان: بےشک
تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے اس کے لیے کہ اللہ اور پچھلے دن کی امید رکھتا
ہو اور اللہ کو بہت یاد کرے۔(پ21،الاحزاب:21)
(3) خُذِ الْعَفْوَ وَ
اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) ترجمۂ کنز الایمان: اے محبوب معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کا حکم دو اور
جاہلوں سے منہ پھیر لو۔(پ9،الاعراف:199)ان آیات میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے چند اوصاف بیان کیے گئے ہیں: (1)رؤوف( 2)رحیم( 3)حریص( 4)عزیز(
5)عفو و درگزر۔
احادیث مبارکہ (1)حضرت عباس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ، سرکارِ دو عالَم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے مخلوق کو پیدا فرمایا تو
مجھے ان میں سے بہترین رکھا، پھر ان کے دو گروہ بنائے تو مجھے اچھے گروہ میں رکھا۔
پھر قبائل بنائے تو مجھے بہترین قبیلے میں رکھا۔ پھر ان کے خاندان بنائے تو مجھے
ان میں سے اچھے خاندان میں رکھا اور سب سے اچھی شخصیت بنایا۔(ترمذی، کتاب المناقب،
باب ما جاء فی فضل النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 5 / 350، حدیث: 3627)
(2)حضرت جعفر بن ابو طالب رضی اللہُ عنہ نے نجاشی کے دربار میں
فرمایا :اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے، بتوں کی عبادت کرتے ، مردار کھاتے، بے حیائی
کے کام کرتے ، رشتے داریاں توڑتے اور پڑوسیوں سے بد سلوکی کیا کرتے تھے اور ہم میں
سے جو طاقتور ہوتا وہ کمزور کا مال کھا جا یا کرتا تھا۔ ہمارا یہی حال تھا کہ اللہ
پاک نے ہم میں سے ایک رسول ہماری طرف بھیج دیا جن کے نسب، صداقت، امانت اور پاک
دامنی کو ہم پہچانتے تھے، انہوں نے ہمیں دعوت دی کہ ہم اللہ پاک کو ایک مانیں اور
صرف اسی کی عبادت کریں اور ہم اور ہمارے آباء و اَجداد جن پتھروں اور بتوں کی
پوجا کرتے تھے انہیں چھوڑ دیں۔ انہوں نے ہمیں سچ بولنے، امانت داری اور پاکیزگی
اختیار کرنے، رشتہ داروں سے نیک سلوک کرنے، پڑوسیوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے، حرام
کام اور خون ریزیاں چھوڑ دینے کا حکم دیا، ہمیں بے حیائی کے کام کرنے ، جھوٹ بولنے
، یتیم کا مال کھانے اور پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے سے منع کیا اور ہمیں
حکم دیا کہ ہم صرف اللہ پاک کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں
، نماز پڑھیں ، روزہ رکھیں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ پھر ہم نے ان کی تصدیق کی، ان پر
ایمان لے آئے اور جو دین وہ لے کر آئے ہم نے ا س کی پیروی کی۔ (مسند امام احمد،
حدیث جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ،1/ 431، حدیث: 1740)
محمد شبیر رضا(درجہ سابعہ بغدادی مرکزی جامعۃُ المدینہ
فیضانِ مدینہ فیصل آباد پاکستان)
آقائے بے مثال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جن کے اوصاف
تَناہی سے وافر، جن کے کماحقہ بیان سے جنّ وانس قاصر ،سخن ور معذور اور قلم کار
قلم توڑنے پر مجبور نظر آتے ہیں کیوں نہ ہوں کہ خود صاحبِ قراٰن آپ کا مادِح بلکہ
مدّاح ہے۔ جس کے قراٰن میں نظّارے عشاق کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دلوں کو مسرت بخشتے ہیں۔
آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف شمار میں لانا
محال ہے کہ خود قراٰن میں بالتاکید فرمایا گیا: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے محبوب! بیشک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں ۔(پ30،الکوثر:1)
مگر دلی مسرت و شادمانی کا سامان کرتے ہوئے بآیات قراٰنی
صرف 10 اوصاف ذکر کیے جاتے ہیں۔
(1) خاتَمُ النَّبِیِّیْن : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ
لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ22،الاحزاب:40)(2) ہر گھڑی پچھلی سے بہتر : وَ لَلْاٰخِرَةُ
خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: اور بیشک تمہارے لئے ہر پچھلی گھڑی پہلی سے بہتر ہے۔(پ30،الضحیٰ:4)(3) تمام جہانوں کیلئے رحمت : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ
اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور ہم نے تمہیں تمام
جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ17،الانبیاء:107)(4) اعلی اخلاقِ کریمہ : وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور بیشک تم یقیناً عظیم اخلاق پر ہو
۔ ( پ 29، القلم:4 )(5)آپ کے
سبب امت کی عذاب سے حفاظت : وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کی یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب! تم ان میں تشریف فرما ہو ۔(پ9،الانفال:33)
(6 ) مُزَکّی(تزکیہ کرنے والے) و معلِّم کتاب و حکمت : هُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا
مِّنْهُمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ
الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۗ ترجمۂ کنزالعرفان: وہی (اللہ)ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا
جو ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں
کتاب اور حکمت کا علم عطا فرماتاہے ۔ (پ28،الجمعۃ:2)(7) شاہد،مبشر،نذیر،داعی الی الله اور سراجِ منیر : یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ
دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے نبی!بیشک ہم نے
تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والا اور ڈر
سنانے والا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والااو ر چمکادینے والا ا ٓ فتاب
بنا کر بھیجا۔ ( پ22، الاحزاب:45،46 )
(8) امتیوں پر شفیق و مہربان : لَقَدْ جَآءَكُمْ
رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ
بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجمۂ
کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لے آئے جن پر تمہارا
مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے، وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے،
مسلمانوں پر بہت مہربان، رحمت فرمانے والے ہیں۔ ( پ11، التوبۃ:128 ) (9) ماقبل کتب کے مصدِّق : ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر تمہارے پاس وہ عظمت والارسول
تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہو گا۔(پ3،آلِ عمرٰن:81)(10) مقامِ محمود پر فائز : عَسٰۤى اَنْ
یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) ترجمۂ کنزُالعِرفان: قریب ہے کہ آپ کا رب آپ کو ایسے مقام پر فائز فرمائے
گا کہ جہاں سب تمہاری حمد کریں ۔(پ15، بنی اسرآءیل:79)
الله پاک ہمیں ان ارفع و اعلٰی اوصاف سے متصف بالا و اعلٰی
ذات سے ہمیشہ والہانہ محبت و عقیدت رکھنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس سے پہلے کہ
ہم ان سے پِھریں ایمان پر موت عطا فرمائے کیونکہ
مومن اُن کا کیا ہوا اللہ اس
کا ہو گیا
کافر اُن سے کیا پِھرا اللہ
ہی سے پھر گیا
نبیٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف و کمالات
کے متعلق مختصر تمہیدی کلمات: اللہ رب العزت نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس ہستی کو تمام بنی نوع انسان کے
لیے رحمۃ اللعالمین بنا کر بھیجا۔ آپ کی مقدس شخصیت نہ صرف اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملانے اور بزم جہاں میں شمع ہدایت بن
کر آئی بلکہ آپ تمام بشری کمالات و محاسن کا مجموعہ اور سراپا حسن و جمال بن کر
تشریف لائے ۔ پیکرِ دل رُبا بن آئے، روحِ ارض و سما بن کر آئے ، رسول خدا بن کے
آئے، وہ حبیبِ خدا بن کے آئے ۔ آپ کو ربِّ کائنات نے چوں کہ انسانوں کی رہنمائی کے
لئے بھیجا اس لیے اللہ پاک نے آپ کو احسن تقویم کا شاہکار بنا کر بھیجا۔
یہ فطرتِ انسانی ہے کہ وہ جب بھی کسی ہستی یا شخصیت سے
متاثر ہو کر اس کا گرویدہ، مطیع یا شیدا ہوتا ہے تو اس کی بنیادی طور پر تین
بنیادی وجوہات ہوا کرتی ہے۔ اول:
کسی کی عظمت و رفعت اور فضیلت و کمالات کی وجہ سے اس سے متاثر ہو کر اس کا گرویدہ
ہوجاتا ہے اور اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور اس کا تابع و مطیع ہو جاتا ہے ۔
