اللہ پاک نے اپنے محبوب کریم ﷺ کو اپنی صفات کا مظہر بنایا جیسے اس کی صفتِ تکوین ہے۔ اللہ پاک نے پیارے آقا ﷺ کو بہت ساری صفات سے نوازا ہے، جس کا آسان مفہوم یہ ہے کہ اللہ پاک کا حکم پاتے ہی کسی چیز کا معرضِ وجود میں آجانا۔ چنانچہ بحکمِ قرآنی وہ ربّ کریم حرفِ کُن ارشاد فرماتا ہے وہ چیز ہوجاتی ہے۔ تو وہ ذات جسے اللہ پاک نے اپنا محبوب بنایا، اسے اپنی صفتِ تکوین کا مظہر بھی بنایا یعنی اللہ کی عطا سے محبوب کی بھی یہ شانیں ہیں، کہ جب کبھی جو کچھ فرماتے ہیں ویسا ہی ہوجاتا ہے۔ جیسے مدینے پاک میں آپ ﷺ کی دعا سے مسلسل بارش کا برسنا۔

قرآن پاک نبیِ کریم ﷺ کی نعت و صفات کی آیاتِ بینات اسی طرح جگمگارہی ہیں جیسے سارا آسمان ستاروں سے روشن ہے۔ ان میں سے چند آیاتِ مبارکہ ملاحظہ کریں:

(1) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ- (پ26، الفتح: 29) ترجمہ: محمد اللہ کے رسول ہیں۔

(2) وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب:40) ترجمہ: ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔

وضاحت: ہمارے پیارے آقا ﷺ سب سے آخری نبی ہیں، آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، آپ ﷺ پر نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا۔

(3) ہمارے آقا ﷺ کا نام احمد ہے۔

اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ (پ28، الصف: 6) ترجمہ: ان کا نام احمد ہے۔

(4) ہمارے آقا ﷺ سراجِ منیر اور داعی ہیں۔

وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) (پ22، الاحزاب: 46) ترجمہ: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکادینے والا آفتاب۔

(5) ہمارے آقا ﷺ گواہ ہیں۔

وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ- (پ2، البقرۃ: 143) ترجمہ: اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ ہیں۔

(6) ہمارے آقا ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (الانبیاء:107) ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔

(7) ہمارے آقا ﷺ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (پ21، الاحزاب: 21) ترجمہ: بےشک تمہیں رسول اللہ کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔

(8) ہمارے آقا ﷺ شاہد (حاضرو ناظر) اور مبشر و نذیر ہیں۔

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) (پ22، الاحزاب: 45) ترجمہ: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) ! بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈرسناتا۔

(9) اللہ پاک نے آقا ﷺ کو زمین و آسمان میں قدرت و اختیارات عطا فرمائے، جس کے لئے جو چاہیں حلال فرمائیں جو چاہیں حرام۔

یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ (پ9، الاعراف: 157) ترجمہ: اور ستھری چیزیں ان کے لئے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کو اللہ پاک کی طرف سے اختیار دیا گیا، آپ شارع یعنی صاحبِ شریعت اور مالکِ شریعت ہیں۔

آقا ﷺ کے اوصاف بہت ہیں، جو اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو عطا فرمائے، ان میں سے چند کا ذکر کیا گیا۔ 

اللہ پاک کے آخری نبی، مکی مدنی مصطفےٰ ﷺ انسانیت کی جانب بھیجے جانے والے انبیاء کرام علیہمُ السّلام کے سلسلے کے آخری نبی ہیں۔ اللہ پاک نے سب سے پہلے آپ کا نور پیدا کیا۔

حضرت علامہ نور بخش توکلی رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی کتاب سیرتِ رسولِ عربی میں لکھتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے بلاو اسطہ اپنے حبیب محمد ﷺ کا نور پیدا کیا، پھر اسی نور کو خلق ِعالم کا واسطہ ٹھہرایا۔ اور عالم ِ اَرواح ہی میں اس رُوح سراپا نور کو وَصف نبوت سے سر فراز فرمایا، چنانچہ ایک روز صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم نے حضورِ انور ﷺ سے پو چھا کہ آپ کی نبوت کب ثابت ہوئی آپ نے فرمایا: کُنْتُ نَبِیًّا وَّ آدَمُ بَیْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ یعنی میں اس وقت نبی تھا جب کہ آدم کی روح نے جسم سے تعلق نہ پکڑا تھا۔

ہمارے نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف کا مکمل تذکرہ نہ کوئی کرسکا ہے نہ کوئی کرسکے گا۔

ایک شاعر لکھتے ہیں:

شان مصطفیٰ کروں کیا میں بیان کہ نظام کائنات رک گیا اک ملاقات کے واسطے

نبیِ کریم ﷺ کے چند اوصاف کا تذکرہ ملاحظہ فرمائیے۔

(1) صبر و عفو درگزر: آپ معاف کرنے والے، صبر کرنے والے ہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: رسول اللہ ﷺ نے اپنی ذات کے حق کے لئے کبھی انتقام نہ لیا۔

سلام اس پر کہ جس نے زخم کھا کر پھول برسائے

(2)عدل و انصاف: آپ ﷺ عدل و انصاف کےپیکر ہیں۔ ایک دفعہ آپ نے ایک شخص سے کچھ کھجوریں ادھار لیں، جب اس نے تقاضا کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:آج ہمارے پاس کچھ نہیں ہے، مہلت دیجئے کہ کچھ آجائے تو ادا کروں۔ یہ سن کر وہ بولا: آہ! بے وفائی۔ اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کو غصہ آگیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: عمر جانے دو،صاحبِ حق ایسا ویسا کرسکتا ہے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت خولہ بنتِ حکیم انصاری رضی اللہُ عنہا سے کچھ کھجوریں منگوا کر اس کے حوالہ کیں۔

سلام اس پر کہ جس نے گالیاں سن کر دعائیں دیں

(3) سخاوت و بہادری: آپ ﷺ بہت زیادہ سخی اور بہادر تھے۔ حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ محمد رسول اللہ ﷺ تمام لوگوں سے بڑھ کر حسین، تمام لوگوں سے زیادہ سخی اور تمام لوگوں سے زیادہ بہادر تھے۔ ایک رات اہلِ مدینہ کسی آواز سے گھبرا گئے، لوگ آواز کی جانب لپکے، نبیﷺ تمام لوگوں سے پہلے آواز کی جانب پہنچ گئے اور فرمانے لگے: ڈرو نہیں، ڈرو نہیں۔ آپ ﷺ ابو طلحہ رضی اللہُ عنہ کے گھوڑے پر سوار تھے اور آپ ﷺ کی گردن میں تلوار لٹک رہی تھی۔ (بخاری، مسلم)

(4) آپ کی گفتگو: نبیِ کریم ﷺ بہت ہی خوبصورت انداز میں گفتگو فرماتے۔ آپ سب سے زیادہ شیریں یعنی میٹھی گفتگو فرماتے تھے۔ مکتبۃ المدینہ کے شائع کردہ رسالہ حسن و جمالِ مصطفیٰ صفحہ نمبر 38 پر ہے: پیارے آقا مختلف علاقوں سے حاضر ہونے والے لوگوں سے انہیں کی زبان میں بلاتکلف گفتگو فرماتے۔ آپ کی گفتگو شریف دلوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی اور دلوں کو موہ لیتی یعنی اپنی گرفت میں لے لیتی۔

اس کی باتوں کی لذت پہ لاکھوں درود اس کےخطبے کی ہیبت پہ لاکھوں سلام

(5) تمام مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے: ہمارے پیارے نبی ﷺ کسی ایک قوم یا کسی ایک مخلوق کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے، جیسا کہ پیارے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا: میں ساری مخلوق کی طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ (مسلم)

(6) آپ ﷺ کے اعضاءِ مبارک: اللہ پاک نے پیارے آقا ﷺ کے اعضائے مبارکہ کا ذکر قرآن مجید میں فرمایا ہے، چنانچہ آپ ﷺ کے مبارک چہرے کے بارے میں فرمایا: قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ (پ2، البقرۃ: 144) ترجمہ کنز الایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔

آپ کےچشمِ مبارک کے بارے میں فرمایا: مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰى(۱۷) (پ27، النجم: 17) ترجمہ کنز الایمان: آنکھ نہ کسی طرف پھری نہ حد سے بڑھی۔

قلبِ اطہر کے بارے میں فرمایا: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰى(۱۱) (پ27، النجم: 11) ترجمہ کنز الایمان: دل نے جھوٹ نہ کہا جو دیکھا۔

سینۂ مبارکہ کے بارے میں فرمایا: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الم نشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا۔

یہاں پر چند عضو کا ذکر کیا گیا ہے، یہ آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ہے کہ اللہ پاک نے آپ ﷺ کی شانِ اقدس خود بیان فرمائی۔ اعلیٰ حضرت بھی کیا خوب لکھتے ہیں:

خلق سے اولیا اولیا سے رسل اور رسولوں سے اعلیٰ ہمارا نبی

(7) دیدارِ الٰہی: ہمارے آقا، میٹھے میٹھے مصطفےٰ ﷺ نے اللہ پاک کا دیدار کیا اور یہ شرف ہمارے آقا کو جاگتی آنکھوں سے ہوا۔ حضرت امام احمد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضور ِ اقدس ﷺنے اپنے ربّ کو دیکھا، اُس کو دیکھا، اُس کو دیکھا۔ امام صاحب یہ فرماتے ہی رہے یہاں تک کہ سانس ختم ہوگیا۔ (تفسیرِ خازن)

بیاں کیوں کر ثنائے مصطفےٰ ہو خدا جب ان کا خود مدحت سرا ہو

(8) شقِ صدر: آپ وہ عظیم ہستی ہیں جن کا سینۂ مبارک چاک کیا گیا۔ کتاب سیرتِ رسول عربی، باب تعددِ شقِ صدر میں علامہ نور محمد بخش توکلی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: واضح رہے کہ حضور کا شقِ صدر چار مرتبہ ہوا۔ یہ آپ کا بہت بڑا وصف ہے۔

(9) آپ کا ذکر بلند: پیارے آقا ﷺ کا ذکر بلند کیا گیا۔ میرے ربّ کو گوارا ہی نہ ہوا کہ آپ کو کوئی بھلائے اور ایسا ممکن بھی نہیں، اس لئے اذان اور خطبے اور تشہد میں اللہ پاک کے ساتھ آپ کا ذکر بھی ہے۔

سورۂ الم نشرح میں وارد ہے: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30، الشرح: 4) ترجمہ: اور ہم نے تیرا نام بلند کیا۔

رفعت ذکر ہے تیرا حصہ دونوں عالم میں ہے چرچا تیرا

(10) اسمائے مبارکہ: میرے آقا ﷺ کو اللہ پاک نے بہت سے ناموں سے پکارا، کبھی یسین کہا تو کبھی مزمل کہا، کبھی مدثر کہا تو کبھی طٰہ کہا، کبھی محمد کہہ کر پکارا تو کبھی احمد کہہ کر پکارا۔ حضرت علامہ محمد نور بخش توکلی فرماتے ہیں: حضور ﷺ کے اسمائے مبارکہ میں سے تقریباً ستر نام وہی ہیں جو اللہ پاک کے ہیں۔

دئیے معجزے انبیا کو خدا نے ہمارا نبی معجزہ بن کے آیا

ہمارے آقا و مولیٰ دو جہاں کے داتا محمدِ عربی ﷺ کی شان و عظمت بہت بلند و بالا ہے، اس قدر ہے کہ بیان نہیں کی جاسکتی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ اپنے آخری نبی ﷺ کی سیرتِ مبارکہ پڑھنے سمجھنے اور اس کو دوسروں تک پہنچانے کی سعادت عطا فرمائے۔

سرکار کے اوصاف کا اظہار کریں گے ہم پہ بھی کرم سیدِ ابرار کریں گے


ہمارے سب سے پیارے اور آخری نبی حضرت محمد ﷺ ہیں۔ آپ خاتم النبیین ہیں۔ نبوت و رسالت کا سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السّلام سے شروع ہوا وہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ہوگیا۔ اللہ پاک نے ہر نبی کو مختلف معجزے اور اوصاف عطا فرمائے مگر نبیِ کریم ﷺ کے اوصاف کی کوئی حد نہیں۔ اگر ہم ان کے اوصاف بیان کرنے لگیں اور لکھنے لگیں تو سمندر کے پانی کے برابر سیاہی اور ساری زندگی صرف کرنے کے بعد ان کے اوصاف کا ایک حصہ بھی نہ بیان کرسکیں گے۔

(1) امام بغوی رحمۃ اللہ علیہ نے ایک حدیث روایت کی: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: میں اللہ کے نزدیک خاتم النبیین لکھا ہوا تھا حالانکہ حضرت آدم علیہ السّلام کا خمیر تیار ہورہا تھا۔ میں تمہیں اپنے ابتدائے حال کی خبر دوں، میں دعائے ابراہیم ہوں، بشارتِ عیسیٰ ہوں، اپنی والدہ کے خواب کی تعبیر ہوں، جو انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا اور ان کے لئے ایک بلند نور ظاہر ہوا جس سے ملکِ شام کے ایوان اور محلات روشن ہوگئے۔ (شرح السنہ، 7/13، حدیث: 3520)

(2) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے چاندنی رات میں نبیِ کریم ﷺ کو دیکھا، حضور سرخ حلہ پہنے ہوئے تھے یعنی اس میں سرخ دھاریاں تھیں۔ میں کبھی حضور کو دیکھتا اور کبھی چاند کو، حضور میرے نزدیک چاند سے زیادہ حسین تھے۔ (ترمذی، حدیث:2820)

(3) رسولِ کریم ﷺ جب خوش ہوتے تو آپ کا چہرۂ مبارک کھل اٹھتا تھا اور ایسے معلوم ہوتا کہ آپ کا چہرۂ مبارک چاند کا ٹکڑا ہے۔ (مشکوۃ، حدیث: 5549)

(4) علامہ قرطبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور کا پورا جمال ظاہر نہیں کیا گیا ورنہ آدمی حضور ﷺ کو دیکھنے کی طاقت نہ رکھتے۔ (شمائلِ ترمذی)

(5) حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ ﷺ جب آئینہ دیکھتے تو فرماتے: اے اللہ! جس طرح تو نے میری صورت اچھی بنائی ہے اسی طرح میری سیرت بھی ا چھی کردے۔ (مسند احمد، حدیث: 3823)

(6) پیکر ِ عظمت و شرافت، محسنِ انسانیت ﷺ کی مقدس آنکھوں کا یہ اعجاز ہے کہ آپ بیک وقت آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے، دن رات، اندھیرے اجالے میں یکساں دیکھا کرتے تھے۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 571)

(7) رسول اللہ ﷺ کا رنگ کھلا ہوا چمکدار تھا، آپ کا پسینہ جیسے موتی ہوں، جب چلتے تو جھکاؤ آگے کو ہوتا، میں نے کبھی کوئی ریشم، کوئی دیباج نہیں چھوا جو رسول اللہ ﷺ کی ہتھیلی سے زیادہ نرم و ملائم ہو، نہ کسی کستوری اور عنبر ہی کو سونگھا جو رسول اللہ ﷺ کی خوشبو سے زیادہ عمدہ اور پاکیزہ ہو۔(بخاری، حدیث: 1973)

(8)رسول اللہ ﷺ کا کامل حسن ہمارے لئے ظاہر نہیں ہوا، کیونکہ اگر ظاہر ہوجاتا تو ہماری آنکھیں آپ ﷺ کے دیدار کی تاب نہ لاسکتیں۔ (سیرت رسولِ عربی، ص 248)

(9) حضورِ اکرم ﷺ اور آپ کے گھر والے کئی کئی رات پے درپے بھوکے گزاردیتے تھے کہ رات کو کھانے کے لئے کچھ موجود نہیں ہوتا تھا۔ اکثر غذا آپ ﷺ کی جو کی روٹی ہوتی تھی اور کبھی کبھی گیہوں کی روٹی بھی مل جاتی تھی۔ (شمائلِ ترمذی، حدیث: 136)

(10) حدیثِ روزِ محشر میں ہے: اللہ پاک اولین و آخرین کو جمع کرکے حضورِا قدس ﷺ سے فرمائے گا:یہ سب میری رضا چاہتے ہیں اور اے محبوب! میں تمہاری رضا چاہتا ہوں۔سبحان اللہ(فتاویٰ رضویہ، 14/275)

تمہید: پیارے آقا ﷺ کے بےشمار اوصافِ کریمہ ہیں۔ پورا قرآن پیارے آقا ﷺ کی شان بیان کررہا ہے۔ ہم آپ کے جتنے اوصاف ہیں انہیں کبھی گن نہیں سکیں گے۔

قرآن پاک کی روشنی میں: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الم نشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا۔

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔

(1) جسمِ اطہر: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے جسمِ اقدس کا رنگ گورا سپید تھا، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ ﷺ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔ (شمائل ترمذی، ص 2)

آپ ﷺ کے رخِ انور پر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور ﷺ کے جسمِ اطہر کا پسینہ ملا ہوا ہے۔ (بخاری، 4/182، حدیث: 6281)

(2) جسمِ انور کا سایہ نہ تھا: آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ کے جسمِ انور کا سایہ نہیں تھا۔ آپ نور تھے، اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ امام ابنِ سبع رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے کہ یہ آپ کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (سیرِ ت مصطفےٰ، ص 565)

(3) قدِ مبارک: حضرت انس رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ انور ﷺ نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ پست قد، بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا بدنِ مقدس انتہائی خوبصورت تھا، جب چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہوکر چلتے تھے۔ (سیرِ ت مصطفےٰ، ص 567)

(4) سرِ اقدس: حضرت علی رضی اللہُ عنہ نے آپ ﷺ کا حلیہ مبارک بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: منحم الراس یعنی آپ ﷺ کا سرمبارک بڑا تھا جو شان دار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔

جس کے آگے سر سروراں خم رہیں اس سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام

(سیرِ ت مصطفےٰ، ص 568)

(5) مقدس بال: حضورِ انور ﷺ کے موئے مبارک نہ گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کیفیتوں کے درمیان تھے۔ مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا تو صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم میں بطورِ تبرک تقسیم ہوئے۔

حضرت بی بی امِ سلمہ رضی اللہُ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا، جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو ان بالوں کے دھوون سے شفا حاصل ہوتی تھی۔ (بخاری، 2/875)

(6)رخِ انور: حضورِ اقدس ﷺ کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی وجیہ،پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا، میں ایک مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اورایک مرتبہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 569)

(7) نورانی آنکھ: آپ ﷺ کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں، پلکیں گھنی اور دراز تھیں، پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ ڈورے تھے۔ (شمائل ترمذی صو دلائل النبوۃ ص54)

یہ سب آپ ﷺ کے اوصافِ کریمہ ہیں، یہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ (سیرت مصطفے، ص 571)

(8)زبانِ اقدس: آپ ﷺ کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات ومخزن معجزات ہے اس کی فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (سیرت مصطفے، ص575)

(9) نعلینِ اقدس: حضور ﷺ کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل ہوتے ہیں۔ (سیرت مصطفے، ص582)

(10) پائے اقدس: آپ کے مقدس پاؤں چوڑے پر گوشت، ایڑیاں کم گوشت والی، تلوا اونچا جو زمین میں نہ لگتا تھا۔ (سیرت مصطفے، ص580)

محدث ابو نعیم نے دلائل النبوۃ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما کی روایت سے یہ حدیث بیان کی ہے کہ جس ر ات حضور کا نورِ نبوت حضرت عبد اللہ رضی اللہُ عنہ کی پشتِ اقدس سے حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے بطنِ مقدس میں منتقل ہوا، روئے زمین کے تمام چوپایوں خصوصاً قریش کے جانوروں کو اللہ پاک نے گویائی عطا فرمائی اور انہوں نے بزبانِ فصیح اعلان کیا کہ آج اللہ پاک کا وہ مقدس رسول شکمِ مادر میں جلوہ گرہوگیا، جس کے سر پر تمام دنیا کی امامت کا تاج ہے، جو سارے عالم کو روشن کرنے والا چراغ ہے۔

حضرت بی بی آمنہ رضی اللہُ عنہ نے فرمایا: جب حضورِ اقدس ﷺ پیدا ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ایک بہت بڑی بدلی آئی، اس کے بعد وہ بادل چھٹ گیا، پھر میں نے دیکھا کہ آپ ریشم کے سبز کپڑے میں لپٹے ہوئے ہیں۔ اب میں نے چہرۂ انور دیکھا تو چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا اور بدن سے پاکیزہ مشک کی خوشبو آرہی تھی۔

ولادتِ باسعادت: حضورِ اکرم ﷺ کی ولاادتِ باسعادت اصحابِ فیل سے پچپن دن کے بعد 12 ربیع الاول مطابق 20 اپریل 571ء کو ہوئی۔

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا مرادیں غریبوں کی بر لانے والا

مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا

فقیروں کا ماویٰ، ضعیفوں کا ملجا یتیموں کا والی، غلاموں کا مولیٰ

حضور ِ اکرم ﷺ کے اوصاف کی تو کیا ہی بات ہے، چند اوصاف کا ذکر پیشِ خدمت ہے:

(1) حضرت حلیمہ رضی اللہُ عنہا کا بیان ہے کہ آپ کا گہوارہ یعنی جھولا فرشتوں کے ہلانے سے ہلتا تھا اور آپ بچپن میں چاند کی طرف انگلی اٹھا کر اشارہ فرماتے تھے تو چاند آپ کی انگلی کے اشاروں پر حرکت کرتا تھا۔

(2)جب نبیِ کریم ﷺ کی زبان کھلی تو سب سے اول کلام جو آپ ﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلا وہ یہ تھا: اللہ اکبر اللہ اکبر، الحمد للّٰہ رب العالمین و سبحان اللہ بکرۃ و اصیلا

(3) حضرت ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھا کہ حضورِ اقدس ﷺ کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکا دیا ہو، یا کبھی کسی کو ایذا پہنچائی ہو، یا کبھی کوئی خلافِ تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخلاق، نیک اطوار، نرم گفتار، بلند کردار اور اعلیٰ درجے کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔

(4) کم بولنا، فضول باتوں سے نفرت کرنا، خندہ پیشانی اور خوش روئی کے ساتھ دوستوں اور دشمنوں سے ملنا، ہر معاملے میں سادگی اور صفائی کے ساتھ بات کرنا حضورِ اکرم ﷺ کا خاص شیوہ تھا۔

(5) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما فرمایا کرتے تھے: حضورِ اکرم ﷺ سے زیادہ بہادر اور طاقتور، سخی اور پسندیدہ میری آنکھوں نے کبھی کسی کو نہیں دیکھا۔

(6) نبیِ کریم ﷺ تمام انسانوں سے زیادہ بڑھ کر سخی تھے۔

(7)حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضورِ اکرم ﷺ نے کسی سائل کے جواب میں خواہ کتنی ہی بڑی چیز کا سوال کیوں نہ کرے، آپ ﷺ نے کبھی نہیں کا لفظ نہیں فرمایا۔ (الشفاء، 1/65)

(8) آپ ﷺ کا مقدس نام عرش اور جنت کی پیشانیوں پر تحریر کیا گیا۔

(9) نبیِ پاک ﷺ کو معراج کاشرف عطا کیا گیا اور آپ کی سواری کے لئے براق پیدا کیا گیا۔

(10 )آپ ﷺ کے منبر اور قبرِ انور کے درمیان کی زمین جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔

ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود ہم فقیروں کی ثروت پہ لاکھوں سلام

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں بھی نبیِ پاک ﷺ کے اوصافِ کریمہ سے حصہ عطا فرمائے اور ہمیں نبیِ پاک ﷺ کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔


آیتِ مبارکہ: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمہارے لئے سینہ کشادہ نہ کیا۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس سورت کا شانِ نزول یہ ہےکہ ایک روز سرورِ عالَم ﷺ نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی:اے اللہ ! تو نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو اپنا خلیل ہونے کا شرف عطا فرمایا،حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ کلام کرنے سے سرفراز کیا،حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان جنت تک رسائی دی،پہاڑوں اور لوہے کو حضرت داؤد علیہ السّلام کا فرمانبردار کر دیا،جِنّات،انسان اور تمام حیوانات حضرت سلیمان علیہ السّلام کے تابع کر دئیے، تومجھے کس شرف اور کرامت سے خاص فرمایا ہے؟اس پر یہ سورت نازل ہوئی جس میں گویا کہ ارشاد فرمایا گیا: اے حبیب! اگر ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام کواپنا خلیل بنایا ہے تو آپ کی خاطر ہم نے آپ کاسینہ علم و حکمت اور معرفت کے نور سے کھول دیا تاکہ مُناجات کی لذّت،امت کا غم،اپنی بارگاہ میں حاضری کا ذوق اور آخرت کے گھر کا شوق آپ کے دل میں سما جائے،آسمانی وحی کو اٹھانا آپ کے دل پر آسان ہو جائے،اللہ پاک کی طرف رغبت دینے کی تبلیغ کرنے پر آنے والے مَصائب کو برداشت کر سکے اور ان خوبیوں اور کرامتوں کی بدولت آپ کو وہ مقام حاصل ہو کہ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے خلیل ہونے کو اس سے کچھ نسبت نہ رہے۔

اور اگر ہم نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام کو اپنے ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف عطا کیا اور حضرت ادریس علیہ السّلام کو بلند مکان تک رسائی عطا کی ہے تو آپ کو اس غم سے نجات دی جو آپ کی پُشت پر بہت بھاری تھا اور آپ کو لامکاں میں بلا کر اپنے دیدار سے مشرف کیا یہاں تک کہ ہم میں اور آپ میں (ہماری شایانِ شان)دو کمانوں کے برابر بلکہ اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا اور آسمانوں کی پوری سلطنت میں آپ کی قربت اور منزلت کا شہرہ ہو گیا۔اگر ہم نے حضرت داؤد علیہ السّلام اور حضرت سلیمان علیہ السّلام کو دنیا کی چند چیزوں پر حکومت بخشی ہے تو آپ کو عالَمِ عُلْوی یعنی آسمانوں پر قدرت دی ہے کہ وہاں کے فرشتے خادموں کی طرح آپ کی بارگاہ میں حاضر رہتے ہیں اور آپ کے سپاہیوں کی طرح آپ کے دشمنوں سے لڑتے ہیں اور آسمانوں میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو آپ کی نبوت و رسالت سے واقف نہ ہو اور آپ کے حکم سے اِنحراف کرے۔ (تفسیر روح البیان، 10/465)

آیتِ مبارکہ: وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔علامہ علی بن محمد خازن فرماتے ہیں: یہ آیت گویا کہ ’’مَاۤ اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍ‘‘ کی تفسیر ہے کیونکہ تاجدارِ رسالت ﷺ کے قابلِ تعریف اَخلاق اور پسندیدہ اَفعال آپ کی ذاتِ مبارکہ سے ظاہر تھے اور جس کی ایسی شان ہو اس کی طرف جنون کی نسبت کرنا درست نہیں۔ (تفسیرِ خازن، 4/294)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: حق جَلَّ وَ عَلَا نے فرمایا:’’وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ‘‘ اور بے شک تو بڑے عظمت والے ادب تہذیب پر ہے کہ ایک حِلم وصبر کیا، تیری جوخصلت ہے اِس درجہ عظیم و باشوکت ہے کہ اَخلاقِ عاقلانِ جہان مُجْتَمع ہو کر اس کے ایک شِمّہ (یعنی قلیل مقدار) کو نہیں پہنچتے، پھر اس سے بڑھ کراندھا کون جو تجھے ایسے لفظ سے یاد کرے۔(فتاویٰ رضویہ، 30/164-165)

اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے پانچ چیزیں ایسی عطا کی گئیں ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں:

(1) ایک ماہ کی مسافت کے رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی۔

(2) میرے لئے مالِ غنیمت حلال کیا گیا حالانکہ مجھ سے پہلے وہ کسی کے لئے حلال نہیں تھا۔

(3) میرے لئے تمام زمین کو سجدہ گاہ اور مٹی کو پاک بنایا گیا، لہذا میرے کسی امتی کو نماز کا وقت ہوجائے تو وہیں نماز پڑھ لے۔

(4) مجھے منصبِ شفاعت عطا کیا گیا۔

ہر نبی کو ایک خاص قوم کی طرف مبعوث کیا گیا جبکہ مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا۔ (مسلم، ص 265، حدیث: 522)

اوصافِ نبوی: اوصافِ نبوی سے مراد ہے: نبیِ کریم ﷺ کی خوبیاں اور کمالات۔

سرکار کے اوصاف کا اظہار کریں گے ہم پہ بھی کرم، سیدِ ابرار کریں گے

(1)اللہ پاک نے تمام مخلوق سے پہلے اپنے حبیب ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور پھر اس نور سے دیگر مخلوق کی تخلیق فرمائی۔ (مصنف عبد الرزاق، ص 63، حدیث: 18)

خدا نے نورِ مولیٰ سے کیا مخلوق کو پیدا سبھی کون و مکاں ہوئے اس ایک مصدر سے

(2) سرکارِ مدینہ ﷺ کا مبارک نام عرش کے پائے پر ہر ایک آسمان پر جنت کے درختوں اور محلات پر حوروں کے سینوں پر اور فرشتوں کی آنکھوں کے درمیان لکھا گیا ہے۔ (خصائصِ کبری، 1/ 12)

مالک تجھے بنایا ہر چیز کا خدا نے اس واسطے لکھا ہے ہر شے پہ نام تیرا

(3) بدن تو بدن آپ کے کپڑوں پر بھی کبھی مکھی نہیں بیٹھی، نہ سر میں کبھی جوئیں پڑیں اور نہ ہی کبھی بھڑ نے آپ ﷺ کو کاٹا۔ (الشفاء، ص 368، خصائص کبری، 1/ 177)

مکھیوں کی آمد، جوؤں کا پیدا ہونا، گندگی، بدبو وغیرہ کی وجہ سے ہوا کرتا ہے اور آپ ﷺ ہر قسم کی گندگیوں سے پاک جسمِ اطہر خوشبو دار تھا، اس لئے بھی آپ ﷺ ان چیزوں سے محفوظ تھے۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 566)

اللہ کی سرتابقدم شان ہیں یہ ان سا نہیں انسان وہ انساں ہیں یہ

قرآن تو ایمان بتاتا ہے انہیں ایمان یہ کہتا ہے مری جان ہیں یہ

(4) حضرت آدم علیہ السّلام اور دیگر تمام مخلوقات سرکارِ دو عالم ﷺ کے لئے ہی پیدا کئے گئے۔ (مواہب للدنیہ، 1/86)

زمین و زماں تمہارے لئے مکین و مکاں تمہارے لئے

چنین و چناں تمہارے لئے بنے دو جہاں تمہارے لئے

(5) اللہ پاک نے اذان و اقامت اور خطبہ و تشہد میں اپنے محبوب ﷺ کے ذکر کو اپنے سے ملادیا۔ (الکلام الاوضح، ص 179)

(6) اظہارِ نبوت سے پہلے دھوپ کے وقت بادل اکثر سرکارِ مدینہ ﷺ پر سایہ کیا کرتا اور درخت کا سایہ آپ کی طرف آجاتا تھا۔ (خصائصِ کبری، 1/42-143)

سایۂ عرشِ الٰہی میں کھڑا کرنا مجھے ہیں سیہ عصیاں سے دفتر رحمۃ للعلین

گزشتہ آسمانی کتابوں میں حبیب ﷺ کی تشریف آوری کی بشارت دی گئی (خصائص کبری، 1/18)

(7) سرکارِ نامدار ﷺ نور ہیں، اس لئے سورج کی دھوپ اور چاند کی چاندنی میں آپ ﷺ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (خصائصِ کبری، 1/144)

اس قدِ پاک کا سایہ نظر آتا کیونکر نور ہی نور ہیں اعضائے رسولِ عربی

پیارے آقا ﷺ کا مبارک سینہ کستوری سے زیادہ خوشبودار تھا۔ (مواہبِ لدنیہ، 7/199)

اسی سے ہوئے عنبر و مشک مشتق ہے خوشبو کا مصدر پسینہ تمہارا

(8) سفرِ معراج میں اللہ پاک دنیا والوں کو پہلے انبیاء کرام علیہمُ السّلام اور تمام آسمانوں کے فرشتوں کو اپنے محبوب کے وہ اوصاف و کمالات دکھانا اور بتانا چاہتا تھا جو اس نے اپنے حبیب کو عطا کئے تھے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا(بنی اسرائیل:1) ترجمہ کنز العرفان: پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے خاص بندے کو رات کے کچھ حصے میں مسجدِ حرام سے مسجد ِاقصیٰ تک سیر کروائی۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما کہتے ہیں کہ تم تعجب کرتے ہو اس بات سے کہ خلعت حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے لئے ہو اور کلام حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے لئے اور اللہ پاک کو دیکھنا حضرت محمد ﷺ کے لئے۔ (مواہب اللدنیہ)

حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت محمد ﷺ نے اپنے ربّ کو دیکھا۔ (مواہب اللدنیہ)

(9) بےشک اللہ پاک نے معراج کی رات نبیِ کریم ﷺ پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، لیکن اپنے محبوب ﷺ کی رضا کے لئے پانچ فرض کیں۔ نمازوں میں سے پینتالیس نمازیں معاف کرکے ثابت کردیا کہ میں اپنی طرف سے خود فرض کی گئی پچاس نمازوں میں سے اپنے محبوب کی رضا کے لئے معاف کرسکتا ہوں۔ (فلسفہ معراج، ص 72)

انبیائے کرام علیہمُ السّلام کو مختلف خوبیاں عطا فرمائی گئیں، کسی کو بےمثال حسن و جمال عطا فرمایا گیا، کسی کو یدِ بیضاء (چمکتا ہوا ہاتھ) عطا فرمایا گیا، کسی کی پھونک مردے کو جلادیتی تو کسی کے مسح سے کوڑھی شفاء پاتے۔ تمام انبیائے کرام علیہم السلام بڑی شانوں والے ہیں مگر جانِ عالم ﷺ ایک یا دو نہیں بلکہ جملہ اوصافِ حمیدہ کے جامع ہیں، کہ تمام اوصاف کا بیان ناممکن ہے۔ یہ تو وہی جانے کہ جس نے اپنے محبوب کو کامل و اکمل بنایا۔ روزِ اول سے اب تک اور قیامت تک ان کی تعریف و توصیف بیان کی جاتی رہی ہے اور کی جاتی رہے گی، مگر حق یہ ہے کہ

زندگیاں ختم ہوئیں قلم ٹوٹ گئے مگر تیرے اوصاف کا اک باب بھی پورا نہ ہوا

(1) اعلیٰ اخلاق: حضور نبیِ کریم ﷺ تمام اخلاقِ حسنہ کے جامع ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:

وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ: اور بےشک آپ یقیناً عظیم اخلاق پر ہیں۔

پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں: اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اخلاق کے کمالات پورے کرنے کے لئے مجھے بھیجا۔ (تفسیر صراط الجنان)

(2) نور: اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) (پ6، المائدہ: 15) ترجمہ: بےشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔

علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نور سے مراد محمد ﷺ ہیں۔ اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ ﷺ کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ (تفسیرِ خازن، 1/477)

(3) رحمت: قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔

ابو بکر محمد بن طاہر رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: حضور کو اللہ پاک نے رحمت کے ساتھ مزین کیا۔ (الشفاء، 1)

پیارے آقا ﷺ مومنین، منافقین، کافرین تمام کے لئے رحمت ہیں۔ اور آپ ﷺ کی ذاتِ مبارکہ حیاتِ ظاہری میں بھی رحمت ہے اور حیاتِ باطنی (وفات) میں بھی رحمت ہے۔

(4) نرمی: قرآنِ عظیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ: (اے حبیب!) خد کی رحمت سے آپ لوگوں سے نرمی کے ساتھ پیش آتے ہیں، اگر آپ کہیں بد اخلاق ہوتے اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ جاتے۔ (اٰلِ عمران:109)

(5) اللہ پاک کا ارشاد ہے: اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ (پ9، الاعراف: 157) ترجمہ: وہ جو غلامی کریں گے اس رسول بے پڑھے غیب کی خبریں دینے والے کی۔

امی سے مراد ہے وہ جس نے دنیا میں کسی سے نہ پڑھا ہو۔ پیارے آقا ﷺ نے دنیا میں کسی سے نہیں پڑھا بلکہ آپ کو تو خود اللہ پاک نے علم سکھایا جیسا کہ فرمایا: اَلرَّحْمٰنُۙ(۱) عَلَّمَ الْقُرْاٰنَؕ(۲) (الرحمٰن: 1-2) ترجمہ کنز الایمان: رحمن نے اپنے محبوب کو قرآن سکھایا۔

(6) داعیا الی اللہ: یعنی اللہ کی طرف بلانے والے۔ حضور نبیِ کریم ﷺ نافرمانوں کو توحیدِ الٰہی اور اس کی عبادت کی طرف بلانے والے ہیں۔ فرمایا اللہ پاک نے: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ (پ22، الاحزاب: 46) ترجمہ: اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا۔

(7) بھلائی چاہنے والے: حضور نبیِ کریم ﷺ اپنی امت کی بھلائی اور ان کی خیر خواہی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ (11، التوبہ: 128) ترجمہ: ان پر تمہارا مشقت میں پڑنا بہت بھاری گزرتا ہے وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے ہیں۔

(8) مہربان: پیارے آقا ﷺ اپنی امت پر نہایت مہربان ہیں۔ آپ دنیا و آخرت دونوں میں رؤفٌ رحیم ہیں۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) (11، التوبہ: 128) ترجمہ: مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔

(9) حیاء دار: حضورِ جانِ عالم ﷺ کی حیاء کے بارے میں قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- (پ22، الاحزاب:53) ترجمہ: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔

(10) بشیر و نذیر: جانِ جاناں ﷺ فرمانبرداروں کو جنت اور اللہ کی رضا کی خوشخبری دینے والے اور نافرمانوں کو اللہ پاک کے عذاب و ناراضی کا ڈرسنانے والے ہیں۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ-وَّ لَا تُسْــٴَـلُ عَنْ اَصْحٰبِ الْجَحِیْمِ(۱۱۹) (پ2، البقرۃ:119) ترجمہ: اے حبیب! بےشک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈرسنانے والا بنا کر بھیجا۔

محبوبِ جانِ جاناں ﷺ کی تعریف کا احاطہ ناممکن ہے۔

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کردیا خالق کا بندہ، خلق کا آقا کہوں تجھے


قرآن پاک میں اللہ پاک نے 100 سے زائد مقامات پر حضور ﷺ کا ذکر اپنے ذکر کے ساتھ کیا ہے ربِّ کونین نے آپ کو اپنی صفات کا رنگ عطا کیا اور اپنے حبیب مکرم ﷺ کی عظمتوں کا ذکر اس جہاں میں نہیں بلکہ تمام جہانوں میں بلند فرمایا اور آپ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (الانبیاء:107)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت ہی بنا کر بھیجا۔اللہ رب العزت نے آپ کی شان میں محفل عالم ارواح میں سجائی اور سامعین کے لیے کائنات کے مقدس ترین افراد انبیائے کرام کو منتخب فرمایا اور قرآن میں اس میثاق النبیین کو بیان فرمایا: وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ- (اٰل عمران: 81) ترجمہ کنز العرفان: اور یاد کرو جب اللہ نے نبیوں سے وعدہ لیا کہ میں تمہیں کتاب اور حکمت عطا کروں گا پھر تمہارے پاس وہ عظمت والا رسول تشریف لائے گا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہوگا تو تم ضرور ضرور اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا۔ اس آیت مبارکہ پر انتہائی نفیس کلام پڑھنے کے لیے فتاویٰ رضویہ کی 30 ویں جلد میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی تصنیف ”تجلی الیقین بان نبینا سید المرسلین“ کا مطالعہ فرمائیں۔

مکی مدنی آقا ﷺ کی رسالت کو اللہ پاک نے اپنے کلا م پاک قرآن کی قسم کھا کر بیان فرمایا: یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳) (یٰس:1-3 ) ترجمہ کنز العرفان: یٰسٓ حکمت والے قرآن کی قسم بیشک تم رسولوں میں سے ہو۔ اور یہ خصوصیت آپ ﷺ کے علاوہ اور کسی نبی کو حاصل نہ ہوئی، محمد ﷺ کے اوصاف میں یہ وصف خاص آپ کو ہی عطا ہوا ہے کہ رب کریم نے اپنے حبیب کے ذکر کی بلندی کو اپنے حبیب کو خوش کرنے کے لیے کیا: وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَؕ(۴) (پ30،الم نشرح:4)ترجمہ کنز العرفان:اور ہم نے تمہاری خاطر تمہارا ذکر بلند کیا۔

صراط الجنان میں ہے کہ حضور پرنور ﷺ کو تمام مخلوق پر افضل کیا آپ کو حسن ظاہر، باطن، نسب، مال، نبوت، کتاب، حکمت، قلم، شفاعت، حوض کوثر، مقام محمود، امت کی کثرت، دین کے دشمنوں پر غلبہ، فتوحات اور نعمتوں اور فضیلتوں کی انتہائیں اور قرآن میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: اِنَّاۤ اَعْطَیْنٰكَ الْكَوْثَرَؕ(۱) (الکوثر: 1)ترجمہ: اے محبوب بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرمائیں۔ اور اس عطا کو ایک ہی دفعہ میں عطا نہیں فرمایا بلکہ حق تعالیٰ فرماتا ہے: وَ لَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰىؕ(۴) (پ 30، الضحی: 4) ترجمہ:اے محبوب آپ کی آنے والی ہر گھڑی آپ کی پچھلی گھڑی سے بہتر ہے۔اور اس آیت کی تفسیر رب ذو الجلال نے سورۂ بنی اسرائیل میں کی کہ مقام محمود پر آپ کو فائز فرمائے جو میدان حشر میں مقامِ شفاعت ہے۔ عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا (۷۹) (بنی اسرائیل: 79) ترجمہ:قریب ہے کہ تہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔

رحمٰن رب نے محبت کی انتہا فرما دی۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) (پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔جبکہ نماز میں رکوع اور سجود میں امت محمدی رب پاک کو عظیم ہونے کی تکرار کرتی ہے کہ بے شک اللہ پاک نے اپنے حبیب کو اپنی صفات کا رنگ چڑھایا ہے۔ قرآن پاک میں حضور کے ہر عضو کا ذکر کمال محبت سے فرمایا سیرت رسول عربی صفحہ 562 میں تمام سورۂ مبارکہ کے حوالہ جات کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اور تو اور آپ ﷺ کا دیکھنا بھی رب غفور بیان فرما رہا ہے: قَدْ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِی السَّمَآءِۚ (پ2، البقرۃ: 144) ترجمہ کنز الایمان: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا۔رب کریم کی صفات اول و آخر میں بھی اپنے حبیب کو رنگ چڑھایا آپ کو عالم ارواح میں امام الانبیا بنایا تو اس جہان میں خاتم النبیین بن کر تشریف لائے۔ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ- (پ22، الاحزاب: 40) ترجمہ:ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ آخری نبی ہونے کے دلائل کے لیے فتاویٰ رضویہ کی جلد 14 اور 15 مطالعہ فرمائیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر قرآن کو بنظر ایمان دیکھا جائے تو اس میں اول سے  آخر تک نعت سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معلوم ہوتی ہے ۔ حمد الہی ہو یا بیان عقائد، گزشتہ انبیا ء کرام علیہم السلام اور ان کی امتوں کے واقعات ہوں یا احکام ، غرض قراٰنِ کریم کا ہر موضوع اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے محامد اور اوصاف کو اپنے اندر لئے ہوئے ہے ۔ صحابۂ کرام ، اہل بیت عظام کے مناقب، مکہ مکر مہ مدینہ منورہ کے فضائل جو قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوئے۔ وہ حقیقت میں نعتِ مصطفی ہے۔بادشاہ کے غلاموں کی تعریف، اس کے تخت و تاج کی مدحت در حقیقت بادشاہ کی ثناخوانی ہے ۔ کفار کی برائیاں ، بت پرستوں کی مذمت بھی اسی شہنشاہ کی نعت ہے ۔

تخت ہے ان کا تاج ہے ان کا دونوں جہاں میں راج ہے ان کا

جن و ملک ہیں ان کے سپاہی رب کی خدائی میں ان کی شاہی

لیکن اس مختصر مضمون میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفات پر مشتمل دو آیات پیش کی جائیں گی۔

(1تا 5) اول ،آخر، ظاہر، باطن اور علیم:۔ هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27 ، الحدید :3)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ نے مدارج النبوۃ کے خطبہ میں ارشاد فرمایا: یہ آیت کریمہ حمدِ الہی بھی ہے اور نعت مصطفی بھی۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے اول اس طرح کہ سب سے پہلے آپ کا نور پیدا ہوا۔ سب سے پہلے نبوت آپ کو عطا ہوئی، بروز قیامت سب سے پہلے آپ کی قبر کھولی جائے گی، آپ کو سب سے پہلے سجدے کا حکم ملے گا ، سب سے پہلے شفاعت فرمائیں گے، جنت میں تشریف لے جائیں گے۔ غرض کہ ہر جگہ اولیت کا سہرا ان ہی کے سرپر ہے۔( شان حبیب الرحمٰن)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے آخر اس طرح کہ سب سے آخر حضور کا ظہور ہوا ۔ خاتم النبیین آپ کا لقب ہوا، سب سے آخر حضور کو کتاب ملی اور سب سے آخر حضور ہی کا دین ہے ۔

(6 تا 10) شاهد ،مبشر، نذیر ، داعی الی اللہ اور سرا جا منیرا : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ ( پ22، الاحزاب:45،46 )

حضور شاھد اس طرح ہیں کہ دنیا میں خلق کے سامنے خالق، جنت، دوزخ اور تمام غیبی خبروں کے گواہ ہیں اور آخرت میں خالق کے سامنے خلق کہ گواہ ہوں گے۔ (شان حبیب الرحمن )

مبشر، نذیر ، داعی الی اللہ اگرچہ پہلے انبیائے کرام بھی تھے مگر ان میں اور حضور میں 3 فرق ہیں: پہلا وہ سن کر یہ فرائض انجام دیتے تھے جبکہ حضور دیکھ کر ۔ دوسرا وہ خاص جماعتوں کے لیے تھے۔ جبکہ حضور تمام عالم کے لئے ۔ تیسرا وہ خاص وقتوں کے لئے تھے جبکہ حضور قیامت تک کے لئے ۔

حضور چراغ اس طرح کہ جس طرح چراغ سے تاریکی دور ہوتی ہے گمی ہوئی چیز ملتی ہے اسی طرح حضور کے ذریعے کفر کی تاریکی دور ہوئی اور کمی ہوئی راہ ہدایت مل گئی۔

اللہ پاک قراٰن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :  وَ نَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے ۔(پ14، النحل : 89)اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : شی ہر موجود کو کہا جاتا ہے جس کا مطلب ہوا کہ فرش سے لیکر عرش تک ، مشرق سے لیکر مغرب تک ، دلوں کے خطرات اور ارادے اور ان کے علاوہ اور بھی جو کچھ ہے سب اس میں داخل ہے (یعنی ٰ اس قراٰن پاک میں ہر چیز کا بیان ہے روشن طریقے سے مذکور ہے ) ( صراط الجنان، النحل آیۃ 89)یہی قراٰن پاک جہا ں ہمیں دوسری چیزوں کا بیان کرتا ہے اسی طرح یہ سرکارِ مدینہ اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شان پاک بھی بیان فرماتا ہے ۔

قراٰن پاک میں 10اوصاف مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اللہ پاک نے قراٰن پاک میں ارشاد فرمایا کہ :لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان:بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان (پ 10، التوبۃ: 128) اس آیۃ مبارکہ میں اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند اوصاف کا بیان فرمایا ہے :(1) عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ: جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کے تحت لکھا ہے یعنی تمہارا مشقت میں پڑنا ان پر بہت بھاری گزرتا ہے اور مشقت کو دور کرنے میں سب سے اہم اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دور کرنا ہے اورنبئ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اسی مشقت کو دور کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں ۔( صراط الجنان التوبہ الآیۃ 128)

(2) حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ: تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے۔ تفسیرصراط الجنان میں ہے کہ : اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ تو اپنی اور اپنی اولاد کے حریص ہوتے ہیں مگر یہ رسول رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنی امت کی خیر خواہی اور بھلائی پر حریص ہیں اب امت پر ان کی حرص اور شفقت کی ملاحظہ ہو ۔

حضرت زید بن خالد جُہنی رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کرنے کا حکم دیتا اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک مؤخر کر دیتا ۔

مسلم شریف کی حدیث مبارکہ ہے کہ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خطبہ میں جس میں حج فرض ہونے کا بیان فرمایا اس پر ایک شخص نے عرض کی: کیا ہر سال حج فرض ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سکوت (خاموشی ) اختیار فرمایا۔ سوال کرنے والے نے سوال کی تکرار کی تو ارشاد فرمایا: جو میں بیان نہ کروں اس کے درپے نہ ہو اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال حج فرض ہو جاتا اور تم نہ کر سکتے ۔

(3) بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ: مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان

اس آیت میں اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے دو ناموں سے مشرف فرمایا یہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی کمال تکریم ہے کہ سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا میں بھی رؤف و رحیم ہیں اور آخرت میں بھی ۔نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رحمت و رافت کے متعلق دو احادیث ملاحظہ فرمائیں ۔

(۱)حضرت عبد اللہ بن عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قراٰن پاک میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی: رَبِّ اِنَّهُنَّ اَضْلَلْنَ كَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِۚ-فَمَنْ تَبِعَنِیْ فَاِنَّهٗ مِنِّیْۚ-وَ مَنْ عَصَانِیْ فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے میرے رب بےشک بتوں نے بہت لوگ بہکادئیے تو جس نے میرا ساتھ دیا وہ تو میرا ہے اور جس نے میرا کہا نہ مانا تو بےشک تو بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ13، ابراھیم: 36)اور وہ تلاوت فرمائی جس میں حضرت یحی ٰ علیہ السّلام کا یہ قول ہے: اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَۚ-وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ(۱۱۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اگر تو انہیں عذاب کرے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو بے شک تو ہی ہے غالب حکمت والا۔(پ 7، المائدۃ: 118)تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر گریہ طاری ہو گیا اور اپنے دستِ اقدس اٹھا کر دعا فرمائی اے اللہ پاک میری امت میری امت اللہ پاک نے جبرئیل علیہ السّلام سے فرما یا میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں جاؤ اور ان سے پوچھو حالانکہ تمہارا رب خوب جانتا ہے مگر ان سے پوچھو کہ انہیں کیا چیز رلائی ہے حضرت جبرئیل علیہ السّلام حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور پوچھا تو انہیں رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی عرض معروض کی خبردی اللہ پاک نے حضرت جبرئیل سے فرمایا تم میرے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ ( إنا سنرضيك في أمتك ولا نسوءك)کہ آپ کی امت کے معاملے میں ہم آپ کو راضی کردیں گے اور آپ کو غمگین نہ کریں گے ۔

(۲) حضرت انس بن مالک فر ماتے ہیں میں نے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قیامت کے دن اپنی شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میں کروں گا۔ میں نے عرض نے کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں آپ کو کہاں تلاش کروں گا؟ ارشاد فرمایا سب سے پہلے مجھے پل صراط پر تلاش کرنا میں نے عرض کی اگر پل صراط پر نہ پاؤں تو (کہاں تلاش کروں ) ارشاد فرما یا :مجھے میزان کے پاس تلاش کرنا میں نے عرض کی اگر میں میزان کے پاس بھی آپ کو نہ پاؤں تو ارشاد فرما یا: پھر مجھے حوضِ کوثر کے پاس ڈھونڈنا کیونکہ میں ان 3 مقامات سے ادھر ادھر نہ ہوں گا۔

مولانا حامد رضا خان صاحب علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

کبھی وہ گرتوں کو تھام لیں گے

کبھی وہ پیا سوں کو جام دیں گے

صراط و میزان حوض کوثر

یہیں وہ عالی مقام ہوگا

کل 3 اوصاف بیان ہوچکے ۔

ایک اور جگہ قراٰن پاک میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اوصاف کا بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا (پ 22 ،الاحزاب: 45)اس آیت میں قراٰن کریم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چند اوصاف بیان کی ہیں جن میں سے

(5)یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22 ،الاحزاب: 45)تفسیر صراط الجنان میں شاہد کا ایک معنیٰ ہوتا ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ کر نے والا اور ایک معنی یہ ہوتا ہے گواہ ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے یہاں حاضر و ناظر ترجمہ فرمایا ہے اس کے بارے میں مولانا محمد نعیم الدین مراد آبادی فرماتے ہیں شاہد کا ترجمہ حاضر و ناظر بہت بہترین ہے اگر اس کا مطلب گواہی بھی کیا جائے پھر بھی وہ معنی مراد ہوگا جو اعلیٰ حضرت نے کیا ہے کیونکہ گواہ کے لئے بھی شاہد ہونا ضروری ہوتا ہے ، چونکہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام عالم کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے ہیں اس لئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت تک ساری مخلوق کے شاہد ہیں اور ان کے سارے اعمال و افعال و احوال کا مشاہدہ فرماتے ہیں ۔

(6) وصف بیان فرمایا (مُبَشِّرًا )یعنی خوشخبری دینے والا یعنی اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا بنا کر بھیجا ہے ۔(صراط الجنان، پ 22 ، الاحزاب الآیۃ 45،46)

(7) فرمایا ( نَذِیْرًاۙ) یعنی ڈر سنانے والا ۔ صراط الجنان میں ہے کہ کافروں کی طرف حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔( صراط الجنان، پ 22 ، الاحزاب الآیۃ 45،46)

(8) ( دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ) اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا ۔

اس حصہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا چوتھا وصف بیان فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کو خدا کے حکم سے لوگوں کی خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔حوالہ ( ایضا )

(9) اس آیت میں ارشاد فرما یا ( سِرَاجًا مُّنِیْرًا) اور چمکا دینے والا آفتاب ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیسے چمکا دینے والے آفتاب ہیں کہ حضرت مفتی سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں ہزاروں آفتابوں ( سورج ) کو روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پہنچائی ہے اور کفر و شرک کے اندھیروں کو اپنے نور سے آپ نے دور فرما دیا۔ گمراہ لوگوں نے آپ کے نورِ نبوت سے روشنی پائی اور صراط مستقیم کی طرف آگئے ۔ حقیقت میں آپ کا وجودِ مبارک ایسا آفتاب عالم ہے جس نے ہزار ہا آفتاب بنادئیے ( صراط الجنان، الاحزاب الآیۃ 45،46)

(10)قراٰن پاک میں ایک اور جگہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف بیان کیا گیا ہے ۔

اللہ پاک ارشاد فرما تاہے ( مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ)ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں ۔(پ26،الفتح:29)

صراط الجنان میں ہے کہ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بہت سارے اوصاف میں سے اس کا ذکر کیوں فرمایا اور کلمہ شریف میں بھی اسی وصف رسالت کو ذکر کیوں فرمایا؟ فرماتے ہیں اس کی دو وجہ ہیں : (۱)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلق رب تعالیٰ کے ساتھ بھی ہے اور مخلوق کے ساتھ بھی ہے اور لفظ رسول میں ان دونوں کا تذکرہ ہے یعنی خدا کے بھیجے ہوئے اور مخلوق کی طرف بھیجے گئے ۔(۲)دوسرا اس پے کہ جس طرح ایک شہر کا ڈاکیہ اور پورا ایک شعبہ ڈاک کا بنا ہوتا ہے اگر یہ نہ ہو تو شہر اور ملک کٹ جاویں یعنی یہ ڈاک کا شعبہ دو ملکوں دو شہروں کو ملا کر رکھتا ہے اسی طرح خالق و مخلوق کے درمیان تعلق پیدا کرنے کے لئے رسول آتے ہیں اگر درمیان میں ان کا واسطہ نہ ہو تو پھر خالق و مخلوق میں کوئی تعلق ہی نہ رہے۔( صراط الجنان، سورۃ الفتح الآیۃ 29)

(11)اللہ پاک نے قراٰن پاک میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بہت پیارا وصف بیان فرمایا کہ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ (پ 29،القلم: 4)

یعنی اے محبوب آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عظیم اخلاق پر ہیں ۔

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کیسے تھے احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں :

(۱)ایک مرد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کی ام المؤ منین حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ کریمہ کیسے تھے آپ نے ارشاد فرمایا: کیا تم قراٰنِ کریم نہیں پڑھتے اس نے عرض کی کیوں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ان کا اخلاق کریمہ قراٰن ہی ہیں۔

(۲)حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے اخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورےکرنے کےلئے مجھ کو بھیجا ہے۔ (صراط الجنان، القلم الآیۃ 4)

تیرے خلق کو حق نے عظیم کہا تیرے خلق کو حق نے جمیل کیا

کوئی تجھ سا ہوا ہے نہ ہوگا شہا تیرے خالق حسن و ادا کی قسم

تیرے تو وصف عیب تناہی سے ہیں بری

حیران ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

صفات "صفت" کی جمع ہے جس کے معنی ہیں خوبی ، کمال ۔ جس کے اندر جتنی زیادہ صفا ت ہوتی ہیں اتنا ہی اس کا مرتبہ بلند ہوتا ہے اور جو کوئی ذات عام دنیاوی مرتبے والی نہیں بلکہ کل کائنات کی سردار ہو ، شافع محشر ہو ، جو وجہ تخلیق کائنات ہو ، ان کی صفات کا اندازہ کون کر سکتا ہے ، بقولِ شاعر :

صدیاں گزر گئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تیرے اوصاف کا ایک باب بھی پورانہ ہوا

آئیے اب پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وہ صفات جو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے رب تعالیٰ نے اپنے کلام پاک میں ذکر فرمائی ہیں، ان میں سے چند سنتے ہیں :

(1) سب سے آخری نبی : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اللہ پاک نے سب سے آخری نبی بنا کر بھیجا ، یہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے بڑی صفت ہے یہاں تک آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس صفت کو ماننا ضروریات دین میں سے ہے کہ اس کو نہ ماننے والا یا اس میں زرہ برابر شک کرنے والا اسلام سے خارج اور کافر و مرتد ہے ۔آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اس صفت کو اللہ پاک نے قراٰن کریم میں یوں ذکر کیا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجمۂ کنز الایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔( پ 22، الاحزاب : 40)

(2)تمام جہانوں کے لئے رحمت : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ۔ چنانچہ ارشاد فرمایا : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ (پ 17، الانبیا: 107)

(3)علم غیب جاننے والے : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا علم غیب جاننے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو روزِ اول سے روزِ آخرت تک کا علم عطا فرمایا ہے ( دس اسلامی عقیدے ، ص41، مکتبۃ المدینہ ) چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ عَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُؕترجمۂ کنز الایمان : اور تمہیں سکھا دیا جو کچھ تم نہ جانتے تھے۔(پ 5،النسا: 113)مفسر قراٰن مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں : ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو تمام کائنات کے علوم عطا فرمائے ہیں۔ (خزائن العرفان )

(4)حاضر و ناظر : حاضر و ناظرکا معنیٰ یہ ہے کہ "قوت قدسیہ والا ایک ہی جگہ رہ کر تمام عالم کو اپنے کف دست( ہتھیلی) کی طرح دیکھے اور دور و قریب کی آوازیں سنے یا ایک آن میں تمام عالم کی سیر کرے صدہا کوس (بہت دور) ہر حاجت مندوں کی حاجت روائی کرے۔(جاء الحق، ص116) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے یہ صفت قراٰن کریم سے ثابت ہے ۔ چنا نچہ ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22 ، الاحزاب: 45)

(5،6)خوشخبری و ڈر سنانے والا : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ایک صفت یہ بھی ہے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جیسا کہ کثیر احادیثِ مبارکہ سے ثابت ہے۔ اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافروں کو جہنم کا ڈر سنایا کرتے تھے ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ان دونوں صفات کا تذکرہ قراٰن پاک میں موجود ہے جیسا کہ ماقبل ( پچھلی ) آیتِ کریمہ میں گزا ہے۔ مزید ایک اور جگہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ(۱۰۵)ترجمۂ کنز الایمان : اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(پ 15، بنی اسرائیل:105)

(7)اعلیٰ اخلاق والا:جس طرح آپ کی ذات بابرکت تمام انسانوں سے افضل و اعلیٰ ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق بھی سب سے بلند و بالا ہیں جس کی گواہی خود ذات باری نے دی ہے ، ارشاد ہوتا ہے :وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴)ترجمہ ٔ کنز الایمان :اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔(پ 29، القلم: 4)

(8)نرم دل : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نہایت نرم دل تھے یہاں تک کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم جانوروں پر بھی شفقت فرماتے تھے ۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نرم دلی قراٰن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے :فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ ترجمۂ کنزا لایمان : تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔(پ 4سورہ آل عمران آیۃ 159)

(9)حیا: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ کریمہ جہاں اتنی صفات میں کامل ہے وہیں حیا کی دولت میں بھی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درجہ کمال پر فائز ہیں ،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی حیا کا تذکرہ قراٰن کریم میں کچھ اس طرح ہے : اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘ ترجمہ ٔ کنز الایمان : بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے ۔(پ 22، الاحزاب: 53)

(10)سخاوت : آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سخاوت کو قراٰن کریم میں اس طرح بیان کیا گیا ہے :اِلَّاۤ اَنْ اَغْنٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ مِنْ فَضْلِهٖۚترجمہ ٔ کنز الایمان: یہی نہ کہ اللہ و رسول نے انہیں اپنے فضل سے غنی کردیا۔( پ 10، التوبۃ: 74)

تمہارے در کے ٹکروں سے پڑا پلتا ہے اک عالم

گزارا سب کا ہوتا ہے اسی محتاج خانے سے

اللہ پاک آپ کے اس ذکر کے صدقے ہمیں عشقِ رسول کی لا زوال دولت عطا کرے اور ہمارا خاتمہ بالخیر و بالایمان فرمائے۔ اٰمین