تمہید:
پیارے
آقا ﷺ کے بےشمار اوصافِ کریمہ ہیں۔ پورا قرآن پیارے آقا ﷺ کی شان بیان کررہا ہے۔
ہم آپ کے جتنے اوصاف ہیں انہیں کبھی گن نہیں سکیں گے۔
قرآن
پاک کی روشنی میں: اَلَمْ نَشْرَحْ لَكَ صَدْرَكَۙ(۱) (پ30، الم
نشرح: 1) ترجمہ کنز الایمان: کیا ہم نے تمھارے لیے سینہ کشادہ نہ کیا۔
وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ
عَظِیْمٍ(۴)
(پ29، القلم: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔
(1) جسمِ اطہر: حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ کے جسمِ اقدس کا رنگ گورا سپید تھا،
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آپ ﷺ کا مقدس بدن چاندی سے ڈھال کر بنایا گیا ہے۔
(شمائل ترمذی، ص 2)
آپ ﷺ کے رخِ
انور پر پسینے کے قطرات موتیوں کی طرح ڈھلکتے تھے اور اس میں مشک و عنبر سے بڑھ کر
خوشبو رہتی تھی۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ نے وصیت کی تھی کہ میری وفات کے
بعد میرے بدن اور کفن میں وہی خوشبو لگائی جائے جس میں حضورِ انور ﷺ کے جسمِ اطہر
کا پسینہ ملا ہوا ہے۔ (بخاری، 4/182، حدیث: 6281)
(2)
جسمِ انور کا سایہ نہ تھا: آپ ﷺ کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بھی
ہے کہ آپ کے جسمِ انور کا سایہ نہیں تھا۔ آپ نور تھے، اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی
میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا تھا۔ امام ابنِ سبع رحمۃُ اللہِ علیہ کا قول ہے
کہ یہ آپ کے خصائص میں سے ہے کہ آپ کا سایہ زمین پر نہیں پڑتا تھا۔ (سیرِ ت
مصطفےٰ، ص 565)
(3)
قدِ مبارک: حضرت
انس رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے کہ حضورِ انور ﷺ نہ بہت زیادہ لمبے تھے نہ
پست قد، بلکہ آپ درمیانی قد والے تھے اور آپ کا بدنِ مقدس انتہائی خوبصورت تھا، جب
چلتے تھے تو کچھ خمیدہ ہوکر چلتے تھے۔ (سیرِ ت مصطفےٰ، ص 567)
(4)
سرِ اقدس: حضرت
علی رضی اللہُ عنہ نے آپ ﷺ کا حلیہ مبارک بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
منحم الراس یعنی آپ ﷺ کا سرمبارک بڑا تھا جو شان دار اور وجیہ ہونے کا نشان ہے۔
جس کے
آگے سر سروراں خم رہیں اس
سرتاج رفعت پہ لاکھوں سلام
(سیرِ
ت مصطفےٰ، ص 568)
(5)
مقدس بال: حضورِ
انور ﷺ کے موئے مبارک نہ گھونگھریالے تھے نہ بالکل سیدھے، بلکہ ان دونوں کیفیتوں
کے درمیان تھے۔ مگر حجۃ الوداع کے موقع پر آپ ﷺ نے اپنے بالوں کو اتروا دیا تو
صحابہ کرام رضی اللہُ عنہم میں بطورِ تبرک تقسیم ہوئے۔
حضرت بی بی
امِ سلمہ رضی اللہُ عنہا نے ان مقدس بالوں کو ایک شیشی میں رکھ لیا تھا، جب
کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا کوئی مرض ہوتا تو ان بالوں کے دھوون سے شفا حاصل ہوتی تھی۔ (بخاری، 2/875)
(6)رخِ
انور: حضورِ
اقدس ﷺ کا چہرۂ منور جمالِ الٰہی کا آئینہ اور انوارِ تجلی کا مظہر تھا۔ نہایت ہی
وجیہ،پر گوشت اور کسی قدر گولائی لئے ہوئے تھا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہُ
عنہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اﷲ کو ایک مرتبہ چاندنی رات میں دیکھا، میں ایک
مرتبہ چاند کی طرف دیکھتا اورایک مرتبہ آپ ﷺ کے چہرۂ انور کو دیکھتا تو مجھے آپ
کا چہرہ چاند سے بھی زیادہ خوبصورت نظر آتا تھا۔ (سیرتِ مصطفےٰ، ص 569)
(7)
نورانی آنکھ: آپ
ﷺ کی چشمان مبارک بڑی بڑی اور قدرتی طور پر سرمگیں تھیں، پلکیں گھنی اور دراز تھیں،
پتلی کی سیاہی خوب سیاہ اور آنکھ کی سفیدی خوب سفید تھی جن میں باریک باریک سرخ
ڈورے تھے۔ (شمائل ترمذی ص2، و
دلائل النبوۃ ص54)
یہ سب آپ ﷺ کے
اوصافِ کریمہ ہیں، یہ کسی اور میں نہیں پائے جاتے۔ (سیرت مصطفے، ص 571)
(8)زبانِ
اقدس: آپ
ﷺ کی زبانِ اقدس وحی الٰہی کی ترجمان اور سر چشمہ آیات ومخزن معجزات ہے اس کی
فصاحت و بلاغت اس قدر حد اعجاز کو پہنچی ہوئی ہے کہ بڑے بڑے فصحاء و بلغاء آپ کے
کلام کو سن کر دنگ رہ جاتے تھے۔ (سیرت مصطفے، ص575)
(9)
نعلینِ اقدس: حضور
ﷺ کی نعلین اقدس کی شکل و صورت اور نقشہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے ہندوستان میں چپل
ہوتے ہیں۔ (سیرت مصطفے، ص582)