اس جہت سے اگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ
بابرکات کو پیش نظر رکھا جائے تو آپ نبوت و رسالت کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز
دکھائی دیتے ہیں نبوت و رسالت کے تمام درجات ،کمالات، معجزات اور فضائل جو مختلف
انبیاء کرام کو اللہ رب العزت نے عطا کیے۔ وہ سب آپ میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں
بلکہ جو سب پیغمبروں اور رسولوں کو جدا جدا ملا، وہ میرے مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کو یکجا ملا۔
اور دوسری خوبی جس کی وجہ سے انسان کسی سے متاثر ہوتا ہے۔
تو وہ اس کے اخلاق و کردار اور خصائص کی اعلیٰ خوبیاں ہیں۔ اگر کسی کے ہم پر بہت
زیادہ احسانات ہوں یا کوئی بے حد مہربان و غم گسار اور شفیق ہو تو بھی آپ اس کے
احسانات کی وجہ سے دل سے اس کی عزت و قدر کرتے ہیں اور نتیجتاً اس سے عقیدت و محبت
کرتے ہیں۔ تو یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ کائنات میں سب سے اعلیٰ اخلاق پر فائز
ذات مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہے جن کے اخلاق کے عظیم ہونے کی گواہی
خود اللہ پاک نے دی ۔
صفت کیسے کہتے ہیں؟ : خاص کیفیت ، فطرت
یا عادت جو کسی شخص میں ہو۔
صفت اور خصوصیت میں
فرق: صفت اور خصوصیت
میں فرق یہ ہے کہ صفت فطرت یا عادت جو کسی شخص یا اشیاء میں پائی جائے۔ جبکہ خصوصیت وہ عادت یا اخلاق جو انسان کے اندر
خاص طور سے پائی جائے۔
حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی صفات:۔
(1) وَ اِنَّكَ لَعَلٰى
خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔(پ29،القلم:4)(2) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً
لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے
جہان کے لیے۔(پ17،الانبیاء:107)
(3) لَقَدْ
مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ
بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا ترجمۂ کنز الایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں
پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا (پ4، آل
عمران:164) (4) قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ
اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجمۂ
کنز الایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(پ6،المائدۃ:15)
(5) یٰۤاَیُّهَا
النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ
دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں
بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر
سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ ( پ22،
الاحزاب:45،46 )(6) مَا زَاغَ الْبَصَرُ
وَ مَا طَغٰى(۱۷) ترجَمۂ کنزُالایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔(پ27،النجم:17)
(7) وَ مَا
یَنْطِقُ عَنِ الْهَوٰىؕ(۳)اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْیٌ یُّوْحٰىۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر وحی جو اُنہیں کی
جاتی ہے۔( پ27،النجم:4،3)(8) اِنَّ الَّذِیْنَ
یُبَایِعُوْنَكَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللّٰهَؕ-یَدُ اللّٰهِ فَوْقَ
اَیْدِیْهِمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو تمہاری بیعت کرتے ہیں وہ تو
اللہ ہی سے بیعت کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر اللہ کا ہاتھ ہے۔(پ26،الفتح:10)
(9) قَدْ
نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ-فَلَنُوَلِّیَنَّكَ قِبْلَةً
تَرْضٰىهَا۪ ترجَمۂ کنزُالایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا
آسمان کی طرف منہ کرنا تو ضرور ہم تمہیں پھیردیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری
خوشی ہے۔(پ2،البقرۃ:144)(10) یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے ایمان والو اپنی آوازیں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے
والے (نبی) کی آواز سے۔(پ26،الحجرات